مسلمانوں کا قومی نصب العین
کلمہ توحید کی نشر و اشاعت مسلمانوں کا فطری مقصد زندگی اور قومی نصب العین ہے۔ کائنات میں مسلمان قوم کے وجود کا دارومدار کلمہ توحید کی نشر و اشاعت پر ہے۔ اگر وہ توحید کی نشر و اشاعت نہ کرے گی تو کائنات اپنے کمال کی طرف ارتقا نہیں کر سکے گا۔ لیکن چونکہ کائنات کا ارتقا ضرور جاری رہے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو مسلمان قوم ضڑور کلمہ توحید کی عالمگیر اشاعت کا کام دے گی اور یا پھر رب کائنات اسے مٹا کر ایک اور قوم پیدا کرے گا جو اس کام کو انجام دے گی۔ لیکن کلمہ توحید کی اشاعت اور قبولیت عالم انسانی کی تاریخ کا ایک ضروری باب ہے جو ہر حالت میں اس تاریخ کے اندر لکھا جائے گا۔ خواہ ا س باب کا مرکزی کردار موجودہ مسلمان قوم ادا کرے یا اس کی جگہ لینے والی کوئی اور مسلمان قوم کلمہ توحید کی عالمگیر اشاعت کائنات کے ارتقا کی ایک ضروری منزل ہے۔ جس سے کائنات ہر حالت میں گزرے گی خواہ ا س منزل کی راہ نمائی ہم کریں یا ہمارے مٹنے کے بعد کوئی اور قوم جو ہم سے زیادہ خدا سے محبت کرتی ہو اور خدا کے دین کی نشر و اشاعت کے لیے ہم سے زیادہ مستعد اور سرگرم عمل ہو۔ چنانچہ قرآن حکیم نے ایک طرف سے تو یہ ارشاد فرمایا ہ کہ مسلمان قوم دنیا کی تمام قوموں سے بہتر قوم ہے جو لوگوں کو راہ نمائی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس لیے کہ وہ سچے خدا پر ایمان رکھتے ہیں (وہ ایمان جو نیک اور بد کی تمیز کا واحد معیار اور اس تمیز کو جامہ عمل پہنانے کا ایک ہی محرک ہے) اور اس بنا پر نیک کاموں کی تلقین کرتے ہیں اور برے کاموں سے منع کرتے ہیں۔
(کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تأمر ون بالمعروف وتنھون عن المنکر و تؤمنون باللہ۔ ۱۰۰۔۳۲)
اور دوسری طرف سے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اے مسلمانوں اگر تم خدا کے دین کو ترک کر دو گے تو خداتمہاری جگہ ایک اور قوم لے آئے گا جو خد ا سے محبت کریںگے اور جن سے خدا محبت کرے گا جو مومنوںکے ساتھ نرمی اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے وہ لوگوں کی ملامت سے بے پرواہ ہو کر خدا کے دین کو پھیلانے کے لیے جہاد کریں گے۔
(یاایھا الذین امنوا من یرتدمنکم عن دینہ فسوف باتی اللہ بقوم یجبھم و یحبونہ دلہ علی المومنین اعزۃ علی الکفرین بجا ھدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومہ لائم۔ ۵۷۔ ۵)
پھراس وعید کے ساتھ قرآن حکیم کا یہ وعدہ بھی ہے کہ خدا نے اپنے رسول کو توحید کے صحیح اور سچے نظریہ حیات کے ساتھ بھیجا ہی اس لیے ہے کہ وہ تمام باطل نظریات پر غالب آئے اور اگر اس بات میں کوئی شخص شبہ کرے تو اسے یہ معلوم ہو نا چاہیے کہ اس کی صداقت کی گواہی خود خدا دے رہا ہے اور خدا کی گواہی ہر گواہی سے کفایت کرتی ہے۔ کیونکہ اس سے زیادہ سچا اور کوئی نہیں۔
(ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ و کفی باللہ شھیدا ۔ ۲۸۔ ۴۱)
گویا مسلمان اگر توحید کی نشر و اشاعت کے لیے کام کریں تو خود خدا کا وعدہ ہے کہ وہ اس مہم میں ناکام نہیںرہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال بڑے زور سے کہتا ہے کہ اگر مسلمان در حقیقت مسلمان ہے تو جب تک پوری دنیا سے کلمہ توحید کی آواز بلند نہ ہو لے اسے چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے۔
تانہ خیزد بانگ حق از عالمے
گر مسلمانی نیا سائی دمے