خلافت انسانی مفسرین کی نظر میں




وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً  قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ  قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ؀(سورہ بقرہ : 30  )

مذکورہ  آیت کی روشنی میں "تصور  خلافت "سے متعلق  مختلف  مفسرین کے  خیالات  ۔ 

 1- مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ : 
" اُوپر کے رکوع میں بندگیِ رب کی دعوت اس بنیاد پر دی گئی تھی کہ وہ تمہارا خالق ہے، پروردگار ہے، اسی کے قبضہ قدرت میں تمہاری زندگی و موت ہے، اور جس کائنات میں تم رہتے ہو، اس کا مالک و مدبّر وہی ہے، لہٰذا اس کی بندگی کے سوا تمہارے لیے اور کوئی دوسرا طریقہ صحیح نہیں ہو سکتا۔ اب اس رکوع میں وہی دعوت اس بنیاد پر دی جارہی ہے کہ اس دنیا میں تم کو خدا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے، خلیفہ ہونے کی حیثیت سے تمہارا فرض صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اس کی بندگی کرو، بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق کام کرو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اپنے ازلی دشمن شیطان کے اشاروں پر چلے، تو بدترین بغاوت کے مجرم ہو گے اور بدترین انجام دیکھو گے۔
اس سلسلے میں انسان کی حقیقت اور کائنات میں اس کی حیثیت ٹھیک ٹھیک بیان کر دی گئی ہے اور نوع انسانی کی تاریخ کا وہ باب پیش کیا گیا ہے جس کے معلوم ہونے کا کوئی دوسرا ذریعہ انسان کو میسر نہیں ہے۔ اس باب سے جو اہم نتائج حاصل ہوتے ہیں، وہ ان نتائج سے بہت زیادہ قیمتی ہیں جو زمین کی تہوں سے متفرق ہڈیاں نکال کر اور انہیں قیاس و تخمین سے ربط دے کر آدمی اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
خلیفہ : وہ جو کسی کی ملک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ خلیفہ مالک نہیں ہوتا، بلکہ اصل مالک کا نائب ہوتا ہے۔ اس کے اختیارات ذاتی نہیں ہوتے، بلکہ مالک کے عطا کردہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے منشا کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا، بلکہ اس کا کام مالک کے منشا کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ خود اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے اور تفویض کردہ اختیارات کو من مانے طریقے سے استعمال کرنے لگے، یا اصل مالک کے سوا کسی اور کو مالک تسلیم کر کے اس کے منشا کی پیروی اور اس کے احکام کی تعمیل کرنے لگے، تو یہ سب غداری اور بغاوت کے افعال ہونگے۔"

2- مولانا وحید الدین خان :
"خلیفہ کے لفظی معنی ہیں کسی کے بعد اس کی جگہ لینے والا، جانشین، وراثتی اقتدار کے زمانہ میں یہ لفظ کثرت سے حکمرانوں کے لیے استعمال ہوا جو ایک کے بعد دوسرے کی جگہ تخت پر بیٹھتے تھے۔ اس طرح استعمالی مفہوم کے لحاظ سے خلیفہ کا لفظ صاحب اقتدار کے ہم معنی ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ وہ ایک با اختیار مخلوق کی حیثیت سے زمین پر آباد ہوگا۔ فرشتوں کو اندیشہ ہوا کہ اختیار و اقتدار پا کر انسان بگڑ نہ جائے اور زمین میں خوں ریزی کرنے لگے۔ فرشتوں کا یہ اندیشہ غلط نہ تھا۔ اللہ کو بھی اس امکان کا پورا علم تھا۔ مگر اللہ کی نظر اس بات پر تھی کہ انسانوں میں اگر بہت سے لوگ آزادی پا کر بگڑیں گے تو ایک قابل لحاظ تعداد ان لوگوں کی بھی ہوگی جو آزادی اور اختیار کے باوجود اپنی حیثیت کو اور اپنے رب کے مقام کو پہچانیں گے اور کسی دباؤ کے بغیر خود اپنے ارادہ سے تسلیم و اطاعت کا طریقہ اختیار کریں گے۔ یہ دوسری قسم کے لوگ اگرچہ نسبتاً کم تعداد میں ہوں گے مگر وہ فصل کے دانوں کی طرح قیمتی ہوں گے۔ فصل  میں لکڑی اور بھس کی مقدار ہمیشہ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مگر دانے، کم ہونے کے باوجود، اتنے قیمتی ہوتے ہیں کہ ان کی خاطر لکڑی اور بھس کے ڈھیر کو بھی اگنے اور پھیلنے کا موقع دے دیا جاتا ہے ۔
اللہ نے اپنی قدرت سے آدم کی تمام ذریت کو بیک وقت ان کے سامنے کردیا۔ پھر فرشتوں سے کہا کہ دیکھو یہ ہے اولاد آدم۔ اب بتاؤ کہ ان میں کون کون اور کیسے کیسے لوگ ہیں۔ فرشتے عدم واقفیت کی وجہ سے بتا نہ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ان کے ناموں، بالفاظ دیگر شخصیتوں سے آگاہ کیا اور پھر کہا کہ فرشتوں کے سامنے ان کا تعارف کراؤ۔ جب آدم نے تعارف کرایا تو فرشتوں کو معلوم ہوا کہ آدم کی اولاد میں، فسادیوں اور برے لوگوں کے علاوہ کیسے کیسے صلحاء و متقین ہوں گے۔ انسان کا سب سے بڑا جرم، انکار رب کے بعد، زمین میں فساد کرنا اور خون بہانا ہے۔ کسی  فرد یا گروہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایسی کارروائیاں کرے جس کے نتیجہ میں زمین پر خدا کا قائم کیا ہوا فطری نظام بگڑ جائے، انسان انسان کی جان مارنے لگے۔ ایسا ہر فعل آدمی کو خدا کی رحمتوں سے محروم کردیتا ہے۔ زمین میں خد اکے بنائے ہوئے فطری نظام کا قائم رہنا اس کی اصلاح ہے اور زمین فطری نظام کو بگاڑنا اس کا فساد ۔"

3- مولانا اسحاق مدنی کشمیری :
"زمین کا اصل حکمران چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس لئے زمین کی اصلاح اور بہتری اس میں ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ ہی کا حکم اور قانون چلے، یہی خیر کی راہ، اور عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا تقاضا ہے، انسان کی حیثیت اس میں حاکم کی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے نائب اور اسکے خلیفہ کی ہے، جس کا اصل کام اور ذمہ داری خداوند قدوس کے احکام کی تنفیذ ہے اس لئے زمین کا امن اور اسکی سلامتی اس میں ہے کہ اسکے ہر گوشے میں اللہ تعالیٰ ہی کا قانون چلے اور اسی کی حکمرانی رہے، بس اگر زمین کے کسی حصے میں اللہ تعالیٰ کی حکمرانی نہ رہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ زمین کے اس حصے میں بغاوت پھوٹ پڑی ہے، اور یہ چیز پوری زمین کیلئے خطرے کا الارم ہے، والعیاذ باللہ، اور اس فساد فی الارض کا لازمی نتیجہ اور طبعی تقاضا سفک دماء یعنی خونریزی ہے کیونکہ جب خداوند قدوس کا قانون عدل وقسط باقی نہیں رہیگا تو لازماً اسکی جگہ انسانوں کی خواہشات کا تسلط، اور ان کی حکمرانی ہوگی جسکے نتیجے میں جسکی لاٹھی اسی کی بھینس والا معاملہ ہوجائیگا، اور اس صورت میں کسی بھی انسان کی جان و مال اور اسکی عزت و آبرو کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی، سو قرآن حکیم کی اصطلاح میں فساد فی الارض کا مفہوم یہ ہے کہ زمین کا نظم و نسق اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین کے بجائے من مانے اور خود ساختہ احکام و قوانین کے مطابق چلایا جائے، اور خداوند قدوس کی ہدایات و تعلیمات کے بجائے اپنی اہواء و اغراض کی پیروی کی جائے، خواہ یہ زور زبردستی اور ظلم و عدوان کی صورت میں ہو، یا کسی خود ساختہ اور من گھڑت فکر و فلسفہ کی پیروی کی صورت میں، حاکم حقیقی یعنی اللہ وحدہ لاشریک کے احکام و قوانین سے اعراض و رُوگردانی بہرحال بغاوت اور فساد فی الارض ہے، والعیاذ باللہ، اور فرشتوں نے اپنے اس اندیشے کا اظہار انسان کے خلیفہ ہونے کی بناء پر کیا، کیونکہ خلیفہ کے لفظ اور اسکے مفہوم کے اندر یہ چیز مخفی ہے کہ اسکو ایک حد تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیارات تفویض کئے جائینگے، تو فرشتوں نے محسوس کیا کہ اختیارات کو صحیح طور پر اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا کوئی آسان کام نہیں، انسان اس اختیار کو پا کر بہک سکتا ہے، اور اس بہکنے کا نتیجہ زمین میں بدامنی وفساد اور سفک دماء و خوشنودی کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے، جبکہ ہم آپکی تسبیح وتقدیس کے لئے موجود ہیں تو ایسی صورت میں اس خلیفہ کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے، اور فرشتوں کا اس سے مقصد اعتراض کرنا نہیں تھا، بلکہ اس کی حکمت اور مصلحت معلوم کرنا تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم و ارشاد پر اعتراض کرنا ان کی سرشت ہی میں نہیں، کہ ان کی فطرت وشان یَفْعَلُوْنَ مَایُؤْمَرُوْنَ کی شان ہے، یعنی یہ کہ ان کو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی طرف سے جو بھی حکم ملے ان کو پورے صدق و اخلاص کے ساتھ بجالنا ہے، خواہ کوئی بھی اور کیسا بھی حکم و ارشاد ہو،

4- ابن کثیرؒ :
خلیفہ کے فرائض اور خلافت کی نوعیت :
"امام قرطبی وغیرہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ہے تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرے، ان کے جھگڑے چکائے، مظلوب کا بدلہ ظالم سے لے، حدیں قائم کرے، برائیوں کے مرتکب لوگوں کو ڈانٹے ڈپٹے وغیرہ، وہ بڑے بڑے کام جو بغیر امام کے انجام نہیں پا سکتے۔ چونکہ یہ کام واجب ہیں اور یہ بغیر امام کے پورے نہیں ہو سکتے اور جس چپز کے بغیر واجب پورا نہ ہو وہ بھی واجب ہوجاتی ہے لہذا خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ثابت ہوا۔ امامت یا تو قرآن و حدیث کے ظاہری لفظوں سے ملے گی جیسے کہ اہل سنت کی ایک جماعت کا حضرت ابو بکر صدیق (رض) کی نسبت خیال ہے کہ ان کا نام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خلافت کے لئے لیا تھا یا قرآن و حدیث سے اس کی جانب اشارہ ہو۔ جیسے اہل سنت ہی کی دوسری جماعت کا خلیفہ اول کی بابت یہ خیال ہے کہ اشارۃً ان کا ذکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خلافت کے لئے کیا۔ یا ایک خلیفہ اپنے بعد دوسرے کو نامزد کر جائے جیسے حضرت صدیق اکبر (رض) نے حضرت عمر (رض) کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا۔ یا وہ صالح لوگوں کی ایک کمیٹی بنا کر انتخاب کا کام ان کے سپرد کر جائے جیسے کہ حضرت عمر (رض) نے کیا تھا یا اہل حل و عقد (یعنی بااثر سرداران لشکر علماء و صلحاء وغیرہ) اس کی بیعت پر اجماع کرلیں یا ان میں سے کوئی اس کی بیعت کرلے تو جمہور کے نزدیک اس کا لازم پکڑنا واجب ہوجائے گا۔ امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے واللہ العلم۔ یا کوئی شخص لوگوں کو بزور و جبر اپنی ماتحتی پر بےبس کر دے تو بھی واجب ہوجاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تاکہ پھوٹ اور اختلاف نہ پھیلے۔ امام شافعی نے صاف لفظوں میں فیصلہ کیا ہے۔ اس بیعت کے وقت گواہوں کی موجودگی کے واجب ہونے میں اختلافات ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط نہیں، بعض کہتے ہیں شرط ہے اور دو گواہ کافی ہیں۔ جبائی کہتا ہے بیعت کرنے والے اور جس کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے ان دونوں کے علاوہ چار گواہ چاہئیں۔ جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے شوریٰ کے چھ ارکان مقرر کئے تھے پھر انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) کو مختار کردیا اور آپ نے حضرت عثمان (رض) کے ہاتھ پر باقی چاروں کی موجودگی میں بیعت کی لیکن اس استدلال میں اختلاف ہے۔ واللہ اعلم۔
امام کا مرد ہونا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عقلمند ہونا، مسلمان ہونا، عادل ہونا، مجتہد ہونا، آنکھوں والا ہونا، صحیح سالم اعضاء والا ہونا، فنون جنگ سے اور رائے سے خبردار ہونا، قریشی ہونا واجب ہے اور یہی صحیح ہے۔ ہاں ہاشمی ہونا اور خطا سے معصوم ہونا شرط نہیں۔ یہ دونوں شرطیں متشدد رافضی لگاتے ہیں امام اگر فاسق ہوجائے تو اسے معزول کر دینا چاہیے یا نہیں؟ اس میں اخلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ معزول نہ کیا جائے کیونکہ حدیث میں آ چکا ہے کہ جب تک ایسا کھلا کفر نہ دیکھ لو جس کے کفر ہونے کی ظاہر دلیل اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ہو، اسی طرح خود امام اپنے آپ معزول ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اس میں بھی اختلاف ہے۔ حضرت حسن بن علی (رض) خودبخود آپ ہی معزول ہوگئے تھے اور امر امامت حضرت معاویہ (رض) کو سونپ دیا تھا لیکن یہ عذر کے باعث تھا جس پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔ روئے زمین پر ایک سے زیادہ امام ایک وقت میں نہیں ہو سکتے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جب تم میں اتفاق ہو اور کوئی اگر تم میں جدائی ڈالنی چاہے تو اسے قتل کر دو خواہ کوئی بھی ہو۔ جمہور کا یہی مذہب ہے اور بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جن میں سے ایک امام الحرمین ہیں۔ کرامیہ (شیعہ) کا قول ہے کہ دو اور زیادہ بھی ایک وقت میں امام ہو سکتے ہیں جیسے کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ (رض) دونوں اطاعت کے لائق تھے۔ یہ گروہ کہتا ہے کہ جب ایک وقت میں دو دو اور زیادہ نبیوں کا ہونا جائز ہے تو اماموں کا جائز ہونا جائز کیوں نہ ہو؟ نبوت کا مرتبہ تو یقینا امامت کے مرتبے سے بہت زیادہ ہے (لیکن صحیح مسلم والی حدیث آپ ابھی اوپر چڑھ چکے ہیں کہ دوسرے کو قتل کر ڈالو۔ اس لئے صحیح مذہب وہی ہے جو پہلے بیان ہوا) امام الحرمین نے استاذ ابو اسحاق سے بھی حکایت کی ہے کہ وہ دو اور زیادہ اماموں کا مقرر کرنا اس وقت جائز جانتے ہیں جب مسلمانوں کی سلطنت بہت بڑی وسیع ہو اور چاروں طرف پھیلی ہوئی ہو اور دو اماموں کے درمیان کئی ملکوں کا فاصلہ ہو۔ امام الحرمین اس میں ترود میں ہیں، خلفائے بنی عباس کا عراق میں اور خلفائے بنی فاطمہ کا مصر میں اور خاندان بنی امیہ کا مغرب میں میرے خیال سے یہی حال تھا۔ اس کی بسط و تفصیل انشاء اللہ کتاب الاحکام کی کسی مناسب جگہ ہم کریں گے۔

5- مولانا عبدالرحمن کیلانی :
 " آدم (علیہ السلام) خلیفہ کس کا ؟ یہاں علی الاطلاق خلیفہ (نائب، قائمقام) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ صراحتاً یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آدم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے یا کسی دوسری مخلوق کا۔ بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ خلیفہ چونکہ وہ شخص ہوتا ہے جو کسی کے مرنے یا عدم موجودگی کی صورت میں اس کے اختیارات سنبھالتا ہے اور اللہ تو حي لایموت اور ہمہ وقت حاضر ہے۔ لہذا آدم اللہ کے خلیفہ نہیں تھے، بلکہ جنوں کے خلیفہ تھے پھر ایک ایسی روایت بھی ملتی ہے کہ انسان کی پیدائش سے پیشتر اس زمین پر جن آباد تھے جو فتنہ فساد اور قتل و غارت کرتے رہتے تھے، تو اللہ نے فرشتوں کا لشکر بھیج کر ان جنوں کو سمندروں کی طرف دھکیل دیا اور آدم (علیہ السلام) ان کے خلیفہ ہوئے اور بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ خلافت یا نیابت کے لیے موت یا عدم موجودگی ضروری نہیں، بلکہ کوئی بااختیار ہستی اپنی موجودگی میں بھی کسی کو کچھ اختیارات تفویض کر کے اسے اپنا خلیفہ یا نائب بنا سکتی ہے کہ وہ اس کی منشا کے مطابق ان اختیارات کو استعمال کرے۔ ہمارے خیال میں دوسری رائے راجح ہے، کیونکہ اس کی تائید ایک آیت ٣٣: ٧٢ سے بھی ہوجاتی ہے، اور دنیا میں موجود سفارتی نظام سے بھی، محولہ آیت کا ترجمہ یوں ہے : ہم نے امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی اور انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا۔ اور اس بار عظیم کے اٹھانے سے ڈر گئے۔ مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ کیونکہ انسان تو انتہائی ظالم اور نادان واقع ہوا ہے (٣٣: ٧٢) اور تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے فرائض و احکام کی تعمیل اور ان کے نفاذ کا بار ہے اور اسی کا دوسرا نام نظام خلافت ہے۔

6- مفتی محمد  شفیع عثمانی :ؒ
خلافت ارض کا مسئلہ :
"زمین کا انتظام اور اس میں خدا کا قانون نافذ کرنے کے لئے اس کی طرف سے کسی نائب کا مقرر ہونا جو ان آیات سے معلوم ہوا اس سے دستور مملکت کا  اہم باب نکل آیا کہ اقتدار اعلیٰ تمام کائنات اور پوری زمین پر صرف اللہ تعالیٰ کا ہے جیسا کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات اس پر شاہد ہیں اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ (٥٧: ٦) اور لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (١٠٧: ٢) اور اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ (٥٤: ٧) وغیرہ زمین کے انتظام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نائب آتے ہیں جو باذن خداوندی زمین پر سیاست وحکومت اور بندگان خدا تعالیٰ کی تعلیم وتربیت کا کام کرتے اور احکام الہیہ کو نافذ کرتے ہیں اس خلیفہ ونائب کا تقرر بلا واسطہ خود حق تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اس میں کسی کے کسب وعمل کا کوئی دخل نہیں اسی لئے پوری امت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ نبوت کسبی چیز نہیں جس کو کوئی اپنی سعی وعمل سے حاصل کرسکے بلکہ حق تعالیٰ ہی خود اپنے علم وحکمت کے تقاضے سے خاص خاص افراد کو اس کام کے لئے چن لیتے ہیں جن کو اپنا نبی و رسول یا خلیفہ ونائب قرار دیتے ہیں قرآن حکیم نے جگہ جگہ اس کا اظہار فرمایا ہے ارشاد ہے،
اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ (٧٥: ٢٢) اللہ تعالیٰ انتخاب کرلیتا ہے فرشتوں میں سے اپنے رسول کو اور انسانوں میں سے بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے،
نیز ارشاد ہے :
اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ (١٢٤: ٦) اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتے ہیں کہ اپنی رسالت کس کو عطا فرماویں،
یہ خلیفۃ اللہ بلا واسطہ اللہ تعالیٰ سے اس کے احکام معلوم کرتے اور پھر ان کو دنیا میں نافذ کرتے ہیں یہ سلسلہ خلافت ونیابت الہیہ کا آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک ایک ہی انداز میں چلتا رہا یہاں تک کہ حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے آخری خلیفہ ہو کر بہت ہی اہم خصوصیات کے ساتھ تشریف لائے،
ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ سے قبل انبیاء خاص خاص قوموں یا ملکوں کے طرف مبعوث ہوتے تھے ان کا حلقہ حکومت اختیار انہی قوموں اور ملکوں میں محدود ہوتا تھا ابراہیم (علیہ السلام) ایک قوم کی طرف لوط (علیہ السلام) دوسری قوم کی طرف مبعوث ہوئے حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام اور ان کے درمیان آنے والے انبیاء بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے،
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زمین میں اللہ کے آخری خلیفہ ہیں اور آپ کی خصوصیات :
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پورے عالم اور اس کی دونوں قوم جنات وانسان کی طرف بھیجا گیا آپ کو اختیار واقتدار پوری دنیا کی دونوں قوموں پر حاوی فرمایا گیا قرآن کریم نے آپ کی بعثت ونبوت کے عام ہونے کا اعلان اس آیت میں فرمایا :
قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (١٥٨: ٧) آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ وہ ذات جس کے قبضہ میں ہے ملک آسمانوں اور زمین کا :
اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے تمام انبیاء علیہم السلام پر چھ چیزوں میں خاص فضیلت بخشی گئی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کو تمام عالم کا نبی رسول بنا کر بھیجا گیا،
دوسری خصوصیت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ ہے کہ پچھلے انبیاء کی خلافت ونیابت جس طرح خاص خاص ملکوں اور قوموں میں محدود ہوتی تھی اسی طرح ایک خاص زمانے کے لئے مخصوص ہوتی تھی اس کے بعد دوسرا رسول آجاتا تو پہلے رسول کی خلافت ونیابت ختم ہو کر آنے والے رسول کی خلافت قائم ہوجاتی تھی، ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق تعالیٰ نے خاتم الانبیاء بنا دیا کہ آپ کی خلافت ونیابت قیامت تک قائم رہے گی اس کا زمانہ بھی کوئی مخصوص زمانہ نہیں بلکہ جب تک زمین و آسمان قائم اور زمانہ کا وجود ہے وہ بھی قائم ہے،
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ پچھلے انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات وشریعت ایک زمانہ تک محفوظ رہتی اور چلتی تھی رفتہ رفتہ اس میں تحریفات ہوتے ہوئے وہ کالعدم ہوجاتی تھیں اس وقت کوئی دوسرا رسول اور دوسری شریعت بھیجی جاتی تھی، اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (٩: ١٥) ہم نے ہی قرآن نازل فرمایا اور ہم اس کے محافظ ہیں،  اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات وارشادات جن کو حدیث کہا جاتا ہے اس کی حفاظت کا بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاص انتظام فرما دیا کہ قیامت تک آپ کی تعلیمات اور ارشادات کو جان سے زیادہ عزیز سمجھنے والی ایک جماعت باقی رہے گی جو آپ کے علوم ومعارف اور آپ کے شرعی احکام صحیح صحیح لوگوں کو پہونچاتی رہے گی کوئی اس جماعت کو مٹا نہ سکے گا اللہ تعالیٰ کی تایئد غیبی ان کے ساتھ رہے گی،
