نفس کی اصلاح کا مفہوم
جسم کے حد سے تجاوز مطالبات کو قرآن حکیم نے انسان کی حیوانی فطرت کی طرف منسوب کیا ہے ۔ اور اس کے لیے نفس کی اصطلاح برتی ہے اور بتایا ہے کہ نفس انسان کو برائی کا حکم دیتا ہے۔
ان النفس لامارۃ بالسوء الا مارحم ربی (۵۳:۱۲)
اقبال نے بھی قرآن حکیم کی اتباع میں اس کے نفس کی اصطلاح استعمال کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ نفس کو ضبط میں رکھنا خودی کی تربیت اور قوت کے لیے ضروری ہے۔ انسان کو چاہیے کہ ہمت سے اس شتر بے مہار کی زمام کو اپنے ہاتھ میں رکھے۔ پھر وہ حزف ہے تو گوہر بن جائے گا۔
نفس تو مثل شتر خود پرور است
خود پرست و خود سوار و خود سر است
مرد شو آور زمام او بکف
تا شوی گوہر اگر باشی خزف
ہر کہ برخود نیست فرمانش روان
مے شود فرمان پذیر از دیگران
خودی کو نفس کے حملوں سے بچانے کے لیے مومن نفس پر اس طرح سے ٹوٹ پڑتاہے جس طرح سے چیتا ہرن پر ٹوٹ پڑتا ہے۔
مرد مومن زندہ و باخود بجنگ
بر خود افتد ہمچو برآ ہو پلنگ
اقبال جسم یا نفس کے لیے ’’خاک تیرہ‘ ’’گل’’ ’’آب و گل‘‘ ’’ماء وطین‘‘ ’’بدن‘‘ اور ’’اشتر خاکی‘‘ ایسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے۔
امتزاج ماء و طین تن پرور است
کشتہ فحشاء ہلاک منکر است
اہل قوت شو زور و با قوی
تا سوار اشتر خاکی شوی
آب و گل کا طواف
دانائی اور دور اندیشی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان اس ناپائیدار جسم کی حد سے متجاوز خواہشات کو نظر انداز کر دے پائیدار خودی کی ضروریات کو بتمام و کمال پورا کرے اور اپنی مستقبل کی زندگی کی بہتری کے لیے ایک عارضی اور موہوم فائدہ کے لیے خطرہ میں نہ ڈالے۔ لیکن اگر انسان یہ فیصلہ کرے کہ وہ فقط جسم کی ضروریات کو ہی اہمیت دے گا تو پھر اسے ایسا دین ترک کرنا پڑے گا جس کا مقصد خودی کی تربیت اور تقویت ہو اور ایک نیا دین بنانا پڑے گا جس میں روح اور خودی اور خدا کا کوئی مقام نہ ہو اور اس کی تائید کے لیے علم بھی نیا ایجاد کرنا پڑے گا جو بے خدا ہو۔ اور فلسفہ اخلاق اور فلسفہ سیاست کو بھی اس طرح سے ڈھالنا پڑے گا کہ ان میں خدا کا عقیدہ کہیں نہ آئے اور پھر عقل کے استدلال اور دل کے جذبات کو بھی جسم ہی کی خدمت کے لیے وقف کرنا پڑے گا۔ اس وقت دنیا میں دو بڑے نظام ہائے زندگی رائج ہیں ایک سوشلزم اور دوسرا سرمایہ داری ۔ دونوں اس فیصلہ پر متفق ہیں کہ جسم ہی سب کچھ ہے اور خودی کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا دونوں میں دین اور سیاست اور علم اور فن او ر عقل اور دل جسم کا طواف کر رہے ہیں دونوں میںفرق یہ ہے کہ سوشلزم نظری اور عملی طورپر دونوں طور پر خدا کا منکر ہے اور سرمایہ داری عملی طور پر خدا کا انکار کرتی ہے کیونکہ خدا کو اپنی عملی زندگی کے کسی شعبہ میں دخل دینے نہیں دیتی اور نظری طور پر اگر اس کا انکار نہیںکرتی تو اقراربھی نہیںکرتی۔ اقبال اسی صورتحال کا ذکر ہوئے لکھتا ہے:
علم و فن ‘ دین و سیاست‘ عقل و دل
زوج زوج اندر طواف آب و گل
خدا سے شرک
خودی کا تقاضا کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ جسم کی حفاظت کی طرف سے بے پرواہ ہو جائے اور اسے قربان کر کے اپنے مفاد کی حفاظت کر ے مثلاً جہاد کے موقعہ پر۔ لیکن کبھی خودی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ جسم کی حفاظت کرے اور اسے خطرات سے بچائے تاکہ جسم زندہ رہے اور وہ ا س مدد سے اس دنیا میں خدا کی عبادت یعنی تخلق باخلاق اللہ کی مشق کر کے آئندہ زندگی کی تیاری کے طور پر اپنے آپ کو مضبوط اور مستحکم کرتی رہے۔ ایسی حالت میں زندگی کے قیام اور بقا کی حد تک جسم کے مطالبات خودی کے اپنے مطالبات بھی ہوتے ہیں فقط جسم کے مطالبات نہیںہوتے اور جب یہ مطالبات اس حد سے تجاوز کر جائیں تو پھر ان کو خاص جسم کے مطالبات قرار دیا جاتا ہے۔ ان ہی مطالبات کو نفس کے مطالبات بھی کہا جاتا ہے ۔ اگر ایک انسان اپنے جسم یا نفس کا حکم مانے تو ا س کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے خود ی کا حکم جو خدا کا حکم بھی ہے نہیںمانا اور سچے خدا کی بنائے اسے اپنے جسم یا نفس کی خواہشات کو جس کو قرآن مجید نے ہوا کا نام دیا ہے اپنا خدا بنا لیا ہے۔ ایسے شخص کی بدبختی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے قرآن حکیم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے پیغمبرؐ کیا تو نے ایسے شخص پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا خدا بنا لیا ہے۔
اریت من اتخذ الھہ ھوا (۴۳:۳۵)
اس سے زیادہ واضح صورت شرک کی اور کیا ہو گی کہ جس کو خدا خود شرک قرار دیتا ہے اور شرک وہ گناہ ہے جسے خدا معاف نہیںکرے گا حالانکہ اور سب گناہ خدا کے لیے جس کے لیی چاہے گا معاف کرے گا۔
ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذالک لمن یشاء (۴۸:۴)
اسی لیے قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ شرک ظلم عظیم ہے اور شرک کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص آسمان سے گر جائے کہ اس کے ٹکڑے اڑ جاتے ہیں۔ خدا کی ناراضگی اور دوری سے ڈر کر ہوا کے تقاضو ں کو روکنا اور خودی کے تقاضوں کو پورا کرنے کا موقع دینا مومن کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس کا انعام اسے جنت کی صورت میں دیا جاتا ہے۔
وامان خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی فان الجنہ ھی الماوی (۴۰: ۷۹)
یہی تقویٰ ہے جو مومن کو خدا کے نزدیک معزز اور مکرم بناتا ہے اور خدا کے نزدیک عزت اور مکرمت کا معیار سوائے تقویٰ کے کوئی اور نہیں۔ زندگی محدود ہے۔ اس زندگی کو انسان یا خودی کی تشفی کے لیے صرف کر سکتا ہے یا شہوات نفسانی کی پیروی کے لیے دونوں کام بیک وقت ممکن نہیں۔
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں
ایں خیال است و محال است و جنون
لیکن یاد رہے کہ وہ لوگ اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ کر خدا کی عبادت یا خودی کے تقاضوں سے غفلت کریںگے۔ وہ دوزخ میںڈالے جائیں گے۔
اضاعوا الصلوۃ واتبعو الشھوت فسوف یلقون غیا (۵۹:۱۹)
گل جوئی اور گل خوری
جسم مٹی کی بنی ہوئی چیز ہے۔ جو شخص جسم کی خواہشات کے پیچھے پڑ کر خودی کے تقاضوں کو نظر انداز کرتا ہے اس کی خودی کانور بجھ جاتا ہیے اور اس کی خودی موت کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص مٹی کی تلاش کرے مٹی خریدے اور مٹی کھائے اور اس کی صحت خراب ہو جائے گی اور اس کا چہرہ زرد ہو جائے گا۔ اقبال نے رومی کی زبان سے اس حقیقت کو بیان کیا ہے۔
گل محز گل رامخور گل را مجو
زانکہ گل خوار است دائم زرد رو
دولت مندی ایک آزمائش ہے
چونکہ جسم کے حد سے متجاوز زور دار مطالبات کی تشفی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ انسان کے پاس مالی ذرائع بھی موجود ہوں۔ لہٰذا دولت مندی کی حالت میں ان مطالبات کو روکنا آسان کام نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت نے دولت کو خدا کی آز مائش قرار دیا ہے اور تنبیہہ کی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ دولت تمہیں جسمانی خواہشات اور لذات میں منہمک کردے۔ اور تم خدا سے غافل ہو جائو۔ یہاں تک کہ زندگی بیت جائے اور تم اپنے آپ کو دوزخ میںپائو۔
الھکم التکاثر حتی زرتم المقابر (۲۔۱:۲۔۱)
دولت مند سے کڑی باز پرس کی جائے گی کہ اس نے دولت کو ناجائز طور پر تو خرچ نہیں کیا۔
ثم لتسئلن یومئذ عن النعینم (۸:۲۔۱)
دولت مندی کے ایسے ہی خطرناک نتائج کی وجہ سے اقبال لکھتا ہے:
اے بسا مرد حق اندیش و خبیر
مے شود از کثرت نعمت ضریر
کثرت نعمت گذاز از دل برد
ناز مے آرو نیاز از دل برد
سالہا اندر جہاں گردیدہ ام
نم بچشم منعمان کم دیدہ ام