علامہ اقبال سے ایک ملاقات

علامہ اقبال سے ایک ملاقات
پروفیسر حمید احمد خان، ایم ۔اے

گذشتہ ماہ رمضان کی ایک سہانی شام کو جب ہوا کے جھونکے گلابی جاڑے کی تازگی اور کیفیت سے بس رہے تھے ہم علامہ اقبال سے ملنے کے لیے روانہ ہوئے۔ میرے ساتھ میرے شعبہ انگریزی کے رفیق پروفیسر عبدالواحد اور صدر شعبہ فلسفہ ڈاکٹر سعید اللہ تھے۔ خزاں کا آغاز تھا، مگر موسم میں وہ جولانی تھی جو لاہور کا فرحت بخش آسمان بھی صرف کبھی کبھی زمین والوں کو عطا کرتا ہے۔ ساڑھے چار بج چکے تھے، سورج کے غروب ہونے میں ابھی کچھ عرصہ باقی تھا، فضا اجلی اور نکھری ہوئی تھی مگر مغرب کی طرف ابر کی چند قرمزی اور نارنجی دھاریاں افق پر ایک لہر یا سا بنا رہی تھیں۔ ہم ا مپرس روڈ سے ہوتے ہوئے اس چھوٹی سی سڑک پر چل رہے تھے جو ریلوے کے بڑے دفتر کے جنوبی رخ کے ساتھ ساتھ جاتی ہے۔ وہ سہ راہہ آیا جہاں یہ سڑک میو روڈ سے ملتی ہے اور ساتھ ہی ہم نے اس مختصر سے سفید مکان پر نظر ڈالی جہاں دور حاضر میں حقیقت کا سب سے بڑا ترجمان اپنی خاموش مگر ہنگامہ خیز زندگی بسر کر رہا ہے۔ سڑ ک کے ساتھ صحن کی چھوٹی سی دیوار اور اس کے پیچھے یوکلپٹس کے چار پودے جو ابھی اپنے پورے قد و قامت کو نہیں پہنچے، پھر سبزے کا ایک مختصر سا تختہ جس کے ساتھ ساتھ ہوتے ہوئے ہم مکان کی ڈیوڑھی کے پاس جا کر رک گئے۔ اس کی ڈیوڑھی تین محرابیں اپنے ہشت پہلو ستونوں پر سڑک سے صاف نظر آتی ہیں۔ ڈیوڑھی کے ساتھ ہی مکان کا برآمدہ ہے جس کے سفید پیل پائے طبیعت کو رعب و وقار کے بجائے حسن و لطافت کا اثر زیادہ دیتے ہیں۔ پرانا دوست علی بخش ہمیں دیکھ کر صحن کے ایک بغلی حجرے میں سے نکلا۔ اس نے جا کر علامہ اقبال کو ہماری آمد کی اطلاع دی اور پھر فوراً واپس آ کر ہمیں اندر آنے کی دعوت دی۔
برآمدے سے گزرے ہی ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ اس کمرے کا سامان آرائش بہت سادہ اور تکلف و تصنع سے پاک تھا۔ رواق پر شاعر مشرق کی ایک تصویر، دو تین فٹ اونچی فوراً نظر کے سامنے آ گئی۔ اسی کمرے سے ملحق بائیں ہاتھ کو علامہ اقبال کی خوبا گاہ کی ایک کھڑکی برآمدے کی طرف کھلتی ہے جس کے ساتھ ملا ہوا علامہ ممدوح کا بستر بچھا رہتا ہے۔ اب ایک عرصہ ہو گیا تھا کہ ہم جب آتے تھے علامہ اقبال کو اسی بستر پر کبھی کبھی بیٹھے ہوئے مگر زیادہ تر لیٹے ہوئے پاتے تھے، لیکن مجھے وہ دن بھی یاد ہیں کہ میکلوڈ روڈ کے قیام کے دنوں میں حضرت علامہ اپنے خرمن فیض کے خوشہ چینوں کو کسی اور رنگ میں صلائے عام دیتے تھے۔ میں سڑک سے مڑتا تھا تو کوٹھی کے صحن میں داخل ہوتے ہی اور بعد کے دنوں میں اس لمبی روش پر چند ہی قدم چل کر جو مکان تک پہنچاتی تھی، ہمیشہ برآمدے کے ایک مخصوص گوشے میں ڈاکٹر صاحب ایک آرام کرسی پر بیٹھے ہوئے دور سے نظر آ جاتے تھے۔ برآمدے تک پہنچتے پہنچتے علی بخش پہلے سے جمی ہوئی محفل میں حسب ضرورت ایک یا دو کرسیوں کا اضافہ کر دیتا تھا۔
