ذہنی استعداد کیا ہے ؟

ذہنی استعداد کیا ہے ؟ 

اقبال شاہین
ذہنی اعمال کے تین پہلو یا مرحلے ہوتے ہیں۔ علم، احساسات اور ارادہ۔ نفسیات دان علم سے مراد فلسفیانہ علم نہیں لیتا بلکہ اس کا مطلب وہ علم ہوتا ہے جو انسان اپنے ذہنی افعال اور اعمال سے متعلق حاصل کرتا ہے اور اس علم کو آگاہی یا خود شناسی کہتے ہیں۔ 

 زندگی میں ہر لمحے بہت سی اشیا ہماری توجہ کے لائق ہوتی ہیں۔ وہ شخص جو بے خبر ہے، خود شناس بھی نہیں ہوگا۔ وہ اپنی زندگی میں بہت سی چیزیں دیکھتا اور باتیں سنتا ہے لیکن وہ ان پر ایک سرسری سی نظر ڈال کر گزر جاتا ہے۔ ایسے لوگ اس شخص کی مانند ہوتے ہیں جو جاگتے میں سونے کا عادی ہو۔ ان کی یہ عادت رفتہ رفتہ ان کو سست اور کاہل بنا دیتی ہے۔ دوسرے قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو کاہل تو نہیں ہوتے لیکن اتنے مستعد اور ہوشیار بھی نہیں ہوتے کہ ہر اس شے سے باخبر ہوں جو ان کی راہ میں آئے۔ مکمل شخصیت کے حامل لوگ زندگی کی کم و بیش ہر شے میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ ان کی زندگی بڑی بھرپور ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کے لیے ہم بے حد کشش محسوس کرتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا اپنے تمام مظاہر سمیت ہر شخص کے لیے ایک جیسی ہے لیکن ہر شخص اس کائنات کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھنے کا عادی ہوتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ ہماری دنیا وہی ہوتی ہے جسے ہم خود تخلیق کرتے ہیں۔ اس کے خوشگوار یا ناگوار ہونے کا انحصار ہمارے ذہنی رویہ پر ہوتا ہے ۔ ہم وہی کچھ دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہم سے زیادہ مستعد ہوتے ہیں۔ وہ زندگی میں گہری دلچسپی لیتے ہیں لیکن کچھ لوگ سست الوجود ہوتے ہیں۔ ذیل میں جو طریقہ دیا گیا ہے اس سے ہم اپنی ذہنی استعداد کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ اپنے کسی قریبی دوست کے بارے میں سوچئے۔ اس کی آنکھوں کا رنگ کیا ہے؟ وہ اپنی مانگ کس طرف نکالتا ہے؟ وہ اپنا رومال کون سی جیب میں رکھنے کا عادی ہے؟ یا وہ اپنی ٹائیوں کے لیے کون سا رنگ پسند کرتا ہے۔ اگر آپ فوراً بغیر سوچے ان چار سوالوں کا جواب درست دے دیتے ہیں تو آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو کم و بیش شعوری زندگی بسر کرر ہے ہیں۔ لیکن وہ لوگ بھی ہوں گے جو ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دے سکیں گے۔ اس کے برعکس آپ اس شخص کے مشاغل کا گہری نظر سے جائزہ لیں جو نہایت پرجوش طریقے سے اپنی زندگی بسر کر رہا ہے۔ آپ اس کے رویوں میں نمایاں فرق دیکھیں گے۔ وہ ہر شے کو گہری نظر سے دیکھنے کا عادی ہے۔ اسی طرح ایک سکول جانے والے ننھے طالب علم کو دیکھیے جو طیاروں میں گہر ی دلچسپی لیتا ہے۔ وہ اگر فاصلے سے بھی کسی طیارے کو اڑتے ہوئے دیکھے گا تو وہ آپ کو آسانی سے بتا سکتا ہے کہ یہ کون سی قسم کا جہاز ہے۔ مسافربرادر ہے یا اس کا شمار لڑاکا طیاروں میں ہوتا ہے۔ فلموں کے شوقین افراد کو فلموں اور اداکاروں سے متعلق بہت زیادہ معلومات ہوتی ہیں۔ یہ جو مختلف مشاغل کا ذکر کیا گیا ہے ان لوگوں نے اپنی اپنی دلچسپیوں کے پیش نظر اپنے اپنے شعبوں کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں۔ انہوں نے ان شعبوں سے متعلق معلومات جہاں دیکھیں وہیں سے اکٹھی کرلیں۔ اور یہ سب کچھ انہوں نے شعوری حالت میں بیدار رہ کر کیا۔ چنانچہ اب تک کی اس بحث میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی شے یا موضوع سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا سنہری اصول یہ ہے کہ اس شے یا موضوع میں بھرپور دلچسپی لی جائے۔ آپ اپنی دلچسپی سے اپنی ذہنی صلاحیت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ اس طرح علم کا حصول بھی آسان ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے بہتر اور سود مند طریقہ تو یہ ہے کہ یہ دلچسپی فوری اور فطری ہونی چاہیے۔ لیکن بعض حالتوں میں ہمیں اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو بھی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ سکول کا ایک طالب علم پنجابی گرائمر سیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے یہ بہت دشوار ہو گا کہ وہ محض گرائمر کے اصول رٹتا رہے۔ لیکن اگر وہ وارث شاہؒ، بابا بلھے شاہؒ، شاہ حسینؒ، سلطان باہوؒ اور دیگر پنجابی شعرا کی شاعری اور اس شاعری کے لوگوں پر اثرات کو اپنے ذہن میں رکھے تو یہ عمل اس طالب علم کے لیے دلچسپی پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔ اسے وہ کام جو پہلے دشوار نظر آ رہا تھا، آسان نظر آنے لگے گا۔ یا وہ طالب علم اگر پنجابی گرائمر میں دسترس اور مہارت حاصل کرنے کے لیے اپنے مستقبل کا تصور کرے کہ کیسے وہ ایک پنجابی شاعر کی حیثیت سے لوگوں کو متاثر کرسکتا ہے تو وہ اپنے کام کو اتنا بے مزہ نہیں پائے گا۔ ہم جو ذرائع بھی اختیار کریں ان میں دلچسپی بلکہ پر جوش دلچسپی کا عنصر اہمیت رکھتا ہے۔ اس طریقے کو اختیار کر کے ہم اکتا دینے والے کاموں میں بھی اپنے لیے لطف اور کیف پیدا کر سکتے ہیں اور اس طرح بے مزہ کام بھی پرلطف بن جاتا ہے۔