ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
امانت کی پہلی قسم ’امانت ِ شرعیہ‘ ہے جو اللہ نے بنی نوعِ انسانیت کو دی جس کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے۔ امانت کی دوسری قسم ’منصبی امانت‘ ہے۔
٭دوسری قسم : منصبی امانت
خواص کے لیے امانت کا مفہوم: عہدے اور مناصب امانت ہیں، جیسا کہ نبی کریمؐ کا فرما ن ہے، جسے سیّدنا ابو ذر غفاریؓ نے روایت کیا ہے:
میں نے عرض کیا: اللّٰہ کے رسولؐ! کیا آپؐ مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟ آپؐ نے میرے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا: ابوذرؓ! تم کمزور ہو، اور یہ (امارت) امانت ہے اور قیامت کے دن یہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہو گی، مگر وہ شخص جس نے اسے حق کے مطابق قبول کیا اور اس میں جو ذمہ داری اس پر عائد ہوئی تھی اسے (اچھی طرح) ادا کیا۔وہ شرمندگی اور رسوائی سے مستثنیٰ ہو گا۔(مسلم: رقم ۴۷۱۹)
ہرانسان کو دی جانے والی زندگی اللّٰہ کی امانت ہے، جو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے اخذِ میثاق [عہدِ الست] کے بعد(کہ وہی ہمارا ربّ ہے/ توحیدِ ربوبیت) اس عہد کی تکمیل کے لیے دی ہے۔ ہرانسان اسلام میں مسئول و ذمہ دار ہے، اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ فرمانِ نبویؐ ہے جسے سیّدنا عبد اللّٰہ بن عمرؓ نے روایت کیا ہے:
كُلُّكُمْ رَاعٍ فَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَالعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ (بخاری: رقم ۲۵۵۴) تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس لوگوں کا حقیقی امیر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (دوسرا) ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (تیسرا) عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (چوتھا ) غلام اپنے آقا ( سیّد ) کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس جان لو کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں (قیامت کے دن ) پوچھ ہوگی۔
چنانچہ یہ امانت او رذمہ داری ہرمسلمان کی اپنی ذات اور اپنے گھر پر ہے، بیوی کی اپنے شوہر کے گھر اور اولاد پر ہے، اور حاکم کی اپنی رعایاپر ہے، خادم کی اپنے مالک کے مال پر ہے۔ اور قیامت کے دن ہر امین ومسئول سے اس کی امانت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
یاد رہے کہ عہدے ومناصب دینے والی ذات اللّٰہ عزوجل کی ہے، جیسا کہ واقعہ طالوت والی پہلی آیت میں آیا کہ ’’اللّٰہ جس کو چاہتا ہے ، اپنی بادشاہت سے عطا کرتا ہے‘‘۔ مزید فرمایا:
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ (اٰل عمرٰن۳:۲۶)آپ کہیے :’’اے اللّٰہ ! بادشاہت کے مالک! جسے تو چاہتا ہے حکومت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے‘‘۔
اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ قف يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ ط(الاعراف۷:۱۲۸)یہ زمین اللّٰہ کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بنا دے ۔
یہ زمین اللّٰہ کی ہے اور جس کو وہ چاہتا ہے ، اپنے بندوں پرحکومت عطا کرتا ہے۔ اس بنا پر ہر مسلمان حاکم امین ہے اور اللّٰہ نے مخصوص ذمہ داریوں کے ساتھ اس کو اپنی مسلم رعایا کی ذمہ داری سونپی ہے۔ جس کو جو منصب سونپا جائے ، وہ اس کو بخوبی پورا کرے تو یہ منصبی امانت دارہے ، جیساکہ سیّدنا جبریلؑ کو وحی کی ذمہ داری سونپی گئی تو وہ رسولِؐ امین ہوئے۔ نبی کریمؐ کو رسالت کا فرض سونپا گیا تو آپ نے شکوہ کیا کہ ’’آسمان والا تو مجھے امین مانتا ہے، اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے‘‘ ۔ یعنی میں عظیم منصب امانت پر قائم ہوں، تو کہاں یہ چھوٹی سی مالی امانت میں کوتاہی ممکن ہے۔ اس بناپر امانت میں منصب کے تقاضے پورے کرنا بھی شامل ہے۔ حدیث میں ہے:
ایک دن سیّدنا ابو مسلم خولانی، سیّدنا معاویہ بن ابو سفیان کے پاس آئے اور کہنے لگے: السَّلَامُ عَلَیْكَ أَيُّهَا الْأَجِیْرُ! (اُجرت پر کام کرنے والے! آپ پر سلامتی ہو)۔ لوگوں نے کہا: أَیُّہَا الْاَمِیْرُکہیے، تو انھوں نے پھر السَّلَامُ عَلَیْكَ أَيُّهَا الْأَجِیْرُ! کہا۔ لوگوں نے پھر کہا : أَیُّہَا الْاَمِیْرُکہیکہیے، تو تیسری بار انھوں نے وہی جملہ دہرایا: السَّلَامُ عَلَیْكَ أَيُّهَا الْأَجِیْرُ! آخر سیّدنا معاویہ نے کہا: ابو مسلم کو اپنی بات کہنے دو، وہ اسے ہم سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد ابو مسلم بولے: اے معاویہ!تم اجیر (اُجرت پر کام کرنے والے ملازم) ہو۔ان بکریوں کے ریوڑ کے لیے تم کو ان بکریوں کے رب نے اُجرت پر رکھا ہے۔ اگر تم خارش زدہ بکریوں کی خبر گیری کرو گے اور مریض بکریوں کی دوا کروگے اور ان بکریوں کی اچھی طرح حفاظت کرو گے، تو بکریوں کا مالک تمھیں پوری اُجرت دے گا۔ اور اگر تم نے خارش زدہ بکریوں کی خبر گیری نہ کی، مریض بکریوں کی دوا نہ کی، ان کی اچھی حفاظت نہ کی تو بکریوں کا مالک تم کو سزا دے گا۔ (حلیۃ الاولیاء:۲/۱۲۵، سیر اعلام النبلاء: ۴/۱۳، مختصرا، تاریخ دمشق ابن عساکر: ۲۷/۲۲۳، بحوالہ السیاسۃ الشرعیۃ: ۳۶)
جب یہ مناصب سراسر امانت ہیں تو اس میں خیانت کرنے والے کی سزا روزِ قیامت جنت سے محرومی ہے:
وَقَالَ: لَا يَسْتَرْعِي اللهُ عَبْدًا رَعِيَّةً، يَمُوتُ حِينَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهَا، إِلَّا حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ(مسلم: رقم ۳۶۴) اللّٰہ تعالیٰ کسی بندے کو کسی رعیت کا نگران بناتا ہے اور موت کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ رعیت کے حقوق میں دھوکا بازی کرنے والا ہے تو اللّٰہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
فَإن الخلق عباد الله، والولاة نُوَّابُ اللهِ عَلٰى عِبَادِهِ، وَهُمْ وُكَلَاءُ الْعِبَادِ عَلٰى نفوسهم؛ بِمَنْزِلَةِ أَحَدِ الشَّرِيكَيْنِ مَعَ الْآخَرِ؛ فَفِيهِمْ مَعْنَى الْوِلَايَةِ وَالْوَكَالَةِ(السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين، ص ۳۷) اللّٰہ کی مخلوق اللّٰہ کے بندے ہیں، اور مسلم حکام اللّٰہ کے بندوں پر اللّٰہ کے نائب ہیں اور وہ بندوں پر ان کی جانوں کے ذمہ دار ہیں۔جیسا کہ دو شریک ایک دوسرے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ سو، ان میں ولایت، یعنی حکومت اور وکالت، یعنی تفویض بیک وقت پائی جاتی ہے(یہاں نیابتِ الٰہیہ کے لیے زیادہ موزوں تعبیر ’اللّٰہ کے نمایندے‘ کی ہے)۔
اس عبارت کی شرح میں شیخ ابن عثیمین منصبِ حکومت کی امانت کی وضاحت کرتے ہیں: ’’ابن تیمیہؒ نے واضح کیا ہے کہ امرا وحکام، اللّٰہ کے بندوں پر اس کے نائب ہیں، یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو بندوں پر اس لیے نائب بنایا ہے کہ وہ اللّٰہ کی شریعت کو ان میں قائم کردیں۔ اور خلیفہ وحاکم لوگوں کی جانوں پر ان کے وکیل بھی ہیں، کہ (مسلمانوں نے حکام کو یہ ذمہ دار سونپی ہے کہ ) ان کے اخلاق درست کریں اور ان کو اللّٰہ کی شریعت پر چلائیں۔اس دوسرے پہلو سے وہ بندوں کی جانوں پر بندوں کے وکیل ہوئے کہ عوام نے ان حکام کو اپنی جانوں کی یہ ذمہ داری سونپی ہے۔ گویا یہ کہا ہے کہ تم ہمارے حاکم بنو، تاکہ ہمیں سیدھا رکھو اور اللّٰہ کی شریعت کے مطابق ہم میں عدل قائم کرو۔
’’مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر امانت ہی مناصب کی ذمہ داری میں سب سے بنیادی وصف ہے، اور اس وصف کا اعتبار دُنیوی امانت سے بڑھ کر ، اللّٰہ کی امانت کی تکمیل، اللّٰہ کے احکام پر خود چلنا اور حاکم کا اپنے ماتحتوں کو اس پر چلانا ہے۔ جو مسلمان شخص اللّٰہ کے احکام کا امین نہیں، امانت ِ کبریٰ میں کوتاہی کرنے والا ہے، وہ لوگوں کے حقوق میں بھی کوتاہی کرنے والا ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی سیاست کی رو سے وہی شخص لوگوں کا نمایندہ بن سکتا ہے، جو سب سے پہلے خود اللّٰہ کی امانت کو پورا کرنے والا ہے۔ اور اللّٰہ کی امانت کا سب سے بڑا اظہار نماز کی پابندی خود کرنا اور لوگوں سے کروانا ہے۔ اور جب کوئی حاکم اس امانت کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کا حق کھوبیٹھتا ہے‘‘۔(السياسة الشرعية لابن تيمية ، ۶۳:۱/۳۷، فتاویٰ ابن تیمیۃ: ۲۸/۲۶۱)
