قوموں کے عروج و زوال کے عمل کی آخری منزل، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

قوموں کے عروج و زوال کے عمل کی آخری منزل
جب کوئی قوم اپنے غلط نصب العین کو اس کے نقائص کی وجہ سے ترک کرنے پر مجبور ہوتی ہے تو کوشش کرتی ہے کہ نیا نصب العین جو وہ اختیار کرے پہلے نصب العین کے نقائص سے پاک ہو لیکن چونکہ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ صحیح نصب العین کیا ہے۔ اس لئے اس نئے نصب العین کے اندر اور نقائص موجود ہو جاتے ہیں جو پہلے نصب العین میں نہیں تھے اگرچہ ہر نصب العین حق و باطل اور حسن و غیر حسن کے امتزاج سے بنتا ہے لیکن ہر نیا نصب العین حسن کے بعض عناصر میں پہلینصب العین سے بلند تر ہوتا ہے۔ تاہم پرانے نصب العین کا ترک کرنا اور نئے نصب العین کا اختیار کرنا بڑے بڑے آلام و مصائب کا سامنا کرنے کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اس طرح سے نوع انسانی کا تصور حسن اس موتی کی طرح جو پے بہ پے آنے والے  طوفانوںمیں پرورش پا کر اپنے کمال کو پہنچتا ہے بڑے تلخ تجربات اور صبر آزما حوادث کے سیلاب سے تربیت پا کر رفتہ رفتہ بلند سے بلند تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لہٰذ اایک دن ایسا ضرور آئے گا جب نوع انسانی کا تصور حسن بلندی میں آسمان سے بھی گزر جائے گا اور کرسی اور عرش تک پہنچے گا اور نوع انسانی حالات سے مجبور ہو کر اپنا تصور حسن خود خدا ہی کو قرار دے گا اور اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ خود انسان کی فطرت اس بات کی ضامن ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا اور نوع انسانی حسن نیکی اور صداقت کے اوصاف کو اپنے آپ میں آشکار کر کے خدا کے پسندیدہ نصب العینی انسان کے اس قدر قریب آ جائے گی کہ خدا کا دل اس کی محبت سے بھر جائے گا۔
خیال اوکر از سیل حوادث پرورش گیرد
ز گرداب سپر نیلگوں بیرون شود روزے
یکے در معنی آدم نگر از ما چہ مے پرسی
ہنوز اندر طبیعت مے خلد موزوں شود روزے
چناں موزوں شود ایں پیش پا افتادہ مضمونے
کہ یزداں را دل ز تاثیر اوپر خون شود روزے

اور جب انسان خدا کے نصب العین کو پوری طرح سمجھ بوجھ کر اپنائے گا تو پھر وہ اس نصب العین کو ترک نہیں کر سکے گا۔عمل تاریخ کے ان اسباب سے ہی جن کی تشریح اوپر کی گئی ہے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ وہ نظریاتی جماعت جو خدا کے ایسے صحیح اور کامل تصور پر جو انسان کی قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر حاوی ہو قائم ہوتی ہے وہ عمل تاریخ کے ملیا میٹ کرنے والے اثرات سے محفوظ رہتی ہے چونکہ خدا کا ایسا تصور تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہوتاہے جو قوم اسے اپناتی ہے اور اس پر قائم رہتی ہے اور اس سے محبت کرتی ہے وہ اپنی محبت میں کبھی مایوسیوں سے دوچار نہیں ہوتی اور اس کی محبت کو کبھی زوال نہیں ہوتا۔ اگرچہ اس قوم پر بھی نصب العینوں کی باہمی رقابت اور جنگ و جدال کی وجہ سے ضعف اور قوت کے ادوارکا آنا جانا ضروری ہوتا ہے لیکن اس بات کے باوجود یہ قوم اور اس کا نصب العین تا قیامت موجود رہتے ہیں۔ اب میں عرض کروں گا کہ یہ کس طرح وجود میں آتی ہے اور تاریخ کے قدرتی عمل میں اس کا رول کیا ہوتا ہے۔