خلاصہ یہ ہے کہ پچھلے انبیاء علیہم السلام کی کتابیں اور صحیفے سب مسخ ومحرف ہوجاتے اور بالآخر دنیا سے گم ہوجاتے یا غلط سلط باقی رہتے تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی کتاب قرآن اور آپ کی بتلائی ہوئی ہدایات حدیث سب کی سب اپنے خدوخال کے ساتھ قیامت تک موجود ومحفوظ رہیں گی اسی لئے اس زمین پر آپ کے بعد نہ کسی نئے نبی اور رسول کی ضرورت ہے نہ کسی اور خلیفۃ اللہ کی گنجائش،
چوتھی خصوصیت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ ہے کہ پچھلے انبیاء علیہم السلام کی خلافت ونیابت جو محدود وزمانہ کے لئے ہوتی تھی ہر نبی و رسول کے بعد دوسرا رسول منجانب اللہ مقرر ہوتا اور نیابت کا کام سنبھالتا تھا،
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نظام خلافت :
خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ خلافت ونیابت تا قیامت ہے اس لئے قیامت تک آپ ہی اس زمین میں خلیفۃ اللہ ہیں آپ کی وفات کے بعد نظام عالم کیلئے جو نائب ہوگا وہ خلیفۃ الرسول اور آپ کا نائب ہوگا صحیح بخاری ومسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا،
کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ہلک نبی کلفہ نبی وانہ لانی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون : بنی اسرائیل کی سیاست وحکومت ان کے انبیاء کرتے تھے ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی آجاتا اور خبردار رہو کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہاں میرے خلیفہ ہوں گے اور بہت ہوں گے،
پانچویں خصوصیت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ ہے کہ آپ کے بعد آپ کی امت کے مجموعے کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرمایا جو انبیاء علیہم السلام کا ہوتا ہے یعنی امت کے مجموعے کو معصوم قرار دے دیاکہ آپ کی پوری امت کبھی گمراہی اور غلطی پر جمع نہ ہوگی یہ پوری امت جس مسئلہ پر اجماع واتفاق کرے وہ حکم خداوندی کا مظہر سمجھا جائے گا اسی لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اسلام میں تیسری حجت اجماع امت قرار دی گئی ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے، لن تجتمع امتی علی الضلالۃ میری امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی،
اس کی مزید تفصیل اس حدیث سے معلوم ہوجاتی ہے جس میں یہ ارشاد ہے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت حق پر قائم رہے گی دنیا کتنی ہی بدل جائے حق کتنا ہی مضمحل ہوجائے مگر ایک جماعت حق کی حمایت ہمیشہ کرتی رہے گی اور انجام کار وہی غالب رہی گی،
اس سے بھی واضح ہوگیا کہ پوری امت کبھی گمراہی اور غلطی پر جمع نہ ہوگی اور جب کہ امت کا مجموعہ معصوم قرار دیا گیا تو خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتخاب بھی اسی کے سپرد کردیا گیا اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نیابت زمین اور نظم حکومت کے لئے انتخاب کا طریقہ مشروع ہوگیا یہ امت جسے خلافت کے لئے منتخب کردے وہ خلیفہ رسول کی حیثیت سے نظام عالم کا واحد ذمہ دار ہوگا اور خلیفہ سارے عالم کا ایک ہی ہوسکتا ہے ،
خلفائے راشدین کے آخری عہد تک یہ سلسلہ خلافت صحیح اصول پر چلتا رہا اور اسی لئے ان کے فیصلے صرف دینی اور ہنگامی فیصلوں کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ایک محکم دستاویز اور ایک درجہ میں امت کے لئے حجت مانے جاتے ہیں کیونکہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے متعلق فرمایا،
علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین ؛
میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفائے راشدین کی سنت کو :
خلافت راشدہ کے بعد :
خلافت راشدہ کے بعد کچھ طوائف الملوکی کا آغاز ہوا مختلف خطوں میں مختلف امیر بنائے گئے ان میں سے کوئی بھی خلیفہ کہلانے کا مستحق نہیں ہاں کسی ملک یا قوم کا امیر خاص کہا جاسکتا ہے اور جب پوری دنیا کے مسلمانوں کا اجتماع کسی ایک فرد پر متعذر ہوگیا اور ہر ملک ہر قوم کا علیٰحدہ علیحٰدہ امیر بنانے کی رسم چل گئی تو مسلمانوں نے اس کا تقرر اسی اسلامی نظریہ کے تحت جاری رکھا کہ ملک کے مسلمانوں کی اکثریت جس کو امیر منتخب کرے وہ ہی اس ملک کا امیر اور اولو الامر کہلائے قرآن مجید کے ارشاد وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ (٤٢: ٣٧)
مغربی جمہوریت اور اسلامی شورائیت میں فرق :
اسمبلیاں اسی طرز عمل کا ایک نمونہ ہیں فرق اتنا ہے کہ عام جمہوری ملکوں کی اسمبلیاں اور ان کے ممبران بالکل آزاد وخود مختار ہیں محض اپنی رائے سے جو چاہیں اچھا یا برا قانون بنا سکتے ہیں اسلامی اسمبلی اور اس کے ممبران اور منتخب کردہ امیر سب اس اصول وقانون کے پابند ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ ان کو ملا ہے اس اسمبلی یا مجلس شوریٰ کی ممبری کے لئے بھی کچھ شرائط ہیں اور جس شخص کو یہ منتخب کریں اس کے لئے بھی کچھ حدود وقیود ہیں پھر ان کی قانون سازی بھی قرآن وسنت کے بیان کردہ اصول کے دائرہ میں ہوسکتی ہے اس کے خلاف کوئی قانون بنانے کا ان کو اختیار نہیں،
آیت مذکورہ سے دستور مملکت کی چند اہم دفعات کا ثبوت :
اول یہ کہ آسمان اور زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے تنفیذ کے لئے اس کا نائب وخلیفہ اس کا رسول ہوتا ہے اور ضمنی طور پر یہ بھی واضح ہوگیا کہ خلافت الہیہ کا سلسلہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوگیا تو اب خلافت رسول کا سلسلہ اس کے قائم مقام ہوا اور اس خلیفہ کا تقرر ملت کے انتخاب سے قرار پایا۔

7- ڈاکٹر اسرار احمد ؒ
”خلیفہ درحقیقت نائب کو کہتے ہیں۔ عام طور پر لوگوں کو مغالطہ لاحق ہوتا ہے کہ خلیفہ اور جانشین کسی کی موت کے بعد مقرر ہوتا ہے‘ زندگی میں نہیں ہوتا۔ لیکن اس دنیا میں انسان کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے وائسرائے کا تصور ذہن میں رکھیے۔ ١٩٤٧ ء سے پہلے ہم انگریز کے غلام تھے۔ ہمارا اصل حاکم (بادشاہ یا ملکہ) انگلستان میں تھا‘ جبکہ دہلی میں وائسرائے ہوتا تھا۔ وائسرائے کا کام یہ تھا کہ His Majesty یا Her Majesty کی حکومت کا جو بھی حکم موصول ہو اسے بلا چون و چرا بغیر کسی تغیر اور تبدلّ کے نافذ کرے۔ البتہ وائسرائے کو اختیار حاصل تھا کہ اگر کسی معاملے میں انگلستان سے حکم نہ آئے تو وہ یہاں کے حالات کے مطابق اپنی بہترین رائے قائم کرے۔ وہ غور و فکر کرے کہ یہاں کی مصلحتیں کیا ہیں اور جو چیز بھی سلطنت کی مصلحت میں ہو اس کے مطابق فیصلہ کرے۔ بعینہٖ یہی رشتہ کائنات کے اصل حاکم اور زمین پر اس کے خلیفہ کے مابین ہے۔ کائنات کا اصل حاکم اور مالک اللہ تعالیٰ ہے‘ لیکن اس نے اپنے آپ کو غیب کے پردے میں چھپا لیا ہے۔ زمین پر انسان اس کا خلیفہ ہے۔ اب انسان کا کام یہ ہے کہ جو ہدایت اللہ کی طرف سے آ رہی ہے اس پر تو بےچون و چرا عمل کرے اور جس معاملے میں کوئی واضح ہدایت نہیں ہے وہاں غور و فکر اور سوچ بچار کرے اور استنباط و اجتہاد سے کام لیتے ہوئے جو بات روح دین سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھنے والی ہو اسے اختیار کرے۔ یہی درحقیقت رشتۂخلافت ہے جو اللہ اور انسان کے مابین ہے۔
یہ حیثیت تمام انسانوں کو دی گئی ہے اور بالقوۃ (potentially) ہر انسان اللہ کا خلیفہ ہے‘ لیکن جو اللہ کا باغی ہوجائے‘ جو خود حاکمیت کا مدعی ہوجائے تو وہ اس خلافت کے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔ اگر کسی بادشاہ کا ولی عہد اپنے باپ کی زندگی ہی میں بغاوت کر دے اور حکومت حاصل کرنا چاہے تو اب وہ واجب القتل ہے۔ اسی طرح جو لوگ بھی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کے منکر ہو کر خود حاکمیت کے مدعی ہوگئے اگرچہ وہ واجب القتل ہیں‘ لیکن دنیا میں انہیں مہلت دی گئی ہے۔ اس لیے کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ انہیں فوراً ختم نہیں کرتا۔ ازروئے الفاظ قرآنی : (وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیْنَہُمْ ط) (الشوریٰ: ١٤)’’ اور اگر ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی ایک وقت معینّ تک تمہارے رب کی طرف سے تو ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا‘‘۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک وقت معینّ تک کے لیے مہلت دی ہے لہٰذا انہیں فوری طور پر ختم نہیں کیا جاتا‘ لیکن کم از کم اتنی سزا ضرور ملتی ہے کہ اب وہ خلافت کے حق سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ گویا کہ اب دنیا میں خلافت صرف خلافت المسلمین ہوگی۔ صرف وہ شخص جو اللہ کو اپنا حاکم مطلق مانے‘ وہی خلافت کا اہل ہے۔ تو یہ چند باتیں خلافت کی اصل حقیقت کے ضمن میں یہیں پر سمجھ لیجیے۔ (وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط) ’’ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے کہا تھا فرشتوں سے کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘
(قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ ج) (وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ط) ( قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ )
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتوں کو انسان کے بارے میں یہ گمان یا یہ خیال کیسے ہوا؟ اس کے ضمن میں دو آراء ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسان کی تخلیق سے پہلے اس زمین پرّ جنات موجود تھے اور انہیں بھی اللہ نے کچھ تھوڑا سا اختیار دیا تھا اور انہوں نے یہاں فساد برپا کر رکھاتھا۔ ان ہی پر قیاس کرتے ہوئے فرشتوں نے سمجھا کہ انسان بھی زمین میں فساد مچائے گا اور خون ریزی کرے گا۔ ایک دوسری اصولی بات یہ کہی گئی ہے کہ جب خلافت کا لفظ استعمال ہوا تو فرشتے سمجھ گئے کہ انسان کو زمین میں کوئی نہ کوئی اختیار بھی ملے گا۔ جناتّ کے بارے میں خلافت کا لفظ کہیں نہیں آیا‘ یہ صرف انسان کے بارے میں آ رہا ہے۔ اور خلیفہ بالکل بےاختیار نہیں ہوتا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا جہاں واضح حکم ہے اس کا کام اس کی تنفیذ ہے اور جہاں نہیں ہے وہاں اپنے غور و فکر اور سوچ بچار کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اسے بہتر سے بہتر رائے قائم کرنا ہوتی ہے۔ ظاہر بات ہے جہاں اختیار ہوگا وہاں اس کے صحیح استعمال کا بھی امکان ہے اور غلط کا بھی۔ پولٹیکل سائنس کا تو یہ مسلمہ اصول (axiom) ہے :
"Authority tends to corrupt and absolute authority corrupts absolutely."
