رموز بے خودی (2)
جس طرح حیات رواں کچھ عرصے کے لیے بدن میں اپنے آپ کو محدود کرتی ہے اسی طرح روح ملت کے لیے بھی ایک بدن کی ضرورت ہے۔ بیت الحرام اسی روح کا ایک مادی مرکز و مسکن ہے۔ مختلف قومیں اپنے جھنڈوں کو اقتدار و وقار کا مرئی مرکز بنا لیتی ہیں اور جنگ و صلح میں جھنڈے کے وقار کو قومی وقار کی علامت سمجھتی ہیں، حالانکہ مادی حیثیت میںجھنڈا محض ایک لکڑی کا ٹکڑا اور دو چار گز کپڑا ہوتا ہے۔ بیت الحرام اپنی روایات کے لحاظ سے ان جھنڈوں سے بہتر مرکز عقیدت ہے:
قوم را ربط و نظام از مرکزے
روزگارش را دوام از مرکزے
راز دار و راز ما بیت الحرام
سوز ما ہم ساز ما بیت الحرام
امتیں جمعیت ہی سے قائم و استوار رہتی ہیں۔ بیت الحرام جمعیت میں ایک قوی معاون ہے۔ امت موسوی کی جمعیت اس لیے پریشان ہوئی کہ اس کا مرکز اس کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ اس کا معبد منہدم ہو گیا جس کی باقی ماندہ ایک دیوار پر اس تمام دنیا کے زائر یہودی سر ٹکرا کر گریہ و زاری کرتے ہیں۔ یہودیوں کی تاریخ سے ملت مسلمہ کو عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ اپنی جان سے زیادہ اس مرکز کی حفاظت کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔ ایک روز علامہ مجھ سے فرمانے لگے کہ صلوٰۃ کا لفظ نماز کے علاوہ معبد کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور قرآن جو صلوٰۃ وسطیٰ کی خاص حفاظت پر زور دیتا ہے میرے نزدیک اس کے معنی بیت الحرام کی حفاظت ہیں۔ معلوم نہیں کہ دیگر مفسرین کہاں تک علامہ کی اس تاویل سے متفق الرائے ہوں گے۔
لیکن کعبہ مسلمانوں کی نظر گاہ نہیں۔ مسلمانوں کا حقیقی نصب العین حفظ و نشر توحید ہے۔ تمام دین توحید کی تشریح ہے اور تمام عبادات و شعائر اسی کو قائم رکھنے کے ذرائع ہیں۔ توحید ہی ملت اسلامیہ کا امتیازی جوہر ہے اور توحید ہی اس کی جمعیت کی شیرازہ بند ہو سکتی ہے۔
زندگی کی حقیقت مقصد کوشی ہے۔ توحید و وحدت آفرینی سے زیادہ بلند اور کوئی مقصود نہیں ہو سکتا۔ تمام مقاصد اسی کے زیر نگیں ہونے چاہیں۔ ادنیٰ مقاصد ادنیٰ وحدتیں پیدا کرتے ہیں، اعلیٰ ترین مقصد وسیع ترین وحدت حیات پیدا کر سکتا ہے:
چوں حیات از مقصدے محرم شود
ضابط اسباب ایں عالم شود
راہ پیمائی کسی منزل ہی کی طرف ہو سکتی ہے۔ اگر منزل معین نہ ہو تو دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان جامد و ساکن ہو کر رہ جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ہرزہ گرد ہو جائے۔ ’’بسکہ دراز او فتد جادہ ز گمراہیم‘‘ (غالب)۔ قیس صحرا میں آوارہ دکھائی دیتا ہے لیکن وہ محمل لیلیٰ کی تلاش میں گرم رو ہے۔ جسم انسانی کے اندر بھی بے انتہا اور گوناگوں اعمال و وظائف بقاے حیات کے واحد مقصود سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں:
گردش خونے کہ در رگ ہاے ماست
تیز از سعی حصول مدعا ست
جس قدر کسی کا مقصد بلند ہوتا ہے، اسی قدر اس کی ہمت اور قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بقول شاعر:
ہمت بلند دار کہ نزد خدا و خلق
باشد بقدر ہمت تو اعتبار تو
جب کسی قوم میں شدید جدوجہد دکھائی دیتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی شاہد مقصود کی طرف دیوانہ وار بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مقصود کو ہر دم پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ایک قدیم صوفیانہ محاورہ ہے کہ جو دم غافل سو دم کافر۔ پاؤں کا کانٹا نکالنے کے لیے ایک مسافر کارواں سے ذرا الگ ہوا اتنے میں محمل نظر سے اوجھل ہو گیا اور وہ سو سال تک صحرا میں اس کی تلاش میں حیران و سرگرداں رہا:
رفتم کہ خار از پا کشم محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گستم و صد سالہ راہم دور شد
زندگی مقاصد کی جستجو اور تگ و دو میں قرنہا سے تجربے کرتی چلی آ رہی ہے۔ کئی معبود ان باطل بنائے اور پھر ان کو توڑ ڈالا، آخر کار اس پیکار حیات نے ارتقاء کی آخری منزل میں انسان کو توحید سے آشنا کیا جو منتہائے حیات ہے۔ ’’ والیٰ ربک المنتہیٰ‘‘ :
مدتے پیکار با احرار داشت
با خداوندان باطل کار داشت
تخم ایماں آخر اندر گل نشاند
با زہانت کلمہ توحید خواند
توحید کے عرفان ہی سے زندگی میں تمام جمال و جلال پیدا ہوتا ہے۔ اس سرچشمہ حیات کی حفاظت مقصود حیات ہے۔ جب تک عالم پر یہ راز افشا نہ ہو تب تک مسلمان کو دم نہ لینا چاہیے:
زانکہ در تکبیر راز بود تست
حفظ و نشر لا الٰہ مقصود تست
تا نہ خیزد بانگ حق از عالمے
گر مسلمانی نیاسائی دمے
اسی عقیدے نے انسانوں کو توہمات سے پاک کیا ہے اور ہر قسم کے خوف کو اس کے دل سے دور کیا ہے۔ فکر انسانی بار بار بت گری اور بت پرستی کی طرف عود کرتا ہے۔ پہلے اصنام کو توڑتا ہے تو دوسرے اصنام تراش لیتا ہے۔ عصر حاضر میں فرنگ کی بدولت رنگ و ملک و نسب کی پرستش ہو رہی ہے اور خدا پر عقیدہ توہم پرستی شمار ہوتا ہے۔ ان بتوں کو توڑنے کے لیے پر ایمان ابراہیمی اور توحید محمدیؐ کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمان نے یہ کام نہ کیا تو اور کون کرے گا؟ اس عرفان کا جائز وارث تو وہی ہے، لیکن میراث پدر خواہی علم پدر آموز۔ علامہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس خیال سے لرزہ آتا ہے کہ روز شمار میں جب خدا تم سے پوچھے گا کہ تمہیں پیغام حق دیا تھا کہ اسے دوسروں تک پہنچا دو، یہ کام تم لوگوں نے کیوں نہ کیا، تو مسلمان کس قدر شرمندہ اور ذلیل ہو گا۔ دوسروں تک پہنچانا تو درکنار یہاں اپنے اندر ہی سے توحید غالب ہو گئی ہے، کلمہ لا الٰہ زبان پر رہ گیا ہے، باقی سب کچھ یا شرک جلی ہے یا شرک نفی:
او خویشتن گم است کرا رہبری کنہ
اس کے بعد اقبال کا خاص موضوع آتا ہے کہ عالم کی قوتوں کی تسخیر کے بغیر حیات ملی میں وسعت اور قوت پیدا نہیں ہو سکتی۔ قرآن نے آدم کو مسجود ملائک اور مسخر کائنات بنایا تاکہ تمام ارضی اور سمادی، مادی اور روحانی قوتوں کی تسخیر سے وہ نائب الٰہی بن سکے۔ رہبانیت نفسی احوال میں مبتلا ہو گئی اور حکمت فرنگ نے تمام قوتیں تسخیر عالم محسوس میں صرف کر دیں۔د ونوں طریقوں سے زندگی کی تکمیل نہ ہو سکی۔ ہستی کا ظاہر اور باطن دونوں حیات الٰہی کا انکشاف ہیں۔ ’’ ہو الظاہر ہو الباطن‘‘ حاضر کو غیب کے حقائق کے مطابق ڈھالنا اور دنیا کو دین بنانا مقصود اسلام اور غایت حیات ہے۔ با آسمان پرواختن کے ساتھ ساتھ کار زمین رانکو ساختن کا عمل بھی جاری رہنا چاہیے۔ فقط بانادیدہ پیمان بستن سے حیات گریز رہبانیت ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ ہندو مت، بدھ مت اور عیسائیت کی ابتداء میں ایسا ہی ہوا۔ اسلام نے حاضر کا پیوند غیب سے لگایا اور انفس و آفاق کو ہم آغوش کرنے کی تلقین کی۔ ماسوا نہ فریب ادراک ہے اور نہ حقیقت ابدی ہے۔ اس کی آفرینش کا مقصود ہی یہی ہے کہ اس کی تسخیر سے نفس ترقی کریں:
اے کہ با نادیدہ پیمان بستہ ای
ہمچو سیل از قید ساحل رستہ ای
چون نہال از خاک ایں گلزار خیز
دل بغائب ہند و با حاضر ستیز
ہستی حاضر کند تفسیر غیب
می شود دیباچہ تسخیر غیب
ماسوا از بہر تسخیر است و بس
سینہ او عرصہ تیر است و بس
ملت اسلامیہ کے انحطاط کا ایک بڑا سبب یہی ہے کہ فرنگ تسخیر آفاق میں لگا رہا اور اس کی بدولت غیر معمولی قوتیں پیدا کر لیں، مگر مسلمان فقط بے حضور نمازیں پڑھتے رہے۔ یا ظواہر و شعائر کی پابندی میں لگے رہے۔ قرآن نے مشاہدہ کائنات کو عبادت قرار دیا تھا، مسلمان قرآنی آیات کی تلاوت کرتے رہے لیکن عمل دوسروں نے کیا۔ جن قوموں نے خارجی فطرت کی قوتوں کو مسخر کیا انہوں نے مسلمانوں کو بھی آ دبوچا۔ مسلمان بے بس اور مغلوب ہو کر خدا سے شکوہ کرنے لگے کہ یہ کیا بات ہے کہ دوسری امتیں تیرا نام بھی نہیں لیتیں اور با وقار ہیں۔ توحید کی امامت ہمارے سینوں میں ہے لیکن ہم ہی ذلیل ہیں:
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں
(غالب)
امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں مست مے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں جو ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
اس کا جواب خدا نے یہی دیا کہ تمہاری شکایت بے بنیاد ہے۔ کافر کو جو کچھ ملا وہ کفر کا اجر نہیں ہے بلکہ کافر کی زندگی میں اسلامی عناصر کی جزا ہے:
مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور
ابھی تک کثرت سے مسلمان اس وہم میں مبتلا ہیں کہ فرنگ مادہ پرست ہے اور اس کی تمام ترقی مادی ہے۔ روحانیت اور نجات کے اجارہ دار ہم ہی ہیں۔ یہ چند روزہ دنیا کا عیش کافروں کے لیے ہے، ابد الاباد تک رہنے والی جنت کے ہم حقدار ہیں۔ قرآن نے کیا خوب کہا ہے کہ یہود و نصاریٰ بھی روحانی اور اخلاقی تنگ نظری سے اسی قسم کے دعوے کیا کرتے تھے:ـ
ہر کہ محسوسات را تسخیر کرد
عالمے از ذرہ تعمیر کرد
عقدۂ محسوس را اول کشود
ہمت از تسخیر موجود آزمود
کوہ و صحرا دست و دریا بحر و بر
تختہ تعلیم ارباب نظر
لیکن مسلمانوں کے لیے مذہب افیون بن گیا، دنیا اعتنا کے قابل نہ رہی۔ خدا نے ’’ فی الدنیا حنستہ و فی الاخرۃ حسنتہ ‘‘ کی سکھائی تھی اور اس دعا میں دنیا کو درست کرنا آخرت پر مقدم رکھا تھا اس لیے کہ دنیا ہی مزرعہ آخرت ہے۔ اگر کوئی ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہے تو اس فردا میںناکردہ کار کو کیا ثمر ملے گا؟ مسلمان نے آخرت پر نظر جمائے ہوئے دنیا کو کفار کے حوالے کر دیا:
اے کہ از تاثیر افیون خفتہ
عالم اسباب را دوں گفتہ
خیز و واکن دیدۂ مخمور را
دوں مخواں ایں عالم مجبور را
غایتش توسیع ذات مسلم است
امتحان ممکنات مسلم است
اگر ملت اسلامیہ آفاقی قوتوں کو مسخر نہ کر سکے گی تو آفاقی قوتوں کی تسخیر سے غیر مسلم اقوام اس کو مغلوب کر لیں گی:
گیر او را تا نہ او گیرد ترا
ہمچو مے اندر سبو گیرد ترا
زندگی میں حاجات اندیشہ و عمل کے توسن کے لیے تازیانہ ہیں۔ آد م کو عناصر پر حاکم بنایا گیا تھا۔ اگر وہ عناصر کی ماہیت سے آشنا نہ ہو اور ان سے کام نہ لے سکے، تو وہ نیابت الٰہی کا کیا حق ادا کرے گا؟
تا ز تسخیر قواے ایں نظام
ذو فنونیہاے تو گردد تمام
نائب حق در جہاں آدم شود
ہر عناصر حکم او محکم شود
اسی ظاہری فضا میں کئی عالم پوشیدہ ہیں۔ ہر ذرے کے اندر ایک خورشید کی قوت پنہاں ہے۔ اسرار موجودات کی گرہ کشائی سے بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے اور قوت بھی۔ باد و باراں اور برق و رعد مطیع و فرماں بردار ہوتے ہیں۔ سیلابوں میں بجلیاں ظہور کے لیے بیتاب ہیں۔اقوام کہن ستاروں کی پرستش کرتی تھیں لیکن حکمت کی ترقی نے انسان کے ادراک کو ان پر محیط کر دیا:
جستجو را محکم از تدبیر کن
انفس و آفاق را تسخیر کن
عرفان حکمت اشیاء کی بدولت ناتواں قومیں غیر معمولی قوت حاصل کر کے بڑی بڑی جابر قوموں کی گردن مروڑ دیتی ہیں۔ شجاعت بے حکمت دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور اقوام حکیم کی باج گزار ہو جاتی ہیں:
تا نصیب از حکمت اشیا برو
ناتواں باج از توانایاں خورد
خدا نے مجھے بار بار تاکید کی کہ فطرت کو غور سے دیکھ۔ نباتات، حیوانات، جمادات سب میں آئین الٰہی تلاش کر۔ تو فقط ’’ انظر‘‘ والی آیات ہی دہراتا رہا۔ دیکھا دکھایا کچھ نہیں۔ قرآن حکیم فقط تلاوت کے لیے تو نہ تھا، اس کا اصل مقصود صحیفہ فطرت کے مطالعے سے حقائق الٰہیہ کا اخذ کرنا تھا۔ تو نے مشاہدۂ کائنات کو کوئی عبادت ہی نہ سمجھا اور اسے دنیاے دوں کا ایک شغل قرار دیا۔ اب اس کی سزا بھگت رہا ہے:
تو کہ مقصود خطاب ’’انظری‘‘
پس چرا ایں راہ چوں کوران بری
سید احمد خان اور مرزا غالب جن کے انداز فکر، طرز زندگی اور مقصود حیات میں بے حد تفاوت نظر آتا ہے۔ ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط کو محض ایک عسکری کامیابی کا نتیجہ نہ سمجھتے تھے۔ ان دونوں کی بالغ نظری پر یہ منکشف ہو گیا تھا کہ یہ نئی حکمران قوم محض تاجر اور کشور کشا نہیں بلکہ طبعی سائنس کی بدولت فطرت کی قوتوں کو مسخر کر کے بے بصر اقوام پر غالب آ گئی ہے۔ اب مشرقیوں کو ان سے کچھ سیکھنا ہے۔ سید احمد خان کو لوگ قابل اعتراض حد تک مداح و مقلد فرنگ سمجھتے تھے لیکن مرزا غالب کی ترقی پسندی کی یہ کیفیت تھی کہ جب سید صاحب نے آئین اکبریٰ کی تضحیح اور حواشی کے ساتھ پسندیدہ انداز میں شائع کیا اور مرزا غالب کو تقریظ کے لیے یہ کتاب بھیجی تو مرزا صاحب اس قدر برہم ہوئے کہ سید صاحب سے قدیم دوستی بھی مخالفانہ تنقید پر غالب نہ آ سکی۔ تعریف کی بجائے اس تقر یظ میں جو غالب کے کلیات فارسی میں شامل ہے، وہ سید صاحب کے اس کارنامے پر افسوس کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مردہ پروری تو عقلمندوں کا کام نہیں۔ یہ پرانے آئین اب فرسودہ ہو چکے ہیں۔ ’’ زمانہ دگر گونہ آئین نہاد، اب اس حکمت اور اس قانون پر غور کرو جو حکمت پسند ملت فرنگ اپنے ساتھ لائی ہے۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ اس قوم نے فہم فطرت سے تسخیر فطرت کا کام کیا ہے۔ الفاظ ہوا میں اڑ کر دور دراز مقامات تک پہغام پہنچا دیتے ہیں۔ اس قوم نے حروف کو پیامبر کبوتر بنا دیا ہے اور ان کے ساز دیکھو کہ بے زخمہ و مضراب بجتے ہیں۔‘‘ تسخیر فطرت کے مضمون میں علامہ اقبال نے مرزا غالب کے حوالے سے دو چار اشعار لکھے ہیں۔ غالب کے اشعار میں ایک یہ شعر تھا:
حرف چوں طائر بہ پرواز آورند
نغمہ را بے زخمہ از ساز آورند
علامہ فرماتے ہیں:
آنگہ بر اشیا کمند انداخت است
مرکب از برق و حرارت ساخت است
حرف چوں طائر بہ پرواز آورد
نغمہ را بے زخمہ از ساز آورد
سید صاحب جب اپنے دو بیٹوں حامد و محمود کو ہمراہ لے کر انگلستان گئے تو وہاں ہر طبقے میں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ انسٹی ٹیوٹ آف انجینئر نے بھی ان کے اعزاز میں ایک ڈنر دیا جس میں زیادہ تر ماہر انجینئرز ہی مدعو تھے۔ سید صاحب کو وہاں کچھ تقریر کرنا پڑی اس تقریر میں سید صاحب نے کہا کہ تمہاری قوم کو اپلائڈ سائنس اور انجینئرنگ کی بدولت عروج اور غلبہ حاصل ہوا ہے۔ برق اور بھاپ سے کام لینے والے اور ریلیں، تلغراف اور پل بنانے والوں نے تمہاری سلطنت کو قوت بخشی ہے۔ اپنے وطن میں سید صاحب کی کوششوں کا محور بھی یہی تصور تھا کہ اسلام بھی مسلمانوں سے یہی تقاضا کرتا تھا لیکن افسوس ہے کہ وہ اس سے غافل ہو کر ضعیف اور مغلوب ہو گئے۔ عقائد و اخلاق کو تو مغرب سے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، اس کا قیمتی سرمایہ ہمارے پاس موجود ہے۔ لیکن تسخیر فطرت سے رو گردانی کی وجہ سے یہ کیفیت ہو گئی ہے کہ زندگی کی دوڑ میں ہم لنگڑے بن گئے ہیں۔ حکمت اشیاء سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے ہم اس آدم کے وارث نہیں رہے جس کی نسبت قرآن نے ’’ علم آدم الاسمائ‘‘ کہا تھا۔ یہ اسما محض نام اور الفاظ نہ تھے بلکہ صفات اشیا و حوادث کا علم تھے۔ جن اقوام نے اس حقیقت کو پا لیا وہ ہم سے آگے نکل گئیں اور ہم پس ماندہ قوم رہ گئے:
اے خرت لنگ از رہ دشوار زیست
غافل از ہنگامہ پیکار زیست
ہمر ہانت پے بہ منزل بردہ اند
لیلیٰ معنی ز محمل بردہ اند
تو بصحرا مثل قیس آوارۂ
خستہ داماندہ بیچارہ
علم اسماء اعتبار آدم است
حکمت اشیاء حصار آدم است
اقبال فرنگ کی سائنس اور ا س سے پیدا شدہ تسخیر فطرت کا مخالف نہیں، وہ جس حکمت فرنگ کے خلاف احتجاج کرتا ہے وہ مادیت کا نظریہ حیات ہے جو خارجی فطرت کے ایک غلط تصور سے پیدا ہوا۔ خود فرنگ کے اکابر حکما اور سائنس دان اس فلسفے پر ویسی ہی تنقید کرتے ہیں جو اقبال کے کلام میں ملتی ہے اور اپنے انگریزی خطبات میں اقبال نے زیادہ تر انہیں حکماے فرنگ کی بالغ نظری کے نمونے پیش کیے ہیں۔
اس کے بعد رموز بے خودی میں یہ مضمون ملتا ہے کہ جس طرح تکمیل ذات کے لیے فرد کو احساس خودی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح ملت کی بھی ایک خودی ہے جو افراد کی خودی سے وسیع تر اور قوی تر ہے۔ اس کی تکمیل بھی لازمی ہے اور یہ تکمیل تسخیر فطرت کے علاوہ ضبط روایات ملیہ ہی سے ہو سکتی ہے۔ پہلے کچھ اشعار میں یہ بتایا ہے کہ فرد کی خودی کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ بچہ اپنی حقیقت سے کچھ واقف نہیں ہوتا، اس کا کام کھانا سونا اور بات کرنا سیکھنے کے بعد ہر چیز کے متعلق سوالات کرنا ہے: یہ کیا ہے؟ یہ کیوں ہے؟ اور یہ کیسے ہے؟ ان سوالات کی کثرت سے ماں باپ زچ آ جاتے ہیں۔ زندگی کا یہی آئین ہے۔ پہلے تمام توجہ غیر خود پر مبذول ہوتی ہے اور اپنے من کا کوئی احساس نہیں ہوتا کسی قدر فہم ماسوا کے بعد بچے میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ میں میں ہوں۔ تمام دیگر نفوس اور اشیاء سے الگ ایک ہستی رکھتا ہوں، ماضی حال اور مستقبل سب اس میں کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔ مسلسل جسمانی تغیرات اور بدنی نشوونما کے باوجود وہ اپنی خودی کو ایک غیر متغیر اور مستقل چیز سمجھتا ہے:
یاد او با خود شناسایش کند
حفظ ربط دوش و فردایش کند
گرچہ ہر دم کاہد افزاید گلش
نمن ہما نستم کہ بودم در دلش
ایں نمن، نوزادہ آغاز حیات
نغمہ بیداری ساز حیات
ملت نوزائیدہ بھی کمسن بچے کی طرح ہوتی ہے اس کا نہ کوئی ماضی ہوتا ہے اور نہ اسے مستقبل کا کوئی واضح احساس ہوتا ہے۔ ویروز و امروز و فردا کا شیرازہ بند انا ابھی اس میں نہیں ہوتا، بستہ با امروز او فرداش نیست اس کی ہستی جسمانی آنکھ کے مماثل ہوتی ہے جو ہر شے کو دیکھتی ہے لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی:
چشتم ہستی را مثال مردم است
غیر را بینندہ و او خود گم است
جب کوئی ملت حوادث و افکار کی پیکار میں کچھ عرصہ بسر کر چکتی ہے تو اس کے اندر ایک ملی انا کا شعور ترقی کرتا ہے۔ قوم اپنی سرگزشت سے افکار و تاثرات کی ثروت حاصل کرتی ہے۔ اگر کوئی قوم اپنے ماضی کو فراموش کر دے یا کوتاہ بینی سے عملاً اپنا رشتہ اس سے منقطع کر لے تو وہ نابود ہو جاتی ہے:
سر گزشت او گر از یادش رود
باز اندر نیستی گم می شود
حفظ روایت کی سوزن سے ربط ایام کا پیرہن تیار ہوتا ہے جو ناموس ملت کا محافظ بھی ہوتا ہے اور اس کے لیے باعث تزئین بھی۔ نافہم لوگ تاریخ کو محض پرانی داستانیں سمجھتے ہیں اور ’’ ہذا اساطیر الاولین‘‘ کہہ کر اس کی حقیقت سے غافل رہتے ہیں۔ تاریخ تو ایک ملت کا حافظہ ہے؟ فرد میں سے حافظہ غائب ہو جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ قوم بھی اگر اپنی تاریخ سے غافل ہو جائے تو اس کا بھی یہی حال ہو گا۔
تاریخ ایک ساز ہے جس کے تاروں میں تمام نغمہ ہاے رفتہ اسیر ہوتے ہیں۔ صدیوں کی پرانی شراب اس کے خم و مینا میں ہوتی ہے، اس کی کہنگی مستی میں اضافہ کرتی ہے:
بادۂ صد سالہ در میناے او
مستی پارینہ در صہباے او
زندہ قوموں کو دیکھو کہ کمال جدت پسندی کے ساتھ ساتھ اپنی روایات کے متعلق کس قدر قدامت پرست ہوتی ہیں۔ دوش و امروز کا پیوند نفس ملت میں لذت اور قوت پیدا کرتا ہے۔ ہر قوم کا حال اس کے ماضی کی پیداوار ہے اور اس کا مستقبل اس کے ماضی و حال کا نتیجہ ہو گا ۔ یہ وسعت زمانی اور ہزار سالہ حوادث کی حافظے میں یکجائی حیات ملی کی کفیل ہوتی ہے:
سر زند از ماضی تو حال تو
خیزد از حال تو استقبال تو
مشکن از خواہی حیات لازوال
رشتہ ماضی ز استقبال و حال
لیکن قوی روایات کی حفاظت اس انداز کی نہیں ہونی چاہیے کہ ملت ماضی پرست ہو کر جامد ہو جائے اور زندگی کے ہر نئے اقدام کو یہ کہہ کر ٹھکرا دے کہ ہمارے قدیم عقائد و اعمال ہمارے لیے کافی ہیں۔ ’’ ما وجد نا علیہ آبا ننا‘‘ ہر نبی کے مخالفوں نے یہی راگ الاپا۔ قرآن نے اس روایت پرستی کی شدید مذمت کی ہے اور تاریخ سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے پر بہت زور دیا ہے۔ اقبال جیسے جدت پسند اور انقلاب آفریں انسان کے ہاں حفظ روایات کا کوئی جامد مفہوم نہیں ہے۔ زندگی اپنے کسی انداز کو جوں کا توں نہیں دہراتی۔ ماضی سے صحت مندانہ ربط حیات آفرین ہوتا ہے لیکن ماضی کی مقلدانہ پرستش حیات ملی کو جامد کر دیتی ہے۔
غیر مسلم اور متعصب مخالفین اسلام نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ اسلام نے عورت کو بہت ادنیٰ مرتبہ دیا ہے۔ اس اعتراض کا نشانہ مسلمان اس لیے بنے کہ انہوں نے اپنی معاشرت میں اسلام سے بیگانہ ہوتے ہوئے عورتوں کو رسوم و رواج اور مردانہ خود غرضی کے پیدا کردہ غلط آئین کی بدولت بہت کچھ بے بس بنا دیا۔ اسلام نے جو حقوق عورتوں کو عطا کیے تھے۔ مسلمانوں نے رفتہ رفتہ ان کو سلب کر لیا اور ان نادانوں اور ہوس پرستوں کی وجہ سے اسلام بدنام ہو گیا۔ اسلام میں عورت اور ماں کا جو رتبہ ہے اس پر اقبال نے رموز بے خودی میں ایک بلیغ نظم لکھی ہے۔
خدا نے مرد و زن کو ایک دوسرے کا لباس بنایا، ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بغیر اقدار حیات کے لباس سے عریاں ہو جاتا ہے۔ عشق حق کا آغاز ماں کی محبت سے ہوتا ہے:
عشق حق پروردۂ آغوش او
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خوشبو، نماز اور عورت کی مثلث مقدس کو اس دنیا کی پسندیدہ چیزیں قرار دیاہے۔ یہ تینوں جسمانیا ور روحانی لطافتوں کا جوہر ہیں۔ جس مسلمان نے عورت کو محض اپنا پرستار اور اپنے ادنیٰ اغراض کا تختہ مشق سمجھ لیا وہ قرآن کی حکمت سے بے بہرہ رہا :
مسلمے کو را پرستارے شمرد
بہرۂ از حکمت قرآن نہ برو
اسلام نے جنت کا مقام ماں کے قدموں کے نیچے قرار دیا۔ امت اور امومت میں گہرا معنوی ربط ہے۔ نبی کی شفقت اپنی امت پر بھی مادرانہ شفقت ہوتی ہے۔ سیرت اقوام انبیاء کی تعلیم اور مثال سے بنی ہے یا اچھی ماؤں کی شفقت اور تربیت سے:
شفقت او شفقت پیغمبر است
سیرت اقوام را صورتگر است
ہست اگر فرہنگ تو معنی رسے
حرف امت رازبا دارو بسے
انسانی روابط میں محبت کا رشتہ قائم کرنے کے لیے قرآن تکریم ارحام کی تعلیم دیتا ہے۔ انسانی زندگی میں امومت کا یہ مقام ہے کہ اگر کوئی بے علم ماں جو ظاہری حسن و جمال نہ رکھتی ہو، سادہ اور کم زبان ہو لیکن ایک غیور مسلمان حق پرست اس کے بطن سے پیدا ہو اور اس کی آغوش میں پرورش پائے تو بقا و احیاے ملت کے لیے ایک اتنا عظیم الشان کارنامہ ہے کہ بڑے بڑے تعمیری کام اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں جن پر مرد فخر کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر کوئی نازک اندام، پری وش بعض مغربی عورتوں کی تقلید میں تہی آغوش رہے اور بار امومت کو اپنے لیے بار خاطر سمجھے تو اسے عورت نہیں کہنا چاہیے؟ ایسی عورت انسانیت کے لیے باعث شرم ہے۔ حیا نا آشنا آزادی ملت کشی کا سامان ہے۔ بے شمار ارواح جو وجود پذیر ہونے کے لیے مضطرب ہیں وہ امہات کی بدولت عالم ممکنات سے عالم وجود میں آتی ہیں۔ کسی قوم کا سرمایہ نقد و قماش و سیم و زر نہیں بلکہ اچھے انسان ہیں جو خیابان ریاض مادر سے گل و لالہ کی طرح چمن افروز ہستی ہوتے ہیں۔
جس قوم میں عورتوں کی زندگی احترام سے محروم ہے وہاں مردوں کو بھی حیات صالح نصیب نہیں ہو سکتی۔ ایک حکیم کا قول ہے کہ کسی قوم کی تہذیب کو جانچنے کا صحیح معیار یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس میں عورت کا کیا مقام ہے اگر عورت ذلیل ہے تو قوم بھی ذلیل اور تہذیب سے عاری ہے:
بردمد ایں لالہ زار ممکنات
از خیابان ریاض امہلات
قوم را سرمایہ اے صاحب نظر
نیست از نقد و قماش و سیم و زر
مال او فرزند ہاے تندرست
تر دماغ و سخت کوش و چاق و چست
حافظ رمز اخوت مادراں
قوت قرآن و ملت مادراں
مسلمان عورتوں کے لیے اسوۂ کاملہ سیرۃ النساء فاطمتہ الزہرا (رضی اللہ عنہا) ہیں۔ عیسوی دنیا مریم طاہرہ و صدیقہ کی پرستش کرتی ہے، مسلمانوں کے دلوں میں بھی حضرت مریم کا بڑا احترام ہے اور یہ فقط اس نسبت سے ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ماں ہیں اور ان کی عفت کا خدا شاہد ہے۔ لیکن فاطمتہ الزہرا تین بلند پایہ نسبتوں کا مرکز ہیں: ایک عظیم المرتبت نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی، علی (رضی اللہ عنہ) جیسے جلیل القدر انسان کی بیوی اور امام الشہداء حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی ماں۔ تمام دنیا کی تاریخ کو ٹٹولیے اس قسم کی تین نسبتیں ایک عورت میں کبھی جمع نہ پاؤ گے۔ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی حریت آموز سیرت کا سرچشمہ اخلاق پدر بھی ہے اور اخلاق مادر بھی لیکن ماں کی سیرت فرزند میں زیادہ موثر ہوتی ہے اس لیے کہ بیداری شعور سے پہلے اس کے اثرات تحت الشعور میں مرتسم ہو جاتے ہیں:
سیرت فرزند ہا از امہات
جوہر صدق و صفا از امہات
فاطمتہ الزہرا ایک یہودی محتاج کی مدد کے لیے اپنی چادر فروخت کر ڈالتی ہیں، عرب کے بادشاہ کی بیٹی ہیں لیکن کوئی خدمت گار نہیں۔ قرآن کی آیات دہرتی ہوئی چکی پیستی رہتی ہیں:
آں ادب پروردۂ صبر و رضا
آسیا گردان و لب قرآن سرا
رشتہ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جناب مصطفیؐ ست
ورنہ گرد تربتش گردیدمے
سجدہ ہا بر خاک او پاشیدمے
اس کے بعد مسلمان عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے اقبال ان کو دور حاضر کے فتنوں سے آگاہ کرتا ہے جو عورت کی طینت پاک کی تخریب کے درپے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تقلید فرنگ پر مسلمان عورت دین و اخلاق سے کنارہ کش ہو کر جھوٹی آزادی کے چسکے میں اپنی پاکیزہ فطرت کو خیر باد کہہ دے:
دور حاضر تر فروش و پرفن است
کاروانش نقد دیں را رہزن است
کور و یزداں ناشناس ادراک او
ناکساں زنجیری پیچاک او
ہوشیار از دستبرد روزگار
گیر فرزندان خود را در کنار
نسوانی فطرت میں خدا نے بلند جذبات رکھے ہیں، ان کی حفاظت فاطمتہ الزہرا کے نمونے پر زندگی بسر کرنے ہی سے ہو سکتی ہے۔ اگر اس فطرت کو پاک رکھا گیا تو حسین (رضی اللہ عنہ) منش انسان آغوش مادر میں تربیت حاصل کر سکتے ہیں:
تا حسینے شاخ تو بار آورد
موسم پیشیں بگلزار آورد
سورۂ اخلاص توحید کی تعلیم کا لب لباب ہے۔ قرآنی فصاحت کا کمال ہے کہ چار مختصر جملوں نے توحید کے قلزم زخار کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ تمام قرآن مجید ہی کی تشریح ہے اور تمام حکمت بھی توحید ہی کے اندر پنہاں ہے۔ دین کی اصل توحید ہے باقی جو کچھ ہے وہ اس کی فرع ہے اس لیے مثنوی رموز بیخودی کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے علامہ اقبال نے سورۂ اخلاق ہی کی مختصر مگر بلیغ شرح لکھی ہے۔
فرماتے ہیں کہ مجھے خواب میں حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا دیدار نصیب ہوا، میں نے عرض کیا کہ آپ نے اسلام کی اساس کو پختہ کرنے میں غیر معمولی بصیرت و ہمت و ایثار سے کام لیا، اب اس ملت کی بنیادیں متزلزل ہو رہی ہیں، اس تعمیر کو سنبھالنے کے لیے کوئی علاج تجویز فرمائیے:
پختہ از دستت اساس کار ما
چارۂ فرما پے آزار ما
اس کا جواب یہ ملا کہ مسلمان اس توحید سے بیگانہ ہو گئے جو وحدت آفرین تھی۔ اسلام نے نسلی اور قبائلی امتیازات کو مٹا کر ایک ملت بنائی تھی لیکن اب تمہارا یہ حال ہے کہ تم پھر قبائل پرستی پر اتر آئے ہو۔ گویا اسلام سے قبل کے زمانہ جاہلیت کی طرف عود کر آئے ہو جس میں سب سے زیادہ موثر جذبہ قبیلوی عصبیت تھا:
خویشتن را ترک و افغان خواندہ
واے بر تو آنچہ بودی ماندہ
با یکی ساز از دوئی بردار رخت
وحدت خود را مگرداں لخت لخت
زبان سے وحدت کا کلمہ پڑھتے ہو اور عمل سے ملتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہو۔ توحید اگر وحدت ملت میں مشہود نہ ہوئی تو وہ محض ایک لفظ بے معنی رہ گئی۔ جو ایمان عمل میں منعکس نہ ہو وہ ایمان ہی مردہ ہے:
صد ملل از ملتے انگیختی
بر حصار خود شبیخون ریختی
یک شو و توحید را مشہود کن
غائبش را از عمل موجود کن
لذت ایمان فزاید در عمل
مردہ آں ایمان کہ ناید در عمل
اللہ الصمد
صمد کے معنی ہیں وہ ہستی جو کسی غیر اور ماسوا کی محتاج نہ ہو مگر تمام مخلوقات و موجودات اپنے وجود کے لیے اس کے محتاج ہوں۔ ’’ تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کی تعلیم کے مطابق مسلمان کو بھی اپنے اندر یہ بے نیازی کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انسان کو حاجات کا شکار نہیں ہونا چاہیے، احتیاج انسان کے نفس کو کمزور کر دیتی ہے اور تمام قوت و محبت اور ایثار کو سلب کر لیتی ہے۔ بے نیازی مال و جاہ سے حاصل نہیں ہوتی ’’ آنانکہ غنی تراند محتاج تراند‘‘ یہ طبیعت کا ایک انداز ہے جو نادار کو قارون پر فضیلت بخشتا ہے۔ اسی بے نیازی کی بدولت انسان راست باز ہوتا ہے، خود دار ہوتا ہے اور نشتر لا و نعم اس کے سینے میں نہیں چبھتا۔ دنیا عالم اسباب ہے لیکن انسان کو بندۂ اسباب نہیں بننا چاہیے:
بندۂ حق بندۂ اسباب نیست
زندگانی گردش دولاب نیست
مسلم استی بے نیاز از غیر شو
اہل عالم را سراپا خیر شو
رزق کے لیے دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا خودی کو سوخت کر دیتا ہے۔ دانا مسافر کو جب دشوار گزار راستوں سے دور دراز کا سفر درپیش ہوتا ہے تو اشد ضروری چیزوں کے علاوہ فالتو سامان اپنے اوپر نہیں لادتا۔ سفر زندگی میں بھی فراوانی سامان سے آسائش کی کوشش نہ کرو یہ سامان تمہارے لیے گلے کا طوق اور زنجیر پا ہو جائے گا۔ فراوانی کی کوشش تم کو حقیر انسانوں کے سامنے نیاز مند بنا دے گی:
گرچہ باشی مور و ہم بے بال و پر
حاجتے پیش سلیمانے مبر
راہ دشوار است سامان کم بگیر
در جہاں آزاد زی آزاد میر
حکیم سقراط کا بھی ایک قول مشہور ہے کہ کم احتجا انسان الوہیت کے صفات سے بہرہ اندوز ہوتا ہے کیونکہ خدا بھی بے احتیاج ہونے کی وجہ سے بے نیاز ہے۔ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) بھی یہی نصیحت فرماتے تھے اور اس کا بہترین نمونہ خود تھے:’’ اقل من الدنیا تعش حرا‘‘ دنیاوی حاجتوں کو کم سے کم کرو، آزادی اور حریت کی زندگی اسی طرز عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ مرد حر کو فقط اتنے ہی مال کی ضرورت ہے جو اس کو سائل اور گداگر ہونے سے محفوظ رکھے۔ مال کا مصرف یا خدمت خلق ہے یا اپنی خود داری کی حفاظت مگر مال کی محبت کے بغیر منعم ہونا سائل ہونے سے بہتر ہے:
تا توانی کیمیا شو گل مشو
در جہاں منعم شو و سائل مشو
بے نیاروں کی جائز ضرورتیں پورا کرنے کا مشیت الٰہی میں ایک پنہاں قانون موجود ہے:
خود بخود گردد در میخانہ باز
برتہی پیمانگان بے نیاز
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے زیادہ مال سے بے نیاز شخص کون ہو گا لیکن خدا نے ان کی ہر ضرورت بڑی ہو یا چھوٹی، بے منت غیرے ہمیشہ پوری کی۔ جو شخص چاہے کاہلانہ بے پروائی نہیں بلکہ عارفانہ بے نیازی کو شیوہ بنا کر اس کو اپنی زندگی میں آزما کر دیکھ لے۔ یہاں بو علی قلندر کا ایک شعر علامہ اقبال نے نقل کیا ہے:
پشت پا زن تخت کیکاؤس را
سربدہ از کف مدہ ناموس را
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
خلیفہ ہارون الرشید کے سوانح حیات میں لکھا ہے کہ اس نے امام مالک سے درخواست کی کہ دار الخلافت بغداد میں آ کر اپنی مسند بچھائیے، یہاں بڑی رونق اور زندگی کی گہما گہمی ہے۔ یہاں ہر قسم کی قدر دانی ہو گی۔ اس مرد خود دار اور عاشق رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مدینے سے ہلنا گوارا نہ کیا۔ فرمایا کہ میں یہاں بندۂ آزاد ہوں اور میرا سر آستانہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ہے۔ عشق خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کہتا ہے کہ تو بادشاہوں کو اپنا خدمت گزار بھی نہ بنا، چہ جائیکہ میں بادشاہوں کا ملازم ہو جاؤں۔ اگر علم دین کا شوق ہے تو یہیں مدینے میں تشریف لائیے: پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے، کنواں پیاسے کے پاس نہیں جاتا:
تو ہمہ خواہی مرا آقا شوی
بندۂ آزاد را مولا شوی
بہر تعلیم تو آیم بر درت
خادم ملت نگردد چا کرت
بہرۂ خواہی اگر از علم دیں
درمیاں حلقہ درسم نشیں
٭٭٭
بے نیازی رنگ حق پوشیدان است
رنگ غیر ازپیرہن شوئیدن است
اے مسلمان تیری ذات کا سبب یہی ہے کہ تجھ میں خود داری کا فقدان ہے۔ اغیار کے علوم پڑھتے ہو اور مقلدانہ فطرت کی وجہ سے ہر خیال کو بے چون و چرا قبول کر لیتے ہو۔ اغیار کے شعار سے ارجمند ہونا چاہتے ہو۔ تمہاری عقل افکار غیر سے پا بزنجیر ہے تمہاری زبان پر جو باتیں ہیں وہ تمہارے اپنے دل و دماغ کی پیداوار نہیں؟ تمہاری آرزوئیں بھی دوسروں سے متعار لی ہوئی ہیں۔
بر زبانت گفتگوہا مستعار
در دل تو آرزو ہا مستعار
اے مسلمان تو اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان بھول گیا ہے جو شخص دوسری اقوام سے مشابہت پیدا کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہو جاتا ہے۔ اور ملت اسلامیہ کا فرد نہیں رہتا۔
لست منی گویدت مولاے ما
واے ما اے واے ما اے واے ما
تو نے اپنی حقیقت سے غافل ہو کر کیمیا کے بدلے مٹی خریدی ہے:
بر دل خود نقش غیر انداختی
خاک بردی کیمیا در باختی
فرد فرد آمد کہ خود را وا شناخت
قوم قوم آمد کہ جز با خود نساخت
لم یلد و لم یولد
خدا کے ہاں صلبی پیدائش کا کوئی سوال نہیں، علامہ فرماتے ہیں کہ مرد موحد خدا کی اس صفت سے بھی ایک سبق حاصل کر سکتا ہے۔ جسمانی لحاظ سے تو ہر انسان کسی کا بیٹا اور کسی کا باپ ہے لیکن یہ جسمانی ولدیت بہت ثانوی چیز ہے۔ حضرت سلمان فارسی سے لوگوں نے ان کا شجرۂ نسب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا ’’ سلمان ابن اسلام‘‘ مسلمان کی اصل نسبت اسلام سے ہے، اب دام سے نہیں۔ توحید پر ایمان لانے سے ایمان کی کیفیت شہد کی سی ہو جاتی ہے جس میں ہزاروں پھولوں کا رس اس طرح آمیختہ ہے کہ کوئی قطرہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری اصل لالہ ہے یا گلاب یا نگرس۔ لم یلد و لم یولد کا پر تو اگر مومن کی زندگی پر پڑے تو اس کے احساس ملی میں نسب کو کوئی مقام نہ ہو:
قوم تو از رنگ و خوں بالاتر است
قیمت یک اسودش صد احمر است
قطرۂ آب وضوے قنبرے
در بہا بر تر ز خون قیصرے
گر نسب را جزو ملت کردۂ
رخنہ درکار اخوت کردہ
مسلمان کا نہ کوئی وطن ہے اور نہ کوئی رشتہ نسب اس کے لیے کوئی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا وطن بھی اسلام اور اس کا نصب بھی اسلام۔ عشق محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس تمام ملت کا شیرازہ بند ہے جو اطراف و اکناف عالم میں پھیلی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں عقائد اور فقہ میں بہت سے اختلاف پائے جاتے ہیں اور ہر فرقہ وجہ اختلاف کو اس قدر اساسی تصور کر لیتا ہے کہ اس کو کفر و اسلام کا معیار بنا لیتا ہے۔ خدا کی ذات و صفات کے متعلق بھی تصورات میں بے حد تفاوت پایا جاتا ہے۔ لیکن شاید ہی کوئی شخص اسلامی دنیا میں ایسا مل سکے جو مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا دل بالکل خالی ہو۔ راقم الحروف کو ایسے مسلمانوں سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا ہے جو جدید الحادی تعلیم کی بدولت دین کے بنیادی عقائد سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے لیکن ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جان قربان کرنے کو تیار تھے۔ ان میں سے ایک صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ نفسیات اس بارے میں کیا کہتی ہے کہ بے دین ہونے کے باوجود ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ عقائد سے معرا ہونے کے باوجود یہ شخص ملت اسلامیہ کے مفاد کے لیے سراپا ایثار تھا۔ مسلمان کی اسی نفسیات کو، جسے الحاد بھی بدل نہ سکا۔ اقبال نے ان اشعار میں پیش کیا ہے:
دل بہ محبوب حجازی بستہ ایم
زین جہت بایک دگر پیوستہ ایم
عشق او سرمایہ جمعیت است
ہمچو خون اندر عروق ملت است
ترک فرنگ آلودہ ہو جائے یا چینی اشتراکیت کی لپیٹ میں آ جائے لیکن جب کبھی نسل و نسب میں مختلف کسی مسلمان سے ملتا ہے تو اس کے دینے میں اخوت کے جذبے کی ایک لہر پیدا ہوتی ہے۔ یہ سب اس رشتے کی بدولت ہے جو عشق محمدی نے پیدا کیا:
باشیر اندرون شد و با جاں بدر شود (حافظ)
عشق در جان و نسب در پیکر است
رشتہ عشق از نسب محکم تر است
عشق و رزمی از نسب باید گذشت
ہم ز ایران و عرب باید گذشت
ہر کہ پا در بند اقلیم و جد است
بے خبر از لم یلد لم یولد است
ولم یکن لہ کفواً احد
تمام موجودات میں خدا کا کوئی ہمسر نہیں۔ یہ صفت بھی مرد مومن میں پیدا ہو جاتی ہے۔ لالہ سر کوہسار کی طرح وہ کسی گلچیں کے دامن میں نہیں پڑتا۔ وہ جہاں کے اندر ہے لیکن جہاں سے الگ اور بالاتر ہے۔ مومنوں کی ملت اسی طرح بے ہمتا ہو سکتی ہے کہ اس انداز کی کوئی اور ملت نہ ہو:
رشتہ با لم یکن باوید قوی
تا تو در اقوام بے ہمتا شوی
آنکہ ذاتش واحد است ولا شریک
بندہ اش ہم در نسازد با شریک
مومنوں کے متعلق جو ’’ انتم الاعلون‘‘ کی بشارت دی گئی ہے، اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ نہ صرف دوسری ملتوں بلکہ فطرت کی تمام قوتوں سے بالاتر ہے۔ جس مومن اور جس مومت کے یہ صفات بیان کئے گئے ہیں وہ اس وقت تو پردہ عالم پر کہیں نظر نہیں آ رہی۔ مرد مومن کی پرواز تو ایسی فلک رس ہونی چاہیے کہ اس کا طائر روح ستاروں میں دانہ چینی کرے بلکہ اپنی بلند پروازی میں افلاک کو پیچھے چھوڑ جائے۔ لیکن اس وقت مسلمان کا یہ حال ہے جیسے مٹی کے اندر بسنے والا کیڑا ہو جو فضائے ارضی سے بھی نا آشنا ہے۔ اپنے آپ کو پسماندہ اور ذلیل پا کر گردش ایام کا شکوہ کرتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ قرآن کو ترک کرنے کی وجہ سے اس کی یہ گت بنی ہے۔ مردمومن کی پرواز کا تو یہ حال ہے کہ:
طائرش منقار بر اختر زند
آنسوے ایں کہنہ چنبر پر زند
تو بہ پروازے پرے نکشودۂ
کرمک استی زیر خاک آسودہ
خوار از مہجوری قرآں شدی
شکوہ سنج گردش دوراں شدی
مثنوی کے اختتام میں بحضور سرور کائنات مصنف کی عرض حال ہے۔
ویسے تو اقبال کا کلام خلوص سے لبریز ہے اور اس کی دلدوز تاثیر اسی خلوص کی بدولت ہے۔ محض فن اور صناعی سے یہ دل رسی پیدا نہیں ہو سکتی لیکن اس عرض حال میں خلوص اور عشق رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایک ایسا ولولہ ہے کہ پڑھنے والے حساس انسان کی آنکھیں نمناک ہو جاتی ہیں۔ اقبال کی صحبت سے فیض یاب احباب سب نے یہ دیکھا کہ شباب غفلت انگیز کے دور سے لے کر شیب عرفان اندوز تک اس عاشقی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی یہی کیفیت رہی کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام سنتے ہی طبیعت پر رقت طاری ہو گئی۔ خواہ اقبال اس وقت رندوں کی محفل ہی میں ان کا ہم مشرب بن کر بیٹھا ہو۔ا س عرض نیاز میں پہلے لبریز عشق کچھ اشعار کہے ہیں، اس کے بعد اپنی داستان درد بیان کی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ اقبال کے معتقدین اس کو عارف باللہ اور مجدد عصر سمجھنے لگے تھے اور اس کی خامیوں کا ذکر اس کی توہین شمار ہوتا تھا لیکن لوگوں کی عقیدت سے ناجائز فائدہ اٹھانا کبھی اقبال کا شیوہ نہ تھا دام واپسیں میں وہ اپنی تمام حالت کو طشت از بام کرتا ہے اور اپنی تمام عمر پر ایک نظر ڈالتا ہے۔ اپنا نامہ اعمال اس ہستی کے سامنے رکھتا ہے جو ناگفتہ بھی اس کے حال سے آشنا ہے۔ اپنی حالت کے ساتھ ساتھ ملت کی خستہ حالت کو بھی پیش کرتا ہے۔ نہ اپنے متعلق کسی غلط تفاخر سے کام لیتا ہے اور نہ ملت اسلامیہ کو اس کی موجودہ حالت میں وہ اسلام پر عمل پیرا سمجھتا ہے۔ اقبال کے نزدیک ملت کا حال اس زمانے میں ایک جسد بے روح کی طرح ہے۔
شروع یہاں سے کرتا ہے کہ جب سے میری نظر کے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہستی آئی ہے تب سے میری یہی کیفیت ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے ماں باپ سے زیادہ محبوب ہو گئے:
عقل در من آتشے افروخت است
فرصتش باوا کہ جانم سوخت است
میری یہ کیفیت اس زمانے میں بھی تھی جب میں حسینوں سے عشق بازی کرتا تھا، ان کی صحبت میں شراب پیتا تھا:
مدتے با لالہ رویاں ساختم
عشق با مرغولہ مویاں باختم
بادہ ہا ہا ماہ سیمایاں زدم
بر چراغ عافیت داماں زدم
شباب کی ان ہوس رانیوں کے ساتھ ساتھ میرے تفکر اور عقائد کی یہ حالت تھی کہ عقل صنم تراش نے مجھے پجاری بنا لیا تھا۔ مگر خالی عقل و ظن انسان کو کسی یقین تک تو نہیں پہنچاتے، چنانچہ میں بھی یقین و ایمان سے خالی حقائق حیات کے بارے میں شک میں گرفتار تھا اور یہ تشکیک میرے تفکر کا جزو لاینفک بن گئی تھی۔ ظن و گمان کے سوا میرے پاس کچھ نہ تھا۔ ایک طرف حسینوں کا عشق ہوس پرور اور دوسری طرف عقل آزر پیشہ، ان دو بجلیوں نے میرا حاصل سوخت کر دیا تھا، میرا متاع خیال و دماغ ان دو ڈاکوؤں کی دست برد سے نہ بچا:
برق با رقصید گرد حاصلم
رہزتاں بردند کالاے دلم
عقل آزر پیشہ ام زنار بست
نقش او در کشور جانم نشست
سالہا بودم گرفتار شکے
از دماغ خشک من لا ینفکے
ترفے از علم الیقین ناخواندہ
در گمان آباد حکمت باندہ
ایک عرصے تک اس ظلمت عقل و ہوس میں گمراہ رہنے کے بعد مجھے توفیق الٰہی سے ایمان و یقین حاصل ہوا اور اسرار قرآن مجھ پر منکشف ہونے لگے۔ مجھے جو بصیرت حاصل ہوئی میں نے اسے آب حیواں سمجھ کر اس مردہ قوم کے حق میں ٹپکایا، مبدء فیاض نے نواگری عطا کی تھی، میں نے شمع نوا سے محفل میں روشنی پیدا کی:
مردہ بود، از آب حیواں گفتمش
سرے از اسرار قراں گفتمش
محفل از شمع نوا افروختم
قوم را رمز حیات آموختم
