آرزوئے حسن اور علم کا باہمی تعلق، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ


آرزوئے حسن اور علم کا باہمی تعلق
اوپر میں نے ایک اصطلاح "علمی حقیقت" استعمال کی ہے اس اصطلاح کا مفہوم واضح کرنے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے کہ علم حقیقت کیا ہے اس کے حصول کے لیے خدانے ہمین کون سی استعداد دی ہے اور وہ کس طرح سے اپنا کام کرتی ہے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ نہ صرف پوری کائنات ایک وحدت ہے بلکہ  کائنات کی ہر چیز جسے ہم جانتے ہیں یا جان سکتے ہیں ایک وحدت ہے یا کم از کم ہم اسے ایک وحدت کی حیثیت سے ہی جان سکتے ہیں اور کسی حیثیت سے نہیں جان سکتے۔ اگر وہ ایک وحدت نہ بن سکے تو ہم اسے جان ہی نہیں سکتے۔ اور وہ ہمارے لیے قطعاً بے معنی ہو جاتی ہے۔ ایک وحدت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ معنی خیز ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اسے جان سکتے ہیں۔ اگر وہ معنی خیز نہ ہو تو نہ وہ ایک وحدت بن سکتی ہے اورنہ ہی ہم اسے جان سکتے ہیں۔ کئی چھوٹی چھوٹی وحدتیں مل کر ایک بڑی وحدت بناتی ہیں اور پھر کئی بڑی بڑی وحدتیں مل کر اس سے بھی بڑی وحدتیں بناتی ہیں۔ یہاں تک کہ ہم سب سے بڑی وحدت یعنی پوری کائنات پر پہنچ جاتے ہیں کہ کوئی بڑی وحدت چند چھوٹی وحدتوں کا ایک مجموعہ ہی نہیں ہوتی بلکہ ایک کل(Whole)کی صورت میں ہوتی ہے جو ہمیشہ اپنے اجزا یا عناصر سے بڑھ کر ہوتا ہے اور جس کی تشریح یا تفہیم اس کے اجزا یا عناصر سے نہیں ہو سکتی۔ جیسے ایک جسم حیوانی کو وہ فقط چند اعضا کے مجموعے کا نام ہے یا جیسا کہ ایک خوبصورت شاہکار ہنر جس کی دلکشی اس کے اجزا پر نہیں بلکہ ایک مجموعی کیفیت پر موقوف ہوتی ہے جو اجزا کی ترکیب کا ایک پراسرار نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی وحدت کو جاننے کے لیے قدرت نے جو ہمیں استعداد بخشی ہے وہ ہماری آرزوئے حسن ہے جسے اقبال عشق بھی کہتا ہے ۔ آرزوئے حسن جب جاننے کے کام میں لگی ہوتی ہے تو اسے ہم عام طور پر وجدان کانام دیتے ہیں۔ کسی وحدت کے وجدان  ایک احساس یا اعتقاد کی صورت میں ہوتا ہے ہمارا تما م علم فقط وجدانی تصورات یا اعتقادات کے ایک سلسلہ یا مجموعہ کی شکل اختیار کرتا ہے اور ہمارے علم کے درست یا غلط ہونے کا سارا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے یہ اعتقادات درست ہیں یا غلط۔
حواس اور عقل دونوں آرزوئے حسن یا وجدان کے مددگارہیں
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم حواس یا عقل کے ذرائع سے بھی جانتے ہیں اور اپنی علمی جستجو میں سائنس دان کادارومدار زیادہ تر حواس پر ہوتا ہے اور فلسفی کا عقل پر‘ لیکن دراصل حوا س اور عقل دونوں ہماری آرزوئے حسن یا ہمارے وجدان کے مددگار ہیں یہ خود نہ وحدتوں کو جانتے ہیں اورنہ جان سکتے ہیں بلکہ وجدان ان کی مدد سے وحدتوں کو جانتا ہے اس میں شک نہیں کہ وجدان غلطی بھی کرتا ہے لیکن غلطی کے بغیر جانتا بھی وہی ہے اسی لیے طالبان علم و صداقت کی حیثیت سے اور معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے انسانوں کی حیثیت سے بھی وجدان کے بغیر ہمارا چارہ نہیں۔
اس وقت میں جس کمرہ میں ہوں وہاں کمرہ کے دوسرے سرے پر میرے سامنے دور سبز رنگ کی ایک دیوار کے ساتھ ایک کرسی پڑی ہے۔ لیکن یہ بات کہ وہ کرسی ہے میرا وجدانی نتیجہ ہے جو ایک احساس یا اعتقاد کی صورت میں ہے۔ میرا مشاہدہ ہرگز نہیں کہ میں کرسی کو نہیں دیکھ رہا بلکہ رنگ کی اس کیفیت کو دیکھ رہا ہو جو میرے وجدان یا اعتقاد کی دخل اندازی کے بغیر بے معنی ہوتی ہے اگر میں کہوں کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ ایک کرسی ہےتو یہ بات قطعاً غلط ہو گی۔ لیکن اگر میں کہوں کہ جو کچھ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اس کی بنا پر میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ وہ ایک کرسی ہے تو یہ بات صحیح ہو گی۔ میرا یہ نتیجہ کہ وہ ایک کرسی ہے غلط بھی ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ایک کرسی نہ ہو بلکہ کرسی کے پیچھے والی سبز دیوار پر ایک ماہر نقاش کابنایا ہوا نقش ہو۔ اگرچہ میں نے س کل یا وحدت پر ایسے میں ایک کرسی کہہ رہا ہوں اپنے وجدان یا اپنی آرزوئے حسن کو کام میں لا کر پورا غو ر و فکر کیا ہے اور اپنی عقل سے اس کی اندر کی چھوٹی چھوٹی وحدتوں کے باہمی تعلق کا پورا جائزہ لیا ہے ور میرا وجدان اس اعتقاد پر پہنچا ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی وحدتیں مل کر جس بڑی وحدت کو بناتی ہیں وہ ایک کرسی ہی ہو سکتی ہے۔ ایک نقش نہیں ہو سکتی۔ تاہم غلطی کا امکان موجود ہے۔ مین پوری کرسی کو نہیں دیکھ رہا ہوں بلکہ صرف کرسی کے اوپر کی اس سطح کودیکھ رہا ہوں جس کا رخ میری طرف ہے ۔ اور دراصل میں اس سطح کو بھی نہیں دیکھ رہا بلکہ رنگ کی ایک بے معنی کیفیت کو دیکھ رہا ہوں۔ میرا یہ نتیجہ کہ رنگ کی یہ کیفیت کسی کرسی کی سطح کا ایک حصہ ہے اور پھر یہ نتیجہ کہ یہ کرسی کا ایک حصہ ہی نہیں بلکہ پوری کرسی ہے فقط ایک اندرونی احساس یا اعتقاد ہے جسے پیدا کرنے کے لیے میرے مشاہدہ کی شہادت ناکافی ہے یہی وجہ ہے کہ گو ہمارے حواس اپنا پورا کام کر رہے ہوتے ہیں ہم بار بار اپنے وجدان کی غلطیوں کا شکارو ہوتے رہتے ہیں یہی حال ہمارے تمام حسی تجربات کا ہے خواہ ان کا ذریعہ دیکھنا ہو یاسننا یا چکھنا یا سونگھنا یاچھونا‘ ان میں سے کوئی بھی میرے وجدان کے بغیر اور ایک  وحدت کی صورت اختیار کیے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا۔ قرآن حکیم نے حضرت سلیمان اورایک سورج پرست ملکہ کا قصہ بیان کرتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے :
"قیل لھا دخلی الصرح فلماراتہ حسبتہ لجتہ و کشفت عن ساقیھا انہ صرح ممرد من قواریر قالت رب انی ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمان للرب العلمین"
اس (سورج پرست ملکہ) کو کہا گیا کہ محل میں داخل ہو جائیں جب اس نے محل (کے فرش) کو دیکھا تو اسے گما ن ہوا کہ وہ پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا سمیٹ لیا (تاکہ بھیگ نہ جائے) حضرت سلیمان نے کہا کہ یہ محل تو شیشہ کا بنا ہوا ہے ۔ اس پر ملکہ نے کہا ’’اے میرے پروردگارمیں اپنی جان پر ظلم کرتی رہی ہوں اور میں سلیمان کی طرح اللہ رب العلمین پر ایمان لاتی ہوں۔‘‘
رب العالمین پر ایمان لانے کے لیے تو حضرت سلیمان کا پیغام پہلے ہی پہنچ چکا تھا ملکہ نے دیکھا کہ کوئی تعجب نہیں کہ جس طرح وہ شیشہ کو پانی سمجھ رہی تھی وہ اپنے معبود حقیقے کے بارے میں بھی غلطی کا ارتکاب کر رہی ہو اور غلطی سے  ہی سورج کو خدا سمجھ رہی ہو لہٰذا اس نے فوراً اپنے ایمان کا اعلان کیا ۔

اس قصہ کا ایک مقصد یہ بتانا ہے کہ نبوت انسان کی عملی زندگی کے لیے بنیادی اہمیت رکھنے والے حقائق کے بارہ میں انسان کو وجدان کی غلطیوں سے بچانے کے لیے قدرت کا ایک انتظام ہے۔