دیباچہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عرصہ درا زتک اقبال کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اقبال کے تصورات علمی اور عقلی اعتبار سے نہایت برجستہ‘ زوردار‘ درست اور ناقابل تردید ہیں اور اگرچہ یہ تصورات اس کی نظم ونثر کی کتابوں میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں تاہم ان میں ایک عقلی اور ایک علمی ربط موجود ہے ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب صرف ایک تصور سے ماخوذ ہیں جسے اقبال خودی کا تصور کہتا ہے۔ لہٰذا اقبال کی تشریح کامطلب یہ ہونا چاہیے کہ خودی کے مرکزی تصور کے ساتھ اس کے دوسرے تمام تصورات کے علمی اور عقلی ربط کو واضح کیا جائے اور اگر ایسا کرنے کے بغیر اس کی کوئی تشریح کی جائے گی تو وہ مسلمانوں کے لیے بالعموم اور غیر مسلموں کے لیے بالخصوص پوری طرح سے قابل فہم اور تسلی بخش نہیں ہو سکے گی۔ دراصل اس وقت بھی اقبال کے خیالات کے متعلق جس قدر غلط فہمیاں مسلمانوں یا غیر مسلموں میں پائی جاتی ہیں ان کا سبب یہی ہے کہ اقبال کے خیالات کی علمی اور عقلی ترتیب اور تنظیم مہیا نہیں کی گئی ۔ دوسرے الفاظ میں میرا نتیجہ یہ تھا کہ اقبال کا فلسفہ دنیا کے اور بڑے بڑے فلسفوں کی طرح بالقوہ انسان اور کائنات کا ایک مکمل اور مسلسل فلسفہ ہے جس کا امتیازی وصف یہ ہوتا ہے کہ اس کے تصورات میں ایک عقلی یا منطقی ترتیب اور تنظیم موجود ہوتا ہے جواسے موثر اور یقین افروز بناتی ہے اور اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اقبال کے تصورات کی مخفی عقلی ترتیب اور تنظیم کو آشکار کرکے اس کے فکر کو ایک مکمل نظام حکمت … Philosophical System…کی شکل دی جائے تاکہ وہ نہ صرف پاکستان کے اندر پوری طرح قابل فہم بن جائے بلکہ دنیا کے آخری باطل شکن عالمگیر فلسفہ کی حیثیت سے دنیا کے علمی حلقوں میں اپنا مقام حاصل کر سکے۔ لہٰذا میں نے ارادہ کیا کہ جہاں تک ممکن ہو خدا کی توفیق سے اس کام کو انجام دینے کی کوشش کی جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ نہایت ضروری تھا۔ کہ اس کام کو انجام دینے کے لیے جو کتاب لکھی جائے اس میں ذیل کے راہ نما اصولوں کو شروع ہی سے مد نظر رکھا جائے:
اول: ایک فلسفہ یا نظام حکمت اشخاص کی سند یا شہادت پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ علمی حقائق اور عقلی استدلال پر اپنا دارومدار رکھتا ہے اس کے کسی تصور کو اس لیے نہیں مانا جاتاکہ کوئی شخص اس کی حمایت یا سفارش کر رہاہے بلکہ اس لیے مانا جاتاہے کہ وہ ایسے علمی حقائق پر مبنی ہے جو معلوم اور مسلم ہیں یا جن کے عقب میں ایسا زوردار عقلی استدلال موجود ہے جو ان سے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہنے دیتا۔ اگر فلسفہ میں سند یا شہادت پیش کی جائے تو وہ صرف موثر علمی اور عقلی استدلال کے بعد اس کے نتائج کی تائید مزید کے لیے ہی ہو سکتی ہے اور وہ بھی فلسفی کی اپنی نہیں بلکہ ایسے دوسرے اشخاص کی سند یا شہادت ہی ہو سکتی ہے جن کے فکر کی عظمت سے مسلم ہو۔ جس طرح ہیگل یا کسی اور فلسفی نے اپنے کسی حکیمانہ نکتہ کو ثابت کرنے یا لوگوں سے منوانے کے لیے کبھی اپنا ہی کوئی قول بطور دلیل پیش نہیں کیا ہم بھی اقبال کے نظام حکمت کی تدوین کرتے ہوئے اقبال کے کسی حکیمانہ نکتہ کو ثابت کرنے یا لوگوں سے منوانے کے لیے خود اقبال کا ہی کوئی قول یا دلیل پیش نہیں کر سکتے۔ اور خود اقبال نے بھی اپنے تصورات کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے کبھی اپنے قول کو بطور دلیل کے پیش نہیں کیا۔ بلکہ قوانین قدرت اور حقائق علمی کی طرف اشارے کیے ہیں۔ لہٰذا اقبال کے نظام حکمت کی تدوین کے لیے جو کتاب لکھی جائے گی اس میں اقبال کا حوالہ نہیں دیاجائے گا بلکہ فقط علمی حقائق اور عقلی استدلال کی مدد سے اقبال کے تصورات کی صحت اور معقولیت کو ثابت کیاجائے گا۔
دوئم: اقبال کے تصورا ت کو علمی اور عقلی اعتبار سے مرتب کرنے اور منظم کرنے اور ان کی صحت اور معقولیت کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہو گا کہ تمام ایسے علمی حقائق کو ان کی عقلی اور علمی بنیادوں کے سمیت کام میں لایا جائے جو آج تک دریافت ہو چکے ہیں اور اقبال کے تصورات کی تائید کرتے ہیں خواہ ان کو دریافت کرنے والا فلسفی یا سائنس دان کوئی ہو اور دنیا کے کسی خطہ سے تعلق رکھتا ہو۔
سوئم: ان تمام حکیمانہ تصورات و نظریات کو علمی اور عقلی اعتبار سے غلط ثابت کیا جائے گا جو اقبال کے فکر اور اس کے مضمرات سے ٹکراتے ہیں کیونکہ وہ درحقیقت صحیح نہیں ہیں اور معقول استدلال کی روشنی میں ان کو غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے کے بغیر اقبال اپنے حکیمانہ تصورات کی صحت اور معقولیت کی پوری پوری وضاحت نہ ہو سکے گی اور لوگوں کو معلوم نہ ہو سکے گا کہ آیا کسی خاص فلسفیانہ مسئلہ کے متعلق صحیح نقطہ نظر اقبال کا ہے یا ان نظریات کو جو اس کے فکر کے بالمقابل ہیں اور اگر صحیح نقطہ نظر اقبا ل کا ہی ہے تو اس کی علمی اور عقلی وجوہات کیا ہیں۔
چہارم: کتاب انگریزی زبان میں ہو گی۔ تاکہ دنیاکے علمی حلقوںمیں اقبال کے فلسفہ کو پڑھا جا سکے اور پرکھا جا سکے۔ دوسرے فلسفوں کے بالمقابل اس کے علمی مقام کو معین کیا جا سکے اوراس کی معقولیت اور عظمت کو تسلیم کیا جا سکے۔
ان راہ نما اصولوں کی روشنی میں اقبال کے نظام حمت کی تدوین کے لیے جو کتاب لکھنے کی توفیق مجھے خدا نے عطا کی اس کا نام آئیڈیالوجی آف دی فیوچر(Ideology of the Future)ہے ۔ یہ کتاب جون 1942ء میں مکمل ہوئی تھی اور اگست 1946ء میں طبع ہوئی تھی۔ ا س کتاب کی اشاعت کے تقریباً بیس سال بعد میںنے ان ہی راہ نما اصولوں کی روشنی میں فلسفہ تعلیم پر اس کتاب کے ایک با ب کی مزید تشریح او ر توسیع کر کے ایک اور کتاب لکھی جس کا نام تعلیم کے ابتدائی اصول (First Priciples of Education)ہے۔ دراصل میری سادہ تحریریں’’آئیڈیالوجی آف دی فیوچر‘‘ (یعنی اقبال کے فلسفہ خودی) کے تصورات اور موضوعات کی مزید تشریح اور توسیع کے طور پر لکھی گئی ہے۔
