مستقبل کا نظریہ حیات اسلام کیو ں ہے، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

مستقبل کا نظریہ حیات اسلام کیو ں ہے
مستقبل کا اسلامی انقلاب جس سے ابلیس خوفزدہ ہے  مومن کے ایسے ہی کردار کے نتیجہ کے طور پر رونما ہو گا۔ اس لیے کہ ابلیس کی کوشش یہ ہے کہ کسی طرح سے مرد مومن کے اس کردار کے لیے آمادہ نہ ہو۔ ابلیس اپنے اس خیال کی وجوہات بیان کرتا ہے کہ کیوں کہ آخری انقلاب سوشلزم نہیںبلکہ اسلام ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ ا س وقت مسلمان قرآن پر عمل نہیںکرتا اور بندہ مومن کا دین دولت جمع کرنا ہے۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ مشرق کی عام گمراہی کے اس دور میں علمائے دین کی مخلصانہ محبت کے وصف سے عاری ہیں لیکن عصر حاضر بے دینی اور بے راہ روی اور ظلم اور تشدد کے جس دور سے گزر رہا ہے وہ تادیر جاری نہیںرہ سکتا۔ ضروری ہے کہ انسان کی فطرت جو نیک ہے اس کے خلا ف رد عمل کرے ایسی حالت میں اس بات کا خدشہ ہے کہ شرع پیغمبر جسے دور جدید کا انسان اب تک نہیں جانتا کہیں آشکار نہ ہو جائے۔ اور یہ شرع پیغمبر وہ چیز ہے جس سے سو بار پناہ مانگنی چاہیے۔ اس لیے کہ عورت کے ناموس کی محافظ ہے مرد کو امتحان میں ڈال کر آزمودہ اور پختہ کرتی ہے اورانسان کی ہر قسم کی غلامی کے لیے پیغام اجل ہے۔ یہ نہ تو کسی کو بادشاہ تسلیم کرتی ہے اور نہ کسی کو مفلس ہی رہنے دیتی ہے۔ دولت آفرینی کے طریقوں کو پاکیزہ اور شستہ کر کے دولت کو حرام ناجائز اور ناروا عناصر سے پاک و صاف کرتی ہے ۔ اس کی وجہ سے دولت مند اپنے آپ کو دولت کا مالک نہیں بلکہ امین سمجھتا ہے اور اس کا اصلی مالک خدا ہی کو قرار دیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر فکر و عمل کے اندر صحیح تبدیلی اور کیا لائی جا سکتی ہے کہ یہ کہہ دیا جائے کہ زمین بادشاہوں کی نہیں بلکہ خدا کی ہے ایسا قانون دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رہے تو اچھا ہے۔ غنیمت ہے کہ مومن کو خود یقین نہیں کہ اسے اس آئین کو نافذ کرنے کے لیے زور دار کردار یا عمل کی ضرورت ہے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ اس ضرورت کی طرف متوجہ نہ ہو سکے اور الہیات کے مسائل میں الجھ کر اور قرآن کی تاویلات میں منہمک ہو کر یہ تسلی پاتا رہے کہ اس نے دین و ایمان کے تمام تقاضے پورے کر دیے ہیں ار اب اسے ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اور کسی عمل کی حاجت نہیں۔
جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآن نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دین
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستین
عصر حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموز زن مرد آزما مرد آفرین
موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے
نے کوئی فغفور و خاقان نے فقیر رہ نشین
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امین
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین
چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئین تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقین
ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
اقبال کے ان اشعار سے واضح ہے کہ آیا اس کے نزدیک سماجی بیماریوں کا علاج سوشلزم ہے یا شریعت۔
ابلیس کی تمنا
