خودی اور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم
ایک رحمتہ للعالمینؐ کی ضرورت
چونکہ غلط تصورات حسن حق و باطل اور حسن و غیر حسن کے امتزاجات اور مرکبات پر مشتمل ہوتے ہیں او ران کی کثرت کی کوئی حد نہیں ہو سکتی سوا ل پیدا ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں نوع انسانی کو کس طرح سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کا صحیح اور سچا نصب العین کیا ہے۔ اقبال کا جواب یہ ہے کہ خدا خود نوع انسانی کی رہنمائی کا اہتمام کرتا ہے اور اس اہتمام کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ انبیاء کا ایک سلسلہ پیدا کرتا ہے جو کامل نبی یا رحمتہ للعالمین پر ختم ہوتا ہے یہ کامل نبی یا رحمتہ للعالمین پہلے انبیاء کی طرح نوع انسانی کو نہ صرف یہ بتاتا ہے کہ ان کا سچا نصب العین خدا ہے بلکہ تعلیم نبوت کو درجہ کمال پر پہنچا کر انبیاء کے سلسلہ کو ختم کر دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی نظری تعلیم اور اپنی عملی زندگی کے نمونہ سے خدا کے تصور کو انسان کی قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر چسپاں کرنے کی وجہ سے ایک کامل نظریہ حیات وجود میں لاتا ہے جو نوع انسانی کے ارتقاء کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے اور ان کو زندگی کے تمام شعبوں میں حسن و کمال کی انتہا تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لہٰذا اس کے بعد کسی اور نبی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہ رحمتہ للعالمین جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن پر قرآن حکیم نازل ہوا ہے اور جن کا عطا کیا ہوا کامل نظریہ حیات اسلام کہلاتاہے۔
تخلیق عالم کے تین مرحلے
اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ جب بھی کوئی ہنگامہ عالم برپا کرتاہے یا جہان رنگ و بو پیدا کرتا ہے تو خدا کی ازلی اور ابدی صفات کے تقاضوں کی وجہ سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کی خاک سے خدا کی آرزو یا محبت کا جذبہ نمودار ہو یعنی اس کا مدعا انسان کی طرح کی کسی ایسی مخلوق کی تخلیق یا تکمیل ہوتا ہے۔ جو ہمہ تن خدا کی آرزو یا محبت ہو۔ لہٰذا اس ہنگامہ عالم یا جہان رنگ و بو کے لئے آخر کار ایک رحمتہ للعالمین یا کامل نبی کا وجود ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ وہ اپنی تعلیم اور اپنی عملی زندگی کے نمونہ کے اثر سے خدا کی محبت کی تربیت کر کے اس کو درجہ کمال پر پہنچائے چونکہ ضروری ہوتا ہے کہ یہ مخلوق آخر کار ایک ایسی خودی یا شخصیت کی صورت اختیار کرے جو ایک مکمل مادہ سے تعمیر پائے ہوئے مکمل جسم حیوانی میں جاگزیں ہو اور جس کا حسن اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہو۔ لہٰذا اس مخلوق کی تکمیل تین مرحلوں میں انجام پاتی ہے۔ سب سے پہلے تو اس کی تکمیل کے لئے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس مادہ یا مٹی کو جس سے اس کا جسم تیار ہونا ہے، مکمل کر لیا جائے لہٰذا اس جہان رنگ و بو کی تخلیق کے پہلے مرحلہ یا پہلے دور ارتقا کا مقصد مادہ اور اس کے قوانین کی تکمیل ہوتا ہے اور اس دور کی تخلیقی کارروائی کو قرآن حکیم نے تقدیر یعنی اندازوں کے تقر رکا نام دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مادہ اور اس کے قوانین کی تکمیل کے ہر مرحلہ پر ریاضیاتی اندازوں اور حسابوں کا تعین عمل میں لایا جاتاہے۔ مادہ کی تکمیل کے بعد اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو جسم حیوانی اس مادہ سے تیار ہونا ہے اسے مکمل کیا جائے اور اسے بروقت ضرورت خود بخود عمل کرنے کے ایسے طریقے سکھا دئیے جائیں جو جبلتوں کی صورت میں جسم حیوانی میں راسخ ہو جائیں تاکہ حیوان خود بخود اپنی زندگی اور نسل کو قائم رکھ کر ترقی کے مدارج طے کرے اور پھر اس قدر مکمل ہو جائے کہ خودی کا مقام اور مسکن بن سکے۔ چونکہ اس دور کی تخلیقی کارروائی کا مقصد حیوان کے اندر جبلتی تقاضوں کو راسخ کرنا ہے لہٰذا خدا نے قرآن حکیم میں اس کو ’’ ہدایت‘‘ یعنی بدنی اور حیاتیاتی ضرورتوں کی تشفی کے طریقوں کی ’’ راہ نمائی‘‘ کا نام دیا ہے پھر جب خودی جسم حیوانی میں پیدا ہوتی ہے تو اس مخلوق کی تکمیل کا آخری دور شروع ہوتا ہے اور اس دور میں خودی ایک رحمتہ للعالمین یا مصطفیؐ کا ظہور ہو سکتا ہے اور یا پھر اس میں کوئی رحمتہ للعالمین ظہور پا چکا ہو گا۔ اور وہ اس کے نورسے منور ہو رہا ہو گا۔ اقبال نے اس مضمون کو چار شعروں میں اس طرح بیان کیا ہے۔
ہر کجا ہنگامہ عالم بود
رحمتہ للعالمینے ہم بود
خلق و تقدیر و ہدایت ابتداست
رحمتہ للعالمینے انتہا است
ہر کجا بینی جہان رنگ و بو
آنکہ از خاکش بر دید آرزو
یا ز نور مصطفی اورا بہاست
یا ہنوز اندر تلاش مصطفیٰ است
نبوت کیوں ختم ہو جاتی ہے؟
بعض لوگوں نے ابھی تک نہیں سمجھا کہ نبوت جس کا مقصد نوع انسانی کی ہدایت ہے۔ آخر کار کسی ایک نبی پر کیوں ختم ہو جاتی ہے اور کیوں جب تک نوع انسانی باقی ہے اور راہ نمائی کی ضرورت محسوس کرتی ہے یعنی تا قیامت جاری نہیں رہتی لیکن اگر ہم نبوت کی حقیقت کو ٹھیک طرح سے سمجھ لیں تو یہ سوال پیدا نہیں ہوتا۔
نبوت کی حقیقت
نبوت اور وحی کی حیقیقت کے مطلق علامہ اقبال لکھتے ہیں:
’’ نبی روحانی تجربہ رکھنے والا ایک ایسا انسان ہوتا ہے جس کی ذات میں خدا سے ملاپ کا احساس اپنی حد سے گزر کر بہ نکلنے پر مائل ہوتا ہے اور جماعتی زندگی کے محرکات کی نئی تشکیل اور راہنمائی کے مواقع تلاش کرتا ہے۔ اس کی شخصیت میں زندگی کا محدود مرکز اپنی غیر محدود گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے تاکہ پھر نئی قوت کے ساتھ ابھرے اور زندگی کی فرسودہ راہوں کی بیخ کنی اور اس کی نئی راہوں کی نشاندہی کرے اپنے وجود کی اصل کے ساتھ اس قسم کا رابطہ انسان کے ساتھ خاص نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وحی کا لفظ جس طرح سے قرآن حکیم میں استعمال ہو اہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کے نزدیک وحی زندگی کی ایک ہمہ گیر خاصیت ہے۔ اگرچہ ارتقائے حیات کے مختلف مرحلوں میں اس کی ماہیت یا کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ ایک پودا جو اپنی نوع کی موروثی شکل یا بناوٹ سے آزاد ہو کر فضا میں اگتا ہے۔ ایک جسم حیوانی جو ایک نئے ماحول کی رعایت سے ایک ایسا نیا عضو پیدا کر لیتا ہے جو اس کے باپ دادا کو حاصل نہیں تھا یا ایک انسان جو خودی کی اندرونی گہرائیوں سے علم کی روشنی حاصل کرتا ہے یہ سب وحی کی مختلف صورتیں ہیں جن کی ماہیت وحی پانے والے فرد کی ضرورت کے مطابق یا اس نوع کی ضرورت کے مطابق جس کا وہ فرد ہوتاہے بدل جاتی ہے۔‘‘
مظہر تقلیب
ایک پودے یا جسم حیوانی کا اس طرح سے نشوونما پانا کہ اس کی موروثی شکل و صورت بدل جائے اور وہ ایک نئی نوع کا جد اول بن جائے ایک حیاتیاتی مظہر قدرت ہے جسے حیاتیات کی زبان میں تقلیب یا نوع کا فوری تغیر کہا جاتا ہے۔ یہ زندگی کی خاصیات کا ایک تقاضا تھا کہ حیاتیاتی مرحلہ ارتقا میں تقلیبات بار بار اور نہایت کثرت کے ساتھ رونما ہوتی رہیں۔ حیوانات اور نباتات کی رنگا رنگی اور بو قلمونی جو آج اس کثرت کے ساتھ دیکھنے میں آ رہی ہے ان ہی تقلیبات کا نتیجہ ہے اقبال کے اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ اقبال کے نزدیک نبوت کا نظریاتی مظہر اسی حیاتیاتی مظہر کی ہی ایک مختلف اور انسانی مرحلہ ارتقا سے مناسبت رکھنے والی شکل ہے جسے ماہرین حیاتیات نے تقلیبات یا انواع کے فوری تغیرات کا نام دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم قدرت کے مظہر تقلیبات کے اسباب اور اس کی کیفیات کا تجزیہ کر کے اس کے سارے علمی مضمرات اور متضمنات پر حاوی ہو جائیں تو ہم سمجھ سکیں گے کہ اقبال نے تخلیق اور ارتقائے عالم میں رحمتہ للعالمین کے مقام کے متعلق اوپر کے چار شعروں میں جس خیال کا اظہار کیا ہے اس کی علمی اور عقلی بنیادیں کیا ہیں۔
تقلیبات کا سبب خودی کا زبردست جذبہ تکمیل ہے
تقلیبات حیاتیاتی ہوں یا نظریاتی ان کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خودی کی قوت تخلیق (یعنی خدا کے ارادہ تخلیق یا قول کن کی قوت) کائنات کو حالت کمال پر پہنچانا چاہتی ہے جس کی وجہ سے یہ کائنات ہر وقت ایک پیکر خوب تر کی جستجو میں رہتی ہے۔ یہ قوت نہایت ہی زبردست اور بے پناہ ہے اور اپنے ہر کام پر ہر حالت میں غالب آنے والی ہے۔ قرآن حکیم میں ہے۔
واللہ غالب علی امرہ ولا کن اکثر الناس لا یعلمون
(خدا اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے)
پھر قرآن حکیم میں ہے
ما کان اللہ لیعجزہ شی فی السموات والارض انہ کان علیما قدیرا۔
(اور خدا ایسا نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز اس کو عاجز کر سکے وہ علم والا اور قدرت والا ہے)
لہٰذا جب بھی اس قوت کو اپنی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھنے میں کسی مزاحمت یا رکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اپنی پوری طاقت جمع کر کے اس کا مقابلہ کرتی ہے۔ یہاں تک کہ اسے توڑ کر اپنی منزل مقصود کی طرف آگے نکل جاتی ہے۔ زندگی کے اسی وصف کی وجہ سے اقبال نے اسے جوئے کہستان سے تشبیہہ دی ہے کہ وہ بھی جب رکتی ہے تو پہاڑوں کی چٹانوں کو چیر کر آگے نکل جاتی ہے۔
رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ

پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