دین مسیحیت چھٹی صدی عیسوی میں

مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ  (1) 

مسیحی مذہب میں کبھی بھی اس درجہ تفصیل و وضاحت نہ تھی کہ جس کی روشنی میں زندگی کے مسائل سلجھائے جاسکیں یا اسکی بنیاد میں تمدّن میں تعمیر ہوسکے، یا اس کے زیر ہدایت کوئی سلطنت چل سکے، جو کچھ تھا وہ صرف حضرت مسیح ؑ کی تعلیمات کا ایک ہلکا سا خاکہ تھا جس پر توحید کے سادہ عقیدہ کا کچھ پرتو تھا، مسیحیت کا یہ امتیاز بھی اس وقت تک قائم رہا جب تک کہ یہ مذہب سینٹ پال کی دستبُرد سے بچا رہا، اس نے تو آکر رہی سہی روشنی بھی گُل کردی کیونکہ جس بت پرستانہ ماحول میں اس کی پرورش ہوئی تھی، اور جن جاہلی خرافات سے وہ نکل کر آیا تھا، اس نے مسیحیت میں ان تمام جہالتوں اور لغویات کی آمیزش کردی، اس کے بعد قسطنطین کا زمانہ آیا جس نے اپنے دور حکومت میں رہی سہی اصلیت بھی کھو دی۔

غرض یہ کہ چوتھی صدی ہی میں مسیحیت  ایک معجون مرکّب بن کر رہ گئی تھی جس میں یونانی خرافات، رومی بُت پرستی، مصری افلاطونیت (NEO-PLATONISM & MONASTICISM) اور رہبانیت کے اجزا شامل تھے، حضرت مسیح ؑ کی سادہ تعلیمات کا عنصر اس مجموعہ میں اس طرح گم ہو کر رہ گیا تھا جیسے کہ ایک قطرہ کا وجود سمندر میں گم ہوجاتا ہے، بالآخر مسیحیت چند بے جان مراسم اور بےکیف عقائد کا نام رہ گیا تھا، جو نہ روح میں گداز پیدا کرسکتے تھے، نہ عقل کی افزائش کا سبب بن سکتے تھے، نہ جذبات کو حرکت میں لا سکتے تھے، اور نہ ان میں اس کی صلاحیت تھی کہ زندگی کے اہم مسائل میں انسانی قافلہ کی رہبری کر سکیں، اور اس پر تحریف و تاویل کی مصیبت مُستزاد تھی، جسکا انجام یہ ہوا کہ بجائے اس کے کہ نصرانیت علم و فکر کے دروازے کھولتی، وہ خود علم وفکر کی راہ میں چٹان بن کر کھڑی ہو گئی اور صدیوں کے مسلسل انحطاط کے باعث محض ایکبت پرستی کا مذہب بن کر رہ گئی، سیل (SALE) جس نے انگریزی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا ہے، چھٹی صدی عیسوی کے عیسا ئیو ں کے بارے کہتا ہے "مسیحیوں نے بزرگوں اور حضرت مسیح ؑ کے مجسموں کی پرستش میں اس درجہ غلو کیا ہے کہ اس زمانہ کے رومن کیتھو لک بھی اس حد کو نہیں پہنچے (1986) SALE,S TRANSLATION P. 62) 


پھر نفس مذہب سے متعلق کلامی مباحث اُبھر آئے اور بے نتیجہ اختلافات کی شورش نے قوم کو اُلجھا دیا جس میں، ان کی ذہانتیں اور قوائے عملیہ شل ہوگئے بیشتر ان خانہ جنگیوں نے بڑے پیما نے پر خونی معرکہ کی شکل اختیار کرلی، مدارس، کلسیا اور لوگوں کے مکانات حریف کیمپ بن گئے تھے اور پورے کا پورا ملک خانہ جنگی (CIVIL WAR) کا شکار تھا، بحث یہ تھی کہ حضرت مسیح ؑ کی فطرت کیا ہے اور اس میں الٰہی اور بشری جزو کس تناسب سے ہیں؟ روم و شام کے ملکانی (MALKITE) عیسائیوں کا مذہب یہ تھا کہ حضرت مسیح ؑ کی فطرت مرکب ہے۔ اس میں ایک جزو الٰہی ہے اور ایک بشری ہےلیکن مصر کے منو فزٹ (MONOPHYSITES) عیسائیوں کا اصرار تھا کہ حضرت مسیح ؑ کی فطرت خالص الٰہی ہے اس میں ان کی فطرت بشری اس طرح فنا ہو گئی ہے،جیسے سِرکہ کا ایک قطرہ سمندر میں پڑکر اپنی ہستی کو گم کر دیتاہے، پہلا مسلک گویا حکومت کا سرکاری مسلک تھا، بازنطینی سلاطین و اہل حکومت نے اس کو عام کرنے اور پوری مملکت کا واحد مذہب بنانے میں پوری قوت صرف کی مخالفین مذہب (مبتدعین) کو سخت سزائیں دیں جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ، مگر اختلاف اور مذہبی کشاکش بڑھتی ہی رہی، دونوں فریق ایک دوسرے کو ایسا ہی خارج از مذہب اوربد دین سمجھتے تھے ، جیسے دو متضاد مذہب کے پیرو (ALFRED L BUTLER ARAB`S CONQUEST OF EGYPT AND THE LAST)  ، قیرس (CYRUS) کی نیابت مصر کے دس سال (۴۱۔۶۳۱ ؁ء) کی تاریخ وحشیانہ سزاؤں اور لرزہ خیز مظالم کی داستانوں سے لبریز ہے۔ (THIRTY YEARS OF ROMAN DOMINION P. 29-30 ۲؎ P 191-189)


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1- انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ص 24-25