ابلیس اپنے شاگردوں کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ اس طرح سے کام کریں کہ خدا کا وہ عاشق کبھی بیدار نہ ہو سکے جس کی تکبیریں طلسم زمان و مکان کو توڑ کر ایک نئی دنیا وجودمیں لا سکتی ہیں۔ اسے کردار کی دنیا سے الگ رکھو تاکہ اسے ہر بات میں ناکامی ہو اور وہ دنیا میں عزت نہ پا سکے۔ وہ قیامت تک غلام رہے تاکہ دوسرے لوگ اس جہان بے ثبات کا نظم و نسق چلائیں۔ وہ شعر و تصوف میں ایسا ڈوبے کی اسے خبر ہی نہ رہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ میں اس امت کے بیدا ر ہونے سے ڈرتا ہوں جس کا دین کائنات کا محاسبہ کرنے والا ہے یعنی اس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کائنات میں نیک کیا ہے اور بد کیا ہے حق کیا ہے اور باطل کیا ہے اور زشت کیا ہے اور زیبا کیا ہے کونسی چیز باقی رکھنے کے قابل ہے اور کون سی چیز فنا کرنے کے قابل۔ مومن کو ذکر و فکر میں مست رکھو اور خانقاہی طریقوں میں اسے اور پختہ کر دو تاکہ وہ دنیا میں اپنے رول کو بھول جائے اور اسے دنیا کو بدل کر خدا کی مرضی کے مطابق بنانے والے صحیح مومنانہ کردار کی ضرورت کا خیال تک نہ آئے۔
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات
تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے
تابساط زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات
خیر اسی میں ہے رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہاں بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
قوموں کی باہمی کشمکش میں خدا کا راز
اس سے پہلے اس کتاب میں وضاحت کر دی گئی ہے کہ کس طرح سے اقبال نے خودی کے اوصاف و خواص کی بنا پر یہ سمجھتا ہے کہ وہ نظریہ حیات جس میں دنیا پر چھا جانے والی صلاحیت ہے اور جو بالاخر دنیا پر چھا کر رہے گا فقط اسلام ہے‘ سوشلزم یا اور کوئی نظری نہیں۔ عمل تاریخ جس سے انسانی نظریات ان پر اعتقاد رکھنے والی قوموں کے سمیت ابھرتے اورمٹتے رہتے ہیں۔ دراصل نظریاتی ارتقا کا ایک عمل ہے۔ جس کی انتہا کے قریب ایک ایسے نظریہ حیات کا دنیا میں پھیل جانا ضروری ہے جو تصور کامل یعنی خدا کے صحیح اور پاکیزہ تصور کو انسان کی قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر جن میں سیاست‘ معاشرت اور معیشت بھی شامل ہیں چسپاں کرتا ہو اور ایسا نظریہ حیات فقط اسلام ہے۔ تاریخ کے تام پے در پے نمودار ہونے والے واقعات جن میں اقوام عالم کی باہمی پر امن یا تشدد آمیز پیکار جو ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور اس عمل میں ممد و معاون ہیں اور اس کے آخری نتیجہ کو جلد از جلد آشکار کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ قوموں کی باہمی پیکار(پیکار زندگی) کا مدعا یہ ہے کہ مسلمان قوم کا ہلال ماہ کملا بن جائے اور یہ کائنات کے عمل ارتقا کا فرض ہے کہ جو روز ازل سے اس پر عائد کیاگیا ہے اور سچے مومن کی نماز کی طرح بروقت ادا ہو کر رہے گا۔
غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا
جہاں کا فرض قدیم تو ہے ادا مثال نماز ہو جا
قوموں کی باہمی پیکار اسلام کے عالم گیر ظہور ک لیے راستہ صاف کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ن یاپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے عجیب و غریب طریقے استعمال کرتا ہے۔ جو کائنات کے اسرار میں سے ہیں ۔ اور جن کو انسان بعض وقت نہیں سمجھ سکتا اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ بسا اوقات باطل کو باطل کے ہاتھوں سے ملیامیٹ کرتا ہے تاکہ حق کے راستہ کی رکاوٹیں ایک ایک کر کے دور ہوجائیں۔
