اقبال کا تصور عشق ( 2 )
انسان کو جس چیز کاعشق ہو جاتا ہے اس کے حقیقی ہونے کا یقین بھی اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ یقین بعض اوقات غلط بھی ہوتاہے۔ لیکن عاشق کواس کی غلطی کا یقین دلانا محال ہوتا ہے۔ پوری قوت سے عمل کرنے کے لیے یقین لازم ہے۔ مگر یقین علم سے نہیں بلکہ عشق سے پیدا ہوتا ہے۔ اقبال جو خالی خرد کی مخالفت کرتا ہے جس کے ساتھ عشق کی آمیزش نہ ہو ا س کی وجہ یہی ہے کہ محض خرد سے عمل میں قوت پیدا نہیں ہوتی۔ ترقی کا مدار تشکیک پر ہے۔ علم کی روش یہی ہے کہ:
جانا تو یہ جانا کہ نہ جانا کچھ بھی
معلوم ہوا ہے کہ نہ معلوم ہا۔ اسی مسلسل جہالت کے احساس سے انسان علم میں ترقی کرتاہے لیکن علمی کوششوں میں بھی تشکیک کے ساتھ کم از کم یہ یقین وابشتہ ہوتا ہے کہ علم کی ترقی پہلی غلطیوں کا ازالہ کر دے گی اور حقیقت کی طرف قدم اٹھتا رہے گا۔ کامل بے یقینی نہ عاقل میں پائی جاتی ہے اور نہ عاشق میں۔ علم و عمل سے یقین کا جو رابطہ ہے ا س کو اقبال نے اس قطعے میں کس خوبی سے ادا کیا ہے:
ہماے علم تا افنند بدامت
یقین کم کن گرفتار شکے باش
عمل خواہی؟ یقیں را پختہ تر کن
یکے جوے و یکے و یکے باش
ظاہر ہے کہ عمل کی یہ کیفیت عاشق ہی میں پیدا ہو سکتی ہے۔ جو محبوب چیز پر نظر جمانے پھر ادھر ادھر نہیں دیکھتا۔ مازاغ البصر وما طغی۔
یہ با ت کہ عشق کی کیفیت محض ملت اسلامیہ کے ایک فرد ہونے کے ساتھ ساتھ وابستہ نہیں بلکہ ہر مذہب و ملت کے کچھ برگزیدہ افراد میں یہ کیفیت ملتی ہے اور رسوم و شعائر و رشرائع کا اختلاف اس میں خلل انداز نہیں ہوتا۔ اکثر صوفیہ کا عقیدہ ہے کہ اسی لیے عارف رومی کہتا ہے کہ:
مذہب عشق از ہمہ دین ہاجداست
عام انسانوں کے گناہ و ثواب کے معیار کا اطلاق عاشقوں پر نہیں ہوتا۔ عشق تو ایک کار نادر ہے اور بقول اقبال:
گر از دست تو کار نادر آید
گناہے ہم اگر باشد ثواب است
عشق کی عدالت میں گناہ و نامہ اعمال و میزان رسمی عابدوں سے کچھ الگ قسم کے ہوتے ہیں۔ ان کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ:
گر بگوید کفر آید بوے دین
می تراود از شکش بوے یقین
اسی لیے شریعت کی ظاہری پابندی اور عشق کی طریقت کہیں کہیں طرز عمل میں متغائر دکھائی دیتی ہے۔ اسی خیال کو اقبالنے اس قطعے میں ادا کیا ہے:
تو اے شیخ حرم شاید ندانی
جہان عشق را ہم محشرے ہست
گناہ و نامہ و میزاں ندارد
نہ او مسلمے کے کافرے ہست
اسی خیال کو اقبال نے اس اردو مصرعے میں بھی ادا کیا ہے کہ:
من کی دنیا میں نہ دیکھھے میں نے شیخ و برہمن
ہر مذہب میں عاشقان الٰہی صوفی منش لوگ کچھ ہم رنگ و ہم آہنگ ہی معلوم ہوتے ہیں۔
اقبال کی عام تبلیغ تو یہ ہے کہ عشق عین دین ہے۔ البتہ عقل سے اس کا تصادم ہوجاتاہے۔ لیکن کہیں کہیں وہ عشق کے جذبے میں عقل کے ساتھ دین سے بھی کنارہ کش ہونے پر مائل معلوم ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہاں دین کی بے روح صورت ہے جسے ارباب ظاہر نے کل دین سمجھ لیا ہے:
دل از منزل تہی کن پا برہ دار
نگہ را پاک مثل مہر و مہ دار
متاع عقل و دیں با دیگراں بخش
غم عشق ار بدست افند نگہ دار
عشق اپنے کمال میں تو خرد پر بھی چھا جاتا ہے اور اسے اپنے رنگ میں رنگ لیتاہے۔ لیکن اس کمال پر پہنچنے سے پہلے یہ کیفیت بھی ہو سکتی ہے کہ عقل تو صورت تراشی اور صورت پرستی میں مبتلا ہے۔ اور شکوک پیدا کر رہی ہے۔ لیکن سینے کے اندر عشق کی چنگاری بھی موجود ہے۔ حکیم المانوی نطشہ کے متعلق اقبال کی یہی رائے تھی:
قلب او مومن دماغش کافر است
اقبال بھی آخر تک عقلیت کی گرفت سے پوری طرح چھٹکارا حاصل نہ کر سکا۔ سوزو ساز رومی کے ساتھ ساتھ پیچ و تاب رازی بھی موجود رہا۔ اسی کیفیت کے متعلق اس قطعے میں تضاد طبیعت کو بیان کیا ہے:
دماغم کافر زنار دار است
بتاں را بندہ و پروردگار است
دلم را بیں کہ نالد از غم عشق
ترا با دین و آئینم چہ کار است
٭٭٭
سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
(غالب)
اقبال نے اس مصرعے میں اسی تضاد کی شکایت کی ہے اپنے متعلق کی ہے کہ:
نگاہ آلودہ انداز افرنگ
اب تک جو جماد سے انسان تک ارتقا ہوا ہے وہ عشق ہی کی بدولت ہواہے۔ موجودہ انسان میں اگر عشق ترقی پذیرہوجائے تو کوئی وجہ نہین کہ ایک نیا آدم ظہور میں نہ آئے جو پہلے آدم کے مقابلے میں ایسا ہی بلند تر ہو جیسا کہ موجودہ انسان حیوانوں سے بلند ہے۔ یہ یقین صوفیہ کے علاوہ طبیعی ارتقائی حکما کے ایک طبقے میں بھی پایا جاتاہے۔ کہ موجودہ انسان ارتقائے حیات کی آخری منزل نہیں۔ جو زندگی حشرات الارض سے لے کر انسان تک پہنچتی ہے اس کے اندر ذوق عروج یا قوت ارتقا ختم نہیں ہو گئی۔ حیات کی ممکنات لامتناہی ہیں:
بیا اے عشق اے رمز دل ما
بیا اے کشت ما اے حاصل ما
کہن گشتند ایں خاکی نہاداں
دگر آدم بنا کن از کل ما
اقبا ل نے کہیں کہیں عشق کی بجائے آرزو کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے اور ان دونوں کے معنی اس کے نزدیک مرادف ہیں:
از شعاع آرزو تابندہ ایم
جہان میں بود کی جو نمود بھی ہے وہ آرزو کی بدولت ہے:
جہاں یک نغمہ زارے آرزوئے
بم و زیرش ز تار آرزوئے
بچشمم ہر چہ ہست و بود و باشد
دمے از روزگار آرزوئے
یہ خیال اقبال کے تصوف کو اس تصوف سے بالکل الگ کر دیتا ہے کہ جو ویدانت اور بدھ مت میں پایا جاتاہے۔ ان دونوں کا فلسفہ یہ ہے کہ جہان اور انسانی زندگی ایک نمود بے بود ہے۔ یہ ایک لحاظ سے فریب ادراک ہے۔ اور دوسری حیثیت سے آرزو کی پیداوار۔ باطل ہونے کی وجہ سے زندگی شر اور دکھ سے لبریز ہے۔ قید حیات و بند غم کا ایک غیر منفک رابطہ ہے۔ اس سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ انسان اور تمام ہستی بے آرزو ہو جائے۔ اقبال اس فلسفے کے اس پہلو سے متفق ہے کہ زندگی جہاں بھی ہے وہ آرزو کی پیداوار ہے۔ لیکن وہ زندگی کو تمام مصائب کے باوجو دنعمت سمجھتا ہے اور اس کی نمود کو باطل خیال نہیں کرتا۔ وہ ترک آرزو کی بجائے فراوانی آرزو کی تلقین کرتا ہے۔ تاکہ زندگی وسعت اور عروج حاصل کرتی جائے۔ ویدانت اور بدھ مت کا فلسفہ جس نے کہیں کہیں مسلمانوں کے تصوف پر بھی سایہ ڈالاہے حیات گزیر ہے۔ اسی لیے رہبانی زندگی کو معاشرتی زندگی سے افضل سمجھتا ہے۔ اقبال میں تصوف کا ایجابی او ر حیات افزا پہلو موجود ہے لیکن اس کے سلبی پہلو کے خلاف اس نے شدت سے جہاد کیا ہے۔ ویدانت اور بدھ مت جیسے فلسفوں نے جو مذہب بن گئے ہیں زندگی کی جدوجہد سے گھبرا کر فرار کی تعلیم دی ہے اقبال مجاہد ہے اور زندگی کی مزاحمتوں پر عشق اور ہمت سے غالب آنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہ غیر اسلامی فلسفوں کا اثر تھا کہ جس کی آواز بازگشت مسلمانوں کے فراری ادت میں سنائی دیتی ہے اور غالب جیسا ذوق حیات رکھنے والا اور ہر قسم کی خواہش کو پورا کرنے کی تمنا رکھنے والا شاعر بھی کبھی کبھی یہ کہہ جاتاہے :
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ
دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے مجھے
ورنہ یاں سے رونقی سود چراغ کشتہ ہے
سود چراغ کشتہ تو موت ہے۔ اس کے مقابلے میں اقبال کی یہ آرزو ہے:
شمع کی طرح جبیں بزمگہ عالم میں
خود جلیں دیدہ اغیار کو بینا کر دیں
غالب کا حقیقی میلان تو یہ ہے کہ:
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
اگر شراب نہیں انتظار ساغر کھینچ
اگر بہار کو فرصت نہیں بہار تو ہے
طراوت چمن و خوبی ہوا کہیے
حکیم المانیہ نطشہ نے کہا ہے کہ ادیان کی د و ہی قسمیں ہیں۔ ایک زندگی کو قبول کرنے والے اور دوسرے اسے رد کرنے والے اور کسی دین کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے کہ ا س میں اثبات حیات کی تلقین ہے یا نفی حیات کی۔ عیسائیت اور بدھ مت کو وہ موخر الذکر میں داخل کرتتا تھا۔
اقبال نے جس کیفیت یا جس جذبے کا نام عشق رکھا ہے اس کے مظاہر کی گوناگوئی کی کوئی حد نہیں۔ محبت کے اقسام کا کون شمار کر سکتا ہے۔ ہر رابطے میں محبت کا رنگ الگ ہوتا ہے۔ ماں باپ کی اولاد سے محبت ایک قسم کی ہے۔ زن و شوہر یا مردو زن کی محبت ایک دوسرے اندازکی ہے۔ کہیں وطن کی محبت ہے کہیں نو ع انسان کی محبت کہیں کسی نصب العین سے ور کہیں مصدر حیات و کائنات سے۔ افلاطون یہ کہتا ہے کہ سب محبتیں مجازی اور عکسی ہیں۔ اصل چیز جو سرمدی ہے وہ عشق مطلق ہے۔ جس کا رابطہ حس مطلق سے ہے۔ لیکن معرض شہود میں عشق کی بوقلمونی سے کون انکار کر سکتا ہے۔ عشق کہیں قوت قلب و جگر پیدا کرتا ہے کہیں عقل کی پشت پناہی کرتا ہے۔ کہیں شم نمناک میں ظہور کرتا ہے کہیں بے خودی کا رنگ اختیار کرتا ہے۔ اور کہیں خودی کو استوار کرتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ مجھ پر تو اس نے یہی عمل کیا ہے کہ مجھ پر اپنی خودی کو آشکار کر دیا ہے۔ اقبال چشم تر سے بیگانہ نہیں لیکن اپنی زندگی میں رقت کی کیفیت کو ثانوی حیثیت دیتا ہے:
بہر دل عشق رنگ تازہ بر کرد
گہے باسنگ گہ با شیشہ سر کرد
ترا از خود ربود و چشم تر داد
مرا با خویشتن نزدیک تر کرد
عشق کی اتنی توضیح کرنے کے بعد بھی اقبال کی حالت وہی ہے جو رومی نے بیان کی ہے کہ:
گرچہ تفسیر و بیاں روشن گر است
لیکن عشق بے زبان روشن تر است
اس ذوقی کیفیت کے لیے کوئی موزوں زبان نہیں۔ جس کے اندر یہ چیز موجود نہیں ہے کہ اسے بیان کی لطافت اور نزاکت بھی اس سے آشنا نہیں کر سکتی۔ تمام عمر بھی روشنی کی کیفیت کسی مادر زاد اندھے کے سامنے بیان کی جائے تو وہ اس کی حقیقت کو کہاں پہنچے گا اور چشم بینا کے لیے روشنی کی کسی توجیہہ کی ضرورت نہیں۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ بے شمار قطعات میں عشق کی کیفیات اور اس کی نفسیات کو بیان کرنے کے بعد آخر میں عجز بیان کا اقرار ہے:
مرا ذوق سخن خوں در جگر کرد
غبار راہ مشت شرر کرد
بگفتار محبت لب کشودم
بیاں ایں راز را پوشیدہ تر کرد
عاشقی کی کیفیات کے ساتھ فلسفے کی آمیزش ہر جگہ موجود ہے۔ اگرچہ اقبال ان دونوں کی ہم آہنگی کا قائل نہیں مگر کیا کرے مجبوری ہے کہ وہ بیک وقت فلسفی بھی ہے اور عاشق بھی:
ز شعر دلکش اقبال می تواں دریافت
کہ درس می داد و عاشقی ورزید
پیام مشرق میں عشق پر قطعات کے علاوہ ایک مستقل نظم بھی عشق کے عنوان سے ہے۔ اس میں کیفیت اور معانی وہی ہیں لیکن انداز بیان الگ ہے۔ ان اشعار میں مختصر طورپر اپنی عقلی تگ و دو کا ذکر ہے جس نے بڑی دوڑ دھوپ کے بعدبھی زندگی کا کوئی راز فاش نہ کیا۔ عقل پیچ در پیچ میں بگولے کی طرح چکر کھاتا رہا لیکن اس گرد باد میں گرد اور باد کے سوا کیا رکھا ہے۔ معلوم ہو اکہ عقل ایک شکستہ جام ہے جس کے اندر مے حقیقت تمام ٹپک جاتی ہے۔ جام خالی کا خالی رہتاہے۔ اور تشنہ لبی میں فرق نہیں آتا۔ آخرمیں عشق نے رہبری کی عشق کو عام لوگ اور طبیعی حکم محض ایک جذباتی کیفیت سمجھتے ہیں لیکن وہ محض تاثر نہیں یہ تاثر بصیرت سے ہم آغوش ہے۔ اس کی بدولت انسان رموز وجود سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ عقل کا بت خانہ حرم بن جاتا ہے۔ اس کی مستی اور بے خودی درحقیقت خود آگاہی اور خدا شناسی ہے۔ اس کی بدولت زندگی کی زشتی جمال بہشتی میں مبدل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد بس عشق ہی کی حکایت زبان پر رہ جاتی ہے۔ خواہ دوسرے اس کو سمجھیں یا نہ سمجھیں اور اسے جنون قرار دے کرملامت کرنے لگیں۔
گرچہ بدنامی است نزد عاقلاں
ما نمی خواہیم ننگ و نام را
فکرم چو بہ جستجو قدم زد
در دیر شد و در حرم زد
در دشت طلب بسے دویدم
دامن چوں گرد باد چیدم
پویاں بے خضر سوے منزل
بر دوش خیال بستہ محمل
جویائے مے و شکستہ جامے
چوں صبح بباد چیدہ وامے
پیچیدہ بخود چو موج دریا
آوارہ چوں گرد باد صحرا
عشق تو دلم ربود نا گاہ
از کار گرہ کشود نا گاہ
آگاہ ز ہستی و عدم ساخت
بت خانہ عقل را حرم ساخت
چوں برق بخرمنم گزر کرد
از لذت لذت شوختن خبر کرد
سرمست شدم ز پا فتادم
چوں عکس ز خود جدا فتادم
خاکم بفراز عرش بردی
زاں راز کہ بادلم سپردی
واصل بکنار کشتیم شد
طوفان جمال زشتیم شد
جز عشق حکایتے ندارم
پروائے ملامتے ندارم
از جلوہ علم بے نیازم
سوزم گریم تپم گدازم
