اقبال پر تین اعتراضات کا جواب

اقبال پر تین  اعتراضات کا جواب 
علامہ اقبال کے کلام اور پیام کی ایک امتیازی خصوصیت ہے، جو اس سے قبل نہ شعراء میں ملتی ہے اور نہ صوفیہ میں باستثناے چند نظر آتی ہے۔ مسلمان فقہا کی مرتب کردہ فقہ میں بھی یہ پہلو نمایاں نہیں۔ اقبال کی سب سے پہلی شائع شدہ مثنوی اسرار خودی ہے جو بانگ درا کے مجموعے سے بھی پیشتر شائع ہوئی۔ ان کے فلسفیانہ تفکر کا آغاز بھی خودی ہے، وسط بھی خودی اور انجام بھی خودی۔ سوال یہ ہے کہ اقبال نے زندگی کے اس پہلو اور اس نظریے کو مرکزی مقام کیوں دیا اور اسے اپنی تبلیغ کا محور کیوں بنایا؟ اس کے کئی وجودہ تھے۔ ایک یہ کہ اقبال کو نفس انسانی میں ایک زوال ناپذیر اور ابد کوش حقیقت محسوس ہوتی تھی۔ اکثر فلسفیوں اور مذاہب نے تکریم آدم کی بجائے ابطال ہستی انسانی کو عقائد کا محور و مقصود بنا لیا تھا۔ تکریم آدم کی تعلیم مخصوص اسلامی اور قرآنی تعلیم تھی انسان کو قرآن ہی نے نائب الٰہی اور خلیفتہ اللہ، مسخر کائنات اور مسجود ملائکہ قرار دیا تھا۔ اس تعلیم میں انسانی ممکنات حیات کی لامتناہی مضمر تھی اور مقصود حیات ممکن کو موجود بنانا تھا۔ اسی میں لا محدود ارتقاء کا راز پوشیدہ تھا۔ چونکہ انسان کبھی خدا یا ہستی مطلق نہیں بن سکتا اس لیے اس کی ترقی کی رفتار رک نہیں سکتی۔ خواہ وہ کسی عالم میں ہو۔ اس تعلیم کو خود مسلمانوں نے بھی پس پشت ڈال دیا تھا اور زندگی کا مقصود رسمی عبادت کے ذریعے سے جنت کا حصول رہ گیا تھا جو ایک محدود زندگی کے اعمال کا اجر ہے۔ اس کے بعد نہ کوئی عمل ہے، نہ ترقی، نہ آرزو، نہ جستجو، اقبال اس سکونی اور عشرتی تصور کو ایک جامد تصور سمجھتا تھا۔ اس تصور سے اخلاقی زندگی پر بھی اچھا اثر نہیں پڑتا کیونکہ اس نظریے میں اعمال کے نتائج ان کی ماہیت میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ثواب و عذاب اعمال پر خارج سے عائد ہوتے ہیں۔ نیکی آپ اپنا اجر اور بدی آپ اپنی سزا نہیں رہتی اور خیر و شر کے لیے کوئی داخلی معیار بھی قائم نہیں ہو سکتا۔

اقبال نے دیکھا کہ کچھ رہبانی نظریات کی بدولت جو مسلمانوں کی روحانی زندگی کا ایک جزو بن گئے تھے اور کچھ تکریم آدم کی تعلیم سے غافل ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی دینی، اخلاقی، معاشرتی اور سیاسی حالت میں شدید انحطاط پیدا ہو گیا ہے جہاں کہیں اخلاق کی تعلیم ہے وہاں ایجابی پہلو کی نسبت سلبی پہلو غالب ہے۔ تقدیر کا غلط مفہوم انسانوں کو جری ہونے کی بجائے اپاہج بنا دیتا ہے۔ جبر و اختیار کے مسئلے میں مسلمانوں کی تعلیم میں جبر کا عنصر غالب ہو گیا تھا اور انسانی اختیار محض دھوکا رہ گیا تھا۔ لیکن جبر و اختیار اور خودی و بے خودی زندگی کے دو پہلو ہیں: ماہیت حیات کے اندر ان میں کوئی تضاد نہیں یہ تضاد استدلالی منطق کی پیداوار ہے۔ اقبال نے دیکھا کہ دین اور بے دینی دونوں انسان کی خودی کو سوخت کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ مادیت کے فلسفے نے نفس انسانی کی مستقل حیثیت ہی سے انکار کر دیا اور اسے مادی مظاہر میں سے ایک بے ثبات مظہر قرار دیا۔ خدا کے طالبوں کی نظر سے بھی انسان کی حقیقت اوجھل ہو گئی۔ عارفوں نے عرفان نفس کو عرفان الٰہی کا وسیلہ بنایا تھا لیکن اکثر صوفیہ اپنے نفس کو بے حقیقت بنا کر خدا کو تلاش کرنے لگے۔ ہستی مطلق کے تصور اور اس کی تلاش میں انسان کی ہستی گم ہو گئی۔ اقبال نے دیکھا کہ خودی کی موت سے فرد اور ملت دونوں پر موت طاری ہوتی ہے۔ اس لیے اقبال نے خدا پر کم لکھا ہے اور خودی پر بہت زیادہ، کیوں کہ اس کے نزدیک خودی ہی کی استواری سے خدا کے ساتھ رابطہ مستحکم ہوتا ہے۔ خودی کا لفظ ہماری ادبیات میں ایک بدنام لفظ تھا۔ اب یک بیک اس کی ستائش گری سے اکثر مسلمانوں کے اذہان کو ٹھوکر لگی۔ خودی کے قدیم مذموم مفہوم کو دماغوں سے نکالنا آسان نہ تھا اس لیے بعض نقادوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال فرد اور ملت کے لیے ایک بے عنان آزادی اور جارحانہ زندگی کی تلقین کرتا ہے۔ قدیم تعلیم یہ تھی کہ تو خاک ہو کر اکسیر بن سکتا ہے:
نہ مارا آپ کو جو خاک ہو اکسیر بن جاتا
اگر پارے کو اے اکثیر گر مارا تو کیا مارا
(ذوق)
اس لیے عجز اختیار کر، تن بہ تقدیر ہو کر زندگی بسر کی، جو کچھ ہے وہ ازل سے مقرر ہے۔ اقبال نے کہا کہ انسان آپ اپنی تقدیر کو بناتا یا بگاڑتا ہے۔ کافر ہو تو انسان تابع تقدیر ہوتا ہے اور مومن ہو تو وہ خود تقدیر الٰہی بن جاتا ہے۔ مشیت الٰہی یہی ہے کہ انسان بھی خلاق قدرت کی طرح دوسرے درجے پر خالق بننے کی کوشش کرے۔ اقبال نے کہا کہ ہر طرح سے خودی کو استوار کرنے کی کوشش کرو۔ کہیں جلال سے کہیں جمال سے، جدوجہد سے، تسخیر نفس سے، تسخیر فطرت سے۔ خیر و شر کا معیار یہی ہے جو طرز نگاہا ور طریق عمل انسان کی ظاہری اور باطنی قوتوں میں اضافہ کرے وہ خیر ہے، جو ان کو کمزور کرے وہ شر ہے۔
اقبال کو عجمی شاعری، صوفیانہ شاعری اور مسلمانوں کی عام شاعری میں زیادہ تر انفعال ہی نظر آیا اور انفعال کی نسبت اقبال غالب کا ہم نوا تھا جو کہہ گیا تھا کہ انفعال سے زبونی ہمت پیدا ہوتی ہے اور زمانے سے عبرت حاصل کر کے زندگی کے متعلق قنوطی نظر پیدا کر لینا نفس کو کمزور کر دیتا ہے:
ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجئے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
(غالب)
اسلامی روحانیت کی حیات افزا تعلیم یہ تھی کہ آرزوؤں کو فنا نہ کرو بلکہ ان کا مقصود بدل دو، دنیا کو ترک نہ کرو بلکہ دنیا کو دین بناؤ۔ مگر رفتہ رفتہ روحانیت نفس کشی کا نام ہو گیا۔ اسلام نے محنت مزدوری سے رزق حاصل کرنے والے کو محض رسمی عبادت گزار سے افضل قرار دیا تھا اور ’’ الکاسب حبیب اللہ‘‘ کہہ کر محنت کشوں کی ہمت افزائی کی تھی مگر اب اہل ظاہر کے لیے دین ظواہر کی پابندی اور اہل باطن کے لیے دین محض روحانی مشقوں اور اذکار کا نام رہ گیا تھا۔ اقبال نے جب اس نظریہ حیات کے خلاف جہاد کیا تو صوفی بھی اس کے خلاف ہو گئے اور ملا بھی اور دوسری طرف، مادہ پرستوں نے بھی اس کو رجعت پسند سمجھا۔
کسی صاحب کے ایک مضمون کا اقتباس مولانا عبدالسلام ندوی نے اپنی کتاب اقبال کامل میں نظام اخلاق کے باب میں دیا ہے جو کسی کوتاہ فہم نقاد کی تنقید ہے جسے ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
’’ صوفی کہتے ہیں کہ چیونٹی بنو تاکہ لوگ تمہیں پاؤں کے نیچے روند کر زندان ہست و بود سے نجات دلوائیں۔ بھڑ نہ بنو کیوں کہ اگر بھڑ بنو گے تو خواہ مخواہ کسی کو ڈنگ مارو گے اور وہ بے چارہ درد سے چیخنے چلانے لگے گا اور ممکن ہے کہ تم قہر الٰہی کا مستوجب بن جاؤ۔ بھیڑ بنو تاکہ تمہارے بالوں سے لوگ گرم کپڑے بنائیں اور تمہارے گوشت سے اپنا پیٹ بھریں۔ بھیڑیا نہ بنو کہ ناچار کئی جانوروں کو ہلاک کرو گے اور ان کی بد دعائیں لو گے۔ مچھلی بنو تاکہ لوگ تمہیں کھائیں نہنگ نہ بنو جو مچھلیوں کی ہلاکت کے درپے ہوتا ہے۔‘‘
