خودی اور ذکر
ذکر۔ خودی کی ایک بنیادی ضرورت
خودی حق تعالیٰ کی صفات کے حسن و کمال پر غور و فکر کر کے اپنے جذبہ حسن کو مطمئن کرنے کے لئے مظاہر قدرت کو ہی نہیں بلکہ لغت کو ان الفاظ کو بھی خدا کی صفات کی علامات کے طور پر کام میں لاتی ہے جو خدا کی صفات کے لئے مستعمل ہیں۔ قرآن حکیم نے ان الفاظ کو اسماء حسنیٰ یعنی حسین نام کہا ہے۔
بندہ مومن ان الفاظ کے مفہوم کو ذہن میں رکھ کر زبان اور دل سے بار بار ان کا اعادہ کرتا ہے اور اس عمل کے دوران اپنی توجہ اس حسن و کمال پر مرتکز کرتا ہے۔ جس کا یہ مفہوم آئینہ دار ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اس طریق سے حسن کے باطنی مشاہدہ اور مطالعہ سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اس کی ثروت اور گہرائی سے آشنا ہوتاہے۔ جستجوئے حسن کی اس شکل کو ذکریا عبادت کہا جاتا ہے، اگرچہ لفظ عبادت کا مفہوم وسیع ہے اور انسان کی زندگی کے تمام اعمال کو عبادت میں شمار کیا جاتا ہے لیکن محدود معنوں میں عبادت کی اصطلاح ذکر کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے بھی برتی جاتی ہے۔ ذکر انسان میں محبت کا سوز بڑھاتا ہے یہاں تک کہ اس سوز سے وہ شعلہ کی طرح روشن ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں کو ایک ایسے مرد خدا کی ضرورت ہے جس کے دل میں کثرت ذکر سے خدا کی محبت کا شعلہ روشن ہو گیا ہو اور جس کا ذہن فکر کی سرعت میں بجلی سے بھی زیادہ تیز ہو۔ پھر وہ دنیا کو خدا کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لئے ایک قیامت برپا کر سکتا ہے۔
اے حلقہ درویشان وہ مرد خدا کیسا
ہو جس کے گریبان میں ہنگامہ رستا خیز
جو ذکر کی گرمی سے شعلہ کی طرح روشن
جو فکر کی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز
آدھی رات کے بعد سے لے کر صبح تک ذکر میں مشغول ہونا جس کی تحسین قرآن حکیم نے
تنجا فی جنوبھم عن المضا
کے الفاظ سے کی ہے خودی کے مقصد کے لئے زیادہ مفید اور موثر ہوتا ہے کیونکہ اس وقت خاموشی اور تنہائی اور خدا کی خاص رحمت کے نزول کی وجہ سے خودی ذکر پر اپنی توجہ زیادہ آسانی سے مرکوز کر سکتی ہے۔ جذبہ محبت خودی کو پارہ کی طرح بے قرار رکھتا ہے۔ لیکن ذکر نیم شبی اس کو اس طرح سے قرار اور جمعیت خاطر بخشتا ہے جس طرح چوب عود پارہ کو ساکن کر دیتی ہے۔
بذکر نیم شب جمعیت او
چون سیمابے کہ بند و چوب عودش
گویا ذکر یا عبادت کوئی لسانی یا صوتی مشق نہیں بلکہ خودی یا روح کی ایک داخلی جدوجہد ہے جو حسن کے احساس سے پیدا ہوتی ہے اور جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حسن کا قریبی مشاہدہ کر کے اس احساس کو او رگہرا کیا جائے۔ یہاں تک کہ انسان کی محبت اپنے کمال کو پہنچے وہی ذکر محبت کی پوری نشوونما کر سکتا ہے جو حسن کے سچے احساس سے پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنے کلام میں بار بار ذکر اور عبادت کے اخلاص پر بڑا زور دیا ہے۔
لالہ گوئی بگو از روئے جان
ناز اندام تو آید بوئے جان
تو عرب ہو یا عجم ہو ترا الا الہ الا
لغت غریب جب تک تیرا دل نہ دے گواہی
صدف ایمان کا گوہر
چونکہ مخلصانہ ذکر سے رفتہ رفتہ غیر اللہ کی محبت گھٹتی اور اللہ کی محبت بڑھتی جاتی ہے اس کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مومن کے لئے بے حیائی اور نافرمانی کا ارتکاب غیر ممکن ہو جاتا ہے اس لئے اسلام نے ذکر کی ایک خاص اقل قلیل صورت جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور عمل سے معین ہوتی ہے اور جسے صلاۃ یا نماز کہا جاتا ہے۔ ہر مسلمان پر لازم قرار دی جاتی ہے۔ نماز وہ گوہر ہے جو ایمان کے صدف میں پرورش پاتا ہے اور اس لحاظ سے مومن کا گویا چھوٹا حج ہے کہ اس میں مومن قلبی اور ذہبی طور پر بیت اللہ کا طواف کرتا ہے نماز مسلمان کے ہاتھ میں ایک خنجر کی طرح ہے جو بے حیائی، بد اخلاقی اور نافرمانی کا قلع قمع کرتی ہے۔
لا الہ باشد صدف گوہر نماز
قلب مسلم را حج اصغر نماز
در کف مسلم مثال خنجر است
قاتل فحشاء و یخی و منکر است
لیکن نماز مومن کے لئے صرف اتنے ہی ذکر کا اہتمام کرتی ہے جو ذکر سے اس کی محبت پیدا کرنے اور مخلصانہ ذکر کی عادت کو راسخ کرنے کے لئے کم از کم درکار ہے۔ اس کے ذریعہ سے مومن کی خودی کو ذکر کی وہ تمام غذا میسر نہیں آتی جو اس کی اشتہائے حسن کو پوری طرح مطمئن کر کے اس کی پوری پوری نشوونما کر سکتی ہو۔ لہٰذا قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ مومن نماز کے بعد بھی کثرت سے خدا کا ذکر کرتا رہے۔ نماز میں بھی احساس حسن (جسے اقبال جذب اندروں کہتا ہے) نہ ہو تو نماز کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا اقبال کا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کے انحطاط کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ان میں یہی احساس حسن یا خدا کی مخلصانہ محبت کا جذبہ باقی نہیں رہا آج اگر ہم ان کی نماز کو دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ نہ تو صفیں ذوق و شوق کے ساتھ درست کی ہوئی ہیں۔ نہ دل نماز پر جما ہوا ہے اور نہ ہی سجدہ میں کوئی لذت محسوس کی جا رہی ہے اس لئے کہ دلوں میں خدا کی محبت باقی نہیں رہی۔
صفیں کج دل پریشاں سجدہ بے ذوق
کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے
٭٭٭
وہ سجدہ روح زمین جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
سنی نہ مصر و فلسطین میں وہ اذان میں نے
دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشہ سیماب
٭٭٭
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ
٭٭٭
اقبال کو شکایت ہے کہ خدا کی سچی محبت کی طرف بلانے والے اب نہ مسجدوں میں ہیں نہ خانقاہوں میں اور نہ مدرسوں میں اور اب تنہا وہی ہے جو اس کی طرف سب کو دعوت دے رہا ہے۔ صوفیوں اور معلموں کے کدو خدا کی محبت کی خالص شراب سے خالی ہیں۔ اب اگر یہ شراب ناب کہیں ملتی ہے تو اقبال کے سبو چہ میں۔
میرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانہ میں
کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو
٭٭٭
مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادہ ناب
نہ مدرسہ میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے
٭٭٭
جلوتیاں مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق
خلوتیاں میکدہ کم طلب و تہی کدو
احساس حسن یا جذب اندرون یا خدا کی محبت ہی ایمان ہے۔ یہی دل کے مسلمان ہونے کی علامت ہے کوئی مسلمان ہو۔ یہ با ت کہنے والا ہو یا سننے والا ہو جب تک اس کا دل مسلمان نہ ہو گا۔ اس وقت تک اس کی نماز بے فائدہ رہے گی۔ آج مسلمان کا دل مسلمان نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی نماز بے نتیجہ ہے۔
میں بھی نمازی تو بھی نمازی
دل ہے مسلمان میرا نہ تیرا،
جذب مسلمانی
اس احساس حسن کو اقبال جذب مسلمانی بھی کہتا ہے کیونکہ یہ مسلمان کا خاص امتیاز ہے اور اسے شرع مسلمانی سے ممیز کرتا ہے۔ شرع مسلمانی تو یہ ہے کہ مسلمان نماز کو اس کے ظاہری آداب کے ساتھ ادا کر دے اور جذب مسلمانی یہ ہے کہ مسلمان جب نماز ادا کرے تو خدا کے حسن و کمال کا سچا احساس یا عشق اس کی نماز کا رفیق ہو۔ یہی احساس حسن یا جذب مسلمانی اقبال کے نزدیک سر کائنات ہے کیونکہ اسی کی خاطر کائنات پیدا کی گئی ہے اور یہی انسان اور کائنات کو معراج کمال پر پہنچانے کا ذریعہ بننے والا ہے۔ یہی مومن کے تمام اعمال و افعال کی قوت محرکہ ہے جس کے بغیر مومن کے لئے صحیح قسم کے عمل کی راہ پیدا نہیں ہوتی۔ یہی وہ چیز ہے جو یقین یا ایمان کی شاخ کو زندہ سبز یا نمناک رکھتی ہے۔
اک شرع مسلمانی اک جذب مسلمانی
ہے جذب مسلمانی سر فلک الافلاک
بے جذب مسلمانی اے رہرو فرزانہ
نے راہ عمل پیدا نے شاخ یقین نمناک
شریعت اسی احساس حسن یا عشق یا خدا کی محبت کے اظہار کے معین طریقوں کا نام ہے۔ اگر احساس حسن یا عشق مفقود ہو تو نماز ہی نہیں بلکہ ساری شریعت ایسے تصورات کا ایک مجموعہ بن جاتی ہے جن کا مقصد خدا طلبی یا خدا شناسی نہیں ہوتا بلکہ جو خدا کی بجائے خود مطلوب اور معبود بن جاتے ہیں اور لہٰذا بتوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
عقل و دل نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدہ تصورات
اقبال ذکر کو کبھی آہ سحر گاہی کہتا ہے اور کبھی فغاں صبحگاہی او رکبھی آداب سحر خیزی کا نام دیتا ہے۔ جب تک انسان غیر اللہ کی محبت میں گرفتار رہتا ہے وہ اپنی آرزوئے حسن کی مکمل تشفی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ آرزو سوائے خدا کے اور کسی چیز سے مطمئن نہیں ہوتی اس وقت تک نہ تو اس کی شخصیت اپنے کمال کو پاتی ہے اور نہ ہی وہ مکمل طور پر اطمینان قلب سے بہرہ ور ہو سکتا ہے لیکن انسان ذکر کے بغیر خدا کی محبت کا وہ مقام حاصل نہیں کر سکتا جہاں وہ غیر اللہ کی محبت سے بے نیاز ہو جائے۔
نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں
خرد کھوئی ہوئی ہے چار سو میں
نہ چھوڑ اے دل فغان صبح گاہی
امان شاید ملے اللہ ہو میں
٭٭٭
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
یہی وجہ ہے کہ اقبال نے خود بھی ذکر نیم شبی کو اپنا شعار بنایا جس کو لندن کے جاڑے کی نہایت سرد ہوا بھی ترک نہ کروا سکی۔
زمستانی ہوا میں گو کہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹا مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
ذکر کے بغیر فکر نہ کامل ہوتا ہے اور نہ اپنے مقصد کو پا سکتا ہے ذکر اور فکر کو ساتھ ساتھ رہنا چاہئے۔
فقر قرآن اختلاط ذکر و فکر
فکر را کامل نہ دیدم جز بہ ذکر