آج ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی ہم کسی قدر ٹھٹکے۔ ایک یورپین خاتون ڈاکٹر صاحب کے بستر کے برابر کرسی پر بیٹھی تھیں اور ڈاکٹر صاحب کی چھوٹی بچی کو گود میں لیے ہوئے تھیں۔ ہم کو دیکھتے ہی وہ اٹھیں اور مقابل کا پردہ اٹھا کر مکان کے اندر چلی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب بستر پر لیٹے ہوئے تھے، انہوں نے تکیے کے سہارے لیٹے لیٹے ہمارے سلام کا جواب دیا۔ ہم تینوںبستر کے برابر کرسیوں پر بیٹھنے ہی کو تھے کہ ڈاکٹر صاحب ہم سے مخاطب ہوئے:
’’ کون صاحب ہیں؟‘‘
یہ سوال سن کر میرے دل کو ایک دھکا سا لگا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں گاہ بہ گاہ حاضر ہوتے اب سات آٹھ برس ہو گئے تھے اور ڈاکٹر صاحب ہمیشہ شفقت و عنایت سے پیش آتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ سوال میری سمجھ میں نہ آیا، اس لیے اپنے استعجاب کو چھپاتے ہوئے میں نے جواب دیا:’’ جی میں ہوں حمید احمد خاں، سعید اللہ اور عبدالواحد‘‘ اور یہ کہہ کر ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ سب سے پہلے ہم نے ڈاکٹر صاحب کے مزاج کی کیفیت پوچھی، اس کے بعد تھوڑی دیر تک سکوت رہا جس کو ڈاکٹر صاحب نے حسب معمول اپنی اس لمبی استادانہ ’’ ہوں‘‘ سے توڑا، جس میں بالعموم گفتگو کے لاتعداد امکانات مضمر ہوتے ہیں۔ میں نے اس تپائی پر نظر ڈالی جو بستر کے ساتھ ہی لگی ہوئی تھی۔ پانچ سات کتابیں اس کے اوپر تھیں اور دو ایک نیچے فرش پر پڑی تھیں۔ میں نے ایک اچٹتی ہوئی نظر ان کتابوں پر ڈالی اور تھوڑے سے وقفے کے بعد پوچھا:
’’ ڈاکٹر صاحب! آج کل پڑھنے پر زیادہ توجہ ہے یا کبھی کبھی آپ کچھ لکھتے بھی ہیں۔‘‘
’’ پڑھنا کیسا! کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اگر کچھ دیکھ سکوں تو پڑھوں۔‘‘
’’ نظر نہیں آتا؟‘‘ ڈاکٹر صاحب کے یہ الفاظ میں نے بیحد حیرت و استعجاب کے لہجہ میں دہرائے۔
ہاں! جب آپ لو گ میرے کمرے میں داخل ہوئے ہیں تو میں آپ کو نہیں دیکھ سکا۔ اب تھوڑی دیر گزرنے پر آپ کی صورتیں کسی قدر دھندلی نظر آ رہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ Senile Cateract (موتیا بند) اتر آیا ہے۔
سعید اللہ: ان گرمی کی چھٹیوں سے پہلے آپ نے ذکر کیا تھا کہSenile Cateract اتر آنے کا خطرہ ہے، مگر یہ خیال نہیں تھا کہ اس قدر جلد اتر آئے گا۔
ڈاکٹر صاحب: جی ہاں! عام طور پر لوگوں کو دیر سے اترتا ہے، مجھے ذرا پہلے اتر آیا ہے۔ میرے والد مرحوم کو جو سو سال سے کچھ زیادہ زندہ رہے، اسی برس کی عمر میں اترا تھا۔
میں: اس کے علاج کی کوئی صورت تو آپ کر رہے ہوں گے؟
ڈاکٹر صاحب:’’ اب اس کا آپریشن ہو گا۔ لیکن جب تک یہ پک نہ جائے آپریشن نہیں ہو سکتا۔ پکنے میں اسے پانچ مہینے لگ جائیں گے، پانچ سال لگ جائیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بہرحال لکھنا پڑھنا بالکل موقوف ہے، کیونکہ میری داہنی آنکھ تو شروع ہی سے بیکار تھی۔‘‘
’’ شروع ہی سے بیکا رتھی؟‘‘ اب حیرت کے ساتھ اس فقرے میں ہمارا تاسف و اضطراب بھی شامل تھا۔
