خودی اور جسم کی ضرورتیں، ڈاکٹر محمد رفیع الدین

خودی اور جسم کی ضرورتیں
گویا نبوت کو ٹٹو کی فکر نہیں بلکہ سوار کی فکر ہے اور یہ خیال سراسر لغو ہے کہ سوار کی الگ اپنی کوئی ضرورت نہیں اور ٹٹو کی ضڑورت پوری کر دی جائے تو سوار کی ضرورت بھی اسی میںآ جاتی ہے حالانکہ سوا ر اپنی ضرورت ہی سر کائنات ہے۔ مقصد اور مدعائے تخلیق ہے۔ گزشتہ اور آئندہ کے ارتقا کا محور ہے اور اس بات کے لیے فیصلہ کن ہے کہ آیا اصل انسان بعد از مرگ پوری طرح سے زندہ اور توانا ہو گا یا موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہے گا۔ خوشحال ہو گا یا بدحال‘ مسرور ہو گا یا مغموم۔ ہمیشہ کے لیے جنت میں جائے یا ہمیشہ کے لیے دوزخ میں اور سوار کی کیا ضرورت ہے ۔ حسن کی غذا سے نشوونما پانا یعنی مظاہر قدرت میں خدا کی صفات کی جلوہ گری کے مشاہدہ سے خدا کی مخلصانہ عبادت سے اور فعل جمعیل سے یعنی اپنے عمل میں خدا کی صفات کے حسن کو آشکار کر کے اور خدا کے اخلاق کے ساتھ متخلق ہو کر اپنی اشتہائے حسن کی تشفی کرنا اور اس کے نتیجہ کے طور پر خود اپنے حسن کو ترقی دے کر درجہ کمال پر پہنچانا اور اس طریق سے اپنے آ پ کو پوری طرح مسرور اور مطمئن بنانا اور تادم مرگ اس حال پر قائم رہنا۔ افسوس ہے کہ جسم کی ضرورت کو خودی کی ضرورت سمجھنے والے اس حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ جس طرح سے جسم کی ایک زندگی ہے اسی طرح سے خودی کی بھی ایک زندگی ہے ۔ جس طرح سے جسم مر سکتا ہے خودی بھی مر سکتی ہے۔ جسم اس وقت مرتا ہے جب قوت حیات اس سے رخصت ہو جاتی ہے اور وہ مضر اور مفید میں فرق نہیںکر سکتا۔ خودی اس وقت مرتی ہے جب خدا کی محبت اس سے رخصت ہو جاتی ہے اور وہ نیک و بد میں فرق نہیں کر سکتی۔ جس طرح جسم کو غذا کی بھوک ہوتی ہے جس سے وہ نشوونما پاتاہے اسی طرح سے خودی کو بھی غذا کی اشتہا ہوتی ہے جس سے وہ نشوونما پاتا ہے تو حیاتیاتی طور پر طاقت ور ہو جاتا ہے۔ خودی جب نشوونما پاتی ہے تو نفسیاتی طور پر طاقت ور ہوجاتی ہے۔ یعنی نیکی اور صداقت کے لیے اس کی قوت ارادی مضبوط ہو جاتی ہے۔ جس طرح سے جسم کی غذا بعض وقت ناکارہ ہوتی ہے ۔ اور جسم کی پرورش نہیں کر سکتی۔ جس طرح سے ناقص غذا سے جو جسم کی ضروریات کے مطابق نہ ہو جسم کمزور اور بیمار ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے ایک ایسے ناقص نصب العین کی محبت سے جو اپنے اوصاف میں خودی کی ضروریات کے مطابق نہ ہو۔ خودی اخلاقی اور روحانی طور پر کمزور اور بیمار ہو جاتی ہے۔ خودی کی غذا وہ نہیںجو جسم کی غذ ا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک فرد جسم کو خوب کھلائے اور موٹا کرے اور خودی کو بھوکا اور کمزور رکھے اور بہت سے افراد ایسا ہی کرتے ہیں۔ جسم کی غذا جب عمدہ اورمکمل ہو تو ا س میں پروتین اور حیاتین اور فلزات اور نشاستہ وغیرہ عناصر پوری مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ خودی کی غذا جب عمدہ اور مکمل ہوتی ہے تو اس میں حسن کی تمام صفات بدرجہ کمال موجود ہوتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کا نصب العین خدا ہوتا ہے جسم غذا کو غذا کو چبا کر اور اعضائے انہضام کی مدد سے ہضم کر کے جذب کرتا ہے اور اپنا جزو بناتا ہے۔ خودی خدا کی صفات کے حسن کو اپنے فکر و عمل یعنی عبادت اور نیکی عملی کے ذریعہ سے جذب کر ے اپنا جذو بناتی ہے۔ جسجم جب تندرست اور توانا ہو تا وہ بیماریوں کی سرایت کو قبول نہیں کرتا اور بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے یا بیمار ہونے کی حالت میں مرض کا کامیاب مقابلہ کرتا ہے۔ اسی طرح سے خودی جب توانا ہو تو اس کا یقین محکم ہوتا ہے وہ مسرور اور مطمئن ہوتی ہے۔ اس کی قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔ وہ غلط تصورات سے متاثر نہیں ہوتی۔ اپنی سفلی خواہشات اور ہوا و ہوس سے محفوظ رہتی ہے اور ان کے ہجوم کے وقت ان کامقابلہ کرتی ہے حاصل یہ ہے کہ خودی کی ضروریات جسم کی ضروریات سے یکرسر مختلف ہیں ۔ لہٰذا جسم کی ضروریات کا اہتمام جو سوشلزم کرتا ہے وہ خودی کی ضروریات کا اہتمام ہرگز نہیں کرتا۔ اقبال کے الفاظ میں یہ سوشلزم کی غلطی ہے کہ وہ ’’شکم‘‘ کی’’سیری کوہی‘‘ ’’جان پاک ‘‘ کی تشفی سمجھتا ہے۔
جسم خودی کا ایک آلہ ہے
اگر ہم اس حقیقت کو مدنظر رکھیں۔ کہ انسانی خودی وہی خدا کا قول کن یا امر اللہ ہے جو روز اول آفرینش کائنات کا سبب ہوا تھا اور بعد میں سارے ارتقا کا باعث ہے تو یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ انسانی جسم یا قالب انسانی خودی کا ایک آلہ جو اس نے خو د وضع کیا تھا تاکہ اس مادی دنیا میں اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کام کر سکے۔ اس خیال کی وضاحت کے لیے اقبال نے رومی کا ایک شعر نقل کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جسم ہم سے پیدا نہیںہوئے۔ پیالہ شراب سے مست ہوا ہے شراب پیالے سے مست نہیںہوئی۔ اصل چیز شراب ہے جس کے لیے پیالہ بنایا گیا ہے۔ پیالے کے لیے شراب نہیں بنائی گئی۔
قالب از ماہست شد مانے ازو
ساغر از مے مست شد نے مے ازو
اقبال خود اپنے شعر میں اس خیال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ جسم خودی کی قبا ہے جو خودی نے اپنے آپ کو ڈھانپنے کے لیے بنائی ہے جس طرح ایک دہکتا ہوا انگارہ اپنے خاکستر سے اپنے آپ کو ڈھانپ لیتا ہے۔
عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی۔
روح کس جوہر سے خاک تیرہ کس جوہر سے ہے
میری مشکل مستی و سوز و سرور و درد و داغ!
