سید ابوالحسن علی ندویؒ
لیکن فلاسفہ کا معاملہ اس سے بالکل مختلف تھا، فلسفہ نبوت کے بالکل متوازی چلتا ہے اور کہیں جا کر نہیں ملتا، وہ دین کے اصول و کلیات اور اس کے بنیادی عقائد و مسائل سے متصادم ہے اس لئے جس قدر فلسفہ کی مقبولیت اور عظمت بڑھتی گئی، قدرتی طور پر دین کی وقعت اور انبیاء علیہم السلام کی عظمت کم ہوتی گئی اور عقائد سے لے کر اخلاق و اعمال تک اس ذہنی تبدیلی سے متاثر ہوئے، مسلمانوں میں ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا جو دین کی علانیہ تحقیر کرتا اور اسلام سے فخریہ اپنی بے تعلقی کا اظہار کرتا، جو لوگ اتنی اخلاقی جرأت نہیں رکھتے تھے، وہ ظاہری طور پر رسم و رواج کے پابند تھے لیکن اندر سے وہ کسی معنی میں مسلمان نہیں تھے۔
( ماخوذ از تاریخ دعوت و عزیمت ج 1 ص 122-123۔ سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )