اقبال کے افکار کا خلاصہ


خلاصہ افکار
اقبال کے افکار میں اتنا تنوع اور اتنی ثروت ہے کہ اگر اس کے تفکر و تاثر کے ہر پہلو کی توضیح و تشریح اختصار سے بھی کی جائے تو ہزار ہا صفحات بھی اس کے لیے کافی نہیں۔ وہ مشرق و مغرب کے کم از کم سہ ہزار سالہ ارتقاے فکر کا وارث ہے۔
اقبال سے کئی صدیاں پیشتر، مسلمان حکما، صوفیائ، شعراء اور مفکرین نے انسان کے ماضی کی تمام دولت علم و ہنر کو سمیٹ کر اس کو کیمیائے اسلام سے اکسیر حیات بنا دیا تھا۔ اسلام ادیان عالیہ کی آخری ارتقائی شکل تھی۔ اسلام کے بعد مذاہب تو ابھرتے رہتے تھے اور ابھرتے رہیں گے لیکن اسلام کے بعد کوئی دین اپنی وسعت زمانی او رمکانی میں عالمگیر نہیں ہو سکا۔ تاریخ ادیان خود ختم نبوت کی سب سے قوی شہادت ہے۔ شانتی نکیتن میں ٹیگور کے کتب خانہ دار نے راقم الحروف سے کہا کہ اسلام کی توحید اور اخلاقیات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ختم نبوت کا عقیدۂ سمجھ میں نہیں آتا۔ نبوت کی ضرورت جیسے پہلے تھی ویسے اب بھی ہے اور ہمیشہ انسانوں کو خدا سے ہدایت یافتہ انسانوں کی ہدایت کی ضرورت رہے گی۔ اس فیضان الٰہی کے کسی ایک انسان پر ایک زمانے میں ختم ہو جانے کے کیا معنی؟ میں نے اسے اپنے فہم کے مطابق کچھ سمجھانے کی کوشش کی؟ معلوم نہیں میرے دلائل اس کے لیے دل نشین ہوئے یا نہیں لیکن وہ خود ہی بول اٹھا کہ تاریخ نے تو اس عقیدے کو سچ ہی کر دکھایا ہے کیوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد نوع انسان پر اتنا اثر انداز نبی تو کہیں پیدا نہیں ہوا۔
اسلام نے جامع حقائق ہونے کے باوجود مسلمانوں کو تلقین کی کہ مسلسل مشاہدۂ فطرت کرتے رہو تاکہ تم پر انفس و آفاق کے لامتناہی حقائق بتدریج منکشف ہوتے رہیں۔ کلمات الٰہی جو اعیان مظاہر ہستی ہیں، از روے قرآن لامتناہی ہیں، ان کو لکھتے لکھتے تمام سمندروں کی روشنائی ختم ہو جائے پیشتر اس کے کہ ان کا شمار انجام کو پہنچے۔
مسلمانوں نے ترقی کے دور میں ’’ اطلب العلم و لو کان بالصین‘‘ پر عمل کرتے ہوئے او رہر قسم کے علم کو اپنا گم شدہ مال سمجھتے ہوئے، ہر قوم کے علوم و فنون کو سمیٹ لیا اور پھر اس ورثے میں گراں بہا اضافہ کیا لیکن تیرہویں صدی عیسوی کے قریب ان قوموں میں انحطاط آ گیا اور اس کے بعد وہ یا ساکن و جامد ہو گئیں اور یا گرتی چلی گئیں کیوں کہ زندگی کا عالم گیر قانون یہی ہے کہ اگر آگے نہ بڑھو تو ضرور پیچھے ہٹو گے رفعت کی طرف نہ اٹھو گے تو پستی میں گرو گے۔ یہ کہنا دشوار ہے کہ یہ زوال پذیری کا دور ابھی ختم ہوا یا نہیں، بہرحال بیداری کے کچھ آثار نمایاں ہیں۔
جب مسلمان بیدار تھے تو مغربی اقوام خفتہ تھیں۔ جب مسلمانوں پر خفتگی طاری ہوئی تو مغربی اقوام صدیوں کی نیند سے چونکیں اور تب سے اب تک مسلسل ترقی کی راہوں پر تیزی سے گامزن ہیں۔ بیداری کے آغاز میں بہت سا فیض ان اقوام نے مسلمانوں کے سرمایہ افکار سے حاصل کیا لیکن اس کے بعد اس میں مسلسل اضافہ کرتی چلی گئیں، بقول اکبر الٰہ آبادی:ـ
رہی رات ایشیا غفلت میں سوتی
نظر یورپ کی کام اپنا کیا کی
دور انحطاط میں مسلمانوں کی تعلیم کا یہ حال ہو گیا کہ پرانے قیمتی سرمائے میں سے بھی فقط جامد چیزوں کا الٹ پھیر کرتے رہے۔ تفکر میں اجتہاد ختم ہو گیا اور فقہا نے کہنا شروع کر دیا کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے:
دروازہ میکدے کا نہ کر بند محتسب
ظالم خدا سے ڈر کہ در توبہ باز ہے
(ذوق)
در توبہ تو باز رہا لیکن در اجتہاد بن ہو گیا۔ فکر و عمل سے تسخیر کائنات عبادت کا جزو نہ رہی۔ طبعی علوم ، فلسفہ، دینیات، سب ایک مقام پر پہنچ کر رک گئے۔ علم کلام کی فرسودہ اور دور از کار موشگافیاں در سیات کا جزو بن گئیں۔
اقبال نے مسلمانوں کے علمی اور روحانی ورثے کا گہری نظر سے جائزہ لیا اور اس میں سے حیات افزاء عناصر کو حیات کش عناصر سے الگ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مغربی علوم کا بھی ماہر تھا جس سے نہ ہمارے فقہا آشنا تھے اور نہ ہمارے شعراء کو ان کی ہوا لگی تھی۔ مغربی علوم اور تہذیب و تمدن کو بھی اس نے حکیمانہ اور مجددانہ نظر سے دیکھا۔ اس کی خوبیوں کا اعتراف کیا اور مسلمانوں کو ان کے حصول کی تلقین کی لیکن اس تعمیر میں جو خرابی کی صورت مضمر تھی وہ بھی اس کی چشم بصیرت سے اوجھل نہ رہی۔ حکمت فرنگ میں جو مادہ پرستی اور محسوسات پرستی پیدا ہو گئی تھی، اس نے انسانی ترقی کو یک طرفہ کر کے انسانیت کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا تھا۔ اقبال نے ان میلانات کا تجزیہ کیا اور اس کے مسموم عناصر سے گریز و پرہیز کا مشورہ دیا۔
تمام ملت اسلامیہ میں دور حاضر میں کوئی مفکر ایسا نہیں گزرا جو ماضی و حال اور شرق و غرب کے افکار کا جامع ہو ۔ اس جامعیت کے ساتھ وہ ایک تلمیذ الرحمن شاعر بھی تھا۔ اس تمام دولت کو اس نے اپنی شاعری میں بھر دیا۔ وہ خالی مرد حکیم ہوتا تو ملت کے نفوس میں اثر انداز نہ ہو سکتا۔ ایک باکمال شاعر ہونے کی وجہ سے اس نے حکمت میں سوز دل کو سمو دیا اور عقل و عشق کی آمیزش نے اس کو عارف رومی کا مرید اور جانشین بنا دیا۔ کیونکہ جلال الدین رومی میں بھی یہی کمالات اور محاسن جمع ہو گئے تھے۔ مگر تفکر اور تاثر کی جو وسعت اور گہرائی اقبال کے کلام میں نظر آتی ہے، وہ اس سے قبل کہیں نہیں ملتی:
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گردد چو سوز از دل گرفت


بو علی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردۂ محمل گرفت
معارف کے بیان میں اقبال جابجا اپنے مرشد سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ یہ ایک پڑھنے والے کا تاثر ہے اگرچہ اقبال خود اپنے تئیں رومی سے فیض یافتہ اور مرشد سے کسی قدر کم ہی سمجھتا تھا۔ اقبال جہاں آگے نکل گیا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ زمانہ بھی رومی کے بعد چھ سو برس آگے بڑھ چکا تھا۔ا س دوران میں زندگی نے نئے اطوار اور نئے مسائل پیدا کیے اور انسان اپنے فکر و عمل سے ان کے نئے نئے حل تلاش کرتا گیا۔ اقبال اگر کہیں رومی سے اونچا دکھائی دے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ رومی اس سے پہلے عقل و عشق کی بہت سی گتھیاں سلجھا چکا تھا۔ برناڈشا نے ایک مرتبہ کسی قدر تعلیٰ سے کہا کہ میں اپنے تئیں شیکسپیئر سے اونچا سمجھتا ہوں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس کے کندھوں پر سوار ہوں۔ اقبال نہ صرف رومی کے کندھوں پر سوار ہے بلکہ شرق و غرب کے تمام حکما و صوفیہ کے افکار پر قدم رکھ کر ان سے اونچا ہو گیا ہے۔ ایران کے ملک الشعراء بہار نے فراخ دلی سے اقبال کے کمال کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہماری ہزار سالہ اسلامی فکر و نظر کا ثمر ہے۔ لیکن مغربی حکماء کے بھی بہترین افکار سے اقبال نے فائدہ اٹھایا ہے۔ کہیں ان کا نام لیا ہے اور کہیں ان کے انداز تفکر کو اپنے سانچے میں ڈھال لیا ہے۔ مگر وہ کسی کا مقلد اور خوشہ چین نہیں، اس نے جس کو بھی دیکھا اپنی محققانہ نظر سے دیکھا جو کچھ پسند آیا لے لیا اور جو کچھ جادۂ حقیقت سے ہٹا ہوا دکھائی دیا اس کی تردید کر دی۔ کتاب کو ختم کرتے ہوئے اس مختصر تلخیص میں ہمارا مقصد یہ ہے کہ دیکھیں کہ یہ محقق و مفکر اور اہل دل مبصر آخر میں کس یقین و ایمان اور کس زاویہ نظر کو پہنچا اور سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی کا ثمرہ اس کو کیا ملا جس میں اس نے بقول خود زندگی کی راتیں بسر کیں۔
آئیے اقبال کے افکار و تاثرات کے بحر بے پایاں کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کریں۔
اقبال کے نظریہ حیات کا لب لباب ہمارے نزدیک مفصلہ ذیل ہے:
۱۔ تمام حیات و کائنات توحید کا مظہر ہے۔ اس کی ماہیت نہ مادی ہے اور نہ نفسی۔ اس کی کنہ حیات ابدی ہے۔ جو خلاق اور ارتقاء کوش ہے۔ مادہ اور نفس حیات کے مظاہر ہیں۔
۲۔ حقیقت مطلقہ خدا ہے جو حی و قیوم اور ازلیٰ اور ابدی طور پر خلاق ہے۔ اس کی خلقت اور تجلی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ اضافہ نقص سے کمال کی طرف نہیں ہے بلکہ لامتناہی اور مسلسل خلاقی کمال ہی کمال ہے۔ تجلی میں تکرار نہیں اور خدا اپنی آفرینش میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔
۳۔ مادی عالم خود حیات سرمدی کی پیداوار ہے۔ مادی عالم کی اپنی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ وہ فقط ان معنوں میں حقیقی ہے کہ وہ زندگی کا ایک مظہر ہے۔ وہ باطل نہیں بلکہ حق کا ایک پہلو ہے۔
۴۔ زمان و مکان کی بھی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ یہ خاص مراحل میں زندگی کے اپنے پیدا کردہ زاویہ نگاہ ہیں اور اس عالم میں ادراک ان سانچوں میں ڈھل جاتا ہے۔
۵۔ خدا فرد مطلق ہے اسے ایک مقصد کوش نفس تصور کر سکتے ہیں۔ اگرچہ فرد مطلق اور نفس مطلق کی ماہیت ادراک میں نہیں آ سکتی۔ خدا انائے مطلق ہے۔
۶۔ تمام مخلوقات خدا کی ہستی مطلق میں سے سرزد ہوئی ہے لیکن خدا چونکہ خود ایک ’’ انا‘‘ ہے اس لیے وہ اناؤں ہی کا خالق ہے۔ تمام کائنات نفوس ہی پر مشتمل ہے جو مختلف مدارج ارتقاء میں ہیں۔
۷۔ نفوس کے عالم میں انسانی نفس درجہ ارتقاء میں سب سے افضل ہیں۔ سب سے زیادہ انسان کی خودی خدا سے ہم آغوش ہے۔
۸۔ قرآن میں آدم کا تصور اس حقیقت کا انکشاف ہے کہ حیات ابدی کے تمام ممکنات انسان میں مضمر ہیں۔ انسانی زندگی کا مقصد ان ممکنات کو مسلسل معرض وجود میں لانا ہے۔
۹۔ تمام ارتقاء کا مدار آرزو اور جستجو پر ہے۔ آرزو کی شدت کا نام عشق ہے۔
۱۰۔ خدا کی ذات اور انسان کی خودی نت نئے عوالم پیدا کرتی ہے۔ انسان اسی لحاظ سے خدا کا نائب یا خلیقہ ہے کہ اس کا وظیفہ حیات بھی عوالم کو پیدا کرنا اور ان کو مسخر کرنا ہے۔
۱۱۔ تکمیل و ارتقائے حیات کے لیے عقل ایک اعلیٰ درجے کا وسیلہ ہے۔ عقل کا مقصود کلیت حیات کا احاطہ کرنا ہے مگر استدلالی عقل جزوی حقائق میں الجھ جاتی ہے اور جزو کو کل سمجھنے لگتی ہے۔ عقل جزوی محسوس پرست اور ہوس پرست ہو جاتی ہے لیکن عقل اگر اپنی پوری قوت و وسعت سے کام لے تو وہ بھی حقیقت رس ہو سکتی ہے۔ عقل اجزائے حیات کا تجزیہ کر کے ان کے روابط تلاش کرتی رہتی ہے اور جزئیات کو استقراء اور استخراج سے کلیات کے تحت لانے میں کوشاں رہتی ہے۔
۱۲۔ عقل کے مقابلے میں انسان کے اندر براہ راست بھی ماہیت حیات کا وجدان ہے، جس میں نہ زمان و مکان کو دخل ہے اور نہ منطقی استدلال کو۔ اسی وجدان سے عشق پیدا ہوتا ہے جو عقل سے زیادہ منکشف ماہیت حیات ہے۔ زمان و مکان کی لامتناہی اس میں غرق ہے۔ اس کی وحدت اجزا سے مرکب نہیں۔ ایک دوسرے سے خارج اجسام و اجزاء مکانیت کے تصور کی پیداوار ہیں۔
۱۳۔ عشق اور وجدان اگرچہ باطن حیات کے چشمے ہیں لیکن عقل کو برطرف کر کے وہ بھی تکمیل حیات کا باعث نہیں بن سکتے۔ زندگی کا تقاضا عقل اور عشق کی ہم آغوشی ہے۔
۱۴۔ جسم اور نفس کی کوئی الگ الگ مستقل حیثیت نہیں۔ روح جسم کے اندر اس طرح نہیں جس طرح کہ کوئی طائر قفس عنصری میں بند ہو۔ جسم اور نفس دونوں حیات کے توام مظاہر ہیں۔ خودی کا مقام ان دونوں سے عمیق تر ہے۔ حیات ابدی کی ماہیت خودی کے اندر ہے۔
۱۵۔ خدا کے سامنے ازل سے ابد تک کی حیات و کائنات کا کوئی تفصیلی نقطہ نہیں۔ حقیقت یہ نہیں ہے کہ سرمدیت میں تمام حوادث لوح محفوظ پر مثبت ہیں اور وہ مرور ایام میں یکے بعد دیگرے معرض شہود میں آتے ہیں۔ خدا کی خلاقی آزاد ہے وہ فعال لما یرید ہے۔ وہ پہلے سے بنے بنائے خاکوں کے مطابق عمل نہیں کرتا اگر ایسا ہوتا تو خدا آزاد نہ ہوتا بلکہ پابند ہوتا۔
۱۶۔ مسلمانوں نے عام طور پر تقدیر کا مفہوم غلط سمجھا۔ خدا صاحب اختیار ہستی ہے۔ انسان جو حیات الٰہی کا بہترین مظہر ہے وہ بھی اختیار سے بہرہ اندوز ہے۔ اختیار کے بغیر زندگی ایک میکانکی چیز ہے۔ جبر کا تصور مادیت کی پیداوار ہے۔ انسان کے ممکنت کے آئندہ مظاہر انسان کی خودی کے ارتقاء میں سرزد ہوں گے، جب تک وہ وجود میں نہ آ جائیں تب تک نہ وہ انسان کے علم میں آ سکتے ہیں اور نہ خدا کے علم میں۔
