مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ
اجتماعی بد نظمی اور معاشی بے چینی
روم کی مشرقی ریاست میں اجتماعی بد نظمی انتہا کو پہونچ گئی تھی، باوجود اس کے کہ عام رعایا بے شمار مصائب کا شکار تھی، ٹیکس اور محصول دوگنے چوگنے بڑھ گئے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے باشندے حکومت سے نالاں تھے، اور اپنے ملکی حکمرانوں پر بدیسی حکومتوں کوترجیح دیتے تھے، اجارہ داریاں (MONOPOLIES) اور ضبطیاں مصیبت بالائے مصیبت تھیں، ان اسباب کی بنا پر بڑے پیمانہ پر فسادات اور بغاوتیں رونما ہوئیں، چنانچہ ۵۳۲ ء کے فساد میں تین ہزار افراد دارالسطنت میں ہلاک ہوئے ( ENCYCLOPEDIA BRITANNICA CHAP JUSTIN)، اور ہر چند کہ وقت اور مصلحت کا تقاضا تھا کہ اخراجات میں کفایت شعاری سے کام لیا جاتا، لیکن لوگ اسراف اور فضول خرچی سے باز نہیں آتے تھے، اور اخلاقی گراوٹ کی جو سب سے پست سطح ہو سکتی ہے اس حد تک پہونچ چکے تھے، اور صرف ایک ہی لگن سب کے دل سے لگی تھی کہ جس طرح ممکن ہو زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنا چاہیئے، اور اس کو فیشن پرستی، عیش پسندی اور اپنی من مانی خواہشات کے پورا کرنے میں خرچ کیا جائے، انسانیت و شرافت کی بنیادیں اپنی جگہ سے ہل چکی تھیں، تہذیب و اخلاق کے سُتون اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے، نوبت یہاں تک پہونچی کہ لوگ ازدواجی زندگی پر تجرّد کی زندگی کو جیح دیتے تھے تا کہ آزادی سے انھیں کھیل کھیلنے کاموقع ملے ( THE STORY OF THE DECLINED AND FALL OF THE ROMAN EMPIRE V. 3, P 327.)، انصاف کا حال یہ تھا کہ بقول سیل SALE جس طرح اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی ہے، اور ان کی دام ٹھہرائے جاتے ہیں، اسی طرح انصاف بھی فروخت ہوتا، رشوت و خیانت کی ہمت افزائی خود قوم کی طرف سے ہوتی تھی ((SALES TRANSLATION P. 72.) گبنؔ کہتا ہے "چھٹی صدی عیسوی میں سلطنت کا زوال اور اس کی پستی انتہا پر تھی ۔ اس کی مثال اس بڑے تناور اور گھنے درخت کی تھی، جس کے سائے میں دنیا کی قومیں کبھی پناہ لیتی تھیں، اور اب اس کا صرف تنا رہ گیا ہو، جو روز بروز سوکھتا جا رہا ہو۔ ( GIBBON V. V. P. 31.)
"تاریخ عالم برائے مؤرخین" کے مصنفین لکھتے ہیں :
"بڑے بڑے شہر جن میں تیزی کے ساتھ بربادی آئی، اور پھر وہ سنبھل نہ سکے، اور نہ اس لائق ہو سکے کہ اپنی عظمتِ رفتہ کو پھر زندہ کر سکیں، وہ گواہ ہیں کہ باز نطینی حکومت اس زمانہ میں انتہائی انحطاط و تنزل کے عالم میں تھی اور یہ تنزل ٹیکس اور محصول میں زیادتی، تجارت میں پستی، زراعت سے غفلت، شہروں کی آبادی میں روز افزوں کمی کا نتیجہ تھا۔" (HISTORIAN’S HISTORY OF THE WORLD V. VII, P. 175.)
یورپ کی شمالی اور مغربی قومیں
وہ مغربی قومیں جو بالکل شمال و مغرب میں آباد تھیں، جہات و ناخواندگی کا شکار اور خونی جنگوں سے زار و نزار تھیں، وہ جنگ و جہالت کی پیدا کی ہوئی تاریکی میں ہاتھ پاؤں مار رہی تھیں، ان ممالک میں اب تک علم و تمدن کی صبح نمودار نہیں ہوئی تھی، اسلامی و عربی اندلس (Spain) اس وقت تک منّصۂ شہود پر نہیں آیا تھا کہ علم و تمدّن سے روشناس کراۓ ، نیز مصائب و حوادث نے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھولی تھیں ، غرض ہر طرح سے یہ قومیں تمدّنِ انسانی کے قافلہ کی شاہراہ سے الگ تھلگ تھیں ، بہت حد تک یہ دنیا سے بے خبر تھیں ، اور دنیا ان سے تقریباً نا آشنا تھی ، مشرق و مغرب کے ممالک میں جو انقلاب انگیز واقعات و تغیّرات پیش آ رہے تھے ، ان سے قوموں کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا، عقائد کے لحاظ سے یہ قومیں نو خیز مسیحیّت اور فرسودہ بُت پرستی کے درمیان میں تھیں، نہ دین سے متعلق ان کے پاس کوئی پیغام تھا، اور نہ سیاست کے میدان میں ان کا کوئی مقام تھا، ایچ ، جی ، ویلز (H.G.WELLS) کا بیان ہے "اس دور میں مغربی یورپ کے اندر یکجہتی اور نظام کے کوئ آثار نہ تھے (۱A SHORT HISTORY OF THE WORLD p.170)"
رابرٹ برفالٹ ROBERT BRIFAULT لکھتا ہے:-
"پانچویں صدی سے لیکر دسویں صدی تک یورپ پر گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی، اور یہ تاریکی تدریجاً زیادہ گہری اور بھیانک ہوتی جا رہی تھی، اور اس دور کی وحشت و بربریّت زمانۂ قدیم کی وحشت و بربریّت سے کئی درجہ زیادہ بڑھی چڑھی تھی، کیونکہ اس کی مثال ایک بڑے تمدُّن کی لاش کی تھی، جو سڑ گئی ہو، اس تمدُّن کے نشانات مٹ رہے تھے، اور اس پر زوال کی مہر لگ چکی تھی، وہ ممالک جہاں یہ تمدُّن برگ و بار لایا اور گزشتہ زمانے میں اپنی انتہائی ترقی کو پہنچ گیا تھا، جیسے اٹلی و فرانس، وہاں تباہی، طوائف الملوکی اور ویرانی کا دور دورہ تھا ( THE MAKING OF HUMANITY V.P. 164) "۔ (1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1- " انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر " ص 36-38