اسلام میں سیاست، یعنی عہدے اور اقتدار بھی خدمت اور فروغِ دین کے لیے ہیں، اسی لیے سیاسی حکمران اور نماز کے قائد دونوں کو ’امام‘ ہی کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمال وحکام کے لیے نماز کی امامت لازمی کررکھی تھی اور یہی کام خلفاے راشدین کرتے تھے، جیسا کہ:
۱-سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو جب نماز کا امام مقرر کیا گیا تو صحابہ کرامؓ نے ان کو مسلمانوں کی سیاست کا امام (خلیفہ) بنالیا۔
۲-نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمال وحکام کو نماز سے آغاز کرنے کی تلقین فرمایا کرتے: بَعَثَ النَّبِيُّ مُعَاذًا إلَى الْيَمَنِ قَالَ: يَا مُعَاذُ! اِنَّ أَهَمَّ أَمْرِكَ عِنْدِي الصَّلَاةُ (ایضاً)’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا معاذ کو (یمن میں عامل بنا کر )بھیجا تو فرمایا کہ اے معاذ! میرے نزدیک تمھاری سب سے اہم شے نماز ہے‘‘۔
سَتَكُونُ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ قَالُوا: أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: لَا، مَا صَلَّوْا( مسلم:۴۸۰۰) جلد ہی ایسے حکمران ہوں گے کہ تم انھیں (کچھ کاموں میں ) صحیح اور (کچھ میں) غلط پاؤ گے۔ جس نے (ان کی رہنمائی میں) نیکی کے کام کیے وہ بَری ٹھیرا اور جس نے (ان کے غلط کاموں سے) انکار کر دیا وہ بچ گیا لیکن جو ہر کام پر راضی ہوا اور پیروی کی (وہ بَری ہوا، نہ بچ سکا)۔ صحابہؓ نے عرض کیا: کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں (جنگ نہ کرو)‘‘۔
۳- سیّدنا عمر فاروقؓ نے اپنے عمال کو حکم نامہ بھیجا: اِنَّ أَهَمَّ أَمْرِكُمْ عِنْدِي الصَّلَاةُ ، فَمَنْ حَفِظَهَا وَحَافَظَ عَلَيْهَا، حَفِظَ دِينَهُ ، وَمَنْ ضَيَّعَهَا فَهُوَ لِمَا سِوَاهَا أَضْيَعُ (موطا امام مالک، کتاب وقوت الصلاۃ ، حدیث۵ ) ’’میرے نزدیک تمھارا سب سے اہم کام نماز پڑھنا ہے۔ جو اس کی خود حفاظت کرے اور دوسروں سے حفاظت کرائے تو اس نے اپنے دین کی حفاظت کرلی۔ اور جس نے اسے ضائع کردیا تو اس کے ماسوا اُمور کو وہ زیادہ ضائع کرنے والا ہے‘‘۔
۴-امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی صحابی کو مدینہ پر نائب بناتے، جیساکہ عتاب بن اسیدؓ کو مکہ پر، عثمان بن ابو العاصؓ کو طائف پر، علیؓ، معاذؓ، ابوموسیٰؓ کو یمن اور عمر وبن حزمؓ کو نجران پر عامل بناکر بھیجا، تو آپ کا نائب / عامل ہی ان کی امامت کراتا اور ان میں حدود اور وہ ذمہ داریاں پوری کرتا جو عسکری قیادت سرانجام دیتی ہے۔یہی آپؐ کے بعد آپ ؐکے خلفا، اُموی بادشاہوں کا اور بعض عباسی حکام کا طریقہ تھا‘‘۔ (السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين، ص ۶۳)
عالمِ ربانی اور عظیم مجاہد شاہ اسماعیل شہیدؒ (م:۱۸۳۱ء) ’امام ‘کی وضاحت میں لکھتے ہیں: ’’ لفظ امام سے مراد مطلق امام نہیں، بلکہ وہ امام جس کا تعلق سیاست سے ہو… امام سے مراد صاحبِ دعوت ہے جس نے جہاد کا جھنڈا اعداے دین پربلند کیا اور تمام مسلمانوں کو اس معرکے میں بلایا، اور شرعِ مبین کی اعانت پر کمر باندھی، سیاست ِ دین کی مسند پر بیٹھاسواے ملت کے مذہب کے، دوسرے مذہب کو نہ پکڑا، اور طریقۂ سنت کے سوا دوسرا طریقہ اختیار نہ کیا۔ عدالت وسیاست میں آئین نبوی کے سوا کوئی دوسرا طریقہ نہ بنایا۔قوانین مصطفویؐ کے سوا کوئی دوسرا قانون نہ چھانٹا‘‘۔ (منصبِ امامت،از شاہ اسمٰعیل شہید، ناشر: حنیف اینڈ سنز، ۲۰۰۸ء ،ص۱۷۸)
شاہ صاحب اپنی معرکہ آرا کتاب منصب امامت میں حاکم اور امام کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جوکوئی مذکورہ کمالات میں کسی کمال میں انبیاء اللّٰہ سے مشابہت رکھتا ہو، وہی امام ہے… بعض کاملین کو انبیا کے ساتھ ایک کمال میں مشابہت ہوتی ہے اور بعض کو دو کمال میں اور بعض کو تین میں۔ اسی طرح بعض کو تمام کمالات میں مشابہت ہوتی ہے۔ پس امامت بھی مختلف مراتب پُر ہوگی، کیوںکہ بعض کے مراتب، امامت میں دوسروں سے اکمل ہوں گے‘‘۔(ایضاً، ص ۸۶)
پھر ان احادیث سے شاہ صاحب نے استدلال کیا جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد بالفرض نبی ہونے میں سیّدنا عمرؓ کا تذکرہ کیا، اور سیّدنا علیؓ کو سیّدنا ہارونؑ کے مشابہ (ماسواختم نبوت)قرار دیا۔
