اقبال کے ہاں ایک شام
ڈاکٹر سعید اللہ ایم اے، پی ایچ ڈی
21نومبر1937ء کو پروفیسر عبدالواحد1؎ اور میں سر اقبال کی کوٹھی کے بائیں دروازے سے داخل ہوئے۔ علی بخش اپنے کمرے سے باہر آ رہا تھا۔ اس سے علیک سلیک ہوئی۔ پوچھا کیا ہم ڈاکٹر صاحب سے مل سکتے ہیں؟ علی بخش نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی بچی منیرہ2؎ بیمار ہے۔ ڈاکٹر آیا ہوا ہے۔ یہ کہتے ہوئے علی بخش ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں گیا اور فوراً ہی ’’ آ جاؤ جی‘‘ کی آواز آئی۔ ہم کوٹھی کے واسطی کمرے میں داخل ہوئے جس کی سامنے کی دیوار پر سر اقبال کی ایک بہت بڑی تصویر آویزاں ہے۔ اس کمرے سے گزر کر بائیں ہاتھ پر جو چھوٹا کمرہ ہے، اس میں پہنچے۔ سر اقبال پلنگ پر لیٹے تھے۔ لحاف کو دو دفعہ تہہ کر کے پاؤں کی طرف رکھا ہوا تھا اور ڈاکٹر صاحب وہی پرانا سبز حاشیے اور بادامی رنگ کا دھسہ لیے لیٹے تھے۔ پلنگ کے پاس میز پر کچھ کتابیںتھیں اور دو تین نیچے فرش پر۔ ڈاکٹر صاحب کے پلنگ کے پاس ایک نوجوان ہندو ڈاکٹر بیٹھا تھا۔ ہم نے ’’السلام علیکم‘‘ کہا۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب میں دایاں ہاتھ اٹھا کر کہا، آئیے۔
میں عمومیت کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا مگر میرا اپنا تجربہ یہی ہے کہ جب کبھی ڈاکٹر صاحبس ے ملنے کا اتفاق ہوا، سلام کا جواب ہمیشہ ہاتھ اٹھا کر دیا۔ رسمی گرمجوشی نہیں ہوتی تھی، اسی کی جگہ ہندہ پیشانی ہوتی۔ جن لوگوں کو ان سے پہلی دفعہ ملنے کا اتفاق ہوتا ان پر یہ طریق ملاقات کسی قدر گراں گزرتا۔ مگر جو ڈاکٹر صاحب کی راہ و رسم سے واقف تھے، وہ خوب جانتے تھے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی بڑی شخصیت گزری ہو جس کا دروازہ اس طرح ہر ایک کے لیے ہر وقت کھلا رہا ہو۔ صلائے عام تھی؟ جس کا جی چاہتا چلا آتا، گھنٹوں بیٹھتا، باتیںکرتا، انہیں کبھی ناگوار نہ گزرتا۔ دو چار ملنے والے جاتے تو دو چار اور آ جاتے۔ صبح سے شام تک یہ دھارا یوں ہی بہتا چلا جاتا۔ اکثر دل میں سوال پیدا ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب کس وقت کھانا کھاتے ہیں، کب پڑھنے لکھنے کا کام کرتے ہیں۔ لوگ بھی ہر طرح کے ملاقات کے لیے آتے۔ ہم ملاقات کے لیے پہنچے تو دیکھا کہ کوئی حکیم صاحب تشریف فرما ہیں، ان سے طب سے متعلق باتیں ہو رہی ہیں حکیم صاحب گئے تو اخبار نویس آ گئے اور سیاسیات کی بحث شروع ہو گئی۔ سیاسیات کی بحث چل رہی تھی کہ ایک اور بزرگ آ گئے اور ڈاکٹر صاحب نے سیاسیات سے جو گریز کیا تو خوش طبعی اور لطیفہ گوئی شروع ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب کے بعض عقیدت مند ایسے بھی تھے۔ جنہیں وہ بنایا کرتے تھے۔ دوسری دفعہ جو پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جرمن سیاح دوسری ملنے کے لیے آیا ہوا ہے اور فلسفہ خودی اور زمان و مکان پر بحث ہو رہی ہے۔ وہ صاحب اٹھ کر گئے تو ایک پہلوان آ گئے، ان سے پہلوانی کی باتیں ہوتی رہیں۔ بات کسی قسم کی جو ہو سر اقبال کا اپنا رنگ قائم رہتا تھا۔
جو لوگ ڈاکٹر صاحب کو ان کی شاعری کے ذریعہ جانتے ہیں ان کو اس بات کی مطلق خبر نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں مزاح اور اور خوش طبعی کسی شدت سے تھی۔ کسی قسم کا موضوع ہو مزاح کا پہلو وہ ہمیشہ نکال لیا کرتے۔ بذلہ سنجی، لطیفہ گوئی اور حکایات سنانے میں انہیں ویسا ہی کمال حاصل تھا جس طرح فلسفہ کے مسائل بیان کرنے میں۔ جس موضوع سے بحث کرتے اس پر گویا مرتب اور مدون رسالہ پیش کر دیتے اور سننے والے کو یوں معلوم ہوتا گویا ساری عمر صرف اسی ایک موضوع کی نذر کر دی ہے۔