جی ہاں! دو سال کی عمر میں میری یہ آنکھ ضائع ہو گئی تھی مجھے اپنے ہوش میں مطلق یاد نہیں کہ یہ آنکھ کبھی ٹھیک تھی بھی یا نہیں۔ ڈاکٹر نے خیال ظاہر کیا تھا کہ داہنی آنکھ سے خون لیا گیا ہے جس کی وجہ سے بینائی زائل ہو گئی۔ میری والدہ کا بیان ہے کہ دو سال کی عمر میں جونکیں لگوائی گئی تھیں۔ تاہم میں نے اس آنکھ کی کمی کبھی محسوس نہیں کی۔ ایک آنکھ سے دن کو تارے دیکھ لیا کرتا تھا ۔(اس کے بعد ایک ایسے تبسم کے ساتھ جو گویا تاریکی کی قوتوں کے خلاف پیغمبر امید کا نعرۂ خاموش تھا) اب اگرچہ میں پڑھتا نہیں ہوں مگر پڑھنے کے بجائے سوچتا ہوں جس میں وہی لطف ہے جو پڑھنے میں (پھر ذرا سرگرمی کے ساتھ تکیے سے سر اٹھا کر) عجیب بات یہ ہے کہ جب سے بصارت گئی ہے میرا حافظہ بہتر ہو گیا ہے۔
اس کے بعد ادھر ادھر کی کچھ باتیں ہوئیں۔ اس یورپین خاتون کا ذکر ہوا جو تھوڑی دیر پہلے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں ہمیں نظر آئی تھیں۔ معلوم ہوا کہ یہ ڈاکٹر صاحب کے بچوں کی گورنس ہیں اور علی گڑھ کے کسی پروفیسر کی سفارش پر ڈاکٹر صاحب نے انہیں ملازم رکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا:’’ بیچاری اپنے حالات کی وجہ سے مصیبت میں تھی اور ہے بڑی شریف عورت۔ بہت اچھی منتظم ہے۔ بچوں کی تعلیم کے علاوہ اس نے گھر کا بہت سا اور کام کاج بھی سنبھال لیا ہے۔ ذرا فرصت ملتی ہے تو مکان کے جھاڑنے پونچھنے میں لگ جاتی ہے یا باورچی خانے میں جا کر ہاتھ بٹاتی ہے۔ میرا باورچی خانے کا خرچ اب ایک تہائی کم ہو گیا ہے۔ کبھی مجھے انگریزی میں خط لکھنا ہوتا ہے تو اسی کو لکھوا دیتا ہوں۔ اردو خط جاوید لکھ دیتا ہے۔ ہاں اس سلسلہ میں ایک بڑا لطیفہ ہوا۔ میری لڑکی منیرہ اپنی گورنس کے ساتھ سیر کے لیے کسی طرح نہیں جانا چاہتی تھی۔ بہت دفعہ کہا مگر اسے گورنس کے ساتھ سڑک پر نکلنا بالکل منظور نہیں تھا۔ آخر کئی دن بعد یہ راز کھلا جب منیرہ نے کہا لوگ مجھے کہیں گے میم کی بیٹی ہے۔‘‘
انہیں باتوں میں سوا پانچ بج گئے۔ علی بخش نے آ کر مہر صاحب1؎ اور سالک صاحب2؎ کے آنے کی اطلاع دی۔ دونوں صاحب تھوڑی دیر میں اندر داخل ہوئے اور ہمارے قریب ہی دو کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ان دنوں تھوڑا ہی عرصہ پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس3؎ لکھنو میں ہوا تھا اور پنجاب کی یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کے باہمی میثاق کے چرچے تھے۔ مدیران ’’ انقلاب‘‘ 4؎ کے آتے ہی گفتگو کا رخ سیاسیات کی طرف پھر گیا۔
اس اثنا میں افطار کا وقت قریب آ گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے گھنٹی بجا کر اپنے ملازم رحما کو طلب کیا اور اس سے کہا کہ افطار کے لیے سنگترے، کھجوریں، کچھ نمکین اور میٹھی چیزیں جو کچھ ہو سکے سب لے آئے۔
سالک صاحب: افو! یہ سب کچھ منگوانے کی کیا ضرورت ہے، کھجوریں کافی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب : (ایک ایسی شوخی سے جس میں طفلانہ معصومیت کا انداز جھلکتا تھا) سب کچھ کہہ کر ذرا رعب تو جما دیں، کچھ نہ کچھ تو لائے گا۔
رحمے نے ڈاکٹر صاحب کی ہدایات کی لفظ بہ لفظ پابندی ضروری نہ سمجھی اور قریب قریب سالک صاحب کی خواہش کی پاسداری پر اکتفا کیا۔
ان سیاسی مباحث کے بعد خاموشی کا ایک وقفہ آیا، تھوڑی دیر کے بعد میں نے اسے توڑا اور کہا ڈاکٹر صاحب گرمی کی چھٹیوں سے پہلے ہم حاضر ہوئے تھے تو آپ نے غالب اور بیدل کے متعلق فرمایا تھا کہ آپ کی رائے میں غالب نے بیدل کو سمجھا ہی نہیں۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ بیدل کا تصوف Dynamic (حرکی) ہے اور غالب کا Static(سکونی)
ڈاکٹر صاحب: (Inclined to static) مائل بہ سکون
میں: جی ہاں اس سے آپ کا کیا مطلب تھا؟
ڈاکٹر صاحب: بیدل کے کلام میں خصوصیت کے ساتھ حرکت پر زور ہے یہاں تک کہ اس کا معشوق بھی صاحب کرام ہے۔ اس کے برعکس غالب کو زیادہ تر اطمینان و سکون سے الفت ہے۔ بیدل نے ایک شعر لکھا ہے ’’ خرام می کاشت*‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ گویا سکون کو بھی بہ شکل حرکت دیکھا ہے۔ مثالیں اس وقت یاد نہیں ہیں، لیکن اگر آپ بیدل کا کلام پڑھیں تو بہت سے اشعار ہاتھ آ جائیں گے۔ میں جن دنوں انار کلی میں رہتا تھا میں نے بیدل کے کلام کا انتخاب کیا تھا۔ وہ اب میرے کاغذوں میں کہیں ادھر ادھر مل گیا ہے۔ نقشبندی سلسلے اور حضرت مجدد الف ثانی سے بیدل کی عقیدت کی بنیاد بھی یہی ہے۔ نقشبندی مسلک حرکت اور رجائیت پر مبنی ہے (Dynamic and Optimistic) مگر چشتی مسلک میں قنوطیت اور سکون کی جھلک نظر آتی ہے (Passimistic and static) اسی وجہ سے چشتیہ سلسلے کا حلقہ ارادت زیادہ تر ہندوستان تک محدود ہے۔ مگر ہندوستان سے باہر افغانستان، بخارا، ترکی وغیرہ میں نقشبندی مسلک کا زور ہے۔ دراصل زندگی کے جس جس شعبے میں تقلید کا عنصر نمایاں ہے، اس میں حرکت مفقود ہوتی جاتی ہے۔ تصوف تقلید پر مبنی ہے، سیاسیات
*ڈاکٹر صاحب نے جس شعر کی طرف اشارہ کیا وہ یہ ہے:
ہر نہ دو قدم خرام می کاشت
از انگشتم عصا بہ کف داشت
فلسفہ، شاعری، یہ بھی تقلید پر مبنی ہیں۔ لیکن نقشبندی سلسلے کے شعرا مثلاً ناصر علی سرہندی کو دیکھئے۔ ناصر علی کی شاعری تقلیدی نہیں ہے، اسی لیے حرکت والی قوموںمیں وہ زیادہ ہر دلعزیز ہے۔ ہندوستان میں ناصر علی کی کچھ زیادہ قدر نہیں ہے، لیکن افغانستان اور بخارا کے اطراف میں لوگ اس کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں۔ بیدل کو بھی افغانستان کے لوگ بہت مانتے ہیں۔
میں: اس کے کلام کے حرکی عنصر کی وجہ سے؟
ڈاکٹر صاحب: (مسکراتے ہوئے) میرا خیال ہے کہ بیدل کے کلام کو سمجھنے میں انہیں مشکل پیش آتی ہے، اس لیے
سعید اللہ: اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جو غالب نے شروع شروع میں بیدل کی طرح مشکل گوئی کی؟ کیا یہ صرف اس دعویٰ کے لیے کہ میں بھی مشکل لکھ سکتا ہوں؟
