ایک فیضانی لمحے کی یاد، ڈاکٹر تاثیر ایم اے، پی ایچ ڈی

ایک فیضانی لمحے کی یاد
ڈاکٹر تاثیر ایم اے، پی ایچ ڈی

ایک شام کو ہم چار: تاثیر1؎، چغتائی2؎ اور ان کے دو بھائی 3؎ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جاتے ہی غیر مطبوعہ اردو کلام کا مطالبہ شروع کر دیااور دلائل کی بوچھاڑ کر دی: اردو میں آپ نے دیر سے نہیں لکھا، اردو بحیثیت زبان کے مستحق امداد ہے، اردو دان لوگ بحیثیت ہم قوم ہونے کے پیغام اقبال سننے کے مستحق ہیں، مسلمانان ہند کو اور کون ابھارے گا؟ کارواں کے نکالنے کا آپ ہی نے مشورہ دیا تھا، آپ کا غیر مطبوعہ اردو کلام نہ ہوا تو ہماری نیاز مندی لوگوں کی نظر میں مشکوک ٹھہرے گی۔ ہم کچھ نہ کچھ لے کر ٹلیں گے۔ حضرت علامہ بستر پر لیٹے ہوئے یہ سب کچھ سن رہے تھے اور مسکرا رہے تھے کہنے لگے، اردو میں شعر نازل ہی نہیں ہوتے۔ جاوید نامہ 4؎ کو ابھی ختم کیا ہے اور دل و دماغ نچڑ گئے ہیں، اس لیے فارسی میں بھی کچھ کہنا محال ہے۔ یوں بھی فارسی کو چھوڑ کر اردو میں کہنا سنگ مر مر کی بجائے گارے کی عمارت بنانا ہے۔ مگر تمہارے اور دیگر عزیزوں کے اصرار سے اردو کی طرف میلان ہو رہا ہے، دیکھو! جو اس کی مرضی! ہم نے دلائل بازی میں شکست ہوتی دیکھ کر نیاز مندی کو سہارا بنایا اور ’’ اردو غزل‘‘ سن کر ذرا چونکے، کہنے لگے،’’یہ ایک نئی شرط لگا دی‘‘ ہماری اس فقرے سے ہمت بندھی، سمجھے اردو غزل نہیں تو نظم، یہ بھی نہیں تو غیر مطبوعہ فارسی کلام تو مل ہی جائے گا۔ اپنی اس کامیابی پر ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے کہ یکایک حضرت علامہ نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ:’’ تم اس وفد کے سرغنہ ہو اور شاعر ہو، اپنے اشعار سناؤ، شاید طبیعت کو بہانہ مل جائے۔‘‘ یہ سننا تھا کہ میری تمام شوخیوں اور مسکراہٹوں کا خاتمہ ہو گیا۔ میں اور اپنے اشعار حضرت علامہ کو سناؤں! مجھے کبھی ان کے سامنے اپنے اشعار پڑھنے کی جرأت نہ ہوئی اور جب کبھی انہوں نے میری کسی مطبوعہ نظم کا ذکر کیا، مجھے پسینہ آنے لگا۔ میری خاموشی پر حضرت علامہ پھر بولے، بھئی کچھ سناؤ گے تو شاید تمہاری قسمت کی کوئی چیز ہو جائے۔ اس پر چغتائی صاحب کارواں کے مفاد پر مجھے قربان کرتے ہوئے بول اٹھے۔ ’’ وہ سمجھا تھا میں والی غزل سنا دو‘‘ باقی دو بھائی بھی ہم آہنگ ہو گئے: ’’ ہاں ہاں، سمجھا تھا میں والی غزل‘‘ علامہ اقبال مسکرا رہے تھے۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور جی کڑا کر کے ایک مطلع پڑھا، پھر دوسرا، علامہ اقبال اس کا ایک مصرع
تم کو اپنی زندگی کا آسرا سمجھا تھا میں
دہرانے لگے، مجھے کچھ تسکین ہوئی۔ آخری شعر پر مجھے خود یقین تھا:
زلف آوارہ گریباں چاک اے مست شباب
تیری صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا میں
حضرت علامہ کو بھی پسند آیا، کہنے لگے زمین اچھی ہے۔ خدا کا قافیہ کیوں چھوڑ دیا؟ اور کچھ چپ سے ہو گئے۔ فکر شعور میں سر جھکا لیا۔ ہماری امیدیں بلند ہو گئیں مگر مجھے ایک اور فکرلاحق ہو گیا۔ میری غزل اچھی تھی، بہت اچھی تھی، لیکن اگر حضرت علامہ نے اس پر کچھ کہہ دیا تو قدر عافیت معلوم! بے حیثیت ہو کر رہ جائے گی۔ ہاں اردو ادب اور کارواں دولت مند ہو جائیں گے۔ مگر ۔۔۔۔ میرے دماغ میں یہ کش مکش جاری تھی کہ حضرت علامہ بولے اگر قافیہ بدل جائے تو؟ ہمیں فوراً بولا تو بہتر ہو گا اور اطمینان کا سانس لیا۔ حضرت علامہ کہنے لگے: ’’ لو سنو، تم غزل غزل5؎ پکار رہے تھے تو غزل ہی سہی:
عرصہ محشر میں میری خوب رسوائی ہوئی!
داور محشر کو اپنا راز داں سمجھا تھا میں!
یہ شعر کہہ کر علامہ کچھ رکے، دو تین منٹ تک، اور پھر یہ حالت تھی کہ میں نقل نہیں کر چکتا تھا کہ ایک اور شعر تیار ہوتا۔ دوسرا شعر جاوید نامہ کی کیفیات کا حامل تھاـ:‘‘
’’مہر و ماہ و مشتری کو ہمعناں سمجھا تھا میں!‘‘
جوں جوں شعر ہوتے جاتے، علامہ کی حالت بدلتی جاتی، بستر ہی میں اٹھ کر پاؤں کے بل بیٹھ گئے، آواز میں لرزش سی آ گئی، جھوم جھوم کر داہنے ہاتھ کی سبابہ اٹھا کر انشاد کرتے تھے اور اس شعر پر:
تھی وہ اک درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک
جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں!
وہ بھی رو رہے تھے اور ہم بھی! نہ جانے یہ غزل کتنی لمبی ہو جاتی مگر یہ فیضانی سلسلہ ایک اجنبی ملاقاتی کی آمد سے منقطع ہو گیا اور ہم اس در اندا زکو دل ہی دل میں کوستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد بہت ملاقاتیں ہوئیں مگر ہم نے دوبارہ اس غزل کا ذکر تک نہ کیا اور نظر ثانی کے لیے بھی شعروں کی نقل نہیں دی۔ مطلع کے متعلق علامہ نے مجھے ایک خط میں لکھا تھا کہ یوں کر دیا جائے:
اپنی جولانگاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
کس رباط کہنہ کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
مگر میں نے تعمیل ارشاد نہ کرتے ہوئے اس فیضانی لمحے کی یادگار کو جوں کا توں رہنے دیا۔

ڈاکٹر تاثیر ایم اے، پی ایچ ڈی