اقبال کے نزدیک دہریت انسان کی موت ہے تاہم وہ اس بات پر خوش ہے کہ روسی دہریت جدید عیسائیت کے لات و منات توڑ رہی ہے۔ یقینا کائنات کے ضمیر کے اندر خدا کا کوئی بڑا مقصد پوشیدہ ہے جو اس بات سے پورا ہو رہا ہے کہ باطل باطل کی شکست کے لیے اٹھا ہے اور وہ لوگ جو صلیب کی حفاظت کو اپنی نجات سمجھتے تھے آج صلیب شکنی کے لیے مامور ہوئے ہیں۔ اگرچہ اقبال یہاں براہ راست یہ بات نہیںکہتا لیکن اس کے پورے فکر سے یہ بات آشکار ہے کہ اس کے دل میں یہ بات ہے کہ خدا کا وہ بڑا مقصد یہی ہے کہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لیے حالات سازگار ہوں۔ اقبال ایک سوا ل کر کے اس کا جواب مخاطب پر چھوڑ کر (خبر نہیں کہ ضمیر جہان میں ہے کیا بات؟) خدا کے اس مقصد کی طرف ایک لطیف و بلیغ اشار ہ کر رہا ہے  اسلام کے شاندار مستقبل کے متعلق اقبال جب بات کرنا چاہتاہے تو بعض وقت ایسے ہی اشاروں سے کام لیتا ہے مثلاًع
راز خدائی ہے یہ کہ نہیں سکتی زبان
یا
دیکھیے اس بحر کہ تہ میں اچھلتا ہے کیا
یا ع
کس کو معلوم ہے ہنگامہ فردا کامقام
یا ع
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
یا ع
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
وغیرہ
روش قضائے الٰہی کی ہے عجیب و غریب
خبر نہیںکہ ضمیر جہان میں ہے کیا بات
ہوئے ہیں کسر چلیپا کے واسطے مامور
وہی کہ حفظ چلیپا کہ جانتے تھے نجات
یہ وحی دہریت روس پر ہوئی نازل
کہ توڑ ڈال کلیسائیوں کے لات و منات
اشاعت اسلام کے لیے حالات کی سازگاری
ظاہر ہے کہ جب ہر باطل دنیا سے مٹ جائے گا (خواہ وہ ایک اور باطل کی ضربوں سے ہی کیوں نہ مٹا ہو) تو اس وقت نوع انسانی کے لیے حق کا قبول کرنا آسان ہو جائے گا۔ موجودہ وقت میں روس کے انقلاب نے قریباً یہی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ انسان کا دل سچے معبود کو ماننے کے لے صرف اسی وقت مہیاہوتا ہے جب وہ ہر باطل معبود کی محبت سے خالی ہو جائے۔ روس نے کلیسا کی نفی کی ہے۔ بادشاہوں کی نفی کی ہے اور عیسائیت کے اس خدا کی بھی نفی کی ہے جو بیک وقت ایک بھی ہے اور تین بھی ۔ لیکن اسے بہرحال کسی مقصود کااثبات تو کرنا ہے جب تک نفی کے ساتھ کسی چیز کا اثبات نہ کیا جائے نفی حقیقت میں ممکن ہی نہیںہوتی۔ نفی اثبات کا تقاضا کرتی ہے اور اثبات سوائے سچے خداکے کسی چیز کا تسلی بخش یا دیرپا علاج نہیں لہٰذا مسلمان کے لیے وقت ہے کہ وہ سچے خدا کا اثبات کرائے۔ لیکن افسوس ہے کہ ا س وقت مسلمان خود مغرب کے بے خدا افکار سے متاثر ہو کر اسلام سے ہٹتا جا رہا ہے۔ اقبال کے الفاظ میں تہذیب حاضر کی صراحی اس وقت مئے لا سے لبالب بھری ہوئی ہے لیکن شراب وحدت کی ساقی یعنی مسلمانوں کے ہاتھوں میں پیمانہ الا نہیں جس میں ڈال کر نفی کی یہ شراب پلائی جا سکے۔ یعنی اس نفی کو خدا کے اثبات کے ساتھ ملا کر ایک معنی خیز حقیقت بنایا جا سکے۔
لبالب شیشہ تہذیب حاضر سے مئے لا سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الا
