۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک
یہ زمانہ اقبال کے قیام فرنگ کا زمانہ ہے۔ یورپ کا سفر مختلف قسم کے انسان مختلف اغراض اور محرکات کی وجہ سے کرتے ہیں، کوئی سیر و تفریح کی خاطر جاتا ہے، کوئی تجارت کی غرض سے، کوئی علوم و فنون کے حصول کے لیے اور کوئی جدید تہذیب و تمدن کا جلوہ دیکھنا چاہتا ہے۔ بقول اکبر الٰہ آبادی:
سدھاریں شیخ کعبے کو ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گے خدا کو ہم خدا کی شان دیکھیں گے
اقبال نے روانگی کے وقت فقط اس مقصد کا اظہار کیا کہ وہ حصول علم کی خاطر ادھر کا رخ کر رہا ہے:
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
وہاں ایک عرصہ رہ کر اور اس شراب کے نشے کا تجربہ کر چکنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس نشے میں سوز و گداز کی کیفیت نہیں اور وہ غم عشق نہیں جس سے روح اپنی غذا حاصل کرتی ہے:
پیر مغاں! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر
اس میں وہ کیف غم نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے
اقبال اساسی طور پر ایک مشرقی انسان تھا، وہ مشرقی روحانیت کا دلدادہ تھا، تمام مذہب عالیہ مشرق ہی کے مختلف خطوں میں پیدا ہوئے ہیں، مشرق ہمیشہ سے ادیان کا گہوارہ اور روحانیت کا سرچشمہ رہا ہے، مشرق نے دنیاوی تمدن اور تہذیبیں بھی اعلیٰ درجے کی پیدا کیں، اس نے علوم و فنون بھی پیدا کیے، بڑی بڑی ملکی فتوحات بھی کیں، وسیع سلطنتیں بھی یہاں قائم ہوئیں، پیغمبروں، رشیوں اور سنیوں کے ساتھ چنگیز، ہلاکو اور تیمور جیسے سنگ دل شمشیر زن بھی یہیں پیدا ہوئے۔ لیکن ان تمام جلوؤں اور ہنگاموں کے باوجود مشرق کے بلند ترین نفوس مادیت سے روحانیت کی طرف گریز کرتے رہے، بڑے بڑے کشور کشا بھی روحانی انسانوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے رہے۔ اکبر اعظیم جیسا کشور کشا اور دنیوی سیاست کا مدبر بھی ننگے پاؤں چل کر سلیم چشتی جیسے درویش کے پاس پہنچا کہ اس سے اولاد نرینہ کے لیے دعا کرائے اور جہانگیر جب بموجب عقیدۂ اکبر اس درویش کی دعا سے عالم وجود میں آیا تو اس کا نام بھی اسی درویش کے نام پر رکھا۔ شاہ جہان قیصر و کسریٰ کی شوکت کو مات کرنے کے لیے نو کروڑ روپے کی لاگت سے جواہرات سے مرصع تخت طاؤس بناتا ہے لیکن اس پر جلوس کرنے سے قبل تخت کے سامنے زمین پر سر بہ سجود ہو کر خدا سے کہتا ہے کہ فرعون آبنوس کے تخت پر بیٹھتا تھا اور خدائی کا دعویٰ کرتا تھا، میں اس مرصع تخت پر بیٹھنے سے قبل عجز و بندگی کا اظہار کرتا ہوں۔ شاید کوئی یہ کہے کہ ایسا تخت بنوانا کہاں کی بندگی اور کہاں کی عاجزی ہے؟ لیکن یہاں صرف یہ بات قابل غور ہے کہ ایک مشرقی انسان شوق شکوہ کے رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے قلب کی گہرائیوں میں اس خدا سے بھی رابطہ قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے جس کے سامنے تمام دنیاوی شوکتیں ہیچ ہیں اور جس تک رسائی فقط درویشی ہی کے راستے سے ہو سکتی ہے۔ مشرقی انسان کے لیے شاعری بھی وہی اثر آفرین ہوتی ہے جس میں روحانیت کی چاشنی ہو؟ سنائی اور عطار اور رومی کی گرفت مشرقی انسانوں کے قلوب پر، فردوسی و انوری و خاقانی سے بدرجہا زیادہ ہے۔ اقبال کو یورپ جانے سے قبل بھی انگریزی شاعری کے بہت سے انداز پسند تھے اور اس نے مغربی سانچوں سے بہت کچھ فائدہ بھی اٹھایا لیکن مغربی افکار پر بھی مشرقی روحانیت کا رنگ چڑھتا گیا اور اس طرح شرق و غرب کے امتزاج سے نئے مرکبات پیدا ہوئے لیکن مشرقی عنصر ہمیشہ غالب رہا۔
اقبال کو یورپ میں رہنے، حکمت فرنگ سے گہرا تعلق پیدا کرنے اور اس کی تہذیب و تمدن کا براہ راست مشاہدہ کرنے سے طرح طرح کے فائدے پہنچے۔ اقبال کی نظر آغاز ہی سے محققانہ تھی، اس لیے اس کی زندگی میں مغرب کی کورانہ تقلید کا کوئی شائبہ پیدا نہ ہو سکتا تھا۔ اس نے یورپ کے سطحی جلوؤں کو بھی دیکھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس کے باطن پر بھی گہری نظر ڈالتا گیا، اس نے فرنگ میں علم و ہنر کے کمالات اور انسانی زندگی کی بہبود کے لیے ان کے مفادات کو بھی دیکھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس سے بھی آگاہ ہو گیا کہ اس تعمیر میں ایک خرابی کی صورت بھی مضمر ہے۔ یورپ میں اس نے عقل کی کرشمہ سازیاں بھی دیکھیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس کو نظر آیا کہ اس علم و فن کی نظر زیادہ تر تن کی طرف ہے من کی طرف نہیں، دماغ کی تربیت ہوتی ہے مگر دل تشنہ و گرسنہ رہ جاتا ہے:
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کے مانند
مگر یہ خلد بس جنت نگاہ اورفردوس کوش ہے جس کے گرویدہ ہونے کا عبرت انگیز انجام غالب نے بھی آخر عمر میں ایک قطعے میں یہاں کیا تھا:
اے تازہ وردان بساط ہواے دل
زنہار اگر تمہیں ہوس نا و نوش ہے
اقبال نے دیکھا کہ فرنگ کی زیرکی مادی مفاداندوزی میں اس عشق سے بے گانہ ہو گئی ہے جو انسانی روح کے اندر زندگی کی لامتناہی اقدار کا خلاق اور حقیقی ارتقائے حیات کا ضامن ہے۔ یورپ میں جو اس کو تجلی نظر آئی اس کی مشرقی بصیرت نے اس کے متعلق فتویٰ دیا:
ہنگامہ گرم ہستی ناپائدار کا
چشمک ہے برق کی کہ تبسم شرار کا
سید احمد خاں ہوں یا ان کے شرکاء کار، شبلی وحالی، چراغ علی، نذیر یا مولوی ذکاء اللہ، ان سب کو مغربی تہذیب کا روشن پہلو ہی نظر آیا تھا، وہ اس کی تعریف میں رطب اللسان اور اس کی تجلی سے مرعوب و مغلوب تھے، وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ محسوس کرتے تھے کہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون ہی نہیں بلکہ اخلاق کے معیار بھی مغرب ہی سے حاصل کرنے چاہئیں، ان میں سے ہر شخص اپنی تحریروں میں، نثر یا نظم میں جب شرق و غرب کا موازنہ کرتا ہے تو نہایت درجہ احساس کمتری کے ساتھ مغرب کی برتری کو تسلیم کرتا ہے، دین کے مقابلے میں عیسوی عقائد کو چھوڑ کر باقی ہر چیز میں مغرب کی تقلید کو ترقی کا واحد راستہ سمجھتا ہے۔ اقبال میں یہ مغرب زدگی یورپ جانے سے پہلے بھی نہ تھی لیکن یورپ کے حقائق کے متعلق عین الیقین اور حق الیقین کے پیدا ہونے کے بعد اقبال کی طبیعت میں مغرب کے خلاف ایک زبردست رد عمل پیدا ہوا۔ یورپ کی ترقی زیادہ تر عقلی ترقی تھی اس لیے اس نے اس طبیعات میں گھری ہوئی عقل کے خلاف ہی جہاد شروع کر دیا جو اس کے آخری لمحہ حیات تک پورے جوش و خروش کے ساتھ قائم رہا۔
اقبال نے یورپ میں نظمیں بہت کم کہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ وہاں فلسفہ کی تعلیم و تحقیق اور تصنیف کے لیے مواد جمع کرنے میں منہمک رہا۔ شاعری کے لیے جس قسم کی فرصت اور فراغ قلب کی ضرورت ہے وہ اس کو میسر نہ تھی اور یورپ کی جدوجہد کو دیکھ کر یہ خیال بھی طبیعت میں گردش کرنے لگا:
جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے
لیکن اقبال جیسے فطری شاعر کے لیے بالکل سکون بھی ممکن نہ تھا۔ اس زمانے کی نظموں میں بھی جو تعداد میں بہت کم ہیں ہر رنگ کی شاعری ملتی ہے، حسن اور عشق پر اعلیٰ درجے کی نظمیں موجود ہیں۔ یہ نا ممکن تھا کہ جو ان شاعر فرنگ میں حسن نسوانی سے متاثر نہ ہوا، چنانچہ بعض نظمیں مخصوص محبوبوں کے متعلق ہیں۔ ان نظموں میں ایک لا جواب نظم حسن و عشق کے عنوان سے ہے جس میں حسن و عشق کا فلسفہ نہیں بلکہ کسی ایک حسین کے حسن سے پیدا شدہ تاثر ہے۔ ویسے تو اردو اور فارسی کا تمام تغزل عاشقانہ شاعری میں ہے لیکن اردو اورفارسی کے کسی شاعر کے کلام میں اس قسم کی لطیف عاشقانہ غزل یا نظم نہ ملے گی:
جس طرح ڈوبتی ہے کشتی سیمین قمر
نور خورشید کے طوفان میں ہنگام سحر
جیسے ہو جاتا ہے گم نور کا لے کر آنچل
چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگ کنول
جلوہ طور میں جیسے ید بیضائے کلیم
موجہ نگہت گلزار میں غنچے کی شمیم
ہے ترے سیل محبت میں یونہی دل میرا
اس نظم میں کل تین بند ہیں اور شروع سے آخر تک تشبیہہ و تمثیل اور تخیل کی معراج ہر بند میں نظر آتی ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ حسینہ کون تھی اور نہ ہی معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عشق حسینہ کے حسن کی طرح ناپائیدار ہی ہو گا لیکن اس نے اس حساس اور باکمال شاعر کو متاثر کر کے جو اشعار لکھوائے ہیں وہ عشقیہ شاعری میں ہمیشہ لطافت فکر و تاثر اور حسن کلام کا نمونہ پیش کرتے رہیں گے اور اقبال کے متعلق آئندہ نسلوں کو یہ یاد کراتے رہیں گے کہ یہ ’’ دل بکسے نہ باختہ‘‘ کہنے والا شاعر کہیں کہیں عشق مجازی کا بھی شکار ہوا ہے۔ ایک جگہ اقبال نے اپنی نسبت کہا ہے:
کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی ور زید
معلوم ہوتا ہے کہ کائناتی عشق کے علاوہ انفرادی عشق کی ورزش بھی کبھی کبھی کی ہے، کسی کی گود میں بلی دیکھ کر جو کچھ کہا ہے وہ بھی اسی راز کا غماز ہے۔ لیکن اقبال کی طبیعت میں ہر جزو اور ہر فرد کے حسن و عشق کے ساتھ ہی حسن کلی اور عشق کلی کا جذبہ بھی ابھرتا ہے اور اس کا فلسفہ بیان کرنے کے بغیر اقبال کے نزدیک بات پوری نہیں ہوتی، بات بلی سے شروع ہوتی ہے:
تجھ کو دزدیدہ نگاہی یہ سکھا دی کس نے
رمز آغاز محبت کی بتا دی کس نے
ہر ادا سے تری پیدا ہے محبت کیسی
نیلی آنکھوں سے ٹپکتی ہے ذکاوت کیسی
لیکن آخری اشعار میں حسن و عشق کا احساس کائنات پر پھیل جاتا ہے:
کیا تجسس ہے تجھے؟ کس کی تمنائی ہے
آہ! کیا تو بھی اسی چیز کی سودائی ہے
خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں
صورت دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں
شیشہ دہر میں مانند مے ناب ہے عشق
روح خورشید ہے خون رگ مہتاب ہے عشق
دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی
نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی
کہیں سامان مسرت کہیں ساز غم ہے
کہیں گوہر ہے کہیں اشک کہیں شبنم ہے
کلی کی نظم میں بھی جو خورشید ہے وہ بھی کوئی مہ وش ہی ہے:
مرے خورشید! کبھی تو بھی اٹھا اپنی نقاب
بہر نظارہ تڑپتی ہے نگاہ بیتاب
ترے جلوہ کا نشیمن ہو مرے سینے میں
عکس آباد ہو تیرا مرے آئینے میں
اپنے خورشید کا نظارہ کروں دور سے میں
صفت غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے میں
اقبال کی عاشقانہ نظموں کے متعلق یہ بات خاص طور پر ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ کسی محبوب پر اگر اس نے کبھی کوئی نظم لکھی ہے تو وہ حقیقی انسان تھا، اقبال کی شاعری کہیں بھی مصنوعی نہیں۔ اردو اور فارسی کے دیوان کے دیوان ایسی غزلوں سے بھرے پڑے ہیں جو کسی مخصوص محبوب کے متعلق نہیں، زیادہ تر معشوق ایک فرضی معشوق ہوتا ہے اور اس فرضی بت کے متعلق تمام تاثرات و تخیلات آورد سے پیدا کیے جاتے ہیں۔ ایسی شاعری شاعری نہیں بلکہ محض صناعی ہوتی ہے، جیسے خمریات میں ایسے لوگوں نے دیوانوں کے دیوان بھر دیے جنہوں نے مے انگور کو کبھی منہ نہیں لگایا لیکن تخیل میں تمام عمر مے خواری میں اور میخانے ہی میں گزار دی۔ ریاض کے خمریات کو دیکھیے کون شخص یہ یقین کر سکتا ہے کہ اس مرد خدا نے کبھی پی ہی نہیں لیکن اس کی زندگی سے واقف لوگ اس کی پارسائی کے شاہد ہیں۔ امیر مینائی کو دیکھئے تہجد گزار، ہر وقت تسبیح بدست، عابد و زاہد ہوس رانی کے کیا کیا نقشے مزے لے لے کر کھینچتا ہے اور کتنی مضمون آفرینی کرتا ہے، ابتدال سے بھی اس کو گریز نہیں، شراب کے بارے میں بھی جھوم جھوم کر نکتے پیدا کرتا ہے:
انگور میں تھی یہ مے پانی کی چار بوندیں
جس دن سے کھچ گئی ہے تلوار ہو گئی ہے
لیکن فرضی معشوق کے مصنوعی عشق آورد اس کے بیان میں آورد کی شاعری سوز و گداز سے معرا ہوتی ہے اور جو بات دل سے نہیں نکلی وہ دلوں میں گھستی بھی نہیں۔ داغ اور امیر مینائی دونوں ہوس پرستی کے تغزل میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے رہے لیکن امیر مینائی زاہد تھا اور داغ کو اس چیز سے حقیقی رابطہ بھی رہا تھا جس کے مختلف پہلوؤں کو بیان کر کے وہ لطف آفرینی کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ امیر مینائی نے داغ کے سامنے ایک روز اقرار کیا کہ ہم نے غزل میں بہت زور مارا لیکن تمہارے تغزل والی بات نہ ہو سکی۔ اس کے جواب میں داغ نے کہا کہ بھائی جورو کے عاشق کی غزل ایسی ہی ہوتی ہے جیسی تمہاری ہے۔
اقبال کی زندگی سے جو لوگ واقف ہیں وہ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ رندی اور شباب کے زمانے میں بھی وہ عاشقی کے معاملے میں ’’ کردے و گذشتے‘‘ ہی تھا اور ’’ دل بکسے نہ باختہ‘‘ میں اس نے اپنی نسبت صحیح بات کہی ہے۔ بقول غالب وہ اس معاملے میں مصری کی مکھی تھا، شہد کی مکھی نہ تھا جس کے پاؤں اس میں دھس جائیں:
من بجا ماندم و رقیب بدر زد
نمہ لبش انگبین و نمہ طبر زد
یورپ میں لکھی ہوئی نظموں میں ایک نظم میں کھول کر اپنے عاشق ہرجائی ہونے کا ذکر کیا ہے اور اس نظم کا عنوان ہی عاشق ہرجائی رکھا ہے:
ہے عجب مجموعہ اضداد اے اقبال تو
رونق ہنگامہ محفل بھی ہے تنہا بھی ہے
حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے
پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے
تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار
تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے؟
ہے حسینوں میں وفا نا آشنا تیرا خطاب
اے تلون کیش تو مشہور بھی رسوا بھی ہے
لے کے آیا ہے جہاں میں عادت سیماب تو
تیری بیتابی کے صدقے، ہے عجب بیتاب تو
اس نظم کے دوسرے بند میں اس تلون اور بے وفائی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہتا ہے کہ میرے سینے میں جو دل ہے وہ ایک تراشا ہوا ہیرا ہے جس کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو میں نیا رنگ جھلکتا ہے میرے دل میں گیتوں کا ایک محشر ہے، ہر کیفیت میں ایک نئے جلوے کی آرزو ہے میں کسی ایک حسین کے عشق میں کیسے ہمیشہ گرفتار رہ سکتا ہوں، میرا پیمان وفا حسن سے ہے نہ کسی فرد حسین سے میں حسینوں کے نظارے میں حسن کامل کو ڈھونڈتا ہوں:
ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش
آہ! وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں
جستجو کل کی لیے پھرتی ہے اجزاء میں مجھے
حسن بے پایاں ہے درد لا دوا رکھتا ہوں میں
زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری
عشق کو آزاد دستور وفا رکھتا ہوں میں
معشوق کو تمام شعراء بے وفا کہتے ہوئے چلے آئے ہیں لیکن عاشق بے وفا کا مضمون اور وہ بھی عاشق شاعر کی اپنی زبان سے شاید اقبال کے سوا اور کہیں نہ ملے، جو اپنے بے وفائی کو وفا سے کہیں زیادہ قابل قدر چیز سمجھتا ہے۔ اس بے وفائی کو اس نے اعلیٰ درجے کا تصوف اور جزو کل کا فلسفہ بنانے کی ایک دل کش کوشش کی ہے۔ کہتا ہے کہ یہ تو تنگی دل اور افلاس تخیل کی بات ہے کہ کوئی شخص کسی ایک محبوب کا گرویدہ ہو کر اور محبوبوں کی طرف توجہ نہ کرے جو ویسے ہی حسن مطلق کے جزئی مظاہر ہیں:
سچ اگر پوچھے تو افلاس تخیل ہے وفا
دل میں ہر دم اک نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں
اگر کائنات میں حسن ایسا ہی محدود اور تنگ جلوہ تھا کہ عاشق کو کسی ایک کے حسن ہی میں گرفتار کر کے محو کر دے تو یہ لا انتہا تخیل مجھے عطا کیا گیا جو خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہمیشہ تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ اس تصوف اور اس جواز بے وفائی کو بھلا کون حسین قبول کرے گا، اور اقبال کے سوا کون سا عاشق ہے جس نے اپنے ہرجائی ہونے پر فخر کیا ہو اور اس عیب کو ایسا حسین کر کے پیش کیا ہو۔ ایک شاعر نے معشوق کے ہرجائی پن سے جل کر انتقاماً یہ ارادہ کیا تھا:
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یتہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
لیکن اقبال کے ہاں یہ انتقام نہیں بلکہ صوفی مزاج شاعر کی ایک لازمی صفت بن گئی ہے۔ اقبال نے اپنے آپ ہی کو ہرجائی نہیں بنایا بلکہ شکوے میں خدا کو بھی ہرجائی ہونے کا طعنہ دیا ہے:
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے
یورپ میں کہی ہوئی نظموں میں قبل سیاحت فرنگ کا اقبال بھی موجود ہے۔ وہی اقبال جس کے کلام میں تصوف اور فلسفہ مجاز اور حقیقت کی آمیزش نے ایک امتیازی خصوصیت پیدا کر دی تھی، اسلام اور ملت اور وطنیت کا جذبہ یورپ میں بھی برقرار رکھتا ہے۔ بعض نظموں میں شاعر بحیثیت شاعر بھی پایا جاتا ہے، لیکن اس کے علاوہ ہلکی سی مبلغانہ جھلک بھی ہے او رپیام رسائی کا جذبہ بھی ابھرتا ہوا نظر آتا ہے، جو اس سے پہلے اقبال کے کلام میں موجود نہ تھا۔ علاوہ متفرق اشعار کے تین نظموں میں پیام کا عنوان بھی ہے ایک پیام طلبہ علی گڑھ کے نام ہے، دوسری نظم پیام عشق اور تیسری کا عنوان فقط پیام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اقبال میں یہ احساس ترقی کر رہا ہے کہ اچھی شاعری کو پیغمبری کا جزو ہونا چاہیے اور تلمیذ الرحمان کے پاس انسانوں کے لیے کچھ پیام حیات کا ہونا بھی لازمی ہے۔ پیام کے عنوان والی نظم کا مطلع ہے:
عشق نے کر دیا تجھے ذوق تپش سے آشنا
بزم کو مثل شمع بزم حاصل سوز و ساز دے
دوسرے شعر میں کہتا ہے کہ عشق کی دولت ایک فضل الٰہی ہے جس کے حصول کا مدار محض کوشش پر نہیں ہے، یہ خدا کا کرم ہے اور اس فیض رسائی میں ادیان و ملل کی تفریق حائل نہیں:
شان کرم پہ ہے مدار عشق گرہ کشاے کا
دیر و حرم کی قید کیا جس کو وہ بے نیاز دے
یہ مضمون صوفیہ اور متصوفین شعراء کا ایک مسلمہ اور عام عقیدہ ہے، بقول عارف رومی:
مذہب عشق از ہمہ دین باجداست
عشق والوں کا بیان الفاظ میں خواہ کافرانہ ہی معلوم ہو لیکن اس میں سے بوے دین آتی ہے:
گر بگوید کفر آید بوے دیں
می تراود از شکش بوے یقیں
مرزا غالب کہتے ہیں کہ کافر عشق کو ایک خدا داد دولت ملتی ہے جو محض سعی حاصل نہیں ہو سکتی:
دولت بغلط نہ رسد از سعی پشیمان شو
کافر نتوانی شد ناچار مسلمان شو
ایک اور شاعر کہتا ہے کہ:
پروانہ چراغ حرم و دیر ندارد
وحدت وجود کے عقیدے کی جھلک بھی اس غزل کے ایک شعر میں موجود ہے:
تارے میں وہ قمر میں وہ جلوہ گہ سحر میں وہ
چشم نظارہ میں نہ تو سرمہ امتیاز دے
پھر کہتا ہے کہ تزکیہ نفس اور ترقی روح کے لیے طبیعت میں سوز و گداز کا ہونا لازمی ہے:
صورت شمع نور کی ملتی نہیں قبا اسے
جس کو خدا نہ دہر میں گریہ جان گداز دے
غالب پہلے سے کہہ گیا ہے کہ روح پرور سخن وری کے لیے بھی یہ لازمی شرط ہے:
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی
اقبال کا پیام حقیقت میں آغاز ہی سے عشق کا پیام تھا اس کی شاعری کا بہترین حصہ جو روح میں ارتعاش اور اہتزاز پیدا کرتا ہے وہ آیت عشق ہی کی تفسیر اور اسی خواب کی تعبیر ہے۔ طلبہ علی گڑھ کے نام جو پیام اس کے مطلع میں بھی عشق کی تبلیغ ہے:
اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے
دوسرے شعر میں یہ اشارہ ہے کہ تمہارے رہبر، واعظ و مصلح اور ناصح سب غلامی میں مبتلا ہیں اور ان کا نالہ و فریاد زیر دام کی چیخ پکار ہے لیکن مجھے خدا نے دام و قفس سے نجات دی ہے اس لیے میرا نالہ طائر بام ہے۔ آزاد کی فریاد کی لے غلام اور گرفتار کی فریاد و لے سے الگ ہوتی ہے:
طائر زیر دام کے نالے تو سن چکے ہو تم
یہ بھی سنو کہ نالہ طائر بام اور ہے
تیسرے شعر میں اقبال کا خاص فلسفہ حیات ہے جس کی شرح وہ تمام عمر کرتا رہے گا کہ حیات و کائنات میں سکون مجازی و اعتباری ہے اور حرکت ماہیت حیات میں داخل ہے اس لحاظ سے کہسار کی بظاہر سکونی عظمت اور وقار کے مقابلے میں کمزور چیونٹی کی حرکت زندگی کا بہتر مظہر ہے:
آتی تھی کوہ سے صدا راز حیات ہے سکوں
کہتا تھا مور ناتواں لطف خرام اور ہے
چوتھے شعر میں وطنیت کی جگہ ملت اسلامیہ کی مرکزیت اور اس کی عالمی ہیئت نے لے لی ہے:
جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا
اس کا مقام اور ہے اس کا نظام اور ہے
جب یہ نظم علی گڑھ والوں کو بھیجی گئی تو اس میں ایک اور شعر جس کا مضمون یہ تھا کہ نظام اسلام بے قید مقام ہے یعنی جغرافیائی حدود و قیود کا پابند نہیں معلوم نہیں کہ بانگ درا کی اشاعت کے وقت اقبال نے اس شعر کو کیوں خارج کر دیا تھا، وہ شعر یہ تھا:
جس بزم کی بساط ہو سرحد چیں سے مصر تک
ساقی ہے اس کا اور ہی مے اور جام اور ہے
ہم نے طالب علمی کے زمانے میں جب یہ شعر پڑھا تو اصل خیال سے تو لطف اٹھایا لیکن یہ بات ذرا کھٹکی کہ اسلامی دنیا کے حدود سرحد چین سے مصر تک ہی تو نہیں جاوا سماٹرا سے لے کر مراکش کے ساحل بحری تک اور ایشیا و افریقہ میں شمال سے لے کر جنوب تک اسلامی دنیا پھیلی ہوئی ہے، اقبال نے اس عالم گیر ملت کی حدود کو اتنا محدود کیوں کر دیا ہے۔ خیال ہوا کہ مصرع کی تنگی سے مجبور ہو کر ایسا کرنا پڑا ہے، ممکن ہے کہ خیال بعد میں اقبال کے دل میں بھی پیدا ہوا ہو اس لیے اس نے اس شعر ہی کو نکال دیا۔
آگے دو اشعار میں اپنے مخصوص عقائد کو دہرایا ہے کہ عیش جاوداں تن کا ہو یا من کا ایک قسم کی موت ہے اگر وہ کامل سکون اور اطمینان پیدا کر کے ذوق طلب کو فنا کر دے۔ زندگی ذوق طلب ہے اور سوز اس کا ساز ہے سوز ختم ہوا تو شمع حیات بھی بجھ جائے گی، جام میں اگر گردش نہ بھی ہو تو وہ جام رہتا ہے لیکن نفس انسانی میں اگر طلب اور تگ و دو ختم ہوئی تو آدمی آدمی نہیں رہ سکتا:
موت ہے عیش جاوداں ذوق طلب اگر نہ ہو
گردش آدمی ہے اور گردش جام اور ہے
شمع سحر یہ کہہ گئی، سوز ہے زندگی کا ساز
غمکدہ نمود میں شرط دوام اور ہے
اس پیغام کی شان نزول یہ تھی کہ علی گڑھ کے طلباء نے انگریزی اساتذہ کے خلاف اسٹرائک کر دی تھی۔ اقبال اس سے تو خوش تھا کہ ان میں آزادی، خود داری اور بیداری پیدا ہوئی ہے اور غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا جذبہ ابھرا ہے، لیکن ملت اسلامیہ کی عام حالت اور علی گڑھ کالج کی حیثیت کچھ ایسی تھی کہ ابھی کچھ عرصے تک سید احمد خان کی مصلحت اندیشی پر چلنا قرین صواب تھا۔ مسلمان غدر کے بعد علم اور دولت و اقتدار سے محروم ہو گئے تھے، ایک طرف ہندو اور دوسری طرف انگریز ان سے بدظن تھے اور ان کے مخالف ان کو نیچا دکھانے پر تلے ہوئے تھے، کسی کامیاب کوشش کے لیے مزید علمی جدوجہد اور مزید تنظیم کی ضرورت تھی اس لیے اقبال نے نوجوانوں کو کچھ عرصے تک خاموش اور محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔ اسی لیے مقطع میں کہا کہ:
بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی
رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسیا ابھی
مرور ایام سے جب یہ بادہ نیم رس نہ رہا اور کچھ انقلاب روزگار سے اور کچھ اقبال کی تلقین اور شعلہ نوائی سے شوق رسا ہو گیا تو اقبال سے زیادہ کسی نے زبان و قلم اور دل و دماغ سے یہ جہاد نہیں کیا کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے خم صہباے کہن کے منہ پر سے خشت کلیسیا کو ہٹا دیا جائے تاکہ وہ کیفیت پیدا ہو سکے جسے آتش نے اس مطلع میں بیان کیا ہے:
یہ نصیحت مری ساقی نہ فراموش کرے
کاسہ سر کو خم بادہ کا سر پوش کرے
