سرد جنگ میں اسلام کا کردار
خورشید ندیم کالم نگار ، روزنامہ دنیا
مذہب اور سیاست کا ملن ،تاریخ پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟شہزادہ محمد بن سلمان کا تازہ ترین انکشاف اس سوال کا جواب فراہم کر رہا ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ‘ کے ساتھ ایک انٹر ویو میں انہوں نے بتایا کہ سرد جنگ کے دنوں میں، مغرب کے کہنے پرسعودی عرب نے تبلیغ ِاسلام کی مہم کو مہمیز دی تاکہ مسلم دنیا میں سوویت یونین کے اثرات کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔اس کے لیے مساجد اور مدارس تعمیر کیے گئے۔ایک سخت گیر تعبیرِ دین کو فروغ دیا گیا،جس کے لیے 'وہابی ازم‘ کی اصطلاح مستعمل ہے۔شہزادہ محمد اب اس تعبیر سے رجوع کرتے ہوئے،سعودی عرب کو' موڈریٹ اسلام‘ کا نمائندہ بنا نا چاہتے ہیں۔
اس انکشاف نے سرد جنگ کی یادوں کو زندہ کردیا۔سوویت یونین کے خاتمے سے پہلے، دنیا دو بڑی سیاسی قوتوں کی باہمی کشمکش کا ایندھن بن رہی تھی۔قومی ریاستوں کے قیام سے اگرچہ نو آباد یاتی دور ختم ہو چکا تھا لیکن امریکہ اور سوویت یونین باندازِ دگر اس دور کو زندہ کرنے کی کوشش میں تھے۔دنیا کومجبور کیا جا رہا تھا کہ وہ امریکی بلاک کا حصہ بنے یا سوویت یونین کی سرپرستی کو قبول کرے۔امریکہ سرمایہ داری اور سوویت یونین اشتراکیت ‘کے نمائندے تھے۔
اس تقسیم کو دائیں اور بائیں بازو سے موسوم کیا گیا۔امریکہ دایاں اور سوویت یونین بایاں بازوتھا۔یہ نظریاتی کشمکش مسلم دنیا میں بھی جاری تھی۔اشتراکیت کی ایک پُرجوش تحریک ،پاکستان کوورثے میں ملی۔یہ اس ترقی پسند تحریک کا تسلسل تھاجو متحدہ ہندوستان میں برپا تھی۔اس کے سب سے گہرے اثرات ادب اور صحافت پر تھے۔بھارت میں جواہر لال نہرو وغیرہ اس تحریک کے متاثرین میں ممتاز تر تھے۔
سرمایہ داری پاکستان میں کسی نظریاتی تحریک کے طورپر نہیں ابھری۔ہمارے مراعات یافتہ طبقے کا ایک بڑا حصہ ،اپنے شخصی اور گروہی مفادات کے لیے امریکہ سے قریب تر تھا۔دوسرے لفظوں میں سرمایہ دارانہ نظام کا قائل تھا ۔وہ اسی نظام کے تسلسل کے لیے سرگرم تھا جو بر طانیہ نے ہندوستان میں متعارف کرایا۔پاکستان بننے کے بعد ملک کی باگ ڈور اسی طبقے کے ہاتھ میں آئی۔
جب اشتراکیت پسندوں نے اپنی سوچ کے فروغ کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا اور صحافت وادب کے ساتھ تعلیمی اداروں کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا تو ان کی مزاحمت اسلام پسندوں نے کی۔یوں پاکستان میں مذہبی لوگ دائیں بازو کے نمائندہ قرار پائے۔اس دور میں یہ کہا جا تا تھا کہ دائیں بازو کو امریکہ سے امداد ملتی ہے۔کیا یہ محض اتفاق تھا کہ پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ میں برپا ہونے والی اسلامی اور اشتراکی تحریکیں ایک دوسرے سے برسرِپیکارتھیں؟مصر میں جمال عبدالناصر روس کے قریب تھے۔اخوان المسلمین اور ناصر ایک دوسرے کے خلاف محاذآرا تھے۔شام کے حافظ الاسد نے بھی اخوان پر عرصۂ حیات تنگ کیے رکھا۔وہ بھی سوویت یونین بلاک کا حصہ تھے۔صدام حسین اورحافظ الاسد کا تعلق بعث پارٹی سے تھاجو اشتراکی تھی۔
سرد جنگ کے دنوں میں، مسلم دنیا میں جو نظریاتی جنگ لڑی گئی،وہ اسلامی تحریکوں اور اشتراکیوں کے مابین لڑی گئی۔اس جنگ میں امریکہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی تحریکیںامریکہ ہی کے مفادات کی آبیاری کر رہی تھیں؟جہاں تک اس معرکہ آرائی کے نتائج کا تعلق ہے تو اس میںاشتراکیت اور سوویت یونین کو تو شکست ہوئی لیکن فتح اسلام پسند وں کے حصے میں بھی نہیں آئی۔اس جنگ کا فاتح امریکہ تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا اسلام پسندامریکہ کی جنگ لڑ رہے تھے؟
حسن البنا، سید قطب اور مو لانا مودودی جیسے صاحبانِ عزیمت کے بارے میں کم از کم میں تو یہ گمان نہیں کر سکتا۔حسن ِسیرت کے ایسے نمونے چشمِ فلک نے کم کم دیکھے ہیں۔مغرب اور سرمایہ داری پرسید قطب کی تنقیدتاریخ کا حصہ ہے۔مولانامودودی کا تحریری سرمایے میں بھی دونوں پر نقد ہے۔میرے لیے یہ باور کرناآسان نہیں کہ وہ اشتراکیت کے خلاف کسی امریکی منصوبے کا حصہ تھے۔تاہم تاریخی عمل کی شہادت یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کی قیادت عالمی قوتوں کے بڑے منصوبے کو سمجھنے سے قاصر رہی۔