اس موقع پر مہر صاحب نے سالک صاحب کی طرف دیکھا اور دونوں صاحبوں نے بہ اتفاق ڈاکٹر صاحب سے رخصت کی اجازت چاہی۔ چنانچہ قبل اس کے کہ ڈاکٹر صاحب سعید اللہ کے سوال کا جواب دیں کہ ’’ ہاں جوانی میں انسان طبعاً مشکل پسند ہوتا ہے۔‘‘ دونوں حضرات ڈاکٹر صاحب کی خواب گاہ سے نکل کر ڈرائنگ روم تک جا پہنچے تھے۔ ان کی رفت و برخاست کی وجہ سے گفتگو میں قدرۃً ایک اور وقفہ آیا۔ اس کے بعد سعید اللہ نے کہا، آج کل ہندوستان کے نیشنل اینتھم کے متعلق بڑی بحث ہو رہی ہے آپ کی اس مسئلے کے متعلق کیا رائے ہے؟
ڈاکٹر صاحب:’’ نیشنل اینتھم‘‘ تو اس صورت میں ہو کہ کوئی ’’ نیشن‘‘ ہو۔ جب سرے سے ’’نیشن‘‘ ہی کا کوئی وجود نہیں ہے تو ’’ نیشنل اینتھم‘‘ کہاں ہو سکتا ہے میری تو یہ رائے ہے کہ ہندوستان کو کسی ’’ نیشنل اینتھم‘‘ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
سعید اللہ: بندے ماترم پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ ایک تو یہ بنگالی میں ہے، دوسرے اس کے آہنگ میں گرمی نہیں ہے۔
ڈاکٹر صاحب: (ذرا گرمی سے) آپ ہندوؤں کی شاعری میں گرمی ڈھونڈتے ہیں؟ ہندو شاعری کے تمام دفاتر دیکھ ڈالیے، کہیں گرمی نظر نہیں آئے گی۔ ہندو کو ہر جگہ شانتی کی تلاش ہے۔ ہندوؤں کی ادبی پیداوار میں میرے نزدیک اس کی صرف ایک استثنا ہے رامائن، اور وہ بھی بعض بعض حصوں میں۔
عبدالواحد: مگر ہندوستان کی موسیقی تو خاصی ہیجان انگیز ہے۔ قوالی میں یہی موسیقی کافی گرمی پیدا کر لیتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب: میں اسے مصنوعی گرمی کہتا ہوں، جس طرح منشیات سے کوئی شخص طبیعت میں ہیجان پیدا کر لے۔
عبدالواحد: کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ وجد و حال کی کیفیت مصنوعی ہے؟ مثلاً ہمارے ہاں سیالکوٹ میں نوشاہیوں کا میلہ ہوتا ہے، وہاں قوالی سے بعض لوگ یک دم حال میں آ جاتے ہیں۔ کیا وہ آپ کے نزدیک محض دکھاوا ہے؟
ڈاکٹر صاحب:ان لوگوں نے وجد و حال کو ایک (دستور) بنا لیا ہے یہ کیفیت ان پر واقعی طاری ہوتی ہے، لیکن جب وہ اپنے خرش جذبات کو اس طرح فرو کر لیتے ہیں تو پھر ان میں باقی کچھ نہیں رہتا اور وہ جذبہ دوبارہ طاری نہیں ہوتا۔ دراصل مسلمان جب عرب سے نکلے اور انہیں باہر کی قوموں سے سابقہ پڑا تو صوفیہ نے ان قوموں کی طبعی نسائیت کا لحاظ کرتے ہوئے قوالی اور موسیقی کو اپنے نظام میں شامل کر لیا۔ نسائیت سے مراد فالتو جذبات ہیں۔ ایران اور ہندوستان میں فالتو جذبات کی کثرت ہے اور حال انہیں فالتو جذبات کے اخراج کا ایک ذریعہ ہے۔ صوفیوں کے سلسلوں میں قوالی کو جو دخل ہے وہ صرف اسی وجہ سے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی موسیقی کا وجود ہے ہی نہیں۔ اس وقت تمام اسلامی ممالک میں اپنا اپنا مقامی فن موسیقی رائج ہے ۔ مسلمان جہاں جہاں پہنچے وہیں کی موسیقی انہوں نے قبول کر لی اور کوئی اسلامی موسیقی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ یہ واقعہ ہے کہ فن تعمیر کے سوا فن لطیفہ میں6؎ سے کسی میں بھی اسلامی روح نہیں آئی۔ اسلامی تعمیرات میں جو کیفیت نظر آتی ہے وہ مجھے اور کہیں نظر نہیں آئی۔ البتہ پچھلی مرتبہ یورپ سے واپسی پر مصر جانے کا اتفاق پیش آیا اور وہاں قدیم فرعونوں کے مقابر دیکھنے کا موقع ملا۔ ان قبروں کے ساتھ مدفون بادشاہوں کے بت بھی تھے، جن میں قوت اور ہیبت کی ایک ایسی شان تھی جس سے میں بہت متاثر ہوا۔ قوت کا یہی احساس حضرت عمرؓ کی مسجد اور دلی کی مسجد قوۃ الاسلام 7؎ بھی پیدا کرتی ہے۔ بہت عرصہ ہوا جب میں نے مسجد قوۃ الاسلام کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا، مگر جو اثر میری طبیعت پر اس وقت ہوا وہ مجھے اب تک یاد ہے۔ شام کی سیاہی پھیل رہی تھی اور مغرب کا وقت قریب تھا، میرا جی چاہا کہ مسجد میں داخل ہو کر نماز ادا کروں۔ لیکن مسجد کی قوت و جلال نے مجھے اس درجہ مرعوب کر دیا کہ مجھے اپنا یہ فعل ایک جسارت سے کم معلوم نہ ہوتا تھا۔ مسجد کا وقار مجھ پر اس طرح چھا گیا کہ میرے دل میں صرف یہ احساس تھا کہ میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہوں۔
اندلس کی بعض عمارتوں میں بھی اسلامی فن تعمیر کی اس خاص کیفیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن جوں جوں قومی زندگی کے قواء شل ہوتے گئے تعمیرات کے اسلامی انداز میں ضعف آتا گیا۔ وہاں کی تین عمارتوں میں مجھے ایک خاص فرق نظر آیا۔ قصر زہرا8؎ دیوؤں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے، مسجد قرطبہ 9؎ مہذب دیوؤں کا مگر الحمراء 10؎ محض مہذب انسانوں کا!
پھر ایک تبسم کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’ میں الحمراء کے ایوانوں میں جا بجا گھومتا پھرا مگر جدھر نظر اٹھتی تھی دیوار پر ’’ ھو الغالب‘‘ لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ میں نے دل میں کہا، یہاں تو ہر طرف خدا ہی خدا غالب ہے، کہیں انسان غالب نظر آئے تو بات بھی ہو۔‘‘ اس کے بعد پھر تھوڑی دیر تک ہندوستان کی اسلامی عمارات کا ذکر ہوتا رہا۔ یعنی تاج محل کے متعلق ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:
’’ مسجد قوۃ الاسلام کی کیفیت اس میں نظر نہیں آتی۔ بعد کی عمارتوں کی طرح اس میں بھی قوت کے عنصر کا ضعف آ گیا ہے اور دراصل یہی قوت کا عنصر ہے جو حسن کے لیے توازن قائم کرتا ہے۔‘‘
سعید اللہ:’’ دلی کی جامع مسجد11؎ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
ڈاکٹر صاحب:’’ وہ تو ایک بیگم ہے!‘‘
ہم اس فقرے پر ہنسے اور ڈاکٹر صاحب بھی ہمارے ساتھ شریک ہو گئے۔ اس منزل پر اسلامی تعمیرات کے متعلق یہ دلکشا بحث ختم ہوئی۔ اب شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے اور تین گھنٹے کی اس مسلسل نشست کو طول دینا کچھ ایسا مناسب بھی نہیںتھا۔ ہم نے ایک دوسرے کو ان ’’ مشورہ طلب‘‘ نگاہوں سے دیکھا جنہیں ہم نے معمولاً ڈاکٹر صاحب سے اجازت لینے کا پیش خیمہ قرار دے رکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب معمول ہم سے کہا’’ اچھا! چلتے ہیں آپ؟‘‘ اور اس کے بعد ہم رخصت ہوئے۔

پروفیسر حمید احمد خان، ایم ۔اے