لیکن اس کے برعکس علامہ اقبال کہتے ہیں کہ چیونٹی نہ بنو ورنہ لوگ تجھے رونڈ ڈالیں گے۔ بھڑ بنو اور جو سامنے آئے اسے ڈنک مارو۔ بھیڑ نہ بنو بھیڑیا بنو۔ شبنم کا قطرہ نہ بنو، شیر کا چیتا بنو، سانپ بنو، اژدہا بنو، عقاب بنو، شہباز بنو ، اگر جمادی زندگی پسند ہو تو پتھر بنو تاکہ کسی کا سر توڑ سکو۔ حواین جامے میں رہنا چاہتو تو کسی قسم کا درندہ بنو۔ سست عناصر صوفیوں کی باتیں نہ سنو۔ وہ اپنی جان کے بھی دشمن ہیں اور تمہاری جان کے بھی۔
اس اقتباس کو پڑھ کر ’’ یھدی بہ کثیر و یضل بہ کثیرا‘‘ کی آیت یاد آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کی غلط فہمی کم فہم نقادوں کے ذہن میں کیوں پیدا ہوئی؟اس کی وجہ یہ ہے کہ قوت اندوزی کی تعلیم پر اقبال نے بہت زور دیا ہے۔ زندگی بقاے قوت اور ارتقائے قوت کا نام ہے۔ قوت کی بقا کے لیے مزاحم قوتوں پر غالب آنا لازمی ہے۔ زندگی ہر جگہ خیر و شر کی پیکار ہے یا ادنیٰ حالت سے نکل کر اعلیٰ حالت میں جانے کی کوشش ہے۔ زندگی نہ فکر محض کا نام ہے اور نہ لطیف تاثرات سے لطف اندوزی مقصود حیات ہے اور نہ ہی خدا کے ساتھ لو لگا کر گوشہ نشین ہونے سے نفس انسانی کا ارتقاء ہو سکتا ہے۔ مذہب، تہذیب، تمدن سب مسلسل پیکار کی بدولت پیدا ہوئے ہیں۔ اضداد کا تضاد رفع کر کے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش زندگی کی قوتوں میں نشوونما پیدا کرتی ہے۔ اقبال توسیع مملکت، نفع اندوزی یا غارت گری کے جذبے سے جنگ کرنے کا شدید مخالف ہے۔ وہ نوع انسان کی وحدت کا طالب ہے اور کہتا ہے یہ وحدت محبت کی جہانگیری اور اخوت کی وسعت سے پیدا ہوتی ہے۔ زمانہ حال کی اقتصادی جنگوں، جوع الارض کی جنگوں اور ضعیف اقوام کو مغلوب کرنے کی جگنوں کے خلاف اقبال نے جا بجا نفرت کا اظہار کیا ہے۔ اسلام صلح جوئی کا نام ہے مگر صلح جوئی شدید مجاہدانہ جدوجہد کی طالب ہے۔
ایک خط کے جواب میں اقبال نے اپنا نظریہ جنگ بہت صفائی سے واضح کیا ہے (اقبال نامہ صفحہ ۲۰۳) اس کو پڑھنے کے بعد کوئی شخص اقبال کو مسولینی اور ہٹلر کا ہم نوا نہیں سمجھ سکتا۔
معترض کا یہ کہنا کہ اقبال اس دور ترقی میں جنگ کا حامی ہے غلط ہے۔ ’’ میں جنگ کا حامی نہیں ہوں او رنہ کوئی مسلمان شریعت کے حدود معینہ کے ہوتے ہوئے جنگ کا حامی ہو سکتا ہے۔ قرآن کی تعلیم کی رو سے جنگ یا جہاد سیفی کی صرف دو صورتیں ہیں، محافظانہ اور مصلحانہ پہلی صورت میں یعنی اس وقت میں جب کہ مسلمانوں پر ظلم کیا جائے اور ان کو گھروں سے نکالا جائے، مسلمانوں کو تلوار اٹھانے کی اجازت ہے (نہ حکم) اور دوسری صورت جس میں قتال کا حکم ہے آیات ۴۹:۹ میں بیان ہوئی ہے۔ ان آیات کو غور سے پڑھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ چیز جس کو سیموئل ہور جمعیت اقوام کے اجلاس میں اجتماعی سلامتی کہتا ہے قرآن نے اس کا اصول کس سادگی اور فصاحت سے بیان کیا ہے۔ جنگ کی مذکورہ بالا دو صورتوں کے سوا میں اور کسی جنگ کو نہیں جانتا (جسے اسلام نے جائز سمجھا ہو) جوع الارض کی تسکین کے لیے جنگ کرنا دین اسلام میں حرام ہے۔ علیٰ ہذا القیاس دین کی اشاعت کے لیے تلوار اٹھانا بھی حرام ہے۔ جنگ ایک ناخوش آئند، زندگی کی مجبوری ہے۔ تشدد کے بغیر تو کوئی جنگ نہیں ہو سکتی، لیکن اسلام نے ایسی صورتوں میں بھی تاکید کی ہے کہ عدل اور رحم کو فراموش نہ کرو۔ جنگ اسلام کے نزدیک امراض اقوام کے لیے ایک عمل جراحی ہے، الم آفرینی اس کا مقصود نہیں۔ قرآن جہاد کی تعلیم کے ساتھ ساتھ نرمی کی تلقین کرتا ہے۔ کسی قوم کے خلاف جنگ کرتے ہوئے بھی محاربین کے سوا اور کسی پر تلوار نہ اٹھاؤ، بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو کوئی ضرر نہ پہنچے، مذہبی پیشواؤں کو کچھ نہ کہو، دیگر مذاہب کے معبدوں کو محفوظ رکھو، دشمن کی فصلوں کو مت جلاؤ ایسا نہ ہو کہ صلح کے بعد خلق خدا بھوکی مرنے لگے۔‘‘
عصر حاضر میں مسلمانوں میں ہر قسم کی جدوجہت غائب ہو گئی تھی۔ امیر ہو یا غریب کوئی حال مست، کوئی قال مست، کوئی مال مست، اور کثیر گروہ مصائب کا مقابلہ کرنے کی بجائے آفات ارضی و سماوی اور دستبرد حکام ظلام کو مشیت الٰہی سمجھ کر صابر یا آسودہ رسوائی۔ ایسی حالت میں سلبی اور انفعالی اخلاق کی بجائے ایجابی اور فعالی اخلاق کی ضرورت تھی۔ اقبال نے اس ضرورت کو بڑی شدت سے محسوس کیا اور بڑے زور و شور سے ایجابی نفسیات و اخلاقیات کی تلقین کی۔ اخلاق کا انفعالی پہلو اگر خاص حدود کے اندر رہے اور حیات فعال کے ساتھ اپنا توازن قائم رکھے تو اس سے بھی زندگی میں خصائل محمودہ پیدا ہوتے ہیں۔ توکل، قناعت، تواضع، خاکساری، عفو و در گذر، تسلیم و رضا، حلم، بردباری یہ بھی اخلاقی زندگی کے لیے لازمی اور پاکیزہ عناصر ہیں۔ لیکن افراد اور اقوام کی خاص حالتوں میں ان کے مقابلے میں ایجادبی اخلاقیات کی تلقین ضروری ہو جاتی ہے جیسا کہ سعدی نے کہا ہے کہ تواضح اچھی چیز ہے مگر عاجزوں کے مقابلے میں گردن کشوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے:
تواضع ز گردن فرازان نکوست
گدا گر تواضع کند خوے اوست
چپ چاپ ظلم سہنے والا ہی ظالم کو ظالم بناتا ہے۔ دنیا میں اگر کوئی مظلوم بننے پر تیار نہ ہو تو ظالموں کا وجود بھی نہ رہے۔ ہماری قوم میں لوگ اپنے مظلوم ہونے اور بدطینت امرا یا حکام کے ظالم ہونے کی شکایت کرتے رہتے ہیں لیکن یہ عام شکایت لوگوں کو ظالموں کے خلاف جہاد کرنے پر آمادہ نہیں کرتی۔ یہ خودی کے ضعف کا نتیجہ ہے اگر مظلوموں کی خودی بیدار اور آمادہ بہ ایثار ہو جائے توچشم زدن میں ظلم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اقبال مغلوب و مظلوم و مفتوح و مایوس کو خود داری کا پیغام دیتا ہے جو افراد کے اخلاقی ضعف اور تمام امراض ملی کا علاج ہے۔ ایسی حالت میں مسکینی کی تلقین مرض میں اور اضافہ کر دے گی۔ اقبال مسلمانوں کو کہتا ہے کہ فطرت کی قوتوں کی تسخیر سے اسباب حیات میں فراوانی پیدا کرو۔ حدیث شریف میں ہے کہ منعم محتاج سے افضل ہے اور اوپر والا ہاتھ یعنی دینے والا لینے والے کے ہاتھ سے اشرف ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے لیے او راپنی امت کے لیے محتاجی سے پناہ مانگی ہے اور فرمایا ہے کہ محتاجی انسان کو کفر سے بہت زیادہ قریب لے آتی ہے۔ قرآن پوچھتا ہے کہ خدا کی نعمتوں اور آرائشوں کو نے حرام کیا ہے۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ زمین کے نہاں خانوں میں سے رزق نکالنے کی کوشش کرو۔ اہل فرنگ کی یہ ہمت کی تو اس کی بدولت وہاں ہماری طرح کے بھوکے اور ننگے ناپید ہو گئے۔ بہت سی بیماریاں ناپید ہو گئیں۔ ہمارے ہاں کے سست عناصر مذہبی پیشوا اس کو محض مادی ترقی کہہ کر ٹال دیتے ہیں اور اپنے آپ کو روحانیت اور نجات کا اجارہ دار سمجھتے ہیں۔ خدا نے آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کو سنوارنے کی تلقین کی کیوں کہ انسان آخر اس دنیا میں رہتا ہے۔ ایک مادی جسم رکھتا ہے اور مادی ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے۔ انسان خالی روح کا نام نہیں جو جسم اور عالم سے بے تعلق ہو کر بھی تزکیہ اور قوت پیدا کر سکے۔ مسلمانوں میں غیر اسلامی راہبانہ تصوف کا ایسا غلبہ ہوا کہ جدوجہد غائب ہو کر خالی انفعال رہ گیا اور اس عقیدے کی تعلیم دل نشین بن گئی کہ احتیاج دولتمندی سے اور بھوک پیٹ بھر کر کھانے سے بہتر ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ بھوکے سے نہ عبادت ہو سکتی ہے اور نہ خدمت خلق:
