مقصودِ مکتب، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

مقصود مکتب

اس دور میں مسلمانوں نے بھی اپنی تاریخ اور روایات اور قرآن کے ارشادات کو فراموش کر کے عیسائی مغرب کی کورانہ تقلید میں مغرب کی بے خدا سائنس کو جسے اقبال ’’ اندیشہ لادین‘‘ کہتا ہے اپنا لیا ہے اس وقت تمام عالم اسلامی میں مسلمانوں کے مدرسے اور کالج اور یونیورسٹیاں بے خدا سائنس کی درس و تدریس میں مصروف ہیں۔جس کی وجہ سے پورے عالم اسلامی میں نوجوان تعلیم یافتہ افراد اسلام سے دور اور دور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اقبال اس صورت حال پر بار بار اظہار افسوس کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمیں مدرسہ اور کالج میں خدا کا عقیدہ پھر اپنے مقام پر واپس لانا چاہئے۔ تعلیم کا تو مدعا ہی یہ تھا کہ خودی کو اپنی زندگی کے ایک ہی مقصد کی تکمیل کے لئے سہولتیں بہم پہنچائی جائیں اور یہ مقصد علم اور عمل کے ذریعہ سے خدا کی محبت کے جذبہ کی آزادانہ نشوونما اور تسکین اور تشفی ہے۔ اقبال کو افسوس ہے کہ مکتب کو اپنے مقصود کا ہی علم نہیں۔ جبھی تو وہ خدا کی محبت (جذب اندروں) کی پرورش کا راستہ اختیار نہیں کرتا۔
مکتب از مقصود خویش آگاہ نیست
نا بجذب اندردنش راہ نیست
خدا کی محبت کی شراب (مے یقین) ہی زندگی میں سوز یا گرمئی عمل پیدا کر سکتی ہے۔ خدا کرے کہ توحید کاعقیدہ نظام تعلیم کی بنیاد بنے تاکہ یہ گرمی پیدا کرنے والا آگ کی طرح کا پانی مدرسہ کو بھی نصیب ہو۔
مے یقین سے ضمیر حیات ہے پر سوز
نصیب مدرسہ یا رب یہ آب آتشناک
دور حاضر کے مکتب کا بے خدا نظام تعلیم طالب علم کو اس قابل نہیں رہنے دیتا کہ وہ عمر بھر خدا کا نام لے سکے۔ یہ ایسا ہی جیسے کہ کسی کا گلا گھونٹ دیا جائے کہ پھر اس سے لا الہ الا اللہ کی صدا نہ نکل سکے۔
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
مغربی نظام تعلیم جو اب مشرق میں بھی رائج ہے۔ اس اصول پر مبنی ہے کہ طالب علم کو کسی عقیدہ کی تعلیم نہیں دینی چاہئے تاکہ اس کی عقل آزاد رہے اور اس میں خود ہر بات پر غور و فکر کر کے اسے رد یا قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ اگر استاد کی طرف سے اس پر کوئی عقیدہ ٹھونسا گیا تو پھر اس کی سوچ بچار ایک تنگ دائرہ کے اندر مقید ہو جائے گی لیکن اس اصول پر عمل کرنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ طالب علم کی عقل تو آزاد ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ اس کے خیالات کا کوئی مرکز یا محور نہیں بنتا وہ بغیر کسی ضبط یا نظم کے رہ جاتے ہیں۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ طالب علم کے اندر اس عقیدہ کو پیدا کیا جاتا اور پختہ کیا جاتا جو اس کی فطرت کے عین مطابق ہے اور جس کے لئے اس کی فطرت پیاسی ہے۔ یعنی خدا کا عقیدہ ایسی حالت میں اس کے ذہن پر کوئی خارجی اور مصنوعی دباؤ نہ پڑتا بلکہ وہ اپنی فطری آزادی کو حاصل کر لیتا اور اس کو غلام بنانے والے یا اس کی فطرت سے ہٹانے والے تمام تصورات خارج از بحث ہو جانے اور اس کے ساتھ ہی اس کے خیالات ک اندر ایک ربط یا نظم بھی پیدا ہو جاتا۔ کیونکہ پھر یہ عقیدہ اس کے تمام خیالات کا مرکز یا مدار بن جاتا اور وہ ان کو اپنے اس عقیدہ کو روشنی میں دیکھ سکتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں ایسے نظام تعلیم کے پیدا کئے ہوئے تعلیم یافتہ افراد کے دلوں میں خدا کی محبت مردہ ہوتی ہے اور اگر مشرق میں ایسے نظام تعلیم کے باوجود خدا کی محبت پھر بھی زندہ رہتی ہے تو مکتب کی راہ نمائی نہ ہونے کی وجہ سے مکتب جو خیالات اور افکار طالب علم کے ذہن میں پیدا کرتا وہ خدا کے عقیدہ کے ساتھ ملحق نہیں ہوتے اور ان میں کوئی فطری ربط نہیں ہوتا اور وہ مغرب کے گوناگوں غیر فطری عقائد کے تصرف میں آ جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں عقل مغرب کی غلامی کی وجہ سے غلط طریق پر کام کرتی ہے اور غلط سمت میں سوچتی ہے۔
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر،
چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
مردہ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق
عقل بے ربطے افکار سے مشرق میں غلام
اگرچہ خدا کا عقیدہ انسان کی فطرت ہے۔ تاہم یہ مشت خاک انسان اس طرح سے بنا ہے کہ اگر اس کی مناسب قسم کی تعلیم و تربیت نہ ہو تو وہ اپنی فطرت کو سمجھنے میں ٹھوکریں کھاتاہے اورغلط اور ناقص تصورات کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے۔ اگر ہمارا خیال یہ ہو کہ اگر ہم طالب علم کو آزاد رہنے دیں تواس کے دل میں خدا کی محبت خود بخود پیدا ہو جائے گی اس لئے کہ یہ اس کی فطرت ہے تو یہ خیال درست نہیں۔ خدا کے عشق کی آتش ہمہ سوز خودی کی مناسب پرورش اور تربیت کے بغیر روشن نہیں ہوتی۔ صوفیا کا قول ہے کہ خدا کی محبت ایک آگ ہے جو ماسویٰ اللہ کو جلا دیتی ہے۔
خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف
کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز
خدا کے عقیدہ کو کالج کے سائنسی علوم سے نکال دینا ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی شخص اپنا گھر روشن دیکھنا چاہتا ہو لیکن ایک بڑی سی دیوار بنا کر سورج کی روشنی کو مسدود کر دے۔ پروفیسر ایک عمارت گیر ہے اور جو عمارت وہ تعمیر کر رہا ہے وہ روح انسانی ہے، حکیم قا آنی نے ایک عمدہ بات کہی ہے۔ جو پروفیسر کو مدنظر رکھنی چاہئے کہ اگر اپنے گھر کے صحن کو روشن رکھنا چاہتے تو صحیح عمارت گری یہ ہے کہ سورج کے سامنے دیوار کھڑی نہ کرو۔
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی
نکتہ دلپذیر تیرے لئے
کہہ گیا ہے حکیم قا آنی،
پیش خورشید برمکش دیوار
خواہی از صحن خانہ نورانی
متاع دین و دانش کازیاں
پھر بھی ہم یہ تمنا رکھتے ہیں کہ ہماری نئی نسلیں صحیح طور پر مسلمان ہوں۔ گویا ہم بے خدا سائنس کے روح فرسا نتائج اور اثرات سے بالکل بے خبر ہیں۔ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو بلند ترین کتابوں کے ذریعہ سے یہ بتائیں کہ علم اخلاق، علم سیاست، علم اقتصادیات، علم تعلیم، علم قانون وغیرہ میں خدا کہیں نہ آتا ہے اور نہ آ سکتا ہے اور پھر یہ توقع رکھیں کہ ان نوجوانوں کی اخلاقی، سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور قانونی سرگرمیاں باخدا ہوں گی لہٰذا اقبال تنبیہہ کرتا ہے کہ اس بے خدا سائنس کی تعلیم کو بے خطر نہ سمجھو۔ اس سے تمہاری پوری قوم کی روح فنا ہو رہی ہے۔
مشو ایمن ازران علمے کہ خوانی،
کہ ازوے روح قومے راتواں کشت
ہمارے کالجوں کی بے خدا سائنس کی تعلیم کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم مغربیت اور جدیدیت کے کافر ادا معشوق کے خونریز غمزوں پر ایسے مرمٹے ہیں کہ ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ اس طرح سے ہم نے دین کی متاع کو ہی نہیں بلکہ دانش (یعنی سچی باخدا سائنس) کی متاع کو بھی لٹا دیا ہے۔ حالانکہ اللہ والوں کی حیثیت سے دین اور دانش کی دونوں نعمتیں ہمارے لئے ہی مخصوص تھیں۔
متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزہ خونریز ہے ساقی
غیروں کی تربیت دی ہوئی اور غیروں کے نظریہ کائنات میں رنگی ہوئی بے خدا سائنس کا پڑھنا اور پڑھانا ایسا ہی ہے جیسے اپنے منہ کو غیروں کے تیار کئے ہوئے غازہ کے استعمال سے خوبصورت بنانے کی کوشش کرنا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنی قدر و قیمت کو دوسروں کے شعار کی نقل پر موقوف سمجھتے ہیں یہاں تک کہ ہم اپنے قومی امتیازات کو بالکل کھو چکے ہیں۔ ہماری عقل دوسروں کے خیالات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اور خود آزادی سے کچھ نہیں سوچ سکتی۔ ہماری ذہنی اور ثقافتی زندگی کا ہر سانس دوسروں کا محتاج ہو گیا ہے۔ ہماری زبانوں پر ایسی گفتگو ہے جو دوسروں سے مانگی ہوئی ہوتی ہے اور ہمارے دلوں میں ایسی آرزوئیں ہیں جو دوسروں سے مستعار لی ہوئی ہیں۔ اقبال اس صورت حال پر افسوس کرتے ہوئے لکھتا ہے:
علم غیر آموفتی اندوختی
روئے خویش از غازہ اش افروختی
ارجمندی از شعارش مے پری
من ندانم تو توئی یا دیگری،
عقل تو زنجیری افکار غیر
در گلوئے تو نفس از تار غیر
بر زبانت گفتگو ہا مستعار
در دل تو آرزوہا مستعار
تا کجا طوف چراغ محفلے

ز آتش خود سوز اگر داری دلے