اقبال کی یاد میں
جب ہم کسی بڑے آدمی کی ملاقات کا ذکر کرتے ہیں اور ان باتوں کو یاد کرتے ہیں جو اس نے ہم سے اور ہم نے اس سے کہیں تو ہم اپنے دل میں ایک قسم کی خوشی لیکن ساتھ ہی اگر ہم دیانتدار ہیں تو ایک قسم کی تشویش بھی محسوس کرتے ہیں۔ خوشی کی وجہ ظاہر ہے، اچھائی اور بڑائی کا ذکر دل خوش کن ہے، انسان فطرتاً انہیں پسند کرتا ہے، ان کی طرف کھچا چلا جاتا ہے۔ پھر ہماری خود پسندی فخر کرتی ہے کہ بڑائی سے تعلق کی وجہ سے ہم بھی گویا بڑے ہو گئے۔ خوشی تو اس لیے ہوتی ہے، اور تشویش سی کچھ اس لیے کہ بڑائی کے سامنے ہم اپنی کمزوری اور کمی محسوس کرنے لگتے ہیں لیکن زیادہ تر اس لیے کہ ہم جھجکتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ہم روایت کرنے میں چوک جائیں۔ جو کچھ بڑے آدمی نے کہا ہم نے جانے پوجھے اس میں کچھ اپنی طرف سے بڑھا گھٹا دیں۔ اس نے کہا کچھ ہو اور ہم نے سمجھا ہو کچھ اور۔ اور اگر ہمارا حافظہ زیادہ مضبوط نہ ہو تو جھجک اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
ڈاکٹر اقبال علیہ الرحمتہ کے متعلق میری بعینہ یہی حالت ہے۔ اس واسطے جب میرے عزیز دوست نے کہا کہ آپ ایک مضمون کی شکل میں ڈاکٹر صاحب کی بابت اپنی ذاتی معلومات بیان کیجئے تو میں نے طرح طرح کے سچے جھوٹے بہانے بنائے۔ میں نے کہا میری معلومات کچھ ایسی ویسی ہیں۔ اس سے نہیں معلوم میرا کیا مطلب تھا؟ ایک تو مضمون لکھنے پر سستی کا اظہار دوسرے شاید یہ خیال کہ اور اصحاب بہت پتے کی باتیں لکھیں گے، بڑے علمی طریقے سے اقبال اور اس کے کلام کا ذکر کریں گے اور میرے لیے یہ کوشش کم از کم تکلیف دہ ہو گی۔ تیسرے یہ کہ مرحوم سے میں زیادہ تر ان کی عمر کے آخری حصے میں ملتا رہا۔ اس سے پہلے جتنا ان سے ملنا اور جتنا ان کو جاننا چاہیے تھا میں نہ جانتا تھا، پھر مجھے کیا حق حاصل ہے کہ میں اقبال پر ایک مقالہ قلمبند کرنے اک تہیہ کروں اور پھر یہ کہ بہت سی باتیں جو انہوں نے مجھ سے پچھلے چند ماہ میں کیں مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں رہیں۔ لیکن پروفیسر حمید احمد خاں صاحب1؎ جو ایک مصمم ارادہ لیے ہوئے تھے، ان پر ان دلائل اور براہین کا ذرا بھی اثر نہ ہوا اور اس کے بعدجب میں نے بے تکلفی سے ڈاکٹر صاحب سے اپنی بعض ملاقاتوں کا ذکر کیا تو ان حضرات نے مجھے دھر پکڑا کہ بس یہی بیان کر دیجئے، بس یونہی لکھ بھی دیجئے۔ اس کے بعد اگر میرا مضمون مضمون نہ ہوا، اگر وہ ایک مقالہ کی حد تک نہ پہنچ سکے، اگر وہ محض بات چیت سی ہو اور بہت سی اپنی ذات کے متعلق کہانیاں ہوں تو الزام بر گردن مرتب۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کہہ سن کر اب مجھے اطمینان سا ہو گیا ہے، تشویش تقریباً غائب ہے اور خالص خوشی موجود۔ خوشی ہے کہ میں بھی ان ہزاروں اصحاب کے زمرے میں شریک ہوں جو شاعر ملت کے متعلق کوئی ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوں۔
