استعماری حکمت عملی اور راہِ انقلاب؟ (2)

پروفیسر خورشید احمد

’استحکام‘ نہ کہ ، عوامی نمایندگی

گورنری کے عہدے پر متمکن ہونے کے بعد اوڈوائر نے حالات کا جائزہ لیا، تو آزادی اور جمہوری اختیارات کی تحریک اس کے دل میں کانٹے کی طرح چبھی اور اس نے طے کرلیا کہ وہ حکومتی استحکام اور عوام کی فلاح کا ایک فلسفہ گھڑ کر تحریک ِ آزادی کے چہرے پر کالک مل کر رہے گا۔ ایسی کسی چیز کوبرداشت کرنا نظامِ ظلم کی فطرت کے خلاف ہے لیکن ظالموں اور فرعونوں میں اتنی اخلاقی جرأت کہاں کہ صاف صاف اس کا اعتراف کریں۔ اب یہاں دیکھیے انگریز گورنر اوڈوائر کی نکتہ آفرینیاں:


مجھے صوبائی حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ابھی کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ میرے پاس بعض لوگوں نے ایسی تجاویز بھیجنا شروع کر دی ہیں، جن کا مقصد یہ ہے کہ آیندہ اس صوبے کے نظم و نسق میں کیا کیا اصلاحات ہونی چاہییں۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت ِ خود اختیاری کے حصول کے لیے عوام جو اُمیدیں اور آرزوئیں قائم کیے بیٹھے ہیں، مجھے ان کی پذیرائی کیونکر کرنی چاہیے۔ عدالتی اور انتظامی اُمور کو ایک دوسرے سے الگ کر دینے کی بھی تحریک ہورہی ہے۔ میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی خیالی اور غیرحقیقی باتیں اپنی جگہ کتنی ہی دل کش اور جاذبِ نظر کیوں نہ ہوں، اَمرِواقعہ یہ ہے کہ حکومت کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کی جائے۔ اگر یہ مختلف تجویزیں [یعنی جمہوری تقاضوں کی تجاویز] بھیجنے والے لوگ مجھے یہ بتاتے کہ حکومت کو اپنے اصل مقصد سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کون سے بہتر ذرائع اختیار کرنے چاہییں، تو وہ اپنی قوم اور صوبے پر زیادہ احسان کرتے۔(اقبال کے آخری دو سال، ص ۳۴-۳۵)



’تنہا حاکمِ اعلٰی‘ 


جب اس ’قیمتی نصیحت‘ کا کوئی خاص اثر نہ ہوا اور جمہوری اداروں کا مطالبہ بڑھتا چلا گیا، عوام کی نمایندگی کے لیے ہر طرف سے آوازیں اُٹھنے لگیں اور گورنر سے نمایندہ انتظامی کو نسل کی ضرورت پر شدت سے اصرار کیاجانے لگا، تو اوڈوائر صاحب کو سخت غصہ آیا اور وہ ’استحکام‘ اور ’ترقی‘ کا سہارا لے کر عوام پر یوں برسے: 


مجھے یہ تجویز سن کر بے حد تعجب ہوا ہے۔ اس صوبے کے لوگ ابتدا سے لیفٹیننٹ گورنر کو صوبے کا تنہا حاکمِ اعلیٰ اور یہاں کے نظم و نسق کا بلاشرکت غیرے واحد ذمہ دار سمجھنے کے عادی ہیں۔ اس نظام کے تحت پنجاب نے خوب ترقی کی ہے اور مَیں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ اس ضمن میں پنجاب، ہندستان کے کسی صوبے سے پیچھے نہیں رہا۔ پھر بتایئے کہ انتظامی کونسل کی کیا ضرورت ہے؟ (ایضاً، ص ۳۷) 


گویا کہ فی الحقیقت ایسے ’استحکام‘ اور ایسی ’ترقی‘ کی موجودگی میں نمایندہ کونسلوں ، اور جواب دہ اداروں کے مطالبے کا مقصد بجز ’انتشار‘ پھیلانے کے اور کیا ہوسکتا ہے! 


آہ! دیہاتی! سیاست چھوڑ 


بات انتظامی کونسل ہی کے مطالبے پر نہ رُکی، بلکہ نمایندہ قانون ساز اسمبلی، آزاد انتخابات اور عوام کے حق راے دہی تک پہنچی۔ اب تو تنہا حاکمِ اعلیٰ اور بلاشرکت غیرے واحد ذمہ دار صاحب کا پارہ ہی چڑھ گیا۔ گویا ہوئے: 


آج کل یہ عالم ہے کہ چاروں طرف سے سیاسی تقریروں کا شور سن کر ہمارے کان بہرے ہوئے جارہے ہیں اور سیاسی دستاویزوں اور یادداشتوں کی بھرمار دیکھ دیکھ کر ہماری آنکھیں چندھیائی جارہی ہیں۔ کیا اس شوروشغب میں میرا یہ کہنا مناسب نہیں کہ اس طوفانِ بدتمیزی کو ختم کر کے ہمیں اپنے دل و دماغ کو لایعنی تصورات اور بے مصرف توہمات سے پاک کر دینا چاہیے، اور لمحے بھر کے لیے سوچنا چاہیے کہ آخر اس ساری سیاسی شعبدہ بازی کا ان غریب دیہاتیوں کو کیا فائدہ پہنچے گا، جن کی زندگیاں ہل چلانے، فصلیں بونے اور پھر ان فصلوں کو آفاتِ ارضی و سماوی سے محفوظ رکھنے کے لیے وقف ہوچکی ہیں۔(اقبال کے آخری دو سال، ص ۸۷- ۸۸) 


اللہ اللہ ، دیہاتیوں کی قسمت کہ کون ان کے حقوق، قوم کو یاد دلارہاہے! 


کمیشن رپورٹیں دریا برد کردو! 


لیکن اسے کیا کہیے کہ ’سیاسی شعبدہ بازوں‘ کے ’لایعنی تصورات‘ برابر مقبول ہوتے گئے اور سیاسی اصلاحات کے لیے حکومت کو کمیٹی پر کمیٹی اور کمیشن پر کمیشن بٹھانے پڑے۔ ’مانٹی گوچیمس فورڈ کمیشن‘ (۷) قائم ہوا اور اوڈوائر بھی اس کا معزز رکن تھا۔ تمام حالات کا جائزہ لے کر کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ عوام کو کچھ نہ کچھ حقوق دینے پڑیںگے اور کسی نہ کسی درجے میںعوامی نمایندگی کا اہتمام کرنا ہوگا۔ کمیشن ہزار سرکاری سہی، اور سرکار ہی کے نامزد افراد پر مشتمل سہی، لیکن حقائق سے کہاں تک چشم پوشی کرسکتا ہے؟ 


مگر واہ رَے ’دیہاتیوں کی فلاح‘ اور ’عوام کے مفاد‘ کا محافظ! کمیشن کچھ بھی کہے گورنر اوڈوائر اپنی بات پر قائم ہے۔اختلافی نوٹ میں اوڈوائر نے نام لے لے کر مسٹر محمدعلی جناح ، ڈاکٹر اینی بیسنٹ [م:۲۰ستمبر ۱۹۳۳ء] اور راجا صاحب محمود آباد [م:۲۳مارچ ۱۹۳۱ء]کوبُرا بھلا کہا۔ اس نے ان لیڈروں کی نیتوں پر حملہ کرکے انھیں خودغرض اور شورش پسند قرار دیا۔ ہوم رول تحریک کی جی بھر کر مذمت کی اور ملک کے تعلیم یافتہ طبقے کو عوام کا بدخواہ ظاہر کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو اس نے ایک نہایت غیرنمایندہ جماعت قرار دے کر حکومت کو متنبہ کیا کہ مسلم لیگ نے مسلمان عوام کی نمایندگی کا جو دعویٰ کیا ہے، وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ اور آخر میں لکھا: (اقبال کے آخری دو سال، ص ۸۹) 


یہ امر بالکل واضح ہے کہ اصلاحات کا تقاضا ملک کے عوام نے بالکل نہیں کیا۔ حالاںکہ عوام ہی کے مفاد کی نگہداشت حکومت کا فرض اوّلین ہونا چاہیے۔ یہ مطالبہ ہندستان کے باشندوں کی ایک نہایت قلیل تعداد کی طرف سے پیش ہوا ہے، جو محض اپنی ذاتی اغراض کی وجہ سے اقتدار کی خواہاں اور عہدوں کی بھوکی ہے۔ اگر ہمیں اپنے اس عہد کا کچھ پاس ہے، جو ہم نے ہندستان کی بے زبان مخلوق کی حفاظت کے لیے کیا تھا تو بلاشبہہ ہمارا یہ فرض ہونا چاہیے کہ ہم اس بے زبان رعایا کے مفاد کو مقدم درجہ عطا کریں، اور سیاسی لیڈروں کے شوروشغب کی کچھ پروا نہ کریں، خواہ وہ اس شور سے قیامت ہی کیوں نہ برپا کردیں۔ میں یہاں[ایڈمنڈ] برک [م: ۹جولائی ۱۷۹۷ء]کے وہ یادگار الفاظ درج کرنے پر مجبور ہوں کہ: اگر میدان کے کسی گوشے میں جھاڑی کے نیچے نصف درجن ٹڈے جمع ہوکر اپنی ٹیں ٹیں کے مکروہ شور سے آسمان سر پر اُٹھا لیں اور اسی میدان میںشاہِ بلوط کے اُونچے اُونچے سایہ دار درختوں کے نیچے سیکڑوں گائے، بھینسیں اطمینان سے بیٹھی جگالی کر رہی ہوں، تو ہمیں اس غلط فہمی میں ہرگز مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ میدان میںصرف چیخ پکار کرنے والے ٹڈے ہی آباد ہیں۔ اس سارے قضیے میں جو چیز بالکل عیاں اور واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ان مجوزہ اصلاحات کا خاکہ تیار کرنے میں ہمارے سامنے صرف تعلیم یافتہ جماعت کے ایک محدود طبقےکی خوش نودی تھی۔ کیا ہمارا یہ فعل کسی اعتبار سے عقل مندی یا دانائی کی دلیل سمجھا جاسکتا ہے؟تعلیم یافتہ جماعت کا یہ محدود طبقہ، جس کی خوش نودی کو ہم نے ہرحال میں مقدم سمجھ رکھا ہے، یہ دیہات کے عوام کی نمایندگی کا بھی دعوے دار ہے، حالاں کہ یہ دعویٰ قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے۔ 


میرے اس قول کی صداقت کو آزمانے کے لیے آپ جو معیار چاہیں مقرر کرلیں، اس میں: مذہبی فسادات کی روک تھام کا سوال ہو یا فرقہ وارانہ اختلافات کو مٹانے کا مسئلہ درپیش ہو، فوجی بھرتی کے لیے رنگروٹوں کی فراہمی کا معاملہ ہو یا ملک کے دفاع کا سوال پیش نظر ہو، ہرحال اور ہرصورت میں شہروں کے تعلیم یافتہ سیاسی لیڈر آگے آنے کے بجاے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک وقوم کے لیے مفید اور نفع بخش تحریکوں میں شرکت کرنا یہ لوگ گناہ سمجھتے ہیں۔ ہاں، جہاں فتنہ و فسادبرپا کرنے یا شرانگیزی کی آگ بھڑکانے کی گنجایش ہوگی، آپ ان کو ہمیشہ آگے آگے پائیں گے۔(اقبال کے آخری دو سال، ص ۸۹-۹۱) 


کیا آپ سمجھے کہ یہ ’فتنہ و فساد اور شرانگیزی کی آگ بھڑکانے والے‘ کون ہیں؟ تاجِ برطانیہ کے سرخیل سر مائیکل اوڈوائر، مسلم قائدین کی نیتوں پر حملے کرتے ہیں۔ ظالم حکمرانوں کا خاصا ہے کہ وہ صرف تعمیری اور اصلاحی تحریکوںکی مخالفت ہی نہیں کرتے بلکہ اپنے معزز مخالفین کو بدنیت اور بدقماش بھی کہتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھ کے بڑے بڑے شہتیروں کو نظرانداز کردیتے ہیں اور دوسروں کی آنکھ میں کوئی تنکا نہ بھی ہوتو وہاں ان کو شہتیر ہی شہتیر نظر آنے لگتے ہیں اور ظالم حکمرانوں کو چبھتے بھی ہیں۔ 


اس ڈھٹائی کی انتہا ہـے کوئی 


اوڈوائر ہر بے ہودہ سے بے ہودہ اور ظالمانہ سے ظالمانہ قانون کی مدافعت کے لیے سینہ سپر ہوجاتا ہے۔ رولٹ ایکٹ جو انتہائی سفاکانہ قانون تھا، جس کے متعلق سارا ملک چیخ اُٹھا تھا اور جسے وائسراے ہند کو اپنے خصوصی اختیارات سے نافذ کرنا پڑا تھا کہ انگریزوں کے اپنے ادارے (قانون ساز اسمبلی) کے غیرسرکاری ارکان میں سے ایک بھی تائید کے لیے تیار نہ تھا (کم از کم اس وقت اتنی غیرت تو تھی)۔ جس کے استبدادی انداز سے (arbitrarily) نافذ کرنے پر قائداعظم نے مرکزی اسمبلی سے بطورِ احتجاج استعفا دے دیا تھا اور جس کے ظالمانہ ہونے کا احساس خود گورنمنٹ کوبھی اس درجہ تھا کہ ’راج ہٹ‘ میں اسے منظور تو کرلیا، لیکن عالم گیر احتجاج کے پیش نظر اس کی پوری مدتِ عمر جو تین برس تھی، اس میں ایک بھی اقدام نہ کیا۔اس گھنائونے قانون کی مدافعت کے لیے عوام کے ’مفاد کا محافظ‘ سر مائیکل اوڈوائر اس نفرت بھرے ذہن کے ساتھ کلام کرتاہے: 


آپ نے گذشتہ ہفتوں کے واقعات [اشارہ ہے ’رولٹ ایکٹ‘ کے خلاف ملک گیر احتجاج اور اس کےبعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کی طرف جس میں جلیانوالہ باغ کا خونیں واقعہ بھی شامل ہے] اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں کہ ایک ایسے قانون کو، جو لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے وضع کیا گیا تھا اور جس کا تنہا مقصد یہ تھا کہ بدامنی اور بغاوت کے طوفان کا سدباب کیا جائے، کس کس انداز سے توڑ مروڑ کر اور مسخ شدہ صورت میں عوام کے سامنے پیش کیا جارہا ہے، تاکہ جھوٹ پر مبنی ان ہتھکنڈوں سے لوگوں کو گمراہ کرنے میں آسانی ہو۔ یہ سب کچھ ایک ایسے طبقے کے افراد کر رہے ہیں، جن کی تعداد بے حد قلیل ہے، لیکن شور مچانے اور چیخ پکار کرنے میں بہت ماہر ہیں۔ یہ لوگ اس قانون کو ایک خطرناک ہوّا بناکر عوام کو خوف زدہ کرنا چاہتے ہیں، حالاں کہ اس قانون کا مقصد صرف یہ ہے کہ غیرمعمولی حالات میں عوام کے جان و مال کی حفاظت کیوں کر کی جاسکے۔ موجودہ تحریک بے معنی اور غلط ہے۔ تحریک چلانے والوں کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کے خلاف بددلی پھیلائی جائے اور سرکار[برطانیہ] کے نمک خواروں کو ذلیل کیا جائے۔ حکومت کے وفادار باشندوں کا فرض ہے کہ وہ اس شرانگیز تحریک کا مقابلہ کریں۔ آپ کے سیاسی خیالات کچھ بھی ہوں، آپ کا فرض ہے کہ حکومت کے دست و بازو بن کر موجودہ تحریک کو کچلنے میں ہماری مدد کریں۔(اقبال کے آخری دو سال، ص ۱۰۵-۱۰۷) 


افسوس اس کا نہیں کہ اوڈوائر نے ایسی لچر،پوچ اور خیانت سے لبریز بات کہی۔ افسوس اس کا ہے کہ اہلِ ملک ہی میں سے اسے استبداد کے ہاتھ مضبوط کرنے والے مل گئے۔ 


راج ہٹ 


جب حالات قابو میں آتے دکھائی نہیں دیتے ہیں تو سامراج کا گلِ سرسبد اور ظلم کا پیکر سرمائیکل اوڈوائر خون کی ندیاں بہانے کے لیے بھی آمادہ ہوجاتا ہے اور اس ’کارِخیر‘ کے لیے بھی اہلِ وطن ہی کی مدد حاصل کرتا ہے۔ اسی طویل تقریر میں آگے جاکر کہتا ہے: 


حالات نازک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں اور فوری اقدام کے محتاج ہیں۔ اب آپ مزید تامل نہ کیجیے اور فوراً کمرہمت باندھ لیجیے۔ حکومت نے تو گومگو کی پالیسی ترک کر دی ہے۔ آپ بھی اُٹھ کھڑے ہوں ، حکومت اس مہم میں ہرلمحہ آپ کے لیے پشت پناہ ثابت ہوگی۔ حکومت نے قانون کے نفاذ کا مصمم ارادہ کرلیا ہے، خواہ اس کام میں خون کی ندیاں کیوں نہ بہہ جائیں۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو یاد رکھنا چاہیے کہ اس تمام خون خرابے کی ذمہ داری ہم پر نہیں، بلکہ ان پر عائد ہوگی جو قانون شکنی کی تلقین کررہے ہیں[یعنی جو رولٹ ایکٹ کی مخالفت کی تحریک چلا رہے ہیں]۔(ایضاً، ص ۱۰۸-۱۰۹) 


سرمائیکل اوڈوائر ایک فرد نہیں، بلکہ وہ استعمار کی زبان ہے، ظلم کا نمایندہ ہے، نظامِ استبداد کا ترجمان ہے اور اس کا ذہن آمریت کے ذہن کا آئینہ دار ہے۔ اس کی تقاریر میں وہ پوری فکر موجود ہے، جس کی حکمرانی برعظیم پاک و ہند پر رہی ہے اور جو ہمیشہ سے اربابِ ظلم کی ذہنیت رہی ہے۔ ایک ہی طرز پر سوچنے اور کام کرنے سے یہ ذہن اتنا پختہ ہوجاتاہے کہ صرف دوسروں ہی کے سامنے جھوٹ کو سچ، ظلم کو رحم اور استبداد کو استحکام بناکر پیش نہیں کرتا، بلکہ اپنے کو بھی دھوکا دینے لگتاہے اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ: ’’غلام اپنی زنجیروں سے محبت کرنے لگے ہیں اور ان کا قائم کردہ آمرانہ نظام دراصل ایک جمہوری اور نمایندہ نظام ہے اور عام انسانوں کی خواہش کےعین مطابق ہے‘‘۔ 


لارڈ لیٹن جو بڑے جمہوریت پسند اور برطانوی لبرل پارٹی کے ایک لیڈر تھے۔ وہ ہندستان میں ایک صوبے کے گورنر کے فرائض بھی انجام دے چکےتھے۔ ۱۹۳۵ء کے ’قانونِ ہند‘ کے آنے سے کچھ ہی قبل، اس وقت جب پورے ملک میں سیاسی بیداری کا غلغلہ تھا اور نمایندہ حکومت اور جمہوری اصلاحات کا مطالبہ ہورہا تھا، ہائوس آف لارڈز میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ فرماتے ہیں: 


ہندستان کے سیاست دانوں اور کانگریس کے مقابلے میں حکومت ِ ہند کہیں زیادہ نمایندہ ہے۔ یہ حکومت سرکاری حکام، فوج، پولیس، نوابوں اور مہاراجوں اور ہندوئوں اور مسلمانوں کی فوجی یونٹوں کے نام پر اور ان کی طرف سے گفتگو کرسکتی ہے۔ مَیں جب ہندستان کی راے عامہ کی بات کرتا ہوں تو میری مراد وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کے تعاون پر مجھے بھروسا کرنا ہوتا ہے اور جن کے تعاون پر آیندہ کے وائسراے اور گورنروں کو اعتماد کرنا ہوگا۔(تقریر ، ہاؤس آ ف لارڈز، ۱۷دسمبر ۱۹۳۴ء) 


یہ ہے وہ فلسفۂ حاکمیت جو استعماری حکمرانوں نے وضع کیا، ظلم و استبداد اور آمریت کے انتہائی گھنائونے نظام کا نام ’جمہوریت‘ اور ’نمایندہ حکومت‘ رکھا، اور عوام کے نام پر ان کے مفاد کا نعرہ لگاکر انھی کا گلا گھونٹنے اور ان کو اُلٹی چھری سے ذبح کرنے کی سعی کی۔ 

۵ 

یہ سامراجی دورِ اقتدار، نفاق، سیاسی دھوکے بازی اور بین الاقوامی غنڈا گردی کی بدترین مثال پیش کرتا ہے۔ اس کے ریکارڈ پر ایک نگاہ ڈالنے سے انسانیت شرم سے پانی پانی ہوجاتی ہے، ضمیر بغاوت کرتا ہے اور روح کانپ اُٹھتی ہے کہ انسان شیطان کا اتنا بڑا حلیف بھی بن سکتا ہے بلکہ اس سے دوچار ہاتھ آگے بھی نکل سکتا ہے۔ 


اس گھر کو آگ لگ گئی… 

اس شرم ناک داستان کا ابھی ایک باب اور بھی ہے، جو انتہائی کریہہ اور گھنائونا ہے اور جس کے ذکر پر آنکھیں شرم سے جھک جاتی اور خون کے آنسو بہاتی ہیں۔ یہ ہے انگریزوں کے ہندستانی وفاداروں کا کردار! 


اگر ظالم حکمران ہماری ہڈی پسلی ایک کر دیتے اور ایک ایک فرد کو ذبح کرڈالتے تو انسانیت خواہ اس پر کتنا ہی ماتم کرتی، لیکن اہلِ وطن کے لیے شرم و ندامت کا کوئی موقع نہ ہوتا___ اپنا سر فخر سے بلند کرکے کہہ سکتے کہ: ’’غیروں نے ہمارے اُوپر ظلم کیا اور ہم نے سینہ سپر ہوکر اس کا مقابلہ کیا‘‘۔ 


باعث ِ افتخار ہیں وہ مظلوم جنھوں نے اپنی جانیں دے دیں لیکن اپنے ضمیر نہیں بیچے۔ لیکن افسوس کہ خاکِ وطن ہی سے کچھ ایسے بے ضمیر بھی نکل آئے، جو ظالموں کا آلۂ کار بنے اور اس وقت جب استعمار اور استبداد کے نمایندے ابناے وطن کا گلا گھونٹ رہے تھے، انھوں نے فیصلہ کیا کہ ان ظالموں کے ہاتھ مضبوط کریں گے، تاکہ وہ مظلوموں کا گلا اور بھی قوت کے ساتھ گھونٹ سکیں، آہ! 


جعفر از بنگال و صادق از دکن 
ننگِ آدم و ننگِ دیں، ننگِ وطن(۸) 


ملک کے غدار، سامراج کے وفادار 


سامراجیوں کو آخری وقت تک ’میرجعفروں‘ اور ’میرصادقوں‘ کی بِس بھری فصل ملتی رہی اور انھوں نے ملک و ملّت کے ساتھ غداری ہی نہیں کی، بلکہ اپنی اس وفادار ذُریت کو بھی زندگی کے ہرشعبے پر مسلط کرنے اور آگے بڑھانے کی منظم اور مربوط کوشش کی۔ سفاک رومی شہنشاہ نیرو [م:۶۸ء] کا صرف یہ جرم تھا کہ جب روم جل رہا تھا تو وہ بانسری بجا رہا تھا، مگر پاک و ہند کے نیرو صرف بانسری ہی نہیں بجا رہے تھے بلکہ آگ پر تیل بھی چھڑک رہے تھے اور شعلوں کے اُٹھنے اور مظلوموں کے کراہنے اور چیخنے سے جو خوف ناک منظر رُونما ہورہا تھا، اس کے ’حُسن و جمال‘ کی تعریف میں تقریریں بھی کر رہے تھے۔ دل پر جبر کرکے اپنی تاریخ کے اس سیاہ باب سے بھی چند منتشر اوراق یہاں پیش کیے جارہے ہیں، تاکہ اس طبقے کا رُخِ کردار بھی سامنے رہے۔ 


اگر ملکی غدار انگریزوں کا ساتھ نہ دیتے تو وہ ہندستان کو کبھی فتح نہ کرسکتے تھے۔ ان کو یہاں سے مخبر اور فوجی ہی نہ ملے بلکہ اعلیٰ سرکاری افسر بھی مل گئے، جنھوں نے ملک اور حکومت سے غداری کی اور وطن کے دروازے غیروں کے لیے کھول دیے۔ نواب سراج الدولہ(۹) اور فتح علی ٹیپو سلطان [۱۷۵۰ء-۴مئی ۱۷۹۹ء] کو انگریزوں کی قوت نے زیر نہیں کیا، ان کی چالاکی اور عیاری اور اپنوں کی بے وفائی اور غداری نے شکست سے دوچار کیا، اور جب حفاظت و دفاع کی یہ دونوں مضبوط فصیلیں ٹوٹ گئیں تو انگریز پورے ملک پر حکمران ہوگیا ع 


اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے 


انگریز کے پورے دورِ اقتدار میں ’سرکار پرستوں‘ کا ایک طبقہ تھا، جو استعماری حکمرانوں کے آگے پیچھے پھرتا رہا اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کے اقتدار کو مستحکم کرنے میں مصروف رہا۔ 


سامراج کے خلاف خفیہ سرگرمیوں کا آغاز ہوا، تو اپنوں نے مخبری کی۔ مولانا محمودحسن صاحب [۱۸۵۱ء-۱۹۲۰ء] کی انقلابی سرگرمیوں سے دیوبند ہی کے چند طلبہ نے انگریزی حکومت کو مطلع کیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی [۱۸۷۲ء-۱۹۴۴ء]کو جو رقوم مولانا شوکت علی [۱۸۷۳ء- ۱۹۳۸ء] نے افغانستان اور عرب دنیا میں کام کرنے کے لیے بھیجی تھیں، ان کا راز انھی کے ایک بدبخت شاگرد نے فاش کیا۔ آزادی کے حصول کی کم و بیش تمام قومی تحریکوں میں انگریزوں کے جاسوس گھسے ہوئے تھے اور ان سرفروشوں کی سرگرمیوں سے ان کو باخبر رکھتے تھے۔ پھر انگریز کی وفاداری اور اس کے راج کی ’برکات‘ کو بیان کرنے کے لیے سیکڑوں افراد نے اپنی خدمات پیش کر رکھی تھیں اور عوام کو افیون کی یہ گولی کھلائی گئی کہ: ’’مزے سے زندگی گزارو، آزادی اور غلامی کے چکّر میں پڑکر اپنی دُنیا کیوں خراب کرتے ہو؟‘‘ 


باطل نظام میں حصہ ڈالنے اور معمولی سے معمولی مناصب کے لیے بھاگ دوڑ کرنے اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خدمت اور وفاداری کا یقین دلانے کا کام بھی ایک طبقے نے انجام دیا اور اس طبقے کے لیے: خان صاحب، خان بہادر، راے بہادر، سردار بہادر اور نائٹ ہوڈ کے اعزازات وضع کیے گئے۔ اگر انگریز حاکم، اہلِ ہند کو انتظامیہ میں لینے پر مجبور ہوا تو یہی لوگ اس کے خدمت گزار بن کر سامنے آئے اور انگریز کے نمک خوار کی حیثیت سے ہمیشہ پیش پیش رہے۔ آزادی اور جمہوریت کی تحریک کو کچلنے، اس کی راہ میں روڑے اٹکانے اور لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ ’’انگریز کے راج میں ہرقسم کی آزادی ہے‘‘، اس طبقے نے وہ وہ باتیں گھڑ لیں کہ ان کو پڑھ کر آدمی شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے، مثال کے طور پر: 


٭ جب مطالبہ کیا گیا کہ ’ہندستان کی فوج کا کمانڈر ہندستانی کو ہونا چاہیے‘ تو ایک سرصاحب نے ارشاد فرمایا: ’’ہندستان میں کوئی اس کا اہل بھی ہے کہ کمانڈر انچیف ہوسکے‘‘۔ اور اسی بنیاد پر رام پور کے نواب سر رضا علی خاں(۱۰)[۱۹۰۸ء-۱۹۶۶ء] نے ۱۹۳۱ء کے کُل ہند مسلم لیگ سیشن میں حصولِ آزادی کی قرارداد کی کھل کر مخالفت بھی کی۔ 


٭ خدا بخش [۱۸۴۲ء-۱۹۰۸ء] ، سر امیر علی [۱۸۴۹ء-۱۹۲۸ء] اور سرآغا خان [۱۸۷۷ء- ۱۹۵۷ء]کی حیثیت کے لوگ بھی انگریزی اقتدار اور اس کے فوائد و برکات کے قصیدہ خواں رہے اور زیادہ سے زیادہ جو بات سوچ سکے، وہ انگریزوں کی حکومت میں کچھ مراعات کا حصول تھی۔اس سے زیادہ سوچنا ان کی نگاہ میں بغاوت تھا۔ 


٭ ریاستوں میں جمہوری اداروںکے قیام کا سوال اُٹھایا گیا تو برطانوی مقبوضہ پنجاب کے گورنر سر میلکم ہیلے [۱۸۷۲ء-۱۹۶۹ء] نے اس کا مذاق اُڑایا اور ریاستوں میں مطلق العنان حاکمیت کا دفاع کیا۔ راجوں اور مہاراجوں نے بڑا شور مچایا، کانفرنسیں کیں اور اس رجحان کی مخالفت کی تو اس موقعے پر ایک سر مرزا محمد اسماعیل [۱۸۸۳ء- ۱۹۵۹ء] نے ۲۱جون ۱۹۲۴ء کو ارشاد فرمایا: ’’مجھے ریاستوں میں غیرمعمولی اصلاحات کے مطالبے نے اچنبھے میں ڈال دیا ہے۔ تعجب ہے کہ یہاں جمہوریت کا مطالبہ کیا جارہا ہے، جب کہ پارلیمانی جمہوریت ساری دنیا میں رُوبہ زوال ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ریاست کا ضمیر اس پر مطمئن ہےکہ جو اساسی دستور یہاں رائج ہے، وہ تمام عملی مقاصد کے حصول کے لیے خاطرخواہ حدتک جمہوری ہے‘‘۔ 


٭ اور وہ اعلان تو ابھی تک بہت سے لوگوں کے کانوں میں گونج رہا ہے، جو صوبہ پنجاب کے ایک اور بڑے مشہور ، سر فیروز خان نون [۱۸۹۳ء-۱۹۷۰ء]نے خود اقوامِ متحدہ میں کیا تھا کہ: ’’ہندستان کی آزادی کا سوال مضحکہ خیزہے۔ ہم تو آزاد ہیں، اور دیکھو، مَیں ایک ہندستانی، ہندستان کے نمایندے کی حیثیت سے اس اجلاس میں شرکت کر رہا ہوں‘‘۔ 


یہ ہے وہ طبقہ، جس کا کردار برعظیم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اس نے آزادی کی جنگ کو کمزورکرنے کی ہرممکن کوشش کی۔ اس کی وجہ سے آزادی کی جدوجہد غیر ضروری طور پر طویل اور صبرآزما ہوئی۔ اس کی بنا پر انگریز اپنے اقتدار کو ایک طویل مدت تک کھینچ سکا اور اہلِ وطن پر مظالم و شدائد کے پہاڑ توڑ سکا۔ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ، جب آخرکار انگریز کا اقتدار ختم ہوتا نظر آیا اور قومی حکومتیں بننے لگیں، تو یہی طبقہ پوری بے شرمی اور عیاری کے ساتھ انھی تحریکوں میں شامل بھی ہوگیا۔ اسے اپنا مسلک بدلنے میں اتنی دیر بھی نہ لگی جتنی کوٹ بدلنے میں لگتی ہے۔ اس نے یہ سب کچھ کیا اور ضمیر کی کوئی چبھن محسوس نہ کی: 


یہ مسجد ہے، یہ میخانہ ، تعجب اس پہ آتا ہے 

جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی 


اس طبقے کے کردار پر بہترین تبصرہ خود اسی کے ایک ولیِ نعمت مسٹر لائیڈ جارج [۱۸۶۳ء-۱۹۴۵ء] سابق وزیراعظم برطانیہ [۱۹۱۶ء-۱۹۲۲ء] کا یہ جملہ ہے: 


Specimens of these changable reptiles who adopt their hue to their enviroments. 


زمین پر رینگنے والے تغیر پذیر جانوروں کی وہ طرفہ مخلوق جو ہرماحول کے مطابق اپنے رنگ بد ل لیتی ہے۔(۱۱) 


اقتدار کے سورج کو نئے محور پر گردش کرتے دیکھ کر اس طبقے نے بلاشبہہ اپنا رنگ بدل لیا۔ لیکن کیا اس کے سوچنے کا انداز،گفتگو کا طریقہ اور کام کرنے کے آداب بھی بدل گئے یا وہی پرانا ذہن باقی رہا؟ دورِ سامراج کی تربیت بڑی پختہ تھی اور جو طبقہ برطانیہ کی استعماری مشینری کا کُل پُرزہ تھا اس نے اپنا قبلہ تو ضرور بدلا مگر دل نہ بدلا۔اس میں وہی لات و منات موجود رہے اور اسی سامراجی ذہن نے اظہار کے لیے نئے نئے میدان تلاش کرلیے۔ 


یہاں پر صرف ایک مثال، پاکستان کے پہلے صدر [مارچ ۱۹۵۶ء-اکتوبر ۱۹۵۸ء] اسکندر مرزا (دیکھیے: ہمایوں مرزا، From Plassey to Pakistan، میری لینڈ، ۱۹۹۹ء)کی تقریر سے پیش کی جارہی ہے، جس سے اس طبقے کی اصل ذہنی کیفیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ یہ ہے اُس شخص کی تقریر کا اقتباس، جو ملکِ عزیز کے اہم ترین منصب ِ صدارت پر فائز رہا۔اکتوبر ۱۹۵۸ء میں جس کو اقتدار سے ہٹائے جانے پر نہ صرف یہ کہ ایک آنکھ بھی نہ روئی اور ایک زبان بھی شکوہ سنج نہ ہوئی، بلکہ پوری قوم نے اطمینان کا سانس لیا۔ اسکندر مرزا ایک فرد نہیں ایک ذہن کے ترجمان تھے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ آج کل بڑے فخر سے استعمال کی جانے والی ایک اصطلاح میں ’ایک نظریہ‘ تھے۔ ذرا یہ بھی دیکھیے کہ ان کے سوچنے کے انداز اور بولنے کے طریقے میں اور جنرل اوڈوائر کے فکروگفتار میں کتنی یک رنگی اور مماثلت پائی جاتی ہے۔ جناب اسکندر مرزا کا ارشاد (۳۱؍اکتوبر ۱۹۵۴ء) ہے: 


اس ملک کے عوام کی عظیم اکثریت جاہل اور اَن پڑھ ہے۔ ان کو سیاست سے کوئی حقیقی دل چسپی نہیں ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کبھی کبھی نہایت احمقانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، جیساکہ مشرقی پاکستان کے حالیہ انتخابات [۱۹۵۴ء] میں انھوں نے اختیار کیا۔ اور پھر جیسا ان کے منتخب نمایندوں نے دستور ساز اسمبلی میں اختیار کیا۔ اس ملک کے عوام کی اصل ضرورت مضبوط اور مستحکم حکومت ہے، اسی لیے ابھی ایک مدت تک ان کو پابند اور محدود جمہوریت (Controlled Democracy) دی جانی چاہیے۔ (روزنامہDawn، کراچی، ۳۱؍اکتوبر ۱۹۵۴ء، بحوالہ کیتھ کلارڈ، Pakistan: A Political Study، ناشر: ایلن اینڈ انون،لندن، ۱۹۵۷ء،ص۱۴۲) 


دیکھیے، وہی ذہن کس طرح کام کر رہا ہے۔ جنرل اوڈوائر کی تقریر ہٹایئے اور اسکندر مرزا کی تقریر سامنے رکھیے، کوئی فرق آپ محسو س کرتے ہیں؟ ایک ہی ذہن ایک ہی زبان ہے، ایک ہی انداز ہے، ایک ہی قسم کے وعدے ہیں اور ایک ہی طرح استحکام، مضبوط حکومت اور عوام کے مفاد کا رونا ہے ع 


انھی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں، زبان میری ہے بات اُن کی 

۶ 


سامراج کے وحشیانہ استبداداور وطن کے چند ناخلف فرزندوں کی غداری نے حالات کو اتنا ابتر اور تاریک کر دیا تھا کہ ظلم و استعمار کی اس طویل رات کے ختم ہونے کا امکان نظر نہ آتا تھا۔ لیکن اللہ کی رحمتیں ہوں اُن مجاہدوں اور جان فروشوں پر، جنھوں نے ظلمت کے ان طوفانوں میں حق پرستی اور آزادی و جمہوریت کے چراغ روشن کیے اور اپنے خون سے ان کو تابندہ تر کیا۔ چمگادڑیں تو یہ منصوبہ بناچکی تھیں کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو، لیکن روشنی و نور کے علَم بردار اپنی جانوں پر کھیل کر بھی فضا کو منور کرنے میں مصروف رہے۔بالآخر مزاحمت کی ہوائیں چلیں جو تاریک بادلوں کو اُڑا کر لے گئیں اور آفتابِ آزادی ضوفشاں ہوا۔ 


ظلم کے اندھیروں میں روشنی کے مینار 


ذرا چشمِ تصوّر سے ماضی کے تاریک دھندلکے میں دیکھیے، کیسے کیسے حسین جگنو چمکتے دکھائی دیتے ہیں اور کیسی کیسی شمعیں فضا کو منور کرنے کے لیے اپنے کو جلاتی نظر آتی ہیں: 


٭ امپریلزم کے ایجنٹ مکر و سازش کے اسلحے سے مسلح جنوب کی طرف بڑھ رہے ہیں اور سلطان حیدر علی خان [۱۷۲۰ء-۱۷۸۲ء] اور ٹیپو سلطان آہنی دیوار بن کر ان کا راستہ روک لیتے ہیں۔ آزادیِ وطن کی خاطر ہروار اپنے سینے پر برداشت کر لیتے ہیں، حتیٰ کہ یہ کہتے ہوئے آخر کار جان بھی دے دیتے ہیں کہ: ’’شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سوسال کی زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ 


٭ تحریک ِ مجاہدین کے جاں باز ملک کے گوشے گوشے سے کھنچ کر سرحدی صوبہ (موجودہ خیبرپختونخوا) میں جمع ہوتے ہیں اور دینِ حق اور آزادیِ وطن کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردیتے ہیں۔ 


٭ ۱۸۵۷ء کا معرکۂ آزادی گرم ہوتا ہے اور ہزاروں انسان آزادی کی خاطر پروانہ وار فدا ہوجاتے ہیں۔ 


٭ استعمار کے خلاف آزادی کی کھلی اور خفیہ تحریکیں اُبھرتی ہیں اور سیکڑوں نہیں ہزاروں نوجوان اس جدوجہد کی کامیابی کے لیے اپنی زندگیاں تج دیتے ہیں۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب، مولانا محمد جعفر تھانیسری[۱۸۳۸ء-۱۹۰۵ء]، مولانا سیّد حسین احمد مدنی [۱۸۷۹ء-۱۹۵۷ء] اور سیکڑوں جاں باز اس انقلابی کام کے لیے قیمتی قربانیاں دیتے ہیں۔(بحوالہ بیان سرہنری ہیگ، وزیرداخلہ اور مجلسِ قانون ساز، ۲۳جولائی ۱۹۳۴ء) 



ایسی چنگاری بھی یارب … 


مولانا محمد علی جوہر [۱۸۷۸ء-۴جنوری ۱۹۳۱ء] کی قیادت میں تحریک ِ خلافت اور تحریک ِ عدم تعاون اُٹھتی ہے تو سارے ملک میں ایک تہلکہ مچ جاتا ہے۔ اوکسفرڈ اور کیمبرج یونی ورسٹیوں کے پڑھے ہوئے نوجوان ڈاڑھیاں رکھ لیتے ہیں۔ پوری قوم انگریزی لباس ترک کر دیتی ہے، سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا بائیکاٹ کر دیتی ہے، ملازمتیں چھوڑ دیتی ہے۔ جذبۂ سرفروشی سے سرشار جوانانِ وطن جیلوں کو بھر دیتے ہیں اور اہلِ دولت اس فراخ دلی کے ساتھ ان تحریکوں کی مالی مدد کرتے ہیں کہ تقریباً ۲۰ہزار خاندانوں کی کئی سال تک مالی دست گیری کی جاتی ہے۔ ملک و قوم پر دولت نثار کرنے والوں میں ایسے بھی ہیں جو روپیہ لٹاکر لکھ پتی سے کنگال ہوگئے۔ 


٭ تحریک ِ خلافت کے روحِ رواں محمدعلی جوہر تھے لیکن ان کا کردار کیا ہے؟ مولانا محمدعلی جوہر کے سامنے ایک طرف ایک ریاست کی وزارتِ عظمیٰ کی پیش کش کا خط ہے اور دوسری طرف بھیک مانگ مانگ کر قوم کی خدمت کا سودا ___ دو دن تک خط جیب میں پڑا رہتا ہے اور بالآخر اس خط کو پھاڑ کر اخبار Comradeنکال لیا جاتا ہے۔ 


٭ مولانا جوہر، ترکی کے خلاف انگریزوں کی جنگ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس جنگ میں مسلمان فوجیوں کی شرکت کو حرام قرار دے رہے ہیں۔ اس حق گوئی پر حکومت گرفتار کرلیتی ہے۔ خالق دینا ہال، کراچی میں بغاوت کا مقدمہ چلتا ہے لیکن قوم کا عزم ملاحظہ ہو کہ مولانا کی ۶جولائی ۱۹۲۱ء والی تقریر ، جس پرستمبر۱۹۲۱ء میں سات سال کی قید سنا دی گئی۔ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۲۱ء کو ملک کے ہر گوشے میں اسی عزم کو دُہرایا جاتا ہے کہ: 


گر اِک چراغِ حقیقت کو گل کیا تم نے 
تو موجِ دود سے صد آفتاب اُبھریں گے 


٭ خلافت اور عدم تعاون کی تحریک میں لاکھوں افراد جیلوں میں جاتے ہیں اور کروڑوں روپے کی املاک ضبط کی جاتی ہیں۔ 


٭ ترکِ موالات کی تحریک اُٹھتی ہے تو ۲۰ہزار مسلمان بے سروسامانی کے عالم میں ہندستان کو چھوڑ کر افغانستان ہجرت کرتے ہیں۔ 


٭ ’رولٹ ایکٹ‘ پاس ہوتا ہے تو ملک کے گوشے گوشے سے اس کی مخالفت کا اعلان ہوتا ہے اور لوگ اپنے خون سے اس اعلانِ بغاوت پر دستخط کرتے ہیں۔ 


٭ ’سائمن کمیشن‘(۱۳) آتا ہے تو سارے ملک میں کالی جھنڈیوں سے اور ’سائمن گوبیک‘ کے نعروں سے اس کا استقبال ہوتا ہے۔(بحوالہ بیان سرہنری ہیگ، وزیرداخلہ اور مجلسِ قانون ساز، ۲۳جولائی ۱۹۳۴ء) 


ایک وہ بھی اسپیکر تھے! 


سرکار پرستوں میں سے بھی کچھ کا ضمیر جاگتا ہے، ان کو بے چین کردیتا ہے اور وہ اپنے خطابات واپس کردیتے ہیں، عہدے چھوڑ دیتے ہیں اور میدانِ عمل میں نکل آتے ہیں۔ صرف ایک مثال دیکھیے کہ مرکزی اسمبلی کے پہلے غیرسرکاری اسپیکرو ٹھل بھائی پٹیل نے ۱۹۳۰ء میں مستعفی ہوکر وائسراے کو لکھا: 


میرے ہم وطن اس وقت موت اور زندگی کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ ملک کے سیکڑوں نام وَر لوگ جیلوں میں قید ہیں۔ ہزاروں اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہیں اور لاکھوں ایسے ہیں جو اس زبردست تحریک کی خاطر زندان کی کال کوٹھڑی میں جانے کو بخوشی آمادہ ہیں۔ جہادِ حُریت کی تاریخ کے اس نازک موقعے پر میرا یہ کام نہیں کہ اسمبلی کی کرسیِ صدارت پر بیٹھا رہوں، بلکہ میرا فرض یہ ہے کہ اپنے بھائیوں کے پہلو بہ پہلو آزادیِ وطن کی جنگ میں حصہ لوں۔(دیکھیے: The Indian Annual Register 1930 ، جلداوّل، ص ۱۰۳، بحوالہ اقبال کے آخری دوسال، ص ۲۶۸) 


بھگت سنگھ [۱۹۰۷ء-۲۳ مارچ ۱۹۳۱ء] اور اس کے ساتھی سنٹرل جیل لاہور میں جس وقت مقدمے کی کارروائی کے دوران خوش الحانی کے ساتھ یہ ترانہ گاتے تھے کہ: 


سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے 

دیکھنا ہے زور کتنا بازوے قاتل میں ہے 


تو اس ترانے سے کمرئہ عدالت ہی نہیں، پوری جیل کی فضا بدل جاتی تھی۔ جوش، تہور اور ایثار و سرفروشی کی چنگاریاں سنٹرل جیل کی دیواروں کو چیر کر نوجوانوں کو آتش بجاں اور شعلۂ بداماں کر دیتی تھیں۔(۱۳) کونے کونے سے آزادی کے ترانے سنائی دیتے تھے ، کوڑے پڑتے تھے ، بَید لگتے تھے لیکن زبان سے یہی نغمے ارتعاش پیدا کرتے تھے۔ 


مَیں جیل اور گولی کے لیے تیار ہوں! 


علّامہ محمد اقبال جن کی امن پسندی اور طبیعت کی خاموشی ضرب المثل تھی، وہ بھی ان حالات میں سرفروشی کے جذبے سے اس قدر سرشار تھے کہ قائداعظم کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ذاتی طور پر مَیں ایک ایسے مسئلے کی خاطر جس کا تعلق اسلام اور ہندستان سے ہے، جیل جانے کو تیار ہوں۔ 


علّامہ اقبال دوسال سے صاحب ِ فراش تھے، سرگرم سماجی زندگی معطل تھی اورعملاً ہل جل نہیں سکتے تھے۔ لیکن مسجد شہید گنج کے واقعے پر ان کی طبیعت میں شدید بے چینی اور اشتعال تھا۔ وفات سے تین ماہ قبل ۲۶جنوری ۱۹۳۸ء کو ہائی کورٹ کے فل بنچ نے مسجد شہید گنج کی اپیل خارج کر دی تو مسلمانوں میں سخت ہیجان پیدا ہوگیا۔ اسی شام غلام رسول خاں نے ڈاکٹر محمداقبال کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ: ’’اب کیا کرنا چاہیے تو ڈاکٹرصاحب رو پڑے اور کہنے لگے: 


مجھ سے کیا پوچھتے ہو میری چارپائی کو اپنے کندھوں پر اُٹھائو اور اس طرف لے چلو جدھر مسلمان جارہے ہیں۔ اگر گولی چلی تو میں ان کے ساتھ مروں گا۔(اقبال کے آخری دوسال، ص ۵۳۵-۵۳۶) 



اندھیرا چھٹتا ہـے! 


انھی جاں فروشوں کے جہد ِ مسلسل، قربانیوں اور خون سے تحریک ِ آزادی اور تحریک ِ پاکستان کے چراغ روشن ہوئے، اور دُنیا کے نقشے پر ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان وجود میں آیا۔ خلوص اور جذبۂ قربانی کے ان چراغوں کی گرمی نے غلامی اور استبداد کی زنجیروں کو پگھلا دیا۔ ظلم کی تلوار کو حق کے لیے جاں بازی کے اخلاقی ہتھیار نے کاٹ کر رکھ دیا۔ 


ظلم و استبداد بظاہر کتنے ہی مرعوب کن کیوں نہ ہوں، بہ باطن بہت کمزور ہوتے ہیں اور اہلِ حق جب مقابلے پر ڈٹ جاتے ہیں تو اربابِ ظلم بہت جلد ہمت چھوڑ دیتے ہیں۔ آہنی حصار تارِ عنکبوت ثابت ہوتے ہیں اور بظاہر کمزور اہلِ حق کے خلوص، عزم اور قربانی کے ریلے میں اس طرح بہہ جاتے ہیں، جس طرح سیلاب میں خس و خاشاک۔ یہی فطرت کا قانون ہے، یہی اللہ کی سنت ہے، یہی تاریخ کا سبق ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو اللہ کی زمین ظلم و فساد سے بھر جائے: 


کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً م بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ O وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ O فَھَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ قف وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآئُ ط وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لا لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ O (البقرہ ۲:۲۴۹-۲۵۱) بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنےوالوں کا ساتھی ہے۔ اور جب وہ جالوت اور اُس کے لشکروں کے مقابلے پر نکلے، تو انھوں نے دُعا کی: ’’اے ہمارے ربّ! ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر‘‘۔ آخرکار اللہ کے اذن سے اُنھوں نے کافروں کو مار بھگایا اور داوٗد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے اُسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چاہا، اُس کو علم دیا___ اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑجاتا، لیکن دُنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ اس طرح دفعِ فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے)۔


استعماری حکمت اور راہ انقلاب ( 1) 



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی 


۱- برنارڈ شا نے لکھا: "Every Englishman is born with a certain miraculous power that makes him master of the world. When he wants a thing, he never tells himself that he wants it. He waits patiently until there comes into his mind, no one knows how, a burning conviction that it is his moral and religious duty to conquer those who have got the thing he wants. Then he becomes irresistible. Like the aristocrat, he does what pleases him and grabs what he wants: like the shopkeeper, he pursues his purpose with the industry and steadfastness that come from strong religious conviction and deep sense of moral responsibility. He is never at a loss for an effective moral attitude. As the great champion of freedom and national independence, he conquers and annexes half the world, and calls it Colonization. When he wants a new market for his adulterated Manchester goods, he sends a missionary to teach the natives the gospel of peace. The natives kill the missionary: he flies to arms in defense of Christianity;, fights for it,; conquers for it; and takes the market as a reward from heaven". (Democracy and its Rivals by Christopher Lloyd, Longman, London, 1943, p31). 



۲- اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر، The Indian Mussalmans l 


lThe Report of the Committee of the Central National Mohammadens Association 1885-89. l :رام گوپال Indian Muslims, A Political History. 


۳-برطانوی حکومت نے مقبوضہ ہندستان کے خاص طور پر دو علاقوں بنگال اور پنجاب میں حُریت کی تحریکوں کو کچلنے کی حکمت سازی کے لیے یہ نظریہ پیش کیا کہ: ’یہاں پر تمام بے چینی کے پیچھے جرمنی اور اشتراکی روس کے رابطے کارفرما ہیں‘۔ اس مفروضے کو ثابت کرنے اور اس کا جواب تجویز کرنے کے لیے ۱۹۱۷ء میں جسٹس سڈنی آرتھر رولٹ [۱۸۶۲ء-۱۹۴۵ء] کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ فروری ۱۹۱۹ء میں اس کمیٹی کی سفارشات Rowlatt Act کے نام سے منظور اور ۱۸مارچ کو نافذ کر دی گئیں۔ 


۴-پنڈت جواہر لعل نہرو [م: مئی ۱۹۶۴ء] نے اپنی کتاب The Discovery of India اور چودھری خلیق الزماں [۱۸۸۹ء- ۱۹۷۳ء] نے اپنی خود نوشت شاہراہِ پاکستان میں ان کی تفصیل دی ہے۔ پنڈت نہرو کے اندازے کے مطابق ایک ایک شہر سے تیس ،چالیس ہزار آدمیوں کو گرفتار کیا گیا۔ 


۵-کرنل ریجنالڈ ہیری ڈائر (۱۸۶۴ء، مری- جولائی ۱۹۲۷ء سمرسٹ) یہ گورا مری میں ’مری بریوری‘ شراب کشید کرنے والی کمپنی کے مینیجر کے ہاں پیدا ہوا۔ برطانوی فوج میں بطور افسر شامل ہوا، جسے عارضی طور پر بریگیڈیئر جنرل بنایا گیا تھا، جلیانوالہ باغ، امرتسر میں قتل عام کا ذمہ دار تھا، مگر تاجِ برطانیہ کی نگاہ میں ایک ہیرو تھا۔ اہلِ نظر کی راے ہے: ’ڈائر کے ظلم نے ہند میں برطانوی راج کے خاتمے کا آغاز کیا‘۔ تاہم، کلکتہ میں پیدا ہونے والے دوسرے انگریززادے اور مشہور ادیب ور رڈیارڈ کپلنگ (دسمبر ۱۸۶۵ء- جنوری ۱۹۳۶ء) نے ڈائر کی امداد کے لیے ۲۶ہزار پونڈ کا اعانتی فنڈ بھی قائم کیا۔ کپلنگ پہلا برطانوی تھا جسے ۱۹۰۷ء میں ’نوبیل پرائز‘ ملا۔ 