لوگ ملاقات کے لیے آتے تو سر اقبال خوش ہوتے، مگر لوگوں کی شخصیت سے ڈاکٹر صاحب کو چنداں سرورکار نہ ہوتا۔ ہر شخص ان کے لیے چند خیالات کا مجموعہ تھا، اس لیے ہر ایک سے اس کی بساط کے مطابق باتیں کرتے اور اسی وجہ سے رسمی گرمجوشی سے نہیں ملتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کو طرح طرح کے خطوط آتے؟ ہندوستان کے اور ہندوستان سے باہر کے ان خطوں کا جواب وہ اپنے ہاتھ سے لکھتے، جو سوال کیا جاتا اس کا جواب دیتے۔ یہ کام گو بہت مشکل اور صبر آزما ہے، مگر یہ فرض وہ خندہ پیشانی سے انجام دیتے۔ یہ وصف سر اقبال کی خصوصیات میں شامل تھا۔
گوشہ نشینی بھی ان کا ایسا وصف تھا جس کی پابندی نہایت سختی سے کرتے۔ اپنے گھر سے باہر شاذ و نادر ہی نکلتے تھے۔ جسے ملنا ہوتا وہیں آ جاتا۔ چائے کی دعوت ان کے لیے نہایت تکلیف دہ ہوتی۔ فرماتے کہ ان پارٹیوں میں کھانے کو تو کچھ ملی جاتا ہے مگر روحانی تکلیف ہوتی ہے۔
سر اقبال کی ’’ لمبی ہوں‘‘ نہایت پر معنی اور مخصوص چیز تھی۔ اس کا استعمال گفتگو میں اکثر ہوتا۔ کسی مسئلہ پر کچھ دیر گفتگو کرنے کے بعد خاموش ہو جاتے۔ پھر تھوڑی دیر بعد یہ ’’ ہوں‘‘ نمودار ہوتی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ مسئلہ زیر بحث نے خیالات میں ہیجان پیدا کر دیا ہے اور مسئلہ زیر بحث کے متعلقات کی وسعتوں اور گہرائیوں میں ڈوب کر پھر سے ابھرے ہیں۔ یہ ’’ ہوں‘‘ کی ایک صورت تھی۔ دوسری صورت یہ ہوتی کہ جب کوئی شخص کوئی بات کہتا جس سے ڈاکٹر صاحب کو اتفاق نہ ہوتا تو آپ خاموش رہتے اور پھر کچھ وقفہ کے بعد یہ ’’ ہوں‘‘ نمودار ہوتی۔
ڈاکٹر صاحب گفتگو ہمیشہ پنجابی میں کرتے۔ اگر کوئی ایسے بزرگ تشریف لے آتے جو پنجابی سے ناواقف ہوتے تو حسب ضرورت اردو، فارسی، انگریزی میں گفتگو فرماتے۔ دوران گفتگو میں جب خاموشی کا وقفہ آ جاتا تو اکثر سر کے بالوں میں ہاتھ سے کنگھی کرتے اور کبھی کبھی ’’ یا اللہ‘‘ کی ضرب لگاتے۔
یہ جملہ معترضہ کسی قدر لمبا ہو گیا، میں کہہ رہا تھا کہ جب ہم کمرے میں داخل ہوئے تو سر اقبال پلنگ پر لیٹے تھے اور ایک نوجوان ہندو ڈاکٹر پاس بیٹھا تھا۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی بچی کو بخار اور نزلہ کی شکایت ہے۔بچی گرم کپڑے نہیں پہنتی۔ کہتی ہے مجھے سردی نہیں لگتی۔ آخر بیمار ہو گئی۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ معمولی امراض کا علاج تو ڈاکٹر کر سکتے ہیں، اکثر بیماریاں ان کے بس کا روگ نہیں؟ مثلاً تپ دق، ذیابیطس، ٹائیفائیڈ لاہور میں اب صرف ایک حکیم ہے: ’’ قرشی، مگر وہ کتابیں لکھتا ہے، علاج معالجہ کی طرف توجہ کم کر دی ہے۔ نمونیا کا شرطیہ اور حکمی علاج کرتا ہے۔‘‘ نوجوان ڈاکٹر نے کہا کہ نمونیا خود بخود دسویں دن غائب ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب خاموش رہے، تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب نے کہا’’ ہوں‘‘
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا، کل ایک حکیم میرے پاس آیا۔ شدت سے جھکی تھا۔ بہت لمبی تقریر کرتا رہا۔ جب تقریر ختم کی تو میں نے پوچھا کہ آپ کے مریض بچ بھی جاتے ہیں؟ کہنے لگا، یہ حصہ رہنے دیجئے، وقت علاج کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر فرمایا، کسی شخص نے حکیم محمود خاں دہلوی3؎ سے کہا کہ آپ کے مریض بھی مرتے ہیں اور دوسروں کے بھی؟ پھر ان میں اور آپ میں فرق کیا ہوا؟ حکیم صاحب نے کہا کہ آں قرم ساقان بے قاعدہ می کشند و من باقاعدہ۔
