رحمتہ للعالمینؐ کی تعلیم کے امتیازات، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

رحمتہ للعالمینؐ کی تعلیم کے امتیازات
ہر گزشتہ نبی کی تعلیم (اور ایک نبی کی تعلیم دراصل کلیتاً اس کی اپنی عملی زندگی کی مثال کے اندر ہوتی ہے اور ا س کے نظریات یا اقوال میں نہیں ہوتی) صحیح تصور حقیقت یعنی خدا کے تصور پر مبنی تھی لیکن رحمتہ للعالمین کے علاوہ کسی نبی کو ایسے تمدنی حالات پیش نہیں آئے کہ وہ اپنی زندگی کی مثال سے یہ بتائے کہ انسان کی قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں میں خدا کے عقیدہ کے لوازمات اور تقاضے کیا ہیں اور کس طرح سے خدا کا عقیدہ ان شعبوں پر چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے ہر نبی کو جن سماجی حالات میں رہنا یا جن واقعات کا سامنا کرنا پڑا وہ اس قسم کے تھے کہ ان کے پیش نظر ایک نبی ہونے کی وجہ سے اسے جو معرفت حق تعالیٰ عطا ہوئی اس کا بہت تھوڑا حصہ اس کی عملی زندگی کے نمونہ میں اپنا اظہار پا سکا۔ ہر نبی اپنی عملی زندگی کی مثال کی روشنی سے انسان کی قدرتی عملی زندگی کے ان پہلوؤں کا رشتہ خدا کے عقیدہ سے واضح کر سکتا تھا جو اس کی قوم کے تمدنی اور اخلاقی حالات کی بنا پر ا سکی توجہ چاہتے تھے اور وہ مجبور تھا کہ انسانی زندگی کے ان پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتا جو ابھی اس کی قوم کے حالات میں رونما نہیں ہوئے تھے اور جن کے بارہ میں ان کو فی الحال خدا کی راہ نمائی کی ضرورت نہ تھی۔ اس طرح سے ہر گزشتہ نبی کے تصور کو انسان کی قدرتی عملی زندگی کے صرف ایک حصہ پر ہی چسپاں کر سکا۔ یہی سبب ہے کہ ماضی کے ہر نبی کے نظریہ حیات نے صرف اس کی قوم کو یا اس کے عہد کو ہی مستفید کیا اور ان کے بعد زیادہ دیر تک اپنی اصلی حالت پر قائم نہ رہ سکا بلکہ ان کتابوں کے اندر بھی جو ان انبیاء پر نازل ہوئی تھیں کچھ عرصہ کے بعد ایسا مواد داخل کر دیا گیا جو نہ تو خدا کا قول تھا نہ نبی کا۔ ان نظریات کی وقتی یا جزوی حیثیت نہ صرف ان کی سرشت سے آشکار ہے بلکہ خود ان کے بانیوں کے ارشادات سے بھی واضح ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ ایک ناتمام نبوتی نظریہ حیات ایک مستقل اور عالمگیر نظریہ حیات نہیں بن سکتا اور نہ ہی اس غرض کے لئے وجود میں آتا ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی خاص قوم کو ارتقائے انسانیت کے ایک خاص مرحلہ کے اندر کام دے سکے اور آئندہ کے نظریاتی ارتقا کی ایک منزل قرار پائے۔ اس کا غیر مکمل ہونا اس کے لئے نا ممکن بنا دیتا ہے کہ ایک محدود عرصہ کے بعد اپنی زندگی قائم رکھ سکے۔
نبی کامل رحمتہ للعالمین جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہ بات درست نہیں کیونکہ ان کو فرستادہ حق کی حیثیت سے جن اخلاقی، ثقافتی، اقتصادی، سماجی، قانونی، سیاسی، جنگی اور جغرافیائی حالات کا سامنا کرنا پڑا ان کی وجہ سے وہ اپنی عملی زندگی کی مثال سے یہ بات واضح کر سکے کہ فرد اور جماعت کی قدرتی عملی زندگی کے اہم شعبوں پر خدا کا عقیدہ کیونکر چسپاں کیا جا سکتا ہے بالخصوص رحمتہ للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کسی نبی کی عملی زندگی کے نمونہ میں ہمیں انسانی زندگی کے جنگی، قانونی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی پہلوؤں کے متعلق (جو یقینا انسان کی زندگی کے نہایت ہی اہم پہلو ہیں) ضروری راہنمائی نہیں ملتی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے متاہل زندگی بسر کی۔ اپنے ساتھیوں کو تیار کیا کہ ان لوگوں کی مخالفت کا مقابلہ کریں جو ان کے پیغام کو مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے۔ خدا پرستوں کی ایک ریاست قائم کی۔ اس کا انتظام کیا اور فوجی کارروائیاں کر کے دشمنوں سے اس کی حفاظت کی اس کے اندرونی اور بیرونی مسائل کو حل کیا اور اس کے سیاسی، قانونی، سماجی، اقتصادی، تعلیمی، اطلاعاتی اور تبلیغی نظامات قائم کئے اور اس کی ایک خارجہ پالیسی وضع کی ہر نظریاتی جماعت کو اپنے نصب العین کی جستجو کے عمل میں اپنی ترقی اور توسیع کے لئے جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور وہ نظریاتی جماعت جو خدا کے صحیح اور مکمل تصور پر مبنی ہو اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی نے اپنی عملی زندگی کی مثال سے اس قدرتی جدوجہد کا نمونہ پیش نہیں کیا۔ جس میں سے مستقبل کی نوع انسانی کو خدا کے تصور پر مبنی ایک ریاست کی صورت میں منظم ہونے، قائم رہنے اور ترقی کرنے اور اس طرح سے عالم انسانی کے ارتقاء کو جاری رکھنے کے لئے لازماً گزرنا ہے اس جدوجہد کا نہایت ہی قیمتی اور روشنی اور ہدایت بخشنے والا نمونہ پہلی دفعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی نے مہیا کیا ہے اور یہی سبب ہے کہ حضور رحمتہ للعالمین ہیں۔
اجتہاد کی حقیقت
جب کوئی نظریہ حیات اسلام کی طرح خدا کے کامل اور صحیح تصور پر مبنی ہو اور خدا کے ایسے تصور کو انسانی قدرتی زندگی کے تمام اہم شعبوں (مثلاً اخلاق، سیاست، معاشیات، قانون، جنگ وغیرہ) پر چسپاں کرتا ہو تو اس کی زندگی یا ترقی کے امکانات کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ گو بعض وقت یہ محسوس کیا جائے کہ اس نظریہ حیات میں انسانی زندگی کے ان شعبوں کے متعلق جو ہدایت ملتی ہے وہ ضروری حد تک مفصل نہیں پھر بھی اس کی زندگی قائم رہتی ہے اور ایک تندرست جسم حیوانی کی طرح جو اپنے جسم کے نسبتاً غیر ضروری حصوں میں کٹے ہوئے گوشت کو اپنے اعضائے رئیسہ کی صحت اور درستی عمل کی وجہ سے دوبارہ پیدا کر لیتا ہے۔ ایسا نظریہ حیات بھی ہدایت کی مطلوبہ تفصیلات کو اپنے اندر سے پیدا کر لیتا ہے اسلام کی اصطلاح میں مطلوبہ تصورات کی اس تخلیق کو اجتہاد کہا جاتا ہے۔
اسلام کی پائیداری کا سبب
چونکہ رحمتہ للعالمین اک عطا کیا ہوا نظریہ حیات خدا کے صحیح اور کامل تصور کو انسانی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر چسپاں کرتا ہے اور لہٰذا نہ صرف اندرونی روح کے لحاظ سے بلکہ بیرونی صورت کے لحاظ سے بھی مکمل ہے اس لئے اسلام نہ صرف زندہ رہے گا بلکہ تمام نظریات پر غالب آئے گا اور دنیا کے کناروں تک پھیل جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی وقت بعض مخالف حالات اس