ابھی تھوڑا عرصہ ہوا جب ہمارا محبوب شاعر زندہ تھا۔ ہندوستان بھر میں9جنوری 1938ء کو یوم اقبال کی دھوم مچی تو لاہور میں میں نے بھی ایک عام اجلاس میں انگریزی میں ایک مقالہ پڑھا اور اردو میں ریڈیو پر ایک تقریر نشر کی۔ اس کے دوسرے ہی دن میں مرحوم سے ملا اور میں نے کہا کہ شفیع صاحب نے جلسے کا خوب انتظام کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے آنکھیں جھپکیں اور میں نے دوبارہ کچھ ایسی ہی بات کہی تو ایک معنی خیز’’ ہوں‘‘ سے جواب دیا۔ اس پر میں کچھ نہ کہہ سکا۔ میں نے محسوس کیا کہ ملک و قوم کو ان کے لیے اس سے بھی بہت کچھ اور کرنا چاہیے اور کرنا چاہیے تھا اور آئندہ بھی کرتے رہنا چاہیے۔ مجھے اور لاکھوں کی طرح یہ خوشی تھی کہ شکر ہے ہم نے کچھ کیا لیکن ساتھ ہی ان کی احسان مند’’ ہوں‘‘ نے شرمندہ کر دیا کہ کہان یہ عظیم الشان انسان اور کہاں ہم اسے کبھی کبھی یاد کرنے والے۔ اس تقریب سے پہلے میں نے کبھی اقبال کے متعلق نہ کوئی مضمون لکھا تھا نہ تقریر کی تھی۔ میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ مجھے ایک زبردست نقاد اور ایک باقاعدہ فلسفی ہونا چاہیے جب کہیں جا کر میں اقبال کے متعلق کچھ کہہ سکتا ہوں، مگر میں خوش ہوں کہ اس وقت ان کی وفات سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے میں نے کچھ لکھا اور اب پھر مجھے موقع ملتا ہے کہ کچھ لکھوں اور بے تکلفی سے لکھوں۔
اقبال کو پہلے پہل میں نے شیرانوالہ دروازہ کے اسلامیہ سکول میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں شاید چونتیس پینتیس سال ہوئے دیکھا۔ میں سکول میں پڑھتا تھا۔ مجھے خوب یاد ہے پہلی نظم جو میں نے سنی تصویر درد2؎ تھی۔ ایک حسین نوجوان ’’ ناک پکڑ‘‘ عینک لگائے شلوار اور چاندنی جوتی پہنے گریبان کا بٹن کھلا ہوا سٹیج پر کھڑا خوش الحانی سے ایک مخصوص لے میں پڑھ رہا تھا:
نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری
میری عمر نو دس سال کی ہو گی ’’ منت کش تاب شنیدن‘‘ نے تو مجھے قطعاً مرعوب اور خاموش کر دیا گو ’’ خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری‘‘ سے لطف آیا۔ یہ یاد نہیں کہ اس کے صحیح معنے بھی سمجھ میں آئے کہ نہ آئے لیکن ہم نوعمروں کی ٹولی نے بھی خوب سر ہلایا۔ اتنے میں اقبال اپنے شعر گاتے گئے۔ ہم لحن و حن سے تو واقف نہ تھے، ہم تو اسے محض گانا سمجھتے تھے اور ہم بغیر سمجھے شریک محفل رہے یہاں تک کہ ایک ایک شعر بکنے لگا۔ اقبال اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے اسسٹنٹ پروفیسر تھے، ایک نوجوان نے بڑھ کر شاید پندرہ روپے میں ایک شعر خرید لیا۔ معلوم ہوا کہ یہ اقبال کا گورنمنٹ کالج کا ایک ہندو شاگرد ہے۔ یہ رقمیں سب انجمن حمایت اسلام کے چندے میں ادا ہوتی تھیں۔ اقبال کا دیدار پہلی بار میرے لیے۔ اسے ’’ ملاقات‘‘ سمجھ لیجئے، ہمارے لیے اس زمانے میں یہ ملاقات سے کم نہ تھا۔
اس کے بعد ’’ آتا ہے یاد مجھ کو گذرا ہوا زمانہ‘‘ 3؎ یاد آتا ہے۔ یہ اقبال کی پہلی نظم تھی جو میں نے یاد کی اور جب ’’ بانگ درا‘‘ کے چھپنے پر میں نے اسے بدلا ہوا پایا تو اسے محض تھوڑا سا پڑھ کر فوراً حکم لگا دیا کہ نظم خراب ہو گئی ہے۔ کہاں وہ
آتا ہے یاد مجھ کو گذرا ہوا زمانہ
وہ جھاڑیاں چمن کی وہ میرا آشیانہ