فرمایا کہ میری والدہ کو درد گردہ اس شدت سے ہوتا تھا کہ ہمیں ان کی موت سامنے نظر آیا کرتی تھی۔ ایک دفعہ وہ درد گردہ سے بیہوش پڑی تھیں، رات کا وقت تھا کہ حکیم نور الدین صاحب قادیانی نے آ کر ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا۔ حکیم صاحب نے جو گھر میں ہیجان دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے؟ ہم نے صورت حال بیان کی۔ حکیم صاحب نے کہا میں بھی ذرا دیکھوں۔ حکیم صاحب نے ایڑی کے قریب کسی رگ کو دبایا تو والدہ نے آنکھیں کھول دیں۔ حکیم صاحب نے کہا، اب رات کا وقت ہے، اس وقت تو سینگ کرو، صبح باقاعدہ علاج ہو گا۔ صبح ہوئی تو حکیم صاحب نے والدہ کے لیے چوزہ تجویز کیا۔ کہا، اس کا شوربا پئیں اور گوشت کھائیں۔ اس علاج کا یہ اثر ہوا کہ والدہ کو پھر عمر بھر درد گردہ کی شکایت نہ ہوئی۔والدہ عرصہ دراز تک چوزہ کھاتی رہیں۔ کھاتے کھاتے تنگ آ گئیں تو حکیم صاحب کو لکھا گیا کہ اگر مناسب ہو تو چوزے کا بدل بتا دیں۔ جواب آیا انڈہ بدل ہے۔
ایک دفعہ جب میں انارکلی میں رہتا تھا، مجھے Gout کی شکایت ہوئی۔ حکیم نور الدین صاحب4؎ لاہور آئے تھے، علی بخش کو ان کے پاس بھیجا کہ میں درد کی وجہ سے چلنے سے معذور ہوں، اگر آپ تشریف لے آئیں تو عنایت ہو گی۔ علی بخش کی معرفت جواب آیا کہ کھانا کھا کر مرغی کے پر کو حلق میں ڈال کر قے کر دو۔ میں کھانا کھا چکا تھا، علی بخش مرغی کا پر لایا، قے کر دی۔ درد جاتا رہا۔ مستقل طور پر نہیں۔ میرے بائیں گردے میں درد ہوا کرتا تھا۔ ڈاکٹر کے کہنے پر ایکسریز فوٹو لیا گیا۔ معلوم ہوا گردے میں پتھری ہے۔ ڈاکٹروں نے ولایت جا کر آپریشن کروانے کی صلاح دی۔ میں جانے کو تیار ہو گیا۔ اتنے میں مولوی میر حسن صاحب کا سیالکوٹ سے خط پہنچا ، انہوں نے آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ میں نے ارادہ ترک کر دیا۔ اسی اثناء میں دہلی سے حکیم نابینا صاحب کا خط آیا کہ مجھے اخبار کے ذریعہ معلوم ہوا ہے کہ آپ پتھری کا آپریشن کروانے ولایت جا رہے ہیں، آپ دہلی آ جائیں، بغیر آپریشن کے پتھری دور ہو جائے گی۔ میں گیا، چودھری محمد حسین6؎ اور علی بخش ساتھ تھے۔ درد کم ہو چکا تھا، مگر گرانی کا احساس شدت سے تھا۔ ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔ حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے ایک گولی دی کہ اسے بھی کھا لیں۔ پانچ بجے سہ پہر تک گرانی جاتی رہے گی۔ چنانچہ ویسے ہی ہوا باقاعدہ علاج کے لیے دوائی دے کر رخصت کر دیا۔ لاہور آ کر دوائی شروع کی تو پیشاب کا رنگ سیاہی مائل ہونا شروع ہوا۔ روز بروز زیادہ سیاہی مائل ہوتا گیا۔ آخر کم ہونا شروع ہوا، یہاں تک کہ اصلی رنگ پر آ گیا۔ سال بھر دوائی کھاتا رہا۔ اس کے بعد دس سال سے درد گردہ نہیں ہوا۔ اب چند دن ہوئے معمولی سا ہوا مگر دوسرے گردے میں حکیم صاحب کو لکھا گیا، انہوں نے دوائی بھیج دی۔
کچھ دیر ڈاکٹر صاحب خاموش رہے اور انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کرتے رہے، پھر فرمایا، حیدر آباد میں ایک انگریز پروفیسر ہے جو میری بعض نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کر رہا تھا۔ اس نے ایک دفعہ لکھا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میرے جسم میں گرم ملک کے جراثیم پیدا ہو گئے اس لیے میں ملازمت چھوڑ رہا ہوں۔ میں نے اسے لکھا کہ آپ ملازمت نہ چھوڑیں، گرم ملک کے جراثیم آپ کے جسم میں نہیں ہو سکتے، اگر ہوں گے تو ڈاکٹر کے دماغ میں۔ باقی رہے مغربی جراثیم تو وہ میرے جسم میں ہو سکتے ہیں آپ کے جسم میں نہیں۔
فرمایا ایک دفعہ میں حکیم اجمل خان صاحب کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ رات کے دو بجے کے قریب میری ڈاڑھ میں درد ہونے لگا۔ میں نے حکیم صاحب کے ملازم کو جگایا اور اسے کہا کہ حکیم صاحب کو جگاؤ۔ اس نے کہا حکیم صاحب زنانے مکان میں سو رہے ہیں، یہ کام مشکل ہے۔ میں بضد ہوا تو وہ حکیم صاحب کو جگا کر لایا۔ میں نے حکیم صاحب سے صورت حال بیان کی۔ انہوں نے ملازم سے کچھ کہا، وہ تھوڑی دیر میں کوئی چیز لے آیا۔ حکیم صاحب نے کہا، جس ڈاڑھ میں درد ہے اس پر اسے رکھ کر اوپر کی ڈاڑھ سے دبا دو۔ میں نے ویسا ہی کیا۔ تھوڑی دیر میں درد جاتا رہا۔ میں نے حکیم صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا چیز تھی؟ فرمایا، ہمارے بزرگوں نے نادر شاہ سے جواہرات کے تھال لے کر یہ چیز تو اسے دے دی تھی، جس سے اس کا درد جاتا رہا تھا، مگر اس کی اصلیت نہیں بتائی تھی، بھلا میں آپ کو کیسے بتا سکتا ہوں ! حکیم صاحب مسکرائے اور فرمایا، ادرک اور اس پر پسا ہوا نمک۔
میں نے سوال کیا کہ آپ نے ’’ وقت‘‘ کو تاوار کہا ہے، اس سے کیامراد ہے؟
اے خوش آن وقتے کہ سیف روزگار
با توانا دستی ما بود یار!
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ’’ تلوار اس لیے ہے کہ انسان پیدا ہوتا ہے، جوان ہوتا ہے، بڑھاپا آتا ہے، پھر موت۔ یہ وقت کی تلوار ہے۔’’ وقت‘‘ ایک طرح سے رحمت بھی ہے کہ گزر جاتا ہے۔ تکلیف آئی اور گزر گئی۔‘‘
میں نے دوسرا سوال کیا کہ حدیث7؎ ہے:’’ دہر کو بر مت کہو، دہر خدا ہے‘‘ اس کا کیامطلب ہے؟ پہلے تو ہوں ہاں کرتے رہے، آخر کہا کہRealityکا لازمی جزو ’’ دہر‘‘ ہے۔ اتنا کہا اور خاموش ہو گئے۔ پھر فرمایا، پیرس میں برگسان سے جب ملاقات ہوئی تو اسے Gout کی شکایت تھی۔ پہیوں والی کرسی پر بیٹھا تھا۔ نوکر کرسی کو چلا کر ادھر سے ادھر لے جاتا تھا میں نے برگسان کو یہ حدیث سنائی تو کرسی سے اچھل پڑا پوچھا یہ کون کہتا ہے؟ میں نے کہا ہمارا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ’’ وقت‘‘ کو ہم Eternalمانتے ہیں مگر وہ گزر بھی رہا ہے۔ اگر ان دونوں کو ملایا جائے تو جس چیز کو ہم Nowکہتے ہیں وہ Eternal nowبن جاتی ہے Realityدو معنوں میں لی جا سکتی ہے: ایکExtensiveاور دوسرےIntensive ، Intensiveسے مراد یہ ہے کہ مثلاً ایک گیند اپنے محور کے گرد حرکت کرے اور ہر گردش میں اس کا رنگ بدل جائے۔ ’’ وقت‘‘ کو اسی طرح تصور کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے گرد چکر کاٹ رہا ہے۔ رات اور دن کی تمیز ہم نے قائم کر رکھی ہے، ورنہ ’’ وقت‘‘ تو اس تمیز سے پاک ہے۔ زرتشت تو غالباً ایک خدا کو مانتا تھا، مگر ایران میں یزداں اور اہرمن کی ثنویت موجود تھی۔ ایک روشنی (دن) اور دوسرا تاریکی (رات) ان دونوں کا اجتماع Realityہے۔ قرآن میں بار بار دن اور رات کا ذکر آتا ہے۔ ہندو تو ’’ وقت‘‘ کو مایا کہتا ہے، بدھوں نے اس کی اصلیت کو مانا ہے اور اس کے حصے کیے ہیں۔ وقت کا Atomic تصور 8؎ بدھوں سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب خاموش ہو گئے، پھر فرمایا ’’ وقت‘‘ کا تصور Personality کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ہندوستانTruthکا متلاشی تھا، ایرانBeautyکا اور عربGoodnessکا، اسلام نے تینوںPersonalityمیں جمع کر دیا۔
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب پھر خاموش ہو گئے او رمیں نے تصوف کی بحث چھیڑ دی۔ فرمایا، تصوف9؎ ہمیشہ انحطاط کی نشانی ہوتا ہے۔ یونانی تصوف، ایرانی تصوف، ہندوستانی تصوف، سب انحطاط قومی کے نشان ہیں۔ اسلامی تصوف بھی اسی حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔ اسلام کے اولین دور کے صوفی زہاد تھے۔ زہد اور تقویٰ ان کا مقصد تھا۔ بعد کے تصوف میں مابعد الطبیعیات اور نظریات شامل ہو گئے۔ تصوف اب محض زہد نہیں رہتا، اس میں فلسفہ کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ ہمہ اوست مذہبی مسئلہ نہیں، یہ فلسفہ کا مسئلہ ہے۔ ’’ وحدت اور کثرت‘‘ کی بحث سے اسلام کو کوئی سروکار نہیں۔ اسلام کی روح توحید ہے اور اس کی ضد کثرت نہیں بلکہ شرک ہے۔ وہ فلسفہ اور وہ مذہبی تعلیم جو انسانی شخصیت کے نشوونما کے منافی ہو بیکار چیز ہے۔ تصوف نے Scientific روح کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے۔ تعویذ تلاش کرتے ہیں۔ گوش و چشم کو بند کرنا اور صرف چشم باطن پر زور دینا جمود اور انحطاط ہے۔ قدرت کی تسخیر جدوجہد سے کرنے کی جگہ سہل طریقوں کی تلاش ہے۔ ’’ شجر ممنوعہ‘‘ میرا خیال ہے تصوف سے مراد ہے۔ خالص اسلامی تصوف یہ ہے کہ احکام الٰہی انسان کی اپنی ذات کے احکام بن جائیں:
یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
پھر فرمایا، انا الحق10؎ کے معنے یہ نہیں کہ میں خدا ہوں، بلکہ اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ ’’ انا‘‘ ہی اصلی چیز ہے۔ بندہ اگر خدا میں گم ہو گیا تو اس نے اپنی ہستی مٹا دی۔
پروفیسر عبدالواحد نے پوچھا Evolutionکے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا، پسندیدہ ہے مگر اسے اصلیت نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اونٹ کی گردن اس لیے لمبی ہو گئی کہ اسے اپنی خوراک شاخوں پر تلاش کرنی پڑی۔
تصوف کی بحث ’’ کرامات‘‘ دست غیب اور بخشش کے سوال کو لے آئی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ یہ قصے سمجھ میں تو نہیں آتے مگر ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ممکن ہے کبھی سمجھ میں آ جائیں۔
دست غیب سے متعلق ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مولانا وحید الدین سلیم 12؎ نے بارہا بیان کیا کہ جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو ان کے پیر حضرت غوث علی قلندر نے مولانا وحید الدین سلیم کو بلایا اور کہا کہ تمہارا باپ ہمارا دوست تھا، ہم تمہیں ایک وظیفہ بتا دیتے ہیں، جب روپے کے حصول کی اور کوئی صورت نہ ہو تو اس وظیفہ کو پڑھنا، پانچ روپے تمہیں مل جایا کریں گے۔ پیر صاحب سے رخصت ہو کر گھر آئے تو والدہ کو سارا قصہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ گھر میں کچھ نہیں، نہ آٹا نہ دال۔ وظیفہ پڑھا گیا تکیہ کے نیچے سے پانچ روپے مل گئے۔ مولانا کا بیان ہے کہ انہوں نے اسی طرح وظیفہ پڑھ کر تعلیم حاصل کی۔ جب خود روپیہ کمانے لگے تو وظیفہ بند کر دیا۔ سرسید سے جب مولانا کی ملاقات ہوئی تو مولانا نے سرسید سے کہا کہ آپ نیچری ہیں، مگر ہمارے وظیفہ کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
کرامت کی بھی ایک مثال ڈاکٹر صاحب نے سنائی۔ فرمایا، سرسید احمد کی طرح ان کے باپ کے گلے میں بھی رسولی تھی، وہ اپنے پیر کے پاس گئے اور کہا کہ حضرت مجھے رسولی کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے، اس کا کیا کچھ علاج کیجئے۔ پیر صاحب نے کہا، دیکھیں، سرسید کے والد نے سر آگے بڑھایا۔ پیر صاحب نے ان کی ڈاڑھی کے نیچے ہاتھ پھیرا اور فرمایا، بھئی ہمیں تو رسولی کہیں نظر نہیں آتی۔
بخشش کی بھی مثال سنائی۔ فرمایا، ایک سب انسپکٹر پولیس ہے، وہ سانپ کے کاٹے کا دم کرتا ہے اور شفا ہو جاتی ہے۔ کئی سو میل سے بھی دم کا اثر ہو جاتا ہے۔
خاموشی کے ذرا سے وقفہ کے بعد میں نے پوچھا’’ جن‘‘ 13؎ کا ذکر قرآن میں آتا ہے ’’ جن‘‘ کس چیز سے عبارت ہے؟
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا، بعض اس کے معنے جنگلی آدمی کے بیان کرتے ہیں کیونکہ وہ چھپے ہوتے ہیں۔ اسی مصدر سے جنت، جنین اور جنہ (ڈھال) نکلے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کوئی ایسی مخلوق ہے جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ کئی رنگ ہیں جنہیں ہماری آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ کئی آوازیں ہیں جنہیں ہمارے کان نہیں سن سکتے۔
