خودی اور فلسفہ تاریخ، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور فلسفہ تاریخ

تمام انسانی فعلیتیں خودی کے عمل کی قوت محرکہ کے مظاہر ہیں اور تاریخ کا عمل نوع انسانی کی ایک مسلسل فعلیت ہے۔ لہٰذا وہ بھی انسانی اعمال کی قوت محرکہ کا ایک مظہر ہے اور وہ اپنی اسی حیثیت سے صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ انسانی اعمال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے جو اگر بھٹکی ہوئی ہو تو کسی غلط نصب العین کی محبت کی صورت اختیار کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کے سارے واقعات جن سے افراد کی زندگیاں اور انسانی قبیلوں، گروہوں، قوموں، بادشاہوں، سلطنتوں اور ریاستوں کی سیاسی، قانونی، اخلاقی، تعلیمی، علمی، فنی اور جنگی سرگرمیاں اور قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کی داستانیں تشکیل پاتی ہیں۔ خدا کی صحیح یا غلط جستجو کے مظاہر ہیں جو کبھی سچے خدا کی جستجو کے ضمن میں رونما ہوتے ہیں اور کبھی خدا کے کسی قائم مقام غلط نصب العین کی محبت کی تشفی کی سلسلہ میں ظہور پاتے ہیں۔ ہر ریاست اور ہر تہذیب کسی نصب العین پر مبنی ہوتی ہے اگر وہ کسی غلط نصب العین پر مبنی ہو گی تو انسان کے جذبہ محبت کو مستقل اور مکمل طور پر مطمئن نہیں کر سکے گی اور لہٰذا ناپائیدار ہو گی۔ لیکن اگر وہ صحیح نصب العین یعنی خدا کے نصب العین پر مبنی ہو گی تو پھر وہ جس حد تک اس پر مبنی ہو گی مستقل اور پائیدار ہو گی یہ حقیقت ایک صحیح معقول اور مدلل فلسفہ تاریخ کے مرکزی تصور کا درجہ رکھتی ہے۔ تاریخ کا کوئی فلسفہ جو اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہو۔ صحیح اور معقول اور مدلل نہیں ہو سکتا۔ لیکن افسوس ہے کہ تاریخ کے جو فلسفے آج تک مغرب میں لکھے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس میں اس حقیقت کو مدنظر رکھا گیا ہو اور لہٰذا ان میں سے کوئی بھی صحت اور معقولیت کے معیاروں پر پورا نہیں اترتا۔ ان فلسفوں میں سب سے زیادہ مشہور سپنگلر، ٹائن بی، سوروکن، ڈینی لیوسکی اور کروبر کے فلسفے ہیں۔ اس عنوان کے ماتحت مفصل بحث پہلے گزر چکی ہے۔