معتزلہ اور فلاسفہ کے نظریات میں فرق


سید ابوالحسن علی ندویؒ 

معتزلہ سے اگرچہ دانستہ یا نادانستہ شریعت کو نقصان پہنچا تھا، اور انہوں نے عقل کی طاقت کو غیر محدود سمجھ کر ذات و صفات کے نازک و ماوراء (نہ کہ مخالف عقل) مسائل کو بازیچۂ اطفال بنا دیتھا، لیکن وہ اصلاً مذہبی ذہن کے لوگ تھے، وحی نبوت پر ایمان رکھتے تھے اور عموماً تقشف معاصی سے مجتنب و محتاط تھے، عبادت اور دینی دعوت کا ذوق رکھتے تھے اور امر بالمعرف و نہی عن المنکر کے سختی کے ساتھ پابند تھے (۱)۔ اور یہ سب ان کے اصول و عقائد کا اقتضا تھا (۲)۔ اس لئے اعتزال کے فروغ اور معتزلہ کے اقتدار سے عالمِ اسلام میں کفر و الحاد و انکار نبوت، انکار معاد اور بے عملی اور تعطل کا رحجان پیدا نہیں ہو سکا اور مسلمانوں کا مذہبی شعور مجروح یا کمزور نہیں ہونے پایا۔

لیکن فلاسفہ کا معاملہ اس سے بالکل مختلف تھا، فلسفہ نبوت کے بالکل متوازی چلتا ہے اور کہیں جا کر نہیں ملتا، وہ دین کے اصول و کلیات اور اس کے بنیادی عقائد و مسائل سے متصادم ہے اس لئے جس قدر فلسفہ کی مقبولیت اور عظمت بڑھتی گئی، قدرتی طور پر دین کی وقعت اور انبیاء علیہم السلام کی عظمت کم ہوتی گئی اور عقائد سے لے کر اخلاق و اعمال تک اس ذہنی تبدیلی سے متاثر ہوئے، مسلمانوں میں ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا جو دین کی علانیہ تحقیر کرتا اور اسلام سے فخریہ اپنی بے تعلقی کا اظہار کرتا، جو لوگ اتنی اخلاقی جرأت نہیں رکھتے تھے، وہ ظاہری طور پر رسم و رواج کے پابند تھے لیکن اندر سے وہ کسی معنی میں مسلمان نہیں تھے۔

( ماخوذ از تاریخ دعوت و عزیمت ج 1 ص 122-123۔ سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )