حیوان کامل حیاتیاتی ارتقا کا مقصود، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

حیوان کامل حیاتیاتی ارتقا کا مقصود
حیاتیاتی مرحلہ ارتقا ایک نہایت ہی چھوٹے سے حیوان امیبا سے شروع ہوا تھا جو مادی طور پر مکمل ہو جانے کی وجہ سے اس قابل ہو گیا تھا کہ زندہ ہو جائے اور زندگی کا جوہر پا لینے کی وجہ سے کشش ثقل اور ایسے ہی دوسرے مادی قوانین کی مزاحمت کا مقابلہ کر سکے جو تمام جامد اور بے حرکت مادی اشیاء کو اپنے ضبط کے شکنجہ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ پہلا حیوان اپنی ساخت میں اتنا سادہ تھا کہ صرف ایک ہی خلیہ پر مشتمل تھا لیکن زندگی کی رو یا خدا کے قول کن کی قوت جو اس حیوان کے ا ندر کام کر رہی تھی اس کو برابر ترقی دیتی رہی یہاں تک کہ اس سے نئی انواع حیوانات پیدا ہوتی گئیں۔ جن کی جسمانی ساخت بتدریج زیادہ سے زیادہ پیچیدہ ہوتی گئی اور جن کے مراکز دماغی اور نظام ہائے عصبی متواتر زیادہ سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نت نئی وجود میں آنے والی انواع حیوانات کسی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھ رہی ہیں ظاہر ہے کہ حیاتیاتی مرحلہ ارتقاء میں خودی کی منزل مقصود یہ تھی کہ ایک ایسا کامل جسم حیوانی پیدا کیا جائے جو اپنی مکمل جسمانی اور دماغی ساخت کی وجہ سے اس قابل ہو کہ اس میں جوہر خودی نمودار ہو جائے تاکہ وہ آئندہ کے ارتقاء کا جو نظریاتی ارتقاء ہونے والا تھا ذریعہ بن سکے اور پھر اس کی اولاد کو ترقی دے کر روئے زمین پر پھیلا دیا جائے اور تمام حیوانات پر غالب کر دیا جائے۔ تاکہ وہ دوسرے حیوانات کی مزاحمت کے بغیر آزادی سے عمل ارتقاء کو جاری رکھ سکے۔ یہی حیوان کامل انسان ہے۔
حیاتیاتی ارتقا کی رکاوٹیں
زندگی کو حیاتیاتی مرحلہ ارتقا میں اپنی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھنے میں جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں ایک رکاوٹ حیاتیاتی وراثت کے قانون سے پیدا ہوئی۔ اس قانون کی وجہ سے ایک ہی نوع حیوانات کے افراد اپنے آباؤ اجداد کی جسمانی ساخت کا اعادہ کرتے ہیں خواہ وہ اچھی ہو یا بری پست ہو یا بلند اور اس سے سر مو انحراف نہیں کرتے۔ ظاہر ہے کہ اس قانون سے قدرت کی غرض یہ تھی کہ جب حیوان کامل یا انسان وجود میں آئے اور اس کی نسل ترقی پانے لگے تو اس کی اولاد اپنی اس ابتدائی جسمانی ساخت کو جب سب سے پہلے انسان کو عطا ہوئی ہو اور جو کروڑوں برس کے حیاتیاتی ارتقاء کا نہایت ہی قیمتی ثمر قرار پا چکی ہو۔ نسلاً بعد نسلاً ایک اندرونی حیاتیاتی دباؤ کی وجہ سے اپنی اصلی صورت میں ہمیشہ قائم رکھ سکے۔ تاکہ انسان اپنی اس پائیدار حیاتیاتی تکمیل اور برتری کی وجہ سے نہ صرف قائم رہے اور دنیا میں پھیل جائے بلکہ اپنے قائم رہنے اور پھیل جانے کی وجہ سے اپنے نظریاتی ارتقاء کو کسی ناقابل عبور مزاحمت کے بغیر جاری رکھ سکے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جب تک حیاتیاتی سطح ارتقاء پر ہر نچلے درجہ کی نوع حیوانات میں سے کم از کم ایک فرد حیاتیاتی وراثت کے قانون کو توڑ کر کسی بہتر اور بلند تر قسم کی جسمانی ساخت کا مالک نہ بنے جو اس کی اولاد میں بھی منتقل ہو اس وقت تک ایک نوع سے دوسری بلند تر نوع پیدا نہ ہو سکتی تھی اور حیوان کامل یا انسان کے ظہور تک نوبت ہی نہ پہنچ سکتی تھی۔
حیاتیاتی تقلیبات کا سلسلہ
لہٰذا حیاتیاتی مرحلہ ارتقاء میں ایسا ہوتا رہا کہ ہر بار جب خودی نے محسوس کیا کہ اس کی منزل مقصود کی طرف اس کی ارتقائی حرکت بعض رکاوٹوں کی وجہ سے حد سے زیادہ سست ہو رہی ہے تو اس نے ایک غیرمعمولی کوشش کی اور یکایک گویا ایک جست سے اپنی رکاوٹوں کو عبور کر گئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایسا جسم حیوانی فوری اور معجزانہ طور پر وجود میں آ گیا جو اپنی نوع سے یکسر مختلف تھا اور اپنی ترقی یافتہ جسمانی ساخت کی وجہ سے کامل جسم حیوانی سے قریب تر تھا۔ پھر اس ترقی یافتہ جسم حیوانی کی اولاد سے ایک نئی اور بہتر اور بلند تر نوع حیوانات عالم وجود میں آئی۔ حیاتیاتی تقلیبات کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ ان کا مقصد حاصل نہیں ہوا یعنی جب تک کہ وہ کامل جسم حیوانی نمودار نہیں ہوا جو حیاتیاتی ارتقاء کی منزل مقصود تھا اور جب یہ مقصد حاصل ہو گیا تو تقلیبات کے ظہور کا سبب (یعنی منزل سے دور مزاحمت رکاوٹ اور سست رفتاری کا سامنا) زائل ہو جانے کی وجہ سے ان کا سلسلہ خود بخود منقطع ہو گیا اور یہ کامل جسم حیوانی آخری نوع حیوانی قرار پایا۔ یہی آخری اور کامل جسم حیوانی انسان ہے۔
حیاتیاتی ارتقاء کی شاہراہ
ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت انسان کی اولاد ترقی پا کر تمام انواع حیوانات پر غالب آ چکی ہے اور اس کے ذریعہ سے کائنات کا آئندہ کا ارتقا جو نظریاتی قسم کا ہے جاری ہے۔ حیاتیاتی ارتقا کا وہ راستہ جو امیبا سے انسان تک جاتا ہے حیاتیاتی ارتقا کا سیدھا راستہ یا اس کی شاہراہ ہے جس پر ارتقا براہ راست خالق کائنات کے مقصد کے مطابق ہوتا رہا۔ اس شاہراہ کی ہر منزل پر جسم انسانی کی ایک نئی ترقی یافتہ صورت ایک جدید نوع حیوانی کی شکل میں ایک تقلیب کے ذریعہ سے وجود میں آتی رہی۔ تاہم اس شاہراہ کی مختلف منزلوں سے ارتقا کے غلط راستے بھی نکلتے رہے جن پر ارتقا جاری رہا لیکن تھوڑی دور آگے جا کر ختم ہو گیا کیونکہ ارتقاء کی شاہراہ سے ہٹ جانے کی وجہ سے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ ارتقا کی منزل مقصود پر پہنچ سکے۔ ارتقا کی ان گمراہیوں کی وجہ یہ تھی کہ شاہراہ ارتقا کی ہر منزل پر انسان کی پست تر اشکال کو ابھی حیوانی سطح پر ہی تھیں غلط قسم کا حیاتیاتی ماحول میسر آیا جس کی وجہ سے زندگی یا حیاتیاتی تکمیل کی قوت جو ان کے اندر کام کر رہی تھی اور جو کسی اور راستہ پر کامیاب ہو رہی تھی۔ موافق حالات نہ پانے کی وجہ سے ایسی سمتوں میں کام کرنے اور ایسی تقلیبات پیدا کرنے لگی جو جسم انسانی کی تکمیل کی طرف آگے نہ جاتی تھیں اور جو لہٰذا براہ راست اس کا مقصود نہ تھیں۔ زندگی کا قاعدہ ہے کہ وہ ناموافق حالات میں بھی اپنی جس قدر ممکنات کو جس قدر زیادہ ظاہر کر سکتی ہے، ظاہر کرتی ہے۔ موجودہ دور میں بعض غلط نظریاتی جماعتوں کی عارضی طاقت اور شان و شوکت زندگی کے اسی قاعدہ کا نتیجہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ایک تقلیب صحیح راستہ سے ہٹ جائے تو ضروری ہے کہ بعد کی تقلیبات اور بھی صحیح راستہ سے ہٹتی چلی جائیں کسی ریلوے کی برانچ لائن کی طرح کہ وہ مین لائن سے الگ ہوتی ہے تو پھر جس قدر آگے جاتی ہے اس قدر اس سے اور دور ہوتی چلی جاتی ہے۔
آئندہ کے ارتقا کی نوعیت
زندگی کا ایک اور قاعدہ یہ ہے کہ وہ اپنی تخلیقی کارروائیوں میں کفایت سے کام لیتی ہے اور اپنے کار آمد حاصلات کو کبھی ضائع نہیں کرتی بلکہ ان سے پورا کام لیتی ہے۔ اس قاعدہ کی وجہ سے زندگی ارتقا کے عمل میں اپنی جس مخفی استعداد کو ایک بار نمودار کر لیتی ہے اسی کو آئندہ کے ارتقا کے لئے کام میں لاتی ہے اور در حقیقت وہ اس کو نمدار ہی اسی لئے کرتی ہے کہ اسے آئندہ کے ارتقا کی اسکیم میں اس سے کام لینا ہوتا ہے۔ کروڑوں برس کے حیاتیاتی ارتقا کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ حیوان کامل یا انسان وجود میں آ گیا ہے جو نہ صرف حیاتیاتی نقطہ نظر سے کامل ہے بلکہ جس کے اندر حیاتیاتی تکمیل کی وجہ سے ایک نئی استعداد یعنی خدا کی محبت کا ایک طاقت ور جذبہ پیدا ہو گیا ہے لہٰذا زندگی کے اس قاعدہ کے مطابق ضروری ہے کہ انسان کے بعد کا سارا ارتقا انسان ہی کے راستہ سے ہوا اور اس کا دار و مدار انسان کی اس استعداد کے اظہار پر ہو۔ دوسرے لفظوں میں اب کائنات کے ارتقا کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ انسان اپنی عملی زندگی میں خدا کی محبت کے جذبہ کو کس حد تک مطمئن کرتا ہے چوں کہ جولین بکسلے (Julian Huxley) خدا کے عقیدہ سے نا آشنا ہے اور فطرت انسانی میں نظریات اور اقدار کے منبع کو نہیں جانتا وہ اس حقیقت کا اظہار اس طرح سے کرتا ہے۔ ’’ انسان کے وجود میں آنے کے بعد ارتقا کی نوعیت یکایک بدل جاتی ہے۔ انسانی شعور کے ساتھ اقدار اور نظریات پہلی دفعہ زمین پر ظہور پذیر ہوئے۔ لہٰذا مزید ارتقا کا معیار یہ ہے کہ یہ نظریاتی اقدار کس حد تک مطمئن ہوتی ہیں۔‘‘ چونکہ خدا کی محبت کا جذبہ جو صحیح نظریہ حیات کی بنیاد بنتا ہے وہی بہک کر غلط نظریات بھی پیدا کرتا ہے ظاہر ہے کہ نوع انسانی کے تمام نظریات اسی جذبہ کی پیداوار ہیں اور اسی کو مطمئن کرنے کی کامیاب یا ناکام کوششیں ہیں۔
