خودی اور وجودیت، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور وجودیت
وجودیت (Existentialism) کوئی فلسفہ نہیں بلکہ ایک فکری رحجان یا نقطہ نظر ہے جو انسانی شخصیت کی عملی مشکلات کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ان کے عملی علاج کو زیر بحث لاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کے مبلغین کے خیالات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض خدا کو مانتے ہیں اور عیسائیت کی تعلیم کو قبول کر کے آگے چلتے ہیں اور بعض خدا کے منکر ہیں اور عیسائیت سے بیزار ہیں لہٰذا ظاہر ہے کہ ایک عقلی نظام کی حیثیت سے وجودیت کا فکر اپنی کسی شکل میں بھی فلسفہ خودی کا مد مقابل یا حریف نہیں۔ فلسفہ خودی ایک عقلی اور علمی نظام ہے اور عقل اور علم کی روشنی میں ہی انسانی شخصیت کی علمی مشکلات کو سمجھتا اور سمجھاتا ہے اور ان کا واحد اور صحیح اور کافی اور شافی علاج پیش کرتا ہے۔ وجودیت کے موضوع پر انسائیکلو پیڈیا بریٹا نیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:
’’ وجودیت ایک فکری رحجان یا نقطہ نظر ہے جو پہلی عالمگیر جنگ کے چند سال بعد جرمنی میں ظہور پذیر ہوا اور بعد میں فرانس اور اٹلی میں پھیل گیا یہاں تک کہ دوسری عالمگیر جنگ کے فوراً بعد یہ نہ صرف وہاں کے علمی حلقوں میں اثر پیدا کر چکا تھا بلکہ ادبی قہوہ خانوں اور نیم مقبول اخباروں اور رسالوں میں بھی عام طور پر زیر بحث آتا تھا۔ چونکہ یہ کوئی فلسفیانہ مکتب نہیں بلکہ ایک رحجان خیال یازاویہ نگاہ کا نام ہے۔ ایسے عقائد بہت کم ہیں جو اس کے تمام مبلغین کے درمیان مشترک ہوں لیکن اس کی ایک عام خصوصیت یہ بیان کی جا سکتی ہے کہ وہ کائنات کے ایسے نظریات اور کام کے ایسے طریقوں کے خلاف ایک احتجاج ہے جن میں انسانی افراد کو تاریخ کی قوتوں کے بے بس کھلونے سمجھ لیا گیا ہو یا یہ باو رکر لیا گیا ہو کہ وہ قوانین قدرت کے اعمال کا نتیجہ ہیں تمام وجود دیتی مصنفین کسی نہ کسی شکل میں اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ انسانی شخصیت کی آزادی اور اہمیت کی حمایت کریں۔ اسی طرح سے وہ سب کے سب انسانی عقل کے برخلاف انسانی ارادہ یا عزم (Will) پر زور دیتے ہیں۔‘‘
کیئر کیگارڈ کا فکر
دور حاضر کی وجودیت کا پیش رو پاسکل (Pascal) (1662-1613) تھا لیکن سورن آبے کیئر کیگارڈ(Saren abye Kierkegaard) (1813-1855) پہلا مفکر ہے جس نے وجود (Existence) کے لفظ کو وہ معنی پہنائے جو اسے وجودیتی فکر کی ایک اصطلاح کے طور پر اس وقت دئیے جاتے ہیں لہٰذا وہی دور حاضر کی وجودیت کا بانی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ تمام وجودیتی حکماء خواہ وہ دہریہ ہوں یا قائلین مذہب اپنے شدید اختلافات کے باوجود اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ کیئر کیگارڈ کی تصنیفات کو اس کی زندگی میں تو فقط مقامی شہرت ہی حاصل ہو سکی لیکن جب 1909ء اور 1913ء کے درمیان ان کا ترجمہ جرمن زبان میں ہوا تو ان کا اثر پورے یورپ میں پھیلنے لگا۔
کیئر کیگارڈ انسان کی حقیقت (Essence) اور انسان کے وجود (Existence) میں فرق کرتا ہے جس طرح اینٹ ہونا ایک اینٹ کی حقیقت ہے اسی طرح انسان ہونا ایک انسان کی حقیقت ہے لیکن انسان کا وجود وہ قلبی واردات اور کیفیات ہیں۔ وہ خواہشات اور احساسات اور جذبات ہیں۔ وہ تمنائیں آرزوئیں اور امیدیں ہیں۔ وہ پشیمانیاں اور حسرتیں ہیں اور وہ پریشانیاں اور مایوسیاں اور صدمے ہیں اور وہ رحمتیں اور خوشیاں اور مسرتیں ہیں جن میں سے انسان کی شخصیت گزرتی ہے۔ ہر انسان کا وجود ایک داخلی یا اندرونی شے ہے جس کا کسی دوسرے انسان کو علم نہیں۔ انسان کا وجود اس کی داخلیت یا موضوعیت کا نام ہے اس کی معروضی حقیقت کا نام نہیں۔ ہر انسان کا وجود بے مثل اور بے نظیر ہے اور اس کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ آزاد ہے اور اپنے فیصلے خود کرتا ہے اور اپنی راہیں خود چنتا ہے انسان کا ہر فیصلہ اگر غلط ہو تو اسے تباہ و برباد کر سکتا ہے۔ لہٰذا اس پر اپنی ذات کی طرف سے بڑی بھاری ذمہ داری اس بات کی عائد ہوتی ہے کہ اس کے فیصلے صحیح ہوں۔ کیئر کیگارڈ کو اعتراض ہے کہ فلسفیوں نے حقیقت انسان پر بڑی بحثیں کی ہیں لیکن انسان کے وجود کو جو زیادہ اہم ہے نظر انداز کیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ فلسفہ خودی جو انسانی شخصیت کی عملی مشکلات کی گتھیوں کو بھی سلجھاتا ہے اس اعتراض سے بالا ہے۔ کیئر کیگارڈ کے فکر کو عیسائیت کا تصوف کہنا چاہئے۔ اس نے شخصیت انسانی کے بعض چھپے ہوئے گوشوں کو بے نقاب کر کے ایسے سوالات پیدا کئے ہیں جن کا صحیح جواب فقط فلسفہ خودی ہی دے سکتا ہے لہٰذا اس کے وجودیتی فکر نے دراصل فلسفہ خودی کی عالمگیر اشاعت کے لئے راستہ صاف کیا ہے۔
سارٹر کا فکر
اس زمانہ کا سب سے زیادہ نامور وجودیتی مفکر جین پال سارتر(Jean paul sartre) ہے۔ پچھلے چند سالوں میں وجودیت کا لفظ اسی کی تصنیفات کے ذریعہ سے مشہور ہوا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے لوگوں نے اس کے ناولوں، ڈراموں اور مقالوں کو پڑھا ہے اور لہٰذا عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وجودیت سے مراد اسی کی پیش کی ہوئی لاشیئیت ہے جس میں خدا اور مذہب اور اخلاق کا انکار شامل ہے۔ اس وقت عام انسان بہت کم جانتا ہے کہ وجودیت کی ابتداء کیئر کیگارڈ کے فکر میں عیسائیت کے ایک تصوف کی شکل میں ہوئی تھی اور وہی اس کی اصل ہے۔ چونکہ اصل وجودیت انسانی شخصیت کی آزادی پر زور دیتی ہے۔ سارتر ایسے دور حاضر کے بعض بے خدا مفکرین کو یہ بات ہاتھ آ گئی ہے کہ آزادی کے احساس کا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ انسان اس یقین پر پہنچ جائے کہ وہ خود مختار اور خود مکتفی ہے اور اس کا خدا پر بھروسہ کرنا ایک قسم کی غلامی ہے۔ جب تک انسان خدا اور مذہب اور اخلاق سے بھی آزاد نہ ہو وہ پوری طرح سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ ایسا وجودیتی فکر شخصیت انسانی کی مشکلات کا علاج کرنے کی بجائے اس کی مشکلات کو انتہا تک پہنچاتا ہے اور انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ ایک مجنونانہ جرات کے ساتھ انتہائی مایوسی، مصیبت، خلائ، تاریکی اور موت کا سامنا کر کے اپنے آپ کو فنا کر دے۔ لیکن فلسفہ خودی اس قسم کے غلط اندیش اور بے راہ رو وجودیتی مفکرین کو بتاتا ہے کہ انسانی شخصیت ایسی ایک متحرک چیز کی آزادی کس سمت کو چاہتی ہے اور وہ اس کی تکمیل ہی کی سمت ہو سکتی ہے جو اس کی محبت کی کامل تشفی کرنے والے کامل تصور کی نشاندہی کرتی ہو اور یہ تصور خدا کے سوائے کوئی اور نہیں ہو سکتا لہٰذا انسان کی آزادی کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کی محبت کے لئے آزاد ہو اور خدا کی محبت سے انسانی شخصیت اس بات کی عملی تحقیق کر لیتی ہے کہ وہی اس کی مشکلات کا تسلی بخش علاج ہے۔
عیسائیت اور لادینیت کی کشمکش