۶-یہاں ضمناً یہ بات واضح کی جاتی ہے کہ جلیانوالہ باغ میں فوج کی قیادت جنرل ڈائر نے کی تھی، جب کہ اسی زمانے میں پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر سر مائیکل اوڈوائر [۱۸۶۴ء-۱۹۴۰ء] تھا۔ یہ ظالم ترین گورنر مئی ۱۹۱۳ء سے مئی ۱۹۱۹ء تک پنجاب کا حکمران رہا۔ پنجاب میں مظالم کے خلاف مقدمات میں برطانوی عدالت نے اسے بری کر دیا۔ ازاں بعد کیکسٹن ہال، لندن میں ایک تقریب میں وہ شریک تھا تو ۱۳مارچ ۱۹۴۰ء کے روز ادھم سنگھ [پ: دسمبر ۱۸۹۹ء] کے ہاتھوں بھرے ہال میں گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ ادھم سنگھ نے اوڈوائر کو قتل کرنے کے بعد اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے اس کے مظالم کا بدلہ لیا ہے‘‘۔ ادھم سنگھ کو ۳۱جولائی ۱۹۴۰ء کے روز پھانسی دے دی گئی۔ 


۷- پہلی جنگ ِ عظیم (۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء) میں تاج برطانیہ اس بات پر خوش تھا، کہ اُس کے سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے ہندستانی غلاموں کی فوج (رائل انڈین آرمی) میں گراں قدر خدمات انجام دیتے ہوئے ۳۶ہزارفوجیوں نے جان کی قربانی دی اور ۷۰ہزار سے زائد شدید زخمی ہوئے، جب کہ یہاں کے راجوں اور نوابوں نے تاجِ برطانیہ کو ایک ارب ۵۴کروڑ روپے کا عطیہ بھی نذر کیا۔ ان خدمات کے اعتراف میں برطانوی حکومت نے برطانوی ہند کو کچھ مراعات دینے کی سبیل سوچی اور برطانوی وزیر ہند مانٹی گو اور برطانوی ہند کے گورنر جنرل چیمس فورڈ نے مجوزہ آئینی مراعات کی دستاویز تیار کیجسے برطانوی پارلیمنٹ نے ’گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۱۹ء‘ کے عنوان سے پاس کیا، اسی کو ’مانٹی گو چیمس فورڈ اصلاحات‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 


۸-میرجعفر علی خاں [۱۶۹۱ء-۱۷۶۵ء]، نواب آف بنگال سراج الدولہ [۱۷۳۳ء-۲جولائی ۱۷۵۷ء]کی فوج کا ایک سردار تھا، جو ترقی کر کے سپہ سالار بن گیا۔ اس کی نظر بنگال کی نوابی پر تھی۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے میجر جنرل رابرٹ کلائیو [م: ۲۲نومبر ۱۷۷۴ء]سے مل کر سازش کا تانا بانا بُنا، اور غداری کرتے ہوئے جنگ ِ پلاسی [جون ۱۷۵۷ء] میں سراج الدولہ کی شکست کا ذریعہ بنا۔ انگریزوں نے اس کے صلے میں جعفر کو براے نام ’نواب آف بنگال‘ بنانے کا اعلان کیا۔ یاد رہے، پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا[۱۸۹۹ء-۱۹۶۹ء] ، میرجعفر کی اولاد سے تھے (دیکھیے اسکندر مرزا کے بیٹے ہمایوں مرزا کی کتاب: From Plassey to Pakistan ، ناشر: یونی ورسٹی پریس آف امریکا،لین ہم، میری لینڈ، ۱۹۹۹ء)۔ اسی طرح دوسرا کردار میرصادق [م: ۴مئی ۱۷۹۹ء] سلطان فتح علی ٹیپو کی کابینہ میں وزیر تھا، جو سرنگا پٹم کے محاصرے کے دوران حملہ آور انگریزی فوجوںکا ساتھ دے کر سلطان ٹیپو کی شکست اور شہادت کا سبب بنا۔ وہ انگریزی فوج کو مبارک باد دینے کے لیے آگے بڑھا ہی تھا کہ اسی روز ٹیپو کے ساتھیوں نے اُسے قتل کر دیا۔ 


۹-بنگال پر برطانوی قبضے کے ابتدائی مرحلے کے بارے میں یہ کتب مفید معلومات مہیا کرتی ہیں: lبی کے گپتا، Sirajuddaulah and East India Company، لیڈن، ۱۹۶۲ء۔lآرگو پال، How the British Occupied Bengal، لندن، ۱۹۶۳ء۔ lایم آورڈ، Plassey: The Founding of an Empire، لندن، ۱۹۶۹ء lایم بینز جونز، Clive of India ، لندن ،۱۹۷۴ء۔ 


۱۰-بحوالہ بیان سرہنری ہیگ، وزیرداخلہ اور مجلسِ قانون ساز، ۲۳جولائی ۱۹۳۴ء 


۱۱-ترجمے میں اصل عبارت کے لطیف طنز کو منتقل کرنا مشکل ہے، اس لیے کہ reptile کے ایک معنی تو ’رینگنے والے جانور ‘ ہیں اور انگریزی محاورے میں اس کے دوسرے معنی، یعنی وہ ذلیل انسان ہیں، جو ہاں میں ہاں ملاتے ہوں۔ اسی لیے خوشامدی اخبارات و جرائد کو reptile pressکہا جاتا ہے۔ لائیڈ جارج نے یہاں پر enviroments (جمع) کو ہر’ماحول‘ سے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جمع کے صیغے نے اس میں جو زہرناکی پیدا کردی ہے اس پر داد نہ دینا کور ذوقی ہوگی۔ 


۱۲-اس کی کئی مثالوں میں سے ایک مثال کا تذکرہ چودھری خلیق الزماں نے کیا ہے:’’ گاندھی جی نے عمر سبحانی کے انتقال [۶جولائی۱۹۲۶ء] پر اپنے اخبار Young India میں لکھا: [۳۶سالہ عمرسبحانی] کی موت نے ہندستان کے ایک بڑے قومی خدمت گزار کو اُٹھا لیا۔ ملک میں اپنے عظیم مالی نقصانات سے قبل کوئی ایسی تحریک نہیں تھی، جس میں انھوں نے کروڑوں کی شاہانہ امداد نہ کی ہو۔ اس کے باوجود وہ پبلک مجالس میںآنے کے خواہش مند نہ تھے بلکہ وہ اسٹیج کے پیچھے رہنا پسند کرتے تھے۔ قومی خدمت کے فنڈز ادا کرنے والوں کی فہرست میں جب ان کا نام سرورق نہ ہوسکا تو انھوں نے اپنے لیے یہی مناسب سمجھا کہ پبلک زندگی سے علیحدہ ہوجائیں۔ ان کی زندگی نوجوان دولت مندوں کے لیے ایک نمونہ ہے۔ ہم سب کو ملک سے ایسی محبت ہونی چاہیے، جیسی عمر سبحانی کو تھی۔ جو نمونہ وہ ہمارے سامنے چھوڑ گئے، خدا ہم کو توفیق دے کہ اس جذبے کو زندہ رکھ سکیں‘‘۔ (خلیق الزماں، شاہراہِ پاکستان، ص ۴۶۲-۴۶۳) 


۱۳-۱۹۲۷ء میںبرطانوی حکومت نے برطانوی مقبوضہ ہند کے لیے آئینی اصلاحات کی غرض سے ایک کمیشن سرجان سائمن [م: ۱۱جنوری ۱۹۵۴ء] کی سربراہی میں مقرر کیا۔ کمیشن کے تمام ارکان انگریز تھے، اس لیے اسے ’گورا کمیشن‘ بھی کہا گیا۔ کمیشن کے دائرۂ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے ہند میں شدید ردِعمل پایا جاتا تھا۔ اس کمیشن کی رپورٹ ۷جون ۱۹۳۰ء کو شائع ہوئی۔ 


۱۴-اقبال کے آخری دوسال، ص ۲۶۸، مذکورہ بالا شعر رام پرشاد بسمل شاہ جہاں پوری کا ہے، جو یوپی کے انقلابی نوجوان تھے، جنھیں انگریز حکومت نے پھانسی کی سزا دی تھی۔