زندگی شرح اشارات خودی است
لا و الا از مقامات خودی است
حیاتیاتی اور نظریاتی ارتقا کی مماثلت
چونکہ زندگی ایک ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے لہٰذا خواہ وہ حیاتیاتی سطح ارتقا پر سرگرم عمل ہو یا نظریاتی سطح ارتقاء پر۔ اس کے بڑے بڑے اوصاف و خواص کے اظہار میں کوئی بنیادی فرق نہیں آتا۔ مثلاً اگر زندگی حیاتیاتی سطح پر نشوونما کرتی ہے تو نظریاتی سطح پر بھی نشوونما کرتی ہے۔ اگرچہ حیاتیاتی سطح ارتقا پر جسم حیوانی کی صورت میں ایک کل یا وحدت کی تشکیل کرتی ہے تو نظریاتی سطح ارتقا پر بھی انسانی شخصیت کی صورت میں ایک کل یا وحدت کی تشکیل کرتی ہے۔ا گر حیاتیاتی سطح پر ایک جسم حیوانی ایک خاص مادی شکل رکھتا ہے جو اس کے اعضا و جوارح کی ساخت سے صورت پذیر ہوتی ہے۔ تو نظریاتی سطح پر انسانی شخصیت بھی ایک خاص نظریاتی شکل رکھتی ہے جو اس کے نصب العین کی صفات سے پیدا ہونے والے اعتقادات و تصورات، اخلاق و اعمال، عادات و شمامل اور افکار و آراء سے صورت پذیر ہوتی ہے۔ اگر جسم حیوانی حیاتین، پروتین اور فلزات کی صورت میں مادی غذا جذب کر کے نشوونما پاتا ہے تو شخصیت انسانی بھی نصب العین کی صفات کے حسن کی صورت میں نفسیاتی غذا جذب کر کے نشوونما پاتی ہے۔ اگر جسم حیوانی نشوونما پا کر فرد کے والدین کے جسمانی نمونہ کے مطابق بن جاتا ہے تو شخصیت انسانی بھی نشوونما پا کر فرد کے والدین کے نظریاتی نمونہ کے مطابق بن جاتی ہے۔ اگر حیاتیاتی سطح پر ایک جسم حیوانی عمل توالد کے ذریعہ سے اپنی شکل کے اور بہت سے حیوانات پیدا کر کے اپنی مخصوص نوع حیوانی کو وجود میں لاتا ہے تو نظریاتی سطح پر ایک انسانی شخصیت بھی ایک قسم کے نظریاتی توالد کے ذریعہ سے اپنی ہی نظریاتی شکل کی اور بہت سی شخصیتیں پیدا کر کے اپنی مخصوص نظریاتی جماعت کو وجود میں لاتی ہے۔ اگر زندگی کی خصوصیات کی وجہ سے ضروری تھا۔ کہ انواع حیوانات ایک ایسی نوع حیوانات کی سمت میں ارتقا کرتی رہیں حیاتیاتی طور پر کامل ہو۔ یعنی نوع انسانی کی سمت میں تو ان ہی خصوصیات کی وجہ سے یہ بھی ضروری تھا کہ نظریاتی جماعتیں بھی ایک ایسی نظریاتی جماعت کی طرف ارتقا کرتی رہیں جو نظریاتی طور پر کامل ہو۔ یہ نظریاتی جماعت رحمتہ للعالمین کی امت ہے جس طرح سے ضروری تھا کہ پہلے انسان کے ظہور کے بعد جنگلوں کے دوسرے خونخوار حیوانات کے بالمقابل انسان کی ظاہری توانائی کے باوجود انسان کی نسل دنیا میں پھیل جائے۔ اسی طرح ضروری ہے کہ رحمتہ للعالمین کے ظہور کے بعد ان کی روحانی اولاد یعنی مسلمان قوم دوسری قوموں کے بالمقابل اپنی موجودہ ظاہری کمزوری کے باوجود آخر کار دنیا میں پھیل جائے۔ جس طرح سے نوع انسانی کے ظہور کے بعد بھی حیاتیاتی ارتقا غلط راستوں پر جاری رہا اور دیر تک انسان سے کمتر درجہ کی انواع حیوانات وجود میں آتی رہیں۔ اسی طرح سے رحمتہ للعالمین کی امت کے ظہور کے بعد نظریاتی ارتقا بھی غلط راستوں پر جاری ہے اور نظریاتی اعتبار سے امت مسلمہ سے کمتر درجہ کی نظریاتی جماعتیں وجود میں آ رہی ہیں۔ لیکن جس طرح سے ضروری تھا کہ نوع انسانی دوسری تما انواع حیوانات پر جو انسان کے ظہور سے پہلے اور بعد نمودار ہوئی تھیں مکمل طور پر غالب آئے۔ اسی طرح سے ضروری ہے کہ رحمتہ للعالمین کی امت بھی تمام نظریاتی جماعتوں پر جو رحمتہ للعالمین کے ظہور سے پہلے اور بعد نمودار ہوئی ہیں مکمل طور پر غالب آئے۔ قرآن حکیم نے زور دار الفاظ میں اس غلبہ کی پیش گوئی کی ہے۔
ھو الذی ارسل رسولہ با لھدی و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ الکفرون
(خدا وہ ذات پاک ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے نظریہ حیات کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دوسرے نظریات پر غالب کر دے خواہ منکرین اس بات کو ناپسند ہی کیوں نہ کریں)
نظریاتی ارتقا کا نقطہ آغاز
نظریاتی مرحلہ ارتقا پہلے مکمل جسم حیوانی یا پہلے انسان سے شروع ہوا تھا جو حیاتیاتی طور پر مکمل ہو جانے کی وجہ سے اس قابل ہو گیا تھا کہ اس میں خدا کی محبت کا ایک طاقت ور جذبہ اس کی تمام جبلتی خواہشات کی حکمران قوت کی حیثیت سے پیدا ہو۔ جس طرح سب سے پہلے جاندار یعنی ایک خلیہ کے حیوان امیبا کے ظہور کے بعد ضروری تھا کہ ارتقا کلیتاً حیاتیاتی ہوتا۔ اسی طرح سب سے پہلے انسان کے ظہور کے بعد ضروری تھا کہ ارتقا کلیتاً نظریاتی ہوتا۔ سب سے پہلے انسان کو نہ صرف خدا نے حسن کی محبت کا جذبہ عطا کیا بلکہ اس کی نبوت بھی عطاکی۔ یعنی اپنی خاص رحمت سے وحی کے ذریعہ سے اس کو اور اس کی اولاد کو اس جذبہ محبت کی تسکین اور تشفی کی راہ نمائی بھی عطا کی اور بتایا کہ وہ خدا کی محبت اور عبادت سے مکمل اور مستقل طور پر مطمئن ہو سکتا ہے۔ قدرت کوئی ضرورت پیدا نہیں کرتی جس کی تکمیل کا اہتمام خود نہ کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرت کی پیدا کی ہوئی ہر ضرورت ارتقا کے کسی مقصد کو پورا کرتی ہے اور اگر قدرت اس ضرورت کی تکمیل کا اہتمام نہ کرے تو اس ضرورت کو پیدا کرنے کا کوئی فائدہ یا مقصد ہی نہ ہو اور اگر ارتقا کا دار و مدار اس ضرورت کی تکمیل پر رکھا گیا ہو تو ارتقا بھی جاری نہ رہ سکے۔ یہی سبب ہے کہ سب سے پہلے انسان جن کو حضرت آدم کہا جاتا ہے خدا کے نبی تھے۔ چونکہ انسان از خود اپنے جذبہ محبت کے مقصود کو نہیں جان سکتا اور جذبہ محبت نہایت آسانی سے بہک جاتا ہے لہٰذا اگر وہ نبی نہ ہوتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ خدا نے سب سے پہلے انسان کے دل میں اپنی محبت کا جذبہ تو پیدا کیا لیکن اس کی راہنمائی نہیں کی۔ بلکہ اس کو سرگرداں اور بے راہرو ہونے کے لئے چھوڑ دیا۔ ایسا ہونا خدا کی رحمت اور ربوبیت کے ان تقاضوں سے ہی بعید ہوتا جن کے ماتحت اس نے انسان کو اپنی محبت کا جذبہ عطا کیا تھا۔ نبی کی تعریف ہی یہ ہے کہ نبی وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی جدوجہد اور کوششیں نہیں بلکہ خدا کی خاص رحمت سے اور براہ راست خدا سے وحی پا کر اس بات کا علم حاصل کرتا ہے کہ انسان کی محبت کا مقصود فقط خدا ہے اور انسان خدا کی محبت کے فطری جذبہ کو عملی طور پر خدا کی عبادت اور اطاعت سے مطمئن کر سکتا ہے اور اپنی قوم کے دوسرے افراد کو اس علم سے مستفید کرتا ہے۔
نبی کامل ۔ نظریاتی ارتقا کا مقصود
یہ بات آشکار ہے کہ حضرت آدم اور ان کی امت کا نظریہ حیات (اور ظاہر ہے کہ ان کی امت ان کی اولاد کے ایک حصہ پر ہی مشتمل ہو گی) نہایت سادہ ہو گا۔ اس وقت ہمیں معلوم ہے کہ انسان کی قدرتی عملی زندگی کے ضروری تقاضوں میں سیاست، عبادت، اخلاق، تعلیم، قانون، صنعت و حرفت، تجارت، سماجی اور خاندانی تعلقات اور جنگ وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن حضرت آدم کے زمانہ میں جب انسان کی زندگی کی کاروبار کا دارومدار زیادہ تر سیر و شکار ہو گا۔ انسان کی قدرتی عملی زندگی کے ضروری تقاضے ابھرتے گئے ان پر خدا کی محبت کے اصول کا اطلاق کرنے کے لئے نئے نئے انبیاء پیدا ہوتے رہے اور ان کی روحانی اولاد سے نئی نئی امتیں وجود میں آتی رہیں اور ان کی عملی اور نظری تعلیم سے خدا کے عقیدہ پر مبنی نئے نئے نظریات پیدا ہوتے رہے جو انسان کے تمدنی ارتقا کے ساتھ ساتھ اپنی وسعت اور تفصیل میں بتدریج ترقی کرتے رہے ایک روایت کے مطابق انبیاء کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ترقی پذیر انواع حیوانات کی طرح یہ نت نئی پیدا ہونے والی ترقی پذیر امتیں بھی اپنے نظریات کے سمیت کسی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھ رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ نظریاتی مرحلہ ارتقا میں خودی کی منزل مقصود یہ تھی کہ وہ ایک کامل نبی پیدا کرے جو اپنی عملی زندگی کی مثال سے ایسا نظریہ حیات وجو دمیں لائے جو خدا کی محبت کے اصول کو انسان کی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں مثلاً سیاست، عبادت، اخلاق، تعلیم، قانون، صںعت و حرفت، تجارت، سماجی اور خاندانی تعلقات اور جنگ وغیرہ پر چسپاں کرے اور لہٰذا ایک کامل نظریہ حیات ہو اور پھر ا س کامل نبی کی روحانی اولاد یا امت کو ترقی دے کر روئے زمین پر پھیلائے اور تمام نظریاتی جماعتوں پر غالب کر دے تاکہ وہ دوسری نظریاتی جماعتوں کی مزاحمت کے بغیر آزادی سے نوع انسانی کے ارتقا کو جاری رکھ سکے اور ان کو حسن و کمال کی انتہا تک پہنچا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر نبی کا نظریہ حیات یا قانون شریعت وہی ہوتاہے جو لوگوں کو اس کی اپنی عملی زندگی کی مثال میں پوری طرح سے سمویا ہوا نظر آئے۔ جو کام ایک نبی اپنی عملی زندگی میں خود نہ کر سکا ہو اور وہ اس کے ماننے والے فقط اس کی زبانی نصیحت کی بنا پر کر لینے کا داعیہ نہیں پاتے اور وہ کام بجا طور پر اس کی تعلیمات سے عملاً خارج سمجھ لیا جاتا ہے۔
نظریاتی ارتقا کی رکاوٹیں
حیاتیاتی سطح ارتقا پر زندگی کی جو خصوصیات ہمارے مشاہدہ میں آتی ہیں ہم ان کی بنا پر حیاتیاتی تقلیبات کی نہایت ہی معقول وجوہات قائم کر سکتے ہیں۔ ان وجوہات کی روشنی میں یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زندگی کو نظریاتی مرحلہ ارتقا میں بھی اپنی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھنے میں اپنی پیدا کی ہوئی جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے ایک رکاوٹ پھر ایک قسم کے قانون وراثت سے پیدا ہوئی جس کو نظریاتی وراثت کا قانون کہنا چاہئے۔ اس قانون کے عمل سے ایک ہی نظریاتی جماعت کے افراد ہمیشہ اپنے آباد واجداد کے نظریہ حیات کو اختیار کرتے ہیں۔ خواہ وہ نظریہ حیات اچھا ہو یا برا۔ زیبا ہو یا زشت اور اس سے سر مو انحراف نہیں کرتے اس قانون سے قدرت کی غرض یہ تھی کہ جب بھی نبی کامل یا رحمتہ للعالمین ظہور پذیر ہوں اور ان کی روحانی اولاد بڑھنے اور ترقی پانے لگے تو وہ اپنے نبی کے کامل نظریہ حیات کو جو کہ ظاہر ہے کہ لاکھوں برس کے نظریاتی ارتقا کا نہایت ہی قیمتی ثمر قرار پا چکا ہو گا۔ نسلاً بعد نسلاً ایک اندرونی نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے ہمیشہ اسی اصلی صورت میں قائم رکھ سکیں۔ جس میں ان کے نبی نے اسے چھوڑا ہو تاکہ نبی کامل کی امت اپنی پائیدار نظریاتی تکمیل اور برتری کی وجہ سے نہ صرف قائم رہے اور دنیا میں پھیل جائے بلکہ اپنے قائم رہنے اور پھیل جانے کی وجہ سے نوع انسانی کو کسی ناقابل عبور مزاحمت کے بغیر حسن و کمال کی انتہا تک پہنچانے کا ذریعہ بنے۔ لیکن ہر نبی کی صورت میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ اس کی قوم ایک عرصہ تک تو اپنی عملی زندگی کو نہایت سختی کے ساتھ اس کے عطا کئے ہوئے نظریہ حیات کے تابع رکھتی تھی۔ لیکن پھ رایک وقت ایسا بھی آ جاتا تھا جب اس کے تمدنی حالات ترقی کر کے ان کی قدرتی عمل زندگی کے بعض ایسے اہم نئے گوشوں کو بے نقاب کر دیتے تھے جن کے متعلق نبی کی عملی زندگی کی مثال میں یہ راہنمائی موجود نہ تھی کہ ان پر خدا کے تصور کا اطلاق کس طرح سے ہو لہٰذا اس مرحلہ پر پہنچ کر نظریاتی ارتقاء کو جاری رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ اس نبی کی امت میں سے کم از کم ایک فرد ایسا پیدا ہو جو پہلے نبی ہی کی طرح خدا کی وحی سے علم اور اطمینان پا کر اور نظریاتی وراثت کے قانون کو برطرف رکھ کر اپنی عملی زندگی کی مثال کی صورت میں ایک نیا نبوتی نظریہ حیات پیش کرے جو خدا کے تصور کو قوم کے نئے حالات پر چسپاں کرے اور خدا کی وحی کے نام پر ہی دوسروں کو دعوت دے کہ وہ اس نظریہ کو قبول کریں۔ چنانچہ ایسا ہوتا رہا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک نبوتی نظریہ حیات کے بعد دوسرا بہتر اور بلند تر نبوتی نظریاتی حیات پیدا نہ ہو سکتا اور ایک ایسے نبی کے ظہور کی نوبت نہ آ سکتی جو خدائے واحد کے عقیدہ کو اپنی نظریاتی تعلیم اور عملی زندگی کی مثال سے انسان کی ترقی یافتہ قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر چسپاں کر کے ایک کامل نبی قرار پائے۔
نظریاتی تقلیبات کا سلسلہ
لہٰذا نظریاتی مرحلہ ارتقا میں زندگی کی خصوصیات کی وجہ سے ایسا ہوتا رہا کہ ہر بار جب زندگی نے محسوس کیا کہ اس کی منزل مقصود یعنی رحمتہ للعالمین کے ظہور کی طرف اس کی ارتقائی حرکت بعض رکاوٹوں کی وجہ سے حد سے زیادہ سست ہو رہی ہے۔ تو اس نے ایک غیر معمولی کوشش کی اور یکایک گویا ایک جست سے اپنی رکاوٹوں کو عبور کر گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نیا نبی معجزانہ طور پر ظہور پذیر ہو گیا جس کا نظریہ حیات زندگی کے نئے حالات پر بھی حاوی تھا اور جس کی روحانی اولاد سے ایک نئی امت پیدا ہوئی۔ اس طرح سے ایک نبوتی نظریہ حیات سے دوسرا بعض وجوہ سے بہتر اور بلند تر نظریہ حیات پیدا ہوتا رہا۔ نظریاتی تقلیبات کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک ان کا مقصد حاصل نہیں ہوا یعنی جب تک کامل نبی کا ظہور نہیں ہوا اور جب یہ مقصد حاصل ہو گیا تو نظریاتی تقلیبات کے ظہور کا سبب زائل ہو جانے کی وجہ سے ان کا سلسلہ خود بخود اسی طرح سے منطقع ہو گیا جس طرح سے حیاتیاتی تقلیبات کا سلسلہ ان کا مقصد حاصل ہونے اور ان کے ظہور کا سبب زائل ہونے کے بعد یعنی ایک مکمل جسم حیوانی یا انسان کے ظہور کے بعد خود بخود منقطع ہو گیا تھا۔ لہٰذا کامل نبی خاتم النبین یا آخیر نبی بھی قرار پائے۔ یہی کامل اور آخری نبی جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کو قرآن حکیم نے رحمتہ للعالمین کا لقب دیا ہے۔ اس لئے کہ ان کی عملی زندگی کی مثال میں خدا کا عقیدہ انسان کی قدرتی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر چسپاں ہو گیا ہے اور نبوتی راہنمائی کی تکمیل ہو گئی ہے اور نوع بشر جو حاصل عالم ہے تا قیامت کسی اور نبی کی قیادت سے بے نیاز ہو گئی ہے اور اب صرف ان کے ذریعہ سے اپنے حسن و کمال کی انتہا تک پہنچ کر خداکی انتہائی رحمتوں سے ہمکنا رہو گی۔
ارتقائے نبوت کے ان حقائق کی طرف ہی اشارہ کرتے ہوئے اقبال کہتا ہے کہ خودی سو انبیاء کو پیدا کر کے ختم کرنے کے بعد ہی ایک کامل نبی پیدا کرتی ہے۔
شعلہ ہائے او صد ابراہیم سوخت

تا چراغ یک محمد بر فروخت