ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم
(مختصر سوانح)
ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کا تعلق کشمیریوں کی مشہور گوت ’’ ڈار‘‘ سے تھا۔ ان کے بزرگ ہندو راجوں کی افواج میں نمایاں مقام کے حامل تھے۔ سکھوں کے عہد میں ان کے دادا کشمیر سے ہجرت کر کے لاہور (پنجاب) میں سکونت پذیر ہوئے۔ لاہور میں ان کی رہائش محلہ چہل بیبیاں اندرون اکبری دروازہ میں تھی۔ کشمیر میں حکیم صاحب کے بزرگ پشمینے وغیرہ کا کام کرتے تھے اور اکثر لوگ اس ضمن میں ان سے اکتساب فن کی بناء پر انہیں ’’ خلیفہ‘‘ (استاد) کے لفظ سے پکارتے۔ یوں یہ لفظ اس خاندان کے افراد کے ناموں کا پہلا جزء ٹھہرا۔
حکیم صاحب کے والد خلیفہ عبدالرحمن ایک نیک دل اور متقی شخص تھے، انہیں گلستان و بوستان سعدی ایسی اخلاقی کتب سے دلی شغف تھا اور اپنے بچوں کی تربیت میں وہ ان سے کام لیتے۔ ان کی دو بیویاں تھیں۔ حکیم مرحوم کی والدہ رحیم بی بی دوسری بیوی تھیں۔ حکیم مرحوم کی ولادت ان کے آبائی مکان (محلہ چہل بیبیاں) میں ۱۸۹۳ یا ۱۸۹۴ء میں ہوئی۔ بارہ برس کی عمر میں باپ کے سائے سے محروم ہو گئے۔ چار برس کی عمر میں قریبی مسجد میں پڑھنے بیٹھے۔ پھر اندرون موچی دروازہ کے کوچہ لال کھوہ کے سکول میں داخل ہوئے۔ تیسری جماعت سے اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ جانے لگے اور وہیں سے انہوں نے ۱۹۱۰ء یا ۱۹۱۱ء میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ ان کے والد کی وفات کے بعد ان کے چچاؤں نے جائیداد میں سے انہیں کچھ نہ دیا۔ جس کے سبب ان کی زندگی عسرت میں بسر ہونے لگی۔ ان کی والدہ کو ان کی تعلیم و تربیت کے لیے خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے ہر طرح کی مصیبت جھیلی۔ خلیفہ مرحوم نے بھی دل لگا کر محنت کی اور اپنے خاندان کا نام روشن کیا۔
سکول ہی کے زمانے میں انہوں نے شاعری شروع کی اور سکول کی ادبی مجالس میں حصہ لیا جس سے اساتذہ کی نظروں میں ہر دلعزیز ہوئے۔ سکول سے فراغت پائی تو ایف سی کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا لیکن سائنس سے رغبت نہ ہونے کے سبب سلسلہ تعلیم منقطع کر کے علی گڑھ میں سال اول (آرٹس) میں داخل ہو گئے۔ یہاں بھی ان کی قابلیت کے جوہر نمایاں ہوئے یہ ۱۹۱۲ء میں سینٹ اسٹیفن کالج دہلی میں داخلہ لیا۔ ۱۹۱۵ء میں بی اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں آ کر فلسفہ میں ریکارڈ قائم کیا۔
میاں فضل حسین نے (جو اس وقت انجمن حمایت اسلام اسلامیہ کالج کے سیکرٹری تھے) انہیں لیکچر شپ پیش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ ۱۹۱۷ء میں سینٹ اسٹیفن کالج دہلی سے فلسفہ میں ایم اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ان کے ممتحین میں علامہ اقبال بھی تھے۔ ان کا ایم اے میں مقالہ مولانا جلال الدین رومی پر تھا۔ اس دوران میں وہ شعر و شاعری بھی اور مشاعروں میں شرکت بھی کرتے رہے۔ کچھ عرصہ انگریزی اخبار ’’ آبزرور‘‘ کی ادارت کی، جس میں انہوں نے بڑے تند لہجے میں مسلمانوں سے متعلق انگریز حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی، جس کے نتیجے میں اخبا رکی ضمانت ضبط ہوئی اور وہ بند کر دیا گیا۔
۱۹۱۹ء میں حکیم مرحوم، حضرت علامہ کی سفارش پر، عثمانیہ یونیورسٹی میں فلسفے اور منطق کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۰ء میں ان کی شادی خدیجہ بیگم سے ہوئی اور ۱۹۲۲ء میں وہ جامعہ عثمانیہ کے وظیفے پر ہائیڈل برگ یونیورسٹی (جرمنی) میں داخل ہوئے، جہاں انہوں نے ’’ ما بعد الطبیعیات رومی‘‘ پر مقالہ لکھا۔(یہ مقالہ ۱۹۳۳ء میں شائع ہو گیا۔) ۱۹۲۵ء میں وہ پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر وطن لوٹے۔ ۱۹۲۵ء سے ان کی ملازمت کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے اور اب وہ صدر شعبہ فلسفہ بنا دیے گئے، حیدر آباد میں ان کی زیادہ تر سرگرمیاں علمی اور تدریسی حد تک ہی رہیں۔ اس عرصے میں وہ یونیورسٹی کے جریدے ’’ مجلہ عثمانیہ‘‘ میں وقیع مقالے لکھتے رہے۔ انہوں نے فلسفے کی بعض کتب کے اردو تراجم بھی کیے۔ اپنی انہی علمی، ادبی اور تدریسی سرگرمیوں کی بناء پر وہ یونیورسٹی کے چوٹی کے اساتذہ میں شمار ہونے لگے۔
۱۹۴۳ء سے ۱۹۴۷ء تک خلیفہ مرحوم نے کشمیر میں ملازمت کی۔ دراصل ۱۹۴۳ء میں وہاں کے امر سنگھ کالج میں پرنسپل کی اسامی خالی ہوئی اور خلیفہ مرحوم کی خدمات حکومت کشمیر نے نظام دکن سے مستعار لے لیں۔ یہاں کچھ عرصہ وہ ناظم تعلیمات بھی رہے۔
خلیفہ مرحوم کی ملازمت کا تیسرا دور ۱۹۴۷ء یا ۱۹۴۹ء کا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں کشمیر چھوڑنے کے بعد خلیفہ مرحوم دوبارہ عثمانیہ یونیورسٹی (حیدر آباد) پہنچے، جہاں انہیں ڈین آف آرٹس بنا دیا گیا۔ دو سال بعد وہ پاکستان چلے آئے اور لاہور میں اقامت گزیں ہو گئے۔
۱۹۵۰ء میں انہوں نے اپنے پرانے رفیق اور دوست اور اس وقت کے گورنر جنرل پاکستان
1؎ یہ مختصر سوانح ڈاکٹر وحید عشرت صاحب (نائب ناظم اقبال اکادمی پاکستان لاہور) کے ڈاکٹریٹ کے مقالہ سے ماخوذ ہیں۔
ملک غلام محمد کی مدد سے ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کی بنیاد رکھی جو آج بھی کلب روڈ کی ایک عمدہ عمارت میں کام کر رہا ہے۔ خلیفہ مرحوم دس برس تک اس ادارے سے منسلک رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے اقبال اور اسلام کے موضوعات پر کئی لیکچر بھی دیے۔ پھر بیرون ملک بھی سفر کیے، بالخصوص ایران کے سفر میں انہوں نے حضرت علامہ سے متعلق لیکچر دے کر ایرانیوں کو متاثر کیا۔ ۱۹۵۴ء میں لبنان میں ایک بین الاقوامی مجلس مذاکرہ میں شریک ہوئے۔ ۱۹۵۶ء میں امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی نے انہیں کانووکیشن ایڈریس پڑھنے کی دعوت دی۔ اس ایڈریس کو امریکہ کے علمی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ ۱۹۵۷ء کے کانووکیشن میں یونیورسٹی نے انہیں ایم ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ ان کے ایسے علمی سفروں کی فہرست کسی حد تک طویل ہے۔
گوناگوں علمی صفات اور ہمہ پہلو خصائص کی حامل اس شخصیت نے اپنی زندگی کے آخری سال انتہائی مصروفیت میں گزار کر ۳۰ جنوری ۱۹۵۹ء کو دل کے دورے کے باعث اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ اس وقت وہ کراچی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے سلسلے میں اپنے دوست ڈاکٹر ممتاز حسن کے یہاں مقیم تھے۔ دل کے دورے نے اتنی بھی مہلت نہ دی کہ ڈاکٹر ان کا کوئی علاج کر سکتا۔ آخری وقت جب ان کی سانس پھولی ہوئی تھی، دایاں ہاتھ دل پر رکھ کر کہہ رہے تھے:
Oh my heart, this has never happened before.
انا للہ وانا الیہ راجعوان
حکیم مرحوم کی تصنیفات: حکمت رومی، فکر اقبال، افکار غالب، تشبیہات رومی
علاوہ ازیں بہت سے خطبات جو انہوں نے مختلف تقاریب میں پڑھے، یا ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوئے۔ بیسیوں مقالات جو ملک کے موقر مجلات میں شائع ہوئے اور اب ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے انہیں کتابی صورت میں مقالات حکیم (تین جلدیں) کے نام سے شائع کر دیا ہے۔ خلیفہ مرحوم نے کئی ایک انگریزی کتب و مقالات کو بھی اردو میں ڈھالا،
جن میں دیبر کی کتاب History of Philosophy کو تاریخ فلسفہ کے نام سے اور ہیرلڈ ہونڈنگ کی کتاب ہسٹری آف ماڈرن فلاسفی کو تاریخ فلسفہ جدید کے نام سے اردو کا روپ دیا۔ ان کے علاو ہ ان دو کتابوں کا بھی انہوں نے ترجمہ کیا:
Outline of Greak Philosophy کا ترجمہ مختصر تاریخ فلسفہ یونان کے نام سے کیا۔
Varieties of Religious Experience از ولیم جیمز کا اردو نام: نفسیات واردات روحانی رکھا۔
کئی مقالات کو بھی اردو میں ڈھالا۔ پھر بھگوت گیتا کا منظوم اردو ترجمہ کیا اور اردو منظومات کا ایک مجموعہ کلام حکیم کے نام سے بھی ان سے یادگار ہے۔
حواشی و تعلیقات
ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم مرحوم نے فکر اقبال میں بہت سے حوالوں سے کام لیا ہے جو ان کی وسعت مطالعہ پر دال ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے یہاں متعلقہ حوالے کی کتاب کو سامنے رکھا ہے وہاں تو وہ حوالہ (شعر کی صورت میں ہو یا نثر کی صورت میں) درست ہے لیکن جہاں انہوں نے یادداشت سے کام لینے کی کوشش کی ہے وہاں غلط ملط ہو گیا ہے اور غلط ملط والے مقامات کئی ہیں، جس کے نتیجے میں راقم کو متعلقہ شعر یا حوالہ ڈھونڈنے میں بہت زیادہ محنت کرنا پڑی۔ اکثر اشعار غلط، پہلا مصرع دوسرے مصرع کی جگہ اور دوسرا مصرع پہلے کی جگہ پر پھر بعض اشعار کا آغاز انہوں نے کچھ اور الفاظ سے کیا ہے جب کہ اصل شعر کسی اور لفظ سے شروع ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں مثنوی رومی کی مثال دی جاسکتی ہے یا مثلاً گہ از دست تو کار نادر آید ہے لیکن فکر اقبال میں چو از دست۔ الخ ہے اسی طرح بعض اشعار کی نسبت بھی غلط ہے۔ امیر خسرو کا ایک مشہور شعر حافظ منسوب کیا ہے۔ یہاں تک کہ حافظے سے کام لینے کے باعث وہ دو ایک آیات قرآنی میں تھوڑی سی تاخیر و تقدیم کر گئے ہیں، بہرحال یہ غلطی درست کر دی گئی ہے۔ جو حوالے میسر آ سکے انہیں حواشی و تعلیقات میں جگہ دی گئی ہے اور جو اس کام کی تکمیل کے بعد ملے انہیں ’’ ضمیمہ‘‘ میں درج کر دیا گیا ہے۔ اشعار کے معاملے میں حاشیے کا انداز یہ ہے کہ صفحہ کے ساتھ پہلے مصرعے والی سطر کا نمبر دیا گیا ہے اس کے ساتھ جتنے بھی اشعار ہیں سبھی اسی حوالے سے متعلق ہیں۔ جہاں کہیں مسلسل دو صفحوں پر اشعار آئے ہیں۔ وہاں حوالہ اس طرح دیا گیا ہے : ۱۱۷/۲۔ بعض حوالے کئی جگہ آ گئے ہیں۔ ایسے حوالے میں تفصیل صرف ایک جگہ دی گئی ہے۔ آیات قرآنی کے ترجمے کے لیے مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کے ترجمے سے استفادہ کیا گیا ہے۔