خودی اور منطقی اثباتیت، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور منطقی اثباتیت
حکمائے مغرب کا یہ غیر عقلی عقیدہ کہ صداقت صرف وہی ہے جسے ہمارے حواس براہ راست دریافت کر سکیں جن غلط فلسفوں کو وجوہ میں لانے کا باعث ہوا ہے ان میں سے ایک منطقی اثباتیت یا لاجیکل پازیٹوزم کا فلسفہ بھی ہے۔ پروفیسر اے ار کارنپ (Ayer Carnap) رائیل (Rule) اور وذڈم (Wisdom) وغیرہ حکماء اس کے مشہور مبلغوں میں سے ہیں۔ اس فلسفہ کے مطابق
’’ سائنسی (یعنی حسی۔ مصنف) علم ہی حقائق (Factual) علم ہے اور تمام روایتی اور ما بعد الطبیعیاتی عقائد کو بے معنی سمجھا جاتا ہے۔ علم کی آخری بنیاد ذاتی احساس پر نہیں بلکہ تجربہ اور تصدیق پر ہے۔‘‘ (انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا)
اس حوالہ میں تین دعوئے کئے گئے ہیں۔
اول: حسی علم ہی حقائقی علم ہے اور اس کے علاوہ دوسرا کوئی علم حقائقی علم نہیں۔
دوم: ما بعد الطبیعیاتی عقائد بے معنی ہیں
سوم: علم کی آخری بنیاد تجربہ اور تصدیق ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ منطقی اثباتیت کے حکماء کو یہ علم کیسے حاصل ہوا کہ حسی علم ہی حقائقی علم ہے۔ ما بعد الطبیعیاتی عقائد بے معنی ہیں اور علم کی آخری بنیاد تجربہ اور تصدیق ہے۔ کیونکہ اس علم کو ان حکماء میں سے کسی نے بھی سائنسی طریق تحقیق یا تجربہ سے حاصل نہیں کیا اور نہ ہی اس کو تصدیق کے عمل میں سے گزارا ہے اور نہ ہی کوئی اس کو کسی اور بنا پر حواس کے تجربات میں سے شمار کر سکتا ہے لہٰذا ان دعوؤں میں سے ہر ایک خود ایک ما بعد الطبیعیاتی عقیدہ ہے اور ان حکماء کے اپنے قول کے مطابق بے معنی ہے۔ منطقی اثباتیت کے قائلین ما بعد الطبیعیاتی عقائد کو بے معنی سمجھتے ہیں۔ لیکن خود ایسے عقائد پر ایمان رکھتے ہیں ان کا مطلب دراصل یہ ہے کہ لوگ دوسرے مابعد الطبیعیاتی فلسفوں کو چھوڑ کر صرف ان کے پیش کئے ہوئے ما بعد الطبیعیاتی فلسفہ کو تسلیم کریں۔
ایک حسی حقیقت کا اعتراف
انسائیکلو پیڈیا کے اس حوالہ میں علم کا ذکر ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اثباتیت کے حکماء اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس دنیا میں ایک چیز ایسی بھی موجود ہے جسے علم کہا جاتا ہے۔ مثلاً ان حکماء کا یہ علم ہی حقائقی علم ہے یا یہ علم کہ ما بعد الطبیعیاتی عقائد بے معنی ہیں یا یہ علم کہ علم کی آخری بنیاد تجربہ اور تصدیق ہے۔ ہم بعض چیزوں کے وجود کو حواس خمسہ کے ذریعہ سے جانتے ہیں۔ لیکن ان کے علم کے وجود کو حواس خمسہ کے ذریعہ سے نہیں جان سکتے۔ میرے سامنے کرسی ایک خاص جگہ پر پڑی ہے لہٰذا اسے دیکھا جا سکتا ہے لیکن کرسی کی موجودگی کا علم جو کرسی کو دیکھنے کا نتیجہ ہے کسی خاص جگہ پڑا ہوا نہیں۔ لہٰذا اسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ تاہم دنیا کی دوسری حقیقتوں کی طرح وہ بھی ایک حقیقت ہے جو اپنا وجود رکھتی ہے بلکہ دنیا کی دوسری حقیقتوں کو جاننے کے لئے اس کا وجود ایک ضروری شرط ہے اس سے انکار ممکن نہیں کہ علم ایک حقیقت ہے لیکن وہ حسی حقیقت نہیں وہ حسی صداقتوں کا علم ہو تو پھر بھی ایک حسی صداقت نہیں ہوتا لہٰذا منطقی اثباتیت کے حکماء کا یہ کہنا درست نہیں کہ سارا علم حسی حقائق کا علم ہے۔
بالواسطہ علم سے انکار ممکن نہیں
اثباتیت کے قائلین اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ کسی چیز کا علم ہمیں حواس کے براہ راست مشاہدہ سے ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے آثار ونتائج کے براہ راست مشاہدہ سے بھی حاصل ہوتا ہے۔ آگ اور دھواں الگ الگ چیزیں ہیں کیونکہ دونوں کے اوصاف و خواص الگ الگ ہیں اور ہم دونوں کے لئے الگ الگ الفاظ استعمال کرتے ہیں اور دونوں سے الگ الگ برتاؤ کرتے ہیں اس کے باوجود اگر دور سے آگ نظر نہ آتی ہو تو ہم دھوئیں کو دیکھنے سے آگ کی موجودگی کا یقینی علم حاصل کر لیتے ہیں۔ دھوئیں کا حسی علم آگ کے غیر حسی علم کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ایسی حالت میں اثباتیت کو کہنا چاہئے کہ آگ کا علم ما بعد الطبیعیاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آگ کا علم دھوئیں کے علم سے کم یقینی نہیں اگرچہ حال میں ایک خاص قسم کی خوردبین کے ذریعہ سے ایٹم کو دیکھا گیا ہے لیکن ایٹم کا جس قدر علم سائنس دانوں کو اس وقت حاصل ہے وہ ایٹم کو براہ راست دیکھنے کے بغیر اور فقط اس کے آثار و نتائج کو براہ راست دیکھنے سے حاصل ہوا ہے۔ آج کون کہہ سکتا ہے کہ ایٹم کا علم یقینی نہیں یہ علم اس قدر یقینی ہے کہ اس کی مدد سے ہیروشیما کو آن واحد میں تباہ کر دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود یہ علم غیر حسی ہے خودی اور خدا کا علم بھی اسی طرح سے غیر حسی ہونے کے باوجود یقینی ہے کیونکہ اس کی طرف خودی اور خدا کے وجود کے حسی نتائج و اثرات راہنمائی کرتے ہیں۔
جب میں ایک کرسی کو دیکھتا ہوں تو میرے حواس کچھ حسی اثرات قبول کرتے ہیں لیکن یہ حسی اثرات کرسی نہیں پھر وہ کون سی چیز ہے جو ان کو منظم کر کے ایک معنی پہناتی ہے اور اس وحدت کی شکل دیتی ہے جسے میں کرسی کا نام دیتا ہوں یہ چیز میرا شعور یا خودی ہے اثباتیت کے قائلین حسی اثرات کو علم کی بنیاد سمجھتے ہیں لیکن اگر خودی ان اثرات کو کوئی معنی نہ پہنائے اور یہ فیصلہ صادر نہ کرے کہ یہ اثرات مل کر مثلاً کرسی بنتے ہیں تو ان سے کوئی علم پیدا نہیں ہو سکتا۔
فرض کیا کہ صرف حسی علم ہی علم ہے اور ما بعد الطبیعیاتی عقائد بے معنی ہیں۔ لیکن یہ بے معنی یا با معنی ہونے کا یا علم یا غیر علم ہونے کا امتیاز کون کرتا ہے۔ اگر منطقی اثباتیت کے دعویٰ بلا دلیل کے مطابق خودی کو حسی مشمولات(Sense-Contents) کہا جائے تو کیا ان مشمولات کا کام یہ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ علم کیا ہے اور کیا نہیں۔ بامعنی کیا چیز ہے اور کیا نہیں اثباتیت کے قائلین مانتے ہیں کہ خودی سابقہ ذہنی حالات کو یاد رکھتی ہے لیکن اگر یہ خودی حسی مشمولات کے سوائے اور کچھ نہیں تو کیا ان مشمولات کے لئے ممکن ہے کہ وہ سابقہ ذہنی حالات کو یاد رکھیں اور انسان کی زندگی کے سارے جذبات اور احساسات کا منبع اور اس کے بڑے بڑے منصوبوں اور ارادوں کا مرکز اور تاریخ کے سارے واقعات کا سرچشمہ بنیں۔
تعصب اور تحکم
لارڈ جوڈ (Joad) اپنی کتاب ’’ منطقی اثباتیت کی تنقید‘‘ (A Critique of Logical Positivism) میں لکھتا ہے:
’’ نئے الہامی مذاہب کے مبلغوں میں دو خصوصیتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک تعصب اور دوسرے بے دلیل دعاوی۔ منطقی اثباتیت میں یہ دونوں خصوصیتیں موجود ہیں۔۔ نا ممکن ہے کہ ہم منطقی اثباتیت کی کتابیں پڑھیں اور یہ اثر نہ لیں کہ ان میں بار بار بے دلیل بیانات کا اعادہ کیا گیا ہے۔ مثلاً تصدیق کا اصول اور اخلاق کا جذباتی نظریہ یا منطقی تعمیرات کا نظریہ ایسے عقائد کو فقط بیان کر دینا ہی کافی سمجھ لیا گیا ہے گویا کہ وہ خدا کی وحی کے اقتباسات ہیں۔‘‘ (ص12,11)
بیروز ڈن ہام (Barrows Dunham) اپنی کتاب ’’ انسان فرضی کہانیوں کے بالمقابل ‘‘ (Man against Myth) میں لکھتا ہے:
’’ اگر منطقی اثباتیت کا فلسفہ درست ہے تو پھر نہ نوع انسانی موجود ہے۔ نہ نفع کی جستجو ہے نہ کوئی پارٹیاں ہیں۔ نہ فسطائیت ہے۔ نہ بھوکے اور مفلس انسان ہیں۔ نہ کافی جائے رہائش رکھنے والے لوگ ہیں اور نہ کوئی علمی مسئلہ موجود ہے اور نہ سماجی۔‘‘
(جوڈ کی محولہ بالا کتاب صفحہ147)

حاصل یہ ہے کہ منطقی اثباتیت اس بات کی ایک اور عمدہ مثال ہے کہ جو علم یا نظریہ بھی خودی اور اس کے اوصاف و خواص کو نظر انداز کر کے لکھا جائے گا ضروری ہے کہ اس میں ایک بنیادی علمی تصور کے مخذوف ہو جانے کی وجہ سے طرح طرح کی استدلالی اور منطقی ناہمواریاں اور علمی خامیاں پیدا ہو جائیں۔ خودی ہر علم کی ابتداء اور انتہا ہے۔