لیکن افسوس کہ اس مردہ قوم کو زندہ نہ کر سکا، اب اس کی نعش کو میں حضور کے سامنے لایا ہوں کہ آپ ؐ ہی اس کے احیاء کا کوئی سامان پیدا کریں۔ مجھے اسرار قرآنی پیش کرنے کا اس مردہ قوم سے یہ صلہ ملا کہ لوگ کہنے لگے کہ یہ شخص فرنگستان سے کچھ باتیں سیکھ آیا ہے، اپنی شاعری سے وہی جادو ہم پر کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ساز میں سے جو آواز نکلتی ہے وہ حکمت قرآنی نہیں بلکہ ساز فرنگ کی غوغا آرائی ہے:
گفت برما بندد افسون فرنگ
ہست غوغایش بہ قانون فرنگ
جس قوم کا یہ حال ہو اس کو میرے جیسا نوا گر بے عمل کیا زندگی بخشے گا۔ مسلمان توحید و نبوت کے اسرار سے بیگانہ ہو گیا ہے۔ اس نے بیت الحرام کو بت خانہ بنا دیا ہے آپ کو موجد اور برہمن کو مشترک اور بت پرست کہتا ہے لیکن ہمارا شیخ، برہمن سے زیادہ کافر ہے۔ ایک پورا سومنات اس کے مغز کے اندر موجود ہے۔ کچھ عجمی تصورات کو اسلام سمجھ کر اپنے فکر و عمل کو انہیں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ اس کے اند قلب زندہ نہیں رہا، وہ کافر کی طرح موت سے ترسان و لرزاں ہے۔ یہ کافر مسلم نما مجھ پر یہ الزام لگاتا ہے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ قرآن کی تعلیم کا ثمرہ نہیں ہے۔ اگر اس بارے میں میں نے اپنے آپ کو اور قوم کو دھوکا دیا ہے تو اسے محبوب خدا (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کی سزا یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں سب کے سامنے رسوا کیا جاؤں:
گر دلم آئینہ بے جوہر است
در بجرفم غیر قرآں مضمر است
پردۂ ناموش فکرم چاک کن
ایں خیاباں را ز خارم پاک کن
روز محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسہ پا کن مرا
ملت کی اس خستہ حالت کو بیان کرنے کے ساتھ ہی اپنی اس کوتاہی کو بھی حضور سرور کائنات ؐ میں پیش کیا ہے۔ کہ میری زندگی میں میرا عمل اس عشق و عرفان کا مظہر نہیں جو مجھے عطا ہوا اور جس سے میں نے دوسروں کو بھی زندہ کرنے کی کوشش کی۔ میری یہ عرض خداے عز وجل کے سامنے پیش کر دیجئے کہ عشق اور علم کی دولت دی ہے تو عمل کی توفیق بھی عطا ہو:
عرضن کن پیش خداے عزوجل
عشق من گردد ہم آغوش عمل
دولت جان حزیں بخشندہ ای
بہرۂ از علم دیں بخشندہ ای
در عمل پایندہ تر گرداں مرا
آب نیسانم گہر گرداں مرا
ایک آرزو میرے دل میں ہمیشہ چٹکی لیتی رہی، لیکن میں شرم کے مارے اس کا اظہار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میرے اعمال میرے علم و عشق کے مقابلے میں نہایت پست تھے:
زندگی را از عمل ساماں نبود
پس مرا ایں آرزو شایاں نبود
شرم از اظہار او آید مرا
شفقت تو جرأت افزاید مرا
آرزو یہ تھی اور ہے کہ میری موت حجاز میں واقع ہو۔ تیرے دیار کے باہر تو مجھے دیر ہی نظر آتا ہے۔ بہت افسوس ہو گا کہ اگر میرے جسم کو بت خانے میں گاڑا جائے۔ اگر میں جوار روضہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں مدفون ہوں اور قیامت کے روز میرا حشر وہیں سے ہو تو میں اسے کمال سعادت سمجھوں گا:
حیف چوں او را سر آید روزگار
پیکرش را دیر گیرد در کنار
از درت خیزد اگر اجزاے من
واے امروزم خوشا فرداے من
کوکبم را دیدۂ بیدار بخش
مرقدے در سایہ دیوار بخش
افسوس ہے کہ اقبال کی اس آرزو کا اس انداز میں پورا ہونا تقدیر الٰہی میں نہ تھا، لیکن اس ہمچدان کے نزدیک اس کی آرزو پوری ہوئی۔ اقبال کی تعلیم یہ تھی کہ مومن کا پیوند کسی خاک سے نہیں ہوتا۔ مومن کے تمام روابط روحانی ہوتے ہیں۔ اقبال کو عالم گیر کی عظیم الشان شاہی مسجد کے سایہ دیوار میں مرقد نصیب ہوا۔ ہر مسجد خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا گھر ہے۔ یہ مسجد لاتعداد مسلمانوں کے درود و سجود کا محل ہے۔ روحانی لحاظ سے یہ بھی روضہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا قرب ہے۔
اقبال جو اپنی بے عملی کا مسلسل اعلان کرتے رہے راقم الحروف اس سے متفق نہیں۔ کیا انسانوں کی بصیرت افروزی، ملت کی ہمت افزائی، عشق کی فراوانی اور ارزنی، تفکر کی وسعت اور ثروت، اعمال صالحہ میں داخل نہیں؟ میرے نزدیک یہ عمل ہزار عالموں، عابدوں، زاہدوں اور صوفیہ کی ریاضتوں سے زیادہ با قیمت ہے۔ معلوم نہیں کہ علامہ اقبال اس کو کیوں عمل شمار نہ کرتے تھے۔ میرے نزدیک اقبال کے عارفانہ اور عاشقانہ کلام کا ہر شعر عبادت میں داخل ہے۔ اس سے زیادہ خدمت خلق اور کیا ہو سکتی ہے کہ رہتی دنیا تک لوگ اس کے کلام سے بلند ترین افکار اور تاثرات حاصل کرتے رہیں گے۔ یہ صدقہ جاریہ ہے۔ مومن کی زندگی کا نصب العین علامہ اقبال کے نزدیک اتنا بلند تھا کہ وہ اس عرش بوس بلندی کے مقابلے میں اپنے تئیں پستی میں محسوس کرتے تھے۔ مقصود کی بلندی کسی اعلیٰ درجے کے محسن انسان کو بھی اپنی زندگی سے مطمئن نہیں رہنے دیتی۔ خوب تر کے مقابلے میں خوب بھی ناخوب دکھائی دیتا ہے۔ اقبال کے کلام سے بعض افراد کی زندگی میں ایک انقلاب آفریں ہیجان پیدا ہوا۔ آئندہ بھی ملت اسلامیہ کے ہر انقلاب میں اقبال موجود ہو گا۔ جس شخص کا پیغام سراپا پیغام عمل ہو، کیا وہ سرچشمہ عمل خود عمل سے محروم ہے؟ لوگوں نے جس چیز کو عمل سمجھ رکھا ہے وہ اس حیات افزا پیغام و تلقین کے مقابلے میں اکثر پست ہی ہوتا ہے۔ اقبال کو اپنی بے عملی پر جو افسوس ہے وہ اس کی علو ہمت اوررفعت مقاصد کا نتیجہ ہے۔ جن لوگوں کے مقاصد پست ہوتے ہیں وہ ان مقاصد کے حصول میں سرگرم عمل رہتے ہیں اور جو کچھ حاصل ہو جائے اس سے مطمئن بھی ہو جاتے ہیں لیکن گناہوں سے پاک اور اگلی پچھلی خطائیں بخشا ہوا نبی اپنی روحانی ترقی میں کسی موجودہ حالت پر قانع نہیں ہوتا اور گنہگاروں سے زیادہ استغفار اس کا صبح و شام کا وظیفہ ہوتا ہے۔ عمل میں کوتاہی کا احساس ایمان کی قوت اور مقصد کی بلندی کا شاہد ہے۔ ادنیٰ درجے کے لوگ جن اعمال کو حسنات شمار کرتے ہیں، بلند مقصد اور بلند حوصلہ انسانوں کو ان میں سیئات کا رنگ جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