اور کہاں یہ ’’ وہ باغ کی بہاریں وہ سب کامل کے گانا‘‘ کیا ہم سب کو’’ بہاڑوں‘‘ سے ’’جھاڑیاں‘‘ اور ’’ سب کے گانے‘‘ سے’’ اپنا آشیانہ‘‘عزیز تھا؟ کچھ بھی ہو پرانی جانی پہچانی ہوئی چیز نئی اصلاح شدہ چیز سے کہیں زیادہ مرغوب و محبوب تھی۔ کچھ عرصہ تک بانگ درا پڑھتے رہنے کے بعد نئی چیزوں سے انس پیدا ہوا اور اکثر اصلاحیں سمجھ میں آنے لگیں۔
میرے والد جسٹس شاہدین 4؎ مرحوم سے اقبال کے خاص تعلقات تھے۔ میاں صاحب جب 1890ء میں ولایت سے بیرسٹر بن کر واپس آئے اس کے بعد ایک طرف تو ان کا علیگڑھ تحریک 5؎ سے خاص تعلق پیدا ہوا اور دوسری طرف وہ لاہور میں قابل نوجوانوں کے ایک دائرے کے مرکز بن گئے۔ اس دائرے میں اقبال بھی شامل تھے۔ چنانچہ اپنی پہلی نظم ’’ چمن کی سیر‘‘ میں جو مخزن 6؎ میں اکتوبر1901ء میں شائع ہوئی۔ حضرت ہمایوں فرماتے ہیں:
اعجاز دیکھ تو سہی یہاں کیا سماں ہے آج
نیرنگ آسمان و زمیں کا نیا ہے رنگ
اقبال تیری سحر بیانی کہاں ہے آج
ناظر! کمان فکر سے مار ایک دو خدنگ
از نغمہ ہائے دلکش ایں چار یار ما
پنجاب خوش نو است ہمایوں دیار ما
اور شالا مار باغ کشمیر پر جو نظم لکھی اور جو مخزن میں جون1903ء میں شائع ہوئی اس میں فرماتے ہیں:
ناظر7؎ بڑا مزہ ہو جو اقبال ساتھ دے
ہر سال ہم ہوں شیخ ہو اور شالا مار ہو
معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اقبال اپنی عمر کے آخری حصے میں سیر و سیاحت کے مشتاق نہ تھے جوانی کے دنوں میں بھی یہی حال تھا۔
اقبال نے بھی بعض اشعار میں ہمایوں کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ اس غزل کا جس کا مطلع ہے:
لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے
بجلیاں بیتاب ہوں جس کے جلانے کے لیے
ایک غیر مطبوعہ شعر ہے :
ترک کر دی تھی غزل خوانی مگر اقبال نے
یہ غزل لکھی ہمایوں کے سنانے کے لیے
والد بزرگوار کے کاغذات میں ایک پرزہ نکلا جس کے ایک طرف ایک دعوت کی تقریب میں اقبال نے میز کی ایک طرف سے انہیں دو شعر لکھ کر بھیجے اور جواب میں والد نے اسی زمین میں شعر لکھا۔ دو دوستوں میں خوب نوک جھونک ہوئی۔ ان اشعار کے نقل کرنے کا یہ موقع نہیں۔
ہمایوں مرحوم پر اقبال کی نظم مشہور ہے اور یقینا ان کی بہترین نظموں میں شمار کیے جانے کے قابل ہے:
اے ہمایوں8؎ زندگی تیری سراپا سوز تھی
تیری چنگاری چراغ انجمن افروز تھی
اس سے نہ صرف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ان سے کس قدر آشنا تھے بلکہ یہ اس زمانے کی طرف اشارہ ہے جب علمی صحبتوں میں یہ سب لوگ اکٹھے ہوتے تھے اور جب والد مرحوم نے لاہور میں پہلے پہل ایک محمڈن ینگ مین ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی تھی۔
1910ء میں اپنے انگلستان جانے سے پہلے کا کوئی واقعہ تفصیل اور صحت کے ساتھ یاد نہیں جس کا میں ذکر کر سکوں۔ صاف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے گھر میں اکثر سرسید اور شبلی اور محسن الملک اور حالی اور اقبال کا ذکر ہوتا تھا اور 1908ء کے بعد والد نے کئی بار مجھ سے کہا کہ میں اقبال کو ترغیب دینا چاہتا ہوں کہ وہ بیرسٹری ترک کر کے علی گڑھ کالج 9؎ میں چلے جائیں جہاں وہ قوم کے لیے اور بھی مفید ثابت ہوں اور جیسے حالی نے مسدس10؎ لکھی اس طرح نئے حالات کے مطابق وہ اس مرکزی مقام سے قوم کو خطاب کریں۔
1914ء میں ولایت سے واپس آ کر جب میں نے سال دو سال بیرسٹری اختیار کرنے کی کوشش کی تو لاہور چیف کورٹ کے بار روم میں مجھے اکثر اقبال کو دیکھنے اور بعض دفعہ ان سے باتیں کرنے کا موقع ملا۔ میرے دل میں ان کی بے حد عزت تھی۔ میں ان کو اتنا بڑا اور اپنے آپ کو ہر طرح اتنا چھوٹا سمجھتا تھا کہ ان سے باتیں کرنے کی بھی مجھے جرأت نہ ہوتی تھی۔ دور ہی دور سے دیکھ کر گویا ان کی پرستش کیا کرتا۔ میرے تایا زاد بھائی میاں شاہنواز صاحب بیرسٹر اقبال کے خاص دوستوں میں سے تھے اور مجھے بھی معلوم تھا کہ ان لوگوں کی ایک خاص بے تکلف صحبت ہوا کرتی تھی جس میں مجھ سے متین نو عمر کے لیے گنجائش نہیں ہو سکتی۔ ایک روز میں بار روزم میں گیا تو دونوں دوست بیٹھے تھے۔ اقبال نے مجھے دیکھ کر کہا، آئیے مولانا بشیر! یہ سن کر مجھے بے حد شرم آئی۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی جائے پناہ نہ تھی بھائی شاہنواز نے کہا دیکھو تم نے مخزن میں جو گمنام ایک نعت بھیجی ہے وہ میں نے ڈاکٹر صاحب کو دیکھا دی ہے۔ مخزن ان کے ہاتھ میں تھا۔ نعت کا پہلا شعر تھا:
بیاباں کو بنایا غیرت خلد بریں تو نے
چمن میں کر دیا ہر گل کو نگہت آفریں تو نے
میرا دل بڑھانے کو ڈاکٹر صاحب نے بعض شعروں کی تعریف کی۔ کچھ یہ خیال ہو گا کہ آج کل کا کوئی یورپ زدہ نوجوان مذہب کا ذکر کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
اس کے بائیس سال بعد پچھلی سردیوں میں جب میں ان سے اکثر ملتا رہا چند بار انہوں نے اسی مولانا سے مجھے مسکرا کر خطاب کیا۔ دوسری تیسری دفعہ میں نے بھی مسکرا کر ذرا احتجاج کیا کہ ڈاکٹر صاحب میں کہاں کا مولانا ہوں۔ مسکرا کر فرمانے لگے، واہ مولانا کوئی بری بات ہے اور کیا مولاناؤں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں، آخر کچھ عربی جانتے ہی ہو نا؟ وغیرہ وغیرہ۔
والد مرحوم کی وفات کے چند سال بعد جب دسمبر1921ء میں میں رسالہ ہمایوں جاری کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک نظم کے لئے درخواست کی۔ سن کر کہا کہ تم رسالہ کیا نکالتے ہو اردو کے رسالے تو نکلتے اور بند ہوتے رہتے ہیں، تم اردو لٹریچر کے لیے کوئی اور زیادہ مفید کام کرو۔ میں نے پوچھا تو فرمایا کہ تم فرانسیسی زبان سے واقف ہو گارساں دتاسی11؎ کی تصانیف کو اردو میں منتقل کر دو۔ مگر میرے دماغ میں رسالے کا شوق سمایا ہوا تھا۔ نظم کے لیے میں نے اصرار کیا تو (پنجابی میں) کہا’’ ویکھو‘‘ ۔ ایسے تمام اصراروں اور مطالبات کے جواب میں اسی مختصر’’ ویکھو‘‘ سے کام لیتے تھے۔ 12؎ بعد میں جب مجھے دو تین مرتبہ اسی ’’ ویکھو‘‘ سے واسطہ پڑا تو میری خود داری نے ذرا سمجھ داری سے کام لے کر آئندہ تقاضا کرنا ہی چھوڑ دیا اور ایسا کرنا ہی مناسب تھا۔ اس کے بعد مجھ ڈاکٹر صاحب سے کبھی مایوسی نہ ہوئی۔ میں نے سمجھ لیا کہ ان کی چیزیں زبان و ادب اور قوم و ملک کے لیے ہیں محض رسالوں اخباروں والوں کے لیے نہیں۔ ہاں یہ ذکر کر دینا چاہیے کہ پہلے ’’ دیکھو‘‘ کے چند ہی روز بعد انہوں نے والد مرحوم پر اپنی نظم ’’ ہمایوں‘‘ بھائی شاہنواز کے ذریعے سے مجھے ہمایوں کے پہلے نمبر میں اشاعت کے لیے بھیجی۔ ان کے ہاتھ کا لکھاہوا مسودہ اب تک میرے پا س موجود ہے۔ دو ایک بار اور بھی انہوں نے ہمایوں کے لیے کچھ مرحمت فرمایا۔ ہاں اس سے مجھے یاد آتا ہے کہ 1918ء میں والد مرحوم کی وفات پر انہوں نے مجھے ایک تاریخی رباعی بھیجی جو ان کی قبر پر کتبہ کی صورت میں کندہ ہے:
در گلستان دہر ہمایون نکتہ سنج
آمد مثال شبنم و چون بوئے گل رمید
می جست عندلیب خوش آہنگ سال فوت
334+4=1336
علامہ فصیح ز ہر چار سو شنید
ایک اور شعر بھی لکھا جس سے اس لگاؤ کا اظہار ہوتا ہے جو اقبال کو ہمایوں سے تھا:
دوش بر خاک ہمایوں بلبلے نالید و گفت
اندریں ویرانہ ما ہم آشناے داشتیم
بعد میں کئی بار جو باتیں ان سے ہوئیں ان سے مجھ پر ثابت ہوا کہ جن چند در چند ہستیوں کی ان کے دل میں بہت قدر و منزلت تھی ان میں ایک والد بزرگوار تھے۔
1922ء میں جب میں نے والد کے اردو کلام کو شائع کرنے کی غرض سے یکجا کیا تو کئی بار ڈاکٹر صاحب سے ان کے انار کلی والے مکان میں جا کر مشورہ کیا۔ اس سلسلے میں جب ایک روز وہاں گرامی مرحوم 13؎ بھی تشریف رکھتے تھے، حضرت گرامی نے مجھ سے فرمائش کی کہ آپ بھی کبھی کبھی شعر کہتے تھے کچھ سنائیے۔ میں نے عرض کی کہ مجھے شعر کہنا نہیں آتا، ایسی ہی تک بندی ہے۔ اصرار کیا تو میں نے دو تین شعر سنائے۔ ایک شعر میں سچائی بر وزن بھلائی باندھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ لفظ سچائی ہے سچائی نہیں۔ ان کی پہلی اور آخری اصلاح تھی جو میرے نصیب میں آئی۔ میں نے کبھی اپنی تفریح طبع کو اس قابل نہ سمجھاکہ ان سے اصلاح لیتا ورنہ غالباً اس سلسلے میں بآسانی میں ان کی تضیع اوقات کا موجب بن سکتا۔
جیسے اقبال 1938ء میں اپنے سال وفات میں تھے ویسے ہی وہ سترہ سال پہلے 1921ء میں تھے۔ وہی حقہ وہی ان کا نوکر علی بخش14؎ اسی طرح شلوار اور قمیض پہنے چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ قمیض کے گلے کا اوپر کا بٹن کھلا ہے، عموماً پنجابی میں باتیں کرتے تھے اور دنیا بھر کی باتیں، بڑے بڑے مضمون پر چھوٹی سی چھوٹی بات پر ہو رہی ہیں، جو آئے آ جائے، جو چاہے کہے۔ جو ان کا خیال ہے وہ بیان کر رہے ہیں۔ بے تکلفی سے بات چیت ہو رہی ہے۔ معلومات کا خزانہ ہے کہ سب کے لیے کھلا ہے لیکن کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ عقلمندی کے موتی بکھر رہے ہیں۔ ادھر ان کا بھی کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ یہ نوع انسان کے او ربالخصوص اپنی قوم کے شیدائی ہیں۔ لوگ برے ہوں یا بھلے انہیں کیا، وہ بھی انسان ہیں یہ بھی۔ ان کا وقت ان کا وقف ہے پھر شکایت کیسی اور رعونت کیوں؟ ایسے ہوتے ہیں بڑے آدمی! کسی قسم کا شہنشاہی یا سادھوانہ دکھلاوا بھی نہیں۔ جو ہیں سو ہیں۔ تشہیر کی ضرورت نہیں۔ خلوص کی ایک تصویر ہیں۔ حکومت پر، انگریزوں پر، سیاسی لیڈروں پر نیک نیتی سے تنقید کر رہے ہیں۔ کسی کا ڈر خوف نہیں کیونکہ کسی کی خوشامد منظور نہیں۔ کسی کا کھائیں تو اس کا گائیں۔ کسی سے غرض نہ مطلب لیکن یوں واسطہ اور تعلق ہر کسی سے، جو ملے یا مل جائے!
پہلے اپنے ایک مضمون میں لکھ چکا ہوں کہ مجھے ڈاکٹر صاحب سے دل ہی دل میں اس بات کی شکایت تھی کہ انہوں نے فارسی میں کیوں لکھنا شروع کیا چنانچہ میں نے ایک بار سے زیادہ ان سے اپنی شکایت کا اظہار کیا اور پنجابی کا مشہور فرقہ دہرایا کہ ’’ فارسیاں گھر گالے‘‘ (یعنی فارسی نے گھر تباہ کر دیے، پنجاب میں مشہور ہے کہ ایک جلاہے نے اتنی فارسی پڑھ لی کہ اپنے گھر لوٹ کر پھر وہ پنجابی میں بات ہی نہ کر سکتا تھا چنانچہ وہ آب آب کرتے ہی مر گیا اور کسی نے نہ سمجھا کہ بے چارہ پیاسا ہے) اس پر ہمیشہ مسکرا دیتے۔ میں نے اصرار کیا تو کہا کہ میری اردو بھی تو نری فارسی ہے۔ میں نے کہا نہیں پھر بھی اردو میں لکھیے۔ لے دے کر ایک آپ ہمارے پاس ہیں، وہ بھی فارسی میں لکھنے لگے تو نتیجہ کیا ہو گا۔ فرمایا کہ شاعر کا خیال جس زبان میں بھی موزوں ہو جائے وہ اسی میں کہے گا۔ مجھے ان کی فارسی سے اتنی چڑ تھی کہ میں نے کئی سال تک یہ کہہ کر کہ۔۔۔ فارسی زیادہ سمجھ ہی میں نہیں آتی، ان کی فارسی مثنویاں نہ پڑھیں۔ آخر ایک روز اٹھا کر دیکھیں اور پڑھیں، دل میں ایک حرکت سی پیدا ہوئی تو اپنے آپ کو برا بھلا کہا کہ حیف ہے میں اتنی مدت اس دولت سے محروم رہا۔
ایک روز کا واقعہ یاد آتا ہے کہ چیف کورٹ کے سامنے سڑک پر میں ڈاکٹر صاحب سے باتیں کرنے لگا۔ دوران گفتگو میں نے دور حاضر کی اشتہاریت کی شکایت اور مذمت کی۔ فرمانے لگے خدا کی طرف دیکھو، وہ سب سے بڑا پراپیگنڈا کرنے والا ہے۔ یہ کائنات ساری کی ساری اس کا پراپیگنڈ انہیں تو اور کیا ہے، ہزاروں لاکھوں بے شمار مظاہرے ہیں، پھر مسکرا کر کہا تم پراپیگنڈا کو اتنا برا نہ سمجھا کرو۔
ایک اور روز میں نے ٹیگور کا ذکر کیا تو فرمایا کہ دیکھو ٹیگور10؎ عملی آدمی ہے اور اس کی شاعری امن و خاموشی کا پیغام دیتی ہے، ادھر میری شاعری میں جدوجہد کا ذکر ہے لیکن میں عملی آدمی نہیں ہوں۔
بال جبریل 16؎ چھپی تو میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ میں کلکتے میں تھا وہیں منگوائی، وہاں سے بہرائچ کے جنگلوں میں گیا تو ساتھ لے گیا اور مزے لے لے کر پڑھی۔ اپنے آپ کو کوسا اور کہا کہ اتنا بڑا آدمی اور ایسا شاعر تمہارے ہی شہر میں دن رات رہنے والا اور تمہاری یہ حالت ہے کہ اس کے پاس گئے بھی تو محض کبھی کبھی۔ حیف ہے تم پر۔ غرض لوٹ کر دوسرے تیسرے دن ہی ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بال جبریل کی بہت تعریف کی اور شکر کا اظہار کیا کہ وہ فارسی سے پھر اردو کی طرف آئے۔
ان دنوں میں میں اپنی غذا کا ایک عجیب و غریب تجربہ کر رہا تھا۔ گوشت، مچھلی، انڈا، چینی، گھی، مکھن، دودھ، سوپ، شوربہ، بادام، اخروٹ بلکہ گوبھی تک سب کچھ چھوڑ کر چند بھاپ زدہ ترکاریوں اور چکی کے آٹے پر گزران کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ میں نے سادہ اور صحت بخش زندگی کا راز پا لیا۔ یہ خبط اپنی انتہائی شکل میں دو سال تک میرے سر پر سوار رہا۔ یہی دن تھے کہ میں نے بال جبریل پڑھی۔ ڈاکٹر صاحب سے جو اور عقیدت پپیدا ہوئی تو اس کا اظہار اس طرح کرنا چاہا کہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر جب معلوم ہوا کہ ان کی صحت خراب ہو رہی ہے، گلا بیٹھ گیا ہے، آواز ذرا سی باقی ہے تو میں نے ترکاری نوشی پر ایک طول طویل لیکچر دینا شروع کیا اور عرض کی کہ ایک تو باغ کی سیر کیا کیجئے اور دوسرے ترکاریاں کھا کر آزمائیے۔ پہلے تو کہا کہ بعض مسلمان اطباء نے بھی ان کی خوبیاں اور خواص بیان کیے ہیں، میں نے اصرار کیا تو مسکرا کر فرمایا کہ ’’ ویکھو‘‘ ۔
