عقل کا وظیفہ، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

عقل کا وظیفہ
جسے ہم عقل کہتے ہیں اس کا کام فقط یہ ہے کہ وجدان جن وحدتوں کو قبول کر چکا ہوتا ہے وہ ان کے باہمی تعلق کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ اس تعلق کی روشنی میں وجدان ایک اور بڑی نامعلوم وحدت کو معلوم کرے جو ان معلوم وحدتوں کے مطابقت رکھتی ہو اور جس کے عناصر یا اجزا یہ وحدتیں ہوں یا ایسی بہت سی چھوٹی چھوٹی نامعلوم وحدتوں کو معلوم کرے جو ایک بڑی وحدت کے اجزا اور عناصر کے طور پر ہوں۔ اول الذکر عمل کو ترکیب (Synthesis)اور اورثانی ذکرکو تجزیہ (Analysis)کہاجاتا ہے ۔ وحدتوں کا باہمی تعلق معلوم کرنے کے لیے عقل ایک وحدت سے دوسری وحدت کی طرف اور دوسری سے تیسری وحدت کی طر ف اور تیسری سے چوتھی وحدت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور ن سب کے باہمی تعلق کو ٹٹولتی ہے۔ عقل کا کام صرف یہ ہے کہ کسی وحدت تک پہنچنے کیلیے ہمارے وجدان کو اکسائے وہ فقط کسی وحدت کے اجزا کے تعلقات پر غور کرتی ہے۔ پوری وحدت کا احسا س نہیں کر سکتی۔ وحدت کا  احساس یا علم اس کا وظیفہ نہیں جب ہمارا وجدان کسی وحدت کے علم تک پہنچتا ہے تو ا س سے بہت پہلے عقل اس سے رخصت ہو چکی ہوتی ہے اور ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ایسا ہوا ہے عقل وہ راستہ دکھاتی ہے کہ جو منزل کو جاتا ہے۔ لیکن خود ہمارے ساتھ منزل پر نہیں پہنچتی ۔ منزل پر پہنچنا تمنائے حسن کا کام ہے ۔
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
٭٭٭
خرد سے راہ رو روشن بصر ہے
خرد کیا ہے چراغ رہ گزر ہے
درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے
عقل گو منزل عشق سے دور نہیں رہتی لیکن اس منزل میں داخل نہیں ہو سکتی:
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی قسمت میں پر حضور نہیں
اگر یہ کہا جائے کہ آرزوئے حسن یا وجدان کے بغیر وحدتوں کے باہمی تعلقات کا جائزہ لینا مثلاً یہ بتانا کہ نو کا عدد چار سے بڑا ہے ممکن نہیں۔ لہٰذا کیوں نہ یہ کہا جائے کہ عقل آرزوئے حسن یا وجدان کی اس خاص حالت کا نام ہے جب وہ وحدتوں کے درمیان حرکت کر رہی ہوتی ہے تاکہ ان کی باہمی نسبتوں کو دریافت کرے تو اقبال اس سے بھی اختلاف نہیں کرتا اور مانتا ہے کہ عقل بھی عشق ہے اور ذوق حسن سے عاری نہیں لیکن وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ عقل کی فعلیت وحدتوں کے باہمی تعلقات کو ٹٹولنے کے لیے حرکت تک محدود رہتی ہے اس کی جرات نہیں کہ ایک محب یا عاشق کی طرح کسی وحدت کی وحدت یا زیبائی یا حسن کا مشاہدہ یا مطالعہ کرنے کے لیے رک جائے اور حسن کے کسی جلوہ پر فدا ہو کر اپنی حرکت کو سکون میں بدل دے۔ چنانچہ اقبال کہتا ہے:
عقل ہم عشق است و از ذوق نگاہ بیگانہ نیست
لیکن ایں بے چارہ را آں جرات رندانہ نیست
جونہی کہ ہم وجدان کے باہمی تعلقات کا جائزہ لینے کی بجائے کسی وحدت کا احساس بطور وحدت کے کرنے لگ جائیں یا محسوس کرنے لگ جائیں کہ ہم کسی علم تک پہنچ گئے ہیں یا ہم نے کسی بات کو جان لیا ہے فوراً ہماری عقل کی فعلیت موقوف اور ہمارے وجدان کی فعلیت شروع ہو جاتی ہے۔
ایک مثال سے عقل اور وجدان کے باہمی تعلق کی وضاحت

عقل اور وجدان ( یا آرزوئے حسن) کے باہمی تعلق پر غور کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کو فرض کیجیے جس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہو اور پھر اسے چھوڑ دیا گیا ہو کہ وہ ایک بڑے مکان جس سے وہ ایک حد تک آشنا ہے ٹٹولتا ہو ایک خاص کمرے کی طرف نکل جائے جب وہ اپنے ہاتھوں سے دیواروں‘ ستونوں‘ دروازوں ‘ کھڑکیوں‘ سیڑھیوں اور راستوں کو ٹٹولتا جاتا ہے تو اس بات کا صحیح اور پورا  تصور اپنے ذہن میں قائم کرتا جاتا ہے اور کہ وہ مکان کے کس حصہ میں پہنچا ہے اس کے ٹٹولتے ہوئے ہاتھ سے اپنے ماحول کا صرف ایک حصہ دکھاتے ہیں وہ حصہ جس سے وہ اندھیرے میں چھوٹا ہے لیکن اسے مکمل راہ نمائی صر ف اپنے تصور ہی سے ملتی ہے جو مکان کی ہر حصہ کی جس میں وہ قدم رکھتا ہے کہ پوری تصویر اس کے سامنے پیش کر جاتا ہے۔ عقل (Reason) دراصل اس آدمی کے ٹٹولتے ہوئے ہاتھوں کی طرح ہے جو ا س کے راستہ کے بعض نشانات کا پتہ دیتے ہیں اور وجدان (Intution)اس کے تصور کی طرح ہے جو اندر سے اس کے ماحول کا پورا نقشہ اس کے سامنے پیش کر دیتا ہے جس طرح اس پٹی باندھنے والے شخص کے راہ نما تصور کا باعث مکان ہے اور اس کی سابقہ واقفیت ہے اسی طرح سے ہمارے وجدان کا باعث ہماری فطرت آرزوئے حسن ہے۔