٭منصبی امانت کا تقاضا
حاکم کا یہ بھی منصبی فرض ہے کہ اپنے نائب ان کو مقرر کرے، جو معاشرے اورحکومت کو شرعی مقاصد کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اگر وہ اپنی پسند ناپسند یا اپنی تائید ، یا خاندانی قوت کے فروغ، یا مال کو جمع کرنےکی غرض سے کسی کو حاکم مقرر کرے گا تو یہ بھی امانت کی خلاف ورزی ہے اور خیانت کے مترادف ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
جب دنیا کے اکثر حکام پر دین کو نظر انداز کرتے ہوئے دنیوی مقاصد غالب آگئے، تو اُنھوں نے اپنی حکومتوں میں ایسے لوگوں کو عہدے دیے جو ان کے دنیوی مقاصد میں ان کی تائید کرسکتے۔ اور ہر وہ شخص جو اپنی حاکمیت چاہتا ہے، اسی کو آگے کرتا ہے جو اس کی حکومت وریاست کو تحفظ دے۔(السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين، ص۶۳)
منصبی امانت کو پورا کرنے والا شخص کون سا ہے؟… امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
جب کوئی حاکم اللّٰہ کے حکم کے مطابق منصب دے گا، جب کہ صورت حال بالکل واضح ہو یا اپنے عمل سے اس کو عہدہ دے گا، جب مخفی ہونے کی صورت میں قرعہ کے ذریعے ترجیح دے ، تو یہی وہ حاکم ہے جس نے امانت کو مناصب دینے میں اس کے حقیقی اہل کے سپرد کردیا۔ (السياسة الشرعية لابن تيمية، ص۵۸)
او رجس حاکم نے یہ مناصب اہل افرا دکے سپرد نہ کیے تو :
جب حاکم اور وکیل، دونوں اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے ایسے شخص کو اپنا نائب بنالیں، اور تجارت وسامان کے لیے اصلح کو نظرانداز کردیں، سودے کو ایسی قیمت پر فروخت کریں، جب کہ اس قیمت سے اچھی قیمت مل سکتی تھی، تو تب اس والی اور وکیل نے اپنے ساتھی سے خیانت کی۔ بلاشبہہ اگر دونوں کے مابین محبت ومودّت یا قرابت داری تھی ، تب بھی اس کا ساتھی اس سے ناراض ہو کر اس کو برا ہی کہے گا اور یہ سمجھے گا کہ اس نے خیانت کی، اور اپنے قریبی یا دوست سے دھوکا کیا ہے۔(ایضاً)
٭منصبی ذمہ داری کا مقصد
چوںکہ حکومت او رمنصب سمیت دنیا کی ہر نعمت اللّٰہ ہی عطا کرتا ہے، اوربندہ مؤمن ایمان لانے اور کلمہ طیبہ پڑھ لینے کے بعد اس کا اقرار کرتا ہے، اس لیے وہ اپنی ہر صلاحیت واختیار کو اللّٰہ کے بتائے ہوئےطریقے کے مطابق ہی استعمال کرتا ہے۔ چنانچہ اللّٰہ نے حاکم کی یہ ذمہ داری قرار دی کہ :
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ط وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ(الحج۲۲:۴۱)اُنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے۔
اس بنا پر حاکم کا یہ فرض ہے کہ لوگوں کو بھی امانت ِ شرعیہ کی طرف متوجہ کرے، ان کو نماز روزہ کی تلقین کرے اور ان میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کو جاری وسار ی کرے۔ اور یہ فرض صرف حاکمِ وقت کا ہی نہیں، بلکہ ہرفرد، ہر گھر اور ہر ادارے کے سربراہ، ہر ماں کا فرض اور ہرخادم کی ذمہ داری ہے۔ حاکم کا جب فرض متعین ہوگیا تو جو حاکم اللّٰہ تعالیٰ کے احکام کے نفاذ کے بجاے لوگو ں کے مفاد اور خواہشات کو پورا کرنے لگ جائے تو گویا کہ وہ اللّٰہ کے مقرر کردہ حاکم کے بجاے ، شیطانی خواہشات کا مؤید بن گیا۔ جس فرض کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو اقتدار دیا تھا، اس نے اس کے بجاے اس کو دوسرے مقصد پر صرف کردیا اور یہ بدترین خیانت ہے۔ چنانچہ ایسا حاکم اللّٰہ کے بجاے شیطان کا ساتھی ہے اوراس کا انجام بھی شیطان کے ساتھ ہی ہے۔
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
جو اولی الامر (حاکم) منکرات وجرائم کو نہیں روکے گا اور حدود کا اجرا نہیں کرے گا اور مال لے کر چھوڑ دے گا، وہ چوروں کے سردار اور فحاشی کرنے والوں کے دلال جیسا ہے جو دو زانیوں کو باہم ملا دیتا ہے اور دونوں کا ناجائز حصہ دار بن کر مال لیتا ہے۔ اس کا حال وہی ہوگا جو لوطؑ کی بے حیا بیوی کا ہوا، جو فاسق وفاجر لوگوں کو لوط کے مہمانوں کی خبر دیتی تھی۔ سو، اس کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس ہم نے لوط کو اور ان کے گھر والوں کو عذاب سے نجات دی، مگر اس کی بیوی کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں تھی‘‘۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا: ’’تو تم اپنے اہل وعیال کو لے کر راتوں رات نکل چلو اور تم میں سے کوئی مڑ کر بھی نہ دیکھےسواے تمھاری بیوی کے جو عذاب اوروں پر نازل ہوگا، وہ اس کو بھی پہنچے گا‘‘۔ دیکھیے اللّٰہ تعالیٰ نے اس بدترین بڑھیا کو جو دلالی کرتی تھی، اسی عذاب میں مبتلا کیا جو اس بدترین قوم اور خبیث وجرائم پیشہ لوگوں کو دیا۔ اور یہ اس لیے کہ تمام کا تمام مال لینا دراصل اثم وعدوان کی اعانت و امداد ہے۔ اور حاکم اس لیے بنایا جاتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض انجام دے۔ یہی حکومت اور مناصب کا اصل اسلامی مقصد ہے۔اگر حاکم مال لے کر اور رشوت وصول کرکے کسی منکر کو پھلنے پھولنے دے گا، تو گویا وہ اصل مقصد ِحکومت کے خلاف اور اس کی ضد پر قائم ہوگیا۔ اور یہ ایسا ہی ہے کہ تم نے کسی کو دشمن کے خلاف لڑنے کو بھیجا اور وہ تمھارے ہی خلاف تمھارے دشمن کی اعانت وامداد شروع کردے۔ اور یہ بمنزلہ اس مال کے ہے کہ تم نے کسی کو جہاد میں خرچ کرنے کے لیے مال دیا اور وہ اسے مسلمانوں کے قتل کرنے میں ہی خرچ کررہا ہے۔ (السياسة الشرعية لابن تيمية، ص۵۸)
شیخ ابن تیمیہؒ نے اس اقتباس میں ایسے مسلم حکام کی تردید کی اور اُنھیں ان کے انجام سے خبردار کیا ہے، جو اپنے مفادات کے لیے لوگوں پر اللّٰہ کے قانون کو نافذ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔اور حاکم کے مفادات میں مال کے ساتھ، اس کی حمایت ونصر ت (آج کی زبان میں ووٹ) اور اس کی تائید شامل ہے کہ جب کوئی حاکم ان سستے دنیوی مفادات کے لیے اپنے اصل فریضہ ’اللّٰہ کے قانون کے نفاذ‘ سے دست بردار ہوجائے تو وہ گویا شیطان کا معاون اور مسلمان رعایا پر ظالم بن گیا۔ جب اللّٰہ تعالیٰ نے ان حکام کو حکومت اسی لیے دی ہے کہ وہ اللّٰہ کے قانون کو اللّٰہ کے بندوں پر نافذ کریں تو پھر اپنے اس فرض سے انحراف کرنا گویا لوگوں کے حق اطاعت کا استحصال ہے کہ مسلمان اپنے حاکم کی اطاعت اسی لیے ہی کرتے ہیں کہ وہ انھیں اللّٰہ کے راستے پر چلنے میں مدد دے گا، اور ان پر اللّٰہ کے دین کو قائم کرے گا۔جب حاکم یہ فریضہ ترک کرکے ، الٹا شیطان کا معاون بن گیا تو دنیا میں بھی خائب وخاسر اور آخرت میں بھی شرمسار اور جواب دہ ہوگا۔
٭تیسری قسم :امانتِ مالیہ
’امانتِ مالیہ‘ سے مراد مالی امانت اور اس میں خیانت ہے۔امانت کو عام طور پر اسی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس خیانت کی مذمت اور اس کی وجہ اللّٰہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمائی:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ O وَ اعْلَمُوْا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ لا وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌO (الانفال۸:۲۷-۲۸)اے ایمان والو! دیدہ دانستہ اللّٰہ اور رسولؐ سے خیانت نہ کرو اور نہ تم آپس کی امانتوں میں خیانت کرو۔ اور جان لو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھارے لیے آزمایش ہیں اور اللّٰہ کے ہاں اجر دینے کو بہت کچھ ہے ۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’آپس کی امانتوں‘سے مراد وہ تمام ذمہ داریاں ہیں، جو کسی پر اعتبار (trust) کرکے اس کے سپرد کی جائیں، خواہ وہ عہد ِ وفا کی ذمہ داریاں ہوں یا اجتماعی معاہدات کی، یا جماعت کے رازوں کی، یا شخصی و جماعتی اموال کی، یا کسی ایسے عہدہ و منصب کی جو کسی شخص پر بھروسا کرتے ہوئے جماعت [اجتماعیت] اس کے حوالے کرے‘‘۔ (تفہیم القرآن، دوم،ص ۱۳۹)
حصولِ اقتدار عموماً اختیار واقتدار اور حاکمیت کے لیے کیا جاتا ہے، اور اس کا دوسرا مقصد اموال کا جمع کرنا اورعزیز واقارب کے لیے منافع کا حصول ہے۔علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
فَالْوَاجِبُ اتِّخَاذُ الْإِمَارَةِ دِينًا وَقُرْبَةً يُتَقَرَّبُ بِهَا إلَى اللهِ؛ فَإِنَّ التَّقَرُّبَ إلَيْهِ فِيهَا بِطَاعَتِهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ مِنْ أَفْضَلِ الْقُرُبَاتِ. وَإِنَّمَا يَفْسُدُ فِيهَا حَالُ أَكْثَرِ النَّاسِ لِابْتِغَاءِ الرِّيَاسَةِ أَوْ الْمَالِ بِهَا (السياسة الشرعية لابن تيمية، ص ۱۳۰) ضروری ہے کہ دین داری اور اللّٰہ کے تقرب ورضا کے لیے ہی اقتدار کو قبول کیا جائے۔ اور اقتدار میں اللّٰہ کا تقرب اللّٰہ کی اطاعت اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے ذریعے کرنا، تقرب کی بہترین شکل ہے لیکن اکثر لوگوں کا حال خراب ہے کہ اقتدار کو حاکمیت یا حصول مال کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مزید فرماتے ہیں کہ اقتدار اصلاً بری چیز نہیں اور نہ حکام کے پاس بیٹھنا ہی لیکن:
وَلَمَّا غَلَبَ عَلَى كَثِيرٍ مِنْ وُلَاةِ الْأُمُورِ إرادة المال والشرف وصاروا بمعزل عن حقيقة الإيمان في ولايتهم رأى كثير من الناس أن الإمارة تنافي الْإِيمَانِ وَكَمَالِ الدِّينِ (ایضاً،ص ۱۳۲)جب اکثر حکام پر مال اور ناموری کی خواہش غالب آگئی اور اپنی حکومت میں انھوں نے حقیقت ایمان کو نظرانداز کردیا تو لوگوں نے بھی یہ سمجھنا شروع کردیا کہ اقتدار ایمان اور کمال دین کے منافی ہے۔
درحقیقت ان مقاصد کے لیے عہدے او رحصولِ اقتدار سراسر ناجائز ہے۔کیوںکہ اقتدار کے یہ دو ناجائز مقاصد فرعون وقارون کے تھےاور ان کا دنیا وآخرت میں بدانجام سب کے سامنے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو مقاصد اقتدار کو بدترین ہلاکتیں قرار دیا ہے:
مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ، (جامع الترمذی، رقم: ۲۳۷۶)دو بھوکے بھیڑیے اگر بھیڑوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیے جائیں تو وہ اس کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ دو چیزیں نقصان پہنچاتی ہیں: کثرتِ مال اور نام ونمود کی خواہش۔
اقتدار واختیار اور مال ودولت روزِقیامت کسی کام نہیں آئیں گے، جیساکہ قرآن نے جہنمیوں کا نقشہ کھینچا ہے:
مَآ اَغْنٰى عَنِّيْ مَالِيَه O هَلَكَ عَنِّيْ سُلْطٰنِيَهْ (الحاقۃ ۶۹: ۲۸-۲۹)،میرے مال نے مجھے کچھ نفع نہ دیا اور میری حکومت بھی مجھ سے جاتی رہی ۔
اور ان دو ناجائز مقاصد کے لیے سیاست کرنے والا کس کا جانشین ہے؟ ابن تیمیہ لکھتے ہیں: وَغَايَةُ مُرِيدِ الرِّيَاسَةِ أَنْ يَكُونَ كَفِرْعَوْنَ ، وَجَامِعِ الْمَالِ أَنْ يَكُونَ كَقَارُونَ، وَقَدْ بَيَّنَ اللهُ تَعَالٰى فِي كِتَابِهِ حَالَ فِرْعَوْنَ وَقَارُونَ (السياسة الشرعية لابن تيمية،ص ۱۳۲) ’’حاکمیت کا متلاشی فرعون جیسا اور مال کا حریص قارون جیسا ہے اور دونوں کا انجام اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خوب کھول کر بیان کردیا ہے‘‘۔
شاہ اسماعیل شہید نے حکومت کی دوسری قسم ’سلطنتِ جابرہ‘ قرار دی اور اس کا نقشہ یوں کھینچا: ’’سلطانِ جابر سے وہ شخص مراد ہے جس پر نفس امارہ اس قد رحکمران ہو کہ نہ تو اسے خوفِ خدا مانع ہوسکتا ہے اور نہ مخلوق کی شرم۔ نفس امارہ جو بھی اس سے کہے، بلاتکلف بجا لاتا ہے بلکہ سلطنت کا ثمرہ لذاتِ نفسانیہ کو پورا کرنا ہی سمجھتا ہے… کسی کو تکبر وجبر مرغوب ہے، کسی کو ناز وتبختر، کسی کو تعدی وجور، کسی کو فسق وفجور، کسی کو منشیات ومُسکِرات، کسی کو لذیذ کھانے، کسی کو نفیس لباس، کسی کو لہوولعب اور کسی کو نَشاط وطرب…نفس امارہ کی ہوا وہوس کے ہزاروں مقدمات ہیں۔ سو، اس کے چند اُصول اور بے شمارفروع ہیں:
۱-ایک حبِ مال ہـے: مال جمع کرنا ان کا بہترین مشغلہ اور بہترین لذت ہوتی ہے، خزائن ودفائن کی زیادتی کے ہر رستے کو تلاش کرتے ہیں۔ خود بھی اور ان کے ہم نشین جمع مال میں ساری صلاحیتیں صرف کرتے ہیں، وہی مشیر باتدبیر اور امیر کبیر ہے جس نے جمع مال کی کوئی اچھی اور نئی تدبیر نکالی۔
۲- ان کا دوسرا اُصول غلبہ وتکبّر ہے: بعض لوگ فطرتاً اِدعا پسند، خود پسند، خود ستائی، سرکش ہوتے ہیں۔ اپنے کو بلند ، دوسروں کو حقیر جانتے ہیں۔ اپنے ادنیٰ ہنر کو دوسروں کے کمال کے مقابلے میں بلند رُتبہ سمجھتے ہیں۔ دوسرں کی ذلت کو اپنی عزت اور مسلمانوں کی عار کو اپنی عظمت خیال کرتے ہیں۔ ان کی حکومت کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ کوئی ان سے مشارکت نہ کرسکے، مشابہت کی راہ نہ پاسکے۔ ایسا شخص منصبِ سلطنت پر پہنچ کر تکبر سے رفتار وگفتار، نشست وبرخاست، القاب وآداب اور تمام عادات ومعاملات میں اپنے آپ کو ممتاز سمجھتا ہے۔مساوات کی راہ مسدوداور ہراہم چیز کو اپنے لیے خاص کردیتا ہے۔ایسا حاکم چاہتا ہے کہ اس کے آئین وقوانین ،اصولِ دین اور احکام شرع متین کے مقابلے میں عوام میں زیادہ مقبول ہوں۔
