شیخ سر عبدالقادر
کیف غم
اقبال کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت اس کا ’’ کیف غم‘‘ ہے اور یہی کیفیت مرحوم کے ذاتی خصائل میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی تھی۔ جو لوگ ان سے ملتے رہے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ اعلیٰ درجہ کی ظرافت اور ہنسنے ہنسانے کی عادت کے ساتھ ان میں یہ عجیب وصف تھا کہ سنجیدگی اور متانت بیٹھے بیٹھے ظرافت پر غالب آ جاتی تھی اور چہرے پر یکایک غم آمیز اثرات نظر آتے تھے۔ آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے، جیسے کوئی درد انگیز خیال دفعتہ دل میں آ گیا ہے۔ یہ رنگ ان کے اشعار میں بہ کثرت پایا جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ شاعر کے کلام میں اثر گداز دل سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ غالب1 ؎ کا یہ شعر اس خیال کی ترجمانی کرتا ہے:
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی!
یہ نظریہ اقبال کے اس مصرعہ میں اس سے بھی بلند مقام پر پہنچ گیا ہے۔
عبادت چشم شاعر کی ہے ہر دم باوضو رہنا
اقبال کے نزدیک شاعری میں غم کا عنصر شامل ہونا مشرقی شاعری کو مغربی شاعری سے ممیز کرنے والی صفت ہے۔ انہوں نے کیا خوب کہا ہے:
پیر مغاں فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر
اس میں وہ ’’ کیف غم‘‘ نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے
یہی فرق مشرق اورمغرب کے اور فنون کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے اور خاص کر دونوں کی موسیقی میں زیادہ واضح ہے۔ مغربی موسیقی جذبات طرب کو ابھارنے کے لیے زیادہ موثر ہے اور مشرقی موسیقی میں عموماً جذبات غم کی تحریک زیادہ ہے۔
شعر سے رغبت کے ساتھ اقبال کو موسیقی2؎ کا بھی بہت شوق تھا۔ ان کو علم موسیقی سے گہری واقفیت پیدا کرنے کا تو موقع نہیں ملا، مگر ان کے کان موسیقی کی اچھی شناخت رکھتے تھے ا ور کوئی گاتا ہو تو وہ اس سے ایسا لطف اٹھاتے تھے جیسے کوئی ماہر فن اٹھائے۔ قدرت نے خود انہیں بھی اچھا گلا عطا کیا تھا، اس لیے کبھی کبھی بے تکلف دوستوں کی صحبت میں اپنا کلام ترنم سے پڑھتے تھے جس سے اشعار کا لطف دوبالا ہو جاتا تھا۔ وہ ہر بحر کے لیے ایسی موزوں لے چن لیتے تھے کہ سننے والے مسحور ہو جاتے۔ اس ترنم کے وقت ان پر اکثر غم کی حالت طاری ہوتی تھی اور سننے والے بھی اس سے اثر پذیر ہونے سے بچ نہیں سکتے تھے۔
جب انہوں نے بڑے مجمعوں اور قومی جلسوں میں شریک ہونا شروع کیا تو پہلے اپنا کلام تحت اللفظ سناتے تھے۔ مگر رفتہ رفتہ لوگوں کو خبر ہو گئی کہ وہ خوش آہنگ بھی ہیں تو فرمائشیں ہونے لگیں کہ لے سے پڑھیں۔ دوستوں کے کہنے سننے سے وہ مان گئے۔ پھر تو یہی چرچا ہو گیا۔ جب کبھی وہ تحت اللفظ پڑھنا چاہیں، لوگ انہیں ترنم پر مجبور کر دیں۔