کو مسلمانوں کی عملی زندگی کے کسی پہلو سے خارج کر دیں تو یہ جبراً پھر ان کی زندگی کے اس پہلو میں داخل ہو کر اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جس طرح سے ایک مکمل طور پر صحت مند جسم حیوانی مرض کے خلاف رد عمل کرتا ہے اور اپنی گرتی ہوئی صحت کو بحال کر لیتا ہے اس طرح سے اسلام ہر اس غیر اسلامی تحریک کے خلاف جو اس کے اندر نمودار ہو کر اس کو مغلوب کرنا چاہتی ہے نہایت ہی قوت اور کامیابی کے ساتھ رد عمل کرتا ہے یہاں تک کہ وہ تحریک مٹ جاتی ہے اور اسلام اپنی اصلی حالت پر باقی رہ جاتا ہے کئی صدیوں کے اندر پے بہ پے آنے والے شدید قسم کے حادثات کے باوجود اسلام اور مسولمانوں کا موجود رہنا بے معنی نہیں بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام مٹنے کے لئے بلکہ زندہ رہنے کے لئے وجود میں آیا ہے اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زمان ہمارا
نظریاتی ارتقا کی شاہراہ
نظریاتی ارتقا کا وہ راستہ جو پہلے نبی یعنی حضرت آدم سے براہ راست رحمتہ للعالمین تک جاتا ہے نظریاتی ارتقا کی شاہراہ ہے جس پر ارتقا براہ راست خالق کائنات کے مقصد کے مطابق ہوتا رہا ہے اس شاہراہ کی ہر منزل پر نبوتی نظریہ حیات کی ایک نئی ترقی یافتہ صورت اس کو ماننے والی ایک امت کے سمیت ایک نظریاتی تقلیب کے ذریعہ سے نمودار ہوتی رہی تاہم اس شاہراہ کی مختلف منزلوں سے نظریاتی ارتقاء کے غلط راستے بھی نکلتے رہے۔ جن پر غلط نظریات حیات اور ان کو ماننے والی غلط قسم کی نظریاتی جماعتیں پیدا ہوتی رہیں ان راستوں پر ایک غلط نظریہ سے دوسرا بہتر لیکن غلط نظریہ نکلتا رہا اور اس طرح سے ان پر بھی ارتقا جاری رہا لیکن تھوڑی دور آگے جا کر ختم ہو گیا۔ ارتقا کی شاہراہ سے ہٹ جانے کی وجہ سے اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ ان راستوں میں سے کوئی راستہ بھی ارتقا کی منزل مقصود تک پہنچ سکے گا بلکہ ان راستوں پر ہر منزل نظریاتی ارتقا کی منزل مقصود سے اور دور ہوتی گئی نظریاتی ارتقا کی ان گمراہیوں کی وجہ یہ تھی کہ انبیاء کی امتوں میں بعض ایسے افراد پیدا ہوتے رہے جن کو غلط قسم کا تعلیمی ماحول میسر آیا جس کی وجہ سے نظریاتی تکمیل کے دباؤ نے جو ان کے اندر کام کر رہا تھا ان کی نظریاتی نشوونما کو غلط راستہ پر ڈال دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر غلط نظریہ حیات کو پیش کرنے والا انسان اپنے غلط نظریہ کے کچھ عناصر صحیح نبوتی نظریہ سے لیتا ہے اور اس میں کچھ غلط عناصر کی ملاوٹ کر کے ایک نیا نظریہ پیش کرتا ہے جو حق و باطل کی آمیزش کی وجہ سے کلیتاً باطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہر غلط نظریہ حیات تعلیم نبوت کا خوشہ چین ہے اور اپنی کامیابی کے لئے اس کے اجزاء عناصر کا مرہون منت ہے۔ اگر وہ باطل کے ساتھ حق کی آمیزش نہ کرے تو اس کے اندر کوئی کشش باقی نہ رہے۔ لیکن حق و باطل کی آمیزش کی وجہ سے وہ کلیتاً باطل ہو کر رہ جاتا ہے لہٰذا ناقبول ہوتا ہے۔
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے

شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول