علامہ اقبال کی صحبت میں
محمد حسین عرشی
جس طرح مرشد روم1؎ نے جاوید نامہ 2؎ کے ’’ زندہ رود*‘‘ کو عالم افلاک و ماورائے افلاک کی سیر کرائی اسی طرح انہوں نے مجھ کو ’’ زندہ دود‘‘ کی لاہوتی مجلس میں پہنچایا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جاوید نامہ اور بال جبریل کے مطالعہ نے مجھے مجبور کر دیا کہ مثنوی رومی کو باقاعدہ بہ نظر تعمق دیکھوں۔ تقریباً18دن میں میں نے نصف سے زیادہ مثنوی اس طرح دیکھ ڈالی کہ ایک شعر سے بھی سرسری عبور نہیں کیا۔ ہر لفظ پر غور کرتا اور ہر ترکیب سے لذت یاب ہوتا ہوا گذر گیا، لیکن اس دوران میں بہت سے مقام ایسے آئے، جہاں میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا اور ایک رفیق راہ کی طلب میں بے چین ہو جاتا۔ بعض اوقات پیر روم خود فرما دیتے:
یار باید راہ را تنہا مرو
از سر خود اندریں صحرا مرو
کے تراشد تیغ دستہ خویش را
رو بجر احے سپار ایں ریش را
وغیرہ
*علامہ کا نام ہے جو جاوید نامہ کی سیر سماوی میں رکھا گیا۔
ایسی حالت میں، میں نے اپنے گرد و پیش نگاہ ڈالی، تو مجھے علامہ مرحوم کے سوا کوئی ایسا شخص نظر نہ آیا جو راہ کے نشیب و فراز سے آگاہ کرتا۔ چنانچہ میں نے امرت سر پہنچ کر پہلا کام یہ کیا کہ علامہ مرحوم کو ایک مکتوب کے ذریعے اپنے مافی الضمیر اور اپنی مشکلات سے آگاہ کیا۔ علامہ نے حسب عادت بہت جلدی تسلی بخش جواب دیا، جسے ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
لاہور19مارچ1935ء
جناب عرشی صاحب!
السلام علیکم۔ آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ میری صحت عامہ تو بہت بہتر ہو گئی ہے، مگر آواز پر ابھی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ علاج برقی ایک سال تک جاری رہے گا۔ دو ماہ کے وقفے کے بعد پھر بھوپال جانا ہو گا۔
آپ اسلام اور اس کے حقائق کے لذت آشنا ہیں۔ مثنوی رومی (رحمتہ اللہ علیہ) کے پڑھنے سے اگر قلب میں گرمی شوق پیدا ہو جائے تو اور کیا چاہیے؟ شوق خود مرشد ہے۔ میں ایک مدت سے مطالعہ کتب ترک کر چکا ہوں، اگر کبھی کچھ پڑھتا ہوں تو صرف قرآن یا مثنوی رومی۔ افسوس ہے، ہم اچھے زمانے میں پیدا نہ ہوئے:
کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحب سرور نہیں
بہرحال قرآن اور مثنوی کا مطالعہ جاری رکھیے۔ مجھ سے بھی کبھی کبھی ملتے رہیے، اس واسطے نہیں کہ میں آپ کو کچھ سکھا سکتا ہوں، بلکہ اس واسطے کہ ایک ہی قسم کا شوق رکھنے والوں کی صحبت بعض دفعہ ایسے نتائج پیدا کر جاتی ہے، جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتے۔ یہ بات زندگی کے پوشیدہ اسرار میں سے ہے،3؎ جن کو جاننے والے مسلمانان ہند کی بدنصیبی سے اب اس ملک میں پیدا نہیں ہوتے۔ زیادہ کیا عرض کروں؟
محمد اقبال
اس کے بعد میں برابر حاضر خدمت ہوتا رہا۔ میرے ان کے مکالمات کا غالب حصہ باریک روحانی، متصوفانہ 4؎ اور قرآنی مسائل سے متعلق ہوتا۔ میں عموماً سوالات کی ایک فہرست تیار کر کے لے جاتا۔ آپ ہر سوال کے جواب میں کافی گفتگو فرماتے۔ جب تک میری تسلی نہ ہو جاتی، یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس ضمن میں بہت سے نکات و اسرار میرے سوال و طلب سے بھی زائد آپ کی زبان پر آ جاتے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر ان کی زبان سے نکلے ہوئے تمام کلمات جمع کئے جا سکتے، تو ہر روز ایک مبسوط کتاب بن جایا کرتی، جو بہت سے دینی، سیاسی، تاریخی، اخلاقی، حکمی وغیرہ مباحث کا بے نظیر ذخیرہ ہوتی، لیکن اس باب میں، میں نے خود ناقابل تلافی تساہل سے کام لیا کہ اس دولت کو محفوظ نہ رکھا، جس سے میرے قلب و روح کی جیب معمور ہوتی تھی اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس خزانہ عشق و عرفان کے دروازے اتنی جلدی بند ہو جائیں گے۔ بہرحال اس سونے دماغ میں جو کچھ بچ رہا ہے، بغیر کسی نظم و ترتیب کے قرطاس و قلم کے سپرد کرتا ہوں کہ مرور وقت کی غارت گری سے محفوظ رہ سکے:
عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری
فروغ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
(اقبال)
ایک دفعہ مجھے لاہور کے احباب کی ایک مجلس میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا۔ صاحب خانہ سے رخصت چاہی تو انہوں نے کچھ دیر اور بیٹھنے کے لیے اصرار کیا۔ میں نے کہا، علامہ اقبال کی خدمت میں حاضری میرے پروگرام کا اہم جزو ہے، اس وقت میں یہی ارادہ رکھتا ہوں۔ اس پر حاضرین نے علامہ کے جمود و تعطل پر متعصبانہ اعتراض شروع کر دیے۔ میں اپنے ارادے پر مصر رہا۔ آخر ان میں سے ایک بزرگ، محترم حکیم طالب علی صاحب جو اس سے پہلے علامہ سے متعارف نہیں تھے، میرے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے۔ وہاں پہنچنے پر علی بخش نے میرے حاضر ہونے کی اطلاع دی۔ میں حکیم صاحب موصوف کی معیت میں اندر پہنچا، تو تنہا بیٹھے تھے۔ خیریت پرسی کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔ حکیم طالب علی صاحب نے سورۂ النجم 5؎ کے پہلے رکوع کی تشریح دریافت کی۔ علامہ نے اس پر ایک طویل تقریر فرمائی۔ بالخصوص کان قاب قوسین او ادنیٰ کی تفسیر اپنے رنگ میں عجیب و نادر چیز تھی۔ ان سطور کے ناظرین کو معلوم ہونا چاہیے کہ آیات مذکورہ قرآن مجید کے مشکل ترین مقامات سے ہیں۔ یہاں بڑے بڑے آئمہ مفسرین نہایت دروازہ کار تاویلوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں، یہاں تک کہ ایک غیر مسلم یورپین مترجم قرآن نے اس مقام کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور شخص کی تصنیف قرار دے دیا۔ علامہ کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ ناسوت و لاہوت یا عقل و وحی یا عالم بشریت و عرش الوہیت کو دو کمان نما دائروں سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ بشری عقل کا منتہائے کمال یہ ہے کہ وحی سماوی سے کامل مطابقت حاصل کرے، یعنی اس ترقی یافتہ عقل کے رباب سے بعض خاص اوقات میں جو نغمہ نکلتا ہے، وہ ساز الہام سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اس طرح یہ دو کمان کامل اتصال کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ نوع انسان میں انبیاء ؑ بالعموم اور انبیاء میں حضرت خاتم النبیینؐ بالخصوص اس مقام کے آخری نقطہ سے واصل ہوئے۔ اس کے بعد علامہ نے فرمایا کہ اس تقریر سے یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ قرآن (معاذ اللہ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف ہے۔ وحی الٰہی میں فہم بشریٰ کا قطعاً دخل نہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھو کہ جرمنی میں ہمارے ایک پروفیسر علم ریاضی کے بہت زیادہ مشاق تھے۔ بعض اوقات طلبہ ان سے نہایت مشکل سوال کر بیٹھتے۔ آپ فوراً جواب بتا دیتے۔ طلباء تشریح پوچھتے، تو کہتے، اس کے لیے دو ہفتہ کی مہلت درکار ہے۔ ان کے نزدیک جواب دینا آسان تھا، لیکن اس کا عمل سمجھانا دیر طلب تھا، اسی طرح عقل و وحی کا تطابق ہر فن کے اہل کمال میں پایا جاتا ہے۔
میں نے عرض کیا میرے خیال میں سرمد6؎ نے ایک شعر میں معراج کی جو حقیقت بیان کر دی ہے بڑے بڑے علماء کی مبسوط تصانیف اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ فرماتے ہیں:
ملا گوید احمد بہ فلک برشد
سرمد گوید فلک باحمد درشد
علامہ نے فرمایا، یہ شعر رومی کے ایک شعر سے مستفاد ہے، جس کا واقعہ مثنوی میں اس طرح بیان ہو اہے:
’’ کہ حلیمہ سعدیہ جب آنحضرتؐ کی رضاعت سے فارغ ہوئیں، تو آپ کو لے کر عازم مکہ ہوئیں۔ حرم میں پہنچیں، تو ایک غیبی آواز سنی کہ اے حطیم! آج تجھے بے اندازہ شرف حاصل ہونے والا ہے۔ الخ۔ حلیمہ اس آواز کی طرف متوجہ ہوئیں، حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کو زمین پر بٹھا دیا اور صاحب آواز کا سراغ لگانے کے لیے ادھر ادھر دوڑنے لگیں۔ جب کامیاب نہ ہوئیں، تو واپس آ کر (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کو نہ پایا، سخت متحیر و مغموم ہوئیں۔ اتنے میں ایک پیر مرد نمودار ہوا۔ اس نے پوچھا اے حلیمہ! اس فریاد و ماتم کا سبب کیا ہے؟ جواب دیا: میں احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دودھ ماں ہوں۔ حطیم میں پہنچ کر میں ہوائی آوازوں کی تلاش میں بچے کو زمین پر بٹھا کر ادھر ادھر پھرنے لگی۔ آواز ختم نہ ہوتی اور آواز دینے والا نظر نہ آتا تھا۔ میں اسی عالم حیرت میں واپس آئی، تو بچے کو اس مقام پر نہ دیکھا۔ پیر مرد نے کہا: غم نہ کر! میں تجھے ایسے سلطان تک پہنچا دوں گا، جو تجھے بچے کے حال و مقام سے آگاہ کر دے گا ۔ یہ کہہ کر وہ پیر، حلیمہ کو عزیٰ کے پاس لے گیا کہ یہ بت اخبار غیبی کا ماہر ہے۔ ہم نے ہزاروں گم شدہ اس سے حاصل کیے ہیں۔ پیر مرد نے عزیٰ کو سجدہ کیا اور اس کی ثناء کے بعد مناجات شروع کی کہ حلیمہ سعدیہ کا بچہ گم ہو گیا ہے۔ اس بچے کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ جب اس کے منہ سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلا تو سب بت سجدہ میں گر پڑے اور پکارے کہ اے مرد پیر! جا ہمیں اس سے زیادہ نہ جلا۔ بتوں کی یہ باتیں سن کر پیر مرد کے ہاتھ سے عصا گر پڑا اور اس کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا۔ حلیمہ نے کہا: اے مرد پیر!‘‘
حیرت اندر حیرت اندر حیرتم!
کبھی مجھ سے ہوا باتیں کرتی ہے، کبھی پتھر خطاب کرتے ہیں، آخر میرا بچہ گیا کہاں؟ پیر مرد نے کہا: اے حلیمہ! خوش ہو، سجدۂ شکر ادا کر!
تو مخور غم کہ نگردد یاوہ او
بلکہ عالم یاوہ گردد اندرو*
یہاں پہنچ کر حضرت علامہ 7؎ ڈاڑھیں مار کر رونے لگے، جب ذرا افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا:یہاں ’’ یاوہ‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: یا وہ گشتن، یعنی گم شدن سرمد کا شعر اسی شعر سے ماخوذ ہے!
