نشر توحید کا فریضہ
خدا سے محبت کرنا تعلیمات اسلام کی روح ہے۔ لیکن خدا کی محبت کا تقاضا فرد کی ذات تک محدود نہیںرہتا بلکہ اس کے اندر یہ بات بھی شامل ہے کہ خدا کے دوسرے بندوں کو بھی خدا کی محبت سے بہرہ ور کیا جائے اور جب تک خداکا ایک بندہ بھی خدا کی محبت سے بے نصیب ہو چین سے نے بیٹھا جائے۔
زانکہ در تکبیر راز بود تست
حفظ و نشر لا الہ مقصود تست
تانہ خیزد بانگ حق از عالمے
گر مسلمانی نیا سائی دمے
مومن کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس مقصد کے لیے آزادی عمل حاصل کرے اور دوسرے موافق حالات بھی جو ضروری ہوں پیدا کرے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے لازماً کئی مشکلات پیش آتی ہیں اور کئی دشمنوں سے مقابلہ کرنا پڑتاہے جو ایمان کی اس دعوت کو اپنے معبود ان باطل کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے علمبرداروں کو نیست و نابود کر دیں۔
خوگر من نیست چشم ہست و بود
لرزہ بر تن خیزم از بیم نمود
ایسی حالت میں مومن کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جان سے بے پرواہ ہو کر ہر مزاحمت کے ساتھ ٹکر لے اور اس پر عبور حاصل کرے اور اگر ضرورت پڑے تو اس کوشش میں اپنی جان قربان کر دے۔ توحید کا مطلب خدا کو ایک مانناہی نہیںبلکہ اپنی خودی کی ساری قوتوں کو بروئے کار لا کر ایک منوانا بھی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں توحید کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا کو جو اس وقت کفر اور شرک پر قائم ہے۔ توڑ پھوڑ کرایک نئی دنیا بنائی جائے جو توحید کے عقیدہ پرمبنی ہو۔ اقبال کے نزدیک توحید کی تعریف یہی ہے۔
خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا
مومنانہ کردار
پھر جوں جوں خدا کے بندے خدا کی محبت کی نعمت سے بہرہ ور ہوتے جاتے ہیں۔ خدا کی شریعت بھی دنیا میںنافذ ہوتی جاتی ہے۔ کیونکہ خدا کی محبت میں خدا کی شریعت کی اطاعت بھی شامل ہے۔ اقبال توحید کی ایسی اشاعت کو ہی کردار کا نام دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ مسلمان اس کردار کو پیدا کرے۔ اسلامی کردار یہ نہیں جیسا کہ ہمارے بعض سادہ لوح دانشوروںنے سمجھا ہے کہ سوشلسٹ قسم کی اقتصادی مساوات قائم کر دو اور اسلام کا عملی اطلاق سامنے آ گیا۔ اسلام جسم کی ضروریات کو فقط زندگی قائم رکھنے کی حد تک اہمیت دیتا ہے ۔ ا س سے زیادہ نہیں۔ اس کے نزدیک ساری اہمیت اصل انسان کی ضروریات کی ہے جو بعد از مرگ بھی زندہ رہتا ہے۔ اور جس سے اس کی اصل زندگی وابستہ ہے ۔
ان الدار الاخرۃ لھی الحیوان لو کانوا یعملون
طریق خانقاہی
تاہم اس کردار کے ظہور پذیر ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اچھے اچھے مسلمانوںنے یہ سمجھ رکھا ہے کہ مسلمان کا کمال یہ ہے کہ مسلما ن ارکان اسلام کی پابندی کرے۔ زہد اور تقویٰ کو اپنا شعار بنائے اورایک مرشد کامل کی ہدایت کے مطابق ذکر اور فکر اور نوافل کے ساتھ خدا کی محبت کو فروغ دے اور قلبی کیفیات کو پیدا کرے۔ یہ سارا پروگرام اچھا اور ضروری ہے لیکن وہ اس پروگرامن میںمسلمان کا یہ فرض شامل نہیںکرتے کہ وہ خدا کی دنیا کو بدل کر خدا کی مرضی کے مطابق بنائے۔ حالانکہ قرآن حکیم کا ارشاد یہ ہے کہ مسلمان قوم دوسر ے لوگوں کی راہ نمائی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرض کی ادائیگی کے لیے بارہا اپنی جان کو خطرہ میںڈالا اور حضورؐ کی وفات کے بعد صحابہ اور تابعین نے اپنی جانوں سے بے پرواہ ہو کر اس فرض کو ادا کیا۔ ایک طرز عمل یہ ہے کہ مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر ذکر اور فکر سے خدا کی محبت کی نشوونما کر کے درجہ کمال پر پہنچانے کی کوشش کی جائے اور اس کو کافی سمجھا جائے ۔ دوسرا طرز عمل یہ ہے کہ اس کوکافی نہ سمجھا جائے بلکہ محبت کے کمال کو زوردار کردار کا ذریعہ بنایا جائے اور اگر ضرورت ہو تو خدا کی مرضی کے مطابق دنیا کو بدلنے کے لیے جان کو خطرہ میں ڈال دیاجائے۔ پہلے طرز عمل کو اقبال طریق خانقاہی کہتا ہے اور اسے ناکافی سمجھتا ہے۔
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
اور دوسرے طرز عمل کو مومنانہ کردار کانام دیتا ہے۔ یہ مومنانہ کردار دنیا میں ایک زلزلہ پیدا کر دیتا ہے۔