اس نظم کے علاوہ پیام مشرق میں عشق کے عنوان سے اور بھی چار اشعار ہیں جن کا اندراج اقبال کے نظریہ عشق کی وضاحت کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اقبال کے کلام میں عقل کی توہین و تحقیر تو بہت کچھ ملتی ہے۔ لیکن ان اشعار میں اقبال نے ایک بڑے نکتے کی بات کی ہے جسے اس نے غالباً کسی اور جگہ نہیں دہرایا۔ کہتا ہے کہ عقل کے بھی کارنامے بہت حیرت انگیز ہیںَ اس نے بھی حیات و کائنات کے بعض پہلوئوں کو روشن کیا ہے۔ انسانی زندگی میں جو تنویر ہے اس کا حصہ عقل کی پیداوار ہے۔ جس عقل نے نور پید اکیا ہے اس کو بھی عشق کا تلمذ حاصل کیاتھا۔ آخر عقل و حکمت کی جدوجہد جس کے لیے اعلیٰ درجے کے انسانوں نے زندگیاں وقف کر دیں وہ بھی صداقت کی طللب تھی اگر حکما میں صداقت کا عشق نہ ہوتا تو ان کے لیے بے غرضانہ زندگی بسر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ رومی میں عشق کی فراوانی سہی لیکن بو علی سینا اور فارابی بھی عشق کے سرور سے خالی نہ تھے۔ عقل کی نار اور اس کا نور بھی عشق ہی کا ایک کرشمہ ہے اور اسی کا ایک جلوہ بیباک ہے۔
عقلے کہ جہاں سوزد یک جلوہ بیباکش
از عشق بیاموزد آئین جہاں تابی
عشق است کہ در جانت ہر کیفیت انگیزد
از تاب و تب رومی تا حیرت فارابی
نقش فرنگ میں اقبال کہتا ہے کہ عقل اپنے وظیفہ حیات میں جو نہایت اشرف و افضل ہے تنگی پیدا کر کے انسانوں کو گمراہ مادہ پرس اور حاضر پرست بنا دیتی ہے۔ اگر عقل کے پر پرواز نوچے اور کترے نہ جائیں تو اس کی بھی کوئی حد نہیںَ عقل کا کام انفس و آفاق دونوں کے متعلق دانش و بینش پیدا کرنا تھا لیکن اس نے محض جہاں بینی کا شیوہ اختیار کر لیا اور خود بینی میں مہارت پیدا نہ کی۔ اس مادی کائنات کے ضمیر میں بھی عقل غوطہ زنی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن وہ برگ ثمر کے رنگ و بو کا تجزیہ کرتی رہی اور خمیر گل و نسرین میں غوطہ زن نہ ہوئی۔ زندگی کی گہرائیاں اور اس کی بلندیاں اس کے احاطہ قدرت سے باہر نہ تھیں لیکن اس نے مظاہر کی ریاضیاتی پیمائش تک اپنی نظر کو محدود کرلیا:
عقل خود بیں دگر و عقل جہاں بیں دگر است
عقل اگر نفس انسانی کی گہرائیوں کا جائزہ لیتی ہے تو عرفان نفس کے ساتھ عرفان رب بھی اس کو حاصل ہو سکتا تھاـ:
دگر است آنکہ زند سیر چمن مثل نسیم
آں کہ در شد بہ ضمیر گل و نسریں دگر است
دگر است آنسوئے نہ پردہ کشادن نظرے
ایں سوے پردہ گمان و ظن و تخمین دگر است
اے خوش آں عقل کہ پہنائے دو عالم با اوست
نور افرشتہ و سوز دل آدم با اوست
عقل کی تنگ نظری اور غلط روی یا مسخ جوہر کا ذکر اقبال کے کلام کا ایک کثیر حصہ ہے اور عشق کی زیادہ تر توصیف ہی توصیف اور والہانہ مداحی ہے لیکن کیا عشق کی صورت کو انسانوں نے مسخ نہیں کیا؟ انسانوں کو جن جذبات نے تباہ کیا ہے ان میں سے ہوس بھی ہے جو عشق کا بھیس اختیار کر لیتی ہے۔ اور ااس فریب سے عشق کی تمام قوتیں تعمیر حیات کی بجائے تخریب حیات کا باعث ہوتی ہیںَ کبھی ذوق اقتدار عشق کا جامہ پہن لیتا ہے۔ اور کبھی ادئی شہوات اپنا نام عشق رکھ لیتی ہیں۔ کبھی جاہلانہ اور وحشیانہ مذہبی تعصب عشق کے رنگ میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ جو ظلم کو رحمت اور عدل سمجھ لیتا ہے:
بے جرات رندانہ ہر عشق ہے روباہی
بازو ہے قومی جس کا وہ عشق الٰہی
نقش فرنگ میں اقبال نے فرنگ ہی کے عشق پر ہوش پیشہ ہونے کا الزام لگایا ہے لیکن عشق کی یہ تخریب تو شرق و غرب مسلم و غیر مسلم سب میںدکھائی دیتی ہے۔ اسی عشچق کے متعلق حالی نے کہا ہے کہ:
اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا
جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا
اور اسی مخرب حیات عشق کے متعلق حالی کی یہ رباعی ہے:
ہے عشق طبیب دل کے بیماروں کا
یا خود ہے وہ گھر ہزار آزاروں کا
ہم کچھ نہیں جانتے پر اتنی ہے خبر
اک مشغلہ دلچسپ ہے بیکاروں کا
ہوس ہی نے اپنے آپ کو عشق بنا کر فارسی اور اردو میں شعر و قصائد کا وہ ناپاک دفتر پیداکیا ہے جس نے فن لطیف کو فن کثیف بنا دیا۔ اس بارے میں مشرق مغرب کے مقابلے میں کچھ کم مجرم نہیں ہے۔ لیکن اقبال کی زد میں زیادہ تر فرنگ ہی آتا ہے۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو یہ تمام الزامات مشرقیوں پر کچھ زیادہ ہی چسپاں ہوتے ہیں:
عشق گردید ہوس یپشہ و ہر بند گست
آدم از فتنہ او صورت ماہی در شست
رزم بر بزم پسندید و سپاہے آراست
تیغ او جز بہ سر و سینہ یاراں نہ نشست
رہزنی را کہ بنا کرد جہاں بانی گفت
ستم خواجگی او کمر بندہ شکست
بے حجابانہ بہ بانگ دف و نے می رقصد
جامے از خون عزیزان تنگ مایہ بدست
وقت آنست کہ آئین دگر تازہ کنیم
لوح دل پاک بشوئیم و زسر تازہ کنیم