ایک ملاقات کے دوران میں، میں نے عرض کیا: آپ کے مدراس والے لیکچر8؎ بے حد مشکل ہیں۔ اگر اسلام یا قرآن کا منشا وہی ہے، جو آپ نے ان لیکچروں میں بیان فرمایا ہے اور جس کو اس ترقی یافتہ زمانے کے بڑے بڑے اہل علم سمجھنے سے قاصر ہیں، تو قرن اول کے عرب صحرا نشینوں نے اسے کیا سمجھا ہو گا؟
آپ نے فرمایا:
’’ بنی الاسلام علی الخمس، کسی قوم کی تشکیل و تعمیر کے لیے اسلام کے پانچ ارکان مشہورہ کا اجرا و انضباط کافی ہے، چنانچہ اس کی محسوس اور عملی صورت عہد سعادت سے بہتر کہیں نظر نہیں آ سکتی اور تاریخ کا حافظہ اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔‘‘
*مولانا رومی روایات کے ضعف و قوت سے تعرض نہیں کرتے، ان سے عجیب و غریب نتائج اخذ کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔
میں نے کہا:
’’ ایک طرف تو ’’ یسرنا القرآن للذکر‘‘ فرمایا اور اسی قسم کے دوسرے ارشادات فصلت آیتہ اور فصلنہ علیٰ علم وغیرہ بھی موجود ہیں۔ دوسری طرف بہت سی آیات کو متشابہات کہہ کر ان کے فہم پر لایعلم تاویلہ الا اللہ والراسخون فی العلم کی مہر لگا دی۔ ظاہری نگاہ اس میں تضاد دیکھتی ہے۔‘‘
آپ نے فرمایا:
اس کو یوں سمجھو۔ا یک دفعہ لنڈن میں ایک صاحب نے کسی مہمان کے اعزاز میں چند دوستوں کو ضیافت پر مدعو کیا۔ا ن میں میں بھی شامل تھا۔ فراغت طعام کے بعد مہمان عزیز سے تفصیلی تعارف کرایا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ ماہر حجریات ہیں۔ میں نے آپ سے دوبارہ ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ فیصلہ ہوا کہ سیر کو اکٹھے چلیں گے، چنانچہ سیر کرتے ہوئے ہم سمندر کے ساحل پر پہنچ گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ اپنے مضمون (حجریات) کے متعلق کچھ فرمائیں۔ انہوں نے ساحل سے ایک چھوٹا سا سنگ پار اٹھا لیا اور اس کی سوانح عمری بیان کرنا شروع کر دی۔ مختصر یہ کہ ہم 15دن روزانہ سیر کو جاتے رہے اور وہ اس پارہ حجر کے رموز و اسرار بیان کرتے رہے۔ اس کے مدارج نشو و ارتقا پر درجے کے زمانے کی تعیین، اس کے اجزائے اولیہ، رنگ و صلابت و صورت نوعیہ وغیرہ کے تفصیلی اسباب، تاثیرات و خواص وغیرہ اتنی باتیں بیان کر دیں جو میرے لیے اور اس علم سے ہر ناواقف شخص کے لیے پردۂ خفا میں تھیں یا متشابہ تھیں اور اس شخص کے لیے کہ راسخ فی العلم تھا، مفصل و میسر تھیں۔ اسی طرح قرآن مجید سارے کا سارا مفصل بھی ہے اور متشابہ بھی۔ جس قدر انسان کا ذوق9؎ و وجدان اور اخلاق و روحانیت ترقی کرتے جائیں گے، اس پر قرآن کے مطالب آشکارا ہوتے جائیں گے۔
اسی طرح کاایک دوسرا واقعہ آپ نے ارشاد فرمایا:
’’ ایک دعوت میں ہمیں ایک صاحب سے تعارف کا اتفاق ہوا، جو صرف سطح بحر کی مخلوقات کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے اپنے فن سے متعلق عجیب و غریب انکشافات فرمائے۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ سمندر کی سطح پر رہنے والے جانداروں کی انواع و اقسام اور ان کے احوال و کوائف بے حد دلچسپ اور اہم ہیں۔ مجھ پر ان کی تقریر سے سحر ہو رہا تھا۔ اسی طرح ہر شخص اپنے فن کا راسخ ہوتا ہے اور وہ فن اس کے لیے ’’ یسرنا‘‘ اور ’’فصلت‘‘ کے مترادف ہو جاتا ہے۔‘‘
میرے نزدیک علامہ کی تشریح’’ یھدی الیہ من اناب‘‘ کے مفہوم سے بھی کامل مطابقت رکھتی ہے۔
آکری عمر میں قریباً ہر صحبت میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی10؎ کا ذکر آ جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ:
’’ سلطان ٹیپو‘‘ کے جہاد حریت سے انگریز نے اندازہ کیا کہ مسئلہ جہاد اس کی حکومت کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے۔ جب تک شریعت اسلامیہ سے اس مسئلہ کو خارج نہ کیا جائے، انگریز کا مستقبل مطمئن نہیں، چنانچہ اسی زمانہ سے مختلف ممالک کے علماء کو آلہ کار بنانا شروع کیا۔ ہندوستانی علماء سے بھی ایسے فتاویٰ حاصل کئے، لیکن ایک منصوص قرآنی مسئلہ کو مٹانے کے لیے علماء کو ناکافی سمجھ کر ایک جدید نبوت کی ضرورت محسوس ہوئی، جس کا بنیادی مسئلہ یہی ہو کہ اقوام اسلامیہ میں نسخ جہاد کی تبلیغ کی جائے۔ احمدیت کے اسباب وجود پر آج تک جو کچھ لکھا گیا، اس کی وقعت سطحیت سے زیادہ نہیں۔ اس کا حقیقی سبب اسی ضرورت کا احساس تھا۔
اس کے بعد علامہ نے مجھے خاص طور پر کہا:
’’ تم ایسے فتاویٰ کی نقول تلاش کرو، ممکن ہے کہ مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری 12؎ سے اس کا کچھ سراغ نکلے۔‘‘ میں امرت سر پہنچ کر مولوی صاحب موصوف سے دریافت کیا، تو انہوں نے سرسید مرحوم کے کتب خانہ علی گڑھ کی طرف رہنمائی کی۔ میں نے علامہ کو اس مطلب کا ایک خط لکھ دیا۔ پھر معلوم نہیں ہو سکا کہ آپ نے اس بارہ میں کوئی قدم اٹھایا یا نہیں۔ ایک دفعہ میری موجودگی میں آپ نے سید ریاست علی صاحب ندوی کو بھی اس کام کے لیے آمادہ کیا تھا۔ اصل یہ ہے کہ یہ کام اسی وقت کرنے کا ہے۔ جوں جوں زمانہ گزرتا جائے گا، ہم اس کی سہولتوں سے دور ہوتے جائیں گے اور اس ’’ ملت جدید‘‘ پر تقدس کے غلاف چڑھتے جائیں گے۔