اس طرح وجودیت کے فکر کا مطالعہ دور حاضر میں عیسائیت اور بے خدائیت کی بنیادی کشمکش کی واضح تصویر پیش کرتاہے۔ اس تحریک میں دونوں طرف کے مفکرین حصہ لے رہے ہیں اور کچھ ایسے مفکرین بھی شامل ہیں جن کا موقف بین بین ہے۔ ایک انتہا پر جبریل مارسل (Gabriel Marcel) فرانسیسی رومن کیتھولک نکولاس برڈی ایو(Nicolas Bergyaev) روسی کٹر عیسائی مارٹن بوبر (Martin Buber) یہودی فلسفی اور کئی پروٹسٹنٹ مفکرین ہیں، جن کو وجودیت کا فکر اپنے مذہبی اعتقاد کی تصدیق اورتفہیم کا ایک موثر ذریعہ نظر آتا ہے اور دوسری انتہا پر مارٹن ہیڈیگر (Martin Heidegger) اور سارتر (Sartre) ایسے مفکرین ہیں جو پکے دہریہ ہیں۔ کارل جاسپرز(Karl Jaspers) دہریہ نہیں لیکن عیسائیت کے مرکزی عقائد پر حملے کرتا ہے۔
تاہم وجودیت اپنی تمام قسموں کے سمیت فلسفہ خودی کے ساتھ اس بات میں اشتراک رکھتی ہے کہ وہ فرد کی آزادی کی علمبردار ہے اور ان سوالات پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے کہ انسانی شخصیت کیا ہے اور کیا چاہتی ہے۔ ہم اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کر سکتے ہیں اور اسے تامرگ کس طرح قائم رکھ سکتے ہیں ایساکیوں ہے کہ ہر فرد ان مسائل کو فقط اپنی ہی کوشش اور جدوجہد سے حل کر سکتا ہے اور کسی دوسرے فرد کے حل کو مستعار نہیں لے سکتا۔ لیکن ان سوالات کا صحیح اور تسلی بخش جواب فقط فلسفہ خودی سے مل سکتا ہے جس کی تشریح اس کتاب میں کی گئی ہے۔
فکر وجودیت کا انتشار
وجودیت کے فکر میں اتنا انتشار ہے کہ اس کی عارضی اور مشروط تعریف کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وجودیتی مفکرین میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کے فکر میں کوئی عقلی تنظیم یا ترتیب موجود ہو۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کا مقالہ نگار اپنے مقالہ کے آخر میں لکھتا ہے:
’’ وجودیتی فکر کے خلاف جو اعتراض اکثر کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وجودیت ایک قسم کی نامعقولیت(Irrationalism) ہے۔ یہ ایک ایسی حریت پسندی ہے جو اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ انسانی معاشرہ میں قوانین قدرت کے عمل سے ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے اور اس بات سے نا امید ہے کہ انسان ترقی کر کے کمال پر پہنچ سکتا ہے۔‘‘
وجودیت کے برعکس فلسفہ خودی کا موقف یہ ہے کہ انسان ترقی پذیر ہے اور ایک دن اپنی ترقیوں کی انتہا پر پہنچے گا۔ کائنات کی ہر چیز کے اندر ایک نظم ایک قاعدہ اور ایک مدعا رکھا گیا ہے اور ہر چیز ترقی کر کے اپنے کمال کو پہنچتی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ انسانی شخصیت کائنات میں کسی بڑے نظم کے اندر اپنا مقام نہ رکھتی ہو۔ مقصد یا مدعا کے بغیر ہو اور متحرک ہونے کے باوجود کسی منزل کمال پر نہ پہنچ سکتی ہو۔ وجودیت کی یہ غلط فہمی کہ انسانی شخصیت قوانین قدرت کے عمل سے ترقی نہیں کر سکتی در حقیقت اس کے عیسائیت پسند بانیوں کے فکر میں نمودار ہو کر آگے منتقل ہوئی ہے اور اس کا سبب عیسائیت کی یہ تعلیم ہے کہ انسانی شخصیت اور قدرت کے درمیان ایک مستقل تضاد ہے جو رفع نہیں کیا جا سکتا۔

وجودیت اس مسئلہ سے الجھتی ہے کہ انسانی شخصیت ہونے کے معنی کیا ہیں لیکن فلسفہ خودی یہ بتا کر کہ انسانی شخصیت خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ ہے جو ذکر اور فکر اور فعل جمیل کی مداومت سے مکمل تشفی حاصل کر سکتا ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرتا ہے جیسا کہ اس پوری کتاب کے مطالعہ سے قارئین پر آشکار ہو گا فلسفہ خودی میں انسانی حقیقت اور انسانی وجود الگ الگ نہیں رہتے بلکہ دونوں ایک ہو جاتے ہیں اور فلسفہ خودی وجودیت کہ ہر سچائی اور روشنی سے آراستہ اور ہر غلطی اور تاریکی سے مبرا ہو کر وجودیت سے بہت دور آگے نکل جاتا ہے۔