امت مسلمہ کے عروج و زوال کی داستان ایک نظر میں

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اور مکمل ضابطۂ ہدایت ہے، جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے رہنمائی کا دائمی سرچشمہ ہے۔ یہ محض احکام و عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ انسانی زندگی کا ایک جامع بیانیہ ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ انسان اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا، اس کی اصل حقیقت کیا ہے، اور اس کا انجام کیا ہوگا۔ حضرت آدمؑ سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ تک اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے ہدایت کا تسلسل قائم رکھا، مگر قرآن کے نزول کے ساتھ یہ اعلان کر دیا گیا کہ اب وحی کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور ہدایت کا پیغام اپنی تکمیل کو پہنچ گیا ہے: "الیوم أکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دینا"۔ اب قیامت تک کے لیے یہی قرآن انسانیت کے لیے واحد معیارِ ہدایت ہے۔ اس کے بعد اللہ کی طرف سے براہِ راست ہدایت کا کوئی نیا انتظام نہیں ہوگا، چنانچہ اس ہدایت کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے کی عظیم ذمہ داری امت محمدیہ کو سونپ دی گئی ہے۔ امت مسلمہ کو اب صرف قرآن پر ایمان لانے ہی نہیں بلکہ اسے دنیا کے سامنے زندہ مثال بنا کر پیش کرنے، اس کے اخلاقی، روحانی اور معاشرتی پیغام کو عام کرنے، اور اس کی روشنی میں انسانیت کو تاریکیوں سے نکالنے کا فریضہ ادا کرنا ہے۔

قرآن مجید انسانی تاریخ کا محض تذکرہ نہیں کرتا بلکہ اس کے عروج و زوال کی سنن کو ایک ربانی نقطۂ نظر سے واضح کرتا ہے۔ وہ قومیں جو کسی زمانے میں طاقت، علم، تہذیب اور تمدن کے اعتبار سے دنیا پر حاوی تھیں—جیسے قومِ نوح، قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ ابراہیم، قومِ لوط، قومِ شعیب، اور بنی اسرائیل—قرآن ان سب کی تاریخ کو ایک گہرے اخلاقی و روحانی پس منظر کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہ قومیں اللہ کی ہدایت سے روگردانی، انبیاء کی تکذیب، اور ظلم و فساد کی روش اختیار کرنے کے باعث زوال کا شکار ہوئیں، حالانکہ ان کے پاس دنیاوی اعتبار سے سب کچھ تھا۔ بنی اسرائیل کو ایک لمبے عرصے تک نبوت اور کتاب کی نعمت عطا ہوئی، مگر جب انہوں نے اس نعمت کے ساتھ خیانت کی تو وہ بھی ذلت و پستی کا شکار ہوئے۔ آخرکار قرآن بنی اسماعیل، خصوصاً قریش کی تاریخ کو سامنے لاتا ہے، جنہیں نبی آخر الزمان ﷺ کے ذریعے ہدایت ملی، اور جنہیں ابتدا میں انکار و مخالفت کے بعد ایمان کی روشنی نصیب ہوئی۔ قرآن ان تمام واقعات کو تاریخ کے عبرت آموز ابواب کی صورت میں بیان کرتا ہے تاکہ امت محمدیہ ان غلطیوں سے بچتے ہوئے ہدایت پر قائم رہے اور عروج و زوال کی ان خدائی سنتوں کو سمجھ کر اپنی اجتماعی زندگی کی اصلاح کرے۔

نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد خلافتِ راشدہ کا دور مسلمانوں کے لیے ایک روشن مثال تھا، جہاں عدل، شفافیت، تقویٰ اور مشاورت کے اصول غالب رہے۔ تاہم اس عظیم دور میں بھی کچھ ایسے سیاسی و مذہبی تنازعات نے جنم لیا جنہوں نے مسلم معاشرے کی وحدت کو چیلنج کیا۔ خلافتِ ابوبکر صدیقؓ کے آغاز ہی میں ارتداد کی تحریکیں اور زکوٰۃ سے انکار کرنے والے گروہ سامنے آئے، جن کے خلاف جنگیں لڑنی پڑیں۔ حضرت عمرؓ کے دور میں وسیع فتوحات کے باوجود اندرونی خلفشار کم تھا، مگر حضرت عثمانؓ کے آخری دور میں بعض گورنری اور مالی امور پر اعتراضات اور منافقانہ پروپیگنڈے نے فتنہ کی شکل اختیار کی، جس کے نتیجے میں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ حضرت علیؓ کے عہد میں یہ فتنے خانہ جنگی کی صورت اختیار کر گئے، جن میں جنگ جمل، جنگ صفین، اور جنگ نہروان جیسی المناک لڑائیاں ہوئیں، جن میں ہزاروں بلکہ لاکھوں مسلمان جان سے گئے۔ ان سیاسی کشمکشوں کے ساتھ ساتھ مذہبی اختلافات، جیسے خوارج کا خروج اور بعض عقائدی تفریقوں نے مسلم معاشرے میں گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ دور اگرچہ ایمان، قربانی اور صداقت سے معمور تھا، مگر انسانی کمزوریاں، سیاسی غلط فہمیاں، اور سازشی عناصر مسلمانوں کو ایسے راستے پر ڈال گئے جس کا اثر صدیوں تک محسوس کیا گیا۔ اس تاریخی پس منظر کو سمجھنا امت مسلمہ کے لیے ایک دینی اور فکری ضرورت ہے تاکہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر اتحاد، عدل اور بصیرت کا راستہ اختیار کرے۔

خلافتِ راشدہ کے بعد سلطنتِ بنی امیہ نے اسلامی تاریخ میں ایک نئے سیاسی، تمدنی اور علمی دور کا آغاز کیا۔ اگرچہ اس سلطنت کی بنیاد بعض سیاسی کشمکشوں اور کربناک حادثات کے بطن سے اٹھی، لیکن اموی خلفاء نے نہایت مضبوط انتظامی ڈھانچہ، عسکری قوت، اور وسیع فتوحات کے ذریعے اسلام کو مشرق میں چین کی سرحدوں سے لے کر مغرب میں اندلس (اسپین) تک پھیلایا۔ خلفاء عبد الملک بن مروان، ولید بن عبد الملک اور عمر بن عبدالعزیز جیسے حکمرانوں کے دور میں جہاں اسلامی ریاست مضبوط ہوئی، وہیں علم و ادب، نظم و نسق، اور دینی علوم کی تدوین کا بھی آغاز ہوا۔ خصوصاً تدوینِ حدیث، تاریخِ اسلام کی اولین تحریری شکلوں اور عربی زبان کو سرکاری زبان بنانے جیسے انقلابی اقدامات اسی دور کی دین ہیں۔ اموی دور میں اسلامی تہذیب نے ایک امپائر کی شکل اختیار کی، جس میں وسیع شاہراہیں، مالی نظم، اور عدالتوں کا قیام عمل میں آیا۔ تاہم ایک صدی کے بعد داخلی مظالم، عصبیت، اور بنی ہاشم و دیگر گروہوں کی مخالفت نے اس سلطنت کو کمزور کر دیا، اور بالآخر 132ھ/750ء میں بنو عباس نے اقتدار سنبھال لیا۔ سلطنتِ بنی امیہ کا زوال اگرچہ ناگزیر ثابت ہوا، مگر اس کے علمی، انتظامی اور عسکری کارنامے اسلامی تاریخ کے اہم سنگ میل ہیں، جن کی گونج آج بھی مسلم دنیا کے ماضی کے عروج کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

سلطنتِ عباسیہ کا دور اسلامی تاریخ میں صرف سیاسی غلبے کا نہیں بلکہ ایک عظیم علمی، فکری اور تہذیبی انقلاب کا عہد بھی ہے۔ عباسی خلفاء، خصوصاً منصور، ہارون الرشید اور مأمون الرشید کے زمانے میں علمی سرپرستی کو باقاعدہ ریاستی پالیسی کا حصہ بنایا گیا۔ اس دور میں نہ صرف اسلامی علوم جیسے فقہ، تفسیر، حدیث اور کلام کی تدوین اور ارتقاء ہوا بلکہ دنیا کے دیگر متمدن اقوام—یونانی، فارسی اور ہندی—کے علمی ورثے کو بھی اسلامی دنیا میں جذب کیا گیا۔ اس ترجمہ تحریک کے تحت افلاطون، ارسطو، جالینوس، بقراط، بطلیموس اور دیگر غیر اسلامی مفکرین و سائنسدانوں کی کتابیں عربی زبان میں منتقل کی گئیں۔ بغداد میں قائم بیت الحکمت جیسے علمی ادارے علم و دانش کے مرکز بن گئے جہاں فلسفہ، طب، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ، منطق، قانون، موسیقی اور شاعری کے میدان میں غیر معمولی ترقی ہوئی۔ مسلمان علماء جیسے الفارابی، ابن سینا، الرازی، الخوارزمی، البیرونی اور ابن الہیثم نے صرف ترجمہ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان علوم میں تحقیق، تنقید اور اجتہاد کے ذریعے نئے افق روشن کیے۔ اس عباسی علمی تحریک نے اسلامی دنیا کو کئی صدیوں تک دنیا کی علمی قیادت عطا کی اور یورپ کی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کی فکری بنیادیں بھی اسی دور کی علمی خدمات پر استوار ہوئیں۔ یہ عہد دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام علم کو صرف دینی دائرے تک محدود نہیں کرتا بلکہ تمام انسانی علوم کو رشد و ہدایت کا حصہ سمجھتا ہے، بشرطیکہ وہ انسانیت کی فلاح اور خدا کی معرفت کے دائرے میں رہیں۔

عباسی دور کے اختتام پر اسلامی تہذیب ایک عظیم زوال کی لپیٹ میں آ گئی، جس کی سب سے ہولناک مثال 1258ء میں تاتاری (منگول) حملہ تھا۔ ہلاکو خان کی قیادت میں منگول افواج نے بغداد کو تاراج کیا، لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا، اور صدیوں کی علمی و تہذیبی میراث کو دریا برد کر دیا۔ یہ سانحہ نہ صرف سیاسی بلکہ روحانی اور فکری لحاظ سے بھی اسلامی دنیا کو شدید متاثر کر گیا۔ تاہم اس تاریکی کے بعد اسلامی دنیا میں مختلف علاقوں میں نئی سیاسی اکائیاں اور سلطنتیں ابھریں، جنہوں نے اسلام کی بقا، علمی تسلسل، اور ثقافتی روایتوں کو مختلف انداز میں جاری رکھا۔

1. سلطنتِ عثمانیہ (1299–1924):
ترکی سے ابھرنے والی یہ سلطنت جلد ہی تین براعظموں پر پھیل گئی—یورپ، ایشیا اور افریقہ۔ عثمانی خلفاء نے خلافت کا پرچم اٹھایا اور اسلامی دنیا کی وحدت کے علامتی مرکز بنے۔ ان کے دور میں نہ صرف شریعت کے مطابق قانون سازی ہوئی بلکہ فن تعمیر، خطاطی، عدالتی نظام اور تعلیمی اداروں نے بھی خوب ترقی کی۔ عثمانی سلطنت نے یورپی صلیبی یلغار، شیعی صفوی اثرات، اور تاتاری باقیات کے خلاف ایک مضبوط دفاعی دیوار کا کام دیا۔ ان کا دارالحکومت، استنبول، اسلامی ثقافت اور سلطنت کا نیا مرکز بن گیا۔

2. فاطمی سلطنت (909–1171):
یہ ایک اسماعیلی شیعی خلافت تھی جس کا مرکز مصر تھا۔ فاطمیوں نے قاہرہ کو اپنے عہد میں علم و حکمت کا گہوارہ بنایا اور جامعہ الازہر جیسے عظیم ادارے کی بنیاد رکھی جو آج بھی علمی و دینی تعلیم کا مرکز ہے۔ اگرچہ ان کا مذہبی رجحان اہلِ سنت سے مختلف تھا، مگر انہوں نے حکومتی سطح پر علم، فن، طب، اور فنِ تعمیر کو فروغ دیا۔

3. صفوی سلطنت (1501–1736):
ایران میں ابھرنے والی اس شیعی سلطنت نے اثنا عشری مکتبِ فکر کو ریاستی مذہب بنایا۔ ان کا سب سے نمایاں حکمران شاہ عباس تھا جس نے اصفہان کو دنیا کے حسین ترین شہروں میں تبدیل کیا۔ صفوی دور میں اگرچہ علمی ترقی ہوئی، مگر اہلِ سنت کے ساتھ شدید کشیدگی اور عثمانیوں سے مسلسل جنگوں نے مسلم دنیا کو مزید تقسیم کر دیا۔

4. مغل سلطنت (1526–1857):
برِصغیر ہند میں ظہیر الدین بابر سے شروع ہونے والی یہ عظیم سلطنت فن، ثقافت، نظم و نسق اور بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک شاندار مثال تھی۔ اکبر، جہانگیر، شاہجہان اور اورنگزیب جیسے حکمرانوں کے ادوار میں فنِ تعمیر (تاج محل)، عدالتی نظام، علم، فنونِ لطیفہ اور اسلامی تہذیب کو غیر معمولی فروغ ملا۔ علماء، صوفیاء، اور شعرا کو دربار و معاشرت میں اہم مقام حاصل رہا۔ تاہم آخری دور میں برطانوی استعمار کے بڑھتے قدم، داخلی خلفشار، اور علمی زوال نے مغلیہ سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔

ان تمام سلطنتوں نے اپنے اپنے دائرے میں اسلامی تمدن کو سنوارا، مگر ان کے مابین فرقۂ واریت، سیاسی کشمکش، اور استعمار کے خلاف عدم اتحاد نے مسلم دنیا کو ضعف میں مبتلا کر دیا۔ اس کے باوجود یہ حقیقت مسلم تاریخ کا روشن پہلو ہے کہ ان سلطنتوں نے علم، فن، تمدن اور حکمرانی کے ایسے عظیم نقوش چھوڑے جن سے آج بھی مسلمان دنیا فخر سے نسبت جوڑتی ہے۔

بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا ایک عظیم سیاسی و تہذیبی تبدیلی کے دہانے پر کھڑی تھی۔ جنگِ عظیم اوّل (1914–1918) نے نہ صرف عالمی توازنِ قوت کو بگاڑ کر رکھ دیا بلکہ اس نے یورپی طاقتوں، خاص طور پر برطانیہ، فرانس، اٹلی اور بعد میں امریکہ کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ کمزور اور منتشر خطوں پر اپنا تسلط قائم کریں۔ اس جنگ کے بعد سلطنتِ عثمانیہ جیسی عظیم مسلم خلافت کا خاتمہ ہوا، اور اس کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ، برصغیر، شمالی افریقہ اور وسط ایشیا کے بیشتر مسلم علاقے مغربی استعمار کے قبضے میں چلے گئے۔ برطانیہ نے فلسطین، مصر، عراق اور برصغیر کو اپنی کالونی بنایا، جبکہ فرانس نے شام، لبنان، الجزائر، تیونس اور مراکش پر قبضہ کر لیا۔ انگریز، فرانسیسی، اطالوی، ڈچ اور دیگر نوآبادیاتی قوتوں نے نہ صرف سیاسی تسلط قائم کیا بلکہ مسلم تہذیب، تعلیم، معیشت، اور مذہبی شناخت کو بھی کمزور کرنے کی منظم کوششیں کیں۔

تاہم جنگِ عظیم دوم (1939–1945) نے اس استعماری نظام کے خلاف ایک نیا عالمی ردعمل پیدا کیا۔ یورپی طاقتیں خود اس جنگ سے بری طرح کمزور ہو چکی تھیں، اور ان کے لیے دنیا بھر میں اپنی کالونیاں سنبھالنا دشوار ہو گیا تھا۔ دوسری طرف، مسلم عوام میں سیاسی شعور بیدار ہو چکا تھا، اور آزادی کی تحریکیں زور پکڑ چکی تھیں۔ مصر، انڈونیشیا، لیبیا، پاکستان، الجزائر، سوڈان، مراکش، تیونس، اور دیگر خطوں میں عوام نے قربانیاں دے کر سامراج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ اس طرح 1947ء میں پاکستان کی آزادی سے لے کر 1970ء کی دہائی تک مسلم دنیا میں آزادی کی ایک زبردست لہر اٹھی جس کے نتیجے میں 57 سے زائد مسلم ممالک وجود میں آئے، جن میں ہر ایک نے اقوامِ متحدہ میں اپنی آزاد حیثیت سے نمائندگی حاصل کی۔