علامہ کے برادر اکبر احمدیت سے دلچسپی رکھتے تھے، علامہ ان کا ادب ملحوظ رکھتے اور اس بارے میں ان سے گفتگو کرنے سے اجتناب فرماتے تھے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ میری موجودگی میں احمدیت پر گفتگو ہو رہی تھی، وہ درمیان میں آ گئے تو علامہ خاموش ہو گئے ۔ عمر کے آخری برسوں میں جب انہوں نے کھلم کھلااس مذہب کی تردید شروع کی، تو برادر بزرگ کو ناگوار گزرا۔ فرماتے تھے ’’ ایک دن جوش میں آ کر انہوں نے میرے ساتھ بحث شروع کر دی۔ بات یہاں تک پہنچی کہ حدیث علی راس کل مائتہ کا اقتضا یہ ہے کہ ہر صدی کے شروع میں ایک مجدد مبعوث ہو۔ تمام گذشتہ صدیوں کے مجدد تو پائے جاتے ہیں، اس صدی کے مجدد اگر مرزا صاحب نہیں تو کون ہے؟ میں نے کہا، یہ حدیث موضوع ہے۔ کہنے لگے، تم یہ نئی بات کر رہے ہو، جو آج تک نہیں سنی گئی، میں نے اسی وقت موضوعات*۔۔۔۔ منگوائی اور اس میں تلاش کر کے دکھلا دی۔ بھائی صاحب خاموش ہو کر رہ گئے۔‘‘
بہت سے مولوی جو تحریک احمدیت کے مخالف ہیں، انہوں نے اس مخالفت کو ذریعہ معاش بنا رکھا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ احمدیت مٹے، کیونکہ اس کے مٹنے سے ان کی تجارت مٹ جائے گی۔ لیکن علامہ مرحوم ان لوگوں سے تھے جو پورے خلوص اور کامل بصیرت سے اس فرقہ کو تمام عالم اسلامی، عقائد اسلامی، شرافت انبیائ، خاتمیت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور کاملیت قرآن کے لئے قطعاً مضر و منافی سمجھتے ہیں۔ وہ فرماتے تھے کہ:
’’ قرآن کے بعد نبوت و وحی کا دعویٰ تمام انبیائے کرام کی توہین ہے۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جو کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ ختمیت کی دیوار میں سوراخ کرنا تمام نظام دیانت کو درہم و برہم کر دینے کے مترادف ہے۔‘‘
(یہ تحریر جو حافظہ کی مدد سے لکھی گئی ہے، یہاں تک پہنچ چکی، تو مجھے ایک کاپی دستیاب ہوئی، جس میں کچھ
*نام یاد نہیں رہا۔ منہ
اشارات میرے قلم سے لکھے ہوئے مل گئے۔ ذیل میں ان کی مدد سے لکھتا ہوں۔ راقم)
مورخہ 12اپریل 1935ء وقت4بچے سہ پہر میں نے سوال کیا، آیہ مبارکہ
ان الذین جاھدوا فینا لنھد ینھم سبلنا
(جو لوگ ہمارے بارے میں کوشش کرتے ہیں، ہم ضرور انہیں اپنی راہیں دکھلائیں گے) سے کیا مراد ہے؟ علامہ نے فرمایا:
’’ تمام علوم و کمالات اور مقاصد عالیہ جو نوع انسان کے لیے کسی نہ کسی جہت سے مفید ہوں، ان کے حصول کی سعی، جہاد فی سبیل اللہ میں داخل ہے اور اس مشق و مزاولت کے ارتقائی نتائج
لنھد ینھم
کا ظہور ہیں‘‘ میں نے عرض کیا، مولانا روم نے فرمایا ہے:
نطق آب و نطق باد و نطق گل
ہست محسوس حواس اہل دل
اس سے کیا مرا دہے؟ آپ نے فرمایا:
’’ قرآن مجید میں ہے زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے اور کل قد علم صلوتہ و تسبیحہ ہر مخلوق کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم حاصل ہے۔ ان آیتوں سے ثابت ہے کہ ہر شے کو اس کے حال کے مطابق نطق عط ہوا ہے۔‘‘
میں نے کہا: مجھے نطق اشیاء و عناصر سے انکار نہیں، میرا سوال ’’ محسوس حواس اہل دل‘‘ پر ہے۔ آپ کی پیش کردہ دوسری آیت کے ساتھ ہی یہ لفظ پڑے ہوئے ہیں:
ولکن لا تففھون
(یعنی ہر شے نمازی اور تسبیح خواں تو ضرور ہے لیکن اے انسانو!تم اس کی سمجھ نہیں رکھتے) پھر اہل دل اس نطق کو کس طرح محسوس کرتے ہیں؟ آپ نے یہ شعر پڑھا:
ہر کہ عاشق گشت حسن ذات را
گشت سید جملہ موجودات را
آپ کی سانت متغیر ہو گئی۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا: معرفت الٰہی سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا:’’ سید الطائفہ13؎ جنید بغدادیؒ کے نزدیک معرفت یا عرفان کا لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب یا مضاف نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ قرآن عزیز میں اس کا استعمال نہیں کیا گیا، البتہ علم و ایمان کا ذکر بار بار آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ تو عارف ہے، نہ معروف۔ ہاں ’’ عالم و علیم‘‘ ہے اور’’ معلوم‘‘ ہے، جس پر بہت سی آیتیں شاہد ہیں۔ انمایختی اللہ من عبادہ لعلما(اللہ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو اس کے بندوں میں علم سے ممتاز ہیں) یہاں علما کہا ہے، عرفا نہیں کہا۔ مجھے صحیح یاد نہیں کہ یہی آیت پڑھی تھی یا کوئی اور آیت بھی پڑھی تھی۔ اس کے بعد لفظ علم پر گفتگو ہوئی۔ فرمایا:’’ علم14؎ کی دو قسمیں ہیں، ایک ہمارے اکتسابی معلومات کا ذخیرہ۔ ہم خود مخلوق الٰہی ہیں اور ہمارے اکتسابی آلات علمیہ ہماری مخلوق، یعنی ہمارا علم، مخلوق کا مخلوق ہے۔ پس ایسے علم کو علم الٰہی سے قطعاً کوئی واسطہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرا وہ علم ہے، جو خواص کو عطا ہوتا ہے۔ وہ بے منت کسب قلب و روح کے اعماق سے ابلتا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا،ا س علم کی کلید کیا ہے؟ فرمایا: ارشاد خداوندی ہے، قد افلح من زکھا، جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا، اس پر اس علم کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ میں نے کہا تزکیہ نفس کا طریق کیا ہے؟ اس پر آپ 10؎ نے صوفیہ کے بعض مشاغل کی طرف اشارہ کر دیا۔‘‘
اس مقام پر مجھے یاد آ گیا، میں نے کسی صحبت میں پوچھا: صوفیہ کے اذکا رمحصوصہ اور مصطلحات و مدارج (غوث، قطب، ابدال وغیرہ) کا تعلق نفس اسلام سے کیا ہے؟ صحابہ میں مومن، صالح، شہید، صدیق وغیرہ الفاظ تو ملتے ہیں، لیکن ان الفاظ کا اشارہ تک نہیں پایا جاتا؟ آپ نے فرمایا: واقعی جناب رسالت مآب ؐ اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں نہ یہ اصطلاحات تھیں اور نہ اس قسم کے اذکار و اوراد۔ اسلامی تصوف مجوس، ہنود اور نصاریٰ کے تعلقات سے کافی حد تک متاثر ہوا ہے۔
اسی12اپریل کی ملاقات میں حضرت مسیح علیہ السلام کی معجزانہ ولادت اور رفع سماوی کا ذکر ہوا، تو فرمایا’’ یہ*دو
*علامہ نے اپنے بعض اشعار و خطوط میں بھی جو میرے نام ہیں، اس طرف اشارہ کیا ہے، مثلاً:
مینار دن پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ
اب انتظار مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے
اور
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار
وہی مہدی وہی آخر زمانی
مرزا بیدل نے بہت پہلے لکھ دیا ہے:
عالم کہ بوضع خود سری مسرور است
در شیوۂ غفلت حسی مجبور است
باز آمدن مسیح و ہدی اینجا
از تجربہ مزاج اعیان دور است
چیزیں تو مسلم عیسائیوں کی بدولت اسلامی عقائد میں داخل ہو گئیں۔ میں نے پوچھا: اسلام بتمامہ قرآن میں محصور ہے یا نہیں؟ فرمایا:’’ مفصل کہو‘‘ ! میں نے کہا: خارج از قرآن ذخیرہ احادیث و روایات اور کتب فقہ وغیرہ کو شامل کر کے اسلام مکمل ہوتا ہے یا صرف قرآن اس باب میں کفایت کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ چیزیں تاریخ و معاملات پر مشتمل ہیں، ان کی بھی ضرورت ہے۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کن ضروریات کے ماتحت وضع کی گئیں، لیکن نفس اسلام قرآن مجید میں بکمال و تمام آ چکا ہے۔ خدا تعالیٰ کا منشا دریافت کرنے کے لیے ہمیں قرآن سے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔
پھر میں نے پوچھا: مولانا روم کے شعر ذیل کی شرح کیا ہے؟
دفتر صوفی کتاب و حرف نیست
جز دل اسپید ہمچو برف نیست
اس وقت علی بخش کو بلا کر ایک کتاب منگوائی، جس پر غالباً یہ شعر اور اس کے ماقبل و ما بعد کے اشعار لکھ کر انگریزی زبان میں ان کی شرح اپنے قلم سے لکھ رکھی تھی۔ مجھے اس کا ترجمہ کر کے سمجھا دیا۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’ عالم قلم پر چلتا ہے اور صوفی قدم پر۔‘‘
پھر مولوی کا یہ شعر پڑھا:
زاد دانشمند آثار قلم16؎
زاد صوفی چیست انوار قدم
یہ شعر پڑھ کر بہت روئے۔ اس کے بعد پھر مولوی کا ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ صوفی ہرن کے قدموں کے نشان سے اس کا سراغ لگاتا ہے اور چلتے چلتے بوئے نافہ تک پہنچ جاتا ہے، پھر بوئے نافہ کی رہنمائی میں خود ہرن تک جا پہنچتا ہے۔ پھر فرمایا: قلم کی راہ چلنے والا بھی آخر پہنچ ہی جاتا ہے، بلکہ محفوظ طریق سے۔
اس صحبت میں میرے ساتھ ایک خوش گلو رفیق تھا، میں نے عرض کیا: اگر آپ کچھ سننا پسند فرمائیں، تو یہ صاحب حاضر ہیں آپ نے رضا مندی ظاہر کی۔ میں نے بال جبریل منگوانے کو کہا اسی وقت منگوائی گئی۔ میں نے خاص خاص نظموں پر جو مجھے بہت پسند تھیں، نشان کر دیے۔ سب سے پہلے ایک غزل پڑھی گئی، جس کا آخری شعر یہ ہے:
تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایت زمانہ 17؎
جب تک یہ غزل گائی جاتی رہی، آپ روتے رہے اور میں بھی اس حالت سے بہت متاثر ہوا۔
یہ صحبت قریباً سوا دو گھنٹے تک قائم رہی۔
14اپریل35ء کو حاضر خدمت ہوا۔ میرے ساتھ حکیم طالب علی صاحب تھے۔ ہمارے حاضر ہونے سے پہلے مشہور شاعرہ اور قائدہ مسز سروجنی نائیڈو18؎ اور میاں بشیر احمد آف ہمایوں موجود تھے۔ ان سے انگریزی میں بات چیت ہوتی رہی۔ میں نے شاعرہ کو پہلی اور آخری دفعہ دیکھا اور یہ بات بھی ایک ہی دفعہ دیکھی کہ علامہ، شاعرہ کو رخصت کرنے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھ کر کوٹھی کے برآمدے تک تشریف لائے۔
اس کے بعد جناب عبداللہ یوسف علی 19؎ اور بعض دیگر اکابر حمایت اسلام آ گئے۔ کسی خاص موضوع پر میٹنگ ہوئی۔ آخر دیر کے بعد تنہائی نصیب ہوئی۔ میں نے پوچھا: مرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی20؎ کس کے متبع ہیں؟ فرمایا: مرزا سے پہلے کوئی شخص اس رنگ میں لکھنے والا نظر نہیں آتا۔ وہ اپنی طرز کے آپ ہی موجد و مبدع اور خالق و صانع ہیں۔ ان کے بعد بھی کوئی اس طرز میں کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔
اس کے بعد کئی باتیں ہوئیں، جو خاص طور پر قابل ذکر نہیں۔ پھر حکیم طالب علی صاحب کے سوال پر مسیح علیہ السلام کی معجزات سے بھری ہوئی زندگی، ولادت اور وفات سے متعلق فرمایا کہ نو مسلم عیسائیوں نے اپنے غیر معقول اور خرافیاتی عقائد مسلمانوں میں شائع کر دیے۔ سادہ لوح مسلمانوں نے ان کو اجزائے اسلام سمجھ کر سر آنکھوں پر اٹھایا اور ابتدائی مصنفین نے روایتاً اپنی کتب میں نقل کر دیا۔ اس کے علاوہ ایک صحبت میں آپ نے خاص طور پر فرمایا کہ بزرگوں کی آمد ثانی کا عقیدہ تمام مذہبی گروہوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں سے مختص نہیں۔ اس میں یہ مصلحت رکھی گئی ہے کہ جب کوئی مصلح و مجدد کھڑا ہو، وہ لوگوں کے اس انتظار و اعتقاد سے فائدہ اٹھا کر ن کو ایک مرکز پر لا سکے۔ مسلمانوں کے مسیح و مہدی کی آمد بھی اسی قبیل سے ہے، ورنہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن اس بارے میں قطعاً خاموش ہے۔ ایک اور بزرگ نے بھی ایک دفعہ اپنا یہی خیال ظاہر کیا تھا جس پر عوام پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ گئے۔ آخر ان کو اپنے الفاظ کی نہایت نازیبا تاویل کر کے جہال کی زبانیں بند کرنا پڑیں۔ علامہ کے شعر میں اسی طرف اشارہ سمجھا گیا ہے:
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
اس کے بعد میں نے حیات بعد الممات سے متعلق استفسار کیا۔ آپ نے فرمایا:
’’ حیات اخروی، انسان کے ذوق حیات کی شدت پر منحصر ہے۔ جس قدر کسی شخص میں ذوق زندگی زیادہ ہو گا، اتنا ہی اس کا زمانہ برزخ کم ہو گا۔ شہدا کا ذوق زندگی بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے، اس لیے ان کے لیے کوئی برزخ نہیں۔ اس زندگی سے آنکھ بند کرتے ہی ان کے لیے دوسری زندگی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا، عام مومنین کے لیے بھی برزخ کا کہیں ذکر نہیں:
فرمایا: ’’ اس کا سبب بھی ذوق حیات ہے۔ میں نے اس خیال کو اپنے ایک شعر میں بھی ظاہر کیا ہے:
جانے کہ بخشند دیگر نگیرند
انساں بمیرد از بے یقینی‘‘
اس کے بعد سلسلہ گفتگو دوسری جانب مڑ گیا۔ آپ نے فرمایا:
’’ یورپ سے آتے ہوئے ایک صبح جہاز میں میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا۔ میرے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا آ گئی: وارزق اھلہ من الثمرات رزقاً (خدایا! حرم کعبہ کے اہالی کو پھلوں سے رزق عنایت فرما) اس سے میری طبیعت بے حد متاثر ہوئی۔ اس دعا کو زبان سے نکلے ہوئے چار ہزار سال گزر گئے۔ اس کی قبولیت ایک بدیہی حقیقت بن گئی ہے۔ تمام اسلامی ممالک ایران، عراق، شام افغانستان، بیروت، ٹرکی وغیرہ جو حرم کعبہ سے روحانی تعلق رکھتے ہیں، پھلوں کے رزق سے معمور ہیں اور غیر اسلامی دنیا یورپ، امریکہ وغیرہ اس نعمت خداوندی سے محروم سبحان اللہ!‘‘
16جنوری1938ء 3بجے بعد دوپہر بمقام جاوید منزل قریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک ملاقات رہی۔ دوران کلام میں آپ نے فرمایا:
’’ علم‘‘ کے چار ذریعے ہیں اور قرآن مجید نے ان چاروں کی طرف واضح رہنمائی کی ہے۔ مسلمانوں نے ان کی تدوین کی اور دنیائے جدید اس باب میں ہمیشہ مسلمانوں کی منت کش رہے گی۔ پہلا ذریعہ ’’ وحی‘‘ ہے اور وہ ختم ہو چکا۔ دوسرا ذریعہ ’’ آثار قدما و تاریخ‘‘ ہے جس پر آیات قرآن متوجہ کر رہی ہیں۔ ’’ سیسروا فی الارض‘‘ اس آیت نے علم آثار کی بنیاد رکھ دی، جس پر مسلم مصنفین نے عالی شان قصر تعمیر کیے۔ ذکر بایام اللہ، یہ آیت محید تاریخ کا ابتدائی نقطہ ہے۔ جس نے ابن خلدون جیسے باکمال محقق پیدا کیے۔ علم کا تیسرا ذریعہ ’’ علم النفس‘‘ ہے جس کا آغاز وفی انفسکم افلا تبصرون سے ہوتا ہے۔ اس کو حضرت جنیدؒ اور ان کے رفقا و اتباع نے کمال تک پہنچایا۔ آخری ذریعہ صحیفہ فطرت ہے، جس پر قرآن مجید کی بیشمار آیات دلالت کر رہی ہیں مثلاً ’’ الی الارض کیف سطحت‘‘ اس علم پر علمائے اندلس نے بہت توجہ مبذول کی۔
آیات متشابہات، فصلت آیاتہ، راسخون فی العلم، وغیرہ آیات کی تطبیق پر حضرت علامہ کی تقریر جو میں پہلے نقل کر آیاہوں، اسی صحبت میں ہوئی تھی۔ اس تمام تشریح علوم، تفصیل آیات، اور مساعی علمائے اسلام کا ذکر کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ موجودہ دنیا اپنے تمام علم و تہذیب اور صنائع و بدائع سمیت مسلمانوں کی ’’ مخلوق‘‘ ہے۔ میں نے اس لفظ پر ذرا اظہار تعجب کیا۔ آپ نے فرمایا’’ حقیقی خالق بیشک اللہ تعالیٰ ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی خالق ہو سکتے ہیں، جیسا کہ آیہ احسن الخالقین سے ظاہر ہے، خدائے پاک تمام دوسرے خالقوں سے احسن ہے۔‘‘
اس کے بعد فرمایا:
’’ قرآن سے پہلے کسی ارضی یا سماوی کتاب نے انسان کو اس بلند مقام پر نہیں پہنچایا جس کی قرآن نے اطلاع دی۔ یہ لفظ تم قرآن کے سوا کہیں نہ دیکھو گے:’’ سخر لکم ما فی السموات والارض‘‘ آج تک تم جن ارضی و سماوی، مہیب یا مفید ہستیوں کو اپنا معبود سمجھتے رہے ہو، وہ سب اور تمام دیگر کائنات تمہاری خدمت کے لئے خلق کی گئی ہے۔ توحید کا یہ مرتبہ اعلیٰ، ماسوا سے بے پروا کر دینے والا، یہ انسانی خودی کا حقیقی عرفان، قرآن سے پہلے کہیں نظر نہیں آتا۔‘‘