اقبال نے ایک اور مقام پر روسی سوشلزم کے اس نقص کو کہ وہ لا کے مقام پر اٹکا ہوا ہے اور ابھی زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ روسیوں نے لا کا نعرہ لگا یا کہ ہم کسی چیز کو نہیںمانیں گے اور پھر پرانے نظام حیات کو زیر و زبر کر دیا۔ بادشاہوں کا انکار کیا۔ کلیسا کا انکار کیا اور ہر معبود کا انکار کیا ۔ لا کا نعرہ ایک تند و تیز آندھی ہے جو ہر چیز کواڑ ا لے جاتی ہے۔ روس کا فکر انکار کی اس آندھی کے اندر محدود رہا اور الا کی طرف آ کر معبود حقیقی کااقرار نہ کر سکا۔ چونکہ ہر چیز سے انکار اوربغاوت کا یہ جنون غیر فطری ہے۔ ضروری بات ہے کہ زود یا بدیر اس کا ردعمل ظاہر ہو اور جب تک یہ رد عمل خدا پر ایمان کی صورت میں اختیار نہ کرے نہ یہ تسلی بخش ہو سکتا ہے نہ کامیاب۔ انسان کو ایک جذبہ محبت دیا گیا ہے جو کسی محبوب کامل کا مثبت تقاضا کرتا ہے۔ انسان اس جذبہ کو تادیر نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اور نہ اس کو تشنہ رکھ سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ زندگی انسان میں ںمودار ہو کر نفی مطلق کے مقام پر نہیں ٹھہرتی بلکہ کسی نہ کسی چیز کے اثبات اوراقرار کی طرف آگے لپکتی ہے۔ ہر ایسی چیز کا انکار کرنے کے بعد جس کا انکار ضروری ہے۔ اسے کسی ایسے محبوب کا اثبات کرنا پڑتا ہے جو درحقیقت اثبات کے قابل ہو اور وہ محبوب فقط خدا ہے۔ تمام کائنات ایک ارتقائی عمل سے خدا کی طرف حرکت کر رہی ہے کیسے ہو سکتا ہے کہ روسی سوشلزم آخر کار خدا کی طرف نہ آئے۔ دنیا میں ہر قوم کی زندگی اور قوت کا دارومدار اور الا دونوں پر ہوتا ہے کہ وہ ایک تصور کو اپ؛نا نصب العین حیات یا محبوب بناتی ہے ۔ اور اس کے مقابل کے ہر تصور کا انکار کرتی ہے اگر کوئی قوم فقط لا کے اورالا نہ کہے توپھر اس کے زندہ رہنے اور عمل کرنے کے لییکوئی امکان پیدا نہیں رہتا۔ آخر وہ کس مقصد کے لیے اور کس کام کے لیے زندہ رہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ التحیتہ والسلام نے ستارے ‘ چاند اور سورج کا انکار کرنے کے بعد سچے خدا کا اقرار کیا تھا۔ تب جا کر ان کا فطری جذبہ محبت تشفی پا سکا تھا۔
طریق خانقاہی کو ترک کرنے کی ضرورت
مومن جو حجرہ میں بیٹھا ہوا فقط زہد و تقویٰ کو کافی سمجھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ طریق خانقاہی کو ترک کر کے میدان کارزار میں آئے اور دنیا کو خدا کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لیے جان کی بازی لگائے۔ اس میں شک نہیںکہ دنیا پر بت پرست نمرودوں کا قبضہ ہے لیکن پھر بھی مومن کو چاہیے کہ حضرت ابراہیم کی طرح نمرود کے سامنے لا کا نعرہ لگائے نمرود اس کا بال بیکا نہ کر سکیں گے۔ نمرودوں کی یہ دنیا جو اسے نظر آتی ہے اس کی حیثیت دو جو کے برابر بھی نہیں۔ لا الہ کی جلالی قوت بے پناہ ہے جو شخص لا کی تلوار کو ہاتھ میں لے کر نکلتا ہے دنیا اس کی ہو جاتی ہے۔
روس را قلب و جگر گرویدہ خون
از ضمیر بش حرف لا آمد بردن
آن نظام کہنہ را برہم زد است
تیز نشے بر رگ عالم زو است
کردہ ام اندر مقاماتش نگہ
لا سلاطین لا کلیسا لا الہ
فکر او در تند باد لا بماند
مرکب خود را سوائے الا نراند
آیدش روزے کہ از زور جنون
خویش رازیں تند باد آر بردن
در مقام لا نیا ساید حیات
سوئے الامے خرامد کائنات
لا و الا ساز و برگ امتان
نفی بے اثبات مرگ امتان
در محبت پختہ کے گرد و خلیل
تانگر دو لا سوئے الا دلیل
نے کہ اندر حجرہ ہا سازی سخن
نعرہ لا پیش نمرودے بزن
ایں کہ مے بینی یز زو باد و جو
از جلال لا الہ آگاہ شو
ہر کہ اندر دست و شمشیر لاست

جملہ موجودات را فرمان رو است