عالم نو کی نقشبندی
توحید کا عقیدہ جب مظاہر قدرت کے علم کے ساتھ یعنی سائنس کے طبیعیاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی حقائق کے ساتھ مل جاتا ہے تو اس کے اندر جاذبیت اور کشش کی ایک ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے جس کا حملہ ہمارے بدترین دشمنوں کو بھی بے بس کر سکتا ہے یہ قوت ایک ایسا آلہ حرب و ضرب بن جاتی ہے جس کا مقابلہ دور حاضر کے بہترین سامان حرب سے بھی ممکن نہیں ہو سکتا کیونکہ اس قوت کا حملہ دشمنوں کے دلوں کو مسخر کر کے ان کو دوست بنا دیتا ہے اور پھر ان میں مقابلہ کی ہمت ہی باقی نہیں رہتی۔ بلکہ وہ اپنا سارا سامان حرب بخوشی حملہ آوروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ گویا اگر عقیدہ توحید سائنس کے ساتھ مل جائے تو وہ ایک ایسا سامان جنگ بن جاتا ہے جس سے ہم دوسروں کو تیغ و تفنگ کے بغیر مغلوب کر سکتے ہیں۔
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ سامان بھی ہے
یہی وجہ ہے کہ اقبال مسلمانوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ سائنس کو عقیدہ توحید کے ساتھ ملحق کر کے ایک پر امن عالمگیر انقلاب پیدا کریں۔ اہل مغرب کے لئے سائنس (زیر کی) زندگی کا سامان ہے۔ اہل مشرق کے لئے خدا کی محبت کائنات کا راز ہے۔ سائنس خدا کی محبت کے ساتھ مل کر حق شناس بن جاتی ہے۔ ورنہ وہ غلطیاں کرتی اور ٹھوکریں کھاتی رہتی ہے۔ دوسری طرف سے دنیا میں خدا کی محبت کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے کا کام یعنی نشر و اشاعت کلمہ توحید جس میں خدا کا سچا عاشق لگا رہتا ہے۔ سائنس کی مدد سے پختہ بنیادوں پر قائم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ جب خدا کی محبت اور سائنس ایک دوسرے کے ساتھ مل جائیں گے تو ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی۔ مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہمت کر کے اٹھے اور سائنس کو خدا کے عقیدہ کے ساتھ بہم کر کے ایک نیا عالمگیر انقلاب پیدا کرے۔
غریباں را زیر کی ساز حیات
شرقیاں را عشق رمز کائنات
زیر کی از عشق گرد و حق شناس
کار عشق از زیر کی محکم اساس
عشق چوں بازیر کی ہمبر بود،
نقشبند عالم دیگر شود،
خیز و نقش عالم دیگر بند
عشق را با زیر کی آمیزدہ
قرآن حکیم میں کئی آیات ایسی ہیں جن میں اسلام کے آخری عالمگیر غلبہ کی زور دار پیشگوئیاں کی گئی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ اگر اسلام کا غلبہ ہونا ہے تو اس کا ذریعہ خود مسلمان قوم ہی بنے گی۔
"ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیرواما بانفسھم"
(بیشک خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے حالات کو نہ بدلیں)
بے خدا سائنس کی مخالفت
یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ اب مغرب کا فکر بھی بے خدا سائنس کے خلاف رد عمل کر رہا ہے۔ پٹی رمی سوروکن (Pitirim Sorokin) جو ہارورڈ یونیورسٹی میں سوشیالوجی کا پروفیسر رہا ہے۔ اپنی کتاب ’’ ہمارے دور کا بحران‘‘ (The Crisis of our Age) میں لکھتا ہے:
’’ مذہب اور سائنس کی موجودہ مناقشت خطرناک ہی نہیں غیر ضروری بھی ہے۔ اگر حقیقت کے صحیح اور مکمل نظریہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو پھر وہ دونوں ایک ہی ہیں اور ایک ہی مقصد کو پورا کرتے ہیں اور وہ مقصد یہ ہے کہ خدا کی صفات کو عملی دنیا میں بے نقاب کیا جائے تاکہ انسان کی شرافت اور خدا کی عظمت دونوں آشکار ہوں۔‘‘
اسی طرح سے فیلڈ مارشل سمٹس (Field Marshall Smuts) جو فلسفہ کی ایک نہایت ہی عمدہ اور اونچی کتاب ’’ کلیت‘‘ (Holim) کا مصنف ہے، لکھتاہے:
’’ سچائی کی بے لوث جستجو میں اور نظم اور حسن کے مشاہدہ کے ذوق کے اعتبار سے سائنس آرٹ اور مذہب کے بعض اوصاف و خواص سے حصہ لیتی ہے۔ یہ کہنا قرین انصاف ہو گا کہ شاید سائنس دور حاضر کے لئے خدا کی ہستی کا واضح ترین انکشاف ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مستقبل میں نوع انسانی جو بڑے بڑے کام انجام دے گی۔ ان میں ایک یہ ہو گا کہ وہ سائنس کو اخلاقی قدروں کے ساتھ ملحق کرے گی اور اس طرح سے اس بڑے خطرہ کو دور کرے گی جو اس وقت ہمارے مستقبل کو در پیش ہے۔‘‘
لیکن حقیقت کا صحیح اور مکمل نظریہ جس کی روشنی میں سوروکن کے خیال میںمذہب اور سائنس ایک نظر آتے ہیں فقط مسلمان قوم کے پاس ہے۔ کیونکہ خدا کا اسلامی تصور خالص اور شرک کی تمام آلائشوں سے پاک ہے۔ دنیا میں اسلام کے سوائے کوئی اور مذہب ایسا نہیں جو خدا کے تصور کی پاکیزگی پر اتنا زور دیتا ہو۔ پھر خدا کے اسلامی تصور میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مظاہر قدرت جن کا مشاہدہ اور مطالعہ سائنس دان کا کام ہے۔ خدا کی ہستی اور صفات کے نشانات ہیں اور خدا کی صفات ان کے اندر آشکار ہیں۔ مظاہر قدرت کا علم جسے سائنس کہتے ہیں خدا کے اسلامی تصور سے الگ نہیں ہو سکتا۔ یہ حقائق اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ خدا اور خدا کے تصور سے پیدا ہونے والی اخلاقی اقدار کو سائنس کے ساتھ ملحق کرنے کا عظیم الشان کام جو فیلڈ مارشل سمٹس کے خیال کے مطابق نوع انسانی آئندہ انجام دینے والی ہے۔ صرف مسلمانوں کے ہاتھ سے ہی انجام پا سکتا ہے۔
نقش ناتمام
اگر ہم مسلمانوں کے دینی، علمی، اخلاقی اور سیاسی انحطاط کے اسباب کا تجزیہ کریں تو ان میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ بنیادی سبب یہی نکلے گا کہ انہوں نے اپنی تعلیم کے لئے بے خدا سائنس کو اپنا لیا ہے۔ لہٰذا اس سبب کے ازالہ سے ان کا انحطاط زائل ہو سکتا ہے اور قرآن کی پیشگوئیوں کے مطابق ان کے عالمگیر غلبہ کے لئے راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان قوم کا یہ رول مقدر ہے کہ وہ اپنی یونیورسٹیوں میں سائنسی علوم کی نصابی کتابوں میں خدا اور سائنس کا الحاق کر کے اپنے دینی جذبہ کے احیاء اور عقیدہ توحید کے نشر و اشاعت کا سامان پیدا کریں گے۔ دراصل ہمارے نظریہ حیات کی ممکنات کے اندر ہی اس بات کی شہادت موجود ہے کہ ہم مستقبل کے اس عالمگیر انقلاب کا باعث بنیں گے جس کی تمنا اقبال نے کی ہے۔ تاہم جب تک کہ نوع انسانی سائنس کو خدا کے عقیدہ کے ساتھ ملحق نہیں کرے گی اس وقت تک وہ اپنے کمال کی جانب جو اس کی منزل مقصود ہے قدم نہ اٹھا سکے گی اور نقاش ازل کا نقش یعنی انسان جس کی تکمیل کے لئے اسے یہ ہنگامہ عالم برپا کیا ہے نامکمل رہے گا کیونکہ عقل اور عشق دونوں مل کر ہی انسان کی تکمیل کر سکتے ہیں۔ جب دونوں مل جائیں گے تو نہ عقل بے زمام رہے گی اور نہ عشق اپنے مقام سے محروم رہے گا اور جب تک دونوں الگ الگ رہیں گے اس وقت تک نہ عقل اپنا صحیح راستہ پا سکے گی اور نہ ہی عشق اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے گا۔
عقل ہے بے زمام ابھی عشق ہے بے مقام ابھی
نقش گر ازل ترا نقش ہے ناتمام ابھی
٭٭٭