ابلیس یا شیطان کی ماہیت کیا ہے؟ یہ بھی اسرار حیات میں سے ایک سر بستہ راز ہے۔ صوفیہ، حکما اور مفکر شعراء نے طرح طرح سے اس کی گرہ کشائی کی کوشش کی ہے۔ کیا ابلیس زندگی کے کسی مظہر کا نام ہے یا وہ کوئی آمادہ بہ شر شخصیت ہے؟ کیا وہ کوئی زوال یافتہ باغی فرشتہ ہے یا اس جناتی مخلوق کا امام ہے جسے قرآن نے ناری قرار دیا ہے؟ لیکن خود نار کیا ایک استعارہ ہے یا دنیا کی آگ کی طرح جلانے اور بھسم کرنے کا ایک عنصر ہے۔ اسی طرح ملائکہ کی ماہیت کے متعلق بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ پروں والی، مابین السماء والارض پروز کرنے والی اور احکام الٰہی بجا لانے والی مخلوق ہے یا وہ بھی حیات و کائنات میں مخصوص قسم کی قوتوں کا نام ہے؟ ملائکہ اشخاص ہیں یا قواے حیات، جو فطرت کو خیر کی طرف مائل کرتے ہیں؟ یہ سب باتیں متشابہات میں سے ہیں، جن کا علم اللہ ہی کو ہے۔ راسخون فی العلم، ان حقائق پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی تاویل خلاق فطرت ہی کو معلوم ہے۔
متصوفانہ ادب میں ابلیس کے متعلق طرح طرح کے تصورات ملتے ہیں۔ کسی نے اس کو ملعون ہونے کی بجائے سب سے بڑا موحد قرار دیا ہے، جس نے حکم الٰہی کے باوجود غیر خدا کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ کسی نے اس کو مادیت کا امام گردانا ہے کہ آدم کا خاکی عنصر تو اس کو نظر آیا اور اس کے عرفان اور روحانی ممکنات اس کو نظر نہ آ سکے۔ آج بھی فلسفیانہ مادیت انسان کے متعلق وہی زاویہ نگاہ رکھتی ہے جسے قرآن نے ابلیس کی طرف منسوب کیا ہے۔ بعض فرنگی محققین کی یہ رائے ہے کہ شیطان کا تصور وہی ایرانی ثنویت میں اہرمن کا تصور ہے اور بنی اسرائیل نے جلا وطنی کے زمانے میں جو ایرانی تصورات قبول کر کے ان کو مذہب میں داخل کر لیا، شیطان کا تصور بھی انہیں تصورات میں سے ہے، کیونکہ بنی اسرائیل کے قدیم انبیاء میں یہ عقیدہ کہیں نہیں ملتا۔ قرآن و حدیث میں شیطان کے متعلق جو تصورات ملتے ہیں ان کا مطالعہ دلچسپ بھی ہے اور حکمت آموز بھی۔ ابلیس کی اگر کوئی ایک شخصیت ہو تو وہ ایک وقت میں ایک جگہ عمل کرتی ہوئی نظر آئے، لیکن حدیث شریف میں ہے کہ ہر شخص کے ساتھ اس کا شیطان لگا ہوا ہے۔ اس پر ایک صحابی نے ذرا جرأت سے پوچھا کہ کیا حضور کے ساتھ بھی ؟ فرمایا کہ ہاں، میرے ساتھ بھی ہے مگر میں نے اسے مومن بنا رکھا ہے۔ حضور کا شیطان تو مومن ہو گیا لیکن کفار کے ساتھ لگا ہوا شیطان کافر ہی رہا۔ اور پھر شیطان ایک تو نہ ہوا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ شیطان انسان کی رگ و پے میں اور اس کی روح کی گہرائیوں میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔ اس بیان میں شیطان کوئی شخصیت معلوم نہیں ہوتا بلکہ زندگی میں ایک تخریب انگیز میلان کا نام ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا جو خیر مطلق ہے اس نے ایسی ہستی کو پیدا ہی کیوں کیا اور انسانوں کو ورغلانے کے لیے اس کو ایسی کھلی اجازت کیوں دی؟ ازروئے قرآن حیات اور کائنات کی کوئی قوت خدا کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتی۔ سب جگہ آئین الٰہی کار فرما ہیں اور مخلوقات میں سے ہر شے خدا کی مطیع ہے۔ یہ اطاعت طوعاً ہو یا کرہاً، اختیار سے ہو یا جبر سے۔ عارف رومی کے نزدیک شیطان اس زیرکی کا نام ہے جو عشق سے معرا ہو کر ادنیٰ مقاصد کے حصول میں حیلہ گری کرتی ہے:
می شناسد ہر کہ از سر محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
قرآں کریم نے استکبار کی وجہ سے انکار کو اس کی امتیازی صفت قرار دیا ہے۔
دراصل ابلیس کی ماہیت کا مسئلہ خیر و شر کا مسئلہ ہے۔ حیات و کائنات میں شر کے وجود سے کون انکار کر سکتا ہے۔ حکماء نے شر کے دو بڑے اقسام قرار دیے ہیں۔ ایک شر طبعی ہے جیسے آندھیاں، طوفان، زلزلے، اور ہزاروں قسم کی بیماریاں جن سے انسانوں کو ضرر پہنچتا ہے لیکن وہ انسانی ارادوں کی پیداوار نہیں۔ دوسری قسم نفسی یا اخلاقی شر ہے، جو انسان کے اختیار کے غلط استعمال سے پیدا ہوتا ہے۔ المانی حکیم لائبنیز کے نزدیک شر کی ایک قسم ما بعد الطبعی بھی ہے۔ اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ خدا ہی ہستی لامحدود ہے جو خیر مطلق ہے۔ خدا کے سوا ہر مخلوق میں کچھ نہ کچھ کمی ہونا لازمی ہے۔ یہ کمی یا نقص خیر کا ایک گونہ فقدان ہے۔ چونکہ کوئی مخلوق، خدا نہیں بن سکتی اس لئے ہر ہستی میں کم و بیش نقص کا ہونا لازمی ہے اور ہر نقص ایک قسم کا شر ہے، قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ خیر و شر سب خدا کی طرف سے ہے، لیکن بایں ہمہ سب کچھ خدا کے دست خیر سے صادر ہوتا ہے۔
انسان کے لیے شر کی ماہیت کا سمجھنا اور ہستی میں اس کا مقام متعین کرنا ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ خیر کی ماہیت کو سمجھنا۔ کیونکہ خیر و شر باہمی تقابل ہی سے سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ شرق و غرب میں بعض اکابر صوفیہ، حکما اور شعر نے ابلیس کو المیہ (ٹریجڈی) کا ایک زبردست کردار بنا دیا۔ ملٹن کے فردوس گم شدہ کی دینی نظم میں شیطان ایک زبردست کریکٹر ہے اور اس کی تشکیل میں ملٹن نے اپنی قوت تخیل کو پورے زوروں پر استعمال کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے بعض نقادوں کے رائے ہے کہ ملٹن کا شیطان اس کے خدا کے مقابلے میں زیادہ قوی اور لبریز حیات معلوم ہوتا ہے۔ گوئٹے کے حکیمانہ ڈرامے فوسٹ میں زندگی کے گہرے اسرار اور اس کی باطنی قوتوں کی گرہ کشائی کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس ڈرامے کا ہمپایہ اور روحانی بصیرت والا مفکر شاعر ہے، اس نے بھی ابلیس کی حقیقت کو کئی جگہ بیان کر کے اس تصور کو ایک نئے رنگ میں پیش کیا ہے۔ اقبال کے ہاں ابلیس کا تصور اس کے فلسفہ خودی کا ایک جزو لاینفک ہے۔ خودی کی ماہیت میں ذات الٰہی سے فراق اور سعی قرب و وصال دونوں داخل ہیں۔ اقبال کے فلسفہ خودی کی جان اس کا نظر عشق ہے۔ عشق کی ماہیت آرزو، جستجو اور اضطراب ہے۔ اگر زندگی میں موانع موجود نہ ہوں تو وہ خیر کوشی بھی ختم ہو جائے جس کی بدولت خودی میں بیداری اور استواری پیدا ہوتی ہے۔ اگر انسان کے اندر باطنی کشاکش نہ ہو تو زندگی کی جامد ہو کر رہ جائے۔ اقبال نے شیطان کی خودی کو بھی زور و شور سے پیش کیا ہے اور کئی اشعار میں تو شیطان کی تذلیل کی بجائے اس کی تکریم کا پہلو نظرآتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال جدوجہد کا مبلغ ہے، اور جدوجہد باطنی اور خارجی مزاحمتوں کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ خودی اپنے ارتقاء کے لئے خود اپنا غیر پیدا کرتی ہے۔ تاکہ اس کو جذب کرنے اور اس پر غالب آنے سے انسان روحانی ترقی کر سکے۔ زندگی کی مزاحمتوں کے اندر تو کوئی روح محبت نہیں، لیکن روح محبت ان کی بدولت قوت حاصل کرتی ہے۔ قرآنی ابلیس انکار مجسم ہے جسے نفی حیات سمجھنا چاہیے، لیکن زندگی ہر قدم پر اپنی نفی کر کے بہتر اثبات کی طرف قدم اٹھاتی ہے۔ اثبات کے لیے نفی مقدم ہے:
لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا
شیطان زندگی کے مراحل میں اس وقت غالب معلوم ہوتا ہے جب انسان نفی کی منزل میں رک جانے اور آگے اثبات کی طرف اس کے قدم نہ اٹھ سکیں۔ اگر نفی کا عنصر بھی انسان کے لیے اثبات سے کم اہمیت نہیں رکھتا تو اس سے گریز ناممکن بلکہ ناواجب ہے۔ جذبات اگر عقل و عشق کے کنارہ کش ہو کر عنان گسیختہ مصروف عمل ہوں تو ان میں وہی انداز پیدا ہوتا ہے جسے قران نفس امارہ کہتا ہے، لیکن زندگی میں کوئی اچھا کام بھی جذبات کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ افلاطون نے نفس انسانی کو ایک رتھ سے تشبیہہ دی ہے جس میں جذبات کے گھوڑے لگے ہوتے ہیں۔ ان کی عناس نفس عاقلہ کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ اگر عقل کی گرفت ڈھیلی ہو جائے تو یہ گھوڑے رتھ کو ٹکرا کر تباہی پیدا کر دیں۔ لیکن اگر گھوڑے نہ ہوں تو رتھ اپنی جگہ سے جنبش ہی نہ کر سکے۔ غرضیکہ مقصود حیات جذبات کشی نہیں بلکہ ان جذبات کو عقل و عشق و ایمان کے زیر عنان رکھنا ہے۔ مندرجہ صدر حدیث کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اسوہ نبوت یہ ہے کہ شیطان کی گردن مارنے کی بجائے اس کو مومن بنا کر اس سے مومنوں والے کام لیے جائیں۔ خارجی اور باطنی زندگی کی قوتیں اور کائنات میں کام کرنے والی طاقتیں جیسے برق و طوفان، تخریب و تعمیر دونوں میں کام آ سکتی ہیں۔ ان قوتوں کی تخریب کو دیکھ کر انہیں خیر مطلق کا منافی سمجھنا بے بصری کا نتیجہ ہے۔ انہیں قوتوں کی تسخیر انسان کا مقصود حیات ہے۔ لیکن تسخیر کے لیے زبردست مزاحم قوتوں کا وجود لازم ہے۔ اگر یہ مزاہم قوتیں نہ ہوتیں تو ارتقائے حیات نا ممکن تھا۔ اس تصور کے مطابق شیطان کائنات میں بھی کار فرما ہے اور ہر شعبہ حیات میں بھی وہی انسان کے جسم میں بھی ہے، اس کے شعور میں بھی اور اس کے تحت الشعور میں بھی۔ وہ حرکت اور تخلیق کا مصدر ہے۔ لیکن اگر عقل و عشق کی قوتیں اس پر قابو نہ پا سکیں تو زندگی میں کوئی نظم و ضبط پیدا نہ ہو سکے۔
اقبال کی نظم، تسخیر فطرت میں ابلیس سجدۂ آدم سے انکار کی وجہ بڑے زور شور سے بیان کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو حرکت کا سرچشمہ بناتا ہے، زندگی میں جو برکت ہے وہ حرکت کی وجہ سے ہے، اس لیے وہ زندگی کی برکتوں کو بھی اپنی طرف منسوب کر لیتا ہے۔ وہ ذات باری کو کہتا ہے کہ سب ہنگامہ حیات اور زندگی کی تمام ہماہمی اور گہما گہمی میری وجہ سے ہے۔ میں نہ ہوتا تو نہ کائنات میں جنبش نظر آتی اور نہ زندگی میں سوز و ساز ہوتا۔ وہ تخریبی حرکات کے ساتھ ترکیبی عناصر اور مظاہر کو بھی اپنا رہین منت سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے خواہ مخواہ بدنام کرتے ہو کہ میں نفی و تخریب ہی کے درپے رہتا ہوں۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہر نئی تعمیر پہلی تعمیر کو ڈھانے کے بعد ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ تخریب کو مجھ سے منسوب کرتے ہو تو تعمیر کو بھی میری طرف منسوب کرو، جو تخریب کے بغیر نہ ہو سکتی تھی:
ہر بناے کہنہ کا باداں کنند
اول آں تعمیر را ویراں کنند
شیطان کے آتش نژاد ہونے کے بھی یہی معنی ہیں کہ موجودات کا وجود حرارت سے ہے۔ اس سلسلے میں ابن عربی نے ایک نہایت حکیمانہ اور عارفانہ بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جنت کے پھل دوزخ کی حرارت سے پکتے ہیں۔ بات ایسی گہری سے کہ ایک طویل مضمون اس کی شرح کے لیے درکار ہے۔ اس سے جنت اور دوزخ کی ماہیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ فرشتوں کو نوری کہتے ہیں اور شیاطین و جنات کو ناری۔ شیطان کہتا ہے کہ ناری کو نوری پر ترجیح ہے، کیونکہ نار میں حیات آفرینی اور نور، نار ہی کا ایک مظہر ہے۔ نور بحیثیت نور کوئی حرکت پیدا نہیں کر سکتا:
نوری ناداں نیم سجدہ بہ آدم برم
او بہ نہاد است خاک من بہ نژاد آذرم
می تپد از سوز من، خون رگ کائنات
من بہ دو صرصرم، من بہ غور تندرم
رابطہ سالمات، ضابطہ امہات
سوزم و سازے دہم آتش مینا گرم
ساختہ خویش را در شکنم ریز ریز
تا ز غبار کہن پیکر نو آورم
پیکر انجم ز تو، گردش انجم ز من
جاں بہ جہاں اندرم زندگی مضمرم
تو بہ بدن جاں وہی شور بہ جان من دہم
تو بہ سکوں رہ زنی، من بہ تپش رہبرم
آدم خاکی نہاد دوں نظر و کم سواد
زاد در آغوش تو، پیر شود در برم
خدا کے سامنے اپنی مدح سرائی کرنے کے بعد وہ آدم کو بہکاتا ہے کہ تیری اس جنت میں کیا مزہ ہے۔ ایک مسلسل سکون و نشاط و سرور کی یک آہنگی۔ نہ ضرورت عمل، نہ نشاط کار، نہ مقصد کوشی، ایسی جنت میں تیرا ساز بے سوز ہے۔ بقول مرزا غالب:
دراں پاک مے خانہ بے خروش
چے گنجائی شورش نا و نوش
سیہ مستی ابر و باراں کجا
خزاں چوں نباشد بہاراں کجا
شیطان آدم کو کہتا ہے کہ تو یہاں کیا فاتختہ بن کر شاخ طوبیٰ پر بیٹھا ہے۔ انجیل میں ہے کہ روح القدس حضرت مسیح کو فاختہ کی صورت میں نازل ہوتی دکھائی دی۔ابلیس کہتا ہے کہ اس عالم قدس میں روحیں فاختہ بن جاتی ہیں۔ نہایت معصوم، بے ضرر، لیکن لیکن مزہ شاہین بننے میں ہے۔ اس کے لیے شکار کا شوق اور جذبہ چاہیے۔ جنت میں جھپٹنے کی کیا گنجائش ہے۔ سجود و نیاز میں عجز کے سوا کیا رکھا ہے۔ کوثر و تسنیم کے کنارے شراب طہور پیتے رہنا یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ جنت اگر تمام آرزوؤں کے حصول کانام ہے تو ایسی زندگی موت کے برابر ہے۔ وصل کے بعد شوق مر جاتا ہے، حیات دوام تو فراق و وصل کی کشمکش ہی سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اٹھ یہاں سے نکل۔ تجھے ایک ایسے عالم کی سیر کرتا ہوں جہاں زندگی سوختن ناتمام ہے۔ زندگی کا تیر جگر میں نیم کش ہی رہے تو خلش کا لذت باقی رہ سکتی ہے:
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
سکونی جنت میں تو جمادی اور نباتی کیفیت ہے۔ چل تجھے آرزو اور جستجو کے عالم میں سرگرم عمل کرتا ہوں:
زندگی سوز و ساز بہ ز سکون دوام
فاختہ شاہین شود از تپش زیر دام
ہیچ نیامد ز تو غیر سجود نیاز
خیز چوں سرو بلند اے بعمل نرم گام
کوثر و تسنیم برد از تو نشاط عمل
گیر ز میناے تاک بادۂ آئینہ فام
خیز کہ بنایمت مملکت تازۂ
چشم جہاں بیں کشا بہر تماشا خرام
تو نہ شناسی ہنوز شوق بمیروز وصل
چیست حیات دوام سوختن نا تمام
قرآن نے بھی بعض آیات میں آدم کو نوع انسان کے مترادف قرار دیا ہے۔ ’’ فتلقی آدم من ربہ کلمت فتاب علیہ۔۔۔۔۔ قلنا اھبطو منہا جمیعاً فاما یاتینکم من ھدی‘‘ آدم نے اپنے رب سے چند کلمے اخذ کیے اور اس نے اس کی توبہ قبول کر لی۔۔۔ ہم نے کہا تم یہاں سے کھسک جاؤ۔ اسکے بعد تمہارے پاس اگر میری طرف سے ہدایت آ جائے۔۔۔۔ یہاں آدم کے ذکر کے بعد ہی پوری نوع بشر سے یہ صیغہ جمع خطاب کیا گیا ہے۔ اقبال کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ قرآن نے آدم کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ کسی ایک فرد کا ذکر نہیں بلکہ نوع انسان کی نفسیات اور اس کے ممکنات کا بیان ہے۔ علامہ اقبال نظریہ ارتقاء کے قائل تھے۔ لیکن یہ نظریہ ڈاروینی نہیں تھا بلکہ عارف رومی اور حکیم برگسان کے نظریات کے مماثل تھا۔ ان کا خیال تھا کہ نوع انسان ایک درجہ ارتقاء میں حیات کی ایک خاص منزل میں تھی جس سے اس کا نکلنا مزید ترقی کے لیے لازمی تھا۔ اور متیقوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ اس جنت کی طرف عود نہیں ہے جسے نوع انسان بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ آئندہ زندگی کی پیکار اور تسخیر سے جو جنت حاصل ہو گی وہ پہلی جنت سے افضل ہو گی اور اسی طرح آگے جو جنتیں آئیں گی ان میں کہیں ایک حالت پر قیام نہ ہو گا۔ ’’ تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کی سعی مسلسل ہر مرحلے میں جاری رہے گی۔ ہر جنت ایک نئے انداز کا دار العمل ہو گی۔ عمل اور زندگی ایک ہی چیز ہے۔ از روئے قرآن بھی تکریم آدم پہلی جنت سے نکلنے کے بعد ہی ظہور میں آئی۔ آدم پہلی جنت سے نکلنے کے بعد ہی خلیفتہ اللہ فی الارض بنا۔ قرآن نے ہبوط آدم کے تصور کو عروج آدم کا نظریہ بنا دیا۔ آدم کے متعلق عیسوی اور اسلامی نظریے میں یہ ایک بنیادی فرق ہے۔ عیسائیت کے مطابق آدم کی نافرمانی کا گناہ اس کی فطرت میں پیوست ہو گیا۔ خدا نے اسے معاف نہ کیا بلکہ سزا کے لیے پہلے دنیا میں بھیج دیا اور قیامت تک اس کی تمام ذریت ناکردہ گناہ میں ملوث ہی پیدا ہوتی رہے گی اور ملوث ہی مرتی رہے گی۔ یہ سزا کا لامتناہی سلسلہ حضرت مسیح کے کفارے پر ختم ہوا جس نے تمام نوع انسان کے گناہ اپنی گردن پر لے لیے اور لعنت کی موت قبول کی۔ اب بھی فقط ان انسانوں کی نجات ہو سکتی ہے جو اس کفارے کے قائل ہوں، ورنہ ناکردہ گناہ پیدائش، آدم کی عصیانی وراثت کی وجہ سے جاری رہے گی۔ قرآن نے آدم کی ایک سرسری لغزش کو صاف کر کے اسے انعام و اکرام کا مستحق بنادیا۔ جس کے بعد آدم کی اولاد میں سے ہر ایک معصوم پیدا ہوتا ہے اور زندگی اور اس کے بعد اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ کسی ایک فرد کا گناہ دوسرے کے ذمے نہیں لگ سکتا۔ لا تزرر وازرۃ وزراء اخری
آدم اس نئے عالم میں آکر حسرت و حرمان کا شکار نہیں ہوا۔ خلافت ارضی کے عطا ہونے کے بعد وہ کیوں پریشان ہوتا۔ لیکن یہ نیا بار امانت خطرے سے خالی نہ تھا۔ اس امانت میں خیانت سے ظلوماً جہولا ہونے کا بھی کھٹکا تھا۔ اس امانت اور خلافت کو نبھانے کے لیے اسے بڑی دشوار گزار گھاٹیوں میں سے گزرنا پڑا۔ لیکن تگ و دو میں ایک لذت ہے، آرزو و جستجو میں زندگی ہے۔ پہلی زندگی میں زندگی کے حقائق کے متعلق ایک غیر شعوری یقین تھا، اب گمان و یقین کی کشمکش پیدا ہو گئی، لیکن اس تمام کشاکش کو آدم نے اپنے پہلے سکون پر قابل ترجیح سمجھا اور پھر پہلی جنت میں واپس جانے کی آرزو دل سے نکل گئی۔ شیطان کے بہکانے اور آدم کے دنیا میں بھیجے جانے سے کچھ فائدہ ہی ہوا۔ اپنے آپ کو اور کائنات کو مسخر کرنے کا ایک شغل ہاتھ آ گیا:
چہ خوش است زندگی را ہمہ سوز و ساز کردن
دل کوہ و دشت و صحرا بہ دمے گداز گردن
ز قفس درے کشادن بہ فضاے گلستانے
رہ آسماں نودن، بہ ستارہ راز کردن
بہ گدازہاے پنہاں، بہ نیازہاے پیدا
نظرے ادا شناسے بہ حریم ناز کردن
ہمہ سوز ناتمامم ہمہ درد آرزویم
بگماں وہم یقیں را کہ شہید جستجویم
بال جبریل میں بھی جبریل و ابلیس کے مکالمے میں ابلیس اپنی کار گزاری پر فخر کرتا ہے۔ ابلیس جبریل کو محض طاعت گزار اور بے چون و چرا فرمانبردار ہونے کی وجہ سے لذت آرزو سے محروم سمجھتا ہے۔ جبریل پوچھتا ہے کہ عالم رنگ و بو کی کیا حالت ہے۔ ابلیس جواب دیتا ہے سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو جبریل پوچھتا ہے کہ کہو اب بھی توبہ کرتے ہو یا نہیں؟ ابلیس کہتا ہے کہ ہرگز تائب ہونے کو تیار نہیں۔ مجھے معلوم نہیں مردود و مطرود ہونے میں مجھ کو کیا مزہ آیا۔ میں کائنات کا سوز دروں بن گیا۔ اس کے مقابلے میں افلاک کی خاموشی کی کیا وقعت ہے۔ زندگی میں فراق کی بناء میرے انکار نے ڈالی اور اس وجہ سے کائنات کا ہر ذرہ طلب وصال میں ارتقا گوش ہوا۔ اور انسان جو محض ایک مشت خاک تھا اس میں ذوق نمو پیدا ہو گیا۔ ملائکہ کی اطاعت غیر مشروط اور جنت کی بے پیکار زندگی میں عقل کی کیا ضرورت تھی۔ (اکثر اہل الجنتہ ہلہ) میرے فتنے کی وجہ ہی سے عقل کی ضرورت پیش آئی۔ تم ملائکہ تو سبک ساران ساحل ہو، تمہیں پتا نہیں کہ طوفان میں تھپیڑے کھانے میں کیا لذت ہے۔ اگر کبھی خدا سے خلوت میں کچھ پوچھنے کا موقع ملے تو ذرا دریافت کرنا کہ آیا یہ واقعہ ہے یا نہیں کہ قصہ آدم کی تمام رنگینی اسی مردود کی رہین منت ہے۔ استکبار میں یہ تعلیٰ ملاحظہ ہو:
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو
شیطان نے کہا کہ آدم کو مسجود ملائک بنا کر اس کی فضیلت کا ڈنکا خدا نے بجا دیا، ہماری تعریف کسی نے نہ کی اس لیے ہم خود ہی اپنے صفات بیان کرنے پر مجبور ہو گئے:
لائق مدح در زمانہ چو نیست
خویشتن را ہمی سپاس کنم
(غالب)
آدم کا کمال اس کی سعی پیہم سے وابستہ ہے۔ اگر شیطان اس کو پہلی سکونی جنت سے نہ نکالتا تو اس کو یہ تگ و دو کہاں سے نصیب ہوتی۔ پہلی جنت جس سے شیطان نے نکلوایا وہ بے کوشش یونہی بخشی ہوئی جنت تھی۔ اب آدم اپنی مساعی سے جو جنت بنائے گا وہ اس کے خون جگر کی پیداوار ہو گی۔ وہ اس کی اپنی کمائی ہو گی:
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
ہے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ
مفت میں بخشی ہوئی جنت کے متعلق یہاں اقبال کا ایک قطعہ یاد آ گیا:
بہشتے بہر پاکان حرم ہست
بہشتے بہر ارباب ہمم ہست
بگو ہندی مسلمان را کہ خوش باش
بہشت فی سبیل اللہ ہم ہست
جاوید نامہ میں سیر افلاک کے دوران میں اقبال کی ملاقات ہر اس انسان سے ہوئی جو انسانیت کی کسی صفت کا ممتاز نمائندہ تھا۔ خواہ وہ صفت علوی ہو یا سفلی۔ اگر اس سیر کائنات میں کہیں ابلیس نظر نہ آتا تو ایک بڑا اہم نمائندہ حیات اور زندگی کے ڈرامے کا ایک اہم کردار نظر سے اوجھل رہتا۔ حقیقت حیات کا اہم پہلو تشنہ تعبیر رہ جاتا۔ ابلیس کا تصور اقبال اور نظموں میں بھی بلیغ اور دلکش انداز میں پیش کر چکا تھا لیکن یہ تصور اس کے ہاں اس قدر حکیمانہ اور دلآویز ہے کہ جاوید نامہ میں اس کی مزید تشریح کی کوشش کی گئی ہے۔ ابلیس اس سے پہلی نظموں میں بھی اپنی بابت جو کچھ کہہ گیا ہے اس میں تعلی اور تفاخر اور تکبر کے باوجود وہ ایسے صفات بیان کر گیا ہے جنہیں اقبال ارتقائے حیات کا لازمہ سمجھتا ہے اسی لیے بعض اشعار میں ستائش کا پہلو مذمت پر غالب نظر آتا ہے۔ جاوید نامہ میں ابلیس کے متعلق دو نظمیں ہیں۔ ایک عنوان ہے ’’ نمودار شدن خواجہ اہل فراق ابلیس‘‘ اور دوسری نظم کا عنوان ’’ نالہ ابلیس‘‘ ہے۔ ان دونوں نظموں میں بھی کہیں ابلیس کی تحقیر نظر نہیں آتی اور اس میں اکثر باتیں اس نے ایسی کہی ہیں جو اقبال کے فلسفہ خودی اور نظریہ ارتقاء کا اہم جزو ہیں۔ اقبال نے کئی جگہ متفرق اور منتشر اشعار میں اپنے اس نظریے کو بیان کیا ہے کہ زندگی اضطراب مسلسل، جستجوے پیہم اور منزل کی خواہش سے بیگانہ ذوق سفر ہے۔ وہ خدا کے ساتھ بھی وصال کامل کا خواہش مند معلوم نہیں ہوتا جو عام طور پر صوفیہ کا مقصود ہے۔ اقبال اس عقیدے میں نہایت پختہ ہے کہ ’’ شوز بمیرد ز وصل‘‘ اور اگر انسان خدا میں اس طرح گم اور ضم ہو جائے جس طرح قطرۂ باراں دریا میں ٹپک کر اپنی خودی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، تو اس قسم کی فنا حیات ابدی کا حصول نہیں بلکہ عدم ہے۔ بالفاظ دیگر خدا کی ذات سے انسان کی خودی کا فراق ابداً قائم و دائم رہنا چاہیے۔یہ فلسفہ فراق اقبال کا ایک امتیازی نظریہ ہے جاوید نامہ میں اقبال نے ابلیس کو اس نظریہ حیات کا مبلغ بنا دیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سے ہم نوا ہو گیا ہے۔
ہم ذرا آگے چل کر اقبال اور ابلیس کے زاویہ نگاہ کا ایک اساسی فرق بیان کریں گے، مگر پہلے ابلیس کا نظریہ اس کی اپنی زبانی سن لیں کہ وہ اپنے لیے کیا جوا ز پیش کرتا ہے۔ عنوان ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو اس بیان میں ابلیس کی مذمت مقصود نہیں۔ ’’ خواجہ اہل فراق‘‘ کوئی طنزی و تحقیری لقب نہیں ہے۔ بہرحال چونکہ شیطان کا عالم عالم ظلمت ہے اس لیے اس کے نمودار ہوتے ہوئے پہلے تمام جہان میں اندھیرا ہو جاتا ہے۔ ابلیس اس میں ایک شعلے کی طرح ابھرتا ہے لیکن یہ شعلہ بھی دھوئیں سے سیاہ پوش ہے۔ اقبال بادی راہ رومی سے پوچھتا ہے کہ یہ کون ہے؟ مرشد نے کہا کہ یہ خواجہ اہل فراق ہے جو سراپا سوز ہے۔د یکھنے میں بہت سنجیدہ معلوم ہوتا ہے، مرد حکیم کی طرح کم خندہ و کم گو ہے؟ بہت باریک بیں ہے۔ عارف رومی نے مثنوی میں کہا تھا کہ:
تن ز جان و جاں ز تن مستور نیست
لیک کس را دید جاں دستور نیست
لیکن اس معاملے میں شیطان باطن بینی میں عارفوں سے بھی بڑھ کر ہے کہ بدن کے اندر جو غیر مرئی جان ہے اسے بھی دیکھ لیتا ہے اس کے اہل نظر ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔
کہنہ کم خندہ اندک سخن
چشم او بینندہ جاں در بدن
لیکن اس میں کئی متضاد قسم کے صفات بھی جمع ہیں۔ وہ رند بھی دکھائی دیتا ہے اور ملا بھی! حکیم نکتہ رس بھی اور صوفی خرقہ پوش بھی۔ وہ زاہدوں کی طرح عمل میں بھی سخت کوش ہے۔ اس نے جو نظریہ حیات اختیار کر لیا ہے اس کے مطابق بڑی جانفشانی سے مصروف عمل رہتا ہے۔ لیکن ابلیس اور زہاد و صوفیہ میں ایک بنیادی فرق ہے۔ زاہد تو عاقبت کی خاطر دنیا کو ترک کرتے ہیں، تاکہ آخرت میں جنت اور رویت الٰہی نصیب ہو لیکن ابلیس کے ترک و ایثار کا کمال یہ ہے کہ وہ جمال لایزال کا بھی آرزو مند نہیں۔ اقبال نے ترک کے متعلق ابتدائی اردو غزلوں میں ایک شعر کہا تھا:
واعظ! کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
اور کسی متصوف شاعر نے کمال ترک کو زندگی کا نصب العین بنا کر کہا ہے کہ دنیا اور عقبیٰ اور خدا کو ترک کر کے اس جہان کو بھی دل سے نکال دو کہ ہم نے سب کچھ ترک کر دیا ہے:
ترک دنیا ترک عقبیٰ ترک مولیٰ ترک ترک
ابلیسکی کیفیت بھی کچھ اس کے مماثل ہی معلوم ہوتی ہے:
فطرتش بیگانہ ذوق وصال
زہد او ترک جمال لایزال
