ارتقا کی منزل مقصود، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

ارتقا کی منزل مقصود
کائنات کے ارتقا کا رخ عقیدہ توحید کی عالمگیر قبولیت کی طرف سے ہے جو ہر کر رہے گی۔ مسلمان اس ارتقا کاذریعہ بننے والا ہے او ر وہ اس بات سے پوری طرح آگاہ بھی ہے۔ گویا توحید کے نغمے کائنات کے اندر سوئے ہوئے پڑے ہیںَ کائنات ایک ساز ہے جو کسی زخمہ ور کا منتظر ہے اور وہ زخمہ ور مسلمان ہے۔ مسلما ن اپنے ایمان کی وجہ سے کائنات کے خفیہ نغموں کو یعنی ارتقائے کائنات کی ممکنات کو خوب جانتا ہے اور قرآن کے علم کی وجہ سے ان کا علم اس کے خون میں رواں ہے۔ اسے چاہیے کہ کائنات کے ساز کے تاروں کو اپنی مضراب سے چھیڑ دے پھر دیکھے کہ اس سے کتنے حسین نغمے بلند ہوتے ہیں۔ یہ ساز اسی کے لیے بنایا گیا ہے کہ اگر وہ اسے اپنے کام میں نہ لائے تو بیکار ہے یعنی وہ اقوام عالم کا رہنما بنایا گیا ہے اس کے بغیر انسانیت اپنی منزل مقصود کو نہیںپا سکتی۔ مسلمان قوم کی زندگی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ خدا (اللہ اکبر یا تکبیر) پر ایمان رکھتی ہے۔ اس ایمان کے تقاضوں میں ایک بنیادی تقاضا عقیدہ توحید کی حفاظت اور اشاعت بھی ہے ۔ لہٰذا یہ تقاضا اس کی زندگی کا فطری مقصود ہے جسے وہ ترک کرے تو زندہ نہیں رہ سکتی۔ مسلمان قوم چہرہ ہستی کی رونق اور قرآن کی آیت کریمہ لتکونو ا شھدا علی الناس کے مطابق اقوام علم کی راہ نما ہے۔
نغمہ ہایش خفتہ در ساز وجود
جویدت اے زخمہ ور ساز وجود
صد نواداری چو خون در تن رواں
خیز و مضرابے بتار او رساں
زانکہ در تکبیر راز بود تست
حفظ و نشر لا الہ مقصود تست
تانہ خیزد بانگ حق از عالمے
گر مسلمانی نیا سائی دمے
آب و تاب چہرہ ایام تو
در جہان شاہد علی الاقوام تو
مسلمان ساز کائنات کا مضراب ہے
قرآن حکیم میں ہے:
وکذالک جعلنا کم امۃ وسطا لتکونو ا شھدا علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا
(اور اسی طرح سے ہم نے تم کو تاریخ عالم کے وسط میں آنے والی امت بنایاہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے خدا کی ہدایت کے پہنچے کی گوی دو اور رسول تمہارے سامنے خدا کی ہدایت کے آنے کی گواہی دے) مراد یہ ہے کہ جس طرح سے رسول پر یہ فرض کیا گیا تھا کہ وہ خدا کی ہدایت تم تک پہنچائے اسی طرح تم پر یہ فرض عاید کیا گیا ہے کہ تم خدا کی ہدایت لوگوں تک پہنچائو اور تمہیں ایک ایسی امت بنایا گیا ہے جو نوع انسانی کی تاریخ کے وسط میں آئی ہے تاکہ تم اس فرض کو بطریق احسن اداکر سکو۔ کیونکہ ایک طرف سے تو تم پہلے انبیاء کی امتوں میں سے جو قدیم زمانہ کی امتیں ہیں سب سے آخرپر ہو جس کی وجہ سے جو تعلیم تمہیں دی گئی ہے وہ مکمل ہے اور تاقیامت نوع انسانیکی راہ نمائی کے سرچشمہ کے طور پر قائم رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور دوسری طرف سے تم اپنی اسی مکمل تعلیم کی وجہ سے آئندہ زمانہ کی نسل انسانی کے راہ نماجو تمہاری راہ نمائی کو قبول کر کے اپنے حسن و کمال کی انتہا کو پہنچے گی۔ گویا تم عہد قدیم اور عصر جدید کے درمیان ایک واسطہ یا اتصال کی کڑی ہو۔ کائنات رنگ و بو کوئی راز نہیں۔ یہ اس لیے وجود میں آئی ہے کہ نوع انسانی جو حاصل کائنات ہے اپنے حسن کی حالت کمال کو پہنچے حسن نوع انسانی کی فطرت میں مضمر ہے اور بالقوہ اس کے اندر موجود ہے اور نوع انسانی کے اپنے ہی ایک ترقی یافتہ عنصر کی راہنمائی سے جسے مسلمان قوم کہا جاتا ہے بالفعل اور آشکار ہو گا۔ یہ کائنات گویا ایک ساز ہے جو اس بات کا منتظر ہے کہ اس کا ماہر زخمہ ور آئے اور اپنے مضراب سے اس کے تاروں کو چھیڑے اوران دلکش اور دلنواز نغموں کو بلند کرے اور جو اس کے اندر پوشیدہ ہیں اور وہ باہر زخمہ ور مسلمان ہے۔
جہان رنگ و بو پیدا تو مے گوئی کہ راز است ایں
یکے خود را بتارش زن کہ تو مضراب و ساز اسب ایں
عقیدہ توحید کی دلکشی اور فطرت انسانی کے ساتھ اور تمام علمی اورسائنسی حقائق کے ساتھ اس کی مطابقت اور ہم آہنگی مسلمان کے پاس ایک زبردست قوت تسخیر ہے جس سے وہ پوری دنیا کو بے تیغ و تفنگ اور پر امن طریق سے فتح کر سکتا ہے۔
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ سامان بھی ہے
عقیدہ توحید کی دل کشی کا دارومدار
لیکن عقیدہ توحید کی ساری دلکشی کا دارومدار اس حقیقت پر ہے کہ خدا نہ صرف انسان کی آرزوئے حسن کا واحد مقصود اور مطلوب ہے بلکہ خدا کی صفات کا حسن مظاہر قدرت میں آشکار ہے ۔ اور ہم مظاہر قدرت میں اس کامشاہدہ کر کے خدا کو جان سکتے ہیں۔ اور خدا کے ساتھ اپنی محبت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم مظاہر قدرت کے مشاہدہ سے حاصل ہونے والے علم سے (جسے آج کل سائنسی حقائق کا نا م دیا جاتاہے) خدا کے عقیدہ کو الگ کر لیں خدا کے عقیدہ کی جاذبیت اور دل کشی باقی نہیںرہتی اور وہ تسخیر قلوب کے ذریعہ کے طور پر پوری طرح سے موثر نہیں رہتا اور اس کی نشر و اشاعت جلد کامیاب نہیں ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ قرآن حکیم نے خدا کے عقیدہ کو مظاہر قدرت کے مشاہدہ اور مطالعہ کے ذریعے سے سمجھنے پر زور دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عقیدہ توحید کی نشر و اشاعت کے ضمن میں اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ اگر عقیدہ توحید (عشق) کو سائنس (زیرکی) کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو پھر اس کی کشش دنیا کے اندر ایک انقلاب پیدا کر دیتی ہے اور ہمیں مشورہ دیتاہے کہ انہیں اور عقیدہ توحید اور سائنس کو آپس میں ملا کر اسلام کے حق میں ایک عالم گیر ذہنی انقلاب پیدا کریں۔
عشق چوں بازیرکی ہمبر بود
نقشبند عالم دیگر شود
خیزد نقش عالم دیگر بند
عشق را با زیرکی آمیزدہ
مستقبل کا طریق کار
اقبال کے اس مشورہ کو جامہ پہنانے کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی یونیورسٹیوں کے لے سائنسی علوم کی نصابی کتابوں کو دوبارہ اس طرح سے لکھیں کہ خدا کا عقیدہ ان علوم کو مدار و محور بن جائے ۔ اگر آج ہم اپنے فطری مقصد حیات کو جس پر ہماری زندگی کا دارومدار ہے۔ یعنی کلمہ توحید کی نشر و اشاعت کو اپنا قومی نصب العین بنا لیں تو ہم نہ صرف اندرونی طور پر پوری طرح سے متحد اور منظم ہو سکتے ہیں بلکہ کلمہ توحید کی موثر نشر و اشاعت کی غرض سے عقیدہ توحید کو سائنس کے ساتھ ملا کر ہم تسخیر قلوب اور فتح بلاد کی ایک ایسی قوت پیدا کر سکتے ہیں کہ جس کے سامنے ایٹمی ہتھیاروں کی قوت بھی بیکار نظر آئے گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں طبیعیات‘ حیاتیات‘ اور نفسیات کے تمام حقائق عقیدہ توحید کی علمی اور عقلی تائید کے لیے مہیا ہو جاتے ہیں۔ جس سے عقیدہ توحید ایک یقین پر مجبور کرنے والی حقیقت بن جاتا ہے ۔ ایک قوم کسی مقصد حیات کے ماتحت ہی متحد ہو سکتی ہے۔ جس قوم کا کوئی مقصد نہ ہو یا جس قوم کا مقصد حیات ایسا ہو کہ اس کی سمجھ میںنہ آ سکتا ہو اور اس میں محبت کی گرمی اور عمل کا جوش پیدا نہ کر سکتا ہو تو وہ قوم متحد نہیں ہو سکتی۔ توحید کی نشر واشاعت ایک ایسا مقصد ہے جو ہمارے لہو کو گرما سکتا ہے۔ جب تک ہم اس بات سے غافل رہیں گے ہم دنیا میں اپنا رول اد انہیں کر سکیں گے۔ اور دنیا میں اول درجہ کی قوم شمار نہیں ہو سکیں گے۔ اقبال نے اس بات پر بڑا زوردیا ہے کہ مسلمان توحید کی نشر و اشاعت کو اپنا قومی نصب العین بنائیں تاکہ وہ ان کے اتحاد اور ان کی زندگی دونوں کا ضامن ہو۔
چوں زربط مدعائے بستہ شد
زندگانی مطلع برجستہ شد
مدعا راز بقائے زندگی
جمع سیماب بقائے زندگی
یہ دور اپنے براہیم کا منتظر ہے
لیکن عقیدہ توحید کی نشر و اشاعت ہمیشہ تحریر و تقریر کے پر امن طریق سے جاری نہیں رہتی بلکہ اس کے دوران میں زود یا بدیر ایسے مواقع پیش آتے ہیں۔ جب باطل کی تشدد پسند قومیں مومن کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ ایسی حالت میں مومن کے لیے ضرور ی ہوتا ہے کہ ان تشدد کی رکاوٹوں کو تشدد ہی سے دور کرے اور وہ اس ہمت آزما صورتحال کے لیے پہلے سے تیار ہوتا ہے۔ لہٰذا جب یہ صورت حال پیش آتی ہے تو وہ اپنی قوت سے باطل کی رکاوٹوں کا مقابلہ کر کے ان کو نیست و نابود کردتیا ہے۔ لا الہ الا اللہ ایک علمی نظریہ ہی نہیں بلکہ باطل کے لیے دعوت مبارزت بھی ہے اور اس کا مطلب صرف یہ ہے نہیںکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا ایک ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ میں خدا سے اس بات کا عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میرے بس میں ہے میں معبودان باطل کو جو اس دنیا میں عالم انسانی کی بہترین ترقی اور خوشحالی اور اگلی دنیا مین ان کی بہترین راحت اورمسرت پیدا کرنے والے میر ے اور میرے محبوب کے مشترک مقصد حیات کے راستہ میں حائل ہیں ملیامٹ کر کے رہوں گا۔ اور دنیا کے ایک ہی سچے خدا کو منوا کر رہوں گا۔ تاکہ بحیثیت ایک مسلمان کے خدا اور انسان کی طرف سے جو فرائض مجھ پر عائد ہوتے ہیں ان سے سبک دوش ہو جائوں ۔
تانہ خیزد بانگ حق از عالمے
گر مسلمانی نیا سائی دمے
اس لیے لا الہ کہنا کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ کہنے کے بعد جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا عہد ہے کہ جسے نبھانے کے لیے ایک انسان کو لرزہ براندام کر دیتی ہے۔ یہ خدا کو جان دینے کا عہد ہے۔
جو مے گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ را
مومن کے عقیدہ و توحید کے اندر یہ اقرار پوشیدہ ہے کہ جہاں تک اسکا بس چلے گا وہ معبودان باطل کو ملیامیٹ کر کے ایک ہی معبود برحق کی عبادت اور اطاعت کو دنیا میں باقی رکھے گا اور مون کی بے پناہ قوت عمل جو خودی کے نقطہ کمال پر اسے حاصل ہوتی ہے۔ اس اقرارپر عمل کا کام اس کے لیے آسان کرتی ہے۔ لا الہ الا اللہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مومن اس دنیا کو ایک بتکدہ سمجھے اور اپنے آپ کو ابراہیم خلیل اللہ کی طرح کا بت شکن اور اس بات کے لیے تیار رہے کہ وہ خلیل اللہ ہی کی طرح کسی وقت آگ میں ڈالا جائے گا۔
صنم کدہ جہاں اور مرد حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا الہ میں ہے
افسوس ہے کہ ہم ابھی تک بت پرستی کے اس دور کا ابراہیم پیدا نہیںہوا اور جو اس دنیا کو ایک صنم کدہ سمجھے اوراس کے بتوں کو توڑ کر فنا کر دے۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
بے شک توحید کا مطلب خدا کو ایک ماننا ہے لیکن خدا کو ایک ماننے میں خدا کو ایک منوانا بھی شامل ہے خدا کو ایک ماننے سے خودی اپنی محبت اور قوت کے کمال پر پہنچتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو پھر اس کی محبت اور قوت کا مصرف سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہوتا کہ وہ اس طلسم رنگ و بو کو جسے کائنات کہتے ہیں اور جو خدا کی دشمنی اور بت پرستی کے ساتھ ہم معنی ہو گیا ہے توڑ کر خدا کو ایک منوائے۔ توحید کا مطلب یہی تھا لیکن افسوس ہے کہ ہم مسلمانوں نے اسے اس طرح سے نہیں سمجھا۔
خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں

یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا