خودی اور سوشلزم سوشلزم کا فلسفہ، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور سوشلزم
سوشلزم کا فلسفہ
دور حاضر کیسب سے زیادہ مقبول اور بااثر اور سب سے زیادہ گمراہ کر دینے والے یعنی خودی کو اپنے مقصود سے ہٹانے والے غلط اور ناپائیدار نظریات میں وطنیت کی طرح سوشلزم بھی شامل ہے جس طرح سے نظریہ وطنیت کا فلسفی اور مبلغ مکیاولی ہے اسی طرح سے نظریہ سوشلزم کا مبلغ اور فلسفی کارل مارکس ہے مختصر طورپر سوشلزم کا فلسفہ یہ ہے کہ کائنات کی آخری حقیقت مادہ ہے جو خود بخود ارتقا کرتا رہا ہے۔ اپنے ارتقا کے ایک مقام پر اس کے اجزاء کو ایک خاص کیمیاوی ترکیب اور طبیعیاتی ترتیب حاصل ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر زندگی کے آثا رنمودار ہوئے پھر زندہ مادہ ترقی کرتا رہا یہاں تک کہ انسان ظہور پذیر ہوا۔ پھر انسان کی مادی ضروریات کی تشفی کا اہتمام اور نظام ترقی کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ سوشلزم تک پہنچے گا۔ جہاں انسان کی مادی ضروریات کی تشفی اور تکمی کے ظم کو ایک ابتدائی کمال حاصل ہو جائے گا۔ مستقبل کے ارتقا سے سوشلزم دولت کی مساوی تقسیم کے ایک خاص کی حیثیت سے نہ صرف اندرونی طور پر اپنے پورے کمال کو پہنچے گا بلکہ بیرونی وسعت پا کر پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔ دنیا کے تمام فلسفے اور مذاہب اور تمام اخلاق‘ علمی ‘ فنی‘ اور سیاسی نظریات اور معتقدات انسان کے معاشی حالات کے عارضی کرشمے ہیں جن کی اپنی کوئی قدر و قیمت نہیں کیونکہ دنیا میں نہ روح ہے ارو نہ خدا اور انسان کی زندگی کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ اپنی جسمانی ضروریات کی بہترر سے بہتر تشفی کرے۔ سوشلزم کے فلسفہ کے اس مختصر خاکہ سے ظاہر ہے کہ وہ ایک معاشی اور اقتصادی نظریہ ہی نہیں بلکہ انسان اور کائنات کا ایک مکمل فلسفہ ہے۔ جو اپنے اندر حرکت تاریخ کے مدعا اور مقصود کا ایک فلسفہ بھی رکھتا ہے اور وہ اپنی ان تینوں حیثیتوں سے اسلام کے ساتھ متصادم ہوتا ہے۔ کیونکہ اسلام بھی انسان اور کائنات کا ایک فلسفہ ہے جو اپنے اندر ایک معاشی اوراقتصادی نظریہ ہی نہیں بلکہ حرکت تاریخ کے مدعا اور مقصود کا ایک فلسفہ بھی رکھتا ہے جس کی رو سے اسلام تمام ادیان اور نظریات پر غالب ہو کر رہے گا۔ رو س کا موجودہ نظام سوشلزم ہے جس کی اگلی ترقی یافتہ صورت اشتراکیت یا کمیونزم ہو گی۔ جہاں مارکسیوں کے عقیدہ کے مطابق کسی حکومت کی وساطت کے بغیر دولت ہر شخص کی ضرورت کے مطابق خود بخود مساوی طور پر تقسیم ہوتی رہے گی۔ اگر نظریہ وطنیت خشت و سنگ کے ایک سلسلہ کو وطن کا نام دے کر خدا کا قائم معبود یا بت بناتا ہے۔ تو نظریہ سوشلزم انسان کے جسم کو اقتصادی ضرورتوں کا نام دے کر خدا کا قائم مقام معبود یا بت بناتا ہے۔ اور اصل میں انسان کی ضرورتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے بلکہ ان کی شدید مخالفت کرتا ہے۔
انسان کی حقیقت