چنانچہ اختیار کے اندر بدعنوانی کا رجحان موجود ہے۔ اس بنا پر انہوں نے قیاس کیا کہ انسان کو زمین میں اختیار ملے گا تو یہاں فساد ہوگا‘ خون ریزی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی حکمتوں سے میں خود واقف ہوں۔ میں انسان کو خلیفہ کیوں بنا رہا ہوں‘ یہ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔
8- پیر کرم شاہ صاحب
" یہاں فرشتوں سے نہ مشورہ لیا جا رہا ہے اور نہ اذن طلب کیا جا رہا ہے بلکہ رب العزت اپنے ارادہ عالیہ سے انہیں آگاہ فرما رہا ہے۔ یہاں دو چیزیں غور طلب ہیں۔ (1) خلیفہ کسے کہتے ہیں؟ (2) انسان کو منصب خلافت کیوں تفویض کیا گیا؟ خلیف وہ ہے جو کسی کے ملک میں اس کے نائب کی حیثیت سے اس کے احکام کے مطابق عمل کرائے۔ اس منصوب کے لیے انسان کے انتخاب کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے علاوہ جتنی مخلوق ہے اس کی استعداد، علم اور اس کا دائرہ عمل محدود ہے۔ اور جس کی محدودیت کا یہ عالم ہو وہ اس ذات پاک کا خلیفہ نہیں بن سکتا جس کا علم، ارادہ، احکام اور تصرف غیر محدود ہے۔ لیکن انسان جو ابتداء میں ضعیف بھی ہے اور جہول بھی اس میں وہ پایاں نا پذیر استعداد رکھ دی گئی ہے۔ اور عقل وفہم کی وہ قوتیں ودیعت فرمادی گئی ہیں جن کے تصرفات کی حد نہیں۔ اس لئے جملہ مخلوقات سے صرف یہی ایک مخلوق ہے جو منصب خلافت کی اہلیت رکھتی ہے۔ علماء ربانیین نے اس مشت خاک میں پنہاں توانائیوں سے جیسے پردہ اٹھایا ہے اس کی گرد راہ کو بھی نفسیات انسانی کے ماہرین نہیں پہنچ سکے۔ عارف کامل اسمعیل حقی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے۔ ان فی الانسان صورۃ من عالم الشھادۃ المحسوسۃ وروحا من عالم الغیب الملکوتی غیر المحسوس سورا مستعد القبول فیض الانوار الالھیۃ فبا لتربیۃ یترقی من عالم الشھادۃ الی عالم الغیب وبسرا المتابعۃ یترقی من عالم الملکوت الی عالم الجبروت والعظموت ویشاھد بنور اللہ المستفاد من سرالمتابعۃ انوار الجمال والجلال الخ یعنی انسان مختلف عناصر سے مرکب ہے۔ اس کی صورت کا تعلق عالم محسوس سے ہے اور اس کی روح کا تعلق عالم غیب ملکوتی سے ہے۔ صورت وروح کے علاوہ اس میں ایک پوشیدہ قوت ہے جو انوار ربانی کے فیض کو قبول کرنے کی استعداد رکھتی ہے۔ اچھی تربیت سے وہ عالم محسوس سے ترقی کر کے عالم غیب تک رسائی حاصل کرتا ہے اور رسالتمآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچی پیروی سے اس پر عالم جبروت وعظموت کی راہیں کھلتی ہیں۔ وہ الٰہی نور جو اس اطاعت وپیروی کی برکت سے اسے حاصل ہوتا ہے اس سے وہ جمال وجلال کے انوارو تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے۔ فسبحان اللہ احسن الخالقین۔ انسان کو جو صرف خاک کا پتلا سمجھتے ہیں کاش اس کی حقیقت پر غور کریں تاکہ ان میں اپنے بلند مقام پر پہنچنے کی تڑپ پیدا ہو۔ یہ وہ ذرہ ہے جس کے سامنے آسمان کی رفعتیں سرنگوں ہیں اور یہ وہ قطرہ ہے جس میں سمندروں کی گہرائیاں ہیں۔

9- مولانا عبد الماجد دریابادی
(عنقریب اپنی حکومت کی تنفیذ کے لیے) اللہ اللہ ! خاک کے پتلے کا یہ شرف ومرتبہ ! اللہ کی مخلوق تو اس وقت تک بھی بےشمار تھی۔ اب ان میں انسان نامی محض ایک نئی صنف کا اضافہ نہیں ہورہا ہے۔ بلکہ اللہ کا نائب زمین پر پیدا کیا جارہا ہے ! بعض اہل تحقیق نے یہیں سے یہ نکتہ نکالا ہے کہ تخلیق تو ساری ہی موجودات کی ہوئی ہے جنات کی بھی اور ملائکہ کی بھی، جنت کی بھی اور عرش کی بھی۔ لیکن اور کسی کے بھی قصد تخلیق کے ذکر کا اہتمام قرآن مجید نے نہیں کیا ہے۔ یہ فخر صرف خلقت آدم (علیہ السلام) کے حصہ میں آیا۔ اور یہ دلیل ہے آدم (علیہ السلام) کی افضلیت واشرفیت کی۔ ولم یقل انی خالق عرشا اوجنۃ اوملکا وان قال ذلک تشریفا وتخصیصا لادم (بحر) (آیت) ’’ خلیفۃ‘‘ اسے کہتے ہیں جو کسی کی نیابت کرے، خواہ اس لئے کہ وہ موجود نہیں، یا اس لیے کہ فوت ہوچکا، یا اس لیے کہ معذور ہے اور خواہ اس ل یے کہ اس سے مسختلف کی تعظیم ظاہر ہو۔ الخلافۃ النیابۃ من الغیر اما لغیبۃ المنوب عنہ واما لموتہ واما لعجزہ واما لتشریف المستخلف (راغب) اور خلیفۃ اللہ وہ ہے جو ز مین پر اللہ کی شریعت کی حکومت قائم کرے، یخلفنی فی الحکم بین خلقی وذلک الخلیفۃ ھو ادم ومن قام مقامہ فی طاعۃ اللہ والحکم بالعدل بین خلقہ (ابن جریر، عن ابن عباس وابن مسعود (رض) خلیفۃ اللہ فی ارضہ الاقامۃ احکامہ وتنفیذ قضا یاہ (معالم) یہیں سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ انسان کو جو قوی ملیں گے وہ اس غایت ومقصود یعنی منصب خلافت الہی کے متناسب ملیں گے۔ نسل انسانی خود اپنی صلاح وفلاح کے لیے اس کی محتاج تھی اور محتاج ہے کہ اپنے کسی ہم جنس کے واسطہ سے شریعت الہی سے استفادہ کرے، اور سلسلہ نبوت اسی غرض سے قائم ہوا ہے۔ والمراد بہ ادم وکذلک کل نبی استخلفہم اللہ فی عمارۃ الارض وسیاسۃ الناس وتکمیل نفوسھم وتنفیذ امرہ فیھم (بیضاوی) واضح رہے کہ دنیا کے کسی مذہب نے بھی انسان، نوع انسان کو اس بلند مرتبہ یعنی خلافت ونیابت الہی پر نہیں رکھا ہے۔ اور خیر جاہلی مذہبوں کا تو ذکر ہی نہیں، خود یہودیت اور اس کا مسخ شدہ ضمیمہ مسیحیت دونوں اس باب میں اسلام سے کہیں پیچھے ہیں۔ بائبل میں اس موقع پر ذکر اس قدر ہے :۔’’ خداوند خدا نے زمین پر پانی نہ برسایا تھا اور آدم نہ تھا کہ زمین کی کھیتی کرے اور زمین سئے بخار اٹھتا تھا اور تمام روئے زمین کو سیراب کرتا تھا، اور خداوند خدا نے زمین کی خاک سے آدم کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا سو آدم جیتی جان ہوا‘‘ (پیدائش 2:5۔7) گویا جس طرح اور سب حیوانات پیدا ہورہے تھے، ایک ’’ جاندار‘‘ آدم بھی پیدا ہوگیا۔ اس کا کام زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ ’’ زمین کی کھیتی‘‘ کرے ! کہاں یہ اتنا طویل لیکن بےمغز، انسان کو کاشتکاری تک محدود رکھنے والا بیان، اور کہاں قرآن مجید کا باوجود شدت اختصار انسان کو مرتبہ خلافت الہی پر پہنچا دینے والا، بلند وجامع اعلان ! بعض صوفیہ نے یہیں سے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ خلافت الہی پر پہنچا دینے والا، بلند وجامع اعلان ! بعض صوفیہ نے یہیں سے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ جو ہر خاک کو شرف خلافت اس لیے عطا ہوا کہ کثافت ہی فیضان اتم کے قابل اور تحمل نورانیت کے لائق ہے۔ اور بعض عارفین کا یہ قول بھی نقل ہوا ہے کہ نور آفتاب کا فیض کامل وذاتی زمین ہی پر ہے بہ سبب اس کے کمال کثافت کے۔ اور پانی اور ہوا اور آگ پر یہ فیضان صرف صفاتی ہے، اس لیے کہ کثافت ان میں کم ہے۔ اور اجرام علویہ تو اس نورانیت کے صرف سایہ وعکس ہی سے مستفیض ہوسکتے ہیں بہ سبب اس کے کمال کثافت کے۔ اور پانی اور ہوا اور آگ پر یہ فیضان صرف صفاتی ہے ،، اس لیے کہ کثافت ان میں کم ہے۔ اور اجرام علویہ تو اس نورانیت کے صرف سایہ وعکس ہی سے مستفیض ہوسکتے ہیں بہ سبب کمال لطافت کے۔ اور آدم (علیہ السلام) کی ترکیب جسمی چونکہ خاکی عنصر سے ہوئی ہے، اور ان کے اخلاق کی عالم ملکوت سے اور ان کی روح کی عالم امرونور سے، اس لیے ان میں صلاحیت فیضان بھی غایت کمال کی قرار پائی ۔
10- مولانا امین احسن اصلاحی
عل فی الارض خلیفۃ" خلیفہ اس کو کہتے ہیں جو کسی کے بعد اس کے معاملات سر انجام دینے کے لیے اس کی جگہ لے۔ اس وجہ سے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے زمین میں کس کا خلیفہ بنانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ اپنا یا زمین میں بسنے والی کسی پیشرو مخلوق کا ؟ ایک رائے یہ ہے کہ انسان سے پہلے زمین میں جنات آباد تھے، جب انہوں نے اس میں فساد مچایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو پراگندہ و منتشر کردیا اور ان کی خلافت بنی نوع انسان کے سپرد فرمائی۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں خود اپنا خلیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ پہلی رائے اگرچہ بالکل بے بنیاد تو نہیں کہی جا سکتی لیکن قران یا تورات یا کسی قابل اعتماد حدیث میں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ انسان سے پہلے زمین میں جنات کی حکمرانی تھی، اس کی تائید میں اگر کوئی چیز پیش کی جاسکتی ہے تو اس کی حیثیت اشارہ و کنایہ سے زیادہ نہیں ہے اور محض کسی اشارہ و کنایہ پر ایک حقیقت کی بنیاد رکھ دینا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ دوسری رائے مختلف اعتبارات سے قوی معلوم ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے انسان کی فضیلت کے بہت سے پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزیں انسان کے لیے پیدا کی ہیں، فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں، نیز اس کے بارے میں فرمایا کہ جو امانت آسمان اور زمین اٹھانے سے قاصر رہے اس کو انسان نے اٹھا لیا۔ یہ ساری باتیں اس امر کے حق میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ہو۔ لیکن ان تمام دلائل کے باوجود ایک سوال اس رائے سے متعلق بھی پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ خلیفہ تو اس کو مقرر کرنے کی ضرورت پیش آیا کرتی ہے جو غائب یا غیر حاضر ہوتا ہو، خدا تو نہ کبھی غائب ہوتا ہے نہ غیر حاضر، آسمان و زمین ہر جگہ اس کی حکومت ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ پھر اس کے کسی کو خلیفہ مقرر کرنے کے کیا معنی ؟ یہ سوال ہمارے نزدیک کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلیفہ بنانے کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو زمین کے انتظام و انصرام کے معاملہ میں کچھ اختیارات دے کر یہ دیکھے گا کہ انسان ان اختیارات کو خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے یا خلافت پا کر وہ مطلق العنان بن جاتا ہے اور اپنی من مانی کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ گویا اصل حکمران کی طرف سے ایک نائب مقرر کیے جانے کی شکل ہوئی اور اس نائب کے تقرر کی ضرورت یہ نہیں تھی کہ اصل حکمران کو غائب یا غیر حاضر ہونا تھا بلکہ اس نائب کو کچھ اختیارات دے کر مقصود اس کی اطاعت و وفاداری کا امتحان کرنا تھا۔