حکمت اقبال میں تصور خودی کا مقام، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

حکمت اقبال میں تصورخودی کا مقام 
اقبال کے تمام حکیمانہ افکار کر سرچشمہ صرف ایک تصور ہے جسے اقبال نے خودی کانام دیا ہے۔ اقبال کے تمام تصورات اسی ایک تصور سے ماخوذ ہیں اور اس سے علمی اور عقلی طورپر وابستہ ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کے تمام تصورات خود ایک دوسرے کے ساتھ بھی ایک علمی اور عقلی رشتہ میں منسلک ہیں اور اقبال کا فکر ایک ایسے نظام حکمت کی صورت میں ہے جس کا ہر تصور دوسرے تمام تصورات علمی سے اور عقلی تائید اور توثیق حاصل کرتا ہے۔ جب تک ہم اس نظام حکمت کے مرکز یعنی تصوری خودی کو ٹھیک طرح نہ سمجھیں ہم اقبال کے کسی تصور کو بھی ٹھیک سے نہیں سمجھ سکتے اور اس کے برعکس جب تک ہم اقبال کے ہر تصور کو جو اس کے نزدیک خودی کے حاصلات یا مضمرات میں سے ہے پوری طرح نہ سمجھ لیں ہم خودی کے تصور کو پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتے اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبا ل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے افکار کو الگ الگ کر کے اپنے غور و فکر کا موضوع نہ بنائیں بلکہ ا س کے پورے فکر کا مطالعہ ایک کل یا وحدت کی حیثیت سے کریں۔

ظاہر ہے کہ جب اقبال کا ہرتصور ایک پورے نظام فکر کا جزو ہے اوریہ پورا نظام فکر اس کی تشریح اور تفہیم کرتا ہے تو ہمارے لیے ضروری ہو جاتاہے کہ ہم اسے اس نظام کے جزو کی حیثیت سے ہی زیر غور لائیںَ اگر ہم ا س پورے نظام فکر سے الگ الگ کر کے یا اس کے کسی پہلو کو نظر انداز کر کے یا حذف کر کے یا غیر ضروری قرار دے کر ا س پر غور کریں گے تو اس کے صحیح مفہوم پر حاوی نہ ہو سکیں گے۔ جب تک ہم اقبال کے کسی تصور کی ماہیت کو اس کے پورے نظام فکر کی روشنی میں او ر اس کے باقی ماندہ تصورات کی مددسے معین نہ کریں گے وہ ہمارا اپنا پسندیدہ تصور ہو تو اقبال کا تصور نہیں ہو سکتا۔ اقبال کا تصور تو وہی ہو سکتا ہے جس کی ماہیت اس کے پورے نظام فکر نے معین کی ہو۔ جب ہم ایک نظام حکمت کے کسی جزو کو اس سے الگ کر دیں تو وہ اسی طرح سے مردہ ہو جاتا ہے جس طرح کہ جسم حیوانی کا ایک عضو جسم سے کاٹ دیا جائے تو وہ مردہ ہو جاتا ہے۔ یہ اصول فہم اقبال کے لیے ایک کلید کا درجہ رکھتا ہے۔ اقبا ل کا مطالعہ کرنے والوں یا اقبال پر لکھنے والوں میں خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم پاکستانی ہوں یا غیر پاکستانی آج اقبال کے نظریات کے بارہ میںجس قدر غلط فہمیاںپائی جاتی ہیں جس قدر مباحثے یا اختلافات موجود ہیں جس قدر ان نظریات کو نادانستہ طور پر اپنے اپنے خیالات کی تائید میں استعمال کرنے کی غلط کوششیں کی جا رہی ہیں اور ان کے مفہوم کے اندر تضادات کے شبہات پید ا کیے جا رہے ہیں ان سب کا باعث یہی ہے کہ انہوں نے اس اصول کو مدنظر نہیں رکھا۔ 

ایک ایسے فلسفہ کے اثر جس کے تمام تصورات صرف ایک ہی مرکز ی یا بنیادی تصور سے ماخوذ ہوں حقیقی تضادات کا ہونا ناممکن ہے ایسی حالت میں تضاد پڑھنے والے کے ذہن میں ہو تو ہو لیکن فلسفی کے ذہن میں نہیں ہو سکتا۔ روضہ تاج محل ایک خوبصورت کل یا وحدت ہے جس میں کہیں کوئی تضاد موجود نہیں جس کی ہر اینٹ اس کی پوری وحدت کے ساتھ ہم آہنگ ہے لیکن فرض کیا کہ کسی حادثہ کی وجہ سے اس کے بیسیوں ٹکڑے ہو جاتے ہیں جو دور دور بکھر جاتے ہیں اگر وہاں سے کوئی ایسا شخص گزرے جس نے روضہ تاج محل کو ایک مربوط اور منظم کل کے طور پر کبھی نہ دیکھا ہو تو شاید بعض ٹکڑوں کے باہمی ربط کو سمجھ جائے لیکن بہت سے ٹکڑے ایسے ہوں گے جن کو وہ بے معنی اور بے ربط سمجھنے پر مجبور ہو گا حالانکہ ان میں سے کوئی ٹکڑا بھی ایسا نہ ہو گا جو اس ٹوٹ پھوٹ جانے والی خوبصورت عمارت کے کسی نہ کسی کونہ میں اپنی جگہ نہ رکھتا ہو۔ اقبال کے فلسفہ کا حال بھی ایسا ہی ہے اس کے تمام تصورات اس کے اندر اپنا عقلی ربط اور ضبط رکھتے ہیں۔ لیکن موجودہ صورت میں بکھرے ہوئے پڑے ہیں۔ ہم اقبال کے فلسفہ میں تضاد کا شبہ صرف اسی موقعہ پر کر سکتے ہیں جہاں ہم اس کے کسی تصور کو اس حد تک نہ سمجھ سکیں کہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ اس کے بنیادی یا مرکزی تصور خودی کے ساتھ ا س کا عقلی اور علمی ربط کیا ہے اور لہٰذا اس کے پورے فلسفہ میں اس کا مقام یا محل کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اقبال کے اوسط درجہ کے مطالعہ کرنے والے کے پاس اقبال کا فلسفہ منظم صورت میں موجود نہ ہو گا تو دوران مطالعہ میں اس کے لیے بارہا اس قسم کے مواقع کا پیش آنا ضروری ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال کے فلسفہ کو منظم اور مربوط شکل میں پیش کرنا اقبال کی تشریح اور تفہیم کے لیے کس قدر ضروری ہے۔

( حوالہ : حکمت اقبال ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ، اقبال اکادمی ، پاکستان )