اقبال کی شاعری کی پہلی منزل
۱۹۰۵ء تک کے کلام پر اعادۂ نظر
یہ کلام کوئی تیس سال کی عمر تک کا کلام ہے۔ اقبال کی شہرت اس سن تک عام ہو گئی تھی، ادیبوں اور شاعروں کو نظر آنے لگا تھا کہ شاعری کے افق پر ایک نیا ستارہ طلوع ہوا ہے جس کے انداز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آگے چل کر مہتاب و آفتاب بننے والا ہے۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبال نے ایک طویل نظم پڑھی جس کے ہر شعر میں فکر و تخیل کا انوکھا پن تھا۔ مولانا شبلی وہاں موجود تھے، انہوں نے داد دیتے ہوئے فرمایا کہ جب حالی اور آزاد کی کرسیاں خالی ہوں گی تو لوگ اقبال کو ڈھونڈیں گے۔ آزاد نثر میں سحر نگار تھا مگر شاعری میں اس کا مرتبہ بہت بلند بہ تھا، لیکن حالی اپنی شاعری میں صاحب طرز تھے، سہل ممتع میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ ورڈز ورتھ کی طرح سادگی کو موثر بنانا اسی شاعر کا کام ہے جسے فطرت نے خاص جوہر عطا کیا ہو۔ قومی شاعری کی داغ بیل بھی حالی نے ڈالی لیکن مسلمانوں کی حیات ملی میں وہ زمانہ ہی ایسا تھا کہ قومی شاعری زیادہ تر قوم کا ماتم ہی تھی۔ سلطنت مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکی تھی، ان کے علوم و فنون میں فرسودگی پیدا ہو گئی تھی، حامیان دین، اسلام کے نادان دوست تھے اور عصر حاضر کے تقاضوں سے غافل تھے، مسلمانوں کے پاس نہ دولت دنیا رہی اور نہ دولت دین اس لیے حالی کی اکثر نظموں میں افسردگی زیادہ پائی جاتی ہے:
سینہ کوبی میں رہے جب تک کہ دم میں دم رہا
ہم رہے اور قوم کے اقبال کا ماتم رہا
علاج کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا اس لیے حالی کہتا ہے کہ بس اب دعا کرنی چاہیے اور سوچتا ہے کہ ہماری دعا سے بھی کیا ہو گا، رسول کریم رحمتہ للعالمین ؐ سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے:
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے
حالی اور آزاد کے علاوہ باقی دلی اور لکھنو، آگرہ اور اودھ کے شعراء ابھی تک تغزل میں پرانی لکیریں پیٹ رہے تھے اور چچوڑی ہوئی ہڈیوں کو برابر چوستے جاتے تھے۔ یہ شاعری کیا تھی؟ قافیہ پیمائی کی بیہودہ مشق اور جھوٹا تفاخر:
جناب داغ کے داماد ہیں اور دلی والے ہیں
اقبال نے اس وقت زندہ شاعری شروع کی جتب باقی سب غزل گو یوں ہی جگالی کر رہے تھے یہ شعراء حالی پر بھی معترض تھے کیوں کہ اس کی قوی اور فطری شاعری میں ان کو کوئی چٹخارا نظر نہیں آتا تھا۔ اردو زبان کا اجارہ چند شہروں اور ان شہروں میں بھی چند خاندانوں اور چند محلوں کے پاس تھا۔ حالی کو اس لیے مستند نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا وطن پانی پت تھا جہاں کی زبان ٹکسالی نہیں۔ حالی نے جل کر کہا:
حالی کو تو بدنام کیا اس کے وطن نے
پر آپ نے بدنام کیا اپنے وطن کو
جب حالی کے ساتھ یہ سلوک تھا، لاہور یا سیالکوٹ میں پیدا ہونے والا کس شمار و قطار میں تھا لیکن خدا کی قدرت ہے کہ اردو کے تمام شعراء میں سب سے بڑا شاعر وہاں پیدا ہواں جہاں گھر میں پنجابی بولی جاتی ہے۔ ٹکسالی زبان کے مدعیان نے شروع میں اقبال پر بھی زبان و محاورے کے بارے میں نکتہ چینی شروع کی لیکن اقبال بے پروا ہو کر اپنے مخصوص جادۂ فن پر گامزن رہا۔ جو لوگ شعر کی حیثیت سے واقف تھے ان کے دلوں پر اقبال کا سکہ بیٹھا رہا، داغ اور امیر مینائی کا مقابلہ اور موازنہ ابھی جاری تھا اور وہ اپنے فن میں اظہار کمال کر رہے تھے کہ اقبال کا شہرہ تمام ہندوستان میں سنائی دینے لگا جس کی شاعری کا موضوع اس کے انداز تفکر و تخیل اساتذہ متقدمین و متاخرین سے بھی الگ تھا اور معاصرین میں سے بھی کوئی شاعر اس انداز کی نظمیں نہ کہہ سکتا تھا۔ اقبال میں حالی کی حقیقت شناسی اور خلوص، غالب کے تخیل کے ساتھ ہم آغوش ہو گیا، جذبہ وطنیت اور درد ملت کے ساتھ ساتھ گہرے فلسفیانہ مضامین و حکیمانہ افکار اور صوفیانہ وجدانات، اثر انگیز شاعری کا جامہ پہن کر عالم ادب میں جلوہ افروز ہوئے۔ یہ تمام عناصر اور صفات اقبال کے ابتدائی دور کی شاعری میں بھی موجود ہیں، فن کے لحاظ سے شروع ہی سے اس صاحب کمال میں ایک پختگی نظر آتی ہے، مصلحانہ اور مبلغانہ انداز کی جھلک اس دور میں بھی موجود ہے لیکن ابھی مدہم ہے، حسن و عشق پر اعلیٰ درجے کی نظمیں موجود ہیں، ان میں عشق مجازی بھی ہے اور عشق حقیقی بھی لیکن عشق کے متعلق وہ نادر جذبات اور خیالات نہیں جو ارتقاء کی آخری منزل میں بڑے سوز و گداز اور بڑی شان کے ساتھ ظاہر ہوئے۔
خودی کا مضمون جو اقبال کے خاص نظریہ حیات کی پیداوار ہے۔ اس دور کی شاعری میں بہت کم نظر آتا ہے، حب وطن کے بڑے دل نواز اور دل گداز گیت اس میں موجود ہیں چونکہ ابھی تک اصلاح ملت اور تبلیغ کو اقبال نے اپنا وظیفہ حیات قرار نہیں دیا تھا اس لیے اس کے متعلق بھی نظمیں اور اشعار ڈھونڈے سے ہی ملتے ہیں۔ ان نظموں میں زندگی کے ہر پہلو سے متاثر ہونے والا شاعر ملتا ہے، اس کی شاعری کے موضوع ابھی محدود نہیں ہوئے لیکن بہت کم نظمیں ایسی ہیں جو فلسفیانہ افکار سے خالی ہوں۔ اقبال کے کلام میں شاعری اور حکمت شروع ہی سے توام نظر آتی ہیں لیکن کہیں بھی خالی فلسفہ شعریت پر غالب نہیں آیا۔ بعد میں آنے والے اقبال کے تمام عناصر اس دور میں بھی موجود ہیں مگر ان کی تکمیل مزید ارتقاء کی طالب تھی، لیکن اس دور کی شاعری کے کچھ موضوع ایسے ہیں جو بعد میں قریباً غائب ہو گئے ہیں او ران کی کہیں کہیں ہلکی جھلکیاں رہ گئی ہیں جغرافیائی وطنیت کا جذبہ جو پہلے دور میں موجود ہے آگے چل کر ساقط ہو جائے گا، عشق مجازی کی لہریں جو اس میں موجود ہیں وہ یورپ میں کہی ہوئی نظموں میں بھی دکھائی دیں گی، لیکن حکمت و وجدان اور درد ملت کی فراوانی سے بعد میں ناپید ہو جائیں گی، عشق ایک لا محدود جذبہ حیات اور خودی پروردگار بن جائے گا۔ اس دور کی شاعری میں کچھ روایتی تصوف بھی ہے جو بعد میں چل کر اقبال کے اجتہادی تصوف میں بدل جائے گا۔ اسلامیات کا عنصر ابھی نمایاں نہیں، وسیع المشربی کی طرف میلان زیادہ ہے، شاعر ابھی کسی پختہ یقین پر نہیں پہنچا، ابھی راز حیات کو ٹٹولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ابھی تک یقین و گمان کی آویزش سے نہیں نکلا، زندوں سے جواب نہیں ملتا تو خفتگان خاک سے استفسار کرتا ہے ایک مولوی صاحب نے جو اس کے متعلق اعتراضات کیے ہیں کہ تو صوفی بھی معلوم ہوتا ہے اور رند بھی، مسلمان ہے مگر ہندو کو کافر نہیں سمجھتا۔ کسی قدر شیعہ اور تفضیلی بھی دکھائی دیتا ہے، راگ کو بھی داخل عبادت سمجھتا ہے اور اکثر شعراء کی طرح تجھے حسن فروشوں سے بھی عار نہیں، رات کو محفل رقص و سرود میں شامل ہوتا ہے اور صبح کے وقت خشوع و خضوع سے تلاوت بھی کرتا ہے، مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ اس مجموعہ اضداد کی سیرت ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اس سب کے جواب میں اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اس زمانے میں اقبال کی طبیعت کا صحیح نقشہ ہے۔ یہ وہ دور ہے کہ اقبال کے لیے زندگی ایک معما ہے، گہرے خیالات پیدا ہوتے ہیں لیکن حقیقت کی تہ کو نہیں پہنچتے، کنہ حیات کا انکشاف نہیں ہوتا، وہ ابھی اپنے تئیں دانائے راز نہیں سمجھتا اس لیے کسی صداقت کی تبلیغ کا جوش بھی پیدا نہیں ہوتا:ـ
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مرے بحر خیالات کا پانی
مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں
کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
اس دور میں اقبال کو یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کا شاعر ہے اور وہ شاعر ہونے پر فخر کرتا ہے، یہ وہ اقبال نہیں جو آخر میں ان لوگوں کو بد دعائیں دینے لگا جو اس کو فقط شاعر سمجھیں، وہ اپنی قسم کے اچھے شاعر کو قوم کی آنکھ سمجھتا ہے جو بینا بھی ہے اور درد ملت سے اشک ریز بھی:
قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضاے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دشت و پاے قوم
محفل نظم حکومت چہرۂ زیبائے قوم
شاعر رنگین نوا ہے دیدۂ بینائے قوم
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
یورپ کی عمل پیرا زندگی کو دیکھ کر اسے شاعری کی افادیت پر شک پیدا ہو گیا۔ فرنگ کی تہذیب اور تمدنی جدوجہد، علوم و فنون کے فروغ اور سائنس کی تسخیر فطرت میں اسے شاعری کا کوئی مقام دکھائی نہیں دیتا اور اپنے سخن شناس دوست شیخ عبدالقادر سے اس خیال کا اظہار کیا کہ شاعری کو ترک کر دیا جائیـ:
مدیر مخزن سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے
ہو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے
لیکن کچھ شیخ صاحب کی ترغیب سے اور کچھ اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کے مشورے سے وہ ترک شعر کے ارادے سے باز آ جاتا ہے اور پھر اس کو احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ فقط شمشیر اور عالم فطرت کی تسخیر ہی سے نہیں بلکہ تقریر اور شعر کی تاثیر سے بھی فتوحات حاصل کی جاتی ہیں، اچھی شاعری سے دلوں کو مسخر کر سکتے اور قوم کے اندھیرے میں اجالا کر سکتے ہیں:
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
شیخ صاحب کو دعوت دیتے ہوئے اقبال نے جو کچھ کہا اور جو ارادہ کیا اس کو پورا کر دکھایا:
اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر
قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں
دیکھ یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بے کار
قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں
اقبال نے شاعری کا رخ بدل کر قوم کے لیے بیداری اور خود داری کا سامان پیدا کر دیا۔
٭٭٭