میرا اقبال ، مرزا جلال الدین

میرا اقبال
مرزا جلال الدین

غالباً 1905ء میں میں نے پہلی مرتبہ ڈاکٹر سر محمد اقبال علیہ الرحمتہ کو دیکھا۔
لندن میں حصول تعلیم کی غرض سے اپنے قیام کے آخری دنوں میں سر عبدالقادر اور میں یک ہی مکان میں چند دن کے لیے ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان سے جب کبھی وطن اور ابنائے وطن کے متعلق باتیںہوتیں تو ان کی زبان پر سر محمد اقبال کا تذکرہ ضرور آتا۔ دراصل میرے کان ہندوستان ہی میں ان کے نام سے آشنا ہو چکے تھے۔ مخزن میں اکثر ان کی نظمیں شائع ہوا کرتیں۔ ان کے مطالعہ سے ان کی طبیعت کے ہیجان و طغیان کا پتہ چلتا تھا مگر اس زمانے میں چونکہ بساط ادب پر حالی 1؎، شبلی2؎، نذیر احمد3؎ وغیرہ کا قبضہ تھا اس لیے اقبال کی شخصیت کچھ ایسی جاذب توجہ نہ تھی کہ اس سے ملنے اور اس کی صحبت سے مستفید ہونے کی خواہش پیدا ہوتی۔ بہر صورت میں حصول تعلیم کے بعد جب ہندوستان واپس آیا تو سر عبدالقادر  نے لندن سے مجھے ایک خط میں لکھا کہ ان کے دوست شیخ محمد اقبال بھی انگلستان جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور انہوں نے ان کو لکھ بھیجا ہے کہ وہ چلنے سے قبل سفر اور قیام انگلستان کے متعلق ضروری معلومات مجھ سے حاصل کر لیں۔ چنانچہ چند دن بعد شمس العلماء مولوی سید ممتاز علی صاحب مرحوم کے ساتھ جو میرے پڑوسی تھے، اقبال میرے مکان پر تشریف لائے اور سید صاحب کے توسط سے جو ہم دونوں کے مشترک دوست بھی تھے، ہمارا تعارف ہوا۔ یہ میری اور اقبال کی پہلی ملاقات تھی۔
اقبال کی عمر اس وقت غالباً تیس کے قریب ہو گی۔ ان کے چہرہ کے خد و خال کی موزونیت، ان کے قد و قامت کا تناسب اور ان کے جسم کی ساخت انہیں انفرادی خصوصیات کی حامل تھیں، جن کی وجہ سے پنجابی ہر جگہ ممیز کیے جاتے ہیں۔ ان کے چہرے پر ایک ایسی بشاشت نظر آتی تھی جو آخر دم تک ان کے ساتھ رہی اور وفات کے بعد بھی ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ چھدری مونچھیں اور آنکھوں پر الجھے ہوئے ابرو عین اسی طرح تھے جس طرح میت کے آخری دیدار پر مجھے نظر آئے۔ میری ملاقات کے وقت ان کی روشن و بشاش آنکھیں صاف ظاہر کرتی تھیں کہ ان کے دن خوش وقتی اور اطمینان میں بسر ہو رہے ہیں۔ ان امور کے علاوہ اقبال کے چہرے یا ان کی حرکات و سکنات سے کوئی ایسی بات مترشح نہ ہوتی تھی جس سے میں اقبال کے متعلق یہ اندازہ لگا سکتا کہ کوئی دن جاتا ہے اس شخص کے افکار انسانی خیالات کی دنیا میں ہیجان و انقلاب کا موجب ہوں گے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ ملاقات کے دوران میں میرا خیال رہ رہ کر ان کی شاعرانہ حیثیت کی طرف منتقل ہوتا ۔
ہماری ملاقات مختصر اور رسمی تھی۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ وہ سوال کرتے رہے اور میں جواب دیتا رہا، یا یوں کہیے کہ وہ خاموشی سے سنتے رہے اور میں انگلستان کی زندگی کے متعلق اس قسم کے افسانے سناتا رہا جو ہمارے نوجوان اس ملک سے لوٹنے پر اپنی فتوحات کے سلسلے میں سنایا کرتے ہیں۔ چند دن بعد میں نے مولوی ممتاز علی صاحب مرحوم کی زبانی سنا کہ اقبال انگلستان روانہ ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد کم و بیش تین سال تک مجھے ان کے کوائف حالات سے کسی قسم کی کوئی خبر نہیں ملی، مگر ان کی واپسی سے کچھ عرصہ پیشتر میرے کانوں میں ان کا نام پھر پڑنے لگا اور وہ اس طرح کہ ضلع کی کچہری میں قانونی مشاغل کے بعد جب ذرا سستانے کی غرض سے شیخ گلاب دین اور مولوی احمد دین4؎ کے پاس بیٹھنا پڑتا تو اقبال کا تذکرہ بھی چھڑ جاتا۔ مولوی احمد دین مرحوم ڈاکٹر صاحب کی شخصیت سے بہت متاثر تھے جس کی وجہ سے وہ ڈاکٹر صاحب کا تذکرہ اس انہماک و شغف سے کرتے کہ مجھے بھی ان سے پھر ایک مرتبہ ملنے کی خواہش پیدا ہو گئی اور جب لاہور کے دوست ان کے استقبال کے لیے ریلوے سٹیشن پر گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ اقبال سے چند ماہ قبل شیخ عبدالقادر صاحب بھی مراجعت فرمائے وطن ہوئے تھے اور ان کے استقبال پر بھی میں موجود تھا مگر قدرتی طور پر اپنی شان اور چہل پہل کے لحاظ سے اقبال کا استقبال شیخ صاحب کے استقبال سے بہت کم درجے کا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ عبدالقادر مخزن کے ذریعہ لوگوں میں بہت محبوب تھے۔ اقبال کی حیثیت ابھی اردو دنیا میں نوارد کی تھی جس کی طبیعت کے لاتعداد جوہر آئندہ چل کر کھلنے والے تھے۔ ان کی واپسی پر بھاٹی دروازہ کے باہر بلدیہ کے باغ میں شیخ گلاب دین مرحوم نے ان کے اعزاز میں ایک دعوت دی۔ ڈیڑھ ایک سو آدمی شامل ہوئے اور دو تین اصحاب نے خیر مقدم کی نظمیں پڑھیں۔ دراصل اسی صحبت میں میرے اور اقبال کے دوستانہ تعلقات قائم ہوئے۔
پارٹی سے فارغ ہوتے ہی اقبال سیالکوٹ چلے گئے۔ چند دن بعد جب وہ واپس لاہور آئے تو پہلے پہل انہوں نے منشی گلاب سنگھ کے چھاپے خانے کے عقب میں چند کمرے رہائشی اور دفتر کے لیے کرایہ پر لیے۔ اس کے چند ماہ بعد وہ انار کلی میں وہاں اٹھ آئے جہاں کبھی میاں محمد شفیع مرحوم کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ میری رہائش ان دنوں چیمبرلین روڈ پر تھی۔ اس قرب مکانی کی وجہ سے ان سے ملنے جلنے میں مجھے اور بھی سہولت مہیا ہو گئی جس کی بنا پر کچہری سے فارغ ہونے کے بعد ہم ایک دوسرے کے مکان پر بھی کافی دیر ملتے۔ انہیں ایام میں میاں شاہنواز مرحوم بینی ہم میں آ ملے اور ہمارے ایسے جلیمں ہوئے کہ ان کے وقت کا اکثر حصہ ہمارے پاس بسر ہوتا۔ ڈاکٹر صاحب نے وکالت شروع کی تو انہوں نے ضلع کچہری پر چیف کورٹ کی ترجیح دی اور براہ راست وہیں پریکٹس شروع کی۔اسی دوران میں گورنمنٹ کالج لاہور کی طرف سے ان کی خدمت میں استدعا کی گئی کہ وہ طلباء کو فلسفہ پڑھا دیا کریں۔ پہلے تو ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ درس و تدریس کا یہ سلسلہ ان کے قانونی مشاغل میں ہارج ہو گا مگر گورنمنٹ کالج والے پہلے ہی سے اس جواب کے لیے تیار ہو کر آئے تھے، انہوں نے سیدھا چیف جج کو جا پکڑا اور اس سے حکم لکھوایا کہ ڈاکٹر صاحب کا کوئی مقدمہ 11بجے سے قبل پیش نہ ہوا کرے۔ کچھ عرصہ یہ مشغلہ بھی جاری رہا مگر بعد میں محکمہ تعلیم پنجاب نے ان سے درخواست کی کہ وہ وکالت سے کلی طور پر علیحدگی اختیار کر کے کالج میں شعبہ فلسفہ کی۔ کرسی کو زینت بخشتیں۔ اس ضمن میں انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو آئی ای ایس میں لے لینے کا بھی وعدہ کیا۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر صاحب آئی ای ایس کے کچھ اتنے مشتاق نہ تھے کہ وہ وکالت جیسا آزاد پیشہ ترک کر کے اپنے پاؤں میں بیڑی ڈال کر بیٹھ جاتے۔ انہوں نے دوستوں سے مشورہ کیا اور ہم سب نے یہی رائے دی کہ سرکاری ملازمت میں اول تو قوت عمل کے سلب ہونے کا احتمال ہے، دوسرے محکمہ تعلیم میں وسعت کے امکانات بہت محدود ہیں، چنانچہ اگر سرکاری ملازمت ہی پر نگاہ ہو تو وکالت ہی کیوں نہ رکھی جائے جس میں ترقی کے جملہ مدارج میں جج کا عہدہ بھی ہے۔ اس پر انہوں نے کالج سے تعلقات منقطع کر لیے اور وکالت پر اکتفا کی۔
اس زمانے میں بار روم میں ایسے افراد بکثرت تھے جو بعد کو جلیل القدر عہدوں پر فائز ہوئے اور حکومت کی نظر میں رفیع المرتبت خطابات کے مستحق ٹھہرے۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب لالہ شادی لال، مولوی شاہ دین، میاں محمد شفیع، میاں فضل حسین6؎، لالہ لاجپت رائے7؎، پنڈت شو نرائن شمیم اور دیگر کئی نامور وکلاء ابھی پریکٹس کے مدارج طے کر رہے تھے اور ان کی موجودگی نے بار روم کی رفعت ایسی بلند کر رکھی تھی کہ باید و شاید اقبال بھی اسی عہد میں بار روم میں داخل ہوئے۔ وہ اپنے مقدمات کی تیاری میں خاص انہماک سے کام لیتے اور بڑی محنت سے ان کو تیار کرتے۔ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں ظرافت کو بہت دخل تھا۔ وہ فارغ اوقات میں بار روم میں بیٹھ کر جب اپنی پر لطف باتوں اور ظریفانہ گفتگو کو شروع کرتے تو متعدد افراد ان کے گردا گرد جمع ہو جاتے۔ ہندوؤں میں پنڈت شو نرائن شمیم کو اقبال سے خاص انس تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں میں خاص دلچسپی لیتے۔ اس دوران میں میرے اور ڈاکٹر صاحب کے تعلقات بہت گہرے ہو چکے تھے۔ ہمارا معمول یہ تھا کہ دس بجے کے قریب ہم چیف کورٹ میں پہنچے۔ مقدمات کے شروع ہونے تک ادھر ادھر کی گپ چلتی اور جب کوئی مقدمہ ختم ہو جاتا تو دوسرے کے شروع ہونے تک پھر بار روم میں آ جاتے۔ منشی طاہر دین کی جیب میں قینچی کے سگرٹوں کی ڈبیا پڑی رہتی، ڈاکٹر صاحب سگرٹ سلگا کر کرسی پر بیٹھ جاتے اور لطائف و پر مذاق باتوں سے وقت کاٹتے۔ بعد میں تو یہاں تک نوبت پہنچی کہ اکثر عدالت عالیہ کے کام سے فارغ ہو کر وہ میرے ہمراہ میرے دفتر میں تشریف لے آتے اور رات دیر گئے تک میرے پاس ہی ٹھہرتے۔ انہیں ایام میں اقبال کی ملاقات نواب سر ذوالفقار علی خاں مرحوم8؎ کے ساتھ بھی ہو گئی اور اسی طرح سر جوگندر سنگھ جوگی سے مراسم قائم ہو گئے۔ ذوالفقار مرحوم، اقبال اور میں کبھی نواب صاحب کے دولت خانے پر اور کبھی میرے دفتر میں قریباً قریباً بلا ناغہ ملا کرتے۔ ہمارے باہمی تعلقات ایسے گہرے تھے کہ سر میاں محمد شفیع مرحوم و فضل حسین مرحوم ہمیںTrioاصحاب ثلاثہ کے نام سے یاد کیا کرتے۔ بعد میں اس ٹرایو میں شیخ اصغر علی صاحب (ریٹائرڈ فینانشل کمشنر پنجاب) کا بھی اضافہ ہو گیا، مگر انہیں ملازمت کی متعدد مصروفیات کی وجہ سے ملنے کا زیادہ وقت نہ ملتا۔ سر عبدالقادر صاحب بھی لائل پور جانے سے پہلے کبھی کبھی اس بزم کو رونق بخشا کرتے اور یوں یہ حلقہ احباب پھیل گیا اور اس کی دلکشی میں ایک گونہ اضافہ ہو گیا۔
اقبال انگلستان سے تشریف لائے تو ان کی عظمت ان کی جلیل القدر شاعری کی وجہ سے تھی۔ لوگ ان کے تبحر علمی اور حکیمانہ ژرف نگاہی سے واقف نہ تھے لیکن کچھ عرصہ بعد ایک جلسہ میں جو احمدیہ جماعت کی طرف سے جو ابھی قادیانی اور لاہوری پارٹی کے جھگڑوں میں نہ الجھی تھی، کیلیاں والی سڑک پر منعقد ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک پر مغز مقالے میں مذہب کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔ آپ کا مضمون انگریزی میں تھا جس کی زبان اس قدر عالمانہ تھی کہ ہر شخص کا فہم و ادراک اس کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ لوگوں کے دلوں پر ان کی بالغ نظری، عالمانہ استعداد اور فلسفیانہ لیاقت کا نہایت گہرا اثر ہوا اور وہ آئندہ کے لیے ایک جلیل القدر شاعر کے علاوہ ایک رفیع المرتبت عالم بھی سمجھے جانے لگے۔ اس طرح جب اقبال کی عالمانہ حیثیت کی طرف لوگوں کی آنکھیں کھلیں تو تمام حلقوں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ چنانچہ اس کے بعد جب کبھی کوئی سوشل اجتماع ہوتا تو مسئلہ صدارت میں بڑی کشمکش ہوتی۔ اس وقت تک میاں محمد شفیع مرحوم کا نام اس قسم کی مجالس کی صدارت کے لیے واحد طور پر پیش ہوا کرتا تھا، اب لوگ اقبال کی عظمت سے روشناس ہوئے تو ان کا نام بھی اعزاز کے لیے تجویز ہونے لگا اور شفیع مرحوم کے مقابلہ پر احمدیہ جماعت اقبال کا نام پیش کرتی، مگر ڈاکٹر صاحب کی اپنی کیفیت یہ تھی کہ وہ ایسے مواقع پر ہمیشہ اپنے دوست سر ذوالفقار علی خاں کے لیے کوشش کرتے۔ اسی کشمکش کی وجہ سے ان مجالس میں اچھی خاصی گرمی پیدا ہو جاتی اور صدارت کا مسئلہ بڑا دلچسپ رہتا۔
اس زمانہ میں پنجاب میں محض دو تحریکیں مسلمانوں کی توجہ کا مرکز تھیں۔ ایک مذہبی دوسری، سیاسی، مذہبی تحریک مرزا غلام احمد صاحب کی تھی اور سیاسی مسلم لیگ کے نام سے موسوم تھی۔ یہ دونوں تحریکیں اپنی نوعیت کے لحاظ سے اس زمانے کے تمام پڑھے لکھے مسلمانوں کی جملہ توجہات کا مرکز تھیں لہٰذا قدرتی طور پر ان دونوں تحریکوں نے ڈاکٹر صاحب کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔ جہاں تک مرزا صاحب کی تحریک کا تعلق تھا، اقبال نے اس کا مطالعہ کیا لیکن اس کے مطالعہ کے باوجود انہوں نے اس وقت اس تحریک سے اپنی بیزاری کا وہ اظہار نہیں فرمایا جو بعد کو انہوں نے نظم اور نثر دونوں میں شدت سے کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس زمانے سر سید علیہ الرحمتہ کی تعلیم کا بہت چرچا تھا۔ جن افراد کی نظروں میں سرسید جیسے بزرگ کی انقلاب انگیز تحریریں رہتی تھیں ان کے لیے مرزا غلام احمد صاحب کے خیالات کچھ زیادہ اہم نہ تھے۔ میں چونکہ سرسید کا مداح اور طالب علم تھا اس لیے مذہبی بحثوں کے دوران میں میرے اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان ان کی آراء و افکار کا تذکرہ آ جاتا ہے۔ جہاں تک سرسید کے خیالات میں اصلاح کا پہلو تھا، وہ سرسید کے مداح تھے لیکن جہاں تک ان کی تفسیر9؎ کا تعلق ہے وہ اس سے اپنے اختلاف کا اظہار کیے بغیرنہیں رہ سکتے۔ چنانچہ ایسے مواقع پر میں ان سے ہمیشہ یہی کہا کرتا کہ وہ متنازعہ نکات کی وضاحت کی خاطر قرآن پاک کی تفسیر خود کیوں نہیں لکھتے۔ اس امر پر انہوں نے کئی مرتبہ آمادگی کا اظہار فرمایا مگر جب وقت، اچھی لائبریری اور ضروری مواد کے فقدان کا خیال آتا تو وہ مایوس ہو جاتے۔ میں سیاسی مسائل میں ڈاکٹر صاحب کا ہم خیال تھا۔ ان کی طرح میرا بھی یہی ایمان تھا کہ مسلمان کسی دوسری سیاسی جماعت میں مدغم ہو کر اپنی ملی حیثیت کو کھو دینے کی بجائے اپنی سیاسی تنظیم کے لیے خود کوشش کریں۔ چنانچہ اپنے زمانہ طالب علمی میں ہم نے لندن میں انہیں مقاصد کے پیش نظر پان اسلامک سوسائٹی10؎ کے نام سے ایک نیم سیاسی انجمن قائم کر رکھی تھی جس کے جنرل سیکرٹری سر عبداللہ سہروردی تھے اور سر سلطان احمد اور میں جائنٹ سیکرٹریز تھے۔ میری واپسی کے بعد جب اقبال وہاں پہنچے تو یہ سوسائٹی قائم تھی۔ تعلیم سے فارغ ہو کر جب وہ وطن واپس آئے تو صوبائی مسلم لیگ کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ اس لیگ کے صدر مولوی شاہ دین مرحوم تھے، سر محمد شفیع سیکرٹری تھے اور میں اسسٹنٹ سیکرٹری۔ اقبال آئے تو قدرتی طور پر لیگ کی جاذبیت نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا اور وہ بھی ہمارے ساتھ اس میں شریک ہو گئے۔ لیگ کے خیالات تو خیر ماڈریٹ تھے مگر اس زمانے کی کانگرس بھی کچھ اتنی انتہا پسند نہ تھی پھر بھی حکیم محمد اجمل خاں صاحب مرحوم11؎ جو کانگرس کے بہت بڑے حامی تھے جب کبھی لاہور یا شملہ تشریف لاتے تو سیاسی مسائل پر ان سے ڈاکٹر صاحب کی بڑی گرما گرم بحث ہوتی جو کئی کئی گھنٹوں تک جاری رہتی اور جس کے دوران میں ڈاکٹر صاحب کی بذلہ سنج اور ظرافت پرور طبیعت کے جوہر کھلتے۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب سیاسیات میں عملی طور پر کبھی داخل نہیں ہوئے، کیونکہ ان کی طبیعت اس زحمت سے ہمیشہ نفور رہی۔ گو وہ پہلے اور پھر اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل لیگ کے رکن تھے، مگر ان کی طبیعت کو فطری طور پر سیاست سے مناسبت نہ تھی، نہ انہوں نے اپنی زندگی بھر میں کبھی سیاسی قائد بننے کی کوشش کی ان کا خیال تھا کہ سیاسیات ہندی اپنی نوعیت کے لحاظ سے مایوس کن ہیں۔ غیر ملکی حکومت کے ارباب قضا و قدر سے جو سات سمندر پار بیٹھ کر اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، کسی قسم کے سیاسی ہنگامے سے متاثر ہونے کی کم امید ہے اور جب تک ہندوستان کی حکومت کا سرچشمہ انگریز ہے مسلمان اپنے مفاد کے لیے اس سے کچھ نہیں پا سکتا اور اس کی تمام جدوجہد اپنے مفید جوہر کو رائگاں کرنے کے مترادف ہے۔ چنانچہ وہ ایسی سیاسی قیادت کو سوائے وقتی شور و شغب کے اور کچھ نہ سمجھتے۔ بلکہ وہ اس سلسلے میں اس قدر مایوس تھے کہ انجمن حمایت اسلام جیسے ادارے اور اسلامیہ کالج جیسے دار العلوم کی مجلس انتظامیہ کے صدر ہونے کے باوجود ان کی کارروائیوں سے بڑی بے رخی برتتے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حکومت سے امداد لینے کی وجہ سے دونوں کا دائرہ عمل محدود ہو چکا ہے اور ان اداروں کی ترقی کے لیے کسی نئے لائحہ عمل کا تجویز کرنا نا ممکن ہے۔ اقبال کا تفکر و تدبر محض اسی اسلامی سیاست تک محدود تھا، جس کا ذکر کلام پاک میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ اسی سیاست کو انہوں نے اپنا موضوع سخن بنایا اور اسی نکتہ پر ان کے خیالات ابتدا سے آخر تک مرکوز رہے اور یہ نکتہ وحدت ملی تھا۔ اس کے سوا وہ کسی اور سیاست کو درخور اعتنا تصور نہ کرتے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ ان کو سیاست ہندی سے کس قدر لگاؤ ہو سکتا تھا۔ چنانچہ جب کئی سال بعد کونسل کی رکنیت کے لیے انہیں آمادہ کیا گیا تو ان کے مشیران کار اس امر کو نظر انداز کر گئے کہ اقبال کی طبیعت کو اس جنس سے کوئی نسبت نہیں۔ لہٰذا نتیجہ اتنا ہی حوصلہ شکن اور مایوس کن تھا جتنی توقع تھی۔ شاید سیاست میں وہی شخص کامیاب ہو سکتا ہے جو کام خواہ کم کرے مگر باتیں زیادہ بنائے۔ اقبال اول تو ابن الوقت نہ تھے، دوم وہ ایسی سیاست پر اپنا وقت ضائع کرنا عقلمندی تصور نہ کرتے تھے۔ جس کا ماحصل سوائے چند تقریروں کے اور کچھ نہ ہو۔ اس مقام پر سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر معاملہ ایسا ہی تھا تو پھر اقبال رکنیت کے لیے کیوں کھڑے ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں کونسل کی رکنیت کو آئندہ ترقی کے لیے ایک زینہ سمجھا جاتا تھا اور ڈاکٹر صاحب بھی فطری طور پر ترقی کی خواہش سے بے نیاز نہ تھے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے اصرار نے بھی انہیں اس کام پر آمادہ کیا۔ جہاں تک فلسفیانہ کاوش اور شعر و سخن کا تعلق تھا، ڈاکٹر صاحب کے رفیع المرتبت دماغ میں اس قدر ذکاوت اور ان کے فکر بلیغ میں اس قدر رسائی تھی کہ ان کے جملہ ادراک مافوق الفطرت تھے اور ان کے متعلق آج کچھ کہنا گویا سورج کو چراغ دکھانا ہے مگر اپنے ذاتی معاملات کے متعلق رائے قائم کرنے میں ڈاکٹر صاحب بالکل بے بس تھے اور ان کا عجز صاف نظر آنے لگتا۔ چنانچہ وہ اس ضمن میں معمولی سے معمولی لوگوں کی طرف رجوع کرتے اور ان کی آراء کے عیب و صواب کو جانچے بغیر ان پر عمل پیرا ہونے تک تامل نہ فرماتے۔ نتیجہ یہ کہ ڈاکٹر صاحب اپنے معاملات انہیں پر چھوڑ دینے کے عادی سے ہو گئے۔ ان کا یہ طرز عمل ان کے دیرینہ دوستوں کو پسند نہ تھا۔ چنانچہ کچھ تو خود پیچھے ہٹ گئے اور بعض کے متعلق انہیں حضرات کی مساعی سے ڈاکٹر صاحب کے دل میں غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔ جو آخر وقت تک رفع نہ ہو سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنی تمام تر قابلیتوں کے باوجود مردم شناسی میں مشاق نہ تھے، ورنہ وہ اپنی مجلس میں بیٹھنے والے لاتعداد افراد میں سے جوہر قابل کو ضرور تلاش کر لیتے اور اپنے بعد انہیں بھی سرسید علیہ الرحمتہ کی طرح کام کرنے والوں کی ایک ایسی جماعت مل جاتی جو ان کی جلیل القدر تعلیم کے علم کو بلند رکھتی اور ان کے فیضان کا سلسلہ بدستور جاری رہتا۔
میں ابتدا سے الیکشن کے خلاف تھا۔ مجھے علم تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت کو اس قسم کی سیاست سے کوئی لگاؤ نہیں۔ مبداء فیاض سے جو طبیعت ان کو عطا ہوئی وہ اس قسم کی ہنگامہ خیزیوں سے مایوس نہیں ہو سکتی۔ لیکن جب وہ الیکشن کے لیے بالکل آمادہ ہو گئے تو ہمیں یہ خیال گزرا کہ اگر وہ کونسل میں جانا ہی چاہیں، تو کم از کم انہیں بلا مقابلہ منتخب کیا جائے۔ اس زمانے تک ڈاکٹر صاحب کا شہرہ دور تک پہنچ چکا تھا اور ان کا نام خاص احترام کا مستحق تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ڈاکٹر صاحب کے مقابلے پر خان بہادر ملک محمد دین کھڑے ہو گئے۔ اس افسوسناک واقعہ سے ہندوؤں میں مسلمانوں کی جس قدر سبکی ہوئی وہ محتاج توضیع نہیں اور ستم یہ تھا کہ ملک صاحب کے کارکنوں میں اکثر افراد ایسے تھے جو ڈاکٹر صاحب کی عظمت سے نا آشنا نہ تھے بلکہ ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور محرم علی چشتی12؎ جیسے باخبر حضرات ان کے کام کرنے والوں میں سے تھے اور سب پر مستزاد یہ کہ ڈاکٹر صاحب کو بہ نفس نفیس ووٹ طلبی کی خاطر اکثر شہر کے محلوں اور کوچوں میں لے جایا گیا یہ سب باتیں ان کی بے نیاز طبیعت کے منافی تھیں۔ لیکن جب ان کو رکنیت کے لیے کھڑا کر ہی دیا گیا تھا تو وہ کیا کرتے۔ خیر جب انتخاب کے بعد اقبال کونسل میں گئے تو اس کی کارروائیوں سے انہوں نے اسی بے رخی سے کام لیا جو ان کا معمول تھی۔ اس پر ان کے متعلق طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں او ران پر غیر عملیا ور تساہل پسند ہونے کا الزام دیا جانے لگا۔ اول تو اقبال ان معنوں میں عملی انسان ہی نہ تھے کہ وہ زبان سے جن خیالات کا اظہار فرماتے، جھٹ ان پر عمل کر کے دکھا بھی دیتے۔ دوسرے کسی شاعر کے قول و عمل میں تطابق۔۔۔۔۔ کچھ اتنا ضروری بھی نہیں۔ تیسرے ڈاکٹر صاحب محض اپنے آپ کو عملی ثابت کرنے کی نیت سے زیادہ باتیں بنانا بھی نہ جانتے تھے۔ چنانچہ جو لوگ ان پر بے عمل ہونے کا الزام دیتے ہیں، وہ انہیں لوگوں کی طرح غلطی پر ہیں جو اقبال کو محض شاعر ہی تصور کرتے ہیں اور ان کے افکار کو شعر و سخن کے مقررہ قواعد سے جانچ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اقبال نہ محض شاعر تھا نہ سیاسی لیڈر بلکہ ایک اسلامی فلاسفر یہ معاملہ دوسرا ہے کہ اس نے اپنے افکار کے اظہار کے لیے نثر کی بجائے نظم کو انتخاب کیا؟ اس صنف ادب کو بھی وہ جان بخشی کہ باید و شاید۔
خیر بات کہیں کی کہیں جا نکلی؟ میں بتا رہا تھا کہ اقبال کی واپسی پر پنجاب میں کون سی تحریکیں کام کر رہی تھیں اور قصہ چھڑ گیا ان کے انتخاب کا، بہر صورت اقبال ہر شام بلاناغہ میرے ہاں تشریف لاتے۔ ان کو راگ رنگ کا بہت شوق تھا۔ میرے مکان پر چونکہ رقص و سرود کی محفلیں اکثر جما کرتیں، اس لیے وہ ان مجالس میں بڑی رغبت سے شمولیت فرماتے۔ میں نے دیکھا کہ بعض اوقات رقص و سرود ہی کے دوران میں آپ اپنی کسی نظم کی بنیاد رکھ دیتے۔ گانا جاری ہوتا کہ اقبال کا قلب جذبات سے متاثر ہونے لگتا اور وہ ایک دھیمی آواز میں گنگنانا شروع کر دیتے جس کے ساتھ ساتھ اپنے داہنے زانو کو ہاتھ سے تھپکتے جاتے۔ اس کیفیت کے آشکارا ہوتے ہی ارباب نشاط کو فی الفور گانے سے بند کر دیا جاتا اور ہم ہمہ تن گوش ہو کر اقبال کی آواز کی طرف متوجہ ہو جاتے جو آہستہ آہستہ بلند ہوتی جاتی۔ سازندے جو اقبال کی طبیعت سے واقف ہو چکے تھے، نہایت مدھم سروں میں ایک خاص قسم کی تال سی دیتے تھے، جس کے ساتھ وہ اپنی ایک مخصوص لے میں جس کی دلکشی کا اظہار الفاظ میں ادا نہیں ہو سکتا اپنے اشعار پڑھنا شروع کر دیتے۔ ان کی آواز سازوں کی ہم آہنگی کی وجہ سے کچھ ایسی دلنواز ہو جاتی کہ ایک سماں سا بندھ جاتا۔۔۔۔ ان کے پڑھنے کے بعد چونکہ پھر گانے کی مجلس کا لطف قائم نہیں رہ سکتا تھا، اس لیے گویوں کو رخصت کر دیا جاتا۔
’’یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے‘‘
والی نظم کی بنیاد بھی ایک ایسی ہی مجلس میں رکھی گئی تھی اور ملی ترانے کا پہلا شعر بھی اسی حالت میں موزوں ہوا تھا۔ اس میں کلام نہیں کہ اقبال کے کلام کا بیشتر حصہ شب کی تنہائی میں مرتب ہوتا تھا، مگر ایسی صحبتوں میں ڈاکٹر صاحب کی طبیعت جوش پر آ جاتی۔ میری ملاقات سے پیشتر مولوی احمد دین صاحب نے کئی ایسے مواقع کا مشاہدہ کیا۔ مجھے خود سر عبدالقادر نے بتایا کہ اقبال ایک ایک وقت میں سو سو شعر کہہ چکے ہیں اور اس کیفیت کے پیش نظر مجھ سے سر عبدالقادر نے کئی مرتبہ یہ بھی فرمایا کہ چونکہ اقبال کے وقت کا اکثر حصہ میرے پاس بسر ہوتا ہے، اس لیے میں تمام ایسے مواقع پر ان کے اشعار و افکار کو قلمبند کر لیا کروں تاکہ یہ چیزیں محفوظ ہو جائیں۔ لیکن مجھے حد درجہ صدمہ ہے کہ میں نے شیخ صاحب کے مشورے پر عمل نہیں کیا۔ ورنہ کئی ایسی باتیں معرض نوشت میں آ جاتیں جن سے اقبال کی شخصیت کو سمجھنے میں بہت سی مدد ملتی۔ اقبال کی نگاہ میں اس قدر بصیرت تھی کہ وہ معمولی سے معمولی واقعات سے بھی فلسفے کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال لیتے۔ مثلاً ایک مرتبہ سر ذوالفقار علی خاں، سر جوگندر سنگھ اور میں اقبال کے ساتھ نواب صاحب کی موٹر میں شالا مار کی طرف سیر کو نکلے۔ اس زمانے میں موٹر سازی کی صنعت ابھی تکمیل پذیر نہ ہوئی تھی، اس لیے موٹریں چلنے کے دوران میں اچھا خاصہ شور پیدا کرتیں۔ مگر نواب صاحب کی موٹر چونکہ بیش قیمت تھی، اس لیے اس میں یہ نقص بڑی حد تک غائب تھا۔ چنانچہ سر جوگندر سنگھ نے از راہ حیرت کہا کہ نواب صاحب کی موٹر کس قدر خاموش واقع ہوئی ہے۔ بظاہر یہ بات کوئی ایسے پتے کی نہ تھی کہ اقبال اس سے یوں متاثر ہو جاتے کہ وہ اسی فقرے پر اپنی نظم کی بنیاد رکھ دیتے، لیکن ’’ بانگ درا‘‘ میں ’’ موٹر‘‘ 12؎ کے عنوان سے جو نظم ہے اس کا مطالعہ فرمائیے اور اقبال کی فلسفہ طراز طبیعت کا اندازہ لگائیے۔ غرض کہ اقبال کے کلام میں متعدد ایسی نظمیں ملتی ہیں جو اکثر نہایت معمولی واقعات سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہیں اگر ان واقعات کو قلمبند کر لیا جاتا تو شاید ان سے بہت سی مفید باتیں نکل سکتیں۔
ڈاکٹر صاحب اپنے خاص دوستوں کی صحبت میں عموماً عاپنے تازہ اشعار بلا کسی فرمائش کے خود بخود سنا دیا کرتے۔ مگر جس زمانے میں وہ’’ شکوہ‘‘ لکھ رہے تھے انہوں نے البتہ حد درجہ خاموشی سے کام لیا۔ جس شام انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ میں فقیر سید افتخار الدین مرحوم کی صدارت میں آپ یہ نظم سنانے والے تھے، اسی شام آپ اپنے والد صاحب کے ہمراہ میرے ہاں مدعو تھے۔ ہم کھانا ختم کر رہے تھے کہ انجمن کے سیکرٹری صاحب معہ چند اراکین کے ہانپتے ہوئے تشریف لائے اور پریشانی کی حالت میں کہنے لگے کہ نظم کا وقت شروع ہونے والا ہے اور سامعین شدت سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب فی الفور اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم سمجھ گئے کہ اس مرتبہ کوئی معرکہ آرا نظم ہو گی جس کے لیے اس قدر پردہ داری سے کام لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب پنڈال میں داخل ہوئے تو ہمیشہ کی طرح اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں میں ان کا خیر مقدم کیا گیا۔ اس کے بعد نالیوں کے شور میں ڈاکٹر صاحب نظم سنانے کے لیے اٹھے اور یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ جب آپ نے پڑھنا شروع کیا تو جلسہ پر رقت کی کیا کیفیت طاری ہوئی۔
عام طور پر شعر سنانے کے معاملے میں ڈاکٹر صاحب حد درجہ محتاط تھے۔ انہیں اپنی طبیعت کے سوا کوئی شے اس امر کے لیے مجبور نہ کر سکتی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے خاص دوستوں کے سوا کسی کو نظم نہ سناتے، البتہ حکیم محمد اجمل خاں اور نواب سر ذوالفقار علی خاں دو دوست ایسے تھے کہ ان کو یہ رعایت حاصل تھی کہ ان کی فرمائش ڈاکٹر صاحب رد نہ فرماتے تھے،مگر وہ بھی ڈاکٹر صاحب کی طبیعت سے واقف تھے، اس لیے کبھی بے جا اصرار نہ کرتے۔ ایک دفعہ لاہور میں پراونشل مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے لیے راجہ نوشاد علی تعلقہ دار اودھ تشریف لائے ہوئے تھے اور سر محمد شفیع کے ہاں قیام پذیر تھے۔ جلسہ میں اقبال، سر عبدالقادر کے ساتھ میں بھی موجود تھا۔ کارروائی سے فراغت پا کر ہم سب راجہ صاحب کے ساتھ چائے پی رہے تھے کہ راجہ صاحب نے برسبیل تذکرہ کہا کہ ہم سنا کرتے تھے کہ پنجاب کے لوگ زندہ دل ہوتے ہیں، مگر میں نے تو یہاں کوئی زندہ دلی نہیں دیکھی۔ شیخ صاحب نے فرمایا کہ آپ غلط جگہ پر ٹھہرے ہوئے ہیں؟ خیر لیجئے ہم اس کا ابھی انتظام کیے دیتے ہیں اور انہوں نے مجھے اشارہ کیا کہ لو بھئی کل یہ شکایت بھی رفع ہو جائے۔ میں نے دوسرے دن رقص و سرود کا سامان کیا اور راجہ صاحب کو معہ دیگر احباب کے مدعو کیا۔ ہر چند لاہور کی نامور طوائف بلائی گئی تھیں، مگر لکھنو کا لطف کہاں؟ تھوڑی دیر کے بعد راجہ صاحب نے گانا بندکرا دیا اور اقبال سے فرمائش کی کہ وہ ترنم کے ساتھ کچھ سنائیں۔ ہر چا انہوں نے اصرار کیا مگر ڈاکٹر صاحب صاف انکار کر گئے۔ اس سے جلسہ میں بدمزگی سی پیدا ہو گئی۔ جب سب لوگ اٹھ کر چلے گئے تو ڈاکٹر صاحب مجھ سے کہنے لگے:’’ جو لوگ اپنی وجاہت کے بھروسے پر میری نظم سننا چاہتے ہیں وہ میرے سامعین میں سے نہیں۔‘‘
جس صحبت میں سر عبدالقادر یا گرامی مرحوم ہوتے اقبال اپنی نظم کے دوران میں لطافت سخن اور رفعت تخیل کی طرف خاص طور پر توجہ دلایا کرتے۔ گرامی مرحوم کی موجودگی میں اشعار کا خاص لطف آتا کہ دونوں استاد ان فن ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے۔
اقبال دیگر اساتذہ کے شعر و سخن کے بھی بہت دلدادہ تھے۔ خواجہ حالی مرحوم کے مسدس کے تو عاشق تھے۔ میرے پاس ریاست ٹونک کا ایک شائستہ مذاق شخص ملازم تھا۔ اسے ستار بجانے میں خاصی دسترس تھی اور وہ مسدس حالی ستار پر ایک خاص طرز کے ساتھ سنایا کرتا۔ ڈاکٹر صاحب التزام کے ساتھ ہر دوسرے تیسرے اس سے مسدس سننے کی خواہش کرتے۔ حضور سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تعریف میں وہ بند جو:
’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘
سے شروع ہوتے ہیں یا جو مسدس حالی کے آخر میں ہیں انہیں بطور خاص مرغوب تھے۔ ان کو سنتے ہی ان کا دل بھر آتا اور وہ اکثر بے اختیار رو پڑتے۔ اسی طرح اگر کوئی عمدہ نعت سنائی جاتی تو ان کی آنکھیں ضرور پر نم ہو جاتیں۔ حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ انہیں جو وابستگی تھی اسی کی وجہ سے انہیں اولیائے کرام سے بھی خاص عقیدت تھی اور وہ ان کے مزارات پر اکثر حاضر ہوا کرتے۔ لاہور میں حضرت علی ہجویریؒ 14؎ اور شاہ محمد غوث15؎ کے مزارات پر اکثر جاتے اور اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار فرماتے۔ وہ پیشہ ور پیروں کے ہمیشہ خلاف رہے، لیکن اگر انہیں کوئی مرد کامل نظر آ جاتا تو وہ ضرور اس کی طرف متوجہ ہوتے۔ ایک مرتبہ پانی پت کے چند اشخاص نے مجھے اپنے مقدمہ میں وکیل کیا۔ یہ اصحاب حضرت خواجہ غوث علی شاہ صاحب قلندر پانی پتی کے سجادہ نشین حضرت سید گل حسن شاہ صاحب مصنف تذکرہ غوثیہ کے مرید تھے۔ اس زمانے میں شاہ صاحب کی روحانیت کا بہت شہرہ تھا۔ میرے موکل جب لوٹنے لگے تو میں نے شاہ صاحب کو سلام بھیجا اورکہلا بھیجا کہ کبھی پانی پت کی طرف آنے کا موقع ملا تو ضرور حاضر خدمت ہوں گا۔ دو تین ماہ بعد ایک دن اچانک انہیں اصحاب میں سے ایک صاحب میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے:’’ لو شاہ صاحب خود ہی تشریف لے آئے ہیں۔ ان دنوں وہ امرتسر میں مقیم ہیں اگر تم ان سے ملنا چاہو تو میرے ساتھ چلو‘‘ میں نے شاہ صاحب کے جائے قیام کا پتہ دریافت کر کے انہیں تو رخصت کیا اور خود ڈاکٹر صاحب کے ہاں پہنچا۔ وہ بھی چلنے کو تیار ہو گئے۔ اتنے میں سر ذوالفقار علی خاں تشریف لے آئے اور ہم تینوں ٹرین پر سوار ہو کر امرتسر پہنچے۔ راستے میں یہ طے پایا کہ شاہ صاحب پر سر اقبال اور سر ذوالفقار کی شخصیت کا اظہار نہ کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ دیکھنا مطلوب تھا، آیا شاہ صاحب بھی اپنے کشف سے ان کی شخصیت کو تاڑ لیتے ہیں16؎ یا نہیں۔ ہم شاہ صاحب کے پاس پہنچے تو میرے موکلوں میں سے ایک نے میرا تعارف کرایا اور میں نے اپنے رفقاء کو شیخ صاحب اور خان صاحب کے مختصر ناموں کے ساتھ پیش کیا۔ دوران گفتگو میں شاہ صاحب نے دریافت کیا:’’ آپ میں سے کوئی صاحب شعر بھی کہتے ہیں؟‘‘ یہ سوال اپنی تمام تر سادگی کے باوجود ہمارے لیے حد درجہ اہم تھا اس لیے نواب صاحب اور میں کنکھیوں سے اقبال کی طرف دیکھنے لگے۔ نواب صاحب نے ٹال دینے کی نیت سے جواب دیا:’’ شاہ صاحب جہاں تک شعر سے لطف اندوز ہونے کا تعلق ہے ہم بھی اہل پنجاب کی ادبی روایات کے تھوڑے بہت حامل ضرور ہیں۔‘‘ مگر شاہ صاحب اس جواب سے مطمئن نہ ہوئے، کہنے لگے جس طرح پھول کی خوشبو خود بخود انسان کے دماغ تک پہنچ جاتی ہے مجھے بھی یوں محسوس ہو رہا ہے گویا آپ میں سے کوئی صاحب شاعر ضرور ہیں۔ اتنے میں اندر سے کسی کی آواز آئی:’’ ارے یہ کہیں ذوالفقار تو نہیں بول رہے؟‘‘ نواب صاحب سٹپٹا گئے کہ ان کا راز کیسے کھل گیا۔ معلوم ہوا۔ راجہ۔۔۔۔۔ (نام یاد نہیں رہاـ) تعلقہ دار یو پی جو شاہ صاحب کے مرید اور نواب صاحب کے دوست تھے اور اپنے علاج کے سلسلے میں اپنے پیر صاحب کے ہمراہ امرتسر آئے ہوئے تھے، اندر لیٹے ہیں۔ انہوں نے نواب صاحب کی آواز فوراً پہچان لی اور نواب صاحب کا راز طشت از بام کر دیا۔ اب میرے لیے بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ میں نے پشیمانی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا نام شاہ صاحب کو بتایا۔ ڈاکٹر صاحب کا نام سن کر مسکرانے لگے، پھر بولے میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ آپ میں سے یہی حضرت شاعر ہیں۔ اس کے بعد دیر تک ڈاکٹر صاحب کی نظموں کے متعلق شاہ صاحب اپنے خیالات کا اظہار فرماتے رہے۔ ہم چلنے کی نیت سے اٹھنے لگے تو اقبال نے شاہ صاحب سے کہا کہ وہ عرصہ سے سنگ گردہ کے مریض ہیں، وہ ان کے لیے دعا کریں کہ انہیں اس شکایت سے نجات ملے۔ شاہ صاحب کہنے لگے:’’ بہت اچھا، لیجئے میں آپ کے لیے دعا کرتا ہوں، آپ بھی ہاتھ اٹھائیں‘‘ دعا کے بعد ہم نے اجازت لی اور لاہور کی ٹرین میں سوار ہو گئے۔ راستے میں ڈاکٹر صاحب پیشاب کی نیت سے غسل خانے میں تشریف لے گئے۔ واپس آئے تو ان کے چہرے پر حیرت و استعجاب کے آثار نظر آ رہے تھے، کہنے لگے:’’ عجب اتفاق ہوا ہے، پیشاب کے دوران میں مجھے یوں محسوس ہوا، گویا ایک چھوٹا سا سنگ ریزہ پیشاب کے ساتھ خارج ہو گیا ہے۔ مجھے اس کے گرنے کی آواز تک سنائی دی اور اس کے خارج ہوتے ہی طبیعت کی ساری گرانی جاتی رہی۔‘‘
اکثر مجالس میں ڈاکٹر صاحب سے قرآن حکیم کے رموز سننے کا بھی ہمیں موقع ملتا۔ وہ فقہ 17؎ میں کسی خاص سکول کے پابند نہ تھے، گو عام طور پر لوگ انہیں سنی ہی سمجھتے رہے ہیں اور وہ اپنے امور میں اہل سنت ہی کے شعار کے پابند تھے۔ مسائل شرعی میں وہ بڑی آزاد خیالی کے ساتھ گفتگو فرمایا کرتے اور دوران بحث میں کہا کرتے خدا کا ارشاد ہے فتفکروا و تدبروا18؎ اجتہاد ہر شخص کا فطری حق ہے اور وہ ساری عمر اسی پر عمل پیرا رہے۔ اقبال مذہبی لٹریچر کا بہت وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ جب وہ کسی مذہبی مسئلہ پر اظہار خیال فرماتے تو معلوم ہوتا کہ موضوع زیر بحث پر کوئی کتاب یا رسالہ ان کی نظر سے نہیں بچا۔ وہ اپنے خیالات کو اس خوبی سے پیش کرتے کہ سننے والا ان کے تبحر علمی سے مرعوب ہوئے بغیر رہ نہ سکتا۔ ان کا استدلال ایسا جامع ہوتا کہ مخالف پر ہر طرح کی حجت پوری ہو جاتی اور اس کے لیے انحراف کی کوئی گنجائش باقی نہ رہتی۔ ان کے انداز بیان میں ایک ایسی قدرت تھی کہ وہ فرسودہ سے فرسودہ مسائل میں بھی کوئی نہ کوئی نیا نکتہ پیدا کر کے دکھا دیتے اور باخبر سے باخبر سننے والے کو بھی یوں معلوم ہوتا گویا یہ بات پہلے اس کے مطالعہ میں کبھی آئی نہ تھی، مگر اپنی اس عالمانہ شان کے باوجود اقبال کبھی تعلی کی نہ لیتے۔ میں نے انہیں کبھی اپنی وسیع معلومات سے اپنے پاس بیٹھنے والوں پر رعب ڈالتے ہوئے نہیں دیکھا۔
مجھے ابتداء سے مذہبی باتوں میں بہت توغل تھا۔ سرسید19؎ کی تعلیم نے تو اس تشنگی کو جنون میں تبدیل کر دیا تھا۔ چنانچہ میرے اور اقبال کے درمیان فراغت کے ایام میں اکثر مذہبی بحث چھڑ جاتی، بلکہ میں ان کے تبحر علمی سے مستفید ہونے کی خاطر ان سے بحث چھیڑ لیتا جس کے دوران میں ان کے ساتھ آیات محکمات و متشابہات اور ولادت مسیح ؑ، ظہور مہدی، جبر و اختیار، جزا و سزا وغیرہ جیسے متنازعہ مسائل پر میرا ان کے ساتھ تبادلہ خیال ہوتا اور وہ ان مسائل کی اس شرح و بسط کے ساتھ وضاحت فرماتے کہ اگر میں ان کے آرا و افکار کو ساتھ ساتھ قلمبند کرتا رہتا تو آج مذہبی مسائل پر ایک ضخیم و جامع دفتر تیار ہو جاتا۔ ڈاکٹر صاحب کی وسعت معلومات کو دیکھ کر مجھے کئی مرتبہ خیال گزرتا کہ اگر وہ شعر و سخن اور فلسفیانہ غور و فکر کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے مذہبی مسائل کی تشریح کی طرف توجہ دیتے تو وہ اپنے وقت کے بہت بڑے مذہبی پیشوا ہوتے، اسی خیال کے پیش نظر میں نے کئی مرتبہ ڈاکٹر صاحب سے استدعا کی کہ قرآن حکیم کی تفسیر لکھیں اور ا س میں کلام نہیں کہ اگر وہ تفسیر لکھتے تو وہ یقینا بہترین ہوتی۔
ڈاکٹر صاحب کے ذہن میں علوم اسلامی کی نشر و اشاعت کا خیال ہمیشہ رہا۔ وہ مجھ سے فرمایا کرتے کہ اگر حالات مساعدت کرتے تو وہ ایک اسلامی دار الاشاعت کی طرح ڈالتے جو اسلامی فلسفہ و تعلیم کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچانے کی سعی کرتا۔ وہ کہا کرتے کہ علوم اسلامی کے متعدد اوراق ایسے ہیں، جن کی اشاعت اس زمانے کے لیے از بس ضروری ہے۔ انہوں نے کئی مرتبہ ایک ایسی اسلامی لائبریری کی ضرورت کو بھی شدت سے محسوس کیا جہاں مذہب کے متعلق تمام ضروری کتابیں مہیا ہوںَ اسی طرح وہ ایک ایسے اسلامی ادارے کے قیام کے بھی خواہش مند تھے جس کے توسط سے علوم اسلامی کا احیا ہو۔۔۔۔ انہوں نے کئی مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ اگر کہیں سے زمین اور اخراجات کا انتظام ہو سکتا تو وہ اپنی دیرینہ آرزو کو عملی شکل دیتے۔ ملاؤں20؎ کے طائفہ نے اسلامی ترقی کو ہندوستان میںجس قدر ضعف پہنچایا ہے، اس پر ان کا دل ہمیشہ جلتا۔۔۔ وہ ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اپنے ذہن میں ایک سکیم تیار کر رہے تھے، بلکہ آخری دنوں میں انہوں نے اعلیٰ حضرت سرکار بہاولپور کی خدمت میں اسی سکیم کے بارے میں ایک خط بھی ارسال کیا۔ ان کے اس ارادے کی تجویز نے خود مجھ پر اس قدر اثر کیا کہ میں نے بہاولپور میں اس کی سرپرستی کا انتظام کرنا چاہا، بلکہ بہاول نگر کے گرد و نواح کو اس کام کے لیے اپنے ذہن میں منتخب بھی کر لیا۔ جن دنوں وہ بیمار تھے، میں کرنل مقبول حسین قریشی21؎ وزیر بہاولپور کے ساتھ ان کی خدمت میں پہنچا اور میں نے انہیں بتلایا کہ میں کرنل موصوف کے توسط سے سرکار بہاولپور کی خدمت میں ان کے ادارے کی سرپرستی کے لیے درخواست کرنے والا ہوں۔ اس خبر سے وہ بہت خوش ہوئے، مگر ان کی بے وقت موت نے اس کام کو وہیں روک دیا۔
معاشرتی بحثوں میں وہ ہمیشہ سادہ زندگی اختیار کرنے کی تلقین فرمایا کرتے بلکہ حضور رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سادہ زندگی کو اپنا اسلوب بنانا چاہتے۔ جب وہ میری درخواست پر انار کلی سے میکلوڈ روڈ پر اٹھ آئے تو میں نے ان سے مکان کی آرائش کے لیے کہا کہ وہ اس کے مردانہ کمروں کو ڈرائنگ اور ڈائننگ کی صورت میں تقسیم کر دیں، مگر اس پر انہوں نے یہی فرمایا کہ وہ کسی قسم کے بے معنی تکلفات میں الجھنا نہیں چاہتے۔ چنانچہ کوٹھی میں رہائش اختیار کرنے کے باوجود انہوں نے اپنا معاشرتی اسلوب وہی رکھا جو انار کلی بازار کے قیام کے دوران میں تھا۔ انہوں نے کبھی اپنے کمروں کو مغربی فیشن کے مطابق آراستہ نہ کیا، بلکہ اس میں ایک خاص انداز پیش نظر رکھتے۔ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کے نشست کے کمرے کی کیفیت یہ تھی کہ فرش پر قالین بچھا رہتا اور کرسیاں دیوار کے ساتھ چاروں طرف لگی رہتیں۔ ڈاکٹر صاحب خود فرش پر تشریف رکھتے اور ملاقاتی بھی اکثر فرش ہی پر بیٹھتے۔ کمرہ میں داخل ہونے سے قبل ایک برآمدہ تھا جس میں کرسیاں بچھی رہتیں۔ ایام سرما میں ڈاکٹر صاحب دھوپ میں بیٹھنے کی نیت سے برآمدہ میں تشریف رکھتے۔ برآمدہ کے ایک طرف ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں ایک چارپائی پڑی رہتی۔ گرمی کے دنوں میں آپ دن کے وقت اسی کمرے میں آرام فرماتے۔ اس سادہ پسندی کی وجہ سے انہیں غیر ملکی لباس سے نفرت تھی۔ گوہاٹی کورٹ میں انہیں کوٹ پتلون پہن کر جانا پڑتا اور اکثر معاشرتی تقریبات کے سلسلے میں بھی وہ انگریزی لباس ہی نہ مجبوری تمام پہن لیا کرتے، لیکن موجب تکلف سمجھ کر وہ ہمیشہ اسے بار خاطر سمجھتے رہے۔ وہ اکثر شلوار اور چھوٹا کوٹ پہنتے۔ عیدین کی نماز کے موقع پر کبھی کبھی بند گلے کا کوٹ بھی پہن لیا کرتے۔ اسی طرح وہ دیسی جوتی اور رومی ٹوپی کو پسند کرتے۔ کبھی کبھی صافہ بھی باندھ لیتے۔ دیسی کھانے میں وہ اچھی چیزیں بڑی رغبت سے کھاتے، بلکہ اچھا کھانا کھانے کا انہیں بہت شوق تھا۔ پہلے تو دن میں وہ دو مرتبہ ہی کھانا کھایا کرتے تھے، بعد میں ایک وقت پر اکتفا کرنے لگے۔ اس میں بھی حتی الوسع کم کھاتے۔ اس سلسلہ میں میں نے ڈاکٹر صاحب میں ایک عجیب بات دیکھی اور وہ یہ کہ جب بھی وہ کھانے کے وقت پر میرے ہاں ہوتے اور میں ان سے دریافت کرتا کہ اگر اشتہا ہو تو کھانا منگواؤں؟ تو یہی جواب دیتے کہ انہوں نے کبھی اشتہا سے کھانا نہیں کھایا، بلکہ جب بھی مل جائے کھا لیا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب حقے کے بہت دلدادہ تھے۔ خالص پنجابی قسم کا حقہ ہر وقت ان کے سامنے پڑا رہتا۔ ایک مرتبہ شہزادی دلیپ سنگھ بمبا کی کوٹھی پر جانے کا اتفاق ہوا۔ سر جوگندر سنگھ، سر ذوالفقار علی خاں اور میں ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ تھے۔ موصوفہ کو ڈاکٹر صاحب سے بہت عقیدت تھی اور وہ انہیں اکثر اپنی کوٹھی پر مدعو کیا کرتیں۔ ہم سب بیٹھ گئے تو شاہزادی اٹھ کر برآمدہ میں تشریف لے گئیں اور چند منٹ بعد ایک نفیس حقہ خود اٹھائے ہوئے واپس آئیں اور ڈاکٹر صاحب کے سامنے اسے رکھ کر فرمایا کہ شوق کیجئے۔ شہزادی اردو نہ جانتی تھیں، مگر ڈاکٹر صاحب کے کلام کی بہت مشتاق رہتیں، ان کی فرمائش پر ڈاکٹر صاحب نے ایک مختصر سی نظم سنائی جس کا ترجمہ سر جوگندر سنگھ نے انگریزی میں کیا۔
اقبال جہاں بھی رہے ان کا امکان مرجع خواص و عوام رہا، کیونکہ ان کی محفل میں ہر ایک کو صلائے عام تھی۔ صبح سے شام تک ملاقاتیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ان کے مکان پر جاری رہتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سارا دن اپنے مکان پر مقیم رہنے کے عادی ہو گئے اور چلنے پھرنے سے گھبرانے لگے۔ جب وہ انار کلی میں قیام پذیر تھے تو صبح کے وقت چند دوستوں کی معیت میں وہ بھاٹی دروازہ کی طرف سے راوی کی جانب جایا کرتے۔ جب وہ میکلوڈ روڈ پر آئے تو میں نے ان سے کہا کہ وہ صبح کے وقت سیر کو نکلا کریں۔ چند روز تو وہ میرے ساتھ گئے، ایک دن تنگ آ کر کہنے لگے کہ:
’’ یہ روز کا جھنجھٹ کچھ ٹھیک نہیں، کبھی کبھار چلنا ہوا کرے تو ایک بات بھی ہے، ہر روز کون نکلے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کو مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ جو تھوڑا سا وقت دوست احباب اور ملاقاتیوں کی صحبتوں سے بچ رہتا اسے مطالعہ پر صرف کرتے۔ مطالعہ کے لیے خاص مضمون یا خاص زبان کا التزام نہ ہوتا۔ اردو، فارسی، عربی، انگریزی جس زبان کی کتاب مل جاتی پڑھ لیتے۔ اچھی کتاب کا نام سنتے تو دوستوں سے مانگ لیتے۔ اپنی کتابوں میں جس میں زیادہ دلچسپی لیتے، اس کے حاشیے پر بطور نوٹ کچھ نشان سے بھی لگا دیا کرتے۔ انگریزی تلفظ میں ڈاکٹر صاحب کا لہجہ بڑا معمولی تھا، مگر تحریر میں ان کے قلم کا زور بے پناہ ہوتا۔ یہی حال عربی فارسی کا تھا۔۔۔۔ ان زبانوں پر عالمانہ عبور رکھنے کے باوجود بولنے میں ان کی کیفیت یہ ہوتی کہ وہ اٹک اٹک جاتے، مطالب قرآنی پر ان کی نظر ہمیشہ رہتی۔ کلام پاک کو پڑھتے تو اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرتے بلکہ نماز کے دوران میں جب وہ بآواز بلند پڑھتے تو وہ آیات قرآنی پر فکر کرتے اور ان سے متاثر ہو کر رو پڑتے۔ ڈاکٹر صاحب کی آواز میں ایک خاص کشش تھی۔ جب وہ قرآن پاک کو بآواز بلند پڑھتے یا اپنے اشعار اپنی مخصوص لے میں سناتے، تو سننے والوں کا دل پگھل جاتا۔ جب ان کی آواز خراب ہو گئی تو میں ان سے ملنے گیا۔ مجھے ان کی اس شکایت کا علم نہ تھا۔ دوران گفتگو میں نے دیکھا کہ وہ بہت زور سے بولنے کی کوشش کرتے پھر بھی ان کی آواز ٹھیک طور پر سنائی نہ دیتی۔ اس کیفیت کو دیکھ کر میرے دل پر سخت چوٹ لگی اور میں نے بحالت یاس ان سے کہا کہ:
’’ ڈاکٹر صاحب آپ کی آواز کا یوں بند ہو جانا آپ سے بڑھ کر خود آپ کے دوستوں کی بد قسمتی ہے جن کے گوش اب اس نعمت سے نہ جانے کب تک محروم رہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کو روپے پیسے کا لالچ نہ تھا، ہاں اس کی قدر ضرور کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس کے بے ضرورت خرچ سے ہمیشہ محترز رہتے، بلکہ اکثر اوقات اس کے مصرف میں اس قدر حزم و احتیاط سے کام لیتے کہ ان کی احتیاط کنجوسی دکھائی دینے لگتی۔ ہم نے کئی مرتبہ ڈاکٹر صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ کبھی کبھی کھانے پر حکام کو اپنے ہاں مدعو کر لیا کریں۔ انگریز کو رام کرنے کا بہترین طریقہ اکل و شرب کی دعوت ہے۔ وہ اکثر بڑے بڑے وعدے ایسی ہی صحبتوں میں کیا کرتا ہے اور جو تعلقات کھانے کی میز پر قائم ہوتے ہیں ان کا احترام اس ہمیشہ ملحوظ رہتا ہے۔ مگر ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ہمارے مشورے قابل قبول نہ ہوتے، وہ یہی جواب دیتے کہ وہ ایسی تقریبات پر روپیہ ضائع کرنا پسند نہیں کرتے کیونکہ اول تو انگریز کو رام کرنے کا سوال ہی ان کی دلچسپیوں کے دائرے سے باہر تھا، دوسرے اگر کھانا کھانے کے بعد بھی انگریز رام نہ ہوا تو اس درد سر کا فائدہ؟
ڈاکٹر صاحب نے خود کبھی کسی دنیوی اعزاز کے حصول کے لیے کوشش نہ کی، گو جب وہ کسی سے سن پاتے کہ ان کا نام ہائیکورٹ کی ججی کے لیے زیر غور ہے تو وہ اس موضوع پر خاص طور پر دلچسپی لینا شروع کر دیتے مگر وہ خود اس سلسلے میں کبھی کوئی سرگرمی نہ دکھاتے، بلکہ انہوں نے اپنے خطاب کے معاملہ میں بھی کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار نہیں فرمایا۔ خطاب کے ملنے سے کچھ عرصہ پیشتر انگلستان کا ایک مشہور اخبار نویس، جو ادبی دنیا میں کافی شہرت رکھتا تھا، ممالک اسلامی کی سیر سیاحت کے بعد افغانستان کی طرف سے ہندوستان میں داخل ہوا اور گورنر پنجاب کا مہمان ہوا، اسے ترکی سے لے کر افغانستان تک جس اسلامی قلم رو سے گزرنے کا اتفاق ہوا تھا، ڈاکٹر صاحب کا نام ہر جگہ اس کے سننے میں آیا تھا۔ لاہور پہنچتے ہی اس نے ڈاکٹر صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی مگر ارباب حکومت چونکہ ہمارے ادبی مشاہیر سے بے خبر اور ان کے کارناموں سے نا آشنا ہوتے ہیں اس لیے کچھ تعجب نہیں اگر گورنر پنجاب اقبال کی عظمت سے ناواقف نکلے۔ تاہم اخبار نویس نے انہیں مجبور کیا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو گورنمنٹ ہاؤس میں چائے پر مدعو کر کے اسے ان کی صحبت سے مستفید ہونے کا موقع بہم پہنچائے۔ اس پر ڈاکٹر صاحب کو گورنمنٹ ہاؤس میں تشریف لانے کی دعوت دی گئی، مگر ان کی مثال تو زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی سی تھی، کہنے لگے:’’ کون جائے، پاؤں کے انگوٹھے میں کئی دن سے درد ہے، گورنمنٹ ہاؤس تک جانے میں نہ جانے تکلیف کس قدر بڑھ جائے۔‘‘ میں نے اصرار کیا کہ و ہ ضرور جائیں، پہلے تو وہ اپنی ضد پر اڑے رہے مگر بعد میں چلنے کے لیے تیار ہو گئے اور میں انہیں اپنی گاڑی میں سوار کر کے خود گورنمنٹ ہاؤس تک پہنچا کر آیا۔ واپسی پر وہ سیدھے میرے ہاں تشریف لائے اور تمذکرہ بالا واقعہ من و عن سنایا۔ اس کے چند دن بعد ہی گورنمنٹ کی طرف سے آپ کے روبرو خان بہادر کے خطاب کی تجویز پیش کی گئی۔ جسے آپ نے ٹھکرا دیا۔ اس کے بعد ’’ شمس العلمائ‘‘ کی تجویز ہوئی، اسے بھی آپ نے رد کر دیا، بالآخر ’’ نائٹ ہڈ‘‘ کی تجویز ہوئی۔ اس کے قبول کرنے میں بھی آپ کو تامل تھا لیکن نواب سر ذوالفقار علی خاں کے اصرار پر وہ اس پر رضا مند ہو گئے۔ جب انہوں نے خطاب قبول کر لیا تو اس پر دبی زبان سے چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ کسی نے کہا:’’ حکومت نے آپ کی زبان بندی کے لیے یہ چال چلی ہے۔‘‘ کوئی کہنے لگا’’ آخر بیچارے اقبال بھی کیا کرتے، حصول جاء سے بے نیاز رہنا کچھ اتنا آسان نہیں۔‘‘ کسی اور نے کہا:’’ نہیں، اب اقبال کی فطری بے باکی کا خاتمہ سمجھو۔‘‘ انہیں خیالات کی ترجمانی میں’’ زمیندار‘‘ میں مولانا ظفر علی خاں صاحب نے ایک نظم بھی چھاپ ماری۔ ڈاکٹر صاحب بھی عوام کی اس قیاس آرائی سے بے خبر نہ تھے، چنانچہ جب اس خطاب کے سلسلے میں آپ کے اعزاز میں شاہدرہ باغ کے اندر ایک بہت بڑی پارٹی دی گئی تو آپ نے گورنر پنجاب کی موجودگی میں وہ اشعار سنائے جو ’’ طلوع اسلام‘‘ کے ابتداء میں درج ہیں۔ اس میں انہوں نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کو اعلائے کلمتہ الحق سے نہیں روک سکتی۔
حساس ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں عفو اور غیض دونوں قسم کے جذبات کی شدت تھی۔ وہ زود رنج تو نہ تھے لیکن اگر ناراض ہو جاتے تو پھر ان کا غصہ دیر تک رفع نہ ہوتا۔ اسی طرح جب وہ مائل بہ کرم ہوتے تو بڑی سے بڑی رنجش کی بھی پروا نہ کرتے۔ مجھے خود ان کی طبیعت کی اس افتاد کا ایک تجربہ حاصل ہے۔ نواب سر ذوالفقار علی خاں مرحوم اور میرے درمیان چند قطعات اراضی کے نظم و نسق کے سلسلے میں ایک غلط فہمی سی پیدا ہو گئی۔ بظاہر یہ بڑی معمولی سی غلط فہمی تھی، جس کا ازالہ معمولی حالات میں بآسانی ہو جاتا مگر اتفاقات ہی کچھ ایسے پیش آئے کہ یہ ذرا سی غلط فہمی اچھی خاصی رنجش میں مبدل ہو گئی۔ ایک دن برسبیل ذکر ڈاکٹر صاحب کے مکان پر یہی مسئلہ ہم دونوں کے درمیان زیر بحث آ گیا۔ میں نے ان کے پاس اپنی صفائی بیش کی اور ان سے کہا کہ میں ان کے روبرو تمام واقعات کو پیش کروں گا تاکہ وہ ہم دونوں کے دوست کی حیثیت سے غیر جانبداری سے بتا سکیں کہ میری طرف سے یا نواب صاحب کی طرف سے کون سی زیادتی روا رکھی گئی تھی۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: ’’ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ نواب صاحب راستی پر ہیں۔‘‘ مجھے ڈاکٹر صاحب کے اس یک طرفہ فیصلہ پر سخت رنج ہوا اور میں نے کہا:’’ اگر آپ نے حالات کو سنے بغیر میرے متعلق اپنے دل میں ایک رائے قائم کر لی ہے تو میں آپ کی اس غیر منصفانہ رائے کو پرکاہ کی وقعت بھی نہیں دیتا۔‘‘ اتنا کہہ کر میں چھڑی اٹھا کر باہر کی طرف چل کھڑا ہوا۔ گو اس وقت میرا دل غصے کے جذبات سے معمور تھا، پھر بھی اپنی پرانی دوستی کے پیش نظر مجھے یہی توقع تھی کہ وہ مجھے اس طرح رخصت ہونے دیں نہ گے بلکہ آگے بڑھنے سے روک دیں گے، مگر التجا و منت سے ڈاکٹر صاحب کی طبیعت بیگانہ تھی۔ وہ خاموشی سے اپنی جگہ پر بیٹھے حقہ گڑگڑاتے رہے، گوی ان کے نزدیک میرا یہ اضطراری فعل میرے روز مرہ کے معمول میں سے تھا۔ا س سے میرے دل پر ایک اور چرکا لگا اور میں نے یوں سمجھا گویا انہوں نے دانستہ طور پر مجھے ذلیل کیا ہے۔ گھر آیا تو میرا دل اس واقعہ سے سخت پژ مردہ ہوا۔ برسوں کی یکجائی اور ہم صحبتی کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب کا میری طبیعت سے یوں بیگانہ نکلنا میرے لیے حد درجہ حیرت اخیز امر ھا جس کا خیال رہ رہ کر جی کو بے چین کرتا۔ نواب صاحب سے تو رنجش پیدا ہو ہی گئی تھی، اس واقعہ کے بعد سے ڈاکٹر صاحب سے بھی تعلقات منقطع ہو گئے۔ اس سے مجھے یوں محسوس ہونے لگا گویا دنیا میں میں اکیلا ہی رہ گیا ہوں۔ کچہری کے کام کے بعد وقت کا کاٹنا سوہان روح ہو جاتا اور طبیعت مضمحل ہونے لگتی۔ کئی مرتبہ دل میں خیال آتا کہ جو کچھ ہوا ہے اسے عبث سمجھ کر خود ڈاکٹر صاحب کی طرف رجوع کر لوں، مگر پھر احساس خود پرستی ایسا کرنے سے روکنا اور دل کی گہرائیوں سے ندا آتی کہ اگر اقبال کو تیری دوستی کی قدر ہوتی تو کیا وہ خود چل کر آنہ سکتا تھا۔ کئی مرتبہ ہائیکورٹ جاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے مکان کے سامنے سے گزرتا تو وہ مجھے دور اپنی کوٹھی کے برآمدے میں بیٹھے ہوئے نظر آتے۔ دل میں ایک کپکپی سی ہونے لگتی اور جی چاہتا کہ دوڑ کر ان سے لپٹ جاؤں، مگر پھر اپنے صدمے کا خیال آ جاتا اور میں خاموشی سے آگے بڑھ جاتا۔ اس کیفیت سے آہستہ آہستہ میرے مزاج میں بھی ایک قسم کی بے نیازی سی آتی گئی، یہاں تک کہ اسی حالت کو ایک سال گزر گیا۔ ایک سال جو اپنی طوالت کے لحاظ سے ایک صدی سے بھی طویل معلوم ہوتا تھا۔ اس اثنا میں میری بیوی کا انتقال ہو گیا۔ا س زمانے میں میں نکلسن روڈ پر اٹھ آیا تھا۔ ایک دن صبح کے وقت دیکھتا ہوں تو ڈاکٹر صاحب خراماں خراماں میرے ہاں چلے آتے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ وہ تعزیت کی غرض سے تشریف لائے ہیں مگر خدا جانے کیا وجہ تھی کہ مجھے ان کا یوں چلے آنا کچھ ناگوار سا گزرا۔ وہ بھی میرے دل کی کیفیت کو بھانپ گئے، مگر خاموش رہے۔ دعائے فاتحہ ہو چکی تو مجھے خیال گزرا شاید وہ سرد مہری سے متاثر ہو کر چلے جائیں مگر وہ بدستور بیٹھے رہے۔ پھر یک لخت ایک ایسے لہجہ میں جو ان کی رقیق القلبی کی تمام کیفیات کا آئینہ دار تھا، مجھ سے کہنے لگے:’’ سنو تو! تم نے اس دن میرے متعلق خواہ مخواہ اپنے دل میں بدظنی کو راہ دی۔ میں نے جو کچھ کہا اس سے کسی طرح تمہاری نیت پر شبہ کرنا مقصود نہ تھا مگر تم نے بھی غضب کر دیا کہ بگڑ کر اٹھ آئے اور پھر اس پر یہ ستم بھی روا رکھا کہ سال بھر اسے ادھر کا رخ نہ کیا، مگر خیر آج اپنے دل کو میری طرف سے صاف کر دو اور میری رفاقت پر پہلا سا اعتماد پیدا کرو۔ اگر تم سچ مچ یہی سمجھتے ہو کہ میں نے تمہارے ساتھ زیادتی روا رکھی ہے تو آؤ مجھے معاف کر دو۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کے ان الفاظ نے میرے دل پر تو جو اثر کیا وہ تو کیا ہی تھا، ڈاکٹر صاحب کا اپنا دل بھی بھر آیا اور ہم دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر بچوں کی طرح رو پڑے۔
اس واقعے سے کچھ عرصہ پیشتر میرے اور نواب سر ذوالفقار علی خاں کے تعلقات بھی پھر استوار ہو چکے تھے لیکن مجھے یہ معلوم کر کے حد درجہ صدمہ ہوا کہ اس دوران میں خود غرض افراد کی مساعی سے نواب صاحب اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان بھی رنجش پیدا ہو گئی تھی اور ان کے مراسم بھی منقطع ہو گئے تھے۔ اقبال اور ذوالفقار کی دوستی کچھ ایسے سطحی تعلقات پر مبنی نہ تھی کہ اس کا انقطاع ایک معمولی واقعہ سمجھا جاتا۔ نواب صاحب کو ڈاکٹر صاحب سے جس قدر تعلق تھا وہ اس امر سے ظاہر ہے کہ سب سے اول آپ ہی نے انگریزی میں ڈاکٹر صاحب کے کمالات پر کتاب تصنیف فرمائی۔ اقبال کے حاسد ہمیشہ ان کے خیالات کو حکام کی نظر میں خطرناک ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔ چونکہ اس قسم کی غلط فہمیاں ڈاکٹر صاحب کی ترقی میں ہارج ہو سکتی تھیں، اس لیے سر ذوالفقار علی ہمیشہ ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے، کیونکہ ان کا ایمان تھا کہ اقبال اپنی تمام تر قابلیتوں کی وجہ سے اس امر کے مستحق ہیں کہ حکومت کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ عدالت عالیہ کی بنچ کو زینت بخشیں۔ لیکن خود غرض افراد نے ان دوستوں کے درمیان بھی اختلاف کی خلیج حائل کر دی۔ مجھے اس امر کی اطلاع ملی تو میں نے ان دونوں میں صفائی کرا دینے کی کوشش کی۔ نواب صاحب تو فی الفور اس کام کے لیے آمادہ ہو گئے لیکن ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں کچھ حجاب باقی تھا، وہ اپنی ضد پر پہلے تو اڑے رہے، مگر میں نے اصرار کیا تو ان کی طبیعت نے جوش مارا اور وہ مصالحت کے لیے تیار ہو گئے۔ میں نے ان کی صفائی کے لیے ایک تاریخ مقرر کی اور دونوں کو چائے پر اپنے ہاں مدعو کرنے کا ارادہ کیا مگر اس تاریخ سے قبل نواب صاحب اچانک بیمار ہو گئے اور ان کی علالت نے ایسی مہلک صورت اختیار کی کہ اسی سے ان کا انتقال ہو گیا۔ اس المناک سانحہ سے ہم دونوں کے جی پر جو کچھ گزری وہ محتاج بیان نہیں۔ مجھے جہاں تمام عمر اس بات کا غم رہے گا کہ دونوں دوست پھر ایک دوسرے کے دل سے اس قدر قریب ہو جانے کے باوجود آخری مرتبہ بغل گیر نہ ہو سکے وہاں ڈاکٹر صاحب بھی ہمیشہ اس خیال سے مغموم ہو جایا کرتے کہ دلوں کے صاف ہو جانے کے باوجود ان کو موقع نہ مل سکا کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ کم از کم ایک مرتبہ بالمشافہ گفتگو کر لیتے۔ ڈاکٹر صاحب کا ارادہ تھا کہ وہ نواب صاحب کی نماز جنازہ میں ضرور شامل ہوں چنانچہ ہم دونوں موٹر میں سوار ہو کر مالیز کوٹلہ پہنچے مگر بدقسمتی سے میت کو ہمارے پہنچنے سے قبل سپرد خاک کر دیا جا چکا تھا۔ ناچار ہم بادل حسرت زدہ فاتحہ کے بعد لاہور واپس آ گئے۔
جس شخص کو ذرا نمود حاصل ہوتی ہے اس کے متعلق اکثر دو گروہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایک اس کے اتقا اور پرہیز کا دعویدار ہوتا ہے، دوسرا اس کی لغزشوں کو نمایاں کر کے اس کو متہم کرتا ہے۔ پہلی قسم کے لوگ حال ہی کی پیداوار ہیں، دوسرا گروہ ڈاکٹر صاحب کے ایام جوانی سے چلا آتا ہے۔
اقبال آخر انسان تھے۔ پیغمبرانہ اعجاز رکھنے کے باوجود پیغمبر نہ تھے، اس لیے ان کو ایسی باتوں سے معرا سمجھنا جو بشریت کا لازمہ اور انسانیت کا خاصہ ہیں، ایک ایسا تمسخر انگیز دعویٰ ہے جس میں نہ تو حقیقت کو دخل ہے نہ خود ڈاکٹر صاحب کی روح کے لیے مسرت کا سامان موجود ہے۔ اقبال زاہد خشک تھے نہ ریا کار صوفی۔ اس میں شک نہیں کہ آخری ایام میں وہ گوشہ نشینی اور درویشانہ زندگی کی وجہ سے دنیا اور اس کے افراد سے بڑی حد تک کنارہ کش ہو گئے تھے اور ان کی کیفیت اس مرد فقیر کی سی تھی جو اس مادی دنیا سے بے نیاز ہو کر کسی اور ہی عالم میں کھویا رہتا ہو، لیکن ان کے چہرے پر تقدس کا جو ہالہ ہر وقت نظر آتا تھا اس سے یہ کسی طور پر لازم نہیں آتا کہ انہیں ان کے اصلی مرتبے سے محروم کر کے صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کے زمزمے میں شامل کر لیا جائے حالانکہ ان سے علیحدہ رہ کر بھی اقبال کے عظمت و وقار میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہو سکتی۔
دوسرا گروہ بھی اپنی بے خبری اور تنگ نظری کے نتیجے میں ڈاکٹر صاحب پر الزامات کی بوچھاڑ کرتا ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ عالم شباب میں عام طرز معاشرت کے خلاف تھوڑی سی بے راہ روی ضرور موجود تھی لیکن محض اسی کے پیش نظر کوئی حتمی نظریہ قائم کرنا ان پر بہت بڑا ظلم ہے۔ ہر Geniusکی زندگی کا جائزہ لیتے وقت ہمیں اس امر کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ عام لوگوں سے اپنے استعداد اور ادراک میں مختلف ہونے کی وجہ سے فطری طور پر وہ اپنے اصول اور میلانات میں بھی عوام سے مختلف ہوتا ہے اور اس کے ہر فعل کو ایک خاص مقررہ اصول، ایک خاص مجوزہ ضابطے سے پرکھنا ستم ظریفی ہے۔ وہ اپنے ہم جنسوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے یقینا مختلف معیار نقد کا مستحق ہے۔
اقبال کی دنیا فطرتاً اصول پرستی سے بے نیاز تھی وہ عمل کا تعلق دل سے نہیں بلکہ روح سے سمجھتے تھے، وہ یہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے کہ انسان کیا کرتا ہے یا اس کو کیا کرنا چاہیے بلکہ ان کی نظر اس کے ایقان و اعتقاد پر ہوتی، یہی وجہ تھی کہ اس امر کو ضروری نہ سمجھتے کہ ان کا طرز عمل ضرور ان کے اپنے فرمودات یا معاشرہ کے مصنوعی اصولوں کے مصداق ہی ٹھہرے۔ وہ ترغیبات سے خائف سادھوؤں اور راہبوں کے خلاف زندگی کے تمام زہر ناک نشیب و فراز کا لطف اٹھانا اپنے نفس کی تکمیل کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک زندگی نہ تو شباب کے نشہ میں اس مدہوش نوجوان کی طرح محض نقد عیش تھی جو اپنی ہوس پرستی میں غرق ہو کر اس کی ہلاکت آفرینیوں پر سنگین غور و فکر سے کام نہیں لیتا اور نہ اس گمراہ کی طرح مذہب و معاشرہ سے بغاوت تھی جو انہیں اپنے راستے میں حائل دیکھ کر ان دونوں سے بگڑ بیٹھتا ہے بلکہ ان کی آزادہ روی اس صاحب دل کی سی تھی جو زندگی کے تمام مخالف عناصر سے مردانہ وار جنگ کرتا ہوا اس کے ہلاکت خیز طوفانوں میں اپنے تجربات سے جادۂ مستقیم تلاش کر لیتا ہے۔
میرے ہاں اکثر شام کے وقت محفل رقص و سرود قائم ہوا کرتی جس میں چند ہم خیال دوست شریک ہو جایا کرتے۔ سارا دن عدالتوں میں موشگافیوں میں بسر ہو جاتا۔ رات کے وقت دیر گئے تک مقدمات کی تیاری کے مشاغل درپیش رہتے اوران چڑھے ہی از سر نو اسی دماغی کاوش میں الجھنا پڑتا۔ اس مسلسل انہماک سے نواء مضمحل ہو جاتے اور دماغ کے نچڑ جانے سے روح پر افسردگی سی چھانے لگتی۔ چنانچہ طبیعت میں تازہ دم ہونے کی خواہش پیدا ہوتی اور دل فراغت کے لمحات کے لیے بے چین ہو جاتا۔ اس پر ہم چند دوست زندگی کے پریشان کرنے والے ہنگاموں سے ہٹ کر خوش وقتی کے لیے ایک مختصر سی بزم قائم کرتے اور اس کی دلکشیوں میں اپنے تھکے ہوئے دماغوں کو تازہ دم کرتے۔ جب اقبال سے میری ملاقات ہوئی تو ان پر بھی اس مجلس کا حال کھلا۔ ادھر میں نے بھی مولوی احمد دین مرحوم سے ان کی داستان سن رکھی تھی۔ دونوں طرف سے کشش ہوئی اور پہلی ہی صحبت میں ہم سمجھ گئے کہ ہمارے طبائع اور مزاجوں میں ایک حیرت انگیز یکسانیت ہے۔ جب طبیعتوں میں موافقت ہو جائے تو دوستوں کی صحبت زیادہ پر لطف ہو جاتی اور انہیں ایک دوسرے کی رفاقت میں خاص لذت محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ اقبال کی شمولیت کے بعد ان صحبتوں کی تعداد اور دلکشی میں ایک گونہ اضافہ ہو گیا۔
گو اقبال کا کلام اکثر پچھلی شب کے سکون اور تنہائی میں مرتب ہوتا تھا مگر ایسی حالت بھی ہوتی کہ ان مجالس میں ان کی طبیعت کبھی کبھی موزوں ہو جاتی اور وہ شعر کہنا شروع کر دیتے۔ ایسا تو اکثر ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب بے فکری کے عالم میں مزے لے لے کر گانا سننے میں مشغول ہوتے اور مغنیہ کوئی نعت چھیڑ دیتی جس کا کوئی شعر ان کے دل پر اثر کر جاتا اور ان پر بے اختیار رقت طاری ہو جاتی۔ اس کیفیت کے ظاہر ہوتے ہی محفل کا نقشہ بدل جاتا اور ہمیں اس حقیقی اقبال کی جھلک دکھائی دینے لگتی جس کا دماغ حریم ربانی کے جلوؤں سے مدہوش، جس کا دل تجلیات خداوندی سے منور، جس کی نگاہ میں پیغمبرانہ پاکیزگی اور جس کے تخیل میں ملکوتی بلندی تھی۔ یہی وہ مقدس ساعت ہوتی جس میں شاعر مشرق خاکدان عالم سے بلند ہوتا ہوا عرش معلی کی طرف بڑھتا اور جذبات کی تند و تیز موجیں اس کے دل کے مخفی چشمہ سے موسیقیت کے ساتھ شعر کی صورت میں اٹھنے لگتیں۔
بعض اوقات اقبال پر ایک معنی خیز سکوت سا چھا جاتا اور وہ یوں دکھائی دینے لگتے گویا کسی اور ہی دنیا میں چلے گئے ہیں۔ پھر وہ یک لخت یوں چونک پڑتے گویا نیند سے بیدار ہوئے ہیں۔ اس حالت کے ظاہر ہوتے ہی ہم سمجھ جاتے کہہ ان کے دل پر کوئی وجدانی کیفیت طاری ہے اور وہ شعر کی فکر میں ہیں۔ یہ کئی مرتبہ میرے مشاہدے میں آیا کہ جب اقبال کا دل کسی جذبے سے متاثر ہوتا تو وہ گرد و پیش کے حالات سے بالکل بے خبر ہو جاتے۔ علی برادران کی رہائی22؎ میں امرتسر میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں مولانا محمد علیؒ خود تشریف لانے والے تھے۔ اس جلسہ میں شمولیت کے لیے ہمیں بھی دعوت دی گئی اور نواب سر ذوالفقار علی خاں، اقبال اور میں نواب صاحب مرحوم کی موٹر میں امرتسر کی جانب روانہ ہوئے ۔راستے میں ہم باتیں کرتے جا رہے تھے کہ اچانک اقبال پر متذکرہ کیفیت طاری ہونے لگی۔ انہیں خاموش پا کر نواب صاحب نے ان کی جانب دیکھا تو وہ کسی اور ہی دھن میں نظر آئے۔ اس پر وہ مجھ سے کہنے لگے:’’ لو بھئی یہاں تو فکر شعر ہو رہی ہے۔‘‘ اور ہم پھر اپنی گفتگو میں مشغول ہو گئے۔ چند ساعت بعد اقبال چونکے اور ہماری جانب متوجہ ہو کر فرمانے لگے:’’ ہاں صاحب اب کہیے کیا ارشاد ہے!‘‘ معلوم ہوا’’ اسیری‘‘ کے عنوان سے بانگ درا میں جو اشعار ہیں وہ ابھی ابھی موزوں ہوئے ہیں۔
بہر کیف ان نشاف افزا صحبتوں میں اقبال کی ظرافت پرور طبیعت اپنے زور پر نظر آتی اور ان کی زبان سے ایسے ایسے لطیف فقرے چست ہوتے اور ایسی دلفریب پھبتیاں نکلتیں کہ سننے والے بھڑک اٹھتے، مگر ان کے مذاق میں واہیات باتوں اور بیہودہ گفتار کو دخل نہ ہوتا اور جب وہ ہزل کی طرف راغب ہوتے تو ان کی مضمون آفرینی ان کے استادانہ رنگ اور قادر الکلامی کے ماتحت اس قدر دلفریب ہو جاتی کہ اس میں ابتذال نام کو نظر نہ آتا۔ ان کا بلند بانگ شاعرانہ اسلوب رکیک سے رکیک لفظ میں کچھ ایسا جہان معنی پنہاں کر دیتا کہ گوش سماعت پر ناگوار گزرنے کی بجائے الٹا اس میں دنیا بھر کی چاشنی آ جاتی اور سننے والے اس کے لطف سے سیر نہ ہوتے۔ ایسی صحبتوں میں اقبال اپنی تمام تر سنجیدگی کے باوجود بعض اوقات عملی مذاق سے نہ چوکتے بلکہ جو شخص ان کا تختہ مشق بنتا اسے خوب پریشان کرتے۔
ایک مرتبہ ہم مسام ایجوکیشنل کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لکھنو گئے۔ اجلاس کے ایام میں ایک شام ایسی بھی تھی کہ ہم فارغ تھے۔ اقبال کی طبیعت جب بیکاری سے گھبرانے لگی تو وہ مجھ سے فرمانے لگے:’’ چلو کہیں چل کے گھڑی دو گھڑی گانا ہی سن آئیں۔‘‘ میں پہلے تو آمادہ ہو گیا مگر بعد میں کسی اچانک کام کی وجہ سے رک گیا، وہ چل کھڑے ہوئے۔ کوئی گھنٹہ بھر کے بعد جب وہ واپس لوٹے تو مسکرا رہے تھے۔ کہنے لگے:’’ لو آج تمہیں تماشا دکھائیں‘‘ میں نیا ستعجاب کے عالم میں دریافت کیا:’’ آخر ہوا کیا ہے؟‘‘ فرمانے لگے’’ ہونا کیا تھا، بس آج ایک مولوی صاحب کو ہم نے پکڑ لیا۔ جس طوائف کے ہاں ہم گانا سننے گئے تھے، وہیں کہیں اس کانفرنس کے مندوبین میں سے ایک مولوی صاحب بھی ہمارے جانے سے قبل دل بہلا رہے تھے، مگر آپ جب وہاں سے چمپت ہوئے تو اپنی بوکھلاہٹ کے عالم میں کانفرنس کا دعوتی رقعہ وہیں پھینک آئے تھے۔ ہم پہنچے تو طوائف نے ہم سے کہا کہ جس طرح بھی ہو ہم مولوی صاحب کو تلاش کر کے ان کی امانت بحفاظت ان تک پہنچا دیں۔ مگر ہم نے یہ سوچا ہے کہ یہ رقعہ نواب وقار الملک بہادر صدر ایجوکیشنل کانفرنس ہی کی معرفت کیوں نہ لوٹائیں تاکہ ضابطے کی پابندی بھی ملحوظ رہے اور نواب بہادر بھی دیکھ لیں کہ دنیا بھلی سے بھلی ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر اقبال نے کاغذ کا تختہ نکالا اور قلم پکڑ کر نواب صاحب کے نواب طوائف کی طرف سے ایک مفصل خط لکھ ڈالا۔ اس میں شام کے واقعے کی تمام تفصیل بے کم و کاست بیان کرنے کے بعد لکھا کہ چونکہ بندی قبلہ مولوی صاحب کے پتے سے واقف نہیں، اس لیے آپ سے التماس کرتی ہے کہ ان کا کھوج نکال کر ان کے کاغذات ان تک پہنچا دیں۔ اس خط کی بھنک مولوی صاحب کے کان میں بھی پڑ گئی اور وہ ہانپتے کانپتے اقبال کے پاس آئے اور لگے بے طرح منت خوشامد کرنے اور ان کی جان و مال کو دعائیں دینے۔ مگر اقبال تو گویا اسی وقت کے انتظار میں تھے، اب آئے ہو تو جاتے کہاں ہو کے مصداق انہوں نے حضرت کو وہ رگیدا دیا کہ بس اللہ دے اور بندہ لے۔ نہ جانے آپ نے ناک سے کتنی لکیریں کھینچیں تب آپ کی جان چھوٹی۔
بہر صورت اقبال کی یہ ولولہ انگیز زندگی ان کی وفات سے کئی سال قبل ختم ہو چکی تھی، مگر آخری ایام کی افسردہ دلی کے باوجود ان کے دل سے اس پر کیف زمانہ کی یاد محو نہ ہو سکی۔ بعض اوقات مجھے سچ مچ یوں محسوس ہونے لگتا گویا وہ اپنے پرستاروں کے ہر لحظہ بڑھتے ہوئے جم غفیر سے کچھ گھبرا سے گئے ہیں جس میں دن بھر گھرے رہ کر عقیدت کے بے جان مظاہروں کے سوا انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا اور زندگی کی وہ صحیح رنگینیاں جن کی دید سے انسان میں زندہ رہنے کی امنگ اور عمل کی خواہش پیدا ہوتی ہے، ان سے پرے ہٹتی جا رہی ہیں۔ اس تلخ حقیقت کا اعتراف خود اقبال کی طرف سے اشارۃً کئی مرتبہ ہوا۔ 1935ء میں کئی مرتبہ وہ مجھے ساتھ لے کر نہر پر چلے جاتے جہاں ہم لب جوبیٹھ کر ستمبر کی ٹھنڈی نسیم کے روح افزا جھونکوں میں اسی پرانی زندگی کی یاد سے اپنے پژ مردہ دلوں کو تازہ کرتے۔ گذشتہ صحبتوں کے مٹتے ہوئے نقوش پھر واضح ہونے لگتے اور ہم ان کی دلفریبیوں میں کچھ عرصہ کے لیے کھو سے جاتے۔
میں ستمبر1937ء میں یورپ کے سفر کے بعد لاہور واپس آیا تو میں نے سنا اقبال عرصہ سے صاحب فراش ہیں۔ اس خبر سے میرا دل بیقرار ہو گیا اور میں ان سے ملنے گیا۔ا تفاق سے وہ اکیلے تھے۔ اس تنہائی میں ان کے دل پر پھر وہی جوش و حرارت پیدا ہوئی اور وہ مجھ سے پوچھنے لگے: ’’ تم سال بھر کے بعد وطن واپس آئے ہو استاد سچ مچ کہو! اب کے جال میں کیا لگا؟‘‘ میں نے کہا:’’یہاں جو کچھ لگا وہ آپ کے ’’ راؤنڈ ٹیبل‘‘ والے سفر سے کم ہی ہو گا۔ ذرا اپنی مار دھاڑ کو بھی یاد فرما لیجئے۔‘‘
اس پر اقبال ہنس پڑے، بولے ’’ راؤنڈ ٹیبل‘‘ والے سفر میں رکھا ہی کیا تھا، رفقاء سفر منکر نکیر کی طرح ہر وقت دائیں بائیں موجود رہتے تھے۔
میں نے انہیں گدگدانے کی نیت سے کہا، ’’ میں آئندہ سال کے اوائل میں جرمنی اور بلجیم جا رہا ہوں، میرا دل چاہتا ہے کہ اس مرتبہ آپ کو بھی اپنے ساتھ کھینچ لے چلوں۔‘‘ اس پر ڈاکٹر صاحب کچھ افسردہ سے ہو گئے، کہنے لگے:’’ اس طویل علالت سے اگر نجات مل جاتی تو شاید میں بھی کہیں جا سکتا۔ سفر کا ارادہ تو میرے دل میں بھی ہے مگر دیکھیں اس کی منظوری کب ملتی ہے۔‘‘ میں نے کہا:’’ آپ کے دل میں حج کی بہت پرانی خواہش ہے، اس لیے اب کے میرے ساتھ یورپ چلیے تاکہ حج کرنے سے قبل چوہوں کی تعداد پوری نو سو ہو جائے اور گھر لوٹتے ہوئے راستے میں گناہ بخشواتے آئیں۔‘‘
میں اٹھ کر چلنے لگا تو بولے:’’ اب لاہور میں جم کے بیٹھنے کی کوشش بھی کرو گے یا یوں ہی جہاں نوردی میں مشغول رہو گے؟ تمہیں اس مشغلے سے فراغت ہوتی تو ذرا گھڑی دو گھڑی دل بہلانے کو وہی پرانی صورتیں اکٹھی کرتے۔ رنگ محفل تو اس میں کیا آئے گا، ہاں یاران محفل کو پھر ایک نظر اکٹھا دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
اتفاق دیکھئے کہ جنوری1938ء میں پھر یورپ کی طرف روانہ ہونے سے قبل میں ڈاکٹر صاحب سے ملنے جاوید منزل گیا۔ ان پر بیماری کا اثر بہت ہو چکا تھا مگر پھر بھی ان کے چہرے پر وہی بشاشت کھیل رہی تھی جس نے ان کی موت کے بعد بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ میں ان کے پاس بیٹھا بیماری کی کیفیت پوچھ رہا تھا کہ میاں شاہنواز مرحوم تشریف لے آئے۔ ان کو دیکھتے ہی ڈاکٹر صاحب کہنے لگے:’’ لو آج پھر وہی محفل قائم ہو گئی۔‘‘ آج پھر سالہا سال کے بعد یہ موقع آیا تھا کہ ہم تینوں ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت پر پھر وہی پرانا جوش، وہی سابقہ ولولہ، وہی گذشتہ زندہ دلی طاری ہونے لگی۔ ہمیں اس افسردہ دل کی بجھتی۔۔۔۔ ہوئی چنگاری شعلہ جوالہ بنتی نظر آنے لگی اور اقبال کی ظریف گفتگو ہمیں زمان و مکان کی بندشوں سے آزاد کر کے پھر اسی پرانی انجمن میں لے گئی جس کے روح رواں کبھی وہ خود تھے۔ آنکھوں کے سامنے سے پردے ہٹنے لگے اور گذشتہ زندگی کے دلفریب واقعات کے سینمائی تیز رفتاری کے ساتھ یکے بعد دیگرے چلتے پھرتے دکھائی دینے لگے جن کے دھندلکے میں ہمیں یوں محسوس ہونے لگا گویا ہم اسی محفل میں بیٹھے ہیں جس کی گرمی سے حیات جیسی مغموم اور افسردہ کرنے والی شے ایک لازوال نعمت دکھائی دیتی تھی۔ اس وقت ہم دونوں دوست ان بچوں کی طرح جو اپنی بھولی بسری شرارتوں کو یاد کر کے لطف لیتے ہیں اپنی بے فکری کی زندگی کے گذشتہ واقعات یاد کرنے لگے۔
یہ ہم تینوں کی آخری صحبت تھی!
مارچ میں میں یورپ سے واپس آیا تو ڈاکٹر صاحب کی علالت آخری صورت اختیار کر چکی تھی مگر پھر بھی جس وق تمیں ان سے ملنے گیا تو ان کے بشاش چہرے پر مجھے وہ آثار نظر نہ آئے جنہیں موت کا پیش خیمہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ مفکر اسلام چند دن کا مہمان ہے۔
جس صبح اقبال اپنے معبود حقیقی کے حضور میں پہنچے، میں اتفاق سے لاہور میں تھا۔ رات کو مجھے دہلی جانا تھا۔ غالباً9بجے کا عمل تھا، میں صحن میں کھڑا ضروری کاغذات کا مطالعہ کر رہا تھا، ساتھ کے کمرے میں ریڈیو بج رہا تھا جس کے ارد گرد اپنے بچے شور و غل میں مصروف تھے۔ یکلخت کسی نے مجھے آواز دی ’’ غضب ہو گیا، ابھی ابھی ریڈیو پر اعلان ہوا ہے کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صبح5بجے انتقال فرما گئے۔‘‘
مجھے اس خبر سے یوں دھکا سا لگا گویا کسی نے اٹھا کر پٹک دیا ہو۔ میں چپ چاپ فرش پر بیٹھ گیا۔ میرے تمام قویٰ پر وہ ہیبتناک وحشت طاری تھی جو زلزلے کے گزر جانے کے بعد عناصر کائنات میں نظر آتی ہے۔ محسوسات کی نقشہ کشی شاید کسی مشاق ادیب کے لیے مشکل نہ ہو مگر میں اس وقت اپنے خوفناک غم کے اظہار میں قاصر ہوں۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ یہ وہ غم تھا جس میں انسان ہائے ہائے نہیں کرتا، اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں آتے، صرف اس کی نظر پتھرا جاتی ہے اور روح تحلیل ہونے لگتی ہے۔
میرا ارادہ تھا کہ میں اقبال کی میت کا آخری دیدار نہ کروں۔ میں نہیں چاہتا تھا، ان کے موت کی افسردگی سے ہم کنار چہرے کی جھلک میرے ذہن سے زندہ دل اقبال کی بشاش صورت کے شاداب تصور کی متاع عزیز کو چھین لے۔ میں چاہتا تھا کہ میرے دل کی گہرائیوں میں اقبال کے منور چہرے کا وہی جاندار نقشہ موجود رہے جو مجھے ان کی مخصوص صحبتوں میں نظر آیا کرتا تھا۔ مگر آخر ایک اضطراری کشش نے مجھے ’’ جاوید منزل‘‘ کی طرف کھینچا اور میں دوپہر کے وقت اپنے دوست کے حضور میں پہنچنے پر مجبور ہو ہی گیا۔
’’ جاوید منزل‘‘ کے اندر اور باہر آنے جانے والوں کا ایک لامتناہی ہجوم نظر آتا تھا۔ اس ہنگامے کے باوجود’’ جاوید منزل‘‘ پر اس بدنصیب دلہن کی حسرتناک اداسی ٹپک رہی تھی جس کا سہاگ اس کی شادی کے اگلے ہی دن لٹ جائے۔ یا شاید وہ مادر گیتی کی بد قسمتی پر نوحہ زن تھی جس نے آج اقبال جیسا گوہر آبدار کھو کر اپنی تاریکیوں میں ہمیشہ کے لیے اضافہ کر لیا تھا۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ان کے کمرے کی طرف بڑھوں یا یہیں سے لوٹ جاؤں کہ کسی معمر شخص نے، جنہیں میں اس وقت پہچان نہیں سکا، میرے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا:’’ آپ اپنے دوست سے مل لیے؟‘‘ بظاہر یہ الفاظ بہت سادہ تھے مگر آتش غم میں جلتے ہوئے دل پر انہوں نے وہی کام کیا جو آگ پر تیل کیا کرتا ہے اور میں اقبال کے سرہانے پہنچ گیا۔ ان کے پاس شاید میں دو سیکنڈ یا اس سے بھی کم ٹھہرا مگر اتنے عرصے میں میں نے دیکھ لیا کہ اقبال نے مجھے مایوس نہیں کیا۔ ان کے چہرے پر اس وقت بھی ان کی فطری بشاشت کے طفیل ایک خفیف سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی جس میں مجھے ان کے مخصوص خندۂ استہزاء کی کیفیت جھلکتی ہوئی نظر آئی۔ اس سے میری طبیعت بے اختیار بھر آئی اور دل کے بخارات پانی بن کر آنکھوں کے راستے ٹپک پڑے۔
گھر آیا تو مجھ پر ایک وحشت سوار تھی۔ گو پچھلے کئی سالوں سے میرا ان سے میل ملاپ بہت کم ہو گیا تھا اور مجھے ان کی صحبت میں بیٹھنے کے بہت کم مواقع پیش آئے تھے، مگر آج ان کے جانے سے مجھے یوں محسوس ہونے لگا گویا دنیا سونی ہو گئی ہے اور اس کی تمام رنگینیاں کرب اور مصیبت میں مبدل ہو گئی ہیں۔ اب وہی لاہور ہے اور وہی میں ہوں، مگر خدا جانے ہم دونوں میں اس قدر افسردگی اور بیگانگی یکلخت کہاں سے آ گئی ہے۔ مجھے اپنے متعلق یوں محسوس ہوتا ہے، گویا زندگی کے تمام ولولے، تمام جوش، تمام حرارتیں چشم زدن میں سرد ہو گئی ہیں۔ اب لاہور کی حیثیت اس بے جان پھول کی سی نظر آتی ہے جس کی خوشگوار نگہت ہمیشہ کے لیے اڑ گئی ہو۔
اب میں ہمیشہ سفر میں رہتا ہوں۔ مگر اس جہاں نوردی کے باوجود میرے دل سے روحانی بے تابی اور درد انگیز فراق کی کیفیت جدا نہیں ہوتی۔ طبیعت کی بے چینی اور روح کی بیقراری میں فرق نہیں پڑتا اور جب چلتا چلتا تھک جاتا ہوں تو تازہ دم ہونے اور سستانے کے لیے پھر ایک مرتبہ گھر لوٹ آتا ہوں؟ مگر گھر کے پر سکون مناظر سے بھی میرا دل آسودہ اور روح مطمئن نہیں ہوتی ناچار پھر رخت سفر اٹھاتا ہوں۔ جب سفر پر روانہ ہونے لگتا ہوں تو بچے یہ کہہ کر چمٹ جاتے ہیں کہ:’’ آپ نے تو اس مرتبہ زیادہ دیر تک ٹھہرنے کا وعدہ کیا تھا!‘‘ مگر آہ انہیں اس بڈھے کی دلی کیفیت کا اندازہ نہیں جسے اس کے یاد و دمساز، نوجوانوں کی اجنبی دنیا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ گئے ہوں۔
مرزا جلال الدین

بیرسٹر ایٹ لاء