یورپ میں کہی ہوئی اقبال کی نظمیں

 یورپ میں کہی ہوئی اقبال کی نظمیں
۱۹۰۸ء سے۔۔۔
یورپ میں کہی ہوئی اقبال کی نظمیں بہت کم ہیں لیکن انہیں میں سے بعض میں اس کی شاعری کے موضوعات کا رخ بدلتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس تمنا نے اسے بیتاب کرنا شروع کیا ہے کہ اپنی پس ماندہ اور افتادہ ملت کو بیدار اور ہشیار کیا جائے، عظمت دیرینہ اور عروج رفتہ کے نقشے اس کے سامنے رکھے جائیں، موجودہ حالت کی درماندگی اور پستی کو بھی اچھی طرح نمایاں کیا جائے لیکن اس انداز سے نہیں کہ اس میں یاس آفرینی اور ہمت شکنی کی کیفیت پیدا ہو، حالی بہت کچھ قوم کا ماتم کر چکا ہے، اب مزید اشک ریزی اور سینہ زنی سے انفعالی کیفیت کو ترقی دینا نقصان کا باعث ہو گا، مومن کی سیرت کے خط و خال اعلیٰ درجے کی مصوری سے کھینچے جائیں، اسلاف سے اس کے نمونے پیش کئے جائیں، قوم میں خودی اور خود داری کا احساس پیدا کیا جائے، احساس کمتری کو مٹا کر اس میں خودی کے جذبے کو ابھارا جائے، بلبل کو خیر باد کہہ کر شاہین کی سیرت کو اردو اور فارسی شاعری میں پہلی مرتبہ فقر و خود داری، جرأت و ہمت اور بلند پروازی کا نمونہ بنایا جائے قوم کے جمود کو توڑا جائے او راسے یہ تعلیم دی جائے کہ زندگی ذوق ارتقاء ہے، حرکت مسلسل ہے، سوز نیم خام ہے، خوب تر کی تلاش ہے، جذبہ نشوونما ہے قناعت پسندوں اور تقدیر پرستوں کو یہ بتایا جائے کہ سعی پیہم سے جہان نو پیدا کرنا انسان کی تقدیر ہے، عقل اچھی چیز ہے لیکن خالی عقل خنک جرأت اموز او رخلا ق نہیں ہوتی، زیر کی سے زیادہ عشق کی ضرورت ہے، جب تک قوم میں زندگی کے اعلیٰ اقدا رکی تڑپ پیدا نہ ہو گی وہ جمود اور خفتگی میں سے نہیں نکل سکے گی، بقول عارف رومی:
کوشش بے ہودہ بہ از خفتگی
شیخ عبدالقادر کے نام جو پیغام ہے اس میں بھی یہ کہیں نہیں ملتا کہ آؤ اپنی قوم کو جدید علوم و فنون اور عقل فرنگ سے آراستہ کر کے ترقی یافتہ اور مہذب اقوام کی صف میں کھڑے ہو جائیں۔
اقبال اس سے قبل حسن و عشق میں بہت سی نظمیں اور بہت سے اچھے اشعار لکھ چکا تھا لیکن وہ عشق یا مجازی تھا یا متصوفانہ انداز کا عشق جس میں انسانوں کواپنے ماحول سے بیگانہ کرنے کا میلان ہوتا ہے۔ اب اقبال وضاحت کے ساتھ جس عشق کی تلقین شروع کرتا ہے وہ حیات لامتناہی کا عشق ہے، زندگی کے لامتناہی ممکنات کو معرض وجود میں لانے کا جذبہ ہے یہ عشق وہ ہے جو آئینہ بصیرت کو صیقل کرتا ہے، پتھر کو آئینہ اور قطرے کو گوہر بناتا ہے یہ عشق وہ ہے جو خاک سے گل و ثمر پیدا کرتا ہے اور جس سے قطرے میں بحر آشامی کی تشنگی اضطراب آفرین ہوتی ہے۔ دنیا میں اسلام کو اپنی اصل صورت میں پیش کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے والے اس عشق کا تجربہ کر چکے ہیں کہ وہ ظاہر و باطن میں کیسا خلاق اور انقلاب زا ہوتا، عہد حاضر میں وہ نمونے نظر نہیں آتے لیکن مسلمانوں کی تاریخ اور روایات میں تو موجود ہیں، ان کا جلوہ مسلمانوں کو پھر دکھایا جائے:
جلوۂ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو
تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں


اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر
قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں

دیکھ! یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بیکار
قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں
اسلام کی کیفیت تو شراب کی سی ہے وہ فرسودہ نہیں ہوا، کہنہ ہونے سے تو اس میں اور تیزی پیدا ہوتی ہے:
بادہ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز
جگر شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں
اقبال نے یہ فیصلہ کر لیا کہ باقی عمر میں شاعری سے اب یہی احیائے ملت کا کام لیا جائے گا۔ فرماتے تھے کہ میرے والد نے مجھ سے یہ خواہش کی تھی اور مجھے نصیحت کی تھی کہ اپنے کمال کو اسلام کی خدمت میں صرف کرنا۔ حالی کی شاعری کا رخ سرسید نے پھیرا اور اس کے جوہر کو ملت کے لیے وقف کرایا۔ سید علیہ الرحمتہ کی صحبت سے پہلے حالی میں یہ چیز بالکل موجود نہ تھی، روایتی تغزل کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ اقبال میں یہ جذبہ شروع سے موجود تھا لیکن اس میں شدت اور گرمی مغرب میں پیدا ہوئی، اس کی طبیعت میں یہ آفتاب محشر مغرب میں طلوع ہوا:
گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ
چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں


شمع کی طرح جبیں بزم گہ عالم میں
خود جلیں دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں


ہر چہ در دل گذرد وقف زباں دارد شمع
موختن نیست خیالے کہ نہاں دارو شمع
اس ذہنی انقلاب سے پہلے کی شاعری میں بھی اقبال کے اندر اسلامی جذبات کا کافی ثبوت ملتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ دبی ہوئی آگ چادر خاکستر کو برطرف کر کے بھڑکنے لگتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ کیفیت ہوتی ہے کہ:
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
واپسی میں اقبال کا جہاز ابھی سمندر میں ہی تھا کہ جزیرۂ سسلی دکھائی دیتا ہے جہاں مسلمانوں نے ایک عرصے تک نہ صرف حکومت کی بلکہ علم و فنون اور تہذیب و تمدن کے ایسے اچھے نمونے پیش کیے جس سے بعد میں تہذیب فرنگ نے اپنے چراغ جلائے۔ وہ عظمت رفتہ اقبال کی چشم تصور کے سامنے آ کر درد انگیز ہو گئی اور شاعر بے اختیار اشک افشاں ہو کر اس کا مرثیہ خواں ہو گیا اس کے تخیل نے تصویر کہن میں رنگ بھر دیے:
رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے
قصہ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے


میں ترا تحفہ سوے ہندوستان لے جاؤنگا
خود یہاں روتا ہوں اوروں کو وہاں رلواؤنگا
وہ اس ملت کی مرثیہ خوانی اس لیے نہیں کر رہا کہ کسی زمانے میں اس کی عظیم الشان سلطنت تھی جو انقلاب روزگار سے جاتی رہی، وہ اس ملت کے زوال پر اس لیے افسوس کرتا ہے کہ وہ ایک شاندار نصب العین کی حامل تھی:
اک جہان تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور
کھا گئی عصر کہن کو جن کی تیغ ناصبور


مردہ عالم زندہ جن کی شورش قم سے ہوا
آدمی آزاد زنجیر توہم سے ہوا

غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے
کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے
یورپ سے واپسی کے بعد اقبال کی غالباً سب سے پہلی نظم بلاد اسلامیہ ہے، جو مخزن میں چھپی تھی۔ یہ نظم اس انقلاب کا پتہ دیتی ہے کہ اقبال نے اب اس وطنیت کے دائرے سے باہر قدم رکھا ہے جس کے متعلق وہ پہلے جذبات انگیز شاعری کر چکا تھا۔ اب تمام عالم اسلامی اس کا وطن بن گیا ہے، اسی جذبے نے تھوڑی عرصے کے بعد اس سے ترانہ ہندی کی زمین میں ترانہ ملی لکھوایا:
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
بلاد اسلامیہ کی نظم اس ترانے کا پیش خیمہ تھی، اس نظم میں تاریخ اسلام کا ایک رومانی تصور ملتا ہے۔ دلی اور بغداد اور قرطبہ اور قسطنطنیہ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار اور تہذیب و تمدن کے مراکز تھے۔ مسلمان کہلانے والی اقوام ان اقالیم میں غالب اور حکمران تھیں لیکن ان سلطنتوں کا انداز اور ان کے حکمرانوں کے اسلوب حکمرانی ہر حیثیت سے اسلامی نہ تھے۔ ان میں سے اکثر نے تو محض قیصر و کسریٰ کی جانشینی ہی کی ہے اور اسلامی زندگی کے کوئی اعلیٰ نمونے پیش نہیں کیے۔ بعد میں تو اقبال علی الاعلان یہ کہنے لگے کہ مسلمان حکمرانوں کی ملوکیت ہی نے اسلام کی صورت کو مسخ کیا ہے، لیکن بلاد اسلامیہ والی نظم میں ابھی تاریخ اسلامیہ کا روشن پہلو ہی ان کے سامنے ہے۔ سوا چند مستثنیٰ صورتوں کے ان سلطنتوں کے حکمرانوں کا طریقہ غیر اسلامی تھا لیکن ان تمام نقائص کے باوجود یہ بات تاریخی حیثیت سے غلط نہیں کہ اچھے ادوار میں اور ان مراکز میں جن کا ذکر اس نظم میں ہے، مسلمانوں نے تہذیب و تمدن کے ایسے نمونے پیش کیے جو دیگر اقوام کی معاصرانہ زندگی سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ سب جگہ محکوم ملتوں کے ساتھ بے حد رواداری کا سلوک کیا گیا، اگرچہ سیاسی لحاظ سے آخر میں یہی رواداری مسلمانوں کے لیے تباہی کا باعث بنی۔ یہ درست ہے کہ مسلمان اپنے عروج و اقتدار کے زمانے میں ہندوستان اور شرقی اور غربی یورپ کے بہت سے حصے کو جبر سے مسلمان کر سکتے تھے اور اگر ایسا کیا ہوتا تو آج وہاں ایک غیر مسلم بھی نظر نہ آتا، لیکن ایسا جبر مسلمان کیسے کر سکتے تھے؟ اسلام میں اس کی قطعاً اجازت نہ تھی؟ اگر ایسا کیا ہوتا تو ان خطوں کی غیر مسلم ملتیں بعد میں قوت حاصل کر کے مسلمانوں کو تباہ نہ کر سکتیں اور آج وہاں کوئی فرد اسلام اور مسلمانوں کو برا کہنے والا نہ ملتا، مگر یہ حقیقت ہے کہ ایسے جبر سے مسلمانوں کو سیاسی فائدہ تو پہنچتا لیکن اسلام کا دعویٰ حریت ضمیر باطل ہو جاتا۔
بلاد اسلامیہ میں آخری بند مدینہ منورہ پر ہے، جس کے ساتھ مسلمانوں کا قلبی اور روحانی تعلق اس اندا زکا ہے جو کسی اور شہر کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ یہ خواب گاہ مصطفی ؐ، ملت اسلامیہ کی عظمت کی ولادت گاہ تھی۔ اس کے متعلق اقبال کہتا ہے کہ قومیت اسلام پابند مقام نہیں، لیکن اگر کسی مقام کے ساتھ اس کو وابستگی ہو سکتی ہے تو مدینہ منورہ ہی ہے۔ عالم اسلامی کا نقطہ جاذب اور مرکز یہی مقام ہے، جو اقوام اسلامیہ کا شیرازہ بند ہے:
ہے اگر قومیت اسلام پابند مقام
ہند ہی بنیاد ہے اس کی، نہ فارس ہے، نہ شام
آہ! یثرب دیس ہے مسلم کا تو ماویٰ ہے تو
نقطہ جاذب تاثر کی شعاعوں کا ہے تو
صبح ہے تو اس چمن میں گوہر شبنم بھی ہیں
مسلمانوں کا سب سے زیادہ شاندار اور علوم و فنون کے لحاظ سے قابل فخر تمدن اندلس میں تھا۔ فرنگ نے اس تہذیب و تمدن سے بہت کچھ حاصل کیا اور مغرب کے بعض جدید مورخین نے فراخ دلی سے اس احسان کا اقرار بھی کیا ہے۔ اس لیے قرطبہ کی یاد مسلمانوں کے قلوب میں بہت رنج و الم پیدا کرتی ہے۔ حالی نے بھی مسدس میں قرطبہ ہی کے متعلق حسرت و حرمان سے یہ اشعار لکھے ہیں:
کوئی قرطبہ کے کھنڈر جا کے دیکھے
مساجد کے محراب و در جا کے دیکھے

حجازی امیروں کے گھر جا کے دیکھے
خلافت کو زیر و زبر جا کے دیکھے

جلال ان کا کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا
کہ ہو خاک میں جیسے کندن دمکتا
حالی کے بعد قرطبہ کی یاد میں اقبال ایک المناک تاریخی حقیقت کو بیان کرت اہے:
ہے زمین قرطبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور
ظلمت مغرب میں جو روشن تھی مثل شمع طور

بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی
اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی

قبر اس تہذیب کی یہ سر زمین پاک ہے
جس سے تاک گلشن یورپ کی رگ نمناک ہے
یورپ سے واپسی کے کچھ عرصے بعد اقبال حیدر آباد دکن غالباً اکبر حیدری کی دعوت پر گئے اور انہیں کے ہاں مہمان بھی رہے۔ حیدر آباد میں سب سے زیادہ حسرت ناک اور عبرت انگیز مقام گورستان شاہی ہے جہاں قطب شاہیوں کے مقابر کے عظیم الشان گنبد ہیں۔ مسلمان بادشاہوں کے اتنے عظیم و رفیع مقبرے شاید دنیائے اسلام میں کہیں اور یکجا نہیں ملتے، ان کو دیکھ کر دنیازی جاہ و جلال کا انجام اور زندگی کی بے ثباتی طبیعت میں ایک گہرا تاثر پیدا کرتی ہے۔ اقبال نے اس تاثر سے جو نظم لکھی ہے وہ اس کی بہترین نظموں میں سے ہے۔ اس کے پہلے بند میں لطیف تاثر کی ایسی مصوری ملتی ہے جو اقبال جیسے قادر الکلام شاعر ہی کا کمال ہے۔ اس میں خارجی فطرت اور شاعر کا باطنی تاثر ایک دوسرے کا آئینہ بن گئے ہیں، فطرت کی نواے خاموش شاعر کے ساز فطرت سے ہم آہنگ ہو گئی ہے:
آسماں بادل کا پہنے خرقہ دیرینہ ہے
کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے

چاندنی پھیکی ہے اس نظارۂ خاموش میں
صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں 

کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی
بربط قدرت کی اک دھیمی نوا ہے خامشی

باطن ہر ذرہ عالم سراپا درد ہے
اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے
اس بے مثل نظم میں محض صنعت اور فن کے لحاظ سے بھی اقبال کی شاعری کا کمال جھلکتا ہے، پہلے کئی بند زندگی کی بے ثباتی اور موت کی ہمہ گیری پر مشتمل ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ قانون انقلاب اور آئین فنا سے نہ شاہوں کو گریز حاصل ہے اور نہ گداؤں کو:
موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے
اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے
اس تمام مرثیے کی تہ میں دراصل غم ملت ہے جو آخری بندوں میں نمایاں ہونے لگتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ جس طرح موت کی یورش افراد پر ہے اسی طرح اقوام بھی اس کی دستبرد سے نہیں بچ سکتیں۔ ’’ ولکل امتہ اجل‘‘ :
زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار
رنگ ہاے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار


اس زیاں خانے میں کوئی ملت گردوں وقار
رہ نہیں سکتی ابد تک بار دوش روزگار


اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خوگر جہاں
دیکھتا بے اعتنائی سے ہے یہ منظر جہاں
اس کے بعد اقبال سوچتا ہے کہ مصر، بابل اور یونان و روما کی طرح عظمت مسلم بھی ایام نے لوٹ لی ہے، عالم گیر آئین فنا سے یہ کیسے بچ سکتے تھے۔ اس نظم کے بیشتر حصے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال زندگی کی بے ثباتی اور موت کی ہمہ گیری سے مغلوب ہو کر ایک انفعالی کیفیت میں ڈوب گیا ہے، لیکن اقبال کی فطرت کا ناقابل شکست تقاضا تو وہ ہے جسے غالب نے اس شعر میں ادا کیا ہے:
ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجئے دیر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
شروع کے آٹھ نو بندوں میں ایسی حسرت برستی ہے اور ایسی عبرت پیدا ہوتی ہے کہ انسان کا دل زندگی اور اس کے ناپائدار دھوکوں سے سرد ہو جاتا ہے، لیکن یہ کیفیت کبھی اقبال پر طاری بھی ہوتی ہے تو جلد رفع ہو جاتی ہے اور جب تک وہ غم زندگی کو اپنی کیمیائے نظر سے امید اور لطف حیات میں تبدیل نہیں کر لیتا وہ بات کو ختم نہیں کرتا۔ اس کی بعض شاندار نظموں میں آپ یہی دیکھیں گے کہ وہ غم و رنج کی گہرائیوں میں غوطہ لگا کر نہ صرف سطح حیات پر ابھرتا ہے بلکہ اس سے اوپر لامتناہی فضا میں پرواز کرنے لگتا ہے۔ وہ یاس کا مبلغ نہیں، وہ غم کا مصور نہیں، وہ امید کا پیغمبر اور زندگی کا پرستا رہے۔ موت اور فنا کو وہ آنی جانی کیفیتیں سمجھتا ہے۔ چنانچہ اس نظم میں فنا اور موت کی مصوری کر چکنے کے بعد وہ آخر میں زندگی کا نقشہ کھینچتا ہے اور اس نتیجے پر تان توڑتا ہے کہ موت سے بھی ہر جگہ زندگی ابھرتی دکھائی دیتی ہے۔ موت کوئی مستقل چیز نہیں، وہ زندگی ہی کا ایک مظہر اور اس کے ظہور تازہ بتازہ اور نو بنو کا ذریعہ ہے:
زندگی سے یہ پرانا خاکداں معمور ہے
موت میں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے


پتیاں شاخوں سے گرتی ہیں خزاں میں اس طرح
دست طفل خفتہ سے رنگیں کھلونے جس طرح
اس نظم کا داخلی ارتقاء اقبال کی فطرت اور اس کے نظریہ حیات کا آئینہ دار ہے۔ نظم کا موضوع اور محرک گورستاں ہے جس سے زیادہ غم و اندوہ کا محل اور خوں گشتہ آرزو کا مدفن اور کوئی مقام نہیں ہو سکتا۔ ابتدائی تاثر وہی ہے جو کسی انسان کے بھی حساس دل میں پیدا ہو سکتا ہے، گو ایک لطیف طبع والے شاعر کی طبیعت میں حسرت و عبرت اور انجام حیات روح کی گہرائیوں کو خاص طور پر متاثر کرتے ہیں اس فوری اور ابتدائی تاثر سے شاعر یہ محسوس کرتا ہے کہ:
باطن ہر ذرۂ عالم سراپا درد ہے
اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے
یہ تاثر اتنا شدید ہے کہ افراد و اقوام تمام کی زندگی کو ایک المیہ بنا دیتا ہے، لیکن کوئی حقیقت شناس شاعر اور مفکر تمام زندگی کو فنا انجام سمجھ کر یاس کو ہمیشہ اپنی روح پر قابض نہیں ہونے دیتا، کیوں کہ زندگی میں جہاں رات آتی ہے وہاں اس کے بعد لازماً سحر بھی نمودار ہوتی ہے، فنا کے ساتھ ساتھ حیات نباتی و حیوانی کی بقا کوشی بھی ہے اور اکثر چیزیں جو بادی النظر میں شر معلوم ہوتی ہیں وہ مزید تجربے سے اعلیٰ درجے کی بھلائیوں کا مصدر و منبع بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ زندگی میں سب کچھ ہے، یاس بھی ہے اور امید بھی، رنج بھی ہے اور مسرت بھی، درد بھی ہے اور دوا بھی۔ اب یہ انسانی فطرتوں کا اختلاف ہے کہ بعض طبائع بہار کو دیکھ کر بھی مسرور ہونے کے بجائے یہ خیال اپنے اوپر طاری کر لیتی ہیں کہ یہ بہار چند روزہ ہے اور یہ سب پھول تھوڑے عرصے میں مرجھا جانے والے ہیں۔ خزاں میں نہ خندہ گل ہو گا اور نہ نغمہ بلبل، اس کے برعکس ایک رجائی زاویہ نگاہ ہے جو غالب جیسے مصیبت زدہ شاعر میں غم و اندوہ کے باوجود برقرار رہتا ہے:
نہیں بہار کو فرصت نہ ہو بہار تو ہے
طرات چمن و خوبی ہوا کہیے
فارسی میں بھی غالب کا ایک نہایت حکیمانہ شعر اس کے رجائی نقطہ نظر کو واضح کرتا ہے۔ جہاں زندگی ہے، خواہ وہ نباتی ہو یا حیوانی، وہاں اس کے ساتھ روزگار کے آئین کے مطابق کبھی کبھی جادۂ صحت و توازن سے ہٹ کر مرض کا ظہور بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں رنج و درد کے مظاہر کو دیکھ کر بعض لوگ خدائے حکیم و رحیم کی ہستی ہی کے منکر ہو جاتے ہیں۔ غالب کہتا ہے کہ حکیم مطلق کی رحمت کا اس سے اندازہ کرو کہ بیماریوں کے تمام علاج جماد و نبات میں ملتے ہیں او رانہیں کے عناصر سے دوائیں بنتی ہیں، لیکن مخلوقات کی تدریجی تکوین میں جماد و نبات پہلے نمودار ہوئے ہیں اور حیوانات، جو امراض کا شکار ہو سکتے ہیں، بعد میں پیدا ہوئے ہیں۔ رنج و مرض کے وجود سے پہلے فطرت نے علاج کے سامان مہیا کر رکھے تھے:
چارہ در سنگ و گیاہ و رنج با جاندار بود
پیش ازیں کیں در رسد آن را مہیا ساختی
اقبال کا فلسفہ حیات بھی شدت کے ساتھ رجائی ہے۔ وہ دنیا والوں کے لیے امید کا پیغام رساں ہے جیسا کہ ہر اولو العزم نبی بھی ’’ لا تقنطوا من رحمتہ اللہ‘‘ ہی کی بشارت انسانوں تک پہنچانے کے لیے آتا ہے۔ اس نظم میں یاس انگیزی جب ایک خاص حد تک پہنچ جاتی ہے تو اقبال یک بیک چونک اٹھتا ہے کہ ہیں یہ میں نے اپنے اوپر کیا غلط جذبہ طاری کر لیا ہے۔ فنا تو زندگی کی ماہیت نہیں ہو سکتی، قدیم اقوام کے زوال پر نظر ڈالتے ہوئے ملت مسلمہ کی طرف آتا ہے تو یہ شعر لکھنے کے بعد کہ:ـ
آہ! مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا
آسماں سے ابر آزادی اٹھا برسا گیا
یک دم فطر ت کی حیات انگیزی کی طرف مڑ کر دیکھتا ہے تو کہیں فناے محض نظر نہیں آتی، رگ گل میں شبنم کے موتی پروئے ہوئے ہیں، سینہ دریا شعاعوں کا گہوارہ ہے، پرندوں کی رنگیں نوائی پھولوں کی رنگینی کا جواب ہے، ہر جگہ عشق سے حسن اور حسن سے عشق پیدا ہو رہا ہے، موت میں بھی زندگی کی تڑپ محسوس ہو رہی ہے۔ تمام فطرت نشاط آباد دکھائی دیتی ہے، لیکن پھر ہوک سینے میں اٹھتی ہے کہ فطرت کی نشاط انگیزی اس غم کا علاج تو نہیں ہو سکتی جو زوال ملت سے طبیعت کو غم کدہ بنا رہا ہے:
اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے
ایک غم یعنی غم ملت ہمیشہ تازہ ہے
دو چار اشعار میں پھر یہ غم نشاط فطرت پر غالب آ جاتا ہے، لیکن آخری مرحلے میں یاس و حسرت امید کو جنم دیتے ہیں:
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدۂ گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم


ہیں ابھی صدہا گہر اس ابر کی آغوش میں
برق ابھی باقی ہے اس کے سینہ خاموش میں


وادی گل خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ
خواب سے امید دہقان کو جگا سکتا ہے یہ
اسلامی تاریخ میں فتوحات ملکی کا دور گزر گای ہے، جاہ و جلال والی سلطنتیں شاید دوبارہ قائم نہ ہو سکیں، لیکن زندگی میں جلال کے علاوہ جمال بھی ہے اور ممکن ہے کہ جلال فی نفسہ مقصود نہ ہو بلکہ جمال آفرینی کے لیے محض ایک شرط مقدم ہو، اخلاقی اور روحانی، علمی اور فنی مقاصد کا حصول عظیم سلطنتوں کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ سلاطین کا دور دورہ ختم ہو گیا، کیا ضروری ہے کہ اس کے ساتھ باطنی کمالات کا ظہور بھی ختم ہو جائے۔ اسلامی زندگی کے مقاصد لامتناہی ہیں اور چونکہ اسلام ابدی حقائق کی تحقیق کا نام ہے اس لیے یہ دین کبھی فرسودہ نہیں ہو سکتا اور ملت اسلامیہ جو اس کی علم بردار ہے اس کے لیے ماضی کی عظمت رفتہ اور حال کی تباہ حالی کے بعد ایک درخشاں مستقبل بھی ہے، نا امیدی کفر ہے:
ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
اس آخری شعر میں اس خیال کا اظہار ہے کہ قوت، اقتدار اور حکمرانی کی شان و شوکت اور دبدبہ شاید اب واپس نہیں آ سکتا، لیکن بعد میں اسرار خودی کو پیش کرنے والا اقبال پھر جلال کی طرف واپس آئے گا:
لاکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سر بکف
اور یہ تلقین شروع کرے گا کہ خالی باطن کی تنویر بھی بغیر شمشیر کوئی اہم نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی، مادی قوت اور زبردست خود مختار حکومت کا ہونا بھی لازمی ہے۔ ملوکیت تو واپس نہیں آ سکتی اور نہ ارتقائے حیات اجتماعی میں اس کا دوبارہ آنا مفید ہے، لیکن سیاسی اور معاشی قوت اور علوم و فنون سے پیدا کردہ تسخیر فطرت کا ملکہ روحانیت اور استحکام خودی کے لیے لازمی ہیں۔ نوع انسان کے آئندہ ارتقاء میں جلال و جمال کا ایک دل کش مرکب تیار ہونا چاہیے۔ اسلام اسی نظریہ حیات کو پیش کرنے والا دین تھا، اس لیے اس نظریہ حیات کے مطابق حیات ملی کو ڈھالنا ملت اسلامیہ ہی کا حق اور اسی کا فرض اولین ہے۔
۱۹۰۸ء سے لے کر عالم جاودانی کو سدھارنے تک اقبال کی شاعری میں کم از کم تین چوتھائی حصہ اسلامی اور ملی شاعری کا ہے، اس میں بے شمار فلسفیانہ افکار اور حکیمانہ جواہر ریزے بھی ملتے ہیں لیکن سب کا محور تعلیمات اسلامی اور جذبہ احیائے ملت ہے۔ جو لوگ اقبال کو محض شاعر جانتے تھے اور اس کے سخن کی لطافتوں، نادر ترکیبوں اور دل آویزیوں کے شیدائی تھے ان کو اقبال کی شاعری کا یہ انقلاب ایک رجعت قہقری محسوس ہوا اور بعض نقادوں نے کہنا شروع کیا کہ اقبال پہلے اچھا تھا، حسن و عشق اور مناظر فطرت پر نظمیں لکھتا تھا، صبح و شام کے مناظر کو دل کش انداز میں پیش کرتا تھا اور اگر انسانوں کے متعلق کوئی بات کہتا تھا تو اس کی مخاطب تمام نوع انسان ہوتی تھی، اب وہ محدود و محصور ہو کر فقط مسلمانوں کا شاعر رہ گیا ہے، اب وہ مبلغ ہو گیا ہے، واعظ ہو گیا ہے، اسلام اور مسلمانوں کا پروپیگنڈا کرتا ہے، اس کے غیر مسلم قدر دانوں نے مایوس ہو کر اس سے شکایت کرنی شروع کی کہ اب ہم لوگ آپ کے مخاطب نہیں رہے، وطن پرستوں نے کہا ہم تو اقبال کی پرستش اس لیے کرتے تھے کہ وطن پرست تھا، خاک وطن کا ہر ذرہ اس کو دیوتا دکھائی دیتا تھا، وہ مذاہب کی باہمی پیکار و پرخاش کو مٹانا چاہتا تھا،ا ٓوارہ اذان کو ناقوس میں چھپانے اور تسبیح کے دانوں کو رشتہ زنار میں پرونے کا آرزو مند تھا، لیکن اب وہ اسلام کے سوا کسی دین کو سچا نہیں سمجھتا، اب یہ پروانہ فقط چراغ حرم کا طواف کرتا ہے اورچراغ دیر کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا، بھلا مصلحانہ شاعری بھی کوئی شاعری ہوتی ہے؟ فن لطیف کا کام براہ راست وعظ کرنا تو نہیں۔ تبلیغ سے تو فن لطیف آلودہ اور کثیف ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی فن برائے فن کے دلدادہ کہنے لگے کہ کیا افسوس ہے کہ اقبال جیسے صاحب کمال کو زوال آ گیا ہے۔ ایک مرتبہ لاہور کی ایک نمائش میں جوش ملیح آبادی اور ساغر مجھ سے کہنے لگے کہ بھائی اقبال سے تمہارے دیرینہ تعلقات ہیں اور تم خود ذوق سخن بھی رکھتے ہو، ذرا یہ بتاؤ اقبال اب جو شاعری کرتا ہے یہ کوئی شاعری ہے؟ ذرا اس کو کہو کہ وہ اس روش کو چھوڑ دے اور اپنے کمال کو اس بیہودہ کوشش میں ضائع نہ کرے۔ میں ان کو کیا جواب دیتا، مسکرا کر خاموش ہو گیا، اس بارے میں بحث بالکل بے نتیجہ ہوتی۔ ساغر صاحب فن برائے فن والے شاعر تھے اور اقبال کے نزدیک یہ انحطاط اور بے روحی کی علامت تھی۔ ہوش صاحب کا مضمون خاص رندی اور خمریات تھا جس میں ان کی صناعی اکثر نوجوانوں سے تحسین حاصل کرتی تھی، لوگ انہیں شاعر انقلاب کہنے لگے تھے اس لیے کہ وہ انگریزوں کی حکومت کے علاوہ خدا اور رسول کی حکومت سے بغاوت کا اظہار کرتے تھے اور الحاد کو خوش گوار بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ ایسے لوگوں کے لیے اقبال یا تو ناقابل فہم تھا یا جو کچھ وہ کہتا تھا اس کو سمجھنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ باتیں بے کار ہیں۔ اسلام کسی زمانے میں کچھ کام آیا ہو گا اب:
این دفتر بے معنی غرق مے ناب اولیٰ
ملت اسلامیہ کے احیا کا خواب اب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا:
آن قدح بشکست و آن ساقی نماند
اب یا وطنیت کے راگ گانے چاہئیں یا روسی اشتراکیت کے، جو الحاد کی بنیاد پر ایک نئی عالمگیر برادری پیدا کر رہی ہے، ان کے نزدیک اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مذہب غلامانہ اخلاق کی تلقین کرتا ہے اور دیر و حرم میں یہ افیون لوگوں کو اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ ہر قسم کے استبداد کو مشیت ایزدی سمجھ کر برضا و رغبت قبول کر لیں۔ مسلمان پہلے استبداد کے افیون خوردہ تھے، اب حضرت اقبال بھی ان کو یہی افیون اپنی شاعری میں گھول کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ کہا گیا کہ اقبال مسلمانوں کے خون کو گرما کر ان کو دوسری ملتوں سے برسر پیکار کرنے میں کوشاں ہے۔ ان اعتراضات کا تفصیلی جواب اقبال کی تعلیمات کو پیش کرتے ہوئے دیا جائے گا، یہاں اس وقت فقط یہ بتانا مقصود ہے کہ اقبال نے جب شاعری کا رخ بدلا تو بعض طبائع پر اس کا کیا رد عمل ہوا۔
اسرار خودی کے شائع ہونے کے بعد بعض لوگوں میں ایک دوسری قسم کی مایوسی پیدا ہوئی ان میں کچھ ایسے تھے جو اقبال سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنی ثروت افکار اور پرواز تخیل سے اردو زبان کو سرمایہ افتخار بنائے گا۔ غالب کے متعلق خود اقبال کہہ چکا تھا:
گیسوے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے
اور اقبال کی قادر الکلامی نے یہ توقع پیدا کر دی تھی کہ اردو شاعری کو اقبال مہی باثروت بنانے کا اب لوگوں کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اقبال نے شاید اردو کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اسرار خودی، بانگ درا کے اردو مجموعے سے بہت پہلے شائع ہوئی۔ اشاعت کے لحاظ سے اقبال ابھی پوری طرح اردو دانوں کے سامنے نہیں آیا تھا کہ وہ ایک فارسی شاعر کی حیثیت سے نمودار ہو گیا۔ اسرار خودی کو دیکھ کر ایک دوسری شکایت یہ پیدا ہوئی کہ اس میں زیادہ تر درس فلسفہ ہی ہے۔ وہ اقبال اس میں نہیں ہے جو درس فلسفہ کے ساتھ ساتھ عشق و رزی بھی کرتا تھا:
کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی ورزید
اس کتاب میں ما بعد الطبیعیات کو نظم کر دیا ہے، جس میں ماہیت وجود اور زمان و مکان کی ناقبال فہم بحثیں ہیں یا خودی کی تلقین ہے۔ یہ بات بھی کچھ انوکھی معلوم ہوئی کیوں کہ اس سے قبل تمام اردو اور فارسی شاعری میں بے خودی کو سراہا گیا تھا اور بعض متصوفین نے خودی ہی کو سب سے بڑا گناہ کبیرہ قرار دیا تھا۔ صوفیہ کا یہ مقولہ عام ہو گیا تھا کہ (وجودک ذنب) تیرا وجود اور انفرادی ہستی کا احساس ہی سب سے بڑا فریب ہے اور اسی ’’ ہم‘‘ یا’’ میں‘‘ کو فنا کرنا ہی روحانیت کی معراج ہے:
گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور
اور اس سے پہلے روایتی تصوف کے زیر اثر اقبال خود بھی کہہ چکا تھا:
میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ
اٹھ گیا بزم سے میں پردۂ محفل ہو کر
زیر اثر اقبال خود بھی کہہ چکا تھا:
میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ
اٹھ گیا بزم سے میں پردۂ محفل ہو کر
غرضیکہ اقبال نے جب اپنی شاعری اور اس کے مضامین کا رخ بدلا تو اس سے دو قسم کے نتائج پیدا ہوئے۔ جن لوگوں میں دینی اور ملی جذبہ تھا وہ تو بہت مسرور ہوئے کہ ایک باکمال شاعر نے محض تفنن طبع کو چھوڑ کراپنی شاعری کو شعور ملی کا ترجمان بنایا ہے، جس نے قوم میں ایک نئی روح پھونکنی شروع کی ہے۔ اقبال نے اب مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات اور ان کی صداقت و عظمت سے آگاہ کر کے ان کے احساس کمتری کو مٹانے اور ان کے احساس خودی کو ابھارنے کی کوشش کی۔ شرق و غرب جہاں جہاں سے حیات آفرینا فکار ملے ان کی پر زور تلقین کی۔ شاعری کو محض چٹخارا سمجھنے والوں کو چھوڑ کر اقبال اب خاص و عام کے لیے ترجمان حقیقت بن گیا۔
مسلمانوں کی شاعری صدیوں کے انحطاط سے ہر قسم کے حقائق سے دور ہو گئی تھی اور غیر شعوری طور پر یہ ایک مسلمہ قائم ہو گیا تھا کہ شاعری کے لیے حقیقت کی ضرورت نہیں، زندگی کی حقیقتیں یا تو پھیکی ہوتی ہیں یا تلخ، شیرینی اور لطف تو حقیقت سے گریز ہی میں پیدا ہوتا ہے۔ قصائد تھے تو سب جھوٹ کا طومار اور عشقیہ شاعری تھی تو فرضی معاملات اور بیان میں دور ازکار صناعی، حالی نے جب سچی شاعری کے لیے حقیقت کو لازمی عنصر قرار دیا اور اسی معیار کے مطابق اپنی شاعری کا رنگ بدلا تو اس کی نئی شاعری قدیم ڈگر پر چلنے والے پیشہ ور شعراء کو بالکل پھیکی معلوم ہوئی، لیکن حالی کو فطرت نے شاعر بنایا تھا اس لیے سادگی اور حقیقت پر استقلال سے قائم رہنے کے بعد اس نے بھی عام و خاص سے اپنا لوہا منوا لیا۔ وہی مسدس جس کو حالی کے معاصر شعراء نے محض اس قابل سمجھا کہ اس پر پھبتیاں کسی جائیں، اسی مسدس سے سید احمد خاں کی روح اس قدر متاثر ہوئی کہ انہوں نے فرمایا کہ اگر آخرت میں خدا نے مجھ سے پوچھا کہ اعمال میں تو کیا چیز اپنی نجات کے لیے لایا ہے تو میں عرض کروں گا کہ میں نے حالی سے مسدس لکھوایا۔ حالی نے اپنی وفات سے قبل ہی تمام جھوٹے شاعروں اور کم نظر نقادوں پر فتح پا لی تھی۔ یہی معاملہ اقبال کے ساتھ بھی پیش آیا، پہلے اس کی اردو شاعری پر مدعیان زباندانی نے اعتراض کرنے شروع کیے اور اس کی شاعری کی جدت اور کمال ان کی نظر سے اوجھل رہا، لیکن کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اقبال کی آواز چاروں طرف گونجنے لگی اور معترضین کی آواز صدا بہ صحرا ہو گی۔
اس بات پر اچھی طرح غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اسلام اور فلسفے اور تبلیغ اور وعظ نے اقبال کی شاعری کو نقصان پہنچایا اور کیا یہ صحیح ہے کہ اس نے اپنے شاعرانہ کمال کو اپنے عقائد اور نظریات حیات پر قربان کر دیا؟ ہمارے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے۔ اقبال کو فطرت نے ایسا قادر الکلام باکمال شاعر بنایا تھا کہ وہ موضوع کچھ بھی منتخب کرے اور شعر خواہ آمد سے کہے اور خواہ آورد سے وہ کبھی حسن کلام سے معرا نہیں ہوتا۔ اردو اور شاعری کی عام روایات کو مدنظر رکھ کر عام ادیبوں اور شاعروں اور نقادوں نے یہ فرض کر لیا تھا کہ شاعری کے لیے کچھ مضامین اور موضوع مقرر ہیں اور ان کو ادا کرنے کے لیے خاص اسالیب بیان اور خاص قسم کی زبان بھی لازم ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شاعری کے لیے نہ کوئی موضوع مقرر اور مفید ہیں اور نہ ہی اسالیب بیان کا احصا ممکن ہے۔ زندگی اور کائنات کی ہر چیز، ہر حادثہ اور ہر واقعہ شعر کا موضوع بن سکتا ہے اور اگر شاعر فطری شاعر ہے اور مبدء فیاض سے جوہر سخنوری اس کو ودیعت ہوا ہے تو وہ جو کچھ بھی کہے گا اس کا انداز دل نشین اور اثر آفرین ہو گا۔ ایک زمانہ تھا کہ غزل کا کوئی مستقل وجود نہ تھا، پھر غزل قصائد کی تشبیب کے طور پر نمودار ہوئی، اس کے بعد غزل فقط اظہار تعشق یا رندی کے مضامین کے لیے مخصوص ہو گئی، عطار اور سنائی، سعدی اور رومی کے ہاں غزل میں تصوف کے مضامین داخل ہو گئے اور تصوف کی راہ سے فلسفہ بھی آ گیا، عشق مجازی کے ساتھ عشق الٰہی کی آمیزش نے غزل کو نقصان پہنچانے کی بجائے اس کو اور موثر اور دلآویز بنا دیا۔ حافظ کی غزلوں میں یہی آمیزش یا یوں کہیے مجاز و حقیقت کا التباس و اشتباہ سحر آفرین ہو گیا ہے، جو چاہے اپنے مذاق کے موافق مجازی معنی قرار دے کر لطف اٹھائے اور جو چاہے صہبا و ساغر و مینا کو روحانیت کے استعارے سمجھ لے:
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
(غالب)
حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن
از شیشہ بے مے مے بے شیشہ طلب کن
(صائب )

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شاعری میں تبلیغ نہیں ہونی چاہیے وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ رندی و ہوس کی ستائش بھی تو تبلیغ و ترغیب و تحریص ہی ہے۔ اردو اور فارسی کی تمام شاعری اس سے بھری پڑی ہے۔د راصل شعر میں تبلیغ کے مخالف یہ چاہتے ہیں کہ رندی و ہوس ناکی کی تبلیغ ہو، اس کے برعکس اگر روحانیت اور اخلاق حسنہ کی تبلیغ ہو تو وہ شاعری نہیں رہتی۔
اقبال کی شاعری سے صدیوں پہلے تصوف اور فلسفہ شاعری کا ایک جزو بن چکا تھا۔ کلام اقبال میں صرف یہ جدت اور وسعت ہے کہ جو فلسفہ یا تصوف حکمت پسند اور روحانیت پسند شعراء میں ملتا ہے اس کے بہترین عناصر بھی کلام اقبال میں موجود ہیں، مگر حکمت کی ایسی باتیں اس میں اضافہ ہو گئی ہیں جو متقدمین میں ملتی ہیں نہ متاخرین میں اور نہ اقبال کے معاصرین میں۔ خاقانی اپنے قصائد میں فلکیات اور ریاضی اور دیگر علوم و فنون کی اصطلاحیں داخل کر کے ان سے اپنے غیر حقیقی تخیلات اور افکار کو استوار کرتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی شاعری کو استناد کا درجہ حاصل ہے اور بعد میں آنے والے شاعر، خواہ قا آنی کی طرح اس کے مقابلے میں زبان و بیان پر زیادہ قدرت رکھنے والے ہوں، اس کا لوہا مانتے ہیں:
شاہا بہ قا آنی نگر خاقانی ثانی نگر
لیکن اقبال اگر فلسفہ قدیم کے علاوہ فلسفہ جدید کی بعض اصطلاحیں اور نظریات اپنے کلام میں داخل کرے تو اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ شاعری کے درجے سے گر گیا ہے۔
اسی طرح یہ اعتراض بھی لغو ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے بیشتر حصے کو احیاے ملت کے لیے کیوں وقف کر دیا؟ کیا شاعری واقعی اس سے خراب ہو جاتی ہے؟ عربی اور فارسی شاعری کا موازنہ اور مقابلہ کرتے ہوئے مولانا شبلی اور دیگر نقادوں نے اس کو تسلیم کیا ہے کہ عجم کے تخیلات سے متاثر ہونے کے قبل سر زمین عرب کے اندر شاعری حقیقت نگاری تھی اور عرب شاعر اپنے کلام میں دروغ سے فروغ نہیں پیدا کرتا تھا، وہ حقیقت کو سادگی کے ساتھ اس انداز میں پیش کرتا تھا کہ وہ سننے والے کے دل کے اندر اتر جاتی تھی۔ ہر شاعر اپنے شخصی عشق یا ذاتی تاثرات مسرت و الم کے علاوہ اپنے قبیلے کے نفس کا ترجمان ہوتا تھا۔ وہ اپنے قبیلے کے کارناموں کو دہراتا تھا، ہمت و ایثار کی مثالیں اسی قبیلے کے گزرے ہوئے افراد سے لیتا تھا اور دشمنوں کے مقابلے میں اپنے قبیلے والوں کے دل مضبوط کرتا تھا۔ انہیں صفات کی وجہ سے قدیم عربی شاعری اب تک حقیقت شناسوں سے داد حاصل کرتی ہے۔ وہ عربی شاعری قبیلوی عصبیت کی شاعری تھی، اس کے مقابلے میں اس اقبال کی ملت پرستی کی شاعری غیر معمولی وسعت رکھتی ہے جس میں جذبات عالیہ کی فراوانی ہے اور جذبات اسفل کا فقدان ہے۔ اقبال اپنی ملت کے متعلق بہت کچھ وہی انداز اختیار کرتا ہے جو کسی عرب قبیلے کا اعلیٰ درجے کا شاعر اختیار کرتا تھا۔ اقبال بھی اپنی ملت کے اچھے کارناموں کو دہراتا ہے لیکن اس کی نظر میں وسعت اور اس کے قلب میں زیادہ صداقت پیدا ہو گئی ہے جو تنگ نظر عصبیت پر غالب آ گئی ہے۔ وہ صرف قوم کا قصیدہ نہیں پڑھتا بلکہ اس کے عیوب بھی اس طرح بیان کرتا ہے کہ اس قوم کا دشمن بھی اس سے زیادہ تلخ گوئی سے کام نہیں لے سکتا۔ اس کا مقصد اپنی قوم میں بلند نظری اور مقاصد حیات کی بلندی پیدا کرنا ہے جو نہ صرف اس مخصوص ملت بلکہ تمام نوع انسان کے لیے باعث خیر ہو۔
شاعری کے متعلق یہ ایک لغو نظریہ ہے کہ شاعر نہ کسی خاص عقیدۂ زندگی کا مبلغ ہو اور نہ کسی خاص ملت کی وابستگی سے شعر کہے، اور یہ کہ شاعر کو تمام نوع انسان کے لیے ایک بے طرف اور غیر جانبدار انسان ہونا چاہیے۔ ہومر خالص یونانی شاعر ہے، اس کے عقائد، اس کے تاثرات، اس کی صنمیات سب یونانی ہیں، اس کے ہیرو یونانی ہیرو ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی صاحب ذوق آدمی اس کی شاعری کو یہ کہہ کر نہیں ٹھکرا دیتا کہ وہ یونانی ماحول کی پیداوار ہے جو تین چار ہزار برس پہلے ایک مخصوص خطہ زمین میں پایا جاتا تھا۔ اس کے دیوتاؤں کا اب کون قائل ہے اور اسکی اخلاقیات بھی اب ہمارے کس کام کی ہے، لیکن عیسویٰ مغرب کو دیکھئے کہ ہومر کے دیوتاؤں کو باطل سمجھنے کے باوجود اب تک اس کی شاعری کو جزو تعلیم ادب عالیہ بنائے ہوئے ہے اور کلیسا کے بڑے پادری بھی اس کو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی ملی اور اسلامی شاعری پر ناک بھوں چڑھانے والے اور اسلامیات کی وجہ سے اس کی شاعری کو پست گردانتے والے وہی لوگ ہیں جو دین سے بے بہرہ اور متنفر ہیں اور ملت کے عروج و زوال سے بھی ان کو کوئی واسطہ نہیں، ان کے نزدیک شاعری تفنن طبع کا نام ہے۔ اگر وہ اشتراکی ہیں تو اشتراکیت کی تبلیغ کو تو اچھی شاعری اور اعلیٰ درجے کا فن لطیف سمجھتے ہیں اور اسلام کی شاعری ان کے نزدیک محض ملائی وعظ و تلقین ہے۔ الحاد پر شعر کہو تو لطف اٹھاتے ہیں اور توحید پر اعلیٰ درجے کے اشعار بھی لکھو تو انہیں بے لطف معلوم ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کی طبیعت میں اس کا کوئی اذعان یا رحجان نہیں۔
فنون لطیفہ کی بھی وہی کیفیت ہے جو علم کی ہے، علم فی نفسہ نہ مفید ہے اور نہ مضر، نہ معاون حیات ہے اور نہ مزاحم زندگی۔ علم ایک بے طرف قوت ہے اور علوم کے بے شمار اقسام ہیں۔ اسی طرح شعر ہر قسم کا ہو سکتا ہے، مختلف اشعار ہر قسم کے افکار اور تاثرات کے حاصل ہو سکتے ہیں، شاعری ادنیٰ جذبات کو بھی ابھار سکتی ہے، بعض اشعار میں جذبہ غالب ہوتا ہے اور بعض میں تفکر اگرچہ جذبے کی آمیزش سے بالکل معرا شعر بہت ٹھنڈا اور پھیکا ہوتا ہے، وہ کانوں کے راستے سے دماغ سے تو ٹکراتا ہے لیکن دل کا کوئی تار اس سے مرتعش نہیں ہوتا۔ ایک قسم کی شاعری ہے جو محض مسرت کے لیے کی جاتی ہے، اس کے برعکس ایک دوسری قسم کی شاعری ہے جس کا مقصود اندوہ گینی اور اندوہ افزائی ہے، جیسے لکھنو کی مرثیہ گوئی خالی ہوس پرستی اور رندی نے بھی اردو اور فارسی شاعری کے کثیر حصے کو گھیر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ وہ شاعری بھی ہے جس میں حکمت اور تجربہ حیات کو دلنشیں اور موثر انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ تصوف نے بھی اعلیٰ درجے کی شاعری کو جنم دیا جس میں حکمت بالغہ اور عشق الٰہی کی آمیزش اور تزکیہ نفس کی ترغیب ہے۔ خوشامد کی جھوٹی شاعری نے قصیدوں کا ایک دفتر بے معنی مہیا کر دیا جو اب تک دار العلوموں کے نصاب میں داخل ہے۔ شاعری کے تمام ا قسام آخر ایک ہی جنس کے انواع ہیں۔
بعض نقاد کہتے ہیں کہ فن کو فن ہی کے معیار سے پرکھنا چاہیے۔ علم علمی معیار سے پرکھا جاتا ہے، اخلاق اخلاقیات کی کسوٹی پر جانچا جاتا ہے، دینیات کے لیے دین معیار ہے، اسی طرح فن لطیف کے صرف فن ہی کو معیار ہونا چاہیے۔ فن کی مملکت ایک آ زادمملکت ہے جس کے اپنے آئین ہیں۔ اس مسئلے پر کسی قدر مفصل اظہار خیال اقبال کے نظریات فن کی بحث میں آئے گا، یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ اقبال کی اسلامی اور ملی شاعری اور اس کی فلسفیانہ شاعری، شاعری کے وسیع حدود سے باہر نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس قسم کی تلقین و تبلیغ خطیبانہ نثر میں بھی ہو سکتی ہے بلکہ ہونی ہی نثر میں چاہیے، یہ تقاضا لغو اور بے معنی ہے۔ شاعری کا کام بات کو موثر اور دل نشیں بناتا ہے، اگر کوئی شخص خاص عقابر اور خاص نظریات حیات رکھتا ہے اور خدا نے اس کو شاعر بھی بنایا ہے تو وہ کیوں اپنے افکار و تاثرات کو شعر کے سانچے میں نہ ڈھالے، جو نثر کے مقابلے میں زیادہ موثر پیرایہ بیان ہے ۔ میرے نزدیک اقبال نے اسلام اور ملت اسلامیہ کے علاوہ اپنی مخصوص شاعری سے عام نوع انسان کی بے حد خدمت کی ہے، اس کے اشعار بلند افکار اور جذبات عالیہ سے مملو ہیں جو تمام نوع انسان کی بے حد خدمت کی ہے، اس کے اشعار بلند افکار اور جذبات عالیہ سے مملو ہیں جو تمام نوع انسان کی روحانی دعوت دیتے ہیں، اس میں کسی مذہب و ملت کی تخصیص نہیں اور اسلام کی تعبیر میں اس نے جو باتیں کہی ہیں وہ بلا تفریق مذہب و ملت تمام دنیا کے لیے پیغام حیات ہیں چونکہ کہنے والا مسلمان ہے، اس کے مخاطبین براہ راست تو مسلمان ہیں لیکن بالواسطہ اس کا خطاب ہر انسان سے ہے خواہ وہ شرقی ہو یا غربی:
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند
اقبال کی شاعری کا زیادہ حصہ ایسا ہے جس میں فلسفے اور دینیات اور احیائے ملت کے تقاضے نے شعر کو شعریت کے زاویہ نگاہ سے بھی پست نہیں ہونے دیا۔ اگر اقبال ایک غیر معمولی صاحب کمال شاعر نہ ہوتا تو اس کی نظموں میں فلسفہ خشک ہوتا، وعظ بے اثر ہوتا اور تبلیغ بے نتیجہ ہوتی۔ یہ اس کا کمال ہے کہ وہ فلسفیانہ اشعار کہتا ہے تو بات خالی فلسفے کے مقابلے میں زیادہ دل نشیں اور یقینا آفرین بن جاتی ہے۔ ملت کے عروج و زوال اور مرض و علاج کو بھی جب وہا پنی ساحرانہ شاعری کے سانچے میںڈھالتا ہے تو سننے والوں کے دلوں میں ایک زیر و بم پیدا ہوتا ہے۔

اقبال اعلیٰ درجے کا شاعر ہونے کے علاوہ مفکر اور مصلح بھی ہے، بعض نظمیں وہ محض بحیثیت شاعر لکھتا ہے، بعض نظموں میں حکیمانہ افکار شعر کے پیرائے میں ڈھل گئے ہیں اور بعض نظموں میں جذبہ اصلاح غالب ہے اس لیے اس کے تمام کلام کو محض شاعری کے نقطہ نظر سے نہیں جانچ سکتے اگرچہ محض فن کی حیثیت سے بھی اس کی اکثر مبلغانہ اور حکیمانہ نظمیں ایک خاص پائے سے نیچے نہیں گرنے پاتیں۔