تیری مشکل مے سے ہے ساغر کہ مے ساغر سے ہے
ارتباط حرف و معنی اختلاط جان و تن
جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے
جسمانی لذات کا مدعا
اس کا مطلب یہ ہے کہ جسم خودی کا اپنا ہی مقرر کیا ہو ا ایک خادم ہے خودی کا حاکم نہیں۔ چونکہ اس دنیا میں خودی کی اپنی ضروریات یعنی خدا کی محبت کی تشفی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ جسم جو خودی کی سواری ہے زندہ اور سلامت رہے اور جسم کی زندگی اور سلامتی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اس کی ضرورتیں بقائے حیات اور قیام نسل کی حد تک پوری ہوتی رہیں اور چونکہ خودی کے جذبہ محبت کی قوت کی وجہ سے اس بات کا امکان تھا کہ خودی نے اس کی تشفی کے کام میں اس قدر منہمک ہو جائے کہ اپنی سواری کی ضرورتوں کو نظر انداز کر دے جس سے بالاخر اس کی اپنی ضرورت بھی خطرہ میں پڑ جائے۔ لہٰذا خدا نے اپنی حکمت بالغہ سے جسم کی ضرورتوں کے اندر جن کو حیوانی خواہشیں یا ماہرین نفسیات کی اصطلاح میں جبلتیں کہا جاتا ہے دو خصوصیتیں پیدا کر دی ہیں جو خودی کو ان کی تشفی کی طرف بزور متوجہ کرتی ہیںَ ایک تو یہ کہ ان کے اندر ایک حیاتیاتی قسم کا دبائو یا زور پیدا کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر خودی ان کی تشفی نہ کرے یا نہ کر سکے۔ ت واس سے ایک عارضی قسم کی بے قراری یا پریشانی لاحق ہوتی ہے اور دوسری یہ کہ اگر ان کی خودی تشفی کرے تواس بے قراری یا پریشانی ہی دور نہیںہوتی بلکہ اسے ایک عارضی قسم کی لذت بھی نصیب ہوتی ہے۔
جسم اور خودی کی ضرورتوں کا باہمی تضاد

خدا کا یہ انتظام خودی کے جذبہ محبت کی تشفی کا موید اور معاون ہے لیکن اس سے خودی اور جسم کی ضرورتوں کے درمیان ایک تضاد پیدا ہوجاتا ہے۔ چونکہ جسم کی اپنی ہی ضڑورت کی فکر ہوتی ہے اور وہ خودی کی ضڑورت سے بے خبر اور بے پرواہ ہوتا ہے وہ اس عارضی قسم کی بے قراری یا پریشانی کا خوف پیدا کر کے اور اس عارضی قسم کی لذت کا لالچ دلا کر یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ خودی اپنی ضرورت کی طرف سے توجہ ہٹا کر ہمیشہ جسم کی ضرورت کی طرف متوجہ کرے ۔ کیونکہ نہ افلاس کے خوف کا کوئی کنارہ ہے جہا ں پہنچ کر انسان یہ یقین کر لے کہ اب میں اور میری اولاد افلاس سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے ہیں اور نہ جسمانی خواہشات کی لذت کی کوئی حد ہے جہاں پہنچ کر انسان یہ سمجھے کہ اب اسے اس لذت کی مزید ضرورت نہیں لیکن چونکہ وقت جو انسان کو اس کی زندگی میںمیسر ہے محدود ہے اور تھوڑا ہے اور غیر یقینی ہے کہ معلوم نہیں کہ کس لمحہ فی الفور ختم ہوجائے اور پھر یہ وقت ایک ہی ہے اور ایک موقعہ پر صرف ایک ہی کام کے لیے صرف ہو سکتا ہے خواہ وہ کام جسم کا ہو یا خودی کا ہو۔ خواہ وہ خواہشات جسمانی کی پیروی ہو یا ضروریات کی خودی کی تشفی ۔ لہٰذا اگر ایک انسان جسم کے ان حد سے متجاوز مطالبات کو اہمیت دے گا تو ضروری بات ہے کہ وہ خودی کی ضروریات کو جسم کی خاطر نظر انداز کر دے گا۔ ایسی حالت میں بجائے اس کے کہ سوا ر ٹٹو کو اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے کا م میں لائے ٹٹو سوار پر سوار ہو جائے گا اور جدھر چاہے گا اس کو ہانک کر لے جائے گا۔ لہٰذا ایسا کرنا قرآن حکیم کے نزدیک برائی کا ارتکاب ہے۔