کچھ دیر خاموشی رہی، پھر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا، چند دن ہوئے میں باہر بیٹھا تھا، ایک فقیر ہاتھ میں ڈنڈا لی۔ تہمد باندھے آ گیا۔ میں کرسی پر بیٹھا تھا۔ میری ٹانگیں دبانے لگا۔ میں مزے سے بیٹھا رہا اور وہ میرے پاؤں دباتا رہا۔ آخر میں نے پوچھا، آپ کس طرح آئے ہیں؟ اس فقیر نے کہا، میں فلاں پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، انہوں نے مجھے کہا کہ تمہارے علاقہ کا قلندر ڈاکٹر اقبال کو مقرر کر دیا گیا ہے، تم ان کے پاس جاؤ۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے تو ابھی تک کوئی اطلاع اس قلندری کے بارے میں نہیں پہنچی۔ میری بات کو اس فقیر نے قلندی کے کوچہ کی کوئی رمز سمجھا، ٹانگیں دباتا رہا۔ اتنے میں چودھری محمد حسین صاحب تشریف لے آئے اور آتے ہی سر سکندر کے بارے میں گفتگو شروع کرنے ہی کو تھے کہ میں نے ٹوکا اور کہا، چودھری صاحب اس سکندری کو رہنے دیجئے، آج یہاں قلندری کی باتیں ہو رہی ہیں۔
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے فرمایا، جن دنوں میں انارکلی میں رہا کرتا تھا، ایک دفعہ جاڑے کے موسم میں ایک فقیر نے رات کے دو بجے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ علی بخش نے دروازہ کھولا، میں نے علی بخش سے پوچھا کون ہے؟ اس نے کہا ایک فقیر ہے آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ میں بستر سے اٹھا، فقیر میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ میں نے پوچھا، آپ کس طرح تشریف لائے؟ کہنے لگا، مجھے دوسری جگہ جانے کا حکم ملا ہے، میں جا رہا ہوں، اس لیے آپ سے ملنے آ گیا۔ میں نے پوچھا، آپ اس دنیا کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ کہنے لگا، اب امام مہدی14؎ کے ظہور کا وقت آ گیا ہے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اگرچہ شدت کی سردی تھی مگر اس فقیر نے رات کے دو بجے دہی کی لسی پینے کی خواہش ظاہر کی۔ علی بخش گیا، کسی دکاندار کو جگا کر لسی بنوا کر لایا۔ اس فقیر نے پی اور کہا اب میں چلتا ہوں۔ میں نے کہا اس وقت تو ریل نہیں ملے گی۔ اس نے کہا، فقیر کو ریل سے کیا غرض۔
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: اکثر لوگ مہدی کے منتظر ہیں مگر وہ آنے میں نہیں آتا۔ ایک اور بزرگ لاہور میں ہوا کرتے تھے۔ جب کبھی ملتے مہدی کے آنے کی تاریخ بتا جاتے۔ وہ تاریخ گزر جاتی تو ایک نئی تاریخ مقرر کر دیتے۔ اسی انتظار میں ان کا انتقال ہو گیا مگر مہدی کو نہ آنا تھا نہ آیا۔ کچھ دن ہوئے ایک اور بزرگ تشریف لائے وہ بھی مہدی کے آنے کی خوشخبری دے گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے پہلے بھی کئی لوگ مہدی کی آمد کی خبر دے گئے ہیں مگر ابھی تک وہ نہیں آیا، میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے کام مہدی کے لیے نہیں اٹھا رکھنے چاہئیں۔
مہدی کے قصے کے بعد قدرتی طور پر مسیحؑ کا ذکر آ گیا۔ میں نے کہا، احمد یوں کے بارے میں جو آپ نے رسالہ شائع کیا ہے، اس میں آپ نے لکھا ہے کہSpengler شیپنگر نے مسلمانوں کو مجوسی اقوام میں شامل کرنے میں غلطی کی ہے۔ Spengler نے مجوسی اقوام کی ایک خصوصیت یہ بیان کی ہے کہ وہ کسی آنے والے نبی کی منتظر رہتی ہیں، مسلمان کسی آنے والے نبی کے منتظر نہیں۔ میں نے کہا آپ کا یہ دعویٰ کہ مسلمان کسی آنے والے نبی کے منتظر نہیں درست نہیں کیونکہ مسلمان عام طور پر مسیح ؑ کی آمد ثانی کے منتظر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا میں اس کا قائل نہیں۔ میں نے اپنے ا شعار میں اس عقیدہ کو اظہار بھی کیا ہے۔ اسی بنا پر احمدیوں نے مسلمانوں کو میرے خلاف ابھارنے کی کوشش کی مگر وہاں کچھ اثر نہ ہوا۔