اصل انسان انسان کا جسم نہیں بلکہ اس کی خودی یا روح ہے جو جسم کی موت کے بعدبھی زندہ رہتی ہے انسان کا جسم اصل انسان کے عارضی کنٹرول میں دیا ہوا ایک خدمت گزار حیوان ہے۔ جس سے اصل انسان اس دنیا میں اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کام لیتا ہے۔ جسم کی حیثیت ایسی ہے جیسے کہ کوئی مسافر اپنے گھر تک پہنچنے کے لیے ایک ٹٹو کسی سے عارضی طور پر مانگ لے اور پھر واپس کر دے۔ اور اصل انسان یا خودی کی حقیقت یہ ہے کہ وہ خدا کی محبت کا ایک طاقت ور جذبہ ہے۔ اور اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیںیہی وجہ ہے کہ خودیکی تمام خواہشیں اور آرزوئیں خواہ براہ راست اس سے تعلق رکھتی ہوں یا اس کے ٹٹو سے صرف اس ایک جذبہ کے ماتحت رہتی ہوں اور اس کی خاطر بروئے کار آتی ہیں اور اس کے تمام ارادے اور فیصلے او ر تمام اعمال و انفعال بیھ اسی ایک جذبہ کی تشفی کے لیی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ خودی جب بھی اپنے کسی عمل سے حرکت کرتی ہے تو جمال خداوندی سے اور قریب ہونے اور اس سے اور زیادہ مستفید اورمتمتع ہونے کے لیے ٰحرکت کرتی ہے اوریا وہ حرکت ہی نہیںکرتی۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی اس کا خاندانی الواقع سدچا خدا ہوتا ہے اور کبھی وہ جہالت کی وجہ سے غیر خدا کو سچا سمجھ لیتی ہے اور غلط طور پر خدا کی ساری صفات اس کی طرف منسوب کر دیتی ہے۔ خدا کی محبت کے جذبہ کی تشفی خودی کی سب سے پہی اور سب سے آخری ضرورت ہے اور خودی تمام ضرورتیں فقط یہ اہمیت رکھتی ہیں کہ وہ اس ضرورت کے ماتحت اس کی خدمت گزار ہیں۔ ان ماتحت ضرورتوں میں جسم کے قیام اور بقا کی ضرورت بھی شامل ہے تاکہ یہ حیوان جو اصل انسان یا خودی کی سواری ہے زندہ اور تندرست اور توانا رہے اور ایک ضروری عرصہ کے لیے خودی کے کام آتا رہے۔ لیکن اگر کسی وقت ایک ایسی صورت حال پیش آ جائے کہ جسم کی حفاظت یا پرورش خودی کی ضرورت کے منافی ہو تو اس وقت خودی جسم کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر قربانی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ جسم کو ترک کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ اگرجسم کی ضرورت انسان کے نصب العین کا ذریعہ نہ رہے بلکہ خودنصب العین بن جائے تو وہ خدا کا مقام حاصل کر لیتی ہے اور ایک بت یا جھوٹا معبود یا خدا بن جاتی ہے اور انسان کی اصل ضرورت کو بھلا دیتی ہے اور انسان ناکام اور نامراد رہ جاتا ہے۔
سوشلزم کی خرابی
سوشلزم کی خرابی یہ ہے کہ وہ انسان یا خودی کی ضرورت یعنی خدا کی محبت کو نظر انداز کر کے اس کی سواری کی ضرورت یعنی جسم کے قیام اور بقا کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ٹٹو پر سوار ہر کر گھر جانے والا مسافر راستہ میں ٹٹو پر ہی مر مٹے اور سفر کے جلد از جلد گھر پہنچنے کی بجائے اسی کی خاطر مدارات کرنے اور اسی کو فربہ کرنے میں لگا رہے ارو اپنی منزل کو بھول جائے یہاں تک کہ شام ہو جائے اور پھر چور اس کاسامان لوٹ لیں اور اسے قتل کر جائیں۔ اقبال کا استاد رومی جسم کی ضرورت کے لیے خودی کی ضرورت کو نظر انداز کرنے والے ایسے ہی کوتاہ نظر انسان کو خطاب کر کے کہتا ہے کہ دوسرے لوگوں کی زمین میں اپنا گھر نہ بناء وکہ وہاں سے بے دخل کیے جائو گے اور کسیی بیگانے کا کام نہ کرو بلکہ اپنا کام کرو اور یہ بیگانہ کون ہے۔ یہی تمھارا جسم خاکی جس کے غم میں دن رات گھلتے رہتے ہو۔
در زمین مرد مان خانہ مکن
کار خود کن کار بیگانہ مکن
کیست بیگانہ تن خاکی تو

کز برائے اوست غمناکی تو