اس کے بعد سید جمال الدین افغانی اور سر سید احمد خاں رحمتہ اللہ علیھا کا تذکرہ چل پڑا۔ فرمایا:’’ افغانی22؎ کا مرتبہ علم و فضیلت سید سے بدرجہا بلند ہے۔ سید کے فرزند رشید سید محمود کیع لمی قابلیت بھی نادرہ روزگار تھی۔ ان کی قانونی استعداد حضرت امام ابو حنیفہؓ کے مشابہ تھی۔ میں نے سید احمد کی وفات پر تاریخ کہی تھی، جو ان کی قبر پر کندہ ہے:
انی متوفیک ورافعک الی و مطھرک
ایک دفعہ میرے ساتھ میاںمولا بخش صاحب سوداگر صابون تھے۔یہ بزرگ امرتسر میں اپنے دینی ذوق کے لیے مشہور ہیں۔ ہمارے ساتھ دو اور صاحب ملاقات کے کمرے میں داخل ہوئے۔ باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ یہ صاحب غالی قسم کے اہل حدیث ہیں۔ ان دنوں علامہ مسیح ؑ کی آمد ثانی کے متعلق ایک بیان شائع کرا چکے تھے، جس سے احمدی حضرات ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھے۔ یہ دونوں صاحب اس معاملہ کے متعلق علامہ سے کچھ گفتگو کرنے آئے تھے۔ انہوں نے کہا:’’ احمدیوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ آپ (علامہ ) نے لکھا ہے کہ مسیح ؑ کی آمد ثانی کا عقیدہ مسلمانوں نے مجوسیوں سے لیا ہے، کیا آپ نے کہیں ایسا لکھا ہے؟ ‘‘ علامہ نے فرمایا، ’’ نہیں‘‘ ! انہوں نے کہا:’’ آپ تحریر فرما دیں، تاکہ ہم اس کو شائع کر کے احمدیوں کا منہ بند کر دیں‘‘ علامہ نے اسی وقت قلم کاغذ منگوا کر اس مطلب کی تحریر لکھ دی۔ ان دونوں صاحبوں نے اس تحریر کو پڑھ کر کہا: ’’ایک سطر کا اور اضافہ کر دیجئے ۔ جس کا مطلب یہ ہو کہ آپ حدیث شریف کے مطابق مسیح کی آمد ثانی پر اعتقاد رکھتے ہیں۔‘‘ علامہ نے فرمایا’’ میرا یہ اعتقاد نہیں ہے‘‘ انہوں نے کہا’’ کیا آپ کو حدیث کی صحت سے انکار ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا ’’ میں اعتقادی امور میں صرف قرآن پر انحصار رکھتا ہوں اور حدیث کے متعلق مجھے اور آپ سب کو معلوم ہے کہ ذریعوں سے ہم تک پہنچی ہے۔‘‘ اس بات پر ایک صاحب ذرا گرم ہو کر کہنے لگے، اگر اس طرح حدیث سے بے پروائی کی جائے گی تو مسلمانی ختم ہو جائے گی۔ ہمارا کوئی عمل و عبادت حدیث کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ قرآن تو نماز ایسی روز مرہ کی چیز کے لیے بھی ہمیں کوئی تفصیل نہیں بتایا۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ اہل قرآن نے اپنے لیے عجیب قسم کی نمازیں تراش لی ہیں، جن کا جمہور اہل اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کی نمازوں کے اوقات، اذکار اور رکعات وغیرہ سب عالم اسلامی سے مختلف ہیں۔ کیا ایسی حالت میں آپ ان کو کافر نہیں کہیں گے؟ علامہ نے اس تیز کلامی کے جواب میں نہایت نرمی سے فرمایا: ’’ کافر نہ کہو‘‘ کوئی اور نام رکھ لو، یہ شدت ہے۔ تم لوگ نمازوں کی رکعات و اذکار پر لڑتے ہو، مجھے تو سرے سے نماز کا وجود ہی کہیں نظر نہیں آتا (یا یہ کہا تھا کہ خطرے میں نظر آتا ہے) اس کے بعد وہ دونوں صاحب چلے گئے، لیکن گفتگو کا موضوع نہ بدلا۔ علامہ نے بڑے درد سے فرمایا کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا اور فتوے بازی اس امر کی دلیل ہے کہ اس قوم میں اللہ والے لوگ ختم ہو چکے ہیں۔ پھر آپ نے وفد ہلال احمر کا وہ قصہ سنایا جو بعد میں ضرب کلیم میں بصورت نظم شائع ہوا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وفد موصوف کے ایک رکن علامہ کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے شاہی مسجد میں گئے۔ وہ بوڑھے آدمی تھے۔ امام نے نماز میں طوالت اختیار کی۔ وہ تنگ آ گئے۔ باہر آ کر انہوں نے علامہ سے اس طوالت پر تعجب کا اظہار کیا اور اس کا سبب پوچھا، تو علامہ نے کہا، یہ ہندی مسلمان کے بے کار اور بے نصب العین ہونے کے دلیل ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے اپنی قوم اور ملت کی تعمیر و تشکیل کا کام ہے، اس لیے آپ کو ایسی بے مصرف نمازوں کی فرصت نہیں۔ اس ملک کے بے کار ملا اور نکمے مسلمان اگر مذہبی بحث و پیکار اور لمبے لمبے درود و وظائف میں اپنا وقت صرف نہ کریں تو کیا کریں؟
ایک صحبت میں میں نے علامہ ابن جوزی 23کی ’’ تلبیس ابلیس‘‘ کا ذکر کیا، اس میں مصنف نے کامل جرأت اور پاک دلی سے ابلیس کے ہتھ کنڈوں اور مقدس مذہبی جماعتوں پر اس کے اثرات کی وضاحت کی ہے۔ اس ضمن میں صوفیہ کے معائب بھی دل کھول کر بیان کیے ہیں۔ میں نے اس حصہ کا کچھ ذکر کر کے حضرت علامہ کی رائے دریافت کی۔ آپ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ میں نے کہا، علامہ ابن تیمیہ 24کی روش بھی تصوف کے خلاف ابن جوزی سے کچھ کم نہیں۔ آپ نے اس پر بھی کچھ ایسے الفاظ فرمائے، جن کا خلاصہ یہ تھا کہ بعض لوگ حقیقت سے واقف نہیں ہوتے اور نظر بر ظاہر عیب چینی شروع کر دیتے ہیں۔
ہنگامہ ’’ شہید گنج‘‘ 2؎ کے دنوں میں جب کہ مسلمانوں کی مختلف جماعتیں اور اخبارات آپس میں پگڑی اچھالنے کی مشق میں بہت تیزی دکھا رہے تھے، میں نے عرض کیا، آپ ان لوگوں کے لیڈروں کو بلا کر صلح کر ادیں، تو بہت بڑی اسلامی خدمت ہو گی۔ آپ نے فرمایا:’’ امرت سر میں یہ کوشش کرو‘‘ میں نے کہا: ’’ امرت سر میں کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جو ان پر موثر ہو سکے۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ان کے منہ بند کر سکوں۔ میں ان سب کو خوب جانتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا، آپ کے نزدیک موجودہ ہندی اسلامی تحریکوں میں کون سی تحریک مسلمانوں کے حق میں بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ عموماً ان تحریکوں کے قائد جاہل ہیں۔‘‘ احرار کے متعلق کہا:’’ ان سے کسی قدر اصلاح کی امید ہو سکتی ہے۔‘‘