چونکہ اقبال نے اپنے فلسفہ خودی کے ذریعے سے ہی اسلام کی فلسفیانہ تشریح کی ہے اور فلسفہ خودی اسلام ہی کا فلسفہ ہے لہٰذا اگر آپ میری کتاب ’’آئیڈیالوجی آف دی فیوچر‘‘ اقبال کا نظام حکمت ہے تو پھر وہ معاً اسلام کا نظام حکمت بھی ہے۔ لیکن چونکہ یہ کتا ب بظاہر مطلق فلسفہ کی کتاب ہے جس میں نہ تو اقبال کا کوئی حوالہ ہے اور نہ قرآن و حدیث کا ۔ اس لیے اس کو پڑھنے والے اسے بالعموم فلسفہ اقبال یا فلسفہ اسلام کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مطلق فلسفہ کی حیثیت سے پڑھتے رہے ہیں۔ لہٰذا اس کتاب کی اشاعت کے بعد بھی ایک طرف اقبال کے چاہنے والوں کی یہ شکایت باقی رہی کہ اقبال پر لکھنے والوں میں سے کسی نے اقبال کے فلسفہ خودی کو ایک مسلسل عقلی نظا م کے طور پر پیش نہین کیا اس کی مکمل تشریح نہیں کی اور دوسری طرف اسلام سے دلچسپی رکھنے والے بھی بدستور یہ کہہ رہے ہیں کہ اس دور میں اسلام سے برگشتہ تعلیم یافت مسلمانوں میں اور غیر مسلموںمیں اسلام کی تبلیغ کے لیے تعلیمات اسلام کی علمی اور عقلی بنیادیں واضح کرنے اور اسلام کو ایک نظام حکمت کے طور پر پیش کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس صورت کی بنا پر میں نے سمجھا کہ ہماری قو م کے ذوق کے پیش نظر اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اقبال کے فلسفہ خودی پر دو اور کتابیں لکھی جائیں جن میں سے ایک تو ایسی ہو کہ اس میں فلسفہ خودی کو قرآن او ر حدیث کے حوالوں کے ساتھ اسلام کے ایک فلسفہ کے طور پر پیش کیا جائے اور دوسری ایسی ہوکہ اس میں فلسفہ خودی کو اقبال کے حوالوں کے ساتھ اقبال کے فلسفہ کے طورپر پیش کیا جائے خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ان دونوں کتابوں کے لکھنے کی توفیق دی۔ پہلی کتاب جس کا عنوان ’’قرآن اورعلم جدید‘‘ ہے میں نے ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کے لیے 1951ء میں لکھی تھی۔ اور دوسری کتاب ’’حکمت اقبال‘‘ کے نام سے اب پیش کر رہا ہوں ۔ حاصل یہ ہے کہ جس حد تک مجھے خدا کی توفیق حاصل ہوئی ہے میں نے یہ تینوں کتابیں اس طرح سے رکھی ہیں کہ مجھے امید ہے کہ جو احباب اقبال کے فلسفہ خودی کا یا اسلام کا مطالعہ ایک خالص اور منظم فلسفہ یا سائنس کے طور پر کرنا چاہتے ہیں وہ میری کتاب آئیڈیالوجی آف دی فیوچر کا مطالعہ مفید مطلب پائیں گے(اس کتاب کے تیسرے ایڈیشن کے ناشر شیخ محمد اشرف ‘ کشمیری بازار لاہور ہیں) اور جو فلسفہ خودی کامطالعہ اسلام کے ایک فلسفہ کے طورپر کرنا چاہتے ہیں وہ میری کتاب ’’قرآن اور علم جدید‘‘ کا مطالعہ دلچسپی کا باعث پائیں گے اور پھر جو فلسفہ خودی کا مطالعہ اقبال کے حوالوں کی روشنی میں اقبال کے فلسفہ کے طورپر کرنا چاہتے ہیں وہ زیر نظر کتاب ’’حکمت اقبال‘ کا مطالعہ مدعا کے مطابق پائیں گے۔ امید ہے کہ جو احباب ان تینو ں کتابوں کامطالعہ کریں گے وہ دیکھیں گے کہ فلسفہ خودی کی مفصل تشریح کی حیثیت سے یہ تینوں کتابیں ایک دوسرے کی کمی کو پورا کرتی ہیں۔