کرۂ ارض پر زندگی کاظہور
کرہ ارض پر زندگی کا آغاز تقریباً تین ارب اسی کروڑ سال پرانا ہے ۔ یہ آغاز کیسے ہوا جس کا حتمی جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔ مذہبی مفکرین اور سائنس دان سب نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ۔ زندگی کے بارے پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ زندہ شے خود بخود براہ راست بے جان چیزوں سے جنم لیتی ہے ۔ جیسے مثلاً شوربہ خراب ہو کر جراثیم کو جنم دیتا ہے یا گوشت گل سڑ کر کیڑوں کو ۔ اس نظریہ کی تردید سترھویں صدی عیسویں میں اٹلی کے سائنس دان فرانسکو ریڈی نے عملی ثبوت مہیاکر کے کی ۔ اس نے ثابت کیا کہ کیڑے گوشت کے اندر سے جنم نہیں لیتے ، بلکہ اس پر مکھیوں کے دیے گئے انڈوں سے جنم لیتے ہیں ۔ اس نظریہ کے حامی یہ ثابت نہیں کر سکے کہ کوئی ایسی چیز جس کے اندر زندہ خلیے نہ ہوں ، کیوں کر زندہ خلیوں کو جنم دے سکتی ہے ۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ زمین پر زندگی ستاروں پر سے آئی ہے ۔ اس کے حامی مشہور مبلغ ایرک وان ڈینی گن ہیں ۔ ان کا موقف یہ کہ لاکھوں سال پہلے کوئی مخلوق ( دیوتا ) کسی دوسرے سیارے سے زمین پر آئی ، اس نے انسان کو جنم دیا اور واپس چلی گئی ۔ اس نے بے شمار سائنسی اور اثری شواہد سے اپنے نظریہ کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ مگر زندگی کو یا صرف نسل انسانی کو جو کسی سیاروں پر سے آئی ہوئی چیز ثابت کرنے والے مبلغ اس بابت پر خاموش ہیں کہ اس دوسرے سیارے پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا ؟
اس طرح ایک نظریہ اور بھی ہے جو خصوصی تخلیق کا نظریہ کہلاتا ہے ۔ اس کے مطابق روئے زمین پر کروڑوں جانداروں کی قسمیں اپنی اپنی جگہ اسی طرح کسی مافوق الفطرت طاقت یا طاقتوں نے پیدا کیں ہے ۔ کسی ایک خالق نے یا ان گنت دیوی دیوتاؤں نے پیدا کیں ہیں ۔ یہ سب قسمیں اپنی جگہ غیر مبتدل اور متعین ہیں اور باہمی رشتہ اور تعلق نہیں رکھتی ۔ یعنی ہر قسم اپنی اپنی جگہ ہمیشہ کے لیے قائم ہے اور اس میں تبدیلی کی گنجائش یا امکان نہیں ہے ۔ اس نظریہ کے حامی بعض بڑے بڑے اور قابل سائنس دان بھی رہے ہیں ۔
تاہم سائنس کی نت نئی تحقیقات اور ان پر زبردست تنقید کے نتیجے میں روز بروز جو صداقت زیادہ قوت سے سامنے آئی ہے وہ ارتقاء کا نظریہ ہے ۔ یعنی زندگی مادے کے اندر موجود اجتماع ضدین کے درمیان باہمی کشمکش کی حرکت کے نتیجے میں ظاہر ہوئی ہے ۔ ظہور زندگی کا سبب مادے کے اندر موجود ہے اور مادے کے اربوں سالوں پر پھیلے ارتقاء کے نتیجے میں زندگی ظہور آئی ہے ۔
متعدد سائنس دانوں کا خیال ہے قدیم فضاء آکسیجن کے بغیر تھی اور ایک ایسی فضا جو ہائیڈروجن گیس ، آبی بخارات ، نوشادر گیس اور میتھین گیسوں کے مجموعہ پر مشتمل تھی ، برقی اخراج سے دوچار ہوئی اور اس پر ماورائے بنفشی روشنی پڑی تو اس میں خود بخود ہونے والی آمیزش سے چربیلے تیزابات ، ایملئنو تیزابات پیدا ہوئے ۔ پہلے یہ نامیاتی مرکبات تھے جو پرٹین کو جنم دینے کی بنیاد بنے ۔ سائنس دان اب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فاسفیٹ ، خمیرے سادہ مرکبات اور نیوکلیاتی تیزاب کو انتہائی قدیمی کرہ ارض پر ماروائے بنفشی روشنی توانائی کے زیر اثر وجود میں آئے تھے ۔ خمیرے سادہ مرکبات کو اندرونی آمزش کے ذریعہ پیچیدہ تر مرکبات بننے میں عمل انگیز کا کام کرتے ہیں اور نیوکلیاتی تیزاب پیدا کرتے ہیں ۔ یہ دونوں اعمال زندگی کا خاصہ ہیں ، اس لیے سائنس کے لیے یہ یقین کرنا غیر مناسب نہیں کہ زندگی اربوں سال پہلے کسی شوربہ کے پانی میں وجود آئی ہوگی ۔ بعد میں ارد گرد کے مرکبات نے اس زندہ وجود کے گرد ایک جھلی تان دی ہوگی ۔ اب اس جھلی کے اندر شوربہ کا خورد بینی ذرہ کا ایک خلیہ بن گیا ہوگا ۔ یہی خلیہ زندگی کا نقطہ آغاز ہے ۔ گویا زندگی کا ابتدائی یییی ارتقاء میں ہوگیا تھا ، مگر اس کا خلیاتی ارتقاء قدیم ترین سمندروں کے پانیوں میں ہوا ۔
زندگی کی بنیاد پروٹو پلازم ہے جو ایک زندہ مادہ ہے ، جو نیم مائع ، نیم ٹھوس حالت میں بغیر شکل کے ہوتا ہے ۔ اس میں سکڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور یہ اندرونی طور پر ہم آہنگ ہوتا ہے ۔ یہی زندگی کی طبعی بنیاد ہے ۔ یہ کاربن ، ہائیڈروجن ، اوکسیجن ، نائٹروجن اور بہت سے کیمیائی عناصر اور پانی کی وافر مقدار پر مشتمل ہوتا ہے ۔ اس میں چھوٹے چھوٹے خلیے ہوتے ہیں ۔ ہر خلیہ اپنے طور پر زندہ اکائی ہوتا ہے اور سب خلیے مل کر ایک زندہ نظام کی ( زندہ وجود کو ) تشکیل کرتے ہیں ۔ زندہ اور ایک بے جان وجود میں بنیادی فرق کیمیائی اور خلیاتی ساخت کا ہے ۔ جہاں تک کیمائی اجزا کا تعلق ہے تو زندہ پرٹو پلازم میں ایسا کوئی سا کیمیائی جزو زیادہ نہیں ہوتا ہے جو بے جان اجسام میں نہ ہوتا ہے ۔ فرق صرف ترتیب کا ہے ۔ بغیر اس خاص ترتیب کہ عناصر مل کر کسی بھی غیر زندہ مادی شکل ، پتھر ، مٹی ، ہوا اور پانی کی شکل اختیار کرتے ہیں ۔ جب کہ وہی کیمیائی عناصر ایک دوسری مخصوص ترتیب اور آہنگ میں مجتمع ہو کر زندہ پلٹو پلازم بن جاتے ہیں ۔
زندگی کیا ہے ہے عناصر کا ظہور ترتیب
موت کیا ہے ان عناصر کا پریشان ہونا
زندہ شے میں دوسری چیزوں کو جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ جو بے جان اشیاء کو جذب کرکے ان کی کیمیائی ترتیب بدل کر انہیں زندہ وجود میں ڈھال دیتی ہے ۔ جیسے انسان کھانا ہضم کر کے خون ، ہڈی ، عضلات کی شکل میں ڈھال دیتا ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ زندہ شے افزائش نسل کی صلاحیت رکھتی ہے ، جو بے جان چیزوں میں نہیں ہوتی ہے ۔ زندہ چیز کیمیائی طور پر ساکن نہیں بلکہ متحرک اور ہر دم متغیر ہے ۔ جیسے انسانی جسم میں خون کے ذرات بنتے اور مرتے ہیں ۔
ماخذ: یحیٰی امجد ۔ تاریخ پاکستان قدیم دور