خداوند روزی بحق مشتغل
پرا گندہ روزی پرا گندہ دل
٭٭٭
شب چو عقد نماز بر بندم
چہ خورد بدامداد فرزندم
(سعدی)
خدا نے مومن کی معراج ’’ لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون‘‘ بتائی تھی کہ مومن اپنے کمال میں خوف اور غم سے پاک ہو جاتا ہے، لیکن ہمارے ہا ں غم کی مدح سرائی سے تمام شاعری بھر گئی اور اردو شاعری کے کمال میں مرثیہ پیدا ہوا۔ اکثر شاعروں کا تغزل بھی اپنی اپنی زندگی کا مرثیہ ہی ہے۔ غم روزگار نہیں تو غم عشق ہی سہی۔ تمام زندگی غم کدہ بن گئی۔ ایسے ماتم کدوں میں خودی کا کیا احساس باقی رہ سکتا ہے؟ ہماری شاعری میںاقبال سے قبل زیادہ تر یا غم ہے یا غلامی، خواہ امراء کی غلامی ہو اور خواہ ہوس کی غلامی۔ اور عشق ہیں کہ ’’ آوارہ و مجنونے رسوا سر بازارے‘‘ ہونا قابل فخر سمجھ رہے ہیں۔ کوئی مصلح جو احیاے ملت کا خواہاں ہو اس کے لیے لازم ہو گیا کہ اس تمام حیات کش میلان کے خلاف شدید رد عمل پیدا کرے۔ اسی رد عمل نے اقبال کو خودی کا مبلغ بنا دیا۔ اس کی خودی میں نہ تکبر ہے اور نہ نخوت اور نہ ہی وہ محبت کے منافی ہے۔ اقبال کے ہاں خودی زندگی کا سرچشمہ ہے اور اس کی ماہیت وہ عشق ہے جو انسان کو رسوا نہیں کرتا بلکہ خود دار بناتا ہے اور اپنے نور و نار سے تمام زندگی کو حرارت اور فروغ بخشتا ہے۔ اقبال زندگی کی ہمہ سمتی جدوجہد کے لیے قوت کا طالب ہے مگر اس جدوجہد کا مقصود عشق کی فراوانی ہے۔ عجمی شاعری کا اثر اردو شاعری پر پڑا تو اس میں بھی وہی غلامانہ اور قنوطی تصورات پیدا ہو گئے، اسی لیے اقبال اس سے گریز کی تلقین کرتا ہے:
تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم
اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے
مولانا شبلی نے شعر العجم کی چوتھی جلد میں لکھا ہے:’’ عرب میں قوم کی باگ شعراء کے ہاتھ میں تھی وہ قوم کو جدھر چاہتے تھے جھونک دیتے تھے، جدھر سے چاہتے تھے روک لیتے تھے۔ افسوس ہے کہ ایران نے کبھی یہ خواب نہیں دیکھا۔ یہاں شعراء ابتدا سے غلامی میں پلے اور ہمیشہ غلام رہے۔ وہ اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے پیدا ہوئے تھے۔‘‘
اقبال نے فارسی اور اردو شاعری کا رخ بدل دیا اور اس سے وہی کام لیا جو عربی شاعر لیا کرتے تھے۔ اسی لیے وہ کہتا ہے کہ نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری۔
ایک دوسرا اعتراض اقبال پر یہ کیا گیا ہے کہ اس کا پیغام تمام بنی نوع انسان کے لیے نہیں بلکہ محض ملت اسلامیہ تک محدود ہے۔ کہ وہ مغربی قومیت پر معترض ہے لیکن خود بھی ملت پرست ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اسلامی قومیت کوجغرافیائی، لسانی اور نسلی حدود و قیود میں مقید کرنا نہیں چاہتا۔ وہ دوسروں کو برطرف کر کے فقط اپنی قوم کو ابھارنا چاہتا ہے۔ بعض ہندوؤں اور بعض فرنگیوں نے اس پر یہی اعتراض کیا، لیکن یہ اعتراض بھی کوتاہ بینی پر مبنی ہے۔ اقبال تو خیر ایک مفکر اور صاحب بصیرت شاعر ہی ہے، اگر کوئی نبی بھی ہو تو اس کی براہ راست اور اولین مخاطب اس کی اپنی قوم ہی ہوتی ہے۔ وہ اپنی قوم کی اصلاح کو فرض اولین اس لیے قرار دیتا ہے کہ اس قسم سے اس کا گہرا نفسی رابطہ ہوتا ہے۔ وہ اس کے مزاج کو خوب سمجھتا ہے، اس کے جذبات سے آشنا ہوتا ہے، اس کے امراض کا داخلی علم رکھتا ہے۔ اس لیے ان کی حکیمانہ تشخیص کر کے ان کا محبوب علاج تجویز کر سکتا ہے۔ وہ ایک گروہ کو صالح بنا کر تمام انسانوں کے لیے اس کو نمونہ بنانے میں کوشاں ہوتا ہے۔ جو مصلح مسلمانوں کی جماعت میں پیدا ہوا ہے۔ اس کا فطری وظیفہ یہی ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ مسلمانوں کی زندگی کو صالح بنانے کی کوشش کرے۔ ’’ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘ فقط کہنے کی بات ہے ورنہ انسانی فطرت یہ ہے کہ ان افراد سے انسان کو جتنا قرب ہوتا ہے اسی نسبت سے اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ ہوتا ہے۔ ہر مصلح کی مخاطب پہلے اس کی اپنی قوم ہوتی ہے لیکن اس کی اصلاح میں عالمگیر عناصر ہوتے ہیں جو زمان و مکان اور حدود ملل سے ماوریٰ ہوتے ہیں۔ سقراط کو اخلاقی حکمت کا نبی کہتے ہیں مگر وہ ایشیا کا شہری تھا اس لیے تمام عمر اپنے شہر والوں کی عقلی اور اخلاقی اصلاح میں کوشاں رہا لیکن اصلاح کے جو اصول بیان کرتا تھا وہ انسان کی عام نفسیات پر حاوی تھے، اسی لیے آج تک فلسفہ اخلاق میں تمام دنیا اس کو امام سمجھتی ہے۔ وہ ایشیا سے باہر جانا نہ چاہتا تھا۔ جب خود غرض اقتدار پسندوں نے عوام کو بھڑکا کر اس کے لیے موت کا فتویٰ صدر کیا تو اس کے معتقدوں نے اس کو زندان سے بھاگ جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہم نے انتظام کر لیا ہے کہ تم بے روک ٹوک کسی اور شہر میں جا سکو گے۔ اس نے فرار سے انکار کر دیا کہ میرا مشن اپنے شہر والوں سے وابستہ تھا میں غیر اقوام میں رہ کر کیا کروں گا؟ یہی حال اقبال کی تعلیم کا ہے وہ توحید اور عشق اور خودی کی تعلیم اپنی قوم کو دیتا ہے اور اسے اپنے دین کی فراموش شدہ حقیقت یاد دلاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ یہ قوم اصلاح یافتہ ہو کر تمام نوع انسان کو توحید اور عالمگیر اخوت کا سبق دے۔ وہ اپنی قوم کو دوسری اقوام کے خلاف ابھرتا نہیں، نہ ہی دوسروں سے نفرت برتنے کو کہتا ہے۔ وہ در حقیقت ایک نظریہ حیات کا مبلغ ہے۔ جو قوم اس پر جتنی کاربند ہے اتنا ہی وہ اسے اسلام سے قریب سمجھتا ہے۔ ایسے شخص کو کسی تنگ معنوں میں ملت پرست نہیں کہہ سکتے۔ جس ملت کے وہ راگ الاپتا ہے، وہ اس کو اس وقت تو کہیں نظر نہیں آتی۔ وہ نوع انسان کے لیے ایک نصبا لعین پیش کرتا ہے اور مسلمانوں سے توقع رکھتا ہے کہ آئندہ وہ اس کو اپنا لائحہ عمل بنا کر دنیا کے سامنے انسانیت کا اچھا نمونہ پیش کریں تاکہ اخوت و محبت کو عالمگیر بنا دیں۔ محض اسلام کے نام لیواؤں کی ملت اس کے نزدیک وہ نصب العینی ملت نہیں۔ اسلام ایک زاویہ نگاہ ہے جس میں بھی وہ پیدا ہو جائے وہ مسلم ہے۔ ملتوں میں تفریق محض نظریہ حیات سے پیدا ہو سکتی ہے باقی تمام تفریقیں یوں ہی تفرقہ ہیں۔
تیسرا اعتراض اقبال کے کلام پر یہ کیا گیا ہے کہ اس کے اندر ہم آہنگی نہیں۔ زندگی کے اہم مسائل میں دو یا اس سے زیادہ باہم متخالف پہلوؤں میں سے ہر پہلو کی حمایت میں اقبال کے کلام کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس قسم کا اعتراض ہر بڑے مفکر کی نسبت ہو سکتا ہے۔ جس کے نظریات حیات میں مزید غور و فکر یا نئے حالات نے وقتاً فوقتاً تبدیلی پیدا کی ہو۔ وطن پرستی پر ولولہ انگیز نظمیں اقبال کے ابتدائی کلام میں موجود ہیں۔ لیکن وسعت فکر اور ترقی عرفان نے بعد میں اقبال کو اس کا شدید مخالف بنا دیا۔ یہ تو کوئی خوبی کی بات نہیں کہ انسان کے افکار میں تغیر اور ترقی دکھائی نہ دے۔ اس کے علاوہ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اقبال نبی نہیں ہے بلکہ ایک بلند پایہ شاعر ہے اور شاعر کی طبیعت میں جس وقت جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ اس کو موثر انداز میں پیش کر دیتا ہے، لیکن تاثرات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ انسان پر کبھی غم طاری ہوتا ہے اور کبھی مسرت موجزن ہوتی ہے۔ کبھی یاس کا اندھیرا ہوتا ہے اور کبھی آس کی روشنی۔ ایک بلند پایہ شاعر یا وسیع النظر مفکر میں یہ امتیازی خصوصیت پائی جاتی ہے کہ زندگی کا کوئی پہلو اس سے اوجھل نہیں ہوتا۔ اقبال نے جن اہم مسائل حیات کو اپنا موضوع سخن بنایا کم نظر لوگ ان کے متعلق تعصب اور طرف داری سے کام لیتے ہیں۔ یہ جاہلوں کا شیوہ ہے کہ ان کے رد و قبول میں کوئی درمیانی راستہ نہیں ہوتا۔ اقبال سے یہ توقع کرنا بے جا ہے کہ وہ کسی ایک مشرب کی موافقت اور دوسرے مشرب کی مخالفت میں ایسا غلو کرے کہ ایک طرف سفیدی ہی سفیدی نظر آئے اور دوسری طرف سیاہی ہی سیاہی۔ اقبال وطن سے محبت رکھتا ہے جو ایک فطری چیز ہے لیکن وطن پرستی کا مخالف ہے۔ وہ عشق کا ثنا خواں ہے لیکن عقل کا دشمن نہیں۔ وہ اسلام اک راسخ العقیدہ معتقد ہے لیکن ملت اسلامیہ سے باہر خدا کے موحد اور نیک بندوں کو کافر نہیں سمجھتا۔ وہ شریعت اسلامیہ کے اساسی حقائق کو حقائق ازلی سمجھتا ہے لیکن فقط ظواہر کی پابندی کو اسلام نہیں سمجھتا۔ وہ شریعت کا حامی ہے لیکن اس کے نزدیک اکثر مدعیان حمایت شریعت روح دین سے بیگانہ ہیں۔ وہ ایک نصب العینی جمہوریت کا حامی ہے لیکن اس کی موجودہ صورتوں کو ابلہ فریبی تصور کرتا ہے۔ وہ اشتراکیت کے بہت سے کارناموں کا مداح ہے لیکن اس کے ساتھ جو الحاد اور مادیت وابستہ ہے، اس کا شدید مخالف ہے وہ کورانہ تقلید کو خود کشی کے مرادف خیال کرتا ہے اور بڑی شدت سے تحقیق کی تلقین کرتا ہے لیکن قوم کی موجودہ حالت میں اس کو اچھے اجتہاد کی صلاحیت دکھائی نہیں دیتی تو مشورہ دیتا ہے کہ ایسی حالت میں بے بصر مجتہدوں کے اجتہاد سے یہی بہتر ہے کہ مسلمان ائمہ قدیم ہی کی تقلید کریں۔ وہ صلح جو انسان ہے لیکن پست بینی اور رسوائی میں آسودہ رہنے کا قائل نہیں۔ وہ رزم میں گرمی اور بزم میں نرمی دونوں کی تلقین کرتا ہے۔ انسانی زندگی کے ارتقاء کے لیے خلوت و جلوت دونوں کی ضرورت ہے اس لیے وہ کبھی تنہائی سے لطف اٹھاتا ہے اور کبھی انجمن آرائی سے وہ خودی اور بے خودی دونوں کا مبلغ ہے وہ ان کے ظاہری تضاد کو رفع کر کے ان میں توازن پیدا کرنا چاہتا ہے لیکن جب وہ ایک پہلو کو نمایاں کرنا چاہتا ہے تو دوسرا پہلو اس وقت پس پشت اور نظر سے اوجھل رہتا ہے۔ اقبال جیسے وسیع النظر، وسیع التجربہ اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو دیکھنے اور ان کا حق ادا کرنے والے شاعر کے کلام کا بھی وہی حال ہے جو مذہبی صحیفوں کا ہے ایک ہی مذہبی صحیفے میں سے فرقہ ساز اور تفرقہ انداز ہفتاد و دو ملت پیدا کر لیتے ہیں اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ کسی ایک جزو کو لے کر کل بنا دیتے ہیں اور اس کو دوسرے اجزاء کے ساتھ ملا کر کوئی متوازن رائے قائم نہیں کرتے۔ انگریزی زبان میں ایک مقولہ ہے کہ شیطان بھی اپنی حمایت میں مذہبی صحیفے کی کچھ آیات پیش کر سکتا ہے۔ زندگی میں جبر و اختیار دونوں موجود ہیں لیکن فقط ایک طرف دیکھنے والے یا جبری ہو جاتے ہیں یا قدری اور اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ’’ الایمان بین الجبر والاختیار‘‘ اگر اقبال کے کلام کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے اور ایک حصے کو دوسرے حصے کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو بظاہر نظر آنے والا تضاد رفع ہو جائے۔ یہ اقبال کے کلام اور اس کے انداز فکر کی خوبی اور وسعت ہے کہ اس میں یک طرفگی نہیں۔ انسانی زندگی کے خواہ وہ انفرادی ہو اور خواہ اجتماعی، کئی پہلو ہوتے ہیں۔ اقبال نے خود اپنی بابت کہا ہے کہ میں ایک ترشا ہوا ہیرا ہوں جس کے مختلف پہلوؤں میں شعائیں مختلف انداز سے منعکس ہوتی ہیں۔ ایک روز علامہ مجھ سے فرمانے لگے کہ ذہنی لحاظ سے ایک شخص پر اس وقت موت طاری ہوتی ہے جب نئے افکار کو قبول کرنے کی صلاحیت اس میں نہ رہے۔
آج کل اکثر تحریروں اور تقریروں میں اقبال کے کلام کے حوالے نظر آتے ہیں لیکن کہنے والا اپنی حمایت میں کچھ اشعار چن لیتا ہے اور اقبال کو اپنا ہم نوا بنا لیتا ہے:
متفق گردید راے بو علی با راے من
اقبال میں بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے وہ یا ارتقائے فکر کا نتیجہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف عبور کر گیا ہے، جس طرح انسان طفولیت سے شباب اور شباب سے شیب کی جانب بڑھتا ہے۔ علامہ خود فرماتے ہیں کہ میں تشکیک اور تفلسف کی ظلمات میں سے ہوتا ہوا ایمان و یقین کے آب حیات تک پہنچا ہوں۔ اسے تضاد نہیں کہہ سکتے، یہ ارتقاء کوش زندگی ہے۔ اقبال نے زندگی کے کسی پہلو کو چھوڑا نہیں اس لیے ہر شخص کے لیے یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اپنے مطلب کی باتیں اس سے اخذ کر کے دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز کردے۔ مثلاً تصوف کوئی ایک ہی چیز نہیں ہے۔ جس کی وہ بیک وقت موافقت بھی کر رہا ہو اور مخالفت بھی۔
حیات و کائنات میں گوناگوئی اور کثرت بھی ہے لیکن اس تنوع کی تہ میں وحدت بھ پائی جاتی ہے ۔ بظاہر مظاہر میں تضاد نظر آتا ہے لیکن علم و بصیرت کے مسلسل اضافے سے وحدت پنہاں کا انکشاف ہوتا رہتا ہے۔ جس شخص کا کلام حیات و کائنات کے حقائق کا مظہر ہو اس کے سطحی اور سرسری مطالعے سے جا بجا تضاد بیانی کا شبہ پیدا ہو گا لیکن صحیح جائزہ لینے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی وسیع الفکر انسان کے افکار اور نظریات پر ایک ہمہ گیر نظر ڈالی جائے۔ جوں جوں اقبال کے افکار میں پختگی پیدا ہوتی گئی ویسے ویسے وحدت فکر نمایاں ہوتی گئی۔ کسی شاعر نے اپنے متعلق یہ دعویٰ کیا ہے:
من نہ آنم کہ دو صد مصرع رنگین گویم
مثل فرہاد یکے گویم و شیریں گویم

لیکن اس سے بہتر دعویٰ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک قادر الکلام شاعر دو صد مصرع رنگین کہے لیکن اس تمام بو قلمونی میں وحدت فکر، وحدت نظر اور تاثر ناپید نہ ہو۔ اقبال کی متضاد بیانی پر جو اعتراض بعض سطحی مطالعہ کرنے والوں کو سوجھتا ہے اس کے بالکل برعکس ایک دوسرا گروہ اس پر یہ اعتراض کرتا ہے کہ حضرت اقبال اپنی شاعری کے آخری اور تبلیغی دور میں فقط ایک ہی راگ الاپتے ہیں۔ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس کا محور ان کا نظریہ خودی یا نظریہ عشق ہی ہوتا ہے جس کے ساتھ احیاء سے ملت کا جذبہ موجود رہتا ہے۔ اس خیال میں بہت کچھ حقیقت ہے لیکن بطور اعتراض ایسی تنقید وہی لوگ کرتے ہیں جن کے نزدیک شاعر کو علی الاطلاق ہمیشہ ایک فنکار ہی رہنا چاہیے جو آخر تک نہ کسی پختہ یقین اور زاویہ نگاہ تک پہنچے اور نہ اس کی تبلیغ کو اپنا فرض جانے۔ ہمارے نزدیک یہ ایک نامعقول تقاضا ہے۔