سرد جنگ کے اس دور میں ،اسلامی تحریکیں سعودی عرب کے بہت قریب رہیں۔یہی وہ دور ہے جب پاکستان کی جماعت اسلامی اور سعودی عرب میں قریبی تعلق قائم ہوا۔اسی دور میں مولانا مودودی کے علمی کام کا عربی میں ترجمہ ہوا اور جماعت اسلامی عرب دنیا میں متعارف ہوئی۔سعودی عرب نے جماعت کے بہت سے منصوبوں میں معاونت کی۔مو لانا مودودی اور پروفیسر خورشیداحمد صاحب کی علمی خدمتِ اسلام پر،فیصل ایوارڈ دیا گیا۔سعودی عرب اور جماعت اسلامی کی اِس قربت کا اُس وقت خاتمہ ہوا جب امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمدنے عراق کے صدر صدام حسین کی اعلانیہ حمایت کی۔
یہ مصرمیں اخوان المسلمین پرسعودی التفات کا دور بھی ہے۔صدر ناصر کے خلاف اخوان کو سعودی عرب کی بھرپورمعاونت حاصل رہی۔ناصر کے مظالم سے اگر اخوان کے لیے کوئی جائے پناہ تھی تو وہ سعودی عرب کی سرزمین تھی ۔اسلامی تحریکوں سے سعودی عرب کی قربت کو دو ادوارمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ایک افغانستان میں سوویت یونین کے قبضے سے پہلے اور ایک اس کے بعد۔1979ء کے بعد امریکہ،سعودی عرب اور اسلامی تحریکیں جس طرح یک جان تھیں،اس کو ہم نے بچشمِ سر دیکھا۔سب کا مشترکہ ہدف سوویت یونین اور اشتراکیت تھے۔
آج منظر بدل چکا ۔امریکہ بلا شرکتِ غیرے دنیا کاحکمران ہے۔اسلامی تحریکیں اس سے مزاحم ہیں۔آج سعودی عرب اخوان کودہشت گرد تنظیموں میں شمار کرتا ہے۔ وہاں سید قطب اور مولانا مودودی کی کتب پر پابندی لگ چکی۔ امریکہ ایک بار اپنی مرضی سے مشرقِ وسطیٰ کی تشکیلِ نو کرنا چاہتا ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ اسے سعودی عرب کی اُسی طرح تائید حاصل ہے،جیسے سرد جنگ کے دنوں میں تھی۔اس مرحلے پر شہزادہ محمدکایہ انکشاف فکر انگیزہے کہ سرد جنگ کے دنوں میں ، اسلام کو مغرب کی خدمت کے لیے پیش کر دیاگیا۔
اس انکشاف کے بعد،سوویت یونین کے خلاف سعودی عرب اور اسلامی تحریکوں کی قربت کے سامنے کئی سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں۔میں ان کی نیت کے بارے میں حسنِ ظن رکھتا ہوں لیکن میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں ان کی بصیرت کے بارے میں بھی کسی اچھے گمان کااظہار کر سکوں۔اسلام کو امریکہ نے جس طرح مسلسل اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے،وہ اسلامی تحریکوں کے بے بصیرتی کی دلیل ہے۔
میرے نزدیک یہ اسلام کو سیاسی بنانے کا ایک ناگزیر نتیجہ ہے۔جب اسلام کو بھی ایک 'ازم‘ اور اقتدار کی کشمکش میں ایک فریق بنا کر پیش کیا گیا تواس کا یہی انجام ہونا تھا۔ اسلام کوداخلی اور خارجی قوتوں نے اقتدار کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔اسلام دراصل آخرت کی خبر اور انسانوں کو خدا کے حضور جواب دہی کے لیے تیار کرتا ہے۔اس کاراستہ انسانی اخلاق کا تزکیہ ہے۔یہ تزکیہ انفرادی سطح پر ہوگا اور اجتماعی سطح پر بھی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کا اصل مخاطب فرداور معاشرہ ہے۔سیاست اسلام کا بنیادی نہیں، ثانوی موضوع ہے۔اس کو بنیادی بنانے سے ریاست اسلام کا اصل مخاطب بن گئی۔یوں ترجیحات بدل گئیں۔اس کا ایک نتیجہ شہزادہ محمد کے انکشاف کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
اسلام کا دنیا میں کوئی حریف نہیں۔حریف توانسانوں کے ہوتے ہیں۔یہ روس ہو یا امریکہ،اسلام ساری دنیا کے لیے خیر کی دعوت ہے۔جو قبول کرے گا، نجات پائے گا۔اسلام دنیا کی فتح و شکست سے ماورا ہے۔اگر اسلام کو سیاسی بنانے کا چلن باقی رہا تو کبھی اسے دوسروں کے اشارے پر جہادی بنایا جائے گا اور کبھی ماڈریٹ۔ایسی کوششوں کا نتیجہ ایک ہی ہو گا۔کبھی کوئی جہاد کے پردے میں چھپا ہوگا اور کبھی ماڈریشن کے پردے میں ۔ہزاروں جانیں لٹانے کے بعد کوئی شہزادہ محمد انکشاف کرے گا کہ اسلام کو تو استعمال کیا گیا۔
اسلام وہی ہے جسے اللہ کے آخری رسول سید نا محمد ﷺ نے اپنی سند کے ساتھ بطور دین رائج کیا۔ہمیں اسلام کوآپﷺ ہی سے جاننا ہے،کسی خارجی قوت کے مطالبے پراس کی تعبیر نہیں کرنی۔
(روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت : 2اپریل 2018ء )