۳- ان کا تیسرا اُصول عیاشی ہے: سلطانِ جابر کی ساری توجہ قوتِ شہوانی سے مغلوب اور ساری ہمتیں لذاتِ نفسانیہ کی تکمیل اور جسمانی راحت کے حصول میں مشغول رہتی ہیں۔رات دن طعام مرغوب، لباس خوش اسلوب وشربِ خمور میں مست رہتے ہیں۔ محافل رقص وسرود کے برپا کرنے، عمارتیں اور باغات بنانے میں لگے رہنے والے، فسق وفجور کی داد دینے والے۔ ان کے وزیر باتدبیر لہوولعب اور نشاط وطرب کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے اور اس کو کمال فن تک پہنچاتے ہیں۔ جہاں حکام یہ کام کریں تو رعایا میں ظلم وجور پھیل جاتا اور سلاطین کی یہ خرابیاں فسق وفجور، ظلم وتعدی اور فسادِ ملک کا سبب بن جاتی ہیں‘‘۔(منصبِ امامت از شاہ اسماعیل شہید، ص۱۵۱-۱۶۴)
ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنی زندگی کی ترجیحات اور اپنی اپنی امانت کی تکمیل میں اپنے تعلقات: رشتے ناطے، دوستی ودشمنی، محبت وغیریت (الحبّ في الله) اورعزت و نسبت میں اسی بات کو پیش نظر رکھے کہ حاکمیت اور جمع مال کی بجاے رضاے الٰہی، اور اعلاے کلمۃ اللہ کی بنا پر اپنے فیصلے کرے جیساکہ اس پر بہت سی احادیث ِ نبویہ موجود ہیں۔ اس کے اور اس کے بچوں کی تعلیم اور پیشے، عادات و علامات بھی دُنیوی غلبہ اور حصولِ مال کے بجاے رضاے الٰہی اور اعلاے دین کے لیے ہوں۔ مسلمانوں کی اجتماعی ترقی کا رخ بھی علووفساد میں کثرت کی بجاے دینی ترقی کا مظہر ہو کیوںکہ حکام کی طرح ہرانسان بھی اپنے گھربار اور اپنے آپ کا مسئول وامین ہے۔جب عام مسلمان اپنی اس ذمہ داری کوسمجھیں گے اور اسی کے مطابق عمل کریں گے، تو ان کے حکام بھی اسی طرزِ فکر وعمل کے حامل ہوں گے۔یہی مسلم معاشرے کی اصلاح کا شرعی منہاج ہے۔
مالی امانت ادا کرنے کی جزا:نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی سیّدنا ابو موسیٰ اشعریؓ نے روایت کیا ہے: الْخَازِنُ الْأَمِينُ الَّذِي يُؤَدِّي مَا أُمِرَ بِهِ طَيِّبَةً نَفْسُهُ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقِينَ، امانت دار خزانچی جو اس کو حکم دیا جائے، ا س کے مطابق دل کی فراخی کے ساتھ ( صدقہ ادا کردے ) وہ بھی ایک صدقہ کرنے والوں ہی میں سے ہے۔(بخاری، کتاب الاجازہ، باب استجار الرجل الصالح، حدیث: ۲۱۶۲)
٭خیانت کی سزا : جو شخص بھی قومی مال میں سے ایک پائی بھی اپنے اوپر صرف کرتا ہے، اس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وعید کافی ہے جو سیّدنا عمر ؓسے مروی ہے:
لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ، أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ صَحَابَةِ النَّبِيِّ ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فُلَانٌ شَهِيدٌ، حَتَّى مَرُّوا عَلَى رَجُلٍ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ : كَلَّا، إِنِّي رَأَيْتُهُ فِي النَّارِ فِي بُرْدَةٍ غَلَّهَا - أَوْ عَبَاءَةٍ -» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ : يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، اذْهَبْ فَنَادِ فِي النَّاسِ، أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ فَنَادَيْتُ: أَلَا إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ (بخاری، رقم: ۲۲۶۰)خیبر (کی جنگ ) کا دن تھا ، نبیؐ کے کچھ صحابہؓ آئے اور کہنے لگے : فلاں شہید ہے ، فلاں شہید ہے ، یہاں تک کہ ایک آدمی کا تذکرہ ہوا تو کہنے لگے: وہ شہید ہے ۔ رسولؐ اللّٰہ نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں، میں نے اسے ایک دھاری دار چادر یا عبا (چوری کرنے ) کی بنا پر آگ میں دیکھا ہے۔ پھر رسولؐ اللّٰہ نے فرمایا :’’ اے خطاب کے بیٹے ! جاکر لوگوں میں اعلان کر دو کہ جنت میں مومنوں کے سوا کوئی داخل نہ ہو گا‘‘ ۔ انھوں نے کہا : میں باہر نکلا اور اعلان کیا : متنبہ رہو! جنت میں مومنوں کے سوا اور کوئی داخل نہ ہو گا۔
اس حدیث میں مالِ غنیمت میں سے مال چوری کرنے والے کو جہنمی بتانےکے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی بات کی ہے۔ گویا ایسے شخص کا ایمان ہی خطرے میں ہے جو قومی مال میں خیانت کا مرتکب ہے۔