جب وہ اپنی میو روڈ والی کوٹھی جاوید منزل میں آ چکے تھے میں کبھی کبھی حاضر ہوتا اور بال جبریل کے بعض اشعار کا مفہوم دریافت کرتا۔ ایک روز میں نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب اس شعر میں کیا اشارہ ہے:
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
میں حیران ہوا کہ تین سو سال ہوئے کہ جہانگیر کے ہاں میخواری کا دور دورہ تھا، ڈاکٹر صاحب کیا پھر وہی رسم قدیم جاری کرنا چاہتے ہیں کیا؟ جواب دیا کہ نہیں یہ شیخ احمد مجدد الف ثانی سرہندی 17کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمان ہند کے سب سے زبردست رہنما گزرے ہیں۔
ایک روز میں نے عرض کی کہ ایک ’’ نقاد دوست‘‘ نے آپ کے ایک شعر پر اعتراض کیا ہے کہ لفظ’’ مینا‘‘ مونث نہیں مذکر ہے۔ مجھے بھی اس اعتراض پر تعجب ہوا کیونکہ مینا شکل صورت سے اور آواز سے مونث معلوم ہوتا ہے۔ علی بخش ملازم سے کہا کہ رسالہ 18؎ تذکیر و تانیث لاؤ۔ دیکھا اور کہاں ہاں ایسی غلطیاں مجھ سے ہو جاتی ہیں۔
برسوں تک ان سے محض کبھی کبھی ملاقات ہوئی لیکن گذشتہ سال اکتوبر1937ء میں لکھنو میں لیگ کے سالانہ اجلاس19میں شرکت کرنے کے بعد میں اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگا۔ وہ پنجاب لیگ کے صدر تھے۔ 20؎ اکثر ان سے سیاسی معاملات پر گفتگو رہتی۔ کئی بار میں نے مسلم قوم اور اردو زبان کے مستقبل کی بحث چھیڑی، اردو زبان کے متعلق میں نے گاندھی جی کے مخالفانہ رویہ کی شکایت کی اور کہا کہ تعجب ہے کہ قومیت اور ہندوستانیت کا نام لے کر ہماری کلچر اور مشترکہ زبان کو یوں ملیا میٹ کیا جا رہا ہے۔ ایک روز میں ذرا جوش میں آ گیا اور پھر مایوسی کا اظہار کرنے کو تھا کہ مسکرا کر فرمانے لگے کہ ڈرو مت تمہاری قوم اور زبان اس طرح مٹائے سے مٹیں گی نہیں۔ 21؎
ہر ہفتے بعض دفعہ ہر دوسرے روز کئی کئی گھنٹے تک ان سے آخری سردیوں میں میری باتیں ہوئیں۔ سیاست، فلسفہ، ادب، شاعری، یورپ کی موجودہ حالت، ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل، صحت اور پرہیز اور علاج اور قوت ارادی اور کئی اور بڑی بڑی اور معمولی معمولی چیزوں کا ذکر خدا جانے کتنے موضوع تھے جن پر اس شمع ہدایت نے روشنی ڈالی۔ اس شک و شبہ اور بے اطمینانی کے زمانے میں میری طرح بیسیوں اوروں کو بھی احساس تھا کہ چلیے ڈاکٹر صاحب کے پاس کہ کچھ معلومات میں اضافہ ہو اور کچھ ڈھارس بندھ جائے۔ کئی اوروں کے مقابل میں میرا ان سے کوئی خاص قریبی تعلق نہ تھا پھر بھی کم از کم گذشتہ سردیوں میں میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ میرے دل کی تنہائیوں کا سہارا ہیں اور ان کے جانے سے ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جسے پر کرنے والا کوئی نہیں۔
مارچ1938ء میں ایک روز میں عشا کے وقت کوٹھی پر گیا تو علی بخش نے مجھے روکا۔ یہ پہلی بار تھی کہ اس بھلے مانس نے مجھے روکا ہو۔ کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے۔ دمہ کا دورہ سخت پڑتا ہے اور ڈاکٹروں نے منع کر دیا ہے کہ وہ کسی سے بات کرنے نہ پائیں۔ یہ سن کر مجھے بے چینی ہوئی اور میں نے وعدہ کیا کہ میں بات چیت نہیں کروں گا۔ میں اندر گیا تو چارپائی پر اوندھے منہ لیٹے ہوئے تھے، وہی یوم اقبال والے شفیع صاحب پیٹھ مل رہے تھے۔ پوچھا کون ہیں؟ میں نے جواب دیا۔ فرمایا بیٹھ جائیے۔ میں نے عرض کیا براہ کرم آپ نہ بولیے، آپ کو تکلیف ہو گی۔ میں نے چند باتیں کیں اور چپ ہو کر بیٹھ رہا۔ ڈاکٹر صاحب تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد میں کہہ دیتے ’’ اچھا‘‘ ’’ ہوں‘‘ کہیے آخر آدھ گھنٹے کے بعد میں نے معذرت چاہی۔ فرمایا آپ کو خواہ مخواہ تکلیف ہوئی۔ دل بھر آیا کہ اس سخت تکلیف کے عالم میں بھی کس طرح دلجوئی کرتے ہیں۔
اس زمانے میں ان کی صحت بہت بگڑ چکی تھی، لیکن ہمت و حوصلہ ایسا تھا کہ چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی اور طبیعت میں وہی خلوص اور دوستوں کے لیے وہی الفت کا اظہار اور ہر آنے والے کا اسی طرح خیر مقدم۔ سبحان اللہ۔ کیا عظیم الشان انسان تھا جس کی لوگوں نے بہت قدر کی، لیکن سچ یہ ہے کہ پھر بھی پوری قدر نہ کی۔ شاید پوری قدر ہو ہی نہ سکتی تھی۔
ایک روز میں نے کہا کہ افسوس ہے قوم نے آپ کی پوری قدر نہ کی، بانگ درا یا دوسری کتابیں لاکھوں کی تعداد میں بک جاتیں22؎!میرے دوسرے فقرے کو انہوں نے پسند نہ کیا، کہا کہ قوم غریب ہے اور ناقدری کا جواب یہ دیا کہ جب کوئی غریب آدمی شہر سے آ کر میری مٹھی چاپی کرتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ساری دنیا میری قدر کر رہی ہے۔
ایک روز میں نے بعض سیاسی لیڈروں کا ذکر کیا۔ جوش میں آ کر فرمانے لگے۔ کہ یہ لوگ سب خود غرض ہیں اور ایثار نہیں کر سکتے۔ لیڈر امیروں کی جماعت میں موجود ہیں ہی نہیں۔ مسلمانوں کے لیڈر عوام میں سے پیدا ہوں گے۔ تم دیکھ لینا ایسا ہو کر رہے گا، پھر وہ لوگ رہنمائی کر سکیں گے۔
ایک دفعہ ان کی شاعری کے پیغام اور اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق وغیرہ23؎ کا ذکر آ گیا تو انگریزی میں کہا:
There is a Crust at the heart of Central Asia, i want to break through it.
(وسط ایشیا کے قلب پر ایک پپٹری جمی ہوئی ہے، میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتا ہوں) ایسے ہی اور بیسیوں لاجواب فقرے روز ان کے منہ سے نکلتے۔ کاش کوئی قلمبند کرنے والا ہوتا۔
غرض سینکڑوں باتیں ہوئیں لیکن افسوس کہ حافظہ قوی نہ ہونے کی وجہ سے میں انہیں دماغ میں محفوظ نہیں رکھ سکا اور نہیں چاہتا کہ کوئی ایسی بات لکھوں جو پوری پوری درست نہ ہو۔ اگر کبھی اور باتیں یاد آئیں اور موقع ملا تو چند اور واقعات بھی قلمبند کر کے اپنا فرض ادا کروں گا اور اس سے مزید لطف اٹھا سکوں گا۔ آخر میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گو بد قسمتی سے یہ مصرع بار بار دہرایا جا چکا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ غالب، اقبال اور ایسے ہی چند اور افراد پر یہ بات صادق آتی ہے کہ
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا!
خدا نے اقبال کو بادشاہی مسجد24؎ لاہور میں ابدی راحت کے لیے وہ جگہ بخشی جس کا وہ مستحق تھا۔ قوم کا سچا رہنما قوم کی پاکیزہ ترین زمین میں محو خواب ہے۔ ہر ماہ ہزاروں ہر سال لاکھوں شخص اس کی قبر کی زیارت کریں گے۔ فاتحہ پڑھیں گے اور اسے یاد کریں گے اور لاکھوں کروڑوں انسان اس کا پیغام پڑھیں گے یا سنیں گے۔ وہ کچھ سمجھیں گے کچھ نہ سمجھیں گے لیکن ان کی تاریک زندگیوں میں نور کی یہ شعاع اپنا زبردست پر تو ڈالے گی اور ان کی مس خاک کندن بن کر چمکے گی۔
میاں بشیر احمد25؎ بی اے
بیرسٹر ایٹ لائ، ایڈیٹر ہمایوں