قدرت کی رہنمائی، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

قدرت کی رہنمائی
اگرچہ خدا کی محبت کا جذبہ جو خودی کی فطرت ہے‘ نہایت طاقت ور ہے ۔ تاہم خودی اس کے متعلق صرف اتنا ہی جانتی ہے کہ وہ کسی ایسے محبوب کے لیے ہے جو منتہائے حسن و کمال ہے لیکن واضح طور پر نہیںضانتی کہ وہ محبوب درحقیقت کون ہے لہٰذا مکان تھاکہ خودی اس فطری جذبہ کے اصل مقصود کو حاصل سمجھنے اور اس کی تشفی کرنے میں اپنے کسی قصور کے بغیراور محض قدرت کی راہ نمائی کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے غلطیاں کرتی اور ٹھوکریں کھاتی ہے۔ لیکن قدرت کبھی اس قسم کی صورت حال پیدا ہونے نہیں دیتی۔ چنانچہ وہ کائنات میں کسی جاندار کی کوئی ضرورت ایسی پیدا نہیںکرتی جس کی تشفی کا اہتمام خود نہ دیتی۔ چنانچہ وہ کائنات میں کسی جاندار کی کوئی ضرورت ایسی پیدا ہی نہیںکرتی جس کی تشفی کا اہتمام خود نہ کرے اور خوید کا جذبہ محبت اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا تھا۔ اور پھر یہ جذبہ عبث پیدانہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کی صحیح اور پوری تشفی کائنات کے سارے بعد کے ارتقا کا ذریعہ بننے والی تھی۔ لہٰذا ضروری تھا کہ قدرت اپنے ہی پیدا کیے ہوئے اس نہایت ہی اہم جذبہ محبت کی راہ نمائی خود کرتی اور قدرت نے اس جذبہ کی راہ نمائی کا جو اہتمام کیا ہے اسی کو ہم مظہر نبوت کانام دیتے ہیںَ خودی کے حقائق کی تعلیم ہمیں سب سے پہلے نبوت ہی سے ملتی ہے۔ خدا نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کو خودی کے جذبہ محبت کی سحیح راہ نمائی کے لیے بھیجا اور آخر کار اس نے انبیاء کے سلسلہ کو ایک رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا۔ ان پر قرآن حکیم نازل کیا اور ان کی نظری تعلیم اور عملی زندگی کی مثال میں انبیاء کی اس راہ نمائی کو مکمل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال بڑے زور سے اس بات کا مدعی ہے کہ اس کے فلسفہ خودی کا اصل منبع قرآن حکیم ہے۔ بلکہ قرآن کے سوائے اس کا کوئی اور منبع نہیں۔ اقبال جناب محمد مصظفیٰؐ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے کہتا ہے کہ اگر میرے الفاظ میں قرآن کی تعلیم کے علاوہ کوئی اور چیز بھی ہے اور اگر میرے دل میں خدا کی محبت نہیںتو روز محشر اپنے پائوں کے بوسہ سے محروم کر کے مجھے خوار و رسوا کر دیجیے۔
گر بحر فم جز بقرآن مضمر است
در دلم آئینہ بے جوہر است
روز محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسہ پا کن مرا
لہٰذ ایہ دیکھنے کے لیے سوشلزم ایسا ایک نظریہ حیات خودی کے ساتھ کیا تعلق رکھتا ہے اور خودی پر کس طرح سے اثر انداز ہوتا ہے ہمیں اقبال کے فلسفہ خودی کے اصل منبع یعنی قرآن حکیم کی تعلیمات کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا۔
انبیاء علیہم السلام کی تعلیم
خدا کے انبیاء نے انسان کو کہا کہ اپنے جذبہ محبت کی تشفی کے لیے ضروری ہے کہ تم قدرت کا مشاہدہ کرو اور خدا کی صفات کو مظاہر قدرت میں دیکھو اور عبادت اور ذکر کے ذریعہ سے خدا کی صفات کے حسن و کمال پر غور کرو۔ لیکن ایسا کرنا کافی نہیں۔ خدا کی محبت کے جذبہ کی مکمل تشفی اور خودی کی مکمل تربیت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تم خدا کی صفات کو اپنے اعمال میں ظاہر کرکے خدا کے اخلاق کے ساتھ متخلق ہو جائو۔ وہ رحیم ہے تم بھی لوگوں پر رحم کرو۔ وہ کریم ہے تم بھی کرم کرو۔ وہ عادل ہے تم بھی عدل کرو۔ لوگوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو۔ لوگوں کا حق نہ مارو۔ ان کا مال غلط طریقوں سے نہ کھائو اور مزدور کی محبت کا معاوضہ بلا توقف ادا کرو۔ وہ صادق ہے تم بھی صدق کو اپنا شعار بنائو۔ وہ غفور ہے تم بھی لوگوں کی خطائوں کو معاف کرو۔ وہ حفیظ ہے تم بھی لوگوں کی حفاظت کا ذمہ لو۔ وہ لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرتا ہے تم بھی لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرو۔ وہ رزاق ہے اور ہر انسان کے جسم کو تندرست اور توانا رکھنے کے لیے اس کو رزق بہم پہنچاتا ہے۔ تم بھی اپنے رزق میں سے لوگوں کو رزو دو اور ان کے جسموں کو زندہ اور تندرست اور توانا رکھنے کی کوشش کرو۔ وہ شافی ہے اور لوگوں کی بیماریوں کو دور کرتا ہے تم بھی بیماروں کی تیمارداری اور علاج اور حفظان صحت کے اصولوں کی تعلیم اور تلقین سے بیماروں کو دور کرو۔ وہ ہادی ہے اور انسانوں کی خودی کو زندہ اور تندرست اور توانا رکھنے کے لیے انبیاء بھیج کر اپنی ہدایت ان تک پہنچاتا ہے ۔ تم بھی اسی غرض کے لیے خدا کی دی ہوئی ہدایت لوگوں تک پہنچائو‘  وغیرہ۔
تربیت خودی کے زریں مواقع
مومن اپنی خودی کی تربیت اور ترقی کا کوئی موقع ضائع نہیںکرتا۔ جب گردوپیش کے حالات خدا کی صفات ربوبیت‘ رزاقیت اور عدل کے اظہار کا تقاضا کر رہے ہوں تو ایسے حالات میں مومن کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ان صفا ت کا اظہار کرے۔ ورنہ تخلق باخلاق اللہ کے کئی امکانات اور خودی کی تربیت اور ترقی کے کئی زریں مواقع اس کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور مومن کے مقام سے گر جاتا ہے اور خدا کی اس سزا کامستحق ٹھہرتا ہے جو اس نے خودی کی ضروریات کی طرف سے غفلت کے اندر رکھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کے کھانا کھائے اور اسے معلوم ہو کہ اس کے پا س ہی اس کا ہمسایہ بھوکا ہے۔
لیس بمومن من یشبع و جارہ جائع مع ؤجنبہ : الحدیث
جب مومن سے پوچھا جائے گا کہ کون سا جرم تم کو دوزخ میں لے آیا ہے تو وہ کہیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور (یہ جاننے کے باوجو ؤد کہ بعض مساکین کھانے کے لیے محتاج ہیں) مساکین کو کھانا نہیںکھلاتے تھے۔
قالو الم انک من المصلین نطعم المسکین ( ۴۴۔۴۳:۷۴)
چونکہ مومن خدا کی صفات ربوبیت اور رزاقیت سے اپنی خودی کی تربیت کی خاطر حصہ لینا چاہتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کے مال میں سے اس شخص کا بھی حق ہے جو اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے سوال کرنے پر مجبور ہوا ہے اور اس شخص کا بھی جو حفظ و ضع کے خیال سے سوال تو نہیں کرتا لیکن ضروریات زندگی کے سامان سے محروم ہے۔
وفی اموالھم حق للسائل والمحروم (۱۹:۵۱)
مومن کی اس ضرورت کی وجہ سے یہ حکم ہوا تھا کہ مے کے مال کو اس طرح سے تقسیم کرو کہ وہ تمہارے دولت مندوں ہی میں گھومتا نہ رہے بلکہ مفلسوں تک بھی پہنچے۔
کی لایکون دولہ بین الاغنیاء منکم (۷:۵۹)
ایک غلط فہمی اور اس کے اسباب
چونکہ نبوت کی تعلیم خدا کی محبت کے جذبہ کو مطمئن کرنے اور خدا کے اخلاق کو اپنانے کے مختلف ذرائع میں سے ایک ذریعہ کے طور پر لوگوں کو کھانا کھلانے اور لوگوںمیں مال تقسیم کرنے پر زور دیتی ہے۔ اس سے بعض مسلمانوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ نبوت کی تعلیم کا مقصد ہی یہ ہے کہ خدا کے خوف یا خدا کی محبت کا واسطہ دے کر مفلسوں کی مالی اور اقتصادی ضروریات کا اہتمام کرے تاکہ افلاس دور ہو۔ گویا ان کا خیال ہے کہ نبوت بھی وہی بات کہتی ہے کہ جو سوشلزم کہتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نبوت خدا کا نام لیتی ہے اور سوشلزم خدا کامنکر ہے ۔ لیکن خدا کا نام لینے سے عملی طور پر جو فائدہ مقصود ہے یاجو مقصد زیر نظر ہے وہ یہی ہے کہ خدا کے بندوں کی معاشی ضرورتوں کو پورا کیا جائے اور یہ مقصد سوشلزم نہایت عمدہ طریق سے پورا کر رہا ہے بلکہ (معاذ اللہ) جو کام نبوت نہ کر سکی تھی سوشلزم نے آ کر کر دکھایا ہے‘ لہٰذا ہمیں سوشلزم کو قبول کر لینا چاہیے تاکہ نبوت کا جو اصل مقصد ہے وہ اچھی طرح سے پورا ہو لیکن ہم چونکہ مسلمان ہیں۔ ہمیں خدا کا نام یا اسلام بھی ساتھ رکھنا چاہیے ۔ تعلیم نبوت کی اس بے سروسامانی یا جسمانی‘ مادی یا منفعتی توجیہہ کے اسباب حسب ذیل ہیں:
(1)  سوشلزم سے مرعوبیت۔
(2) دور حاضر کی علمی اور اخلاقی بے خدائیت۔
(3) تعلیم نبوت کے اسرار اور خودی کی فطرت کے حقائق سے ناواقفیت۔
اصل بات یہ ہے کہ نبوت جسم کی ضرورت کا نہیں بلکہ خودی یا روح کی ضرورت کا اہتمام کرتی ہے اور اگر جسم کی ضرورت کا اہتمام بھی کرتی ہے تو صرف اس خیال سے اور اس حد تک کہ جسم زندہ ر ہ کر بدستور خودی کی ضرورت کا ممد و معاون بنا رہے۔ اس کے نزدیک جسم خودی کے لیے ہے خودی جسم کے لیے نہیں۔
خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است
تو معتقد کہ زیستش از بہر خوردن است
نبوت کے نزدیک اس دنیا کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ انسان اسے خدا کی محبت کی نشوونما کے لیے کام میں لائے نہ کہ اس دنیا کو اپنے رہنے کا ایک مستقبل مقام سمجھ کر عیش و عشرت میں لگ جائے۔
مقام پرورش آہ و نالہ ہے یہ جہاں
نہ سیر گل کے لیے ہے نہ آشیان کے لیے

(اقبال