یورپ سے فرستادہ پیامات کی تیسری نظم کا عنوان پیام عشق ہے جس میں اقبال کے ہاں عشق کے جو مخصوص معنی ہیں وہ بہت کچھ واضع ہو گئے ہیں، اگرچہ یہ مضمون اس قدر اقبال کا جزو طبیعت اور جوہر دین ہے کہ بعد میں ہزار ہا اشعار کہہ کر بھی وہ مطمئن نہ ہو گا کہ بات پوری طرح کہی گئی ہے:
سن اے طلبگار درد پہلو میں ناز ہوں تو نیاز ہو جا
میں غزنوی سومنات دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہو جا
یہاں عشق عاشق سے نیاز طلبی کر رہا ہے، بعد میں یہ نیاز درجہ کمال کو پہنچ کر ناز کا رنگ اختیار گا اور جوش و خروش میں ملائکہ، انبیاء اور خدا تک کا شکار کرنے لگے گا لیکن ابتداء نیاز ہی سے کرنی پڑے گی، مگر یہاں بھی دوسرے ہی شعر میں عشق میں خودی کا پہلو نمایاں ہو گیا ہے:
نہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شان سکندری سے
تمام ساماں ہیں تیرے سینے میں تو بھی آئینہ ساز ہو جا
عشق خالی ناز یا نیاز سے نہیں بلکہ جدوجہد اور پیکار سے کمال پاتا ہے مسلمانوں نے جو ہلال کو نشان علم بنا لیا تو اس میں غیر شعوری طور پر یہ رمز پائی جاتی ہے کہ زندگی کا مقصد ارتقاء ہے، ہلال اپنی گردش سے روز افزوں ترقی کرتا ہوا بدر کامل بن جاتا ہے، انسان کی تقدیر بھی یہی ہے یا ہونی چاہیے:
غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا
جہاں کا فرض قدیم ہے تو، ادا مشال نماز ہو جا
اکثر مذاہب میں قناعت اور توکل کی بہت تلقین کی گئی ہے، اسی تعلیم پر زیادہ زور دینے اور مبالغہ کرنے سے مذاہب عالیہ میں رہبانیت اور روحانیت کے مرادف بن گئی، مذہبی لوگوں نے تہذیب و تمدن کی طرف سے رخ پھیر لیا، زندگی کی جدوجہد کو ایک لا حاصل مشغلہ قرار دیا اور تقدیر کے غلط معنی لے کر ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ گئے کہ ہو گا وہی جو مقدر ہے، ہماری دوڑ دھوپ اور سعی و طلب سے کیا ہوتا ہے۔ قناعت و توکل کے صحیح معنے نبی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علماً اور عملاً واضح کیے۔ فقر کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کی اصلاح میں انتہائی کوشش اسلام کی تعلیم کا طرۂ امتیاز تھا۔ مشرق و مغرب میں ہندومت، بدھ مت اور عیسائیت سب نے ترک آرزو اور ترک دنیا کو مقصود دین بنا لیا، اسلام اسی کے خلاف ایک زبردست احتجاج تھا لیکن خود مسلمان میں غیر اسلامی تعلیمات رفتہ رفتہ سرایت کرتی گئیں اور حیات گریز تصوف میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ:
ترک دنیا، ترک عقبیٰ، ترک مولیٰ، ترک ترک
عشق الٰہی کو ایک ایسی مجرد اور تذیہی چیز بنا دیا کہ تمام اشیا و افراد کی محبت اور زندگی کے تمام اقدار عالیہ کا عشق اس کے منافی اور اس کے خارج ہو گیا۔ جب انسان کسی چیز کو اچھا سمجھے گا تو اس کے حصول کی آرزو پیدا ہو گی۔ کسی مقصد سے محبت نہ ہو گی تو اس کے لیے جدوجہد کون کرے گا۔ اقبال نے یہ ضروری سمجھا کہ مسلمانوں کے عقائد میں سے اس غیر اسلامی رہبانی عنصر کو خارج کیا جائے اور جس تصوف نے یہ تعلیم دی ہے اس کے خلاف علمی اور عملی جہاد کیا جائے اور مسلمانوں کو فقر اور تسلیم و رضا اور تقدیر کے صحیح معنی سمجھائے جائیں:ـ
نہ ہو قناعت شعار گلچیں اسی سے قائم ہے شان تیری
وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا
حقیقی عشق خاروں کی خلوت یا صحرا نوردی کا تقاضا نہیں کرتا، شمع کی طرح سوز و گداز محفل کی خاطر ہونا چاہیے، عشق کے سوز و ساز کو تعمیر ملت میں کام آنا چاہیے:
گئے وہ ایام اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا
جہاں میں مانند شمع سوزاں میان محفل گداز ہو جا
روح ملت روح فرد کے مقابلے میں ایک عمیق تر، وسیع تر حقیقت ہے، ملت کے مقابلے میں انفرادی نفس ایک مجازی حقیقت رکھتا ہے:
وجود افراد کا مجازی ہے، ہستی قوم ہے حقیقی
فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا
آخر میں اسلام کی اصلیت اور مرکزیت کی طرف واپس آنے کی تلقین کرتا ہے، اس کے علاوہ جو بھی مقصود ہے وہ جھوٹا معبود ہے:
یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا
قیام فرنگ کے دوران ہی میں اقبال کا زاویہ نگاہ وطنیت سے ملت کی طرف پھر گیا، اس کے دو وجوہ تھے۔ ایک تو یہ کہ ملت اسلامیہ کا کوئی ایک وطن نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ جغرافیائی اور نسلی و لسانی وطنیت اور قوم پرستی کے انداز جو اس نے مغرب میں دیکھے تو اس کے تاریک پہلو اس کو نہایت بھیانک نظر آئے۔ تنگ نظر اور خود غرض وطنیت کے خلاف بعد میں اقبال عمر بھر کچھ نہ کچھ کہتا رہا لیکن اس نظریے کا آغاز یورپ ہی میں ہوا۔ نیشنلزم نے نہ صرف اقوام فرنگ کو اتحاد دین کے باوجود ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا تھا اور جغرافیائی حدود کے اس پاس اور اس پار کے انسان ایک دوسرے کے خلاف صلح میں بھی آمادہ جنگ رہتے تھے۔ بقول حالی:
صلح ہے اک مہلت سامان جنگ
کرتے ہیں یہ بھرنے کو خالی تفنگ
بلکہ ان اقوام کو فرنگ سے باہر ایشیا اور افریقہ میں کمزور اقوام کا شکاری بنا دیا تھا۔ جن اقوام کے پاس فرنگ کے سے ہلاکت آفرین ہتھیار نہ تھے، ان کی جان و مال و ابرو فاتحین کے لیے مال غنیمت تھے۔ بعد میں اس مال غنیمت کی تقسیم پر ڈاکوؤں میں تصادم ہو گیا اور دو عظیم جنگوں میں مشرق و مغرب میں وہ تباہی اور بربادی ہوئی جس کے مقابلے میں چنگیز اور تیمور کی غارت گری بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہے۔ اقبال کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں ملت اسلامیہ فرنگ کی نقالی میں اس قسم کی نیشنلزم کا شکار نہ ہو جائے اسی لیے اقبال نے یہ پکارنا شروع کیا کہ مسلمان کا وطن کہیں نہیں ہے، یا یہ کہ مشرق و مغرب میں تمام روئے زمین مسلمان کا وطن ہے:
ہر ملک ملک ماست کہ ملک خداے ماست
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے
کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فریب ہے امتیاز عقبیٰ
نمود ہر شے میں ہے ہماری کہیں ہمارا وطن نہیں ہے
دوسرے شعر میں اقبال حسب عادت تصوف اور فلسفے میں غوطہ لگا گیا ہے۔ تمام کائنات انسان کا وطن ہے، بلکہ دنیا و عقبیٰ کا امتیاز زمانی و مکانی بھی فریب ادراک ہی ہے۔ یہ جہاں اور وہ جہان یعنی کونین حقیقت میں ایک ہی ہیں۔ مومن کا وطن کوئی ایک مقام نہیں۔ حقیقت کلی یابہ الفاظ دیگر خدا اس کا وطن ہے۔ وہی اس کا مقام ہے اور وہی اس کی منزل، بقول عارف رومی:
منزل ماکبریاست
یورپ ہی میں اقبال میں یہ احساس پیدا ہوا کہ میرے اندر انفرادی اور اجتماعی آرزوؤں کا ایک محشر ہے جو عنقریب ایک رستخیز پیدا کرنے والا ہے۔ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ اقبال یورپ میں پہنچ کر خاموش ہو گیا ہے۔ وہ ان کو بتا دینا چاہتا ہے کہ ذرا صبر کرو اور دیکھو کہ یہ طوفان آرزو گفتگو کا کیا ہنگامہ پیدا کرتا ہے:
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
مری خموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرف آرزو کا
شیخ عبدالقادر کے نام دعوت شعلہ نوائی بھی اسی زمانے کے احساس کی پیداوار ہے کہ سخن گرم سے شعلے پیدا ہو سکتے ہیں اور اس نار سے ظلمت ربا نور ظہور میں آ سکتا ہے۔ اس دور کی نظموں میں وہ مضامین بھی موجود ہیں جو شروع سے اقبال کے کلام کا جزو تھے۔ کائناتی عشق و حسن بھی ہے لیکن مخصوص محبوبوں کی محبت میں بھی اعلیٰ درجے کی نظمیں ہیں جو نہ پہلے دور میں ملتی ہیں اور نہ بعد میں ملیں گی۔ لیکن فلسفے اور تصوف میں ابھی تک اکثر صوفیہ کی طرح اقبال کی طبیعت پر وحدت وجود کا نظریہ طاری ہے۔ اقبال کے استاد فلسفہ میک ٹیگرٹ نے اسرار خودی کے شائع کرنے کے بعد ایک خط میں اس کی طرف ٹھیک اشارہ کیا تھا کہ کیمبرج میں تم ہمہ اوستی تھے اب کچھ اور ہو گئے ہو۔ اس زمانے کی ایک نظم قریباً پوری وحدت و جود پر ہے:
چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں
بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تیری پستی
روانی بحر میں افتادگی تیری کنارے میں
وجودی صوفیہ طریقت اور معرفت میں جو کچھ کہہ جاتے ہیں وہ بظاہر شریعت کے منافی معلوم ہوتا ہے، اس سے اہل ظاہر ان پر بہت کچھ رد و قدح کرتے ہیں۔ اگر عابد و معبود اور شاہد و مشہود کو ایک ہی سمجھا جائے تو امتیاز اور فرق مراتب غائب ہو کر خالق و مخلوق میں کوئی حد فاصل نہیں رہتی اور خیر و شیر کی تمیز کو قائم رکھنا بھی دشوار معلوم ہوتا ہے۔ ہمہ اوست اور ہمہ از اوست دونوں نظریات شریعت کے مخالف معلوم ہوتے ہیں اور کہنے والے کی مصلوب ہونے تک نوبت پہنچتی ہے۔ مرزا غالب شدت کے ساتھ ہمہ اوستی تھے ان کا اردو اور فارسی کا کلام جا بجا اس کا شاہد ہے کہیں استعجاب سے پوچھتے ہیں:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
لیکن کہیں یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن عابد و معبود دراصل ہیں ایک ہی:
دیدہ بیرون و درون از خویشتن پر وانگہی
پردۂ رسم پرستش درمیان انداختہ
خدا نے ظاہر و باطن کے درمیان فریب ادراک سے یوں ہی پرستش کا ایک پردہ حائل کر دیا ہے جو حقیقت میں موجود نہیں۔ اس عقیدے کو بالکل کھلم کھلا بیان کرنے سے فساد کا اندیشہ ہوتا ہے اس لیے صوفیہ نے ان عقائد کو بہت کچھ استعاروں میں چھپانے کی کوشش کی ہے چنانچہ اقبال نے بھی یہی روش اختیار کی ہے:
شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی
چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں
جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں
جگنو پر اقبال کی نظم کے دوسرے بند کا ان اشعار سے مقابلہ کر کے دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ اقبال پر یورپ جانے سے قبل بھی وحدت وجود کا نظریہ طاری تھا اور یورپ کے قیام کے دوران میں او رمحرکات اور جذبات پیدا ہونے کے بعد بھی یہ عقیدہ قائم رہا۔
وحدت وجود کے عقیدے میں اور کچھ خلل ہو یا نہ ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ نظر انسانی اختیار کے منافی پڑتا ہے۔ اخلاقیات کی تمام بنیاد یہی ہے کہ انسان ایک صاحب اختیار ہستی ہے خدا نے خیر و شر کو اس پر واضح کر دیا ہے، اب وہ چاہے یہ راستہ اختیار کرے اور چاہے وہ، ادھر جائے گا تو اجر و ثواب حاصل کرے گا اور ادھر جائے گا تو جہنم واصل ہو گا۔ لیکن اگر تمام انسانی اعمال بھی خدا ہی کے اعمال ہیں تو پھر خیر و شر میں کیا تمیز رہتی ہے اور ثواب و عذاب مہمل بن جاتے ہیں، اسی خطرے کی وجہ سے اقبال رفتہ رفتہ اس عقیدہ سے لے گئے۔ ان کا نظریہ خودی در حقیقت اس روایتی وجودی فلسفے کی تردید ہے اقبال نے فلسفہ خودی کے ماتحت انسان کو بھی خالق قرار دیا اور اس خیال کو طرح طرح سے بیان کیا کہ کائنات مادی ذات پر نہیں بلکہ نفوس پر مشتمل ہے جو خودی کے لحاظ سے مختلف مدارج میں ہیں اور کسی نہ کسی حیثیت میں کائنات میں بے شمار خالق موجود ہیں جو مختلف ہونے کے باوجود خالق کی صفت خلق سے بھی متصف ہیں۔ ایک گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ قرآن خدا کو احسن الخالقین کہتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ کائنات میں اور خالق بھی موجود ہیں۔ حضرت آدم کے قصے کے متعلق بھی ان کی تاویل یہ تھی کہ خدا کے حکم کی خلاف ورزی سے آدم نے اپنی خودی کی بیداری کا ثبوت دیا جو انسانیت کا آغاز ہے یہی افتادگی عروج آدم خاکی کا پیش خیمہ بنی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اس دور تک خودی اور خدا کا باہمی رابطہ اقبال پر پوری طرح واضح نہیں ہوا، ابھی اس کا تفکر خدا کی وحدت اور نفوس کی کثرت کا تعلق سمجھنے سے قاصر ہے کبھی وحدت وجود میں بہ جاتا ہے اور کبھی عشق اور خودی کی خلاقی کی طرف کھنچا آتا ہے۔
اقبال کی اس دور کی نظموں میں مارچ ۱۹۰۷ء کی لکھی ہوئی نظم کئی حیثیتوں سے قابل غور ہے۔ یہ نظم پیشگوئیوں سے لبریز ہے اس لیے ’’ ہو گا‘‘ کی ردیف استعمال کی ہے۔ پہلے دو اشعار میں کہتا ہے کہ اس سے پہلے ادوار میں زندگی کے بہت سے اسرار سربستہ تھے اب افشاے راز کا زمانہ ہے۔ اس سے قبل اگرکسی کو کچھ معلوم نہ تھا تو وہ کچھ کہنا نہ تھا اس خیال سے کہ:
فاش گر گویم جہاں برہم زنم
اب زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ نیکی ہو یا بدی، حق ہو یا باطل، سب کچھ ببانگ دہل ظاہر ہو گا:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہاں مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
مطلب یہ ہے کہ آزادی گفتار اور آزادی عمل اس سے پہلے چند افراد اور مخصوص طبقات کو حاصل تھی، اب آنے والے دور میں یہ امتیاز اٹھ جائے گا۔
اس سے قبل خدا کے عاشق بنوں میں مارے مارے پھرتے تھے اب یہ لوگ انسانی جماعتوں میں رہ کر عشق سے کوئی تعمیری کام لیں گے اور عشاق اپنے لیے نئے میدان عمل ڈھونڈیں گے، حیات گریز تصوف ختم ہو جائے گا، اب صوفی جماعتوں کے اندر کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے:
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہو گا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندۂ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
اس کے بعد دو اشعار ملت اسلامیہ کے متعلق رجائی پیش گوئی ہیں کہ یہ شیر خفتہ جی ہشیار ہو گا اور وہ اسی قوت کا مظاہرہ کرے گا جس نے کسی زمانے میں روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا۔ دو اشعار میں تہذیب مغرب پر تنقید ہے اور اس کی تخریب کے متعلق وہ پیش گوئی ہے جو چند ہی سال بعد پوری ہو گئی: کہتا ہے کہ مغرب کی ملوکیت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ تاجرانہ ملوکیت ہے، مغربی اقوام کمزور اقوام کو اس لیے مطبع و مغلوب کرتی ہیں کہ تجارت کے ذریعے سے ان سے ناجائز فائدے اٹھائے جائیں، غلاموں کو خام پیداوار کی افزائش میں لگایا جائے اور پھر اپنی صناعی سے اسے مصنوعات میں بدل کر من مانی قیمت پر پھر انہیں غلاموں کے ہاتھ فروخت کیا جائے، دونوں بڑی جنگیں دراصل تجارت کی منڈیوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں تھیں۔ اقبال کہتا ہے کہ ان مغربی اقوام نے خدا کی بستیوں کو خرید و فروخت کی دکانیں سمجھ لیا ہے انسانی ہمدردی اور انسانیت کا وقار ان کے زاویہ نگاہ میں نہیں ہر وقت اسی فکر میں ہیں کہ سستا خریدو اور مہنگا بیچو اور اگر چین ہماری افیون خرید کر مدہوش ہونے پر رضا مند نہ ہو تو اس کے خلاف جنگ کر کے زبردستی اس کے پاس افیون بیچو، پس ماندہ اقوام کے پاس شراب بیچ کر ان کی قوتوں میں اضمحلال پیدا کرو۔ اقبال کہتا ہے کہ اب وہ دور قریب ہے کہ تمہارے یہ ہتھکنڈے کام نہیں آئیں گے، قومیں بیدار ہو کر احتجاج میں اٹھ کھڑی ہوں گی اور تم خود آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو تباہ کرو گے اس لیے کہ تمہاری تہذیب کی بنیاد ہی اس لوٹ کھسوٹ پر ہے مگر اب یہ جاری نہ رہ سکے گی۔ دیکھئے کہ ان دو جنگوں کے بعد کتنی قومیں بیدار اور آزاد ہو گئیں اور انگریزوں کو ہندوستان کا وسیع ملک اس لیے چھوڑنا پڑا کہ اب غاصبانہ تجارت کا موقع نہیں رہا تھا کہ لنکا شائر کے کارخانوں کے مالکوں کے تقاضے سے ہندوستانی صنعت پارچہ بافی پر اتنا ٹیکس لگایا جائے کہ وہ انگریزوں کے مقابلے میں کم قیمت پر مال فروخت نہ کر سکیں۔ ایسی تجارت کے متعلق نطشے نے خوب کہا ہے کہ پہلے زمانے میں بحری ڈاکو تمام سمندروں میں اپنے جہاز لیے پھرتے تھے کہ جہاں بھی موقع ملے دوسروں کے جہازوں کا مال لوٹ لیں زمانہ حال کی وسیع تجارتیں بھی حقیقت میں ڈاکاہی ہیں لیکن اس کی صورت ایسی ہے کہ آسانی سے لوگوں کو اس غارت گری کا پتہ نہیں چلتا:
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
ہو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا
جس زمانے میں اقبال نے یہ نظم لکھی ہے تمام عالم اسلامی، ایشیا کا معتدبہ حصہ اور پورا ہندوستان احساس کمتری میں مبتلا تھا۔ مغرب کے سیاسی علمی اور تہذیبی غلبے نے عام و خاص سب کی طبائع پر جادو کر رکھا تھا جس کا لب لباب اقبال نے ایک مصرعے میں بیان کر دیا ہے کہ ’’سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادو گری‘‘ اس بپنا ٹزم کا نتیجہ یہ تھا کہ تمام زندگی کو مغرب کی عینک سے دیکھا اور پرکھا جاتا تھا، اپنی خوبیاں بھی عیب معلوم ہوتی تھیں اور مغربیوں کے عیوب بھی خوشنما معلوم ہوتے تھے: بقول میر درد
جو عیب ہے پردۂ ہنر میں
مٹھی بھر انگریز تھے جو اس برصغیر پر تھوڑی سی فوج اور شاید ایک ہزار سے کم سول سروس والوں کے بل بوتے پر حکومت کرتے تھے شکاری کو صید افگنی میں کچھ خاص زحمت اٹھانی نہیں پڑتی تھی، صید خود گردن ڈالے، سر تسلیم خم کیے چلے آتے تھے۔ سکھوں کی حکومت کے زمانے میں نشہ اقتدار کے زور میں جب ایک سکھ دوسرے سے سر راہ ملتا تھا تو پوچھتا تھا کہ فوجیں کدھر سے ا رہی ہیں، گویا ہر ایک سکھ فرد اپنے آپ کو ایک لشکر کے برابر سمجھتا تھا سکھوں کے ہاتھ سے حکومت کے نکل جانے کے بعد بھی یہ طرز کلام مدتوں تک باقی رہا۔ انگریزوں کا بھی ہندوستان میں یہ حال تھا، کوئی انگریز یوں کہتا تو نہیں تھا لیکن اپنے آپ کو سمجھتا یوں ہی تھا: مغلوبیت کی ساحری میں ہندوستانی انگریز کو اس سے بھی کہیں زیادہ سمجھتے تھے جتنا کہ وہ تھا یا وہ اپنے آپ کو تصور کرتا تھا۔ یہ ایک نفسیاتی بات ہے کہ بزدلوں کو مخالفوں کی تعداد ہمیشہ اصل سے کہیں زیادہ دکھائی دیتی ہے اور بہادروں کو دشمن اصل سے کم محسوس ہوتے ہیں۔ اس شعر میں اقبال نے ایسی غلامانہ نگاہ کی کیفیت بیان کی ہے:
جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی رہی کیفیت جو تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا
پہلی جنگ عظیم سے قبل تک برٹش امپریلزم بڑے زوروں پر تھی انگریز صرف ہندوستان ہی کے مطلق العنان حاکم نہیں تھے بلکہ سیاست اور تجارت کے زور پر بالواسطہ یا بلا واسطہ نصف دنیا پر قابض تھے، انگریز کا رعب صرف ایشیا اور افریقہ ہی نہیں بلکہ یورپ کے ممالک پر بھی تھا، ہندوستان کے رئیسوں اور راجوں، نوابوں کی یہ حیثیت تھی کہ وہ اپنی نمائشی حکومتوں کے باوجود انگریزوں کے بے دام غلام تھے۔ جب دیسی حکمرانوں کی یہ حالت تھی تو عام دیسی عہدہ داروں کی ذہنیت کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ یہاں مجھے حضرت اقبال کا بیان کردہ ایک لطیفہ یاد آ گیا جس سے بہت اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اس زمانے میں ہندوستانی عہدہ داروں اور رئیسوں کی کیا نفسیات تھی۔ لاہور کا ایک قدیم امیر خاندان ہے جنہوں نے فقیر کا لقب اختیار کر رکھا ہے۔ اس خاندان کے ایک فرد فقیر افتخار الدین حکومت میں بڑے عہدوں پر سرفراز تھے اور اقبال کے دوست تھے۔ اس زمانے میں تار کے دو پہیوں والی ایک انگریزی گاڑی کا واج تھا۔ جسے گک کہتے تھے۔ گک کا مالک خواہ رئیس و امیر ہی کیوں نہ ہو، اسے خود چلاتا تھا اور نوکر خاموشی سے عقب میں بیٹھتا تھا۔ اقبال کے پاس بھی برسوں تک گک تھی جسے وہ حسب دستور چلاتے تھے مگر ایک روز فقیر صاحب اقبال کو اپنے ساتھ بٹھائے ہوئے اپنی گک میں انہیں مال روڈ کی سیر کرا رہے تھے، سامنے سے ایک انگریز اپنی گک زور و شور سے چلاتا ہوا آ رہا تھا حالانکہ فقیر صاحب کی سواری بائیں ہاتھ قاعدے سے نصف سڑک پر چل رہی تھی لیکن وہ انگریز سیدھا ان کی طرف بڑھا، حسب قاعدہ اسے بھی بائیں ہاتھ پر گاڑی چلانی چاہیے تھی لیکن غرور میں وہ سیدھا ان کی طرف لپکا کہ دیسی آدمیوں کو اپنی گاڑی سامنے سے ہٹانی چاہیے، ہم انگریز ہیں ادھر ادھر ہونا ہمارے لیے ہتک ہے۔ا گر فقیر افتخار الدین گھبراہٹ میں جلدی سے اور بائیں طرف گک کو نہ ہٹاتے تو ٹکر کا اندیشہ تھا نتیجہ یہ ہوا کہ انگریز کی تک تو سیدھی نکل گئی لیکن فقیر صاحب کی گک کا پہیا پیدل پٹڑی پر چڑھ گیا، خیر بعد میں بہت جلد پھر گک سڑک پر آ گئی۔ اقبال فرماتے تھے کہ میں نے فقیر صاحب سے کہا کہ تم ٹھیک قاعدے سے جا رہے تھے نصف سڑک تمہارا حق تھا، تم نے کیوں گھبرا کر اپنا حق چھوڑ دیا، اگر ٹکر ہوتی تو انگریز کا قصور تھا۔ اس پر فقیر صاحب نے فرمایا کہ بھائی! تمام ملک ان کو دے کر ہم خاموش ہو گئے اور صبر کر لیا، اب کیا اس سے آدھی سڑک پر جھگڑا کرتا۔ اس دو رمیں آزاد کہلانے والے رئیسوں کا یہ حال تھا، یہ شعر اسی ذہنیت کا آئینہ ہے:
کہا جو قمری سے میں لے اک دن یہاں کے آزاد پا بگل
ہیں تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ راز دار ہو گا
غدر کے بعد تو مسلمان بہت ہی خوف زدہ اور دبکے ہوئے تھے۔ سرسید علیہ رحمتہ کی فطرت میں حریت کے غیر معمولی جوہر تھے اور اس وقت کی حکومت کے مقابلے میں تعاون کی ضرورت کو محسوس کرنے کے باوجود انہوں نے حق کوشی اور حق گوئی سے دریغ نہیں کیا لیکن حکمرانی کی ساحری کا یہ حال تھا کہ منشی عنایت اللہ صاحب (مشہور مترجم) پسر مولوی ذکاء اللہ صاحب نے جو سید صاحب کے دار العلوم کے ابتدائی طالب علموں میں سے تھے اور سید صاحب ان کی شرافت اور ذکاوت اور ان کے والد سے دوستی کی وجہ سے ان سے بہت محبت کرتے تھے، ایک روز مجھ سے بیان کیا کہ سید صاحب گھوڑا گاڑی پر ہوا خوری کو نکلا کرتے تھے، راستے میں جو گورا سڑک پر پیدل چلتا ہوا نظر آتا، اس کو ضرور سلام کرتے تھے تاکہ وہ انہیں اپنی قوم کا وفادار دوست سمجھے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ انگریزی سامراج کے زوروں میں کس طرح یہاں کے آزاد بھی پابگل تھے۔ ایسی حالت میں اقبال کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ آزادی کے لیے جدوجہد کی جائے اور اپنے متعلق یہ اعتماد پیدا ہوا کہ میں اپنے کلام سے قوم کو خود داری کی تعلیم دے کر او راس کی رگ حمیت کو جوش میں لا کر، اسے استبداد کے پنجوں سے رہائی دلا سکتا ہوں:
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہو گی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہو گا
اس زمانے میں اقبال کو لوگ اچھا شاعر سمجھتے تھے، کوئی اس کو مبلغ یا مصلح یا شان پیغمبری سے بہرہ اندوز تصور نہیں کرتا تھا، لوگوں نے یہ نظم پڑھی اور لطف سخن کی داد دی اور اس مقطع کی نسبت یہی خیال کیا کہ یہ ایک شاعر کی تمنا ہے یا محض تعلی ہے جسے شعر میں جائز سمجھا جاتا ہے عرفی اور غالب میں ا س سے دس گنا زیادہ تعلی موجود ہے لیکن اسے شاعری سمجھ کر اس سے لطف اٹھایا جاتا ہے۔ کسے معلوم تھا کہ یہ نوجوان شاعر جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اسے کر کے دکھائے گا اور اس دنیا سے گزرنے سے پہلے اپنی قوم کے لیے ایک آزاد ملت و مملکت کا سامان مہیا کر دے گا۔
یہ اقبال ہی کی قسم کی شاعری ہے جسے جزو پیغمبری کہا گیا ہے۔ اس نظم میں اقبال نے جو پیش گوئیاں کی ہیں ان میں سے کچھ پوری ہو چکی ہیں اور باقی کے متعلق یقین رکھنا چاہیے کہ وہ بھی پوری ہو کر رہیں گی تمام دنیا میں ملت اسلامی کا احیاء شروع ہو گیا ہے، کئی اسلامی ممالک نے مغربی سامراج کا جو اپنی گردن سے اتار پھینکا ہے اور وہ زمانہ دور نہیں جب ملت اسلامیہ ہر جگہ آزاد اور جادہ ترقی پر گامزن ہو گی۔