ترک جمال لایزال کمال درجے کے ایثار اور نفس کشی کا طالب تھا۔ ابلیس نے اس کٹھن مرحلے کو طے کرنے کے لیے سوچا کہ حکم سجود آدم کو ماننے سے انکار کر دوں، خدا سے ایسا ناراض ہو گا کہ ہمیشہ کے لیے اطاعت و محبت کے راستے مسدود ہو جائیں گے۔ اس کے اس ثبات کی داد دیجئے کہ اس ارادے میں آج تک متزلزل نہیں ہوا۔ اس نے اس انکار سے تمام کائنات میں خیر و شر کی پیکار شروع کر دی۔ اس جنگ میں یکہ و تنہا چومکھیا لڑ رہا ہے۔ مجروح ہوتا ہے لیکن ہمت نہیں ہارتا۔ سینکڑوں پیغمبروں کو دیکھ چکا ہے لیکن ابھی تک کافر کا کافر ہے۔ کہتے ہیں کہ شاہ جہاں کے دربار میں ایک برہمن نے فخر سے یہ شعر پڑھا:
مرا دلیست بہ کفر آشنا کہ چندیں بار
بہ کعبہ بردم و بازش برہمن آوردم
شاہ جہاں کی رگ حمیت جوش میں آئی اور سر دربار کہا ’’ کسے ہست کہ جوابش دبد‘‘ ایک درباری نے کہا کہ اس کا جواب بہت پہلے سے ایک شاعر دے چکا ہے:
خر عیسیٰ اگر بمکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
شیطان کی بھی یہی حالت ہے:
غرق اندر رزم خیر و شر ہنوز
صد پیمبر دیدہ و کافر ہنوز
اقبال کے دل میں اس کافر ثابت قدم اور شائق سوز و فراق سے بہت ہمدردی ہے، کیونکہ اقبال خود بھی سوز و گداز کا دلدادہ ہے اور عمل کا مبلغ ہے۔ یہ دونوں باتیں ابلیس میں بھی موجود ہیں، اگرچہ ان کا مصدر و مقصود جداگانہ ہے:
جانم اندر تن ز سوز او تپید
برلبش آہے غم آلودے رسید
گفت و چشم نیم وا بر من کشود
در عمل جز ما کہ برخوردار بود
مومنون کو ہفتے میں ایک دن جمعے کے روز تو کچھ فراغت اور فرصت حاصل ہوتی ہے، ابلیس کہتا ہے کہ مجھے آج تک کبھی چھٹی نہ ملی:
آن چناں بر کارہا پیچیدہ ام
فرصت آدینہ را کم دیدہ ام
خدا کے پاس کاروبار کائنات میں مدد کے لیے فرشتے ہوتے ہیں اور بعض انسانوں کے پاس بھی نوکر چاکر ہیں۔ پیغمبروں کو وحی سے ہدایت مل جاتی ہے، لیکن یہ خاکسار بے یار و مددگار تنہا سب کچھ کرتا ہے۔ حدیث و کتاب تو میرے پاس کوئی نہیں ہوتی لیکن میری کار گزاری کا کمال دیکھئے کہ حدیث و کتاب والے فقیہوں کے اندر سے روح دین کو سلب کر لیتا ہوں۔ فقیہ یا ملا جو پیراہن دین بننے کے لیے سوت کاتتے ہیں، اس کو تار عنکبوت سے زیادہ بودا کر دیتا ہوں اور کعبے کے اندر بھی فرقوں کے مختلف مصلے بچھوا دیتا ہوں:
رشتہ دیں چو فقیہاں کس نرشت
کعبہ را گردند آکر خشت خشت
میرے مذہب میں فرقہ سازی اور تفرقہ بازی نہیں (الکفر ملتہ واحدہ) انسانیت میں تفرقہ پیدا کرنے والے جہاں بھی ہیں اورجس رنگ میں بھی ہیں وہ سب میرے مرید ہیں۔ اس کے بعد اپنے جواز میں ابلیس کچھ اس انداز کی باتیں کہنے لگتا ہے جو اقبال کے فلسفہ خودی اور نظریہ ارتقاء کے اندر بھی پائی جاتی ہیں۔ کہتا ہے کہ میں وجود حق کا منکر تو نہیں۔ دیکھے ہوئے خدا کا انکار میں کیسے کر سکتا ہوں۔ اس لیے اور کافروں کی طرح کوئی مجھے منکر خدا تو نہیں کہہ سکتا۔ میرے انکار میں اقرار کا پہلو پوشیدہ ہے۔ اس کے بعد اقبال ہی کا نظریہ ارتقائے آدم ابلیس کی زبان سے بیان ہوا ہے۔ کہتا ہے کہ میں نے آدم کو بہکا اور بھڑکا کر مجبوری سے مختاری تک پہنچا دیا۔جس جنت میں وہ پہلے تھا اور جہاں سے میں نے اسے نکلوایا، اس میں سکون اور راحت تو تھی لیکن اختیار ناپید تھا۔ میں نے اختیار برت کر انکار کیا اور آدم نے بھی میری تلقین سے نافرمانی کا ایک قدم اٹھایا۔ اس کو لغزش مت کہو۔ اسی نافرمانی نے اس کے اختیار کا ثبوت مہیا کیا۔ ملائکہ کی قسم کی بے چون و چرا اطاعت اور جبر میں کیا فرق ہے۔و ہاں اختیار کا نام و نشان نہیں۔ اختیار تو لغزش آدم سے پیدا ہوا جو اس کے طویل ارتقاء کے لیے ایک لازمہ تھا:
شعلہ با از کشت زار من دمید
او ز مجبوری بہ مختاری رسید
زشتی خود را نمودم آشکار
با تو دادم ذوق ترک و اختیار
اب آدم سے کہتا ہے کہ میں نے تیرے لیے اتنا عظیم الشان کام کیا اور اتنی قربانی کی، اب تو میری خلاصی کر۔ جب تک تو ایسا بے وقوف رہے گا اور اندھا دھند میرے دام عصیاں میں گرفتار ہونے پر ہر دم آمادہ رہے گا، مجھے بھی خواہ مخواہ تیرا شکاری بننا پڑے گا۔ میرے لیے بھی یہ ایک مصیبت ہی ہے میں چاہتا ہوں کہ تو از راہ کرم میری غم گساری اور یاری کو ترک کر دے۔ تو خواہ مخواہ اپنے اعمالکے ساتھ میرا نامہ اعمال بھی اور زیادہ تاریک کرتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ میں انسانوں کا شکاری ہوں، لیکن جب تک نخچیر شکار ہونے پر خود آمادہ رہیں گے، صیادی بھی باقی رہے گی اور مجھے تجھ پر تیرا فگنی کرنی پڑے گی۔ اگر تو زیرک ہو جائے اور تجھ میں پرواز کی قوت ترقی کر جائے تو نہ تو صید رہے اور نہ میں صیاد رہوں۔ تیری بھی خلاصی ہو اور میری بھی خلاصی:
در جہاں صیاد ہا نخچیر ہاست
تا تو نخچیری بکیشم تیر ہاست
صاحب پرواز را افتاد نیست
صید اگر زیرک شود صیاد نیست
اقبال اس سے کہتا ہے کہ چھوڑ اس مسلک فراق کو جو پیچ و تاب اور اضطراب پیدا کرتا ہے۔ اب یہاں پھر لطیفہ یہی ہے کہ ابلیس کا جواب بھی وہی ہے جو خود اقبال کا فلسفہ ہے اور جسے اس نے سینکڑوں اشعار میں دہرایا ہے کہ فراق ہی سے آرزو اور جستجو اور سوز و گداز ہے۔ خود حیات الٰہی بھی مبتلائے فراق نفوس کے ساتھ وابستہ ہے۔ خالق اور مخلوق میں وصل کامل کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نہ یہ رہے نہ وہ۔ من و تو کا فرق ہی تو زندگی کی اساس ہے:
گفت، ساز زندگی سوز فراق
اے خوشا سر مستی روز فراق
بر لبم از وصل می ناید سخن
وصل اگر خواہم نہ او ماند نہ من
حرف وصل او را ز خود بیگانہ کرد
تازۂ شد اندر دل او سوز و درد
اندکے غلطید اندر دود خویش
باز گم گردید اندر دود خویش
نالہ زاں دود پیچاں شد بلند
اے خنک جانے کہ گردد درد مند
دیکھئے اس آخری میں پھر ستائش ہی کا پہلو ہے اور ابلیس کے اس زاویہ نگاہ سے ہم نگاہی اور ہم دروی ہے۔
نالہ ابلیس، میں ابلیس کی آہ و فغاں ہے۔ یہ بھی اقبال کا ایک انوکھا مضمون ہے۔ عام مومنوں کا یہ حال ہے کہ وہ شیطان سے پناہ مانگتے ہیں، لیکن یہاں شیطان انسان سے بیزاری کا اظہار کرتاہے اور چاہتا ہے کہ ایسے صید زبوں کی صیادی سے مجھے نجات مل جائے۔ ایسے انسانوں کا شکار کرنا یوں ہی جھک مارنا ہے۔ عام عقیدہ یہ ہے کہ آدمی کو شیطان نے خراب کیا مگر یہاں شیطان ’’اعوذ باللہ من الانسان‘‘ کہہ رہا ہے کہ یہ خودی ناشناس انسان بے چون و چرا میری حکم برداری پر تیار رہتا ہے ذرا مقابلہ کرے تو مجھے بھی زور آزمائی کا موقع ملے:
اے خداوند صواب و ناصواب
من شدم از صحبت آدم خراب
ہیچ کہ از حکم من سر برتنافت
چشم از خود بست و خود رادر نیافت
میں ملعون و مردہ اس لیے ہوا کہ میں نے قادر مطلق کے سامنے بی ابا یا انکار کی جرأت کی۔ میری خودی میں استکبار کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اگر میری مریدی میں وہ بھی یہ سیکھ لیتا کہ میری نافرمانی کی جرأت پیدا کرے اور ذوق کبریائی میں کسی کا مطیع و منقاد نہہو تو میں بھی ایسے مرید کی داد دیتا، لیکن یہ نالائق تو بہت بودا نکلا۔ یہ کیسا صید ہے کہ خود چلا آتا ہے گردن ڈالے:
ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ بر کف
باصید این کہ روزے بہ شکار خواہی آمد
(حافظ)
خدا سے یہ کہتا ہے کہ اس ذلیل شکار سے میری خلاصی کرا:
خاکش از ذوق ابا بیگانہ
از شرار کبریا بیگانہ
صید خود صیاد را گوید بگیر
الاماں از بندۂ فرمان پذیر
شکار کی پست ہمتی اور زود گرفتاری سے خود شکاری بھی سست عمل ہو جاتا ہے۔ ایسے سست عناصر انسانوں کی بدولت میرا بھی یہی حال ہوا ہے۔ اے خدا میری طاعت دیرینہ کو یاد کر کے مجھے اس عذاب سے نجات دلوا:
از چنیں صیدے مرا آزاد کن
طاعت دیروزۂ من یاد کن
پست ازو آں ہمت والاے من
وائے من، اے وائے من، اے وائے من
کوئی صاحب نظر حریف پختہ ہو تو اس سے کشتی لڑنے میں مزہ بھی آئے۔ یہ موجودہ انسان کیا ہیں؟ مٹی کے کھلونے ہیں اور میں ہوں مرد پیر۔ بھلا کسی بڈھے کو یہ زیب دیتا ہے کہ مٹی کے کھلونوں سے کھیلا کرے۔ یہ آدم تو ایک مشت خس رہ گیا ہے جس کے لیے ایک چنگاری کافی ہے۔ میرے اندر جو عالم سوز آگ ہے، مجھے اتنی آگ تو نے کاہے کو دے رکھی ہے۔ اس کا تو کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔ کوئی ایسا پہلوان نکال جو میری گردن مروڑ سکے اور جس کی ایک نگاہ ہی سے میں لرزہ بر اندام ہو جاؤں۔ جو مجھے دیکھتے ہی سر تسلیم خم کرنے کی بجائے پکار اٹھے کہ ’’ دور ہو یہاں سے‘‘ اور جس کے نزدیک میری قیمت دو جو کے برابر نہ ہو۔ ایسا مرد حق اگر مجھے پچھاڑ دے تو اس شکست میں وہ لذت محسوس ہو جو میرے بندۂ فرمان کی اطاعت گزاری سے مجھے حاصل نہیں ہوتی:
اے خدا یک زندہ مرد حق پرست
لذتے شاید کہ یابم در شکست
نالہ ابلیس میں اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اس کے اپنے خیالات ہیں۔ انسان کی تاریخ اصلاح کا بغور مطالعہ کیجئے تو اس میں شروع سے آکر تک ایک کیفیت یکساں نظر آئے گی اور وہ یہ ہے کہ ہر بلند نظر مصلح، نبی ہو یا حکیم اپنے گرد و پیش کے انسانوں سے ہمیشہ بیزار رہا ہے۔ ہر مصلح کایہ عقیدہ رہا ہے کہ میرے زمانے کے انسان نہایت ذلیل ہیں۔ حافظ شیرازی کو تو مصلح ہونے کا دعویٰ نہیں ہے لیکن اپنے زمانے کے لوگوں کی نسبت کہتا ہے :
ایں چہ شوریست کہ در دور قمر می بینم
ہمہ آفاق پر از فتنہ و شر می بینم
دختراں را ہمہ جنگ است و جدل با مادر
پسران را ہمہ بد خواہ پدر می بینم
امام غزالی نے اپنے زمانے کے عوام کے علاوہ علماء کا جو حال لکھا ہے وہ پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی صورت بالکل مسخ ہو چکی ہے۔ دین دار اور دنیا دار سب ادنیٰ اغراض میں مبتلا ہیں۔ یونان کی تہذیب میں سقراط و افلاطون کا زمانہ علوم و فنون کے لحاظ سے تاریخ انسانی کا ایک زریں ورق ہے، لیکن اسی عہد میں سوفسطائی بھی تھے جو حقیقت و صداقت کے منکر تھے۔ وہ دین و اخلاق کو توہمات سمجھتے اور لوگوں میں تشکیک پھیلا تے تھے۔ اسی حکمت پسند قوم نے سقراط جیسے حکیم ناصح کو زہر پلا دیا۔ جمہوریہ افلاطون اسی دور کے عوام و خواص کی کم عقلی پر ایک مفصل تنقید ہے۔ عارف رومی کا زمانہ ہمارے نزدیک تو صوفیہ کرام اور صلحا کا عہد تھا لیکن مولانا اپنے معاصر انسانوں کو سست عناصر اور دام و دو سمجھتے ہیں اور مردان خدا کو ڈھونڈتے ہیں جو کہیں نظر نہیں آتے:
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
ہر دور میں انسانوں کے متلعق ایسی خراب رائے حکما اور صلحا کیوں رکھتے تھے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ہر بلند نظر انسان میں انسانیت کا نصب العین بہت بلند ہوتا ہے اور اکثر انسان اس معیار پر کم عیار ثابت ہوتے ہیں۔ مشہور انگریزی ادیب ڈاکٹر جونسن نے بوس ول سے کہا کہ میری رائے انسانوں کی نسبت بہت خراب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے عام طور پر لوگ اچھا سمجھتے ہیں لیکن میں خود اپنی نسبت جانتا ہوں کہ میں کیسا ذلیل ہوں۔ ایسے ذلیل آدمی کو اچھا سمجھنے والوں کی اپنی کیا حالت ہو گی۔ وہ مجھ سے کچھ بدتر ہی ہوں گے۔
اقبال کے ذہن میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کی سیرت کا نقشہ تھا۔ اس نے انسانی خودی، انسانی بصیرت اور ہمت کا ایک نصب العین قائم کر لیا تھا۔ اس معیار کو سامنے رکھ کر اب جو وہ گرد و پیش نظر دوڑاتا ہے تو اسے انسان ایسے نظر آتے ہیں جن کی نسبت خدا سے شکایت کرتا ہے:
یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا؟
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
نہ خود بین، نے خدا بیں نے جہاں بیں
یہی شہ کار ہے تیرے ہنر کا؟
اوروں کو چھوڑیے خود اپنے آپ سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ اپنے تئیں تن آسان اور سست عمل کہتا ہے اور اپنی سیرت کا تجزیہ کرتے ہوئے بیباکی سے ایسی ایسی باتیں کہہ جاتا ہے کہ اس کے بعض معتقدین اس کو فرقہ ملامتیہ کا ایک ممتاز فرد گردانتے ہیں۔ نالہ ابلیس میں شیطان نے جو انسانوں کے متعلق رائے قائم کی ہے وہ اقبال کی اپنی رائے ہے اور یہ رائے اس کے نصب العین کی بلندی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ انسان ہمیشہ زیادہ تر ایسے ہی تھے اور ایسے ہی رہیں گے۔ مختلف ادوار میں اچھوں اور بروں کے تناسب میں فرق پڑتا رہتا ہے۔ کبھی اچھوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور کبھی بروں کی کثرت ہو جاتی ہے اور قوموں کا عروج و زوال اسی سے متعین ہوتا ہے لیکن نصب العینی انسان دنیامیں کتنے ہوئے اور کتنے ہو سکتے ہیں۔
اقبال کے ابلیس کے تصور میں ایک اشتباہ کو رفع کرنا لازمی معلوم ہوتا ہے۔ آپ دیکھ چکے ہیں کہ اکثر نظریات حیات ابلیس نے بھی وہی پیش کیے ہیں جو اقبال کی تعلیم میں نمایاں طگور پر موجود ہیں۔ اقبال کے نزدیک زندگی نفی و اثبات دونوں پر مشتمل ہے۔ ارتقائے حیات میں ایک حالت کی نفی سے دوسری حالت کا اثبات ہوتا ہے اور آگے بڑھتے ہوئے بھی اس اثبات کی نفی ہو جاتی ہے۔ ابلیس کو اقبال خواجہ اہل فراق کہتا ہے کہ وہ فراق کو آرزو و جستجو اور ترقی نفس انسانی کا سرچشمہ قرار دیتا ہے:
بگو جبریل را از من پیامے
مرا آں پیکر نوری نداند
ولے تاب و تب ما خاکیاں بیں
بنوری ذوق مہجوری نداند
نفس کے اندر اگر پیکار نہ ہو تو اس کی ترقی ممکن نہیں۔ زندگی خیر و شر کی پیکار کا نام ہے۔ شر نفی اور انکار کے مترادف ہے اور یہی صفت ابلیس کے تصور میں مشخص ہو گئی ہے۔ لیکن خالی نفی اور انکار سے تو زندگی قائم نہیں رہ سکتی۔ جہاں تک نفی و انکار کے لزوم کا تعلق ہے، اور جس حد تک اقبال اس کو معاون حیات سمجھتا ہے، اس حد تک انکار مجسم ابلیس کی زبان سے بھی حکیمانہ کلمات نکلواتا ہے۔ لیکن ابلیس کی خودی محض ایک سلبی خودی ہے۔ اس میں ایجابی پہلو کا فقدان ہے۔ ابلیس کے تصور میں بھی ایسے صفات موجود ہیں جو قلب ماہیت سے خودی کی تکمیل میں معاون ہو سکتے ہیں۔ اور ابلیس کی ستائش گری انہی صفات کی وجہ سے جن میں زندگی کا ارتقاء مضمر ہے اور ان صفات کے فقدان سے زندگی تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔ یہ وہی بات ہے جو حدیث شریف میں کہی گئی ہے کہ شیطان کی گردن مارنے کی ضرورت نہیں، اسے مسلمان کرنے کی ضرورت ہے، اور یہی تصور ابن عربی کا بھی ہے جو اوپر درج ہو چکا ہے کہ جنت کے پھل دوزخ کی گرمی سے پکتے ہیں۔ ابلیس کے آتش نژاد ہونے کے یہی معنی ہیں اقبال اس کو آتش حیات کہتا ہے۔ لیکن اس نار کو دور آفریں نہیں بلکہ نور آفریں ہونا چاہیے۔ زندگی کا قیام اور اس کا ارتقاء نفی کے پہلو کے بغیر نہیں ہو سکتا، لیکن نفی فی نفسہ قصور نہیں ہو سکتی۔ نفی سے اعلیٰ تر اثبات کے طرف یا اقبال کی اصطلاح میں استحکام خودی کی طرف مسلسل قدم اٹھنا چاہیے۔ اثبات مسلسل نفی مسلسل کے بغیر نہیں ہو سکتا، لہٰذا نفسی بھی خیر مطلق کے حصول کے لیے لازمی ہے۔