۱۷۔ حیات ابدی خود اپنے ارتقاء کے لیے مزاحم قوتیں پیدا کرتی ہے کیوں کہ رکاوٹوں پر غالب آنے اور عمل تسخیر ہی سے زندگی ترقی کر سکتی ہے۔ اس لحاظ سے ابلیس جو نفی و افکار کا ایک تمثیلی تصور ہے، تکمیل حیات کے لیے ایک لابدی حقیقت ہے۔ ترقی کا ہر قدم نفسی سے اثبات کی طرف اٹھتا ہے اور پھر آگے بڑھنے کے لیے اس بات کی نفی کرنا لازم ہوتا ہے۔ مسلسل فنا کے بغیر زندگی بقا کوش نہیں ہو سکتی۔ مقصود و منزل سے فراق ہی زندگی کا تازیانہ ہے قوت نفی کا ابلیس جسے اقبا خواجہ اہل فراق کہتا ہے، ارتقاے حیات کے لیے معاون ہے۔ لیکن اگر نفی و افکار کا پہلو غائب ہو جائے تو زندگی جامد ہو کر رہ جائے۔
۱۸۔ سکونی جنت جس میں عشرت دوام ہو اور جس میں تمام جستجو و آرزو ختم ہو جائے، مقصود حیات نہیں ہو سکتی۔ عروج کوش زندگی کو بادہ و جام اور حور و خیام سے گزر جانا چاہیے:
مزی اندر جہان کور ذوقے
کہ یزداں وارد و شیطان ندارد
٭٭٭
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
اس مرحلہ شوق میں جستجو اور آرزو اور نفی و افکار کے بغیر کوئی تگ و دو نہیں ہو سکتی۔ فقط دنیا ہی دار العمل نہیں، بلکہ آخرت بھی دار العمل ہے۔ زندگی اور عمل ایک ہی چیز ہیں۔ زندگی کا مقصود ہر درجہ حیات سے آگے گزرتے رہنا ہے۔
۱۹۔فرد کی خودی کے علاوہ ملت کی بھی ایک خودی ہے۔ فرد کی خودی رہبانی تنہائی میں محض خدائے واحد کی طرف رجوع کر کے ترقی نہیں کر سکتی، اس لیے اسلام نے رہبانیت کو ممنوع قرار دیا۔
۲۰۔ خدا اسلام کی تلقین سے ایک نصب العینی ملت کو وجود میں لانا چاہتا ہے جو مذکورہ صدر حقائق حیات سے آشنا ہو کر تمام نوع انسان کے لیے نمونہ بن سکے۔
۲۱۔ اس ملت کی امتیازی خصوصیت یہ ہو گی کہ وہ رموز توحید کی عارف ہو کر زندگی کی کثرت کو وحدت میں منسلک کرے گی۔
۲۲۔ تمام نوع انسان از روے قرآن ایک نفس واحدہ کے شجر کی شاخوں پر مشتمل ہے۔ انسانوں نے جغرافیائی، نسلی، لسانی اور قبائلی قومیتوں کو معبود بنا کر نوع انسان کی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، اس کی وجہ سے اخوت و محبت عالم گیر نہیں بن سکی۔ اس وحدت آفرینی کی واضح تعلیم اسلام میں ملتی ہے جس کو معروض وجود میں لانے کی ایک جھلک طلوع اسلام کے زمانے میں ملتی ہے۔ رفتہ رفتہ مسلمان خود اس حقیقت سے غافل ہو گئے، قوموں اور فرقوں میں بٹ گئے اور فرنگ کی تقلید میں نسلی اور لسانی قومیتوں کے شعائر اختیار کرنے لگے۔
۲۳۔ مومنوں کی جو ملت خدا کا مقصود تھی وہ اس وقت نظر نہیں آتی لیکن اگر اسلام کی تعلیم صفحہ ہستی سے مٹ نہ جائے تو اسی تعلیم کی بدولت ایک نصب العینی ملت وجود میں آ سکتی ہے۔ خدا خود اسلام کا کفیل و محافظ ہے اس لیے اس گری ہوئی ملت اسلامیہ پر موجودہ حالت کی وجہ سے مایوسی طاری نہیں ہونی چاہیے۔ تمام اقوام کے صالح مفکرین اور مفسرین کا رخ اس وقت انہیں حقائق کی طرف پھر رہا ہے جو تعلیم اسلامی کا اہم جزو تھے۔
۲۴۔ اس وقت مسلمانوں کو خالص قرآنی اسلام اور سنت نبویؐ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی تہذیب و تمدن کی کورانہ تقلید اور کسی انداز فکر و عمل کی نقل سے وہ دوبارہ زندگی حاصل نہیں کر سکتے۔ روحانیت کے لحاظ سے مشرق بھی مردہ اور مغرب بھی مردہ۔ اس وقت امت وسطیٰ اور ملت بیضا نہ شرق کی جامد زندگی کی تقلید سے پیدا ہو سکتی ہے اور نہ فرنگ کی نقالی سے:
بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو
کہ نیرزد بجوے ابن ہمہ دیرینہ و نو
۲۵۔ اقبال اسلامی شریعت کی اساسی چیزوں کو لازوال حقائق سمجھتا ہے جو ہر دور میں تمام انسانوں کے لیے سرچشمہ حیات بن سکتی ہیں۔ لیکن اس کے نزدیک فقہ کا تمام دفتر نظر ثانی کا محتاج ہے، زندگی کے سانچے بہت بدل گئے ہیں، فقہی مسائل میں سے بعض مسائل اب بھی دیگر اقوام کی شریعتوں اور قوانین سے افضل ہیں، لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہے جسے کچھ بدلتی ہوئی زندگی نے منسوخ کر دیا ہے۔ تشکیل فقہ جدید کا کام بہت ضروری ہے لیکن اس کے لیے ایسے مجتہدوں کی ضرورت ہے جو اسلامی شریعت کی روح سے بخوبی آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ تہذیب و تمدن، سیاست و معاشرت سے بھی اچھی طرح واقف ہوں۔ افسوس ہے کہ اس کام کے اہل لوگ کہیں نظر نہیں آتے۔
۲۶۔ فقہ کے علاوہ اسلام کے بنیادی عقائد اور نظریات حیات کو بھی قدیم فلسفے اور علم الکلام کے انداز میں پیش کرنا کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔ زمانے کا عقلی مزاج بدل گیا ہے ۔ فرنگ کے طبعی علوم اور فلسفے نے مسائل کا رخ بدل دیا ہے۔ خود اہل مغرب میں بعض مفکرین میں گہری بصیرت پیدا ہو گئی ہے۔ جس سے مسلمان بھی استدلال میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مغرب کی ہر چیز سے گریز کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ خود اس کی نشاۃ ثانیہ میں اسلامی افکار کے محرکات موجود تھے۔ تجربی سائنس کی ابتداء مسلمانوں نے کی اور جس عادلانہ معیشت کے لیے مغرب میں جمہور جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کے بہت سے عناصر اسلامی ہیں۔ کورانہ تقلید فرنگ تو یقینا نفع سے زیادہ نقصان رساں ہو گی لیکن علم کے معاملے میں مسلمان کا رویہ ’’ خذ ما صفا ودع ماکدر‘‘ ہونا چاہیے۔ خود فرنگ کی زندگی میں اسلامی محرکات بھی موجود ہیں۔
۲۷۔ محض نقالی سے فرد اور ملت دونوں کی زندگی بے روح ہو جاتی ہے۔ اسلام کا ایک مخصوص اور جامع نظریہ حیات ہے۔ وہی مومن کی خودی اور خود داری کو استوار کر سکتا ہے، آج تک کوئی بلند پایہ ملت محض نقالی کی بدولت پیدا نہیں ہوئی۔ ملت اسلامی کا احیاء اسی سے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی خودی میں غوطہ زن ہو اور زندگی کو دوسروں کی نگاہ سے نہ پرکھے۔ اس وقت اسلامی ملتیں نقل فرنگ پر آمادہ معلوم ہوتی ہیں اور اسی کو ترقی سمجھتی ہیں لیکن:
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

٭٭٭