کچھ دیر خاموشی رہی، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: میرے والد صاحب کی دکان پر ابنع ربی کی فصوص الحکم باقاعدہ پڑھی جایا کرتی تھی، مولوی عبدالکریم صاحب قادیانی کہ ان کی آواز بلند تھی، یہ خدمت سر انجام دیا کرتے تھے۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بھی اس صحبت میں شریک ہوا کرتے تھے۔ مجاز اور حقیقت کی داستان وہ ابن عربی سے سنتے رہے۔ یہی فلسفہ بعد میں انہوں نے حقیقی اور مجازی نبوت کی شکل میں پیش کیا۔ اس طرح گویا مرزا صاحب نے ابن عربی سے فیض حاصل کیا اور ابن عربی نے افلاطون سے۔ ڈاکٹر صاحب تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے، پھر فرمایا، ابن عربی، بیدل اور ہیگل کے جال میں جو ایک دفعہ پھنس جاتا ہے، اس کی رہائی مشکل سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد خاموش ہو گئے، پھر فرمایا: سیالکوٹ کا ذکر ہے میں شام کے قریب گھر سے نکلا تو دیکھا کہ ایک جگہ بہت سے احمدی جمع ہیں۔ بعض میرے واقف تھے۔ میں گیا اور ان سے دریافت کیا کہ کیا بات ہے؟ ایک صاحب نے کہا حضرت میرزا صاحب نے عبداللہ آنھم کے بارے میں جو پیش گوئی کی تھی کہ اگر وہ توبہ نہ کرے گا تو چار برس کے اندر مر جائے گا، آج ان چار سالوں کا آخری دن ہے، ہم تار کا انتظار کر رہے ہیں۔ میں نے رندانہ طریق سے کہا کہ خدا کی بات کو اس طرح نہ مان لیا کرو، اس کا کیا اعتبار ہے۔ انہوں نے کہا کہ خدا کی بات ہے پوری ہو کر رہے گی۔ میں نے کہا، وہ پیش گوئی مشروط تھی۔ اگر عبداللہ آنھم نے چپکے سے توبہ کر لی ہو تو پیش گوئی پوری نہیں ہو گی۔ اگر ایسی صورت پیش آ گئی تو پھر تم کیا کرو گے؟ وہ دن گزر گیا، عبداللہ آنھم نہ مرا۔ دوسرے ہی دن قادیان سے اشتہار نکلا، جو صورت حال میں نے احمدی دوست سے بیان کی تھی وہی پیش آئی۔ اس کے بعد مرزا صاحب نے غیر مشروط طور پر عبداللہ آنھم کی موت کی دوبارہ پیش گوئی کی جو پوری ہوئی۔
میں نے پوچھا، کیا پیش گوئیاں اور معجزات نبوت کی دلیل قرار دیے جا سکتے ہیں؟ فرمایا نہیں؟ اکثر رمل جفر والے بھی پیش گوئیاں کرتے ہیں؟ کچھ پوری ہو جاتی ہیں کچھ غلط۔ یہ اتفاقی بات ہے۔ نبی کی تعلیم اور اس کی زندگی ہی نبوت کے لیے حجت ہو سکتی ہے۔
میں نے سوال کیا: مرزا محمود صاحب قادیانی سیاسیات میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سے گفت و شنید فرما رہے ہیں، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ فرمایا: ہاں، میں نے بھی اخباروں میں یہ خبر پڑھی ہے۔ انہوں نے کانگریس اور مسلم لیگ سے Tender مانگے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ انگریز سے کہہ رہے ہیں کہ میں تم سے خفا ہوں، جلدی کرو اور مجھے مناؤ۔
گفتگو کا سلسلہ یہاں تک پہنچا تھا کہ ایک بزرگ تشریف لے آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے نو وارد سے مخاطب ہو کر کہا: کہو جی چودھری جی آپ کے پیر صاحب کیا کہتے ہیں؟ چودھری صاحب بولے، ڈاکٹر صاحب آپ کو کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ آپ ایک دیگ پلاؤ کی پکا کر غریبوں کو کھلا دیں، آپ کا حلق ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: نہ چودھری جی، یہ بات غلط ہے۔ پہلے صحت اس کے بعد ایک کی جگہ دو دیگیں۔ چودھری صاحب نے کہا تو آپ کی مرضی۔ ڈاکٹر صاحب خاموش رہے۔ ذرا سے وقفہ کے بعد کہا’’ ہوں‘‘ اور اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے سر کے بالوں میں کنگھی کرنے لگے۔ پھر یکایک ’’ یا اللہ‘‘ کی ضرب لگائی۔
کچھ دیر خاموشی رہی۔ میں نے مناسب موقع دیکھ کر پوچھا: تجزیہ نفسی(Psycho-analysis) کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا: جنسی جذبات اور تحت الشعور پر علم النفس کی عمارت بنانے کے بعد فرائیڈ جنسی جذبات پر مابعد الطبیعیات کی عمارت کھڑی کرنا چاہتا ہے، یہ ممکن نہیں۔ ذرا سے وقفہ کے بعد فرمایا: مجھے قبض کی شکایت تھی، میں نے خواب دیکھا کہ سات چور میرے مکان میں گھس آئے۔ صبح رفع حاجت کے بعد میں نے کموڈ میں نظر ڈالی تو اس میں سات سدے تھے، تجزیہ نفسی والے اس کی کیا تشریح کریں گے۔
