لوح و قلم
جب مومن اپنی خودی کے مقام پر پہنچ کر خدا کا قول کن یا خدا کی تقدیر بن جاتا ہے تو اس کا مطلب دوسرے الفاط میں سوائے ا س کے اور کیا ہو تا ہے کہ لوح و قلم اس کے ہاتھ میں دیے جاتے ہیں اور وہ خدا کی تقدیریں خود لکھتا ہے بلکہ اس مقام پر وہ خود لوح محفوظ (الکتاب) بن جاتا ہے اور زمان و مکان کی حدود کو پھاند جاتا ہے۔ پھر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کائنات (گنبد آبگینہ رنگ) میں گم ہے بلکہ کائنات اس کی خود میں گم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ پھر وہ اس کی خود ی میں بحر بیکراں میںایک حباب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ مومن کی بالقوہ صلاحیتیں ہیں جنہیں وہ چاہے تو آشکار کر سکتا ہے۔
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے وجود میں حباب
تاہم یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ مومن اپنے مقام کو سمجھے اور اپنی قدر کو جانے لیکن وہ ابھی تک اپنے مقام سے نا آشنا ہے اور اپنی قدر نہیں جانتا۔ کا ش کہ مومن یہ سمجھے کہ اپنی ان مخفی صلاحیتوں کی وجہ سے ہی اس لشکر رنگ وبو کا جسے کائنات کہتے ہیں سالار ہے۔ خدا نے اپنے نوری اور حضوری فرشتوں کو بھی اس کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے اوروہی کا رزار حق و باطل کا میدان مارنے والا ہے۔
تو مرد میدان تو میر لشکر
نوری حضوری تیرے سپاہی
کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی
یہ کم سوادی یہ کم نگاہی‘
مومن جب اپنی خودی کے مقام کمال پر پہنچ کر خد ا کی محبت کا نقش اپنے دل پر ثبت کر لیتا ہے تو پھر کائنات اس کا شکار بن جاتی ہے۔ یعنی وہ کائنات کی قوتوں کو مسخر کر کے انہیں اپنے اور محبوب کے مشترک نصب العین کے لیے کام میں لاتا ہے اورخدا کی تقدیر اس کی تدبیر سے موافقت پیدا کر لیتی ہے کیونکہ پھر وہ خود ہی خدا کی تقدیر ہوتا ہے۔
نقش حق داری جہاں نخچیر تست
ہم جہاں تقدیر یا تدبیر تست‘
حضرت بوعلی قلند ر کا قصہ
اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کہ مومن خدا کی تقدیر ہوتا ہے۔ اقبال نے حضرت بوعلی قلندر کا ایک قصہ بیان کیا ہے کہ آپ کا ایک مرید بازار میں گیا۔ درویش حالت استغراق میں تھا‘ راستہ سے ہٹ نہ سکا۔ پیشرو نے آواز دی کہ اے احمق عامل کے جلوداروں کا راستہ نہ روک۔ لیکن مرید پھر بھی اپنے خیالات کی دنیا میں کھویا ہوا اسی طرح چلتا رہا۔ چوبدار نے بدتمیزی سے درویش کے سر پر اپنا ڈنڈا مارا۔ درویش بڑا آزردہ ہو کر راستہ سے ہٹ گیا اور بو علی قلندر کے حضور پہنچ کر فریاد کی۔ آنسو آنکھوں سے رواں تھے۔ شیخ سخت ناراض ہوئے۔ اپنے کاتب کو بلا کر بادشاہ کو خط لکھوایا کہ تیرے عامل نے میرے مریدکو مارا ہے۔ ا س کمینے عامل کو واپس بلا لے ورنہ میں تیرا ملک کسی اور کو دے دوں گا۔ شیخ کے اس خط نے بادشاہ پر لرزہ طاری کر دیا۔ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ایسا ہی ہو گا لہٰذا اس نے فوراً عامل کو قید کر دیا اور حضرت بو علی قلندر سے اپنی غلطی کی معافی مانگ لی۔
باز گیر ایں عامل بد گوہرے
ورنہ بخشم ملک تو یا دیگرے
نامہ آں بندہ حق دست گاہ
لرزہ ہا انداخت در اندام شاہ
بہر عامل حلقہ زنجیر جست
از قلندر عفع ایں تفصیر جست
اختیار کا ظہور
جب مرد مومن خدا کو آشکار دیکھنے اوراپنی خودی میںانقلاب پیدا کرنے کی وجہ سے خدا کی تقدیر بن جاتا ہے تو پھر اس کے لیے جبر و اختیار کا مسئلہ باقی نہیں رہتا۔ پھر وہ ہمہ تن اختیار ہی بن جاتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ خدا کی تقدیر سے زیادہ اختیار کس کا ہے اور خدا کی تقدیر سے بڑھ کر کون سی چیز ہے جو جبر سے آزاد ہو۔
بندہ تا حق را نہ بیند آشکار
بر نمے آید ز جبر و اختیار
دنیا میں ایک ہی قوت کارفرما ہے اور وہ خدا کے قول کن کی قوت ہے۔ چونک یہ قوت ارتقا کے نچلے مرحلوں سے گزر کر ایک انسانی مرحلہ ارتقا پر کام کر رہی ہے۔ جہاں مومن ہی خدا کا قول کن ہے اس لیے سوائے مرد مومن کے دنیا میں کوئی قوت موجود نہیں۔ لہٰذا مرد مومن کو چاہیے کہ راہ زندگی میں بلا خوف و خطر قد م رکھے۔
قدم بیباک تر نہ در رہ زیست
نہ پہنائے جہاں غیر از تو کس نیست
مومن کو چاہیے کہ اپنے بے نظیر مقام پر غور کرے اور زندگی کے اس غیر آباد بیابان سے ڈرتا ہوا نہ گزرے کیونکہ یہاں فقط وہ ہی وہ ہے اور اس کے علاوہ دونوں دنیائوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ خدا بھی مومن ہی کے جذبہ حسن کی تشفی کا ذریعہ ہے اور خدا کے فرشتے بھی مومن کے خدمت گزار ہیں۔
با خود اندیش و ازیں بادیہ ترساں مگزر
کہ تو ہستی و وجود دو جہاں چیزے نیست
کائنات ایک غیر آباد بیابان اس لیے ہے کہ اس میں فقط ایک مومن ہی بس رہا ہے اورکچھ نہیں۔ خدا حق ہے اور خدا کا قول بھی حق ہے (وقولہ الحق) مرد مومن جو خدا کا قول کن ہے حق ہے باقی ہر چیز بے حقیقت ہے۔
اک تو ہے کہ حق ہے اس جہاں میں
باقی ہے فقط نمود سیمیائی‘