امانت میں خیانت ایسا بڑا جرم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ القِيَامَةِ، قَالَ أَحَدُهُمَا: يُنْصَبُ ، وَقَالَ الآخَرُ: يُرَى يَوْمَ القِيَامَةِ، يُعْرَفُ بِهِ (مسلم، رقم:۳۰۹) قیامت کے دن ہر خائن (عہد شکن)کے لیے ایک جھنڈا ہوگا۔ ان میں سے ایک صاحب نے بیان کیا کہ وہ جھنڈا (اس کے پیچھے مقعد میں ) گاڑ دیا جائے گا اور دوسرے صاحب نے بیان کیا کہ اسے قیامت کے دن سب دیکھیں گے ، اس کے ذریعے اسے پہچانا جائے گا ۔
امانت یا امین سے مراد صرف لغوی امین نہیں ،بلکہ امانت ایک شرعی اصطلاح ہے جس کو قرآن وسنت نے متعدد مفاہیم کے لیے استعمال کیا ہے۔ان میں دین، اموال، علوم ومعارف، مناصب وذمہ داری، گواہیاں اور فیصلے لکھنا اور روایت کرنا، رازوں اور پیغامات کی حفاظت کرنا، سمع وبصر اور تمام حواس کی امانت داری کا خیال رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔
٭حاصل بحث : مذکورہ بالا سطور میں امانت کے ساتھ ساتھ مناصب کے لیے مطلوبہ دیگر اہم شرعی صفات کا قرآن واحادیث سے تذکرہ کرنےکے بعد یہ ثابت کیا گیا ہے کہ:
۱- امین وامانت شریعتِ اسلامیہ کا اہم حکم ہے جس میں ’اللہ کے تمام فرائض کو اس کے احکامات کے مطابق ’انجام‘ دینےکا مطالبہ پایا جاتا ہے۔ یہی وہ امانت ہے جو انسان کے اشرف المخلوقات ہونے اور دنیا میں آنے بلکہ عطاے عقل کی بنیاد بنی، اور اسی کی بنا پر روزِ محشر انسان کی جزاوسزا ہوگی۔ امانت کے شرعی تقاضے میں فرد او رمعاشرے کی ہر سطح مخاطب ہے کیوںکہ اللہ نے سب کو ہی ذمہ دار بنایا ہے۔
۲- فرمانِ نبویؐ ہے کہ ’’مناصب امانت اور ندامت ہیں‘‘۔ اور کسی منصب کے لیے حاکم پر اللہ کی کامل اطاعت از بس ضروری ہے اور عہدے دار کا کام ہے کہ قرابت داری اور اُمیدواری کی بجاے سراسر شرعی اہلیت کی بنا پر ہی ذمہ داریاں دے۔ ا س کے پیش نظر دنیوی جاہ وجلال، ذاتی تقویت اور جمع مال ہرگز نہ ہو۔ وہ اپنے ماتحتوں میں اللہ کے دین کو قائم کرنے والا ہو، وگرنہ وہ بقول امام ابن تیمیہؒ: ’’خائن اور چوروں کا سردار ہے اور اس کا ربّ اس سے ناراض ہے۔ فرمانِ نبویؐ کے مصداق ’’ایسا حاکم جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘۔
۳-امانت کی تیسری صورت مالی ہے۔حب ِجاہ ومال فرعون وقارون کی صفات ہیں، ان کا بدتر انجام سب پر واضح ہے۔ حاکم کی مالی خیانت یہ بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کا مال ذاتی جاگیر سمجھ کر لوگوں میں بانٹے، اعلاے کلمۃ اللہ کے بجاے اپنے اقتدار اور خواہشات کے لیے اس مال کو بے جا استعمال کرتا پھرے۔ لوگوں کے اموال کی بہانے بہانے سے لوٹ کھسوٹ اس کا مشغلہ ہو، تو اس کے اعوان وانصار کو ناجائز مال دینا گناہ میں اس کی مدد کرنا ہے اورایسے مال کو اصل مالکوں تک لوٹانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ فرمانِ رسولؐ کے مطابق: ’’خائن حاکم روزِ قیامت اپنی مقعد پر رُسوائی کا جھنڈا ‘لے کر بدنامی کا شعار اور جہنم کا ایندھن بن جائے گا‘‘۔
آئین کی ۶۲، ۶۳ دفعات کے خاتمے کارجحان نہایت خطرناک ہے، اس کامطلب تو یہ ہوگاکہ اسلام کے جس حکم پربھی ہم عمل کرنا نہ چاہیں یاہمیں اس پرعمل کرنامشکل نظرآئے، توہم یہ مطالبہ کریں کہ اس کو سرے سے ختم ہی کردیاجائے۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری!!
پاکستان میں زیربحث دفعات، اسلامی احکام پرمبنی ہیں اوراسلام کاکوئی حکم ایسا نہیں ہے کہ انسانوں کے لیے اس پر عمل کر ناممکن نہ ہو۔جس وقت ۶۲، ۶۳ دفعات کو دستور کا حصہ بنایا گیا، صورتِ حال یکسر تبدیل ہو چکی تھی۔ سیاست دان یا غیر سیاسی لوگ سب دولت کی ہوس کا شکار تھے اور کرپشن کی داستانیں عام تھیں۔ اس کے سدباب کے لیے مذکورہ دفعات نافذ کی گئیں جو فی الواقع اخلاص پر مبنی تھیں، نہ کہ بدنیتی پر۔ اب کرپشن کی صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہے ۔ اس لیے یہ دفعات نہایت ضروری ہیں، تاکہ کرپٹ لوگ سیاست میں نہ آ سکیں اور اگر آ جائیں تو ان کا محاسبہ کیا جا سکے۔ اس لیے ان دفعات کی اہمیت، افادیت و ضرورت، بلکہ ناگزیریت مسلّم ہے۔ (مکمل)