ایک دفعہ میں نے پوچھا، مثنوی’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ میں آپ کے مصرع:
علم و حکمت از کتب، دیں از نظر
میں ’’ نظر‘‘ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا’’ صحبت‘‘
ایک دفعہ میں نے عرض کیا، فلاں جدید فرقہ صراحتاً متضاد دعاوی اور لغو عقائد کا مجموعہ ہے، لیکن بہت سے اہل علم و ثروت اور اصحاب دانش و ترجبہ اس میں شامل ہیں جس سے سطحی عقل کے لوگ بانی فرقہ کی صداقت تسلیم کر لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اس کے جواب میں آپ نے عقل کی متعدد قسمیں بیان کیں، جن کے لیے انگریزی الفاظ استعمال کیے جو مجھے یاد نہیں رہ سکے۔ مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا:’’ بعض لوگ بعض مخصوص فنون و اعمال میں کافی بصیرت کے مالک ہوتے ہیں، لیکن بہت سے دوسرے امور میں قطعاً سادہ اور صریح الاعتماد ثابت ہوتے ہیں۔‘‘ اس پر ایک مثال بیان فرمائی کہ:’’ مجھے ایک مصنف نے اپنی ایک کتاب جو انگریزی زبان میں معدنیات پر لکھی گئی تھی، تبصرے کے لیے بھیجی۔ میں نے اسے پڑھا تو مجھے ایک فن سے ذوق پیدا ہو گیا۔ تھوڑے عرصہ میں میں نے جواہر کے پرکھنے کی مہارت حاصل کر لی۔ 19ء میں جب ولایت گیا تو ایک لارڈ صاحب کی لیڈی کو میرے اس ذوق کا علم ہو گیا، وہ بھی اس کی بہت شوقین تھیں، اپنے جواہرات کا ڈبہ اٹھا کر میرے پاس لے آئیں۔ میں نے ان کے گراں قدر منتخبات کو دیکھا اور ان کی مناسب تعریف کرتا رہا۔ اخیر میں انہوں نے کہا کہ میرے پاس ایک نہایت اعلیٰ۔۔۔ تھا، لیکن افسوس ہے کہ میں اسے جدا کرنے پر مجبور ہو گئی۔ میں نے کہا، آپ مجبور کیوں ہو گئیں؟ انہوں نے کہا، مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ میری قسمت کے موافق نہیں۔ اس سے اندازہ لگا لو کہ وہ عورت بڑی اہل علم و تجربہ ہونے کے باوجود کتنے پست و ہم میں گرفتار تھی۔ اسی طرح بعض آدمی
کوئی قیمتی پتھر تھا جس کا نام یاد نہیں رہا (منہ)
قانون میں بڑے ماہر ہوتے ہیں، جب وہ کسی مذہبی مدعی کی بزرگی تسلیم کر لیتے ہیں تو عوام کو دھوکا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے قانون نے اس کو بزرگ مانا ہے، ضرور اس میں کوئی بزرگی ہو گی، حالانکہ وہ قانون دان مذہب کی حقیقت سے اتنا ہی گورا ہوتا ہے جتنا ایک عامی انسان۔ اسی طرح اکثر لوگ مذہبی کتب پر عبور رکھتے ہوئے بھی صحیح مذہبی حس نہ رکھنے کے باعث فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‘‘
ایک دفعہ علم جوتش کا ذکر ہوا، فرمانے لگے: ’’ میرے ایک پنڈت دوست نے اپنے استاد سے جو بنارس میں اس فن کا بہت ماہر تسلیم کیا جاتا تھا، جاوید کی ولادت پر جنم پتری بنوائی، میں اس کا قائل نہیں ہوں، اس لیے میں نے اس پر کچھ توجہ نہ کی۔ چند دن گزرے، بڑے بھائی صاحب نے وہ پتری نکال کر دیکھی اور مجھے بھی دکھائی۔ اس میں علاوہ اور باتوں کے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ یہ بچہ۔۔۔۔ سال کی عمر میں علاوہ اور باتوں کے یہ بھی لکھا تھا کہ ‘‘ یہ بچہ سال کی عمر کو پہنچے گا تو اس کا والد لمبی بیماری میں مبتلا ہو جائے گا اور یہ خود سال تک معدہ (یا شاید جگر) کے مرض میں مبتلا رہے گا۔‘‘ تعجب ہے کہ یہ دونوں باتیں صحیح ہو رہی ہیں۔
ایک دفعہ اسلام یا مسلم کی تعریف میں ایک بلیغ و عمیق تقریر فرمائی، جس کو میں بمشکل سمجھ سکا، اس وقت اس کا دھندلا سا اجمال دماغ میں موجود ہے۔ کچھ ایسا مفہوم تھا کہ انسان صحیح معنوں میں مسلم اس وقت ہوتا ہے، جب قرآن کے فرمائے ہوئے اوامر و نواہی اس کی اپنی ’’ خواہش‘‘ بن جائیں، یعنی وہ یہ نہ سمجھے کہ میں کسی حاکم یا آقا کے حکم و تسلط کے ماتحت فضائل اخلاق و عبادات پر کاربند اور ذمائم و قبائح نفس سے مجتنب ہوں، بلکہ یہ چزیں اس کی اپنی تمنا بن کر اس کے عمق روح سے اچھلیں۔ قرآن اس کے حق میں ایک تلخ اور شافی دوا نہ رہے بلکہ ایک لذیذ اور زندگی بخش غذا بن جائے، منشائے الٰہی اور فطرت انسانی میں مغائرت نہ رہے۔ یہی مطلب ہے فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا الخ کا۔ اس پر تاریخ سے بعض مثالیں بھی دیں جو بالکل بھول گئی ہیں۔
مجھے اعتراف ہے کہ یہ تمام داستان طویل عرصہ کے بعد ایک کمزور حافظہ کی مدد سے مرتب کی گئی ہے، اس لیے اس میں بالکل وہی کچھ نہیں ہے جو علامہ مرحوم کی زبان سے نکلا۔ بعض جگہ اشارات تفصیل کی صورت میں آ گئے ہیں اور بعض جگہ تفصیل اشارات میں ہو گئی ہے۔ تاہم یہ کوشش کی گئی ہے کہ کوئی بات جو ان کے عقائد کے خلاف ہو، ان کے ذمے لگانے سے احتراز کیا جائے۔
ربنا لا تو اخذنا ان نسینا او اخطانا
محمد حسین عرشی
٭٭٭