اس کے ساتھ ہی ملا ہوا جو بند ہے وہ اس ا مر کا ثبوت ہے کہ استبداد شکنی کا کام زمانہ حال میں مغرب نے مشرق کی نسبت زیادہ کیا ہے۔ محنت کشوں کے حقوق مغرب میں مشرق والوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ استوار ہو گئے ہیں۔ مطلق العنان بادشاہیاں مغرب نے ختم کی ہیں انسانوں کے اندر مواقع حیات اور آئین میں مساوات فرنگ میں مسلمان کہلانے والی ملتوں کے مقالبے میں بہت زیادہ ہیں۔ اقبال کو جو یہ نظر آ رہا ہے کہ:
زندگی درپے تعمیر جہان دگر است
اس کے مظاہر مغرب میں مشرق کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہیں کیوں کہ یہ تمام تحریکیں مغرب ہی میں پیدا ہوئیں اور اسی تہذیب و تمدن میں سے ابھریں جو اقبال کے نزدیک سوز حیات سے خالی اور حیات باختہ ہے:
افسر پادشہی رفت و بہ یغمائی رفت
نے اسکندری و نغمہ دارائی رفت
کوہکن تیشہ بدست آمد و پرویزی خواست
عشرت خواجگی و محنت لالائی رفت
یوسفی را ز اسیری بہ عززی بردند
ہمد افسانہ و افسون زلیخائی رفت
راز ہائے کہ نہاں بود ببازار افتاد
آں سخن سازی و آں انجمن آرائی رفت
چشم بکشائے اگر چشم تو صاحب نظر است
زندگی در پے تعمیر جہاں دگر است
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دو تین سو سال میں مغرب نے جو ترقی کی وہ عقلی علوم ااو مادی فطرت کی تسخیر میں کی۔ اس ترقی کے مقابلے میں اخلاقی اور روحانی ترقی کی رفتار نہایت سست نظر آتی ہے لیکن اس میں کس کو شک ہو سکتا ہے کہ مغرب میں نایت بلند پایہ اخلاقی اور روحانی رہنما اس دور میں پیدا ہوئے۔ انہی تین صدیوں میںمشرق کی خفتگی اور مسلمانوں کے روحانی جمود کے متعلق اقبال کی رائے تھی کہ:
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
ان تین صدیو ں میں کوئی بلند پایہ روحانی تحریک اسے اس برصغیر میں نظر نہیں آتی۔ باقی اسلامی ممالک کا حال کچھ اس سے بدتر ہی رہا ہے مگر اس دور میں مغرب میں اخلاقی اور روحانی مصلحین کی کوششوں نے انسانی زندگیکو بہت آگے بڑھا دیا۔ شہروں کی گندگی ناپید ہو گئی بہت سے مہلک امراض کا علاج حکماء اور اطبا نے بڑی قربانیوں اور جہدوجہد سے تلاش کیا اور جوکافر گر افلاس مشرق میں ملت اسلامیہ میں نظر آتا تھا وہ مغرب میں ناپید ہو گیا۔ کیا اسے عقل کی غارت گری کہہ سکتے ہیں؟ یہ کہنا سخت ناانصافی کی بات ہے کہ مغرب کی تہذیب میں اخؒق اور روحانیت کا عنصر نہیں۔ انگریز تاجر کو مسلمان بھی اپنوں سے زیادہ راست گو اور قابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ کیا اس دیانت میں روحانیت کا کوئی شائبہ نہیں؟ محتاجوں بیماروں اور بیکسوں کی جو دیکھ بھال مغرب میں ہوتی ہے اس کا عشق عشیر بھی روحانیت کے مدعی مشرق میںنظر نہیں آتا۔ یہ درست ہے کہ مغرب مشرق سے زیادہ شراب خوار ہے مگر:
تو فخر ہمی کنی کہ مے می نخوری
صد کار کنی کہ مے غلام است آں را
یہ فتویٰ کیا غلط ہے:
کہ مے حرام دلے بہ ز مال اوقاف است
مشرق میں ابھی تک فقہا فتوے فروش ہیں اور قاضیوں پر بھی لوگوں کو بھروسا نہیں رشوت کا بازار گرم ہے خیام نے سچ کہا ہے:
اے قاضی شہر از تو پرکار تریم
با ایں ہمہ مستی از تو ہشیار تریم
تو خون کساں خوری و من خون رزاں
ز انصاف بگو کدام خوں خوار تریم
یہ سب کچھ جانتے ہوئے یہ کہنا کہ مغر ب روحانیت سے بالکل معرا ہے انصاف سے بعید ہے۔ مغرب کے متعلق انصاف پسندوں کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ عیب او جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو۔ مگر فرنگ کے متعلق اقبال کی بیزاری اس کو جادہ اعتدال سے ہٹا دیتی ہے۔ معلوم نہیںکہ روحانی زندگی کی تلقین کرنے والے اور عملاً روحانی زندگی بسر کر نے والے اور خلق خدا کی بھلائی کے لیے زندگیاں وقف کرنے والے لوگ اقبال کو فرنگ میں کیوں نظر نہیںآتے کہ وہ مایوس ہو کر یہ کہنے لگا:
یاد ایامے کہ بودم در خمستان فرنگ
جام اور روشن تر از آئینہ اسکندر است
چشم مست مے فروشش بادہ را پروردگار
بادہ خواراں را نکاہ ساقیش پیغمبر است
جلوہ او بے کلیم و شعلہ او بے خلیل
عقل ناپردا متاع عشق را غارتگر است
در ہوایش گرمی یک آہ بیتابانہ نیست
رند این میخانہ را یک لغزش مستانہ نیست
فرنگ کے مقابلے میں مسلمانوں کی موجودہ روحانیت کا جو حال ہے وہ اقبال کی نظر سے اوجھل نہیں ہے۔ اس کے نزدیک فرنگ میں عقل کی روشنی ہے مگر دلوں میں اندھیرا ہے مگر ہمارے ہاں تو خسر الدنیا والآخرہ ہے۔ نہ عقل کی روشنی اور نہ عشق کی آگ:
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
عقل و علم اور عشق کا تقابل اقبال کا خاص مضمون ہے۔ یہ مضمون صدیوں سے مسلمانوں کے ادب میں حکیمانہ صوفیانہ اور متصوفانہ شاعری کا ایک دلچسپ موضوع رہا ہے اور اقبا ل سے پہلے لوگوں نے اس مسئلے میں بڑی نکتہ آفرینیاں کی ہیں لیکن اس کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ پہلوں نے جو کچھ کہا اس کا بہترین جوہر اور خلاصہ بھی اقبال کے کلام میں موجود ہے۔ نیز اقبال نے اس پر قابل قدر اضافہ بھی کیا ہے اور ہر نظم بلکہ ہر شعر میں انداز بیان بھی نرالا ہے اقبال نے بہت سے ایسے مسائل پر طبع آزمائی کی ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے محض ایک تاریخی حیثیت سے قابل مطالعہ ہوں گے۔ لیکن عقل و عشق کی موافقت یا مخالفت ایک ایسا مضمون ہے جو فطرت انسانی کے اندر میلانات کی ایک ابدی پیکار کا مظہر ہے۔ اگر انسان کی سیاسی جبلت اپنی صورتیں بدلنے کے لیی بھی باوجو دبھی تغیر پذیر نہیں بلکہ ایک حقیقت ثابتہ ہے تو اقبال کی شاعری کا ییہی حصہ اس کی شاعری کو لازوال بنانے کا ضامن ہے۔ عشق کی جذباتی اور تاثراتی کیفیت کو اس نے اس طرح بیان کیا ہے اس پر اضافہ کرنا کسی آنے والے شاعر حکیم و عاشق کے لیے دشوار ہو گا اور حکیمانہ انداز میں جو نکات اس کے ذہن میں مترشح ہوئے ہیں وہ بھی ایسے جامع ہیں کہ شاید ہی اس کے بعد آنے والا اس سے زیادہ کچھ کہہ سکے۔ حکیم المانوی گوئٹے نے جس کی بصیرت کا اقبال معترف تھا ایک ایسا منظوم ڈرامہ لکھا یہ جس میں بقول اقبال اس نے انسانی زندگی کے متعلق ایسے معارف بیان کیے ہیں کہ انسانی فکر اور تخیل کی پرواز اس سے بلند تر نہیں ہو سکتی۔ اس ڈرامے کا ہیرو فوسٹ تمام علو م سے بہرہ ور ہونے اور تمام فلسفوں کی خاک چھاننے کے بعد حقیقت حیات کے متعلق عقل کی بے بسی س یاسی طرح بیزار ہے جس طرح کہ اقبال خالی علم و عقل کی جدوجہد سے مایوس ہو گیا۔ وہ قوت و اقتدار اور لذت کا آرزو مند تھا۔ ابلیس نے ظاہر ہو کر اس سے کہا کہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ میرے قبضہ قدرت میں ہے۔ اگر انپی روح کو میرے پاس بیچ دو تو میں تمہیں کائنات ؤکی سیر کراتا ہوں۔ اور تمہاری ہر آرزو کو پورا کرنے کا ذ مہ لیتا ہوں۔ قصے کا آغاز یہی ہے اس کے بعد شیطان کی ہرکابی میں فوسٹ نے جو کچھ دیکھا اور کیا اس کی داستان بہت طویل ہے مگر اس داستان کے اندر شیطان کی فطرت اور انسان کی فطرت کے تمام مضمرات او ر امکانات نمایاں ہوتے جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ عمیق حکیمانہ ڈرامہ مغرب کے کسی ادیب نے نہیں لکھا۔ اقبا کے ہاں فطرت ابلیس کا مضمون بھی ایک خاص مضمون ہے جس کے کچھ پہلو اس کو گوئٹے نے سمجھائے ہیں ابلیس اس ڈرامے میں تخریب اور شر کا مجسمہ ہے لیکن گوئٹے اس تخریبی قوت پر غلبہ پانے والی جس قوت کو پیش کرتا ہے وہ عشق ہے ابلیس کا وظیفہ حیات یہ ہے کہ زندگی کی ہر تعمیر کے اندر تخریب کی صورت پیدا کرے وہ حیات و کائنات کی رگ و پے میں اسی غرض سے دوڑتا رہتا ہے۔ کہ ہر نظم میں اختلال پیدا کرے دیکھیے یہ مرد حکیم ابلیس کے متعلق وہی بات کہہ رہا ہے جو نبی اکرم صلعم نے فرمائی کہ شیطان انسان کی رگ و پے میں خون کی طرح گرد ش کرتا ہے۔ اس کے مقابلے مین عشق ہر جگہ کارفرما ہے۔ شیطان موت کا فرشتہ ہے اور عشق زندگی کا فرشتہ ۔ چاروں طرف یہی نقشہ نظر ا؟ٓٹا ہے کہ ہر ہستی کا انجام فنا ہے ۔ فنا کو شکست دینے والی قوت عشق ہے موت گل و ثمر پر وارد ہوتی ہے لیکن پھل فنا ہونے سے پہلے اپنی بقا کا انتظام کر لیتا ہے۔ پھلوں اور پھولوں کے بیج فطرت مصرفانہ افراط سے پیدا کرتی ہے۔ والدین کی وفات سے پہلے ان کی جانشین اولاد عشق کی بدولت معرض وجو د میں آتی ہے زندگی کو بقا کوش اور ارتقا کوش قوت عشق ہی ہے جو برگ و ثمر میں بھی کارفرما ہے اور روح بشر میں بھی ۔ فقط عشق ہی اپنی اخلاقی کی قوت کی بدولت موت سے مغلوب نہیں ہوتا۔ ہر جگہ آخر کار تخریبی قوتیں تعمیری قوتوں سے شکست کھا جاتی ہیں۔ فوسٹ کے ڈرامے میں عشق کی اس خلاقی فطرت کو ابلیس اپنا حریف قرا ر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بقا کوشی تمام حیات و کائنات پر اس طرح محیط ہے کہ میں اپنی قوت تخریب کو بڑی کوشش سے بچا کر نہ رکھتا ت ومیرے لیے کہیں گنجائش نظر نہ آتی۔ اس ڈرامے میں ابلیس خدائے قدوس اور خیر مطلق کو اپنا حریف نہیں جتاتا بلکہ اسی حیات آٖرین عشق سے نالاں ہے جو اس کی تمام تخریبی کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے اور اسے پھر از سر نو ہر تعمیر میں تخریب کی کوئی نئی صورت سوچنی پڑتی ہے۔ ابلیس کہتا ہے کہ عشق کی یہ خلاقی ملاحظہ ہو کہ ہوا کے اندر پانی میں زمین میں خشکی میں تری میں گرمی میں سردی میں ہر جگہ اور ہر حالت میں زندگی کے لامحدود جراثیم پھوٹ پھوٹ کر نکل رہے ہیںَ اس طوفان حیات میں اور زندگی کی فراوانی میں میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو بچا کر رکھا ہے۔
ہم اوپر لکھ چے ہیں کہ برٹ رینڈ رسل جیسا منکر خدا اپنا عقیدہ یہ بیان کرتا ہے کہ زندگی میں لطف اور قدرت پیدا کرنے والے دو ہی اقدار ہیں ایک علم اور دوسرا عشق۔ اس سے ذر ا ہٹ کر ایک اور منکر خدا فرائڈ جدید تحلیل نفسی کا امام بھی آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ تمام زندگی میں دو قوتیں اساسی معلوم ہوتی ہیں ایک تخریبی قوت جس کو وہ جلبت موت کہتا ہیاور ایک تعمیری قوت جسے وہ عشق کہتاہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مگر نہایت پر معنی کتاب تہذیب اور اس کی بے اطمینانیاں ہے۔ اس نے تہذیب پر ایک گہری نفسیاتی بحث کی ہے۔ اس کا لب بابیہ ہے کہ انسانی زندگی کے اندر دو اساسی جبلتین ہیںایک عشق ہے جو تخلیقی اور تعمیر ی قوت ہے۔ وہ ایک جنسی جذبے سے شروع ہو کر تمام نو ع انسان کی محبت تک ترقی کرتا چلا جاتا ہے انسانی تہذیب و تمدن کے تمام ادارے اور اس کے تمام فنون لطیفہ اسی جذب کے مظاہر ہیں۔ دوسرا جذبہ تخریبی ہے جو جور و جفا پر انسان کو مائل کرتاہے اور ہر تعمیر کی تخریب پر آمادہ رہتا ہے۔ فنا و بقا یا موت و حیات کی پکار زندگی کا لازمہ ہے انسان کی تہذیب اور اس کی ترقی کا مدار جذبہ عشق کو جنسی جذبے سے متجاوز کر کے تمام زندگی پر محیط کرنا ہے انسانی زندگی میں عقل اور عشق حریف اور ازلی دشمن نہیں بلکہ عشق اور میلان ظلم ایک دوسرے پر غالب آنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ رومی نے کہا تھا کہ زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است ۔ فرائڈ کہتا ہے کہ ابلیس میلان تظلم کا نام ہے اور عشق زندگی میں وحدت آٖرین ہونے کیوجہ سے تہذیب و تمدن کے بہترن عناصر کا خلاق ہے۔ یہ دونوں میلانات انسانوں کے اندر داخ جبلت ہیں ان کی پیکار کہیں پوری طرح ختم نہیں ہوتی۔ ظلم جلی نہیں تو ظلم خفی انسانوں کے برتائو میں موجود رہتا ہے۔ لیکن اس کا حریف عشق کبھی اس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا۔ انسان کا مستقبل یہی ہے کہ وہ عشق کی تعمیری اور خلاق قوت میں اضافہ کرتا جائے دیکھیے کہ برٹ رینڈ رسل اور فرائڈ دونوں مذہب اور روحانیت کے دشمن آخر میں وہی بات کہہ رہے ہیں کہ جو اقبال نے ان دونوں سے بہتر انداز میں اور زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کہی۔ کفر ودین کے ڈانڈے کس طرح ل گئے ہیں۔ دین بھی اپنے ارتقا میں آخر ذات و صفات الٰہی پر غور کرتا ہوا اور رسوم و شعائر اور عبادات سے گزرتا ہوا اسی عقیدے پر آ گیا ہے کہ اصل حقیقیت عشق ہے خدا عشق ہے اور عشق خدا۔ نجات اور کامیابی کا مدار اسی عقیدے پر عمل کرنا ہے باقی جو کچھ ہے وہ فروعی اور متغیر ہے اور کفر کی ترقی ن بھی اہین آ کر فم لیا اور ادسی کو آخری منزل قرار دیا ہے۔ فرائڈ نے ایک کتاب اسی موضوع پر لکھی ہے کہ خدا پر عقیدہ رکھنا ایک عالمگیر دھوکا ہے انسانوں کو چاہیے کہ اس دھوکے سے نجات حاصل کریںَ بگذر ز خداہم کہ خدا ہم حرفے ست۔ لیکن یہی ملحد حیات و ممات کی ماہیت پر غور کرتا ہو ا آخر عمر میں اپنا ی راسخ عقیدہ پیش کرتا ہے کہ خدا کا جود تو نہیں لیکن عشق کا وجود ہے ۔ جو خلاق ہے اور ضامن بقا اور ارتقا ہے انسان کو عشق کی پرستش کرنا اور اسے اپنی رگ و پے میں سمونا چاہیے۔ انسان کو حیوانیت سے عشق ہی کی ترقی نے نکالا ہے۔ زندگی کی تمام لطافتیں اسی نے پیدا کی ہیں اور آئندہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی ترقی کا مدار بھی عشق پر ہی ہے۔ ایسے کافروں کی نسبت اقبال ہی کا مصرعہ دہرایا جا سکتاہے:
قلب او مومن دماغش کافر است
جس نظریہ حیات پر کفر اور دین دونوں متفق ہو جائیں اور عقل و وجدان دونوں اس بارے میں ہم آہنگ ہو جائیں اس کے ابدی صداقت ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے۔ اسی ابدی صداقت کو اقبال نے اتنی لطافت اتنی نزاکت اور اتنے جوش کے ساتھ پیش کیا ہے کہ وہ اسی کی بدولت ترجمان حقیقت کے لقب کا مستحق ہو گیا ہے۔
اقبال اس کا منکر نہ تھا کہ عل بھی اپنی ترقی میں عشق کا دامن چھو سکتا ہے۔ عشق کے متعلق برٹ رینڈ رسل سے زیادہ فرائڈ کو بصیرت حاصل ہوئی۔ رسل عشق کو کوئی ازلی ابدی حقیقت نہیںسمجھتا۔ فقط انسانی زندگی میںعدل و رحم اور لطف و مسرت پیدا کرنے کے لیے اسے ایک اساسی قدر حیات تسلیم کرتا ہے۔ ا س کے نزدیک وہ ماہیت وجو د میں داخل نہیں فقط انسانی زندگی کے لیے ایک مفید زاویہ نگاہ اوراچھا طرز عمل ہے۔ لیکن فرائڈ تو آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ وہیں پہنچ گیا جہاں اہل دین اور صوفیہ پہنچے تھے کہ عشق خلاقی قوت مصدر حیات اور مقصود حیات ہے اگر انسان لفظی تنازع میں نہ پڑے تو یہ اسی خدا کے قائل ہونے کے مترادف ہے جو رحیم و مودود اور رب العالمین ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ ربوبیت اور نبات و حیوان اور انسان میں ایک تعمیری حیثیت سے موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی جب وہ یہ کہتا ہے کہ فنا کوش تخریبی قوت بھی ساتھ ساتھ پائی جاتی ہے تو اس کو دین کی زبان میں شیطان کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اپنے عقلی راستے پر چلتا ہوا اور انسانی نفس میں غوطہ زنی کرتا ہوا فرائڈ خدااورشیطان دونوں کا قائل ہو گیا وہ دینی زبان استعمال نہیں کرتا لیکن مفہوم وہی ہے۔ اور جب وہ کہتا ہے کہ ایروس یعنی عشق تخریبی قوتوں پر غالب آتا ہوا زندگی میں ارتقا پیدا کر رہا ہے تو اسے دینی زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا شیطان پر غلبہ بھی ایک سرمدی حقیقت ہے۔ وہ اس کی تلقین کرتا ہے کہ میللان ظلم کو عشق کی وسعت اور قوت سے شکست دو۔ اس کے بعد اس کفر ور دین کی اعلیٰ ترین صورتوں میں کیا فرق باقی رہ جائے گا۔ فرائڈ اقبال کی طرح علم و عقل کی تحقیر نہیںکرتا کیوں کہ اسے جو کچھ بصیرت حاصل ہوئی وہ علم و عقل کی بدولت حاصل ہوئی ۔ مگر اس کے نزدیک انسان کے علوم نے جو ترقی کی ہے او ر جس سے تہذیب پیدا ہوئی وہ بھی عشق ہی کی قوتوں نے پیدا کی ۔ فرائڈ بھی اقبال کی طرح کہتا ہے کہ علم نے جو سوالات پیداکیے ہیں اس کا جواب مجھے عشق میں ملا ہے اسی نظریے کو اقبال نے اس خوبصورت مصرعے میں پیش کیا ہے کہ :
علم ہے ابن الکتاب عشق ہے ام الکتاب
تمام کتابیں طبیعی علوم کی ہوں یا فنون لطیفہ کی یا مذہبی صحیفے کی۔ سب کا منبع اور ان کی ماں عشق ہے ضرب کلیم میں علم وعشق کے عنوان سے جو نظم ہے وہ اس موضوع پر اقبال کی لاجواب نظمون میں سے ہے۔ اس کو نقل کرنے کے بعد اب اس موضوع پر مزید طو ل بیان تحصیل حاصل ہو گا۔
علم و عشق
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندہ تخمین و ظن کرم کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور علم سراپا حجاب
عشق کی گرمی سے ہے معرکہ کائنات
علم مقام صفات عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال عشق ہے پنہاں جواب
عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنی غلام صاحب تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں! عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں اور یقیں فتح یاب
شرح محبت میں ہے عشرت منزل حرام
شورش طوفان حلال لذت ساحل حرام
عشق پہ بجلی حلال عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب عشق ہے ام الکتاب