یہ مرحلہ مسلم تاریخ میں سیاسی آزادی کا نیا باب تھا، مگر اس کے ساتھ ایک بڑا چیلنج بھی تھا—کہ کیا ان آزاد مسلم ریاستوں میں اسلام کو ایک نظامِ حیات کے طور پر نافذ کیا جا سکے گا؟ بدقسمتی سے اکثر مسلم ممالک مغربی طرزِ سیاست، معیشت اور سیکولر نظام کو اپناتے گئے، اور اسلامی اتحاد و خلافت کا وہ خواب، جو کئی صدیوں سے دلوں میں زندہ تھا، وہ ایک نئے فکری اور عملی جدوجہد کا تقاضا کرتا رہا۔ اس کے باوجود، یہ آزادی کا مرحلہ ایک تاریخی موڑ تھا، جو مسلم اقوام کو خود ارادیت، شناخت اور ترقی کے نئے امکانات کی طرف لے کر آیا۔

آج ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں لیکن ۵۷ سے زائد مسلم ممالک عالمی سطح پروجود رکھنے کے باوجود ایک متحد، باوقار اور مؤثر عالمی قوت بننے میں ناکام رہے ہیں۔ آزادی کی لہر جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد اسلامی دنیا میں اٹھی، وہ اس امید کے ساتھ تھی کہ مسلم اقوام آزادی کے بعد اسلام کے عالمگیر اصولوں کے تحت وحدت، عدل، علم اور ترقی کا ایک نیا باب رقم کریں گی۔ مگر نصف صدی گزرنے کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم دنیا آج بھی بکھری ہوئی، فرقہ وارانہ عصبیت اور کمزور سیاسی حیثیت کی حامل ہے۔

ادھر یورپ نے زخم خوردہ تاریخ اور جنگوں کے ملبے سے سبق سیکھا، اور یورپی یونین جیسے مضبوط سیاسی و اقتصادی اتحاد کی بنیاد رکھی، جس نے انہیں نہ صرف اقتصادی خود کفالت بلکہ عالمی سیاست میں ایک متحدہ آواز عطا کی۔ دوسری طرف، مسلم دنیا مختلف بلاکوں، مسلکی تقسیم، لسانی عصبیت اور قوم پرستی میں بٹی ہوئی ہے۔ کہیں آمریت کا راج ہے، کہیں بادشاہت کے پردے میں ظلم، تو کہیں جمہوریت کے نام پر استعماری ایجنڈے کی تکمیل۔ او آئی سی (OIC) جیسا پلیٹ فارم بھی ایک رسمی ادارے سے زیادہ حیثیت نہ رکھ سکا، جو نہ فلسطین کے لیے فیصلہ کن قدم اٹھا سکا، نہ کشمیر، نہ یمن، نہ شام، اور نہ ہی روہنگیا یا غزہ کے لیے کوئی مؤثر عملی لائحہ عمل سامنے لا سکا۔

اگرچہ بعض مسلم ممالک، جیسے ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا، قطر اور پاکستان، نے اپنے اپنے دائرے میں کچھ سیاسی، تعلیمی یا عسکری ترقی ضرور کی ہے، لیکن ان کی انفرادی کامیابیاں اجتماعی مسلم طاقت میں ڈھلنے سے قاصر رہیں۔ ان کے مابین اعتماد کی کمی، قیادت کی کشمکش، اور بیرونی طاقتوں کا دباؤ اس بات کا ثبوت ہے کہ آج بھی مسلم دنیا سیاسی وحدت، دفاعی خودمختاری، اور فکری اتحاد سے محروم ہے۔

یہ مضمون صرف ایک ماضی کی یاد نہیں بلکہ ایک تنبیہ ہے کہ جب تک امت مسلمہ قرآن کی وحدت، سیرتِ نبوی کی حکمت، اور خلافتِ راشدہ کی روحانی میراث کو اپنا قبلہ نہیں بناتی، تب تک وہ عالمی نظام میں —اثرونفوذ سے خالی،  صرف ایک عددی قوت رہے گی۔ آج امت کو نہ صرف مشترکہ دفاعی اتحاد، مشترکہ معاشی منصوبہ بندی، اور ایک عالمگیر اسلامی بلاک کی ضرورت ہے، بلکہ ایک نظریاتی وحدت کی بھی ضرورت ہے جو اسے سامراجی قوتوں کے سامنے ایک باوقار امت بنا کر کھڑا کرے۔ اکیسویں صدی صرف ٹیکنالوجی کی صدی نہیں، بلکہ نظریاتی بیداری اور اجتماعی شعور کی صدی ہے—اور اگر امت نے اس موقع کو ضائع کر دیا، تو آنے والی صدیوں میں تاریخ ہمیں ایک منتشر اور محروم قوم کے طور پر یاد کرے گی۔