حکمت کی نوعیت اور ضرورت، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

حکمت کی نوعیت اور ضرورت
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود فکر یا حکمت کی نوعیت کیا ہے اور ہمیں اس کی ضرورت کیا ہے؟ اور پھر اقبال کا فکر ایک نظام حکمت کی صورت میں کیوں ہے؟ اقبال نے ایک ہی حقیقت پر اپنے افکار کی بنیاد کیوں رکھی ہے؟ کیااقبال کا یہ طرز عمل ضروری تھا یا محض اتفاقی ہے اور خود اقبال کے فکر کی اہمیت کیا ہے کہ اس کی تنظیم اور تشریح اور تفہیم ضروری سمجھی جائے۔ ہم شاید اس سوا ل کو نظر اندا ز کر دیتے لیکن حکمت اقبال کی منظم تشریح کے لیے اس سوال کا اٹھانا اور اس کا جواب دینا ضروری ہے۔
جب سے انسان نے ہوش سنبھالا ہے وہ برابر اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ جس کائنات میں وہ آ نکلا ہے اس کی حقیقت معلوم کرے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک اس کائنات کی حقیقت معلوم نہ ہو گی وہ جان نہیں سکتا کہ خود اس کی حقیقت کیا ہے۔ اور کائنات کے ساتھ اس کا تعلق کیاہے۔ کائنات کی حقیقت سے اسے اپنی حقیقت کا سراغ ملتا ہے کیونکہ وہ خود بھی کائنات کا ایک اہم جزو ہے ۔ اور اپنی حقیقت وہ اس لے جاننا چاہتا ہے کہ تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ اسے اپنی عملی زندگی کا استعمال کس طرح کرنا چاہیے اور اس زندگی کا اصل مقصد کیا ہے اور وہ اپنی عملی زندگی کی تشکیل اور تعمیر کس طرح سے کرے کہ ا س سے اپنے لیے اسی دنیا میں یا اگلی دنیا میں (اگر وہ بھی ہو تو) بہترین قسم کے نتائج اور ثمرات حاصل کر سکے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کائنات کے متعلق ہر قسم کے تسلی بخش سوالات کا جواب حاصل کر لے گا تو اسی جواب میں اسے اپنے متعلق ہر قسم کے ممکن سوالات کا تسلی بخش جواب بھی مل جائے گا اور پھر وہ اس جواب کی روشنی میں اپنے تمام مسائل کا صحیح حل معلوم کر سکے گا اور اپنی زندگی کا استعمال صحیح طریقے سے کر سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کی حقیقت کا جو تصور بھی وہ قائم کرتا ہے وہ اپنی عملی زندگی کو نہایت احتیاط کے ساتھ اس کے مطابق بناتا ہے گویا اس کے لیے حقیقت تلاش کرنے نہ تو کوئی تفریح مشغلہ ہے اور نہ ہی کوئی علمی یا نظری مسئلہ بلکہ ایک شدید عملی ضرورت ہے جس کی اچھی یا بری تشفی اس کی روز مرہ زندگی کے تمام حالات اور اس کی تمام چھوٹی اور بڑی تفصیلات کو معین کرتی ہے۔ بدنی ضروریات کی تشفی کو تو ہم ایک عرصہ تک التوامیں بھی ڈال سکتے ہیں لیکن اگر ہم اس ذہنی اور عملی ضرورت کو ایک لمحہ کے لیے بھی ملتوی کر دیں تو ہمارا دماغی توازن بگڑنے لگتا ہے اور ہم جنون‘ ہسٹریا ‘ خوف ‘ غم ‘ پریشانی ایسے ذہنی امراض کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ حکمت اقبال کی اہمیت اسی بنا پر ہے کہ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آیا یہ وہی حکمت ہے جو انسان کی ذہنی اور عملی ضروریات کو پورا کرتی ہے یا نہیںَ۔
حکمت کی عمومیت

یہ کہنا غلط ہے کہ حقیقت کائنات کے تصورات یا نظریات حکما یا فلاسفہ سے مخصوص ہوتے ہیں۔ دراصل انسان کی فطرت اس طرح سے بنی ہے کہ آج تک کوئی تندرست فرد عالم یا جاہل ایسا نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہو سکتا ہے جو حقیقت کا ئنات کا کوئی اچھا یا برا صحیح یا غلط مختصر یا مفصل منظم یا غیر منظم عالمانہ یا جاہلانہ تصور نہ رکھے اور اپنی ساری زندگی کو اس کے مطابق نہ بنائے۔ حکما یا فلاسفہ صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو اور لوگوں کی نسبت زیادہ ذہین اور زیادہ باریک بین ہوتے ہیں اور اپنے ذوق اور اپنی افتاد طبیعت کے لحاظ سے حقیقت کائنات کے مسئلہ پر غور و خوض کرتے ہیں اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے زیادہ موزوں اورمستعد ہوتے ہیں جس سے بعض افراد عام لوگوں کے لیے غلہ پیدا کرنے یا کپڑا بننے یا اور بدنی ضروریات کی چیزیں تیار کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اسی طرح سے نوع بشر کے حکما اور فلاسفہ عام لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت کی چیز یعنی حقیقت کائنات کا صحیح تصور جو ہماری ذہنی اور روحانی سطح کی ضروریات سے تعلق رکھتا ہے بہم پہنچانے میں لگے رہتے ہیں ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ حقیقت کائنات کے متعلق خو دان کا اور دوسرے لوگوں کا تصور زیادہ سے زیادہ صحیح ہو تاکہ وہ خود اور دوسرے لوگ اپنی عملی زندگی کو زیادہ سے زیادہ صحیح بنا سکیںَ لیکن حقیقت کائنات کے تصور کی ضرورت ہر انسان کے لیے اس قدر شدید اور فوری اور ناقابل التوا ہوتی ہے کہ لوگ کبھی فلسفیوں اور حکیموں کی تحقیق اور تجسس کے ایسے نتائج کا اظہار نہیں کرتے جو آئندہ کسی وقت دستیاب ہونے والے ہوں بلکہ جو نظریات پہلے ہی موجود ہوتے ہیں ان میں سے کوئی نظریہ قبول کر کے اس پر عمل درآمد شروع کر دیتے ہیں اور وہی نظریہ اپنی اولادوں کو وراثت میں سونپ جاتے ہیں لیکن اگر بعد میں آنے والی نسلیں کسی اور نظریہ سے جو کسی اور حکیم یا فلسفی نے پیش کیا ہو متاثر ہو جائیں تو اپنے نظریہ کو بدل لیتی ہیں اور پھر ان کی ساری انفرادی اور اجتماعی زندگی اس کے مطابق بدل جاتی ہے تاریخ کے بڑے بڑے انقلابات اسی طرح دانائوں فلسفیوں اور حکیموں کے نظریات سے پیدا ہوتے ہیں۔