میں نے پوچھا، غالب کی شاعری کے بارے میں آج کل یہ بحث ہو رہی ہے کہ آیا وہ قناطی تھا یا رجائی، آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟فرمایا:قنوطیت فلسفہ کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی اچھی چیزوں میں بھی برائی کا پہلو نکالا جائے۔ اس طرح کے قنوطی بدھ مت والے ہیں یا پھر ان کا بیرو شوبن ہاوئرSchopenhauer اس لحاظ سے غالب قنوطی نہیں، البتہ شاعر پر کبھی ایسی حالت طاری ہوتی ہے کہ وہ دنیا سے بیزاری کی داستان بیان کرتا ہے۔ فلسفہ کی اصطلاح میں اسے قنوطیت نہیں کہتے۔ بہرحال قنوطیت سے بحث کرتے وقت ا س فرق کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
اس کے بعد میں نے پوچھا، تمدن (Cibilisation) اور تہذیب (Culture) آج کل اس طرح استعمال ہو رہے ہیں کہ گویا وہ ہم معنی ہیں، آپ ان میں کس طرح امتیاز کریں گے؟ فرمایا، Civilasationکا تعلق باہر کی دنیا سے ہے اورCultureکا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے۔
کچھ دیر خاموشی رہی۔ ڈاکٹر صاحب بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے سر کے بالوں میں کنگھی کرتے رہے۔ پھر یکایک فرمایا: مذہب نے کچھ جانوروں کے کھانے کی اجازت دی ہے اور بعض کو حرام قرار دیا ہے۔ اس مسئلہ پر طب کے نقطہ نظر سے بحث ہو سکتی ہے، مگر میرا خیال ہے کہ اس میں جمالیات کو بھی دخل ہے۔ اگر سب حلال اور حرام جانوروں کی دو علیحدہ فہرستیں بنائی جائیں تو میرا خیال ہے حلال جانور خوبصورت نکلیں گے اور حرام بدصورت۔ اس نقطہ نگاہ سے آج تک کسی نے اس مسئلہ سے بحث نہیں کی۔
تھوڑے سے وقفہ بعد ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: جب میں بھاٹی دروازہ میں رہا کرتا تھا، ایک بزرگ مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ اس وقت میری شاعری کا آغاز تھا۔ غالباً میرے اشعار نے ملاقات کی خواہش پیدا کی ہو گی۔ میں نہانے جا رہا تھا۔ میں نے کہا آپ تشریف رکھیے میں آپ کے آنے کی اطلاع شیخ محمد اقبال کو کیے دیتا ہوں۔ نہانے کے بعد میں آیا تو ان سے کہا، فرمائیے میں آ گیا ہوں۔ اس شخص کو نہایت مایوسی ہوئی۔ اس نے اپنے ذہن میں جو شکل میری بنا رکھی تھی غالباً میں اس معیار پر پورا نہ اترا۔ نادر خان16؎ سے جب اول مرتبہ ملاقات ہوئی تو وہ کابل جاتے ہوئے لاہور میں ٹھہر گئے تھے۔ وہ میری صورت دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ کہنے لگے: آپ اقبال ہیں؟ میں تو سمجھتا تھا کہ آپ لمبی ڈاڑھی والے بزرگ صورت ہوں گے۔ میں نے کہا: آپ سے زیادہ مجھے حیرانی ہے۔آپ تو جرنیل ہیں میں سمجھتا تھا آپ دیوہیکل ہوں گے، مگر آپ میں جرنیلی کی کوئی شان نہیں، اس قدر دبلے پتلے۔
اس کے بعد فرمایا، میں نے مومن کا دیوان نہیں پڑھا تھا، اب دیکھا ہے، اس میں مجھے صرف ایک شعر پسند آیا ہے:
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا17؎
شعر و شاعری کی بات جو شروع ہوئی تو میں نے کہا کہ آج کل ہندوستان کے قومی ترانہ کا سوال در پیش ہے۔ مسلمان بندے ماترم پر معترض ہیں۔ آپ ہندوستان کے لیے ایسا قومی ترانہ کیوں نہیں لکھتے جس میں معنوی اور صوتی لحاظ سے گرمی ہو۔ فرمایا: ہندوستان میں قوم ہے کہاں جس کے لیے قومی ترانہ لکھا جائے۔
مختصر سی خاموشی کے وقفے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: میں عمر بھر کرائے کے مکانوں میں رہا ہوں۔ جاوید منزل جاوید کی ملکیت ہے، میں اس کو پچاس روپے ماہوار کرایہ دیتا ہوں۔ ایک دفعہ سر ذوالفقار علی خاں مجھ سے کہنے لگے، اپنا مکان کیوں نہیں بنواتے؟میں نے کہا تم سرمایہ داروں نے چار چار پانچ پانچ مکانوں پر قبضہ جما رکھا ہے، ہم جیسوں کے حصے میں اپنا مکان کیسے آ سکتا ہے۔
اس کے بعد ہم نے ڈاکٹر صاحب سے اجازت مانگی، فرمایا: جا رہے ہیں، اچھا ۔ ہم اٹھے اور رخصت ہوئے۔
ڈاکٹر سعید اللہ ایم اے، پی ایچ ڈی