لاہور کی مشہور تعلیمی انجمن ’’ حمایت اسلام‘‘ کے سالانہ اجلاس اکثر ان کے کلام سے مستفید ہوتے تھے۔ پہلے پہل جب ان کا کلام ترنم سے وہاں سنا گیا، تو کئی موزوں طبع طلبا اور بعض دوسرے شعرا کو شوق ہوا کہ وہ ان کے طرز ترنم کا تتبع کریں۔ اب جسے دیکھو وہ اپنا کلام اسی طرز سے پڑھ کر سنا رہا ہے۔ خواجہ دل محمدؐ ایم اے جو اب اسلامیہ کالج میں ریاضیات کے پروفیسر ہیں اور شاعری میں بھی نام پیدا کر چکے ہیں، اس وقت طالب علم تھے اور اقبال کی آواز کا نمونہ پیش کرنے میں بہت کامیاب سمجھے جاتے تھے۔ اب بھی اکثر مجالس میں ان کی لے سننے میں آتی ہے، مگر اس میں وہ ابتدائی رنگ باقی نہیں۔
ان دنوں دہلی کے شاہی خاندان کے ایک نامور فرد مرزا ارشد گورگانی 4؎ مرحوم زندہ تھے وہ بھی انجمن کے سالانہ جلسوں میں اپنی قومی نظمیں سنایا کرتے تھے جو بہت مقبول ہوئی تھیں۔ مرزا صاحب ہمیشہ تحت اللفظ پڑھتے تھے۔ انہوں نے اقبال کی روز افزوں قبولیت کو دیکھ کر محسوس کیا کہ اقبال کی خوش آہنگی اس کی نظم کو پر لگا رہی ہے اور اپنی ایک نظم میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ مصرعہ لکھا۔
نظم اقبالی نے ہر اک کو گویا کر دیا
یہ بات تو درست تھی کہ بہت سے لوگ اقبال کو دیکھ کر ترنم پر آمادہ ہو گئے تھے مگر اس کی قبولیت کی اصلی وجوہ اور تھیں جو اس وقت کے کلام میں بھی موجود تھیں اور بعد کو زیادہ پختہ ہو گئیں۔
انجمن کا ایک اجلاس جس میں اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’ شکوہ‘‘ اپنے انداز خاص میں پڑھی، بہت لوگوں کو یاد ہو گا، جب ’’ کیف غم‘‘ کا سماں جلسے پر چھا گیا تھا۔ان کے بہت سے مداح پھولوں سے جھولیاں بھر کر لائے تھے اور جب وہ پڑھ رہے تھے تو ان پر پھول برسا رہے تھے۔ اس وقت کی ایک اور بات خاص طور پر قابل دید تھی کہ اقبال کا معمر باپ 6؎ اس نظم کے سننے والوں میں موجود تھا۔ باپ کی آنکھوں میں بیٹے کی کامیابی دیکھ کر خوشی کے آنسو تھے، مگر لبوں پر تاثیر کلام سے وہی علامات غم تھیں جو بیٹے کے چہرے پر تھیں۔ در حقیقت یہ خصوصیت بیٹے نے باپ سے ورثے میں پائی تھی۔ اقبال کے والد ایک صوفی منش بزرگ تھے، مگر ان کا رنگ تصوف ایسا نہ تھا کہ ان کو زندگی کے روز مرہ فرائض سے بے پروا کر دے۔ 7؎ ساری عمر اپنی دس انگلیوں کی کمائی سے روزی کمائی۔ ’’دل بہ یار و دست بہ کار‘‘ پر ان کا عمل تھا۔ دل خدا کی طرف اور ہاتھ کام پر لگے رہتے تھے۔
ایک عرصہ تک اقبال اپنی نظمیں ترنم سے پڑھنے کے بعد فرمائشوں کی کثرت سے تنگ آ گئے اور انہوں نے یہ اصول بنا لیا کہ کسی بڑے مجمعے میں ترنم سے نہیں پڑھیں گے۔ بہت سے شائقین کو سخت مایوسی ہوئی، مگر مرحوم جب کوئی ایسا فیصلہ کر لیتے تھے، اس پر قائم رہتے تھے۔ اس لیے ان کی وفات سے برسوں پہلے یہ معمول ہو گیا تھا کہ کسی جلسے میں اگر وہ اپنا کلام پڑھیں تو تحت اللفظ پڑھتے تھے اور دوستوں میں بیٹھے ہوئے بھی ترنم پر بہ مشکل مائل ہوتے تھے۔ اخیر میں انہوں نے خاص صحبتوں میں بھی ترنم سے پڑھنا بند کر دیا تھا۔ اس عرصہ میں ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ مجھے اور دو اور دوستوں کو ان کی نوائے درد انگیز سننے کا موقعہ ملا۔ وہ آواز اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ مجھے رہ رہ کر افسوس آتا ہے کہ جس زمانے میں اقبال لے سے پڑھتے تھے۔ اس وقت آواز کے ریکارڈ بنانے کا رواج نہ تھا او رکسی کو خیال نہ آیا کہ ان کے پڑھنے کی بے نظیر طرز کو مستقل طور پر مقید کر لیا جاتا کیونکہ ایک خاص اثر ان کی آواز میں تھا جو سننے سے تعلق رکھتا تھا اور لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔
جس موقعہ کا ذکر میں نے کیا ہے اس کی تفصیل دلچسپ ہے میں نے دیرینہ اور بے تکلف دوستی کی بنا پر وہ جسارت کی جس سے اقبال اپنا کلام اپنے خاص انداز میں سنانے پر مجبور ہو گئے۔ 1933ء میں سید سر عبدالرؤف صاحب جو لاہور کی ہائیکورٹ کی ججی سے پنشن پا کر الہ آباد چلے گئے تھے، احباب سے ملنے کے لیے لاہور آئے اور جسٹس سید آغا حیدر صاحب کے ہاں ٹھہرے۔ جب وہ لاہور میں تھے تو میرے اور اقبال کے ان سے بہت مراسم تھے۔ ایک دن سید آغا حیدر صاحب نے مجھے اپنے ہاں کھانے پر بلایا۔ کھانے کے بعد اقبال کی باتیں شروع ہوئیں تو سر عبدالرؤف نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ اقبال اپنی نظموں کو بڑے موثر انداز سے پڑھتا ہے، مگر افسوس کہ میں اتنے برس لاہور میں رہا، اور اقبال سے ملاقات بھی رہی، مگر مجھے ہمت نہ ہوئی کہ میں فرمائش کرتا کہ اپنا کلام لے سے پڑھ کر مجھے سنائیں۔ آغا صاحب نے کہا کہ میں اکثر اقبال سے ملنے جاتا ہوں مگر افسوس کہ آپ ایسے وقت میں لاہور آئے جب اقبال نے اپنے پڑھنے کا انداز بدل دیا۔ دونوں نے مجھ سے کہا کہ تم اقبال کے پرانے دوست ہو، کوئی طریق بتاؤ جس سے ہم ان کا کلام ان کے پرانے انداز سے سن سکیں، میں نے کہا، کوشش کروں گا، گو کامیابی یقینی نہیں کہی جا سکتی۔ تجویز یہ ہوئی کہ اقبال کو اور مجھے پھر کسی دن کھانے پر بلائیں مگر کسی اور کو نہ بلائیں اور کھانے کے بعد سید عبدالرؤف اقبال سے کہیں۔ اقبال ان کا ادب کرتے ہیں، شاید ان کی فرمائش کو نہ ٹالیں۔ اس قرار داد کے مطابق ہم چاروں ایک شب جمع ہوئے میں جانتا تھا کہ سید عبدالرؤف کے کہنے پر اقبال صاف انکار تو نہیں کریں گے، مگر غالباً یہ کہیں گے کہ مجھے اب اپنا کلام یاد نہیں رہتا اور کوئی اشعار یاد بھی ہوں تو مسلسل یاد نہیں۔ اس کا علاج میں نے پہلے ہی سوچ لیا تھا۔ میں گھر سے چلتے وقت ان کی اردو فارسی کتابیں اپنے ساتھ ایک کاغذ میں لپیٹ کر لے گیا تھا تاکہ اگر یہ عذر پیش ہو تو میں کتابیں پیش کر دوں۔ جب ہم سب کھانے سے فارغ ہوئے اور دوسرے کمرے میں جا کر بیٹھے تو عبدالرؤف نے بہت اچھے لفظوں میں اپنی آرزو بیان کی اور کہا کہ مجھے اس لطف سے محروم نہ رکھیے جو آپ کے اور دوست پہلے اٹھا چکے ہیں اور یہ بھی کہا کہ میں بوڑھا آدمی ہوں، معلوم نہیں پھر یہاں آؤں یا نہ آؤں۔ آپ سے یہ میری آخری درخواست ہے اس کا اقبال پر اچھا اثر ہوا، مگر انہوں نے وہی عذر پیش کیا جس کی مجھے توقع تھی۔ میں اٹھ کر وہ کتابیں لے آیا اور ان کے سامنے رکھ دیں۔ اب انہیں انکار کا راستہ نہ رہا اور طبیعت بھی کچھ مائل ہو گئی۔ انہوں نے پڑھنا شروع کیا۔ ان دونوں ججوں کے لیے تو ان کی خوش نوائی ایک نئی چیز تھی، میں جو پہلے سن چکا تھا، میرے لیے بھی ایک گئی ہوئی نعمت واپس آئی۔ ہم اس طرح جھوم جھوم کر سننے لگے کہ اقبال کو بھی مدت کے بعد اس طرح پڑھنے کا مزا آ گیا اور ان کی طبیعت کی وہ خصوصیت بھی اپنا رنگ لائی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ہم تینوں کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ پڑھتے پڑھتے ان کے آنسو بہ نکلے، پھر ہم کیا پتھر تھے کہ ہمارے آنسو تھمے رہتے۔ رات کے کوئی دس بجے تھے جب اقبال نے پڑھنا شروع کیا۔ آدھی رات ہو گئی تو ہم سب کو پتہ چلا کہ اتنی دیر ہو گئی ہے۔ بادل نخواستہ یہ پر کیف صحبت ختم کرنی پڑی۔ دونوں سید بہت ممنون ہوئے۔ اقبال کو ان کی دوستی کا بھی پاس تھا اور سیادت کا بھی۔ اقبال کو بارگاہ رسالت سے ایسی عقیدت تھی کہ وہ ہر سید کا احترام کرتے تھے۔ جب ہم دونوں وہاں سے چلے تو اقبال نے شکایت کی کہ تم نے آج بری طرح مدت کا بندھا ہوا معمول مجھ سے ترک کرایا۔ میں نے کہا کہ سید عبدالرؤف کا دلی شوق ایسا تھا کہ انہیں محروم رکھنا ظلم تھا۔ اگر یہ بات آپ کے خلاف طبع ہوئی ہے تو مجھے معاف کریں۔ اقبال نے کہا، میں بھی اسی خیال سے پڑھنے پر آمادہ ہو گیا، مگر تمہیں اس شرط سے معافی ملتی ہے کہ کل پر یا آئندہ مجھے ایسی فرمائش نہ ہو۔ کل کی تاکید اس لیے کی کہ یہ قرار پایا تھا کہ دوسرے دن شام کو دونوں سید صاحبان نے پھر فرمائش کی مجھے ان کو بتانا پڑا کہ میرے اور اقبال کے درمیان جو معاہدہ ہو چکا ہے، اس کا پابند ہوں اور درخواست میں شریک نہیں ہو سکتا۔
حیف کہ کچھ عرصہ بعد گلے کی بیماری8؎ کی وجہ سے اس آواز کو صدمہ پہنچا کہ مرحوم اپنی عمر کے آخری سالوں میں معمولی بات چیت بھی بہت دھیمی آواز سے کر سکتے تھے۔ 1934ء میں جب میں لاہور سے رونہ انگلستان ہوا تو اقبال بیمار تھے۔ اسی بیماری کی وجہ سے وہ آکسفورڈ نہ آ سکے۔ جہاں انہیں لیکچر دینے کے لیے بلایا گیا تھا۔ اسی زمانے میں ہزہائی نس نواب صاحب بھوپال9؎ کو جو ان کے خاص قدر دانوں میں تھے، خیال آیا کہ ان کا معالجہ ہونا چاہیے۔ انہیں اپنے ہاں بلا کر مہمان رکھا اور علاج بھی کرایا جس سے قدرے افاقہ ہوا اور گفتگو میں کچھ آسانی پیدا ہو گئی مگر گلا پورا درست نہ ہو سکا۔ میں 1937ء میں چند ماہ کی رخصت لے کر لاہور گیا تھا۔ غنیمت ہے کہ مرحوم سے دو آخری ملاقاتیں نصیب ہو گئیں۔ ایک دن گیا تو وہ علیل تھے اور پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے پاس چند نوجوان طلباء اور دو ایک دوست بیٹھے تھے۔ لیٹے لیٹے مجھے گلے لگایا اور دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اس کے چند روز بعد صحت کچھ بہتر ہوئی تو مجھے دوپہر کے کھانے پر بلایا اور میرے ساتھ کھانا کھایا۔ دو اور دوست بھی اس دعوت میں شریک تھے۔ اس دن مزاج شگفتہ تھا اور کئی باتوں میں پرانے زمانے کی جھلک نظر آتی تھی۔ مگر کیا معلوم تھا کہ میں انہیں آخری دفعہ دیکھ رہا ہوں اور ان کی دلچسپ باتیں آخری دفعہ سن رہا ہوں۔
ہم ’’ کیف غم‘‘ کے لیے ان کی آواز تو اب نہیں سن سکتے، مگر ان کا کلام اس سے لبریز ہے اور